پچاس برس پہلے کی دلی
کوئی ایک سو ساٹھ برس ہوئے کہ میر تقی میرؔ زمانہ کے ہاتھوں کچھ ایسے تنگ آئے کہ دلی کو چھوڑ کر لکھنؤ پہنچے۔ مسافر کاگھر سرائے۔ کسی سرائے میں قیام کیا۔ وہاں سنا کہ رات کو کہیں مشاعرہ ہے۔ میر صاحب بھی پہنچے، لیکن کسی سے جان نہ پہچان، بالکل نووارد۔ معقول صحبت تھی، ایک طرف کو بیٹھ گئے۔ یہ آدمی پرانی وضع کے، لوگ دیکھ کر آپس میں سرگوشی اور اشارے کرنے لگے۔ یہ دیکھتے تھے اور منہ پھیرلیتے تھے۔ کسی نے پوچھا ہوگا، ’’حضرت دولت خانہ؟‘‘ کہ شمع سامنے آئی تو یہ قطعہ حسب حال غزل میں داخل کرکے پڑھا،
کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
اس کو فلک نے لوٹ کے ویران کردیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
یہ اجڑی بستی یعنی دلّی میرؔ کے زمانہ میں کچھ پہلی دفعہ نہیں لٹی اور اجڑی تھی۔ اس کے بسنے اور اجڑنے کی تاریخ کہتے ہیں، یادو یادداشت کے زمانے سے پرے فراموشی کی تاریکی میں جاکر گم ہوجاتی ہے۔ صرف اتنا معلوم ہے کہ وہ بہت پرانی بستی ہے۔ بار بار بسی اور اجڑی۔ اجڑی اور پھر آباد ہوگئی۔ لٹی اور پھر معمور تھی۔ سوگ و ماتم میں بیٹھی او رپھر سہاگ کا شاہانہ جوڑا پہنتی، ہولیاں کھیلتی اور رنگ رلیاں مناتی نظر آتی۔
میرؔ کے عہدمیں دلّی پرایسی ہی تباہی آئی ہوگی کہ میرؔصاحب جیسے دل دادگانِ دلّی بھی دلّی سے نکل کھڑے ہوئے۔ لیکن دلّی کی یہ تباہی غدر ۵۷ء کی تباہی کے مقابلہ میں یوں کہنا چاہیے کہ کوئی چیز بھی نہ تھی۔ غدر کے بعد کس کو خیال تھا کہ دلّی پھر آباد ہوگی۔ مگر یہ کچھ قسمت لے کر آئی ہے۔ چشم بددور پھر آباد ہے اور خدا کرے ہمیشہ آباد رہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت کی دلّی نہ شاہجہانی دلّی ہے نہ آخری مغلیہ عہد کی وہ دلّی جو شان و شکوہ، شوکت و عظمت سب کچھ کھوبیٹھنے کے باوجود بھی قدامت کی ایک جیتی جاگتی تصویر تھی اور کم از کم دلّی والوں کی نظر میں وہ چیز کہ غدر کو اسی برس ہونے کو آئے مگر اس کی یاد بڈھوں کے دلوں کو اب تک بے چین کردیتی ہے۔ کوئی نوجوان اگر ہمت کرکے ان سے کہتا ہے،
بھول جا خوش رہ عبث وہ سابقے مت یاد کر
دردؔیہ مذکور کیا ہے کیا یہاں تھا کیا نہ تھا
تو بڈھے اور اکثر وہ بڈھے بھی جن کو غدر سے پہلے کی دلّی کا دیکھنا بھی یاد نہیں ہے، صر ف سنی سنائی باتوں کے عاشق زار ہیں، آہ بھر کر کہتے ہیں،
ہیں یہ باتیں بھول جانے کی مگر کیونکر کوئی
بھول جائے صبح ہوتے رات کا سارا سماں
بزم کو برہم ہوئے مدت نہیں گزری بہت
اٹھ رہا ہے گل سے شمع بزم کے اب تک دھواں
انصاف سے دیکھیے تو باتیں دونوں سچی ہیں۔ ’’بھول جا‘‘ اس لیے کہ دنیا ہمیشہ یونہی بدلتی آئی ہے۔ نہ کسی حال کو قرارہوا ہے نہ ہوگا۔ پھر یاد ماضی سے فائدہ؟ خصوصاً جب اس کی داستان داستانِ غم ہوجائے۔ دلّی کا کھنڈر ہونا اور پھر نئی دلّی کا تعمیر ہونا تو کوئی نئی بات ہی نہیں ہے۔ ’’کیونکر کوئی بھول جائے۔‘‘ اس لیے بجا ہے کہ یہ اختیاری بات نہیں، اور چاہیں بھی تو اس کے لیے زمانہ چاہیے، واقعہ بھی ایسا نہیں کہ جلدی سے بھلایا جاسکے۔ صدیوں سے دلّی کی جگہ اور دلّی کی عمارتیں بدلتی چلی آتی تھیں۔ اب کی دفعہ، شہر بنانے والے، شہر کے رہنے والے، ان کا تمدن، ان کی تہذیب و شائستگی، طور و طریق، عادات واطوار، علم و ہنر، یہ، وہ، غرض ہر چیز بدلی اور ایسی بدلی گویا زمین و آسمان ہی بدل گئے۔
کہنے کو نئی دلّی کے پہلو میں جس کی عمر بیس پچیس برس سے زیادہ نہیں، پرانی دلّی اب بھی موجود ہے لیکن نہ وہ آدمی ہیں، نہ وہ صحبتیں، نہ وہ کھیل، نہ وہ تماشے، نہ وہ اٹھنا، نہ وہ بیٹھنا، نہ وہ ادب، نہ وہ قاعدے، نہ وہ مہر و محبت، نہ وہ ہمدردی و غم خواری، حد یہ کہ وہ درودیوار ہی نہیں رہے۔ پھر کیسے کہہ دیں کہ یہ وہی دلّی ہے۔ ان باتوں سے بھی قطع نظر کیجیے تو داستان پاستان جسے علمی زبان میں تاریخ کہتے ہیں، ہمیشہ سبق آموز ِعالم رہی ہے۔ قومی روایات و خصوصیات کابھولنا خود اپنی ہستی کو بھول جانے کی برابر ہے۔ اس لیے پرانی دلّی کی یاد بھی عبث نہیں۔
جن لوگوں نے غدر سے پہلے کی دلّی اور اس کی صحبتوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، وہ دنیا سے سدھار گئے۔ ان کے دیکھنے اور صحبت اٹھانے والے بھی اب تبرک ہیں۔ کوئی صورت نظرآجاتی ہے تو قدامت کو عزت وعبرت کی نگاہ سے دیکھنے والے ان کی باتوں میں کچھ ایسا مزہ پاتے ہیں کہ سنتے ہیں اور نہیں اکتاتے۔ بات بات کو یاد اور محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی لیے کچھ دنوں سے پرانی دلّی کی باتیں زبانِ قلم تک آنے لگی ہیں۔ خدا کرے یہ سعی مشکور ہو، لیکن ان تحریروں میں اگر میں غلطی نہیں کرتا تو تخئیل کارنگ اتنا گہرا ہے کہ حقیقت خیالی افسانہ ہوگئی ہے، تاہم جو کچھ ہے بہت غنیمت ہے۔ کل یہ بھی ناممکن ہوجائے گا۔
میں ۷۳ء میں پیدا ہوا۔ غدر کے آس پاس کی دلّی دیکھی بھی نہیں۔ جو کچھ سنا تھا وہ فراموشی کی نذر ہوگیا۔ تاہم کم و بیش پچاس برس کی بعض بعض باتیں یاد ہیں۔ پہلے بیس بائیس برس کی دلّی آنے جانے کی وجہ سے اور پچھلے تیس برس کی اس لیے کہ میں دہلی میں رہتا ہوں۔ اس لیے میں پچاس برس پہلے کی دلّی کا حال اِدھر اُدھر کے مناسب اضافوں کے ساتھ عرض کروں گا۔ مگر یہ خیال رکھیے کہ آدمی جو کچھ صبح سے شام تک دیکھتا ہے، رات کو گھر میں بیٹھ کر اس کو بیان کرنا چاہے تو صحیح صحیح اور پورا پورا نہیں بیان کرسکتا۔ پچاس سال کا زمانہ بڑا زمانہ ہوتاہے۔ اگر میں بھی پچاس برس پہلے کی دلّی کی پوری پوری اورصحیح تصویر کھینچ نہ سکوں تو امید ہے کہ آپ معاف فرمائیں گے۔
۱۸۸۴ء کادلی دیکھنا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مجھے خاصہ یاد ہے، تاہم میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ پہلے اور پیچھے کی باتیں ذہن و حافظہ میں باہم مخلوط نہ ہوئی ہوں گی۔ ان دنوں غدر کو پچیس چھبیس برس ہوئے تھے اور دلّی اجڑ کر پھر آباد ہوچکی تھی۔ تجارت، صنعت و حرفت سب کچھ بہتی، لیکن اس کے مسکراتے ہوئے چہرے پر غم و اندوہ اور وحشت کے آثار اب تک دکھائی دے جاتے تھے، شہر میں پھرتے، یا باہر جاتے تو بڈھے کہتے، ’’یہاں یہ تھا، وہ تھا، اور ایسا ہوا اور ویسا ہوا۔‘‘ ہم سنتے اور مکدر ہوجاتے۔ ویسے بھی دلّی اس تصویر سے مطابق نہ ہوتی تھی جو ہمارے ذہن میں تھی اور ان کے قصے کہانیوں سے بھی، جو ہم دلّی کے آس پاس کے لوگوں سے سنتے چلے آئے تھے۔
ان دنوں کا اسٹیشن جو ہم جیسے باہر سے آنے والوں کے لیے دلّی کا پھاٹک نہیں بلکہ دلّی شہر کاایک حصہ ہوتاتھا، اگرچہ دلچسپ تھا لیکن کچھ زیادہ اہم نہ تھا، نہ یہ شان ہی تھی۔ مختصر سی عمارت تھی، ریل کی طنابیں جو اب بہت بڑھ گئیں ہیں اتنی نہ تھیں۔ ای آئی آر، جی آئی پی، راجپوتانہ اورپنجاب کی لائن اور بس۔ تھرڈ کلاس کا صرف ایک مسافرخانہ تھا، وہ بھی نہایت حقیر اور چھوٹا۔ چھتیں بھی نیچی نیچی، زنانہ مردانہ سب ایک جیسے، کل چار پانچ ریلوے لائن تھیں، پلٹ فارم بھی تین چار سے زیادہ نہ تھے۔ صرف ایک پل تھا اور وہ بھی نہایت مختصر۔
مسافروں کی بھی یہ گہما گہمی نہ ہوتی تھی۔ ٹرین آکر نکل جاتی تو اسٹیشن پر سناٹا ہوجاتا تھا کہ نہ اتنا عملہ تھا، نہ اتنے قلی کام کرتے تھے۔ نہ کوئی ڈائیننگ روم تھا، نہ کوئی دوکان۔ یاد نہیں آتا کہ اسٹیشن پر میوہ بکا کرتاہو۔ گنواروں کو چھوڑ کر جواب بھی کم و بیش اسی صورت میں نظر آتے ہیں، اس عہد کے مسافروں کی صورتیں، ان کی وضع قطع کچھ اور ہی ہوتی تھی، جیسا کہ میں پھر کبھی بیان کروں گا۔ ہندو، مسلمان شریف او ربھلے گھروں کی عورتیں آتیں تو ڈولی میں یا چاردروں میں لپٹی۔ برقعے اب سے بہت کم نظر آتے تھے۔ مسافروں کے ساتھ نہ ٹرنک ہوتے تھے نہ سوٹ کیس، نہ لوہے کے نہ چمڑے کے۔
کیبن کیس اور لیدر بکس بیشتر انگریزوں کے ساتھ مخصوص تھے، یا بڑے بڑے اُمرا سے۔ پہلے پہلے متوسط درجہ تک کے لوگ گٹھریوں میں کپڑے باندھ کر سفر کو نکلتے تھے۔ یہ تکلف سمجھا جاتا کہ کپڑے پہننے کے ایک جاجم نما چھپے ہوئے کپڑے میں باندھ لیے جائیں۔ اسی کانام بقچہ تھا۔ بستر کے لیے نہ ابھی ہول ڈول تھا نہ بوغ بند۔ بستر بند ہی کم دکھائی دیتے تھے۔ بڑے آدمیوں کی سواریاں گاڑی میں چڑھتیں یا اترتیں تو قندیا جاجم کا پردہ تنتا۔ مسافروں کے گلوں میں بکثرت منی بیگ نظر آتے تھے۔ ہر کس و ناکس کے ہاتھ میں نوٹ دکھائی نہ دیتا تھا۔ جدھر دیکھیے روپیہ ہی روپیہ تھا۔
مٹی کا تیل ہندوستان میں آگیا تھا لیکن ابھی زیادہ مقبول نہیں ہوا تھا۔ اسٹیشن پر وہی یا ارنڈی کا تیل جلتا تھا۔ اس کی روشنی آج کل کی بجلی کے سامنے آدھی چوتھائی بھی نہ تھی۔ ہنڈے، گاس لیمپ اس وقت تک دلّی کے اسٹیشن پر کچھ نہ تھے۔ سارے اسٹیشن کا فرش پتھر کے کھردرے چوکوں کا تھا، جو صرف اب کسی کسی کونے میں رہ گیا ہے۔ سیمنٹ ابھی پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔ جو سیمنٹ کا کام اب دکھائی دیتا ہے، یہ سب بعد کی بنی ہوئی چیزیں ہیں۔ بجلی یہاں ۱۹۰۳ء کے قریب قریب آئی ہے، جب کہ کرزن دربار کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ اسٹیشن کی عمارت میں بھی بڑا تصرف اسی زمانہ میں ہوا۔ اور پھر ۱۱ء میں کارونیشن دربار کے لیے۔ اس کے بعد بھی تغیرات کا سلسلہ برابر جاری رہا۔ تب جاکر اسٹیشن کی یہ صورت نکلی، جو اب ہم دیکھ رہے ہیں۔
اسٹیشن سے باہر نکلتے تو جہاں اب موٹریں لاریاں اور ٹانگے دور دور تک کھڑے نظر آتے ہیں، وہاں عموماً معمولی پردہ اور بے پردہ یکے کھڑے ہوتے۔ پالکی گاڑیاں ضرور اب سے زیادہ ہوتی تھیں۔ شرفا اور متوسط درجہ کے لوگ انہیں سے کام لیتے تھے۔ فٹن، وکٹوریہ، لینڈو بھی ہوتی تھیں مگر کم کم۔ ٹانگے کو دلّی میں کوئی جانتا بھی نہ تھا۔ ٹانگہ اس وقت کی اصطلاح میں ایک قسم کی بہلی ہوتی تھی۔ جس دوپہیہ گھوڑا گاڑی کو آج کل ٹانگہ یا تانگہ کہتے ہیں، دلّی میں کرزن دربار کی یادگار ہے۔ اس کے بعد بڑھتے بڑھتے اتنا مقبول ہوا کہ اب جدھر دیکھیے وہ ہے یا موٹر۔ یہ بھی قریب قریب اسی زمانہ میں دلی آئی تھی۔ اب ٹیکسی بن کر، فلٹن، لینڈو کاکام کر رہی ہیں۔ ع آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔
۱۸۸۴ء میں دلّی کے اسٹیشن سے نکلتے ہی اکّے گاڑیوں پر نظر پڑی تھی۔ اب دیکھیے سامنے ملکہ باغ ہے۔ کیسا ہرا بھرا ہے۔ آنکھوں میں تراوت آتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں یہ ملکہ باغ ہے۔ اب ملکہ معظمہ کہاں؟ تاہم یہ کہلاتا ملکہ باغ ہی ہے۔ مگر یہ باغ نہ ملکہ معظمہ نے بنوایا نہ ان کے زمانے میں بناتھا۔
یہ باغ بہت پرانا ہے۔ شاہجہاں آباد یعنی ہماری پرانی دلّی اور یہ باغ دونوں ساتھ ساتھ عالم وجود میں آئے تھے۔ اور بھائی بہن کی طرح دونوں ساتھ ساتھ پلے اور بڑھے۔ دلّی شاہجہاں نے بسائی اور یہ باغ اس کی لاڈلی بیٹی جہاں آرا نے بنوایا۔ ان کا خطاب تھا بیگم صاحب، اس لیے دوسو برس تک یہ باغ بیگم باغ کہلایا۔
غدر کے بعد جب دلی اور ہندوستان کی باگ ڈور ملکہ معظمہ کے ہاتھ میں آئی تو اس باغ کانام ملکہ باغ ہوا۔
خدا کی قدرت دیکھیے جہاں آرا باغ بناکر مرگئی۔ کتنے ہی مغل بادشاہ ہوئے، بیگم باغ بیگم باغ ہی رہا۔
مدت ہوئی مغلوں کی بادشاہی اور ان کی یادگاریں مٹ گئیں۔ ان کے عہد کی باتیں بھول بسر گئیں مگر مغل باغوں کی یاد اب تک باقی ہے۔ مغلوں کے جانشین انگریز بھی انہیں ’’مغل گارڈن‘‘ کہتے ہیں۔
عبدالحمید نے اپنے شاہجہاں نامے میں لکھا ہے کہ شاہجہاں ایک دن گلگشت میں تھا، رنگ رنگ کا گلاب کھل رہاتھا، شاہجہاں یہ سماں دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ آصف خاں امیرالامراء ساتھ تھا۔ بادشاہ نے کہا، ’’سب رنگ کے گلاب دیکھے مگر سیاہ گلاب کبھی نظر نہ آیا۔‘‘
آصفؔ خاں نے کہا، ’’جہاں پناہ! شاید اب تک کسی کو اس کا خیال بھی نہ آیا ہوگا۔ اب جہاں پناہ نے خیال فرمایا ہے تو کیا عجب ہے سیاہ گلاب بھی پیدا ہوجائے۔‘‘ اگلی بہار کا موسم آیا تو اس باغ میں سیاہ گلاب بھی کھلا ہوا تھا۔ یہ خود آصفؔ خاں نے پیدا کیا تھا۔
لیکن ہم نے جب یہ باغ دیکھا ہے تو زمانے کی سردمہری خزاں بن کر اس کی بہار کو تاراج کرچکی تھی۔ نہ کہیں بیگم صاحبہ کا دیوان خانہ تھا، نہ حمام، نہ فوارے اور حوض اور نہ کابل وکاشغر، اور قندھار کے گل و ثمر۔ کہیں کہیں اب بھی چنپاچنبیلی، موتیا، موگرا، بیلا، جوئی، گلاب بہار، سدا بہار کے تختے، چمن، یا ان کے آثار دکھائی دیے تھے۔ سنگترے رنگترے، لیموں، کھٹے میٹھے انار، امرود اورشریفے کے کچھ درخت موجود تھے۔ آم قلمی بن کر سرولی بن چکا تھا مگر موجود تھا۔
فٹ بال، ٹینس، ہاکی، بیڈمنٹن دہلی کیا ابھی ہندوستان میں نہیں آئے تھے۔ کرکٹ کا ہندوستانیوں میں ابھی آغاز ہی تھا۔
اس باغ میں جو کلب ہیں، وہ ابھی تک انگریزوں ہی کے لیے مخصوص تھے۔ اس وقت یہ باغ محض گھاس کے تختوں کا نام تھا۔ غرض بیگم باغ کی بہار ختم ہوچکی تھی مگر باغ پھر بھی ایک حدتک باغ ہی تھا۔ اب نام ہی نام ہے اور بس۔
اب ابھی اگر کوئی چل پھر کر دیکھے تو سمجھ میں آجائے گا کہ باغ کا مغربی حصہ اور شمالی حصہ بلند ہے اور بیچ میں ایک گول قطعہ پست ہے۔ جونہر باغ میں مغرب کی طرف سے داخل ہوتی ہے، اس کی ایک شاخ بالا بالا سطح بلندی پر بہتی تھی اور دوسری تقریباً وسط ارض میں نچلے حصے کو سیراب کرتی ہوئی سائیفن کے ذریعے پھر بلندی پر پہنچ جاتی تھی۔ باغ کے اس حصے میں جہاں اب اکثر پبلک جلسے اور تقریریں ہوتی رہتی ہیں، ایک سنگِ مرمر کا بڑا حوض رکھا رہتا تھا جو ایک پتھرسے تراش کر بنایا گیا تھا اور اتنا بڑا اور ایسا بے داغ تھا کہ دیکھنے والے دیکھ کر حیران رہ جاتے تھے اور سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اتنا بڑا یہ کوہِ نور کس کان سے نکلا ہے اور کیسے یہاں تک پہنچا ہوگا۔
اکثر کی رائے یہ ہے کہ یہ حوض پہلے قلعہ میں تھا اور وہیں کے لیے بنا تھا۔ یہ بات صحیح ہو یا غلط، اتنا ضرور ہے کہ وہ اس باغ میں اجنبی اور بے میل سا معلو ہوتا تھا۔ جب بیگم باغ ملکہ باغ ہوکر پبلک باغ بنا تو یہ حوض پھر قلعے میں پہنچا دیا گیا۔ ٹاؤن ہال کی عمارت جو چاندنی چوک کی طرف واقع ہے، آئے دن زمانے کی طرح رنگ بدلتی رہتی ہے۔ بعض آدمی کہتے ہیں کہ اس عمارت کا کچھ حصہ جہاں آرابیگم کے زمانے کا ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو خدا جانے یہ عمارت کیا چیز رہی ہوگی۔ کہتے ہیں انگریزی اور مغلئی دو عملی میں یہ عمارت سرائے بن گئی تھی۔ غدر کے دوڈھائی برس کے بعد اس سرائے کی قسمت جاگی اور دہلی انسٹی ٹیوٹ کے نام سے یہ عمارت بنی۔ کچھ دنوں مرحوم ’’دلی کاکالج‘‘ بھی اس میں رہا۔ ایک عرصے تک یہ عمارت عجائب خانے کے لیے بھی استعمال ہوئی۔ جب دہلی پبلک لائبریری بنی تو دو ایک کمرے اس کو مل گئے۔
جن دنوں دلّی انسٹی ٹیوٹ کی عمارت عجائب خانہ تھی، ان ہی دنوں ایک مختصر سازُو بھی اس کے ساتھ تھا۔ جہاں آج کل بعض آنریری مجسٹریٹ صاحبان عدالت کرتے ہیں، وہاں شیروں کے پنجرے تھے۔ اس کے پاس ایک کونے میں دو ریچھ قید تھے۔ دوسری طرف ایک مختصر سا چڑیا خانہ تھا، جس میں طوطا، مینا، قمری، کبوتر اور دوچار چھوٹے چھوٹے بندر نظر آتے تھے، یہ تھی دلّی کی عجائب خانہ کی کل کائنات۔ ہاں ایک ہاتھی اور تھا مگر سچ مچ کا نہیں بلکہ پتھر کا۔
کہتے ہیں دو ہاتھی اکبرؔ یا جہانگیرؔ کے زمانے میں چتوڑیا گوالیار سے آئے اور قلعہ آگرہ میں فتح کی یادگار میں دروازے کے سامنے کھڑے کردیے گئے۔ شاہجہاں آگرے سے دہلی آیا تو ان ہاتھیوں کو بھی ساتھ لایا اور قلعہ معلیٰ میں نوبت خانہ اور دربار عام کے درمیان نصب کرادیے۔ عالمگیر کی بت شکنی کا زمانہ آیا تو اس نے انہیں اور اس کے مہابتوں کو جو فتاح اور جے مل تصور کیے جاتے تھے، تڑواکر دفن کرادیا۔ جب انگریز آئے اور قلعہ میں کہیں کہیں کھدائی ہوئی تو یہ ہاتھی نکل آئے۔ انہوں نے دونوں کے ٹکڑوں کو جوڑ جاڑ کر ایک ہاتھی بناکر کھڑا کرلیا اور ملکہ باغ میں چاندنی چوک کی طرف وہاں لاجمایا جہاں اب ملکہ معظمہ کا مجسمہ ہے۔ ملکہ معظمہ کے انتقال کے بعد جب اس جگہ ان کا مجسمہ نصب ہونے لگا تو یہ ہاتھی ٹاؤن ہال کے سامنے سے ہٹاکر پیچھے پہنچادیا گیا جہاں آج کل اکبر کے زمانے کی بنی ہوئی ایک توپ رکھی ہے۔ جب عجائب خانہ ٹاؤن ہال سے قلعہ میں گیا تو یہ ہاتھی بھی قلعہ میں پہنچا دیا گیا۔
شاہی زمانہ میں باغ کا عموماً صرف ایک حصہ بڑا دروازہ ہوتا تھا اور گرداگرد بلند دیوار یا فصیل۔ بیگم صاحب کا باغ جب ملکہ باغ بنا او رپبلک گارڈن ہوا تو باغ کی شمالی دیوار جو بالکل اسٹیشن کے مقابل تھی، ڈھاکر اس کی جگہ آہنی جنگلہ لگا دیا گیا۔ دروازے بھی کئی ہوگئے۔ دو بڑے رہے، ایک اسٹیشن کے سامنے اور دوسرا اس کے بالمقابل جنوب کی جانب، جو چاندنی چوک کی طرف کھلتا ہے۔
چاندنی چوک دلّی کا سب سے بڑا بازار تھا اور اب تک دلّی کا سب سے زیادہ شاندار بازار ہے، جو لال قلعہ کے سامنے سے شروع ہوکر فتح پوری مسجد پر ختم ہوتا ہے۔ اس وقت اس بازار میں دونوں طرف دوکانوں سے ملی ہوئی دو پٹریاں ہیں، جن پر لوگ پیدل چلتے ہیں۔ پٹریوں کے برابر برابر ہی ٹریموے دوڑتی ہے۔ بیچ میں پختہ سڑک ہے جس پر ہر قسم کی سواریاں چلتی ہیں۔ اب سے پچاس کیا، پچیس برس پہلے تک اس کا حال بالکل برعکس تھا۔ بازار کے بیچوں بیچ اچھی خاصی چوڑی نہر بہتی تھی اور نہر کے دونوں طرف تمام بازار میں دوسڑکیں تھیں۔ ایک نہر کے شمال میں اور دوسری جنوب میں۔ ممکن ہے کہ شاہجہاںؔ اور عالمگیرؔ کے زمانے میں ان میں سے ایک قلعہ کی طرف جانے والوں کے لیے مخصوص ہو اور دوسری قلعہ سے فتح پوری کی جانب آنے والوں کے لیے۔
نہر جو اس بازار کے وسط میں سے گزرتی تھی، شہر کے ساتھ ساتھ بنی تھی۔ کہتے ہیں کہ غدر کے آس پاس کے زمانہ تک اس بازار میں کھلی بہتی تھی۔ پھر انگریزوں نے اس کو اوپر سے پاٹ کر پیدلوں کے لیے پٹری کی صورت میں بدل دیا۔ نیچے پانی بہتا تھا اور اوپر چلنے والے چلتے تھے مگر جابجا دہانے یا موکھے تھے جو لوہے یا لکڑی کے تختوں سے ڈھکے رہتے تھے۔ حتی کہ انہیں کو کھول کر چھڑکاؤ کے لیے پانی لیتے اورصبح شام چاندنی چوک میں چھڑکاؤ کیا کرتے تھے۔
دمشق میں ایک چھوڑ کئی کئی نہریں تھیں اور ان کی شاخیں شہر کے محلے محلے بلکہ گھر گھر پہنچتیں اور حوضوں کو بھرتی ہوئی بہتی چلی جاتی تھیں لیکن بازار میں جہاں تک مجھے یاد ہے، کہیں دکھائی نہیں دیتیں۔ یہ کبھی دلّی ہی کی خصوصیت تھی کہ اس کے بازار بلکہ بازاروں میں نہر بہتی اور ان کے حسن کو دوبالا کرتی تھی۔ اس وقت شہر اور چاندنی چوک سے کچھ ایسی غائب یا روپوش ہوئی ہے کہ دلّی کو جو لوگ اب دیکھتے ہیں، ان کو یہ خیال بھی نہیں ہوتا کہ کبھی یہاں نہر بہتی تھی، جس نے قلعہ معلیٰ دلّی اور اس کے اطراف کو رشکِ باغ و گلزار بنارکھا تھا۔
دلّی کی طرح یہ نہر بھی تاریخی حیثیت رکھتی ہے اور شاہجہاں کی عمارتوں کی طرح اس وقت کی انجینئری کا بہترین نمونہ ہے مگر افسوس کہ سرستی کی طرح دلّی کی زمین میں مدفون ہے۔ نوجوانوں کا کیا ذکر ہے، جن کے آنکھ کھولنے سے پہلے یہ نہر غائب ہوچکی تھی۔ بوڑھے سے بوڑھے بھی اس نہر اور نہر کے حالات کو فراموش کرتے جاتے ہیں۔ حال ہی کی بات ہے کہ ایک صاحب سے، جو میرے ہم عمر ہوں گے بلکہ کچھ بڑے، خاص دلّی کے رہنے والے، ایک دن باتوں باتوں میں ان سے اس نہر کا ذکر آگیا۔ میں نے پوچھا آپ کو معلوم ہے چاندنی چونک میں جو نہر تھی، اس میں پانی کہاں سے آتا تھا؟ فرمانے لگے قلعہ سے۔ میں نے کہا کہ قلعہ میں؟ بولے جمنا سے چڑھایا جاتا تھا۔ میں نے کہا حضرت حقیقت یہ ہے۔ باور نہ کیا۔ دوسرے دن دوڑے آئے اور فرمانے لگے ہاں تو صحیح کہتا تھا۔ اس سے اندازہ کرلیجیے کہ نوجوان اور آنے والی نسلوں کا بے خبری اور حقیقت فراموشی کا کیا حال ہوگا۔ اس لیے کچھ حال اب اس نہر کا سنیے۔
کوئی سات سو برس ہوئے کہ جلال الدین خلجی صفر آباد کے قریب سے دریا جمن کاٹ کر ایک نہر اپنی شکار گاہ سفیدوں تک لایا۔ فیروز شاہ تغلق نے اس کو بڑھایا اور اس سے آبپاشی کا کام لیا۔ رفتہ رفتہ وہ نہر خراب ہوگئی تو اکبر اعظم کے زمانے میں پھر درست کی گئی۔ شاہجہاں نے دلّی بنانی شروع کی تو علی مردان خاں جو لاہور میں اس سے پہلے نہر لاچکا تھا، مامور ہوا کہ دلّی میں بھی نہر لائے۔ محمد شاہؔ کے زمانے تک پھر نہراز کار رفتہ ہوچلی تھی کہ سعادتؔ خاں نے اس کو پھر سنبھالا۔ اسی لیے نہر سعادت خاں کے نام سے مشہور ہوئی۔ اب بھی کہیں اس کا نام لیا جاتا ہے تو اسی نام سے۔
دلّی کے بعض آدمیوں سے سنا ہے کہ جب دلّی، قلعہ اور نہر بن کر تیار ہوئی اور شاہجہاں نے آگرہ سے یہاں آکر جشن کیا تو حکیم علوی خاں حاضر دربار نہ ہوئے اور سیاہ ماتمی کپڑے پہن کر گھر میں بیٹھ رہے۔ شاہجہاں کو اطلاع ہوئی تو گرزبردار کو بھیجا کہ ا بھی حاضر کرو۔ حکیم صاحب چاروناچار دربار پہنچے۔
شاہجہاں نے پوچھا کہ یہ کیا؟ حکیم صاحب نے دست بستہ عرض کیا صحتِ شہر کاماتم۔ یہ نہر نہیں آئی ہے بیماری آئی ہے، اسی لیے سیاہ پوش ہوا ہوں۔ بادشاہ نے فرمایا پھر پہلے کیوں نہیں کہا تھا۔ عرض کیا، احکام بادشاہی میں مداخلت کی مجال نہ تھی۔ شاہجہاں نے کچھ آزردہ ہوکر کہا پھر اب؟ عرض کیا اس کا تدارک تو ظل سبحانی سے ناممکن ہے۔ مگر کچھ تلافی اس طرح ہوسکتی ہے کہ بھنے چنے اور مرچیں زیادہ کھائی جائیں۔ لیکن شاہجہاں کے زمانے میں علوی خاں تھے کہاں۔ اگر قصہ سچا ہے تو کسی اور حکیم کا ہے اور اگر علوی خاں کے زمانہ کی بات ہے تو محمد شاہ کے دربار کا واقعہ ہوگا جب کہ سعادت خاں (بند ہونے کے بعد) دلّی میں پھر سے نہر لایا تھا۔
خیر یہ ایک جملہ معترضہ تھا۔ سلسلۂ کلام میں کہنا یہ تھا کہ شاہجہانی نہر اصل میں ایک پرانی نہر تھی مگر شاہجہاں اور اس کے انجینئروں نے یہ ایک عجیب چیز بنائی تھی۔ وہ صرف چاندنی چوک ہی میں نہیں بہتی تھی۔ شہر کے کوچہ کوچہ میں پھیلی ہوئی تھی اور حوالیٔ شہر میں الگ اور چاندنی چوک تک پہنچتے کئی شاخوں میں تقسیم ہوجاتی تھی۔ وہ دلّی کے مغربی سمت کے باغات کو سیراب کرتی ہوئی جب کابلی دروازے کے قریب پہنچی تھی تو جہاں اب بھولو شاہ کا تکیہ ہے، وہاں سے اس کی ایک شاخ تیس ہزاری کی طرف نکل جاتی تھی۔ شاہجہاں کے زمانہ میں یہ جگہ سی ہزاری (باغ) کہلاتی تھی اور جہاں آرابیگم کی ملک یا جاگیر تھی۔ عالمگیر بادشاہ ہوا تو جہاں آرا کے مرنے پر اس نے یہ باغ اپنی بڑی بیٹی زیب النسا کو دیا۔ دوسری تو وہیں دفن ہوئی۔ عالمگیر کے خطوط میں اس کا ذکر موجود ہے۔ اس زمانہ کا تیس ہزاری باغ آج کل کے تیس ہزاری میدان سے بہت بڑا تھا۔
نہر کی یہ شاخ کسی وقت موری دروازے اورکشمیری دروازے کے تمام باغات کو سیراب کرتی تھی۔ جب قدسیہ باغ بناجو کبھی بہت بڑا باغ تھا اور بظاہر کئی طبقوں میں تقسیم تھا اور اسی ہزاری سے جاملتا تھا، اسی نہر سے سیراب ہوتا تھا۔ اب تک اس باغ میں وہ حوض اور نالیاں موجود ہیں جن کے ذریعہ سے پانی باغ پشت و بلند طبقات میں اِدھر اُدھر کو تقسیم ہوتا تھا۔ اب بھی کم و بیش یہ تقسیم جاری ہے اور اس طرف کے پلے گراونڈ، اسی نہر کی نالیوں سے پانی پاتے ہیں۔
نہر سعادت خاں کی یہ شاخ اگرچہ ایک بڑی شاخ تھی لیکن اصل دھار کابلی دروازہ کو گئی ہے، جنوب کی طرف مڑتی اور صدر کے پل کے نیچے سے ہوتی ہوئی اور اوکھلے کی نہر سے جاملتی تھی۔ اس میں بڑی بڑی کشتیاں چلتی تھیں اور تجارتی مال (خاص کر عمارتی لکڑیاں پہاڑ کی آئی ہوئی دلّی سے بالا بالا آگرہ) جاپہنچتا تھا۔ یہ راستہ ای آئی آر کے راستہ سے مختصر اور کفایت کا تھا۔ نہر کا یہ ٹکڑا انگریزی عہد میں بنا تھا۔ اب کوئی تیس چالیس برس سے بند ہے اور نہر خراب ہوگئی ہے۔
کابلی دروازہ سے نہر شہر میں داخل ہوتی تو سرائے احمد پائی کے عقب تک کھلی ہوئی بہتی تھی اور گرمیوں میں اس پر بڑی چہل پہل رہتی تھی۔ لوگ اس میں نہاتے دھوتے اور تیرتے تھے۔ نہر کے کنارے ہی پر مندراو رعین نہر کے اوپر مسجد تھی۔ یہ دونوں اب بھی موجود ہیں۔ بیس پچیس برس ہوئے ہوں گے کہ اس نہر کی پتلی سی دھار کو نلوں میں لے کر اس کو اوپر سے پاٹ دیا گیا ہے اور اس پر عمارتیں بن گئی ہیں۔ سینما او رہوٹل وغیرہ اسی پٹی ہوئی نہر پر کھڑے ہیں۔ سرائے احمد پائی کے عقب سے نہر کی دوشاخیں ہوجاتی تھیں۔ ایک جانب جنوب بہتی ہوئی فتح پوری مسجد میں پہنچتی تھی اور پھر دوشاخوں میں تقسیم ہوکر ایک شاخ حوض قاضی کو بھرتی اور اس طرف کی تمام دلّی کو سیراب کرتی ہوئی میرے خیال میں فیض بازارمیں آنکلتی تھی اور نہر فیض کہلاتی تھی۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ نہر فیض قلعہ سے آتی اور فیض بازار سے ہوتی ہوئی موجودہ جیل کی طرف کو نکل جاتی تھی اور اس طرف کے قدیمی باغات کو سیراب کرتی تھی۔ مگر فیض بازار قلعہ سے بلند معلوم ہوتا ہے، اس لیے میرے خیال میں نہر فیض قلعہ اور قلعہ کی خندق میں جاگرتی تھی۔ ہم ابھی کہہ چکے ہیں کہ فتح پوری مسجد سے نہر کی دوشاخیں ہوجاتی تھیں۔ ایک لال کنوئیں ہوتی ہوئی حوض قاضی کو جاتی تھی۔ دوسری چاندنی چوک کی طرف مڑتی تھی، جہاں اب گھنٹہ گھر ہے۔ اس جگہ کبھی چوک اور حوض تھا۔ حوض کو گھنٹہ گھر کیا گیا۔ چوک کے آثار اب بھی موجود ہیں۔ اسی چوک کی وجہ سے یہ بازار چاندنی چوک کہلاتا ہے۔ خود شاہجہاں نے یہ نام تجویز کیا تھا۔
چاندنی چوک کی نہر بھی شاخ درشاخ ہوکر محلوں میں پہنچتی اور بازار خام اور قلعہ کے نیچے کے باغوں اور خیابانوں کو سیراب کرتی تھی اوراس کی اصل دھار خندق میں جاگرتی تھی۔ دوسری بیگم باغ میں داخل ہوتی تھی۔ تمام باغ میں اس کی نالیاں پھیلی ہوئی تھیں اوراصل نہر بڑھتی ہوئی مورسرائے کے عقب میں، جہاں اب ریلوے کواٹر بن گئے ہیں، جانکلتی تھی اور وہاں سے کھلی بہتی ہوئی پن چکیوں پر پہنچتی تھی۔ یہ پن چکیاں قلعہ کے پاس اس جگہ تھیں، جسے آج کل سکنی پائنٹ کہتے ہیں۔ اِن پَن چکیوں کو ہم نے بھی چلتے اور آٹا پیستے دیکھا ہے۔
وہاں سے یہ نہر بڑھ کر قلعہ کے خاکریز کے قریب پہنچتی اور آبشار کی صورت میں گرتی تھی اور یہی پھیلا ہوا پانی دوحصوں میں تقسیم ہوجاتا تھا۔ ایک حصہ خندق میں گرجاتا تھا او رایک حائض کے ذریعہ سے جسے دلّی میں شُتر گلو کہتے ہیں، قلعہ میں داخل ہوتا تھا اور نہر کی صورت میں نمودار ہوکر نہر بہشت کہلاتا۔ باغِ حیات بخش وغیرہ کو سیراب کرتااور ساون بھادوں میں مینہ بن کر برستا تھا اور چونکہ قلعہ میں یہ نہر اور اس کی شاخیں کئی داخل ہوتی تھیں، قلعہ میں مختلف سمت کو پستی و بلندی پر یکساں بہتی نظر آتی تیں اور دیکھنے والوں کو محوحیرت بنادیتی تھیں۔
غدر کے بعدقلعہ میں یہ نہر اور نالیاں سب اَٹ اَٹا کر نابود ہوگئی تھیں لیکن کارونیشن دربار میں قلعہ کی صفائی ہوئی تو یہ دبی ہوئی چیزیں نکلیں اور معلوم ہوا کہ قلعہ میں نہر کا پانی کس استادی سے تقیسم ہوتا تھا۔ اس پرانی کاریگری کو حال کے انجینئر دیکھتے ہیں اور عش عش کرتے رہ جاتے ہیں۔
اب سے پچاس بس پہلے کی دلّی آج کل کی پرانی دلّی سے بہت چھوٹی، اور کئی لحاظ سے کم حیثیت تھی۔ ان دنوں سبزی منڈی، کشن گنج، باڑہ، صدر، قرول باغ، پہاڑ گنج سب پرانی دلّی کا جزو ہیں اور ان کی آبادی جو روز افرزوں ہے، دلّی ہی کی آبادی شمار ہوتی ہے۔ پہلے دلّی صرف وہی کہلاتی تھی جو فصیل کے اندر اندر آباد تھی۔ کشن گنج اور پہاڑگنج ۵۷ء سے پہلے موجود تھے اور فصیل شہر سے کچھ زیادہ دور بھی نہ تھے۔ انگریزی عہد میں امن و امان بھی پہلے سے زیادہ اور بہت زیادہ ہوچکا تھا۔ لیکن پچاس سال پہلے جہاں شام ہوئی، کسی کی ہمت نہ ہوتی تھی کہ اجمیری دروازہ کے گڑگج تک جو اب عربک کالج کے احاطہ کے اندر واقع ہے، اکیلا آکے چلا جائے۔
ہندو راؤ کے باڑے کے رہنے والے رات ہونے سے پہلے گھر پہنچنے کی کوشش کرتے تھے۔ قرول باغ میں ہوکا عالم ہوتا تھا۔ سبزی منڈی کے اطراف بھی خوف سے خالی نہ تھے۔ اب یہ تمام طول طویل آبادیاں پرانی دلّی کے دامن میں پڑی کھیلتی ہیں۔ رات کو دیکھیے تو دن کا سا اجالا ہے۔ آنے والوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ ایسی ایسی عالی شان عمارات کھڑی ہیں کہ پرانی دلّی کی پرانی کیا نئی عمارتیں بھی ان کے آگے مات ہیں۔
پچاس برس پہلے ان آبادیوں میں معمولی مکانات بھی کہیں کہیں دکھائی دیتے تھے اور وہ بھی نہایت زدہ حالت میں، چھوٹے چھوٹے اور تنگ و تاریک، اکثر مٹی یا گارے پتھر کے بنے ہوئے، جابجا کھپریلیں تھیں اور وہ بھی ٹوٹی پھوٹی، ہاں جھونپڑوں کی کمی تھی۔ اسی سے ان کے بازاروں کا اندازہ کرلیجیے۔ صدر دلّی کا تجارتی مرکز بنا تو ان آبادیوں میں سب سے پہلے وہ ابھرا۔ بازار نے بازار کی صورت پکڑی، باقی پھر بھی مدتوں پست و ذلیل رہی۔
اور شہر کے رہنے والوں نے ان آبادیوں میں سے کسی کو دلّی نہیں مانا بلکہ اب تک نہیں مانتے اور ایک حد تک حق بجانب ہیں، اس لیے کہ ان کی تہذیب، ان کا تمدن، طریق، ماند و بود، نشست و برخاست، بول چال، باستثناء ان لوگوں کے جو دلّی کے اندر ہیں اور اپنا کاروبار کرنے کے لیے دن کو وہاں چلے جاتے ہیں، دلّی والوں سے بالکل الگ ہے۔ اگرچہ یہ سچ ہے کہ ایسے کاروباری آدمی بھی وہاں اثر سے نہیں بچتے لیکن باہر سے آنے والے ان سب آبادیوں کو دلّی کی دلّی ہی خیال کرتے ہیں۔ اور وہاں کے رہنے والوں کو دلّی والے۔ سرکاری کاغذات میں بھی یہ سب آبادیاں دلّی ہی میں شمار ہوتی ہیں۔
آج کل دلّی میں آپ کو مختلف وضع قطع کے آدمی نظر آئیں گے۔ اسی طرح ان کے رہنے سہنے کے مکان بھی چھوٹے ہوں یا بڑے، یہ سب قریب ترین زمانہ کے بنے ہوئے ہیں۔ ساٹھ ستر برس پہلے دلّی کے رہنے والے ہندو تھے یا مسلمان، بہت کچھ ہم رنگ تھے۔ طرزِ ماند و بود بھی ان کا ملتا جلتا تھا۔ اس سے ان کے رہنے سہنے کے مکان بھی ایک ہی طرز کے ہوتے تھے۔ موجودہ گوناں گوں عمارتیں جو بیشتر انگریزی عہد میں بنی ہیں اور مخلوط طرز تعمیرات کانتیجہ ہیں، ہم آپ دلّی کیا سارے ہندوستان میں دیکھ رہے ہیں۔ آئیے اب ذرا طرزِ قدیم یا مغلیہ عہد کے اسٹائل کی بھی سیر کرلیجیے کہ اب سے پچاس سال پہلے تک دلّی میں اس طرز کے چھوٹے بڑے مکانات بکثرت موجود تھے اور سب تقریباً ایک ہی وضع پر تعمیر ہوتے تھے۔
امیر و غریب ہر شہر میں ہوتے ہیں۔ دونوں کے رہنے سہنے، اٹھنے بیٹھنے کااندازبھی ایک نہیں ہوتا، تاہم بیچ کی راس کے لوگ تابمقدور امیروں کی نقل کرتے ہیں اور غریب غربا ان کی۔ اس لیے ایک شہر کے رہنے والوں میں ہر لحاظ سے اچھی خاصی مشابہت پیدا ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ دلّی میں اُمراء اور غربا کے مکانات کا طرزِ تعمیر بھی ملتا جلتا تھا۔ آج کل کا سا حال نہ تھا کہ جدھر دیکھیے نیا طرز نیا اسٹائل ہے۔
اگلے زمانہ میں امرائے کبار اور بڑے بڑے دولت مندوں کے مکانوں کی صورت عموماً یہ ہوتی تھی کہ پھاٹک سے گھستے ہی جلوہ خانہ آتا، جس میں خدم حشم، نوکر چاکر، کہار مہرے رہتے جو پالکی، نالکی، پنس، ہوادار، ڈولہ، چوڈول اٹھاتے تھے۔ جلوس و سواری میں نکلتے تھے۔ وہاں سے آگے بڑھیے تو محل سرا کے صحن میں پہنچے، جس میں حوض و فوارے نظر آتے اور حوض کے آس پاس یا صحن کے کناروں پر پھلواری لگی اور کھلی ہوئی۔
صحن سے صدر کی طرف بڑھتے تو سیڑھیاں چڑھ کر صحن چبوترے پر پہنچتے، جس کے نیچے اکثر تہ خانہ ہوتا جو گرمی کے دنوں میں لو اور دھوپ کے وقت راحت گاہ ہوتا اور دنیاوی بہشت کا کام دیتا۔ صحن چبوترے کے دائیں بائیں دونوں طرف ایک ایک دو دو تین تین کمانوں کا ایک درہ، دودرہ یا سہ درہ ہوتا۔ اس سے آگے سنگین ستونوں کا دالان دردالان آتا۔ ان دونوں دالانوں کے دائیں بائیں دنوں طرف یک گہی بغلی کوٹھریاں ہوتیں، جن کا طول دالانوں کا عرض ہوتا اور عرض عموماً کم۔ اندر کے دالان کی انتہا پر کرسی دیتے اور اس کرسی یا دالان کا وسطی ایک تہائی حصہ چھوڑ کر ہر تہائی پر پھرتین سے پانچ تک سیڑھیاں آتیں، جن سے چڑھ کر ایک کمرہ نما دالان میں پہنچتے اور اسے شہ نشین کہتے۔
اسی شہ نشین کے بیچ کے تہائی حصہ میں اکثر مرمری پیش طاق ہوتا، جس کی چھت شہ نشین کی چھت کے اندر عموماً بنگلہ نما دونوں طرف کو بصورت کمان جھکی ہوئی، اتنی بلند ہوتی کہ آدمی فراغت سے داخل ہو اور کھڑا ہوسکے۔ پیش طاق کے دائیں بائیں دونوں جانب قدآدم سے کچھ زیادہ بلندی دے کر لکڑی کے تین تین محراب کے دو کمرے بنائے جاتے، جیسے آج کل اکثر دوچھتی بنالیتے ہیں۔ یہ دونوں کمرے جانشین کہلاتے اور ان کے نیچے سے بغلی کوٹھریوں میں جانے کاراستہ ہوتا۔ ایسے دالانوں کی چھت جن کے ساتھ شہ نشین اور جانشین بنائے جاتے، عموماً بہت بلند ہوتے تاکہ پیش طاق کی چھت موزونیت کے ساتھ اس کے اندر آسکے۔
دالانوں کے ستون، ان کا سنگین ازارہ، پیش طاق کے پتلے پتلے نازک ستون، ان کے کٹھرے طرح طرح کے مُنبت کاریوں اور مرغولوں سے سجائے جاتے۔ چھتوں میں خانہ بندی سے لے کر آئینہ بندی تک طرح طرح کا کام کیا جاتا اور یہی عمارت کا صدر ہوتا۔ اس صدر کے بالمقابل صحن چبوترہ اور صحن مکان چھوڑکر بالکل اسی شکل و صورت اور ناپ تول کا دالان یا دالان دردالان جواب میں بنایا جاتا۔ صحن چبوترہ اس طرف اکثر مرتبہ نہ ہوتا۔ اس لیے اس طرف کے دالان صدر کے دالانوں سے نیچے ہوتے اور شہ نشیں و پیش طاق سے خالی۔ ان دوطرفہ عمارتوں کے دونوں بازوؤں میں کئی کئی ایک درے، دودرے اور سہ درے دالان بنائے جاتے، ان کی گہرائی بھی کم ہوتی اور چھجے بھی ان کے، بجائے سلامی کے سپاٹ ہوتے۔ صحن چبوترے کے کسی یک درے سے ایک دروازہ پائیں باغ کو جاتا اور دوسرا محل سرائے زنانہ کو جو بالکل اسی طرح اور اسی طرز پر تعمیر ہوتی تھی۔
کوئی چالیس بیالیس برس ہوئے کہ مجھے چاندنی محل دیکھنے کا اتفاق ہوا اور بیس برس سے محل سرائے دھرم شالہ کے قریب رہتا ہوں۔ زینت محل کے علاوہ اور بھی بعض روساء دہلی کے قدیم التعمیر مکانات دیکھنے کا وقتاً فوقتاً اتفاق ہوا ہے۔ انہیں کا نقشہ یاد ہے جو کھینچ دیا ہے۔ اتفاق کی بات ہے کہ ان عمارتوں سے پہلی دو عمارتیں محل سرائے دھرم شالہ اور چاندنی محل دونوں خود شاہجہاں کے زمانہ کی یادگار ہیں اور طرہ یہ کہ تقریباً ایک ہی خاندان کی تعمیر ہیں۔
گندہ نالہ پر کھڑکی ابراہیمؔ علی خاں ایک مشہور پتہ کی جگہ ہے۔ وہیں دھرم شالہ ہے، جو محل سرائے بھی کہلاتی ہے۔ بہت دنوں تک معلوم نہ ہوسکا کہ ایک عمارت کیوں دھرم شالہ بھی کہلاتی ہے اور محل سرائے بھی۔ نہ یہ خبر تھی کہ یہ ابراہیم علی خاں کون تھے۔ ان باتوں کا پتہ یوں لگا کہ محل سرائے کی عمارت اگرچہ دھرم شالہ کہلاتی ہے لیکن اس میں مکانات کرایہ کو بھی ملتے ہیں اور کرایہ کی آمدنی کسی اہل خیر ہندو دولت مند کی طرف ہے جو اس کا مالک ہے، کارہائے خیر میں صرف ہوتی ہے۔
کرایہ کا مکان دیکھنے کی تقریب سے ایک دفعہ میں بھی اس دھرم شالہ میں جانکلا۔ دیکھا کہ اس میں نہر بھی ہے، حوض بھی ہے، شہ نشین اور جانشین بھی۔ یہ یاد نہیں کہ اس وقت اس میں پیش طاق بھی تھا یا نہیں مگر عمارت ساری بہرحال مسلمانوں کی سی نظرآئی۔ خیال کرلیا کسی مسلمان امیر کی محل سرا ہوگی۔ اب دھرم شالہ ہوگئی ہے۔ دنیا میں یہ ہوتا ہی آیا ہے۔
پھر تحقیق کیا تو معلوم ہوا کہ ابراہیم علی خاں جس کی طرف اس محل سرائے کا ایک رستہ یا راستہ کی سمت منسوب ہوکر کھڑکی ابراہیم علی خاں کہلاتی ہے، وہ شاہجہاں کے مشہور امیر الامراء علی مردان خاں کا بیٹا تھا۔ اسی علی مردان خاں کا جو دلّی میں فیروزشاہ کی نہر لایا، جو دلّی میں آکر نہر بہشت بھی کہلائی اور نہر فیض بھی اور اب نہر سعادت خاں کے نام سے مشہور ہے۔ اب سمجھا کہ یہ دھرم شالہ محل سرائے کیوں کہلاتی ہے اور شاہجہانی نہر یہاں تک کیوں پہنچی۔ اسی لیے کہ یہ دھرم شالہ بھی علی مردان خاں کی محل سرا تھی۔ ابراہیمؔ علی خاں کا نام اب بھی زندہ ہے۔
یہ دھرم شالہ یا محل سرائے اگرچہ اب بھی بہت بڑی عمارت ہے۔ سیکڑوں گھر اس میں آباد ہیں لیکن جب یہ محل سرا بنی ہوگی اور بھی بڑی ہوگی۔ آثار سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ اور بہت کچھ معلوم کیا جاسکتا ہے لیکن اب یہ باتیں سب بیکار ہیں اور لاحاصل۔
جب میں نے اس محل سرا کو دیکھا، اس وقت تک بھی وہ بہت کچھ بدل چکی ہوگی، لیکن اس پندرہ برس کے تصرفات نے اسے رہا سہا بھی بدل دیا ہے۔ چاندنی محل کو دیکھے ہوئے اور بھی زیادہ زمانہ ہوگیا۔ لیکن خیال یہی ہوتا ہے کہ اندازِ تعمیر اس کا بھی بہت کچھ اسی تعمیر سے ملتا جلتا تھا۔ اور یہ ہونا بھی چاہیے تھا۔ اس لیے کہ چاندنی محل اسی علی مردان کے داماد ابراہیم علی خاں کے بہنوئی امیر خاں کا محل تھا۔ امیرخاں اور روح اللہ خاں جس کے نام سے سرائے روح اللہ خاں اب تک یادگار ہے۔ باپ بیٹے دونوں شاہجہاں اور عالمگیر کے زمانہ کے دو بڑے پایہ کے امیر تھے۔ عالمگیر کے زمانہ میں اگرچہ امیر خاں نے خاص طور پر بڑا عروج پایا مگر شاہجہاں کے زمانہ میں بھی وہ اچھے امراء میں شمار ہوتا تھا اور سید ہونے کی بنا پر میرخاں کہلاتا تھا۔
کسی خدمت پر خوش ہوکر شاہجہاں نے اس کو میرخاں سے امیر خاں بنایا تو اس نے فوراً ہزار اشرفی نذر گزرانی کہ ایک الف کا اضافہ ہوا تھا اور الف اور الف یعنی عربی کا ہزار دونوں ہم صورت ہیں۔ یہ ادا شاہجہاں کو بہت پسند آئی۔ انعام و اکرام کے ساتھ منصب میں اور اضافہ کیا اور ایک ہزار اشرفی کی نذر کے بدلے میں عزت و دولت دونوں سے اس کا دامنِ مراد بھر دیا۔ اب نہ شاہجہاں ہے، نہ امیرخاں، افسانے باقی رہ گئے ہیں۔ امیرخاں کو آج صرف تاریخ پڑھنے والے جانتے ہیں کہ عالمگیر کے لیے اس نے کیا کیا کچھ کیا مگر اس کے بیٹے روح اللہ خاں کو ایک سرائے کی بدولت دنیا جانتی ہے،
نام منظور ہے تو فیض کے اسباب بنا
پل بنا، چاہ بنا، مسجد و تالاب بنا
میں کہاں تھا اور کہاں پہنچ گیا۔ مگر سلسلہ کی باتیں تھیں اور روزبروز بھولتی جاتی ہیں، اس سے نہ رہا گیا۔ لوگ محل سرا میں کھڑکی ابراہیمؔ علی خاں چاندنی محل میں رہتے ہیں، سرائے روح اللہ کا نام سنتے ہیں، وہاں رہتے بھی ہیں مگر کم اور بہت کم ہوں گے جو جانتے ہوں کہ یہ کون لوگ تھے، اس لیے اگر امراء دہلی کے مکانوں کی تصویر کے ساتھ ساتھ میں نے ان لوگوں کا بھی برائے نام کچھ ذکر کردیا تو مجھے ملزم نہ ٹھہرائیے۔
اب میں طبقہ وسطی کے مکانات کی طرف آتا ہوں۔ ان کے مکانوں کی بھی طرز بعینہ یہی ہوتی تھی۔ فرق یہ تھا کہ شہ نشین و پیش طاق ان میں نہیں ہوتے تھے اور جانشین اور صحن چبوترہ بھی کمتر۔ باقی دالان دردالان، بغلی کوٹھریاں، صدر کے جواب کا دالان، اور صدرو پائیں کے دونوں بازوؤں میں یک گہے، دالان یا کوٹھریاں، تعمیر کا ایک عام انداز تھا حتی کہ غریب غربا بھی جو اینٹ گارے یا محض گارے کے مکان بناتے تھے، ان کے گھروں میں بھی دالان دردالان ضرور ہوتا۔ جوابی دالان اور بازوؤں پر کچھ بناسکیں یا نہ بناسکیں۔ اسی لیے پرانے چھوٹے بڑے مکان جتنے بھی ملیں گے، سب کا انداز تعمیر یہی ہوگا۔ فرق جو کچھ ہوگا وہ چھوٹائی بڑائی، سادگی اور تکلف کا ہوگا۔۔۔ اور بس۔
کہتے ہیں کہ شاہجہاں کی دلّی کے تمام مکانات باستثنا چند بازاروں کے سب یک منزلہ تھے۔ بات سچی معلوم ہوتی ہے۔ نہ قلعہ میں کوئی عمارت دومنزلہ ہے، نہ شہر کی قدیم عمارات میں ہے، جو اب تک یادگار ہیں، کوئی دو منزلہ نظر نہیں آتی۔ ہم نے جب پہلے پہل دلّی دیکھی، بیشتر مکانات یک منزلہ تھے۔ ہاں بازار تقریباً دومنزلہ ہوچکے تھے۔
کبھی دلی کے مشہور بڑے بازار یہ تھے۔ اردو بازار، خاص بازار، فیض بازار۔ اردو بازار وہی تھا جسے اب چاندنی چوک کہتے ہیں۔ صاحب باغ یا بیگم باغ کی طرح یہ بازار بھی شاہ جہاں کی لاڈلی بیٹی جہاں آرا نے بنوایا تھا، جو باغ کے برابر فتح پوری مسجد تک پہونچتا تھا اور بیگم صاحب کی ذاتی املاک میں شمار ہوتا تھا۔ اب اس بازار میں دومنزلہ، سہ منزلہ، چہار منزلہ تک طرز طرز کی عالیشان عمارتیں کھڑی ہیں، یہ سب نو تعمیر اور عصر جدید کی یادگار ہیں، پچاس ساٹھ برس پہلے ان کا کہیں نام و نشان بھی نہ تھا۔ تمام بازاروں میں تقریباً ہم طرح ایک اونچائی کی دومنزلہ عمارتیں تھیں۔ نیچے نیچے تلیچہ کی دوکانیں اور چھوٹے چھوٹے نیچے نیچے کوٹھے۔ اور کوٹھوں کے چوب کڑی پر بنے ہوئے تنگ تنگ چھجے، سنگین توڑے کہیں نام کو بھی نہ تھے۔
دوکانیں سب دوگہی تھیں، اوپر کے کوٹھوں میں اندر کی گہہ صحن کا کام دیتی تھی اور باہر کی گہہ پر کوٹھا مع چھجہ برآمدہ ہوتا تھا، اور دو دو دوکانوں کے درمیان زینہ مگر اتنا تنگ اور کھڑا کھڑا کہ دیکھ کر تعجب ہوتا تھا کہ شاہجہاں کی دلّی اور یہ زینے۔ آج کل معولی سے معمولی مکان کا زینہ بھی ان سے زیادہ چوڑا اور بڑا ہوتا ہے۔ دوکانوں میں اور کواڑوں کی جوڑیاں سب چوفردی ہوتی تھیں۔ پہلے ان پر رنگ روغن بھی نہ ہوتا تھا۔ صرف تیل پانی سے کام لیا جاتاتھا۔ ہم نے دیکھا تو روغنی سبز سرخ رنگ میں رنگی جاچکی تھیں۔ کواڑوں کی اس قسم کی جوڑیاں اب بھی دلّی کی دوکانوں میں بہ کثرت نظر آتی ہیں لیکن چاندنی چوک سے عموماً خارج ہوچکیں۔
یہ کواڑ اکثر شیشم یا سال کے ہوتے تھے کہ انہیں لکڑیوں کا ان دنوں عام رواج تھا۔ ساگون، دیودار اور کیل کو کوئی جانتا بھی نہ تھا، یا لوگ ان لکڑیوں کو جو اب قبولِ عام پاچکی ہیں، پسند نہ کرتے تھے۔ بہرحال دوکانوں کے کواڑ ان دنوں بالکل سیدھے سادے ہوتے تھے۔ اسی طرح ان کے قبضے، کنڈے، زنجیریں، تالے کنجیاں۔ تالے عموماً دو قسم کے ہوتے تھے۔ ایک پیچ دار انہیں مٹھیا بھی کہتے تھے کہ بالکل بند مٹھی کی شکل کے ہوتے تھے۔ دوسرے جھڑدار جوبہت لمبے لمبے اور موٹے موٹے ہوتے اور ان کی کنجیاں ان سے بھی لمبی لمبی، اچھی خاصی ایک فٹ کی آہنی پتی۔ قصائی کی چھری کے برابر۔ ناک کاٹ نہیں سکتی تھیں مگر توڑ سکتی تھیں۔
یہ دوکانیں طرح طرح کے سودے سلف اور قیمتی قیمتی مال تجارت سے سجتیں اور ان پر جوہریوں سے لے کرنان بائی اور بھڑبھونجے تک بیٹھتے اور کوڑیوں سے لے کر ہزاروں لاکھوں تک کا مال بیچتے تھے۔ اس وقت چاندنی چوک اگرچہ سرتا سرنیا چولہ پہن چکا ہے لیکن فتح پوری سے قلعہ کی طرف کو چلیں تو بائیں ہاتھ پر کوئی کوئی دوکان ایسی آجاتی ہے جو پرانی یادگار کو تازہ کردیتی ہے۔ اسی طرف فتح پوری سے نزدیک ہی ایک بھڑبھونجے کی دوکان ہے جو اس نئے زمانہ میں پرانے زمانہ میں پرانے عہد کی پوری مثال ہے۔ زمانہ بدل گیا مگر اس نے اپنی واضع نہیں بدلی۔ غربت و کہنگی نے اسے خستہ و شکستہ کردیا ہے۔ مگر کوڑیوں کا رواج اب کچھ ایسا مٹا ہے کہ بہت سے اس دوکان کے خریدار بھی نہ جانتے ہوں گے کہ دھیلا، دمڑی، چھدام کیا چیز ہے۔
بازار چاندنی چوک یا اردو بازار کا ابتدائی حصہ جو کبھی قلعہ کے لاہوری دروازہ کے قریب سے شروع ہوتا تھا، غدر ۵۷ء کے بعد فوجی ضوابط کے موافق ڈھادیا گیا اور نہ صرف وہ بلکہ خاص بازار، خانم کا بازار اور قلعہ کے سامنے کی آبادی کا وہ حصہ بھی، جو اس زمین پر آباد تھا، جسے آج کل پریڈ کا میدان کہتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ سب آبادیاں حوائی قلعہ میں واقع تھیں جو فوجی اصول کے موافق نہ ہونی چاہیے تھیں۔ فیض بازار بھی جو لال ڈگی کے قریب سے شروع ہوکر دلّی دروازہ تک پہنچتا تھا، بازار چاندنی چوک کا ہم پلہ تھا، اس فوجی ضابطہ کی زد سے نہ بچا۔ اس کا ایک بازو جو دریاکی طرف تھا، ڈھایا گیا اور دلّی دروازے کے قریب شہر کے اندر فوجی چھاؤنی ڈالی گئی اور دریاگنج میں قلعہ کے آس پاس افسران کی کوٹھیاں بنیں۔
کوئی چوبیس برس ہوئے ہوں گے کہ چھاونی یہاں سے اٹھالی گئی۔ فیض بازار یک رخا تو پہلے ہی سے ہوچکا تھا، چھاونی اٹھی تو دریاگنج میں اور ہوکا عالم ہوگیا اور ویرانے میں الو بولنے لگا۔ اب پھر دریاگنج آباد ہونے لگا ہے۔ اس لیے کیا عجب ہے کہ فیض بازار کا ستارہ چمک اٹھے اور وہ دوطرفہ آباد ہوکر پھر دوسرا چاندنی چوک ہوجائے۔
پہلے خاص دلّی کی آبادی بھی اتنی نہ تھی جتنی اب ہوگئی ہے۔ جب تک آبادی کم رہی، اس میں مکانات بھی بیشتر یک منزلہ رہے۔ جیسے جیسے آبادی بڑھتی گئی، اس میں مکان بھی زمین سے اٹھ کر آسمان سے باتیں کرنے لگے اور ان کی وسعت تنگی سے بدل گئی اور تنگی ضیق النفس ہے۔ چنانچہ اس وقت شہر میں بہت سی گلیاں اور ان کے مکانات اتنے تنگ و تاریک ہوگئے ہیں کہ ان میں سانس لینا دشوار ہے۔
شاہجہاں نے دلّی بسائی تو پہلے بدروئیں بنوائیں اور اتنی بڑی بڑی بنوائیں کہ ان میں کھڑا آدمی کیا، سوار سماجائے۔ یہ شہر کے کوچے کوچے اور بازار بازار میں اب تک موجود ہیں۔ شہر کی صفائی کا بھی کوئی معقول انتظام کیا ہی ہوگا۔ لیکن جب ہم نے دلّی کو دیکھا تو پرانے سارے انتظامات درہم برہم ہوچکے تھے اور نئے ابھی مکمل نہیں ہوئے تھے۔ بڑی بڑی حویلیوں کے کسی نہ کسی پہلو میں چہ بچے بنے ہوئے تھے اور معمولی گھروں کے دروازوں کے برابر میں ناندیں گڑی تھیں، جن میں گھروں کا سارا گندہ پانی جمع ہوتا تھا اورحلال خور اس کو ٹھیکروں سے گھڑوں میں بھر بھر کر بڑی بڑی بدروں میں ڈالا کرتے تھے، یہ اِدھر بہہ کر تمام راستوں کو خراب کرتا تھا۔ غرض صفائی جیسی ہونی چاہیے نہیں ہوتی تھی یا نہیں ہوسکتی تھی۔
سڑک صرف بازاروں یا بڑی بڑی گلیوں میں تھی باقی میں نہ فرش تھا نہ سڑک۔ گندہ پانی ناندوں اور چہ بچوں سے نکل نکل کر اِدھر اُدھر بہتا پھرتا اور وہیں زمین میں جذب ہوجاتا۔ اس لیے مچھروں کی بڑی کثرت تھی۔ بعض آدمی کہتے ہیں کہ جب سے دلّی میں موجودہ کھلی نالیاں بنی ہیں، مچھر زیادہ ہوگئے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ نالیوں کی صفائی اور دھلائی جیسی ہونی چاہیے نہیں ہوتی، لیکن میرے نزدیک پھر بھی شہر کی صفائی پہلے سے زیادہ ہوگئی ہے اور مچھر پہلے سے بہت کم۔
تقریباً شہر کے تمام گلی کوچوں میں پکا فرش ہوگیا ہے۔ پہلے برسات میں وہ کیچڑ ہوتی تھی کہ خدا کی پناہ۔ ملیریا یا موسمی بخار بڑی شدت سے پھیلتا تھا اور بہت عام ہوتا تھا۔ شہر کی گنجان گلیوں اور ان کے محلوں سے کنوار کے مہینے میں ملیریا بخار کی بو آتی تھی اور سارا شہر بیمارستان بن جاتا تھا۔ لوگ کہتے ہیں کہ بیلا کٹنے سے بخار کم ہوا ہے۔ ممکن ہے کہ بیلا کٹنے کو بھی فصلی بخار کی کمی میں دخل ہو کہ یہ بھی شہر کی صفائی کا ایک جزو ہے۔ لیکن یہ بہرحال سچ ہے کہ اسی بیس پچیس برس میں شہر کی صفائی میں بڑی ترقی ہوگئی ہے۔ خواہ ابھی خاطر خواہ صفائی نہ ہوتی ہو۔
سڑکیں ان دنوں جہاں بھی تھیں کنکر کی تھیں، دھرمٹ سے کٹتی تھیں اور بہت سے غریب مزدوروں کی روزی کا ذریعہ ہوتی تھیں۔ سڑک کوٹنے کے انجن کو دہلی آئے تیس بتیس برس سے زیادہ عرصہ نہیں ہوا ہوگا۔ کنکر انجن سے پسنے لگے تو پتھر کی روڑی کی سڑکیں بننے لگیں۔ اب تارکول کا اور اضافہ ہوگیا ہے۔ صفائی زیادہ اور ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کم ہوگئی ہے۔ مگر کنکر کی سڑک ٹھنڈی ہوتی تھی۔ غریب غربا ننگے پاؤں بھی چل پھر لیتے تھے۔ چھڑکاؤ ہوتا تو سوندھی سوندھی خوشبو آتی، ہوا ٹھنڈی ہوجاتی، آج کل کی روڑی اور تارکول کی سڑک گرمی میں تانبے کی طرح تپتی ہے۔ لوگوں کے جوتوں کو اور گھوڑوں کے سموں کو پکڑتی ہے۔ پانی ڈالیے تو لو کی طرح گرم گرم لپٹیں نکلنے لگتی ہیں۔
یہ سڑکیں کچھ ٹھنڈی آب و ہوا ہی کے لیے موزوں ہیں۔ لیکن موٹروں کے لیے جو اب عام ہوچلی ہیں ایسی ہی سڑکوں کا ہونا شاید ناگریز نہ ہوگا۔ ہرآرام کوئی نہ کوئی تکلیف ساتھ لے لیتا ہے۔ اور اخیر میں اس تکلیف کا بھی علاج نکلتا ہے۔ ممکن ہے سیمنٹ کی سڑکیں جن کا تجربہ ہو رہا ہے، موجودہ سڑکوں سے بہتر ثابت ہوں۔
دلّی میں مٹی کا تیل آئے پچاس برس سے زیادہ ہوچکے۔ معلوم نہیں شاہی زمانہ میں شہر کی روشنی کا کچھ انتظام تھایا نہیں۔ جہاں تک سنا ہے، یہی سنا ہے کہ روشنی کا کوئی خاص انتظام نہ تھا۔ اسی لیے اُمراء رات کو گھر سے نکلتے، گھوڑے پر سوار ہتے یا ہوادار اور پالکی میں مشعلچی آگے آگے چلتا۔ اس سے بھی نتیجہ نکلتا ہے کہ بازاروں اور گلیوں میں روشنی کا انتظام انگریزی عہد کی برکت ہے۔
ہم نے جب دلّی دیکھی، بازاروں اور گلیوں میں لالٹین لگ چکی تھیں اور ان میں مٹی کا تیل جلتا تھا اور شہر میں رات کو خاصہ اجالا رہتا تھا۔ مگر نہ ایسا جیسا کہ آج کل بجلی کا ہے کہ دن نکلا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ بجلی ۳۲ء سے شہر کے خاص حصوں میں شروع ہوئی، جواَب گلی کوچوں تک پہنچ چکی ہے۔ اور جن کو بجلی کی روشنی کی عادت ہوگئی ہے، مٹی کے تیل کے لیمپ کی روشنی میں کام نہیں کرسکتے۔ یہ عادت کی باتیں ہیں، ورنہ ایک زمانہ وہ تھا کہ کڑوے تیل کے چراغ گھر گھر ٹمٹماتے تھے اور لوگ انہیں کی روشنی میں سارے باریک سے باریک کام کرتے تھے۔
صبح بنارس اور شام اودھ کا نام آپنے سنا ہوگا۔ ہم بھی مدت سے پڑھتے اورسنتے چلے آتے ہیں۔ درشن بنارس کے ہوئے نہ اجودھیا کے، کہ ان کی صبح و شام دیکھنے کا اتفاق ہوتا، اور دلّی کی صبح و شام سے ان کا مقابلہ کرسکتے، مگر جو کچھ ہم نے صبح بنارس اور شام اودھ کی نسبت سنا ہے شاید بہتوں نے اتنا بھی نہ سنا ہو۔
کوئی چالیس پینتالیس برس کا ذکر ہے کہ ایک مولوی صاحب تھے، خدا مغفرت کرے، عالم و فاضل، صاحبِ اوقات ورد و وظائف کے پابند، مگر زندہ دل، خوش طبع اور خوش گفتار، نواح لکھنؤ کے رہنے والے، ان اطراف کے حالات سے خوب واقف، ہم بھی ازراہِ ارادت اکثر ان کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ ایک دن میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور بھی کچھ لوگ بیٹھے تھے۔ اِدھر اُدھر کی باتیں ہو رہی تھیں۔ اثنائے گفتگو میں بنارس کا ذکر آگیا، میں نے عرض کیا، ’’حضت، بنارس کی صبح میں کیا ایسے لال لگے ہیں اور اودھ کی شام میں کون سے ایسے موتی جڑے ہیں کہ صبح بنارس کی ہوچکی اور شام اودھ کی۔ صبح و شام تو ہر جگہ کی سہانی ہوتی ہے۔‘‘ یہ سن کر مولوی صاحب نے ایک نگاہ معنی خیز سے میری طرف دیکھا، پہلو بدل کر بیٹھے، ایک سسکی سی لی اور فرمایا،
بیٹھے بیٹھے ہمیں کیا جانیے کیا یاد آیا
بنارس، بنارس کی صبح۔ اللہ اللہ، دیکھتے تو جانتے، اور ہم سے ہوسکتا تو علی حزین کی طرح وہیں کے ہو رہتے، اجی حضت، بنارس ہندوؤں کا مکہ نہیں تو بیت المقدس ضرور ہے۔ گنگا کے کنارے واقع ہے۔ رام گنگا نہیں۔ وہ گنگا جو گنگوتری ا ترتی، ہرکی پوڑی پر بہتی، مکتیشر سے کئی گھاٹوں سے گزرتی، پراگ سے جمنا کو ساتھ لیتی ہوئی اس مقدس سرزمین میں پہنچی ہے، جو کاشی کہلاتی ہے۔ جسے آپ بنارس کہتے ہیں۔
وہی گنگا جس کا پانی ہندوؤں کے اعتقاد میں آپ کے زمزم کی برابر متبرک ہے۔ جس کا ایک اشنان ان کے اعتقاد میں سارے پاپوں کو دھوڈالتا ہے۔ مردے کی راکھ اس میں پڑے تو اس کی نجات ہوجاتی ہے، غرض بنارس تیرتھ بھی ہے اور جاترا بھی، چھوٹی سی نگری ہے مگر ہر طرح سے بھری پری، قدم قدم پر اس میں مندر، منڈل، کنڈ، شوالے، ٹھاکر دوارے، دھرم شالائیں اور اتنے اور ایسے ایسے پاٹ شالا کہ وہ ودّیا کا استھان ہوگیا ہے اور آج سے نہیں پراچین سے، بارہ ماس دن رات جاتریوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ وہاں پہنچتے ہیں۔
ابھی رات کا پچھلا پہرا ہی ہوتا ہے کہ بھگوان کے بھگت آچاری پجاری، جاتری، بوڑھے، جوان، لڑکے لڑکیاں، بیٹیاں، بیوہ، بیاہی، بڑھیا سب، جس وقت دنیا پڑی سوتی ہے، آنکھیں ملتے اٹھتے ہیں، ٹھاکر جی کی مورتی، ان کا سنگھاسن لیا۔ بوئیے یا گنگا جمنی میں ناج بھرایا، کوڑی پیسہ کچھ ساتھ لیا، اور رات کے دلے ملے کپڑوں میں گنگا گھاٹ کو چل پڑے، رستہ میں پیسہ کوڑی دانہ دُنکا دان پُن کرتے، چڑھاوے کو پھول مالا لیتے گھاٹ پر پہنچے اور پہنچنے والوں کا تانتا لگ گیا۔
ابھی جھٹپٹا ہی تھا کہ گنگا جی کو پھول ہارچڑھائے، سب نے اشنان کیا، پاک پوتر ہوکر کچھ کچھ تیاگ کیا۔ یعنی دنیا کی کوئی چیز یا اس کی کوئی برائی چھوڑی، مردوں نے دھلی دھوتیاں، عورتوں نے اجلی اجلی ساڑیاں لپیٹیں، صندل زعفران گھسا، سیندور گھولا، تلک ٹیکا لگا ٹھاکرجی کو نہلایا سنگھاسن پر براجمان کیا۔ اور پوجا پاٹ ہونے لگی۔ اور منتر پڑھے جانے لگے۔ آخر میں ٹھاکر جی کے چرن دھوئے، چرن امرت چکھا۔ سمرن ہاتھ میں لی اور رام شام گھنشام پکارتے، اور اپنے اپنے دیوتاؤں کے نام جپتے شہر کو چل دیے تاکہ جنہیں جانا ہے جھانکی درشن کو جائیں۔
شہر پہنچے تو مندروں میں گھنٹے گھڑیاں بج رہے، آرتیاں ہو رہیں اور بھجن گائے جارہے تھے، یہ اِس مندر سے نکلے اُس میں گئے۔ یہاں درشن کیے، وہاں ڈنڈوت، کہیں چرن چھوئے کہیں پر کرما کیا۔ غرض ایک چکر بندھ گیا۔ چھوٹا سا شہر، تنگ تنگ گلیاں، اونچی اونچی حویلیاں، سورج دیوتا نکل آئے مگر شہر میں ابھی ان کے درشن نہیں ہوتے۔ بازار بھی کھل گئے، ہجوم اور بڑھا۔ اور وہ گھچ پچ دھکم دھکا ریل پیل آدمیوں کی ہوئی کہ واہ ہی واہ ہے۔‘‘
بات بڑھتی ہے، کہاں تک کہوں، قصہ مختصر، ابھی بنارس کی صبح کاآفتاب بلند نہیں ہوا تھا کہ مولوی صاحب نے اجودھیا کو رام نگر اور سیتانگری بتاکر اس کی جگنو بھری شام کی وہ جگمگاتی ہوئی تصویر ہماری آنکھوں کے سامنے پیش کی کہ یہ معلوم ہونے لگا کہ مہاراج گوپال گھنشام بندرابن چھوڑ، گوپیوں کو ساتھ لیے اجودھیا آبراجے ہیں اور ٹھٹول ٹھٹول میں دھیان گیان کا اپدیش دے رہے ہیں۔
مولوی صاحب کی یہ تصویر حقیقت اور ظرافت کے دونوں رنگوں سے رنگی ہوئی تھی اوراثنائے ظرافت میں جہاں کوئی بات لفظوں میں ادا کرنا نہ چاہتے، یا نہ کرسکتے تھے، سیاہ سپید بڑی بڑی آنکھوں کے معنی خیز نگاہوں سے سب کچھ کہہ جاتے، اور ہم سب کچھ سمجھ لیتے گویا،
نگہ نہ تھی حرف دل نشین تھا دہن کی تنگی سے تنگ ہوکر
جو نکلا آنکھوں کے راستہ سے کہ دل میں بیٹھا خدنگ ہوکر
وہ بالطبع ظریف تھے، اور میں ظرافت سے بے نصیب، اس لیے ایک تصویر میں بھی اس کا ایک رخ چھوڑتا گیا ہوں، نیز ع ہر سخن جای وہرنکتہ مکانے دارد۔ ظرافت کے رنگ میں ہمارے مولوی صاحب، خدا مغفرت کرے، کہیں کہیں سیاہی کے سیاہ سیاہ نقطے سے بھی بربنائے غیریت یا حقیقت لگاتے جاتے تھے، مگر ان کی خوش گفتاری کی سج دھج میں، وہ کلونس کے ٹیکے نہیں بلکہ دیویوں کی ٹھوڑیوں کے تل معلوم ہوتے تھے۔
غرض ہم نے صبح بنارس اور شام اودھ کاحال سنا اور کم از کم اس وقت تو مسحور ہوکر رہ گئے اور بجابجا کہنے کے سواکچھ کہتے نہ بن پڑا۔ اب خیال ہوتا ہے کہ دلّی میں بھی قدیم سے جمناکنارے صبح کا منظر کچھ اسی سے ملتا جلتا ہوتاآیا ہے۔ کم ہے تو اتنا ہی جتنا میرا بیان مولوی صاحب مرحوم کے بیان سے۔ پھر اسی کو کیوں ’’جمنا جی کے گھاٹوں پر ہندودلی کی صبح کی تصویر‘‘ نہ فرض کرلیاجائے۔ مانا کہ شاہجہانی دلّی کو ہندوؤں کی نگاہ میں وہ تقدس نہیں جو بنارس کو ہے لیکن جمنا جی بھی تو آخر گنگا جی ہی کی چھوٹی بہن ہیں، یہ سرزمین بھی پانڈوؤں کی راجدھانی رہی ہے، وہی پانڈو کہ بھگوان سری کرشن ان کے بڑے بھائی یدھشٹر کے رتھ بان رہے تھے، یہ کیا کم ہے کہ اسی راجہ یدھشٹر کی ایک یادگار، جہاں اس نے یگیہ کیا تھا، نیلی چھتری کے نام سے جمنا کے گھاٹوں میں ٹوٹی پھوٹی اب تک باقی ہے اور سب باتوں سے بڑھ کر اعتقاد ہے۔
سو ہندو بھائی بھی جو اعتقاد لے کر صبح کو جمنا پر جاتے ہیں، وہ وہی اعتقاد ہے جو بنارس والوں کو گنگا گھاٹوں پر لے جاتاہے۔ مندروں کی البتہ کمی ہے، کم ہیں اور نئے ہیں، اور شاید اس سے بھی کم ہوں کہ بنارس میں مسجدیں، پھر بھی پرمیشرگہٹ میں ہے تو سب کچھ ہے۔ من چنگا تو کٹھوتی میں گنگا انہیں کے ہاں کی مثل ہے۔ یہ دلّی کے ہندوؤں کی صبح ہوئی۔
اب مسلمانوں کی صبح کا حال سنیے۔ کبھی اُمّتِ سحر خیزان کالقب تھا اور مسلمان واقعی سحرخیز تھے۔ اب اگرکوئی دیر خیز ہے تو وہی، دلّی میں اس کثرت سے مسجدیں ہیں کہ صبح کو ان میں اذانیں ہوتی ہیں تو شہر گونج جاتا ہے۔ ہم پڑے سویا کرتے ہیں، اورتو شہر سے دریا پر پہنچتے ہیں، مسلمانوں کو گھر سے نکل کر محلہ کی مسجد تک جانا دوبھر ہوتاہے۔ اسی لیے مغرب و عشا سے ہر مسجد میں نماز فجر کے نمازی کم ہوتے ہیں، اب سے پچاس پچپن برس پہلے بھی ان کا یہی حال تھا۔
رہی دلّی کی شام اور شامِ اودھ۔ دلی میں بھی چاندنی چوک اور جامع مسجد پر شام کو بڑی چہل پہل ہوتی ہے اور ہمیشہ ہوتی رہی ہے۔ ممکن ہے یہ شام شامِ اودھ کو نہ پہنچتی ہو، مگر دلّی والوں کواس لیے کہ وہ شامِ وطن ہے، اودھ کی شام غربت سے زیادہ عزیز ہے کہ یہی ان کی سیر و تفریح، دیدوادید، دوست احباب کی زیارت و ملاقات کا وقت ہے اور رہا ہے۔
جسے آج کل ہوا خوری یا سیر کہتے ہیں، اورکھاتے پیتے لوگ اس کے بہت شوقین نظر آتے ہیں، اگلے زمانہ میں دلّی میں اس کاایسا رواج نہ تھا۔ اُمراء البتہ کبھی کبھی سیر و شکار کو جاتے تھے یا تفریح کی خاطر اپنے باغوں میں جاتے اور کئی کئی دن وہاں ٹھیرتے۔ متوسط درجے کے لوگ ان باتوں سے عادتاً واسطہ نہ رکھتے تھے، ضرورت کاذکر نہیں۔ موجودہ سیر و ہوا خوری کا رواج دلّی میں انگریزوں کی تقلید میں ہوا اور مٹرگشت کہلایا۔
گشت فارسی زبان کالفظ ہے، جس کے معنی ہیں پھرنا، گھومنا۔ جیسے گلگشت، سیر باغ، جہانیاں جہاں گشت، دنیا میں گھوما پھراہوا۔ مٹر خدا جانے کیا اور کس زبان کا لفظ ہے، مگر یہ مرکب البتہ اردو میں بولاجاتا ہے اور بکثرت بولاجاتا ہے۔ مگر زبان میں نیا نیا آیا ہوا معلوم ہوتا ہے، ممکن ہے کہ میٹر کی خرابی ہو، کہ میٹر فرانسیسی زبان میں ایک پیمانہ مسافت کانام ہے۔
بہرحال پچاس ساٹھ برس پہلے اس مٹرگشت کارواج صرف یورپین کے مقلدین یا انگریزی خوان طبقہ کے بعض افراد تک محدود تھا اور بیرونِ شہر پیادہ پا پھرنے کومٹرگشت کہتے تھے، اب شہر میں بھی اِدھر اُدھر بے کام مارے پھرنے کو مٹرگشت کہنے لگے ہیں۔ بہرحال مٹرگشت یا بیرون شہر کی سیر و ہواخوری دلّی میں قدیم اور پرانی چیز نہیں۔ اہلِ شہر کی سیرگاہ قدیم سے یہی چاندنی چوک اور جامع مسجد رہی ہے۔
غدر میں امرائے دہلی اور عہدہ دار مسلمانوں کاگویا خاتمہ ہوگیا تھا۔ جو بچ گئے تھے، وہ دلّی چھوڑ کر باہر نکل گئے تھے۔ جو رہ گئے تھے اور دلّی میں رہنے کاسہارا ان کے پاس تھا وہ پاؤں توڑ کر گھروں میں بیٹھ رہے تھے۔ پہلے بھی صبح و شام پھرنے کی ان کو عادت نہ تھی، اب ہم چشم ہی نہ تھے، ملنے بھی جاتے تو کس سے؟ اس لیے وہ بے ضرورت گھر سے نکلنے کا نام نہ لیتے تھے۔ ہندو البتہ ہر مرتبہ کے شہر میں موجود تھے، ان میں سے بھی جو بڑے تھے اپنے کومسلمانوں کی طرح لے دے رہے تھے۔ گھر میں بیٹھے رہتے یا کسی دوست آشنا کے ہاں کبھی چلے جاتے۔ ایسے لوگوں کو جامع مسجد کے گرد یا چاندنی چوک میں پھرنے پھرانے سے بھلا کیا واسطہ۔ کبھی نکلے بھی تو بشایان شان نکل گئے اور بس۔
اوسط درجہ کے شرفا کا شمار ہر قوم میں کم ہوتاہے۔ اور وہ بھی بڑوں کی ریس میں اپنے آپ کو لیے دیے رہتے ہیں۔ بڑی آبادی شہر کی ہندو تجارت پیشہ تھے، یا مسلمان اہل حرفت۔ حرفت بھی کئی طرح کی ہوتی ہے۔ اجلی اجلی حرفتوں کو زمانہ کے ہاتھوں تنگ آکر کچھ کچھ شرفا بھی لے بیٹھے تھے، ان کے علاوہ ہر طبقہ میں کچھ لوگ آزاد بھی ہوتے ہیں۔ بس یہی سب مل کر اس زمانہ میں جامع مسجد کے گردوپیش اور چاندنی چوک کی زینت ہوتے تھے۔ کچھ اس میں سے رہے سہے رُودار لوگوں کے ہاں جاتے۔
عصر مغرب یا مغرب عشا کے درمیان ان کے ہاں ٹوٹی ہوئی مجلسیں جمتیں۔ اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتیں، صحبت برخاست ہوتی تو لوگ اُٹھ اُٹھ کر اپنے گھروں کو چلے آتے۔ بہت سے چار بجے قریب سے چاندنی چوک اور جامع مسجد کی تیاری کرتے، اس میں ہندو مسلمان کسی کی خصوصیت نہ تھی، البتہ جامع مسجد پر مسلمانوں کا اور چاندنی چوک میں ہندوؤں کا زیادہ ہجوم ہوتا۔ یہی ان کا روز مرہ کا ورد تھا، روز کی وہی جگہ تھی، وہی ملنے والے، وہی باتیں مگر لوگوں کی طبیعت اس سیر سے سیر نہ ہوتی تھی، جیسے آج کل لوگ بکثرت شہر سے باہر سیر تفریح کو جاتے ہیں، پھرتے پھراتے ہیں اورنہیں اکتاتے۔
اس زمانہ کے لوگ بھی گھر سے نکلتے، یہاں ٹھٹکے، وہاں کھڑے ہوئے، اس سے باتیں کیں، اس سے ہنسے بولے اور اپنی راہ لی، کسی کو ساتھ لیا یا کسی کے ساتھ ہوگئے۔ ہندوؤں میں کایتوں کے سوا حقہ کا بہت کم رواج تھا اور مسلمانوں میں زیادہ۔ چاندنی چوک اور جامع مسجد پر کئی ساقی ککڑ یعنی لمبی لمبی نَے اور بڑی بڑی چلموں کے حقے لیے نظر آتے اور بھلے آدمی کے حقوں کو منہ نہ لگاتے۔ احیاناً کبھی کوئی کوئی کش لیتا بھی تو کسی تقریب سے کسی دوکان پر بیٹھ کر۔ ایرے غیرے کھڑے کھڑے دم لگاتے اور خوب دھوئیں اڑاتے۔ انہیں پر ان ساقیوں کا مدار تھا۔ غریب مسلمان گھروں سے نکلتے تو پان کھاکر۔ عوام ہندو، گھر سے نکلتے تو گلی کے نکڑ ہی پر کسی پنواڑی کی دوکان سے پان بنواتے اور منہ میں رکھ کر آگے بڑھتے، اوسط طبقہ کے ہندو اور مسلمان، پانوں کی ڈبیا جیب میں رکھتے، خوش حیثیت لوگوں کے خدمت گار پانوں کا کسنہ لیے ان کے ساتھ ہوتے۔
چلتے چلتے راستہ میں پان نکالنا، پان مانگنا اور منہ میں رکھنا بھی معیوب تھا۔ ہاں گاڑی میں بیٹھے بیٹھے پان نکالنا، کھالینا برا نہ سمجھا جاتا۔ ہندو صاحبان، اب تک پانی پینے کے زیادہ شائق پائے جاتے ہیں لیکن ان دنوں پہلے لوگ راستہ میں یا کسی پیاؤ پر پانی پینا بھی اچھا نہ جانتے تھے۔ مسلمان سقّے چاندنی چوک، مسجد فتح پوری اور جامع مسجد پر ٹھنڈے ٹھنڈے پانی کی مشکیں بھرے ہاتھوں میں کٹورے لیے کھڑے نظر آتے، اور کٹورے بجا بجاکر پیاسوں کی توجہ کو اپنی طرف منعطف کرتے اور بیشتر مسلمان پانی پیتے نظر آتے۔ ان سقوں کے کٹورے موجودہ دلّی کے نقشین کٹورے نہیں ہوتے تھے بلکہ چملی نما، چوڑے چوڑے اور کم کم گہرے کانسی کے ہوتے تھے، اسی لیے جہاں کٹورے سے کٹورالڑا اور جھنکار آئی۔
کٹورا بجانے والے استاد خوب خوب کٹورے بجاتے اور ان سے تال سر بلکہ نغمے نکالتے اور لوگ کھڑے ہو ہو کر سنتے۔ جب تک دلّی میں واٹر ورکس نہیں بنا اور جابجا ٹونٹیاں نہیں لگیں، یہ سقّے خوب کماتے تھے اور کنوؤں کانام لے لے کر پانی پلاتے تھے۔ نلوں کا لگنا تھا کہ ان کا بازار سرد پڑتے پڑتے ٹھٹھر کر رہ گیا۔ اب کوئی تیس چالیس برس سے یہ بالکل نظر نہیں آتے۔ اب سوڈا لموئیڈ کا دور دورہ ہے۔ قدم قدم پر دوکانیں کھلی ہیں، پہلے کہیں ان کا نام و نشان بھی نہ تھا۔
جامع مسجد اور چاندنی چوک میں کوئی چالیس پینتالیس برس ہوئے کہ چائے کی ایک دوکان تھی، وہ بھی گرمی کے دنوں میں فالودہ کی دوکان کی صورت میں بدل جاتی تھی۔ یہاں کا فالودہ بھی لاہور اور پشاور کا سا فالودہ نہ ہوتا تھا۔ شربت کے کٹورے میں چند سوئیاں فالودہ کی ڈال دیتے تھے اور کچھ بھیگی ہوئی ریحان، شربت زیادہ تر اولوں اور بتاشوں کا ہوتا تھا۔ وہ زمانہ بھی مجھے یاد ہے کہ ان دوکانوں پر برف بھی نہ ہوتی تھی، کورے کورے گھڑوں میں ٹھنڈا پانی بھرا رہتا تھا اور سرخ کپڑا لپٹا ہوا۔ اسی کو بار بار تر کرتے رہتے تھے کہ ہوا لگ کر پانی ٹھنڈا ہوجائے۔ لے دے کے تمام شہر میں کمپنی باغ کے سامنے، اندارہ کنوئیں پر جہاں اب سینما بن گیا ہے، ایک برف خانہ تھا۔ تین آنے چارآنے سیر برف بکتی تھی، پرچیوں پر البتہ صبح کو دو آنے سیر مل جاتی تھی اور رات کو گرمی میں ۸۔ ۸ آنے سیر تک ہوجاتی تھی۔ ہر کوئی برف کاعادی نہ تھا۔
برف کی قلفیاں بنانے والے بھی مشین کی برف سے اپنی قلفیاں نہیں جماتے تھے، بلکہ ماہ کے مہینے میں جب خوب جاڑا ہوتا اور پالا پڑتا تو دہلی دروازے باہر ایک میدان میں گھاس یا گنے کی پنی بچھاکر رات کو ہزاروں رکابیاں پانی کی بھر بھر رکھتے، تڑکے ہی وہاں پہنچتے، رکابیوں سے برف جمع کرتے، اور اس کو برف کے گڑھوں میں جو اسی کام کے لیے شاہی زمانہ سے بنے چلے آتے تھے، گاڑ دیتے تھے، گرمی کے موسم میں انہیں گڑھوں کی برف نکال کر دودھ او رملائی کی قلفیاں جمائی جاتیں۔ بلکہ جب تک مشین کی برف نہیں آئی تھی، اسی میلے کچیلے برف میں پانی ٹھنڈا کیا جاتا تھا اور یہی پانی اس زمانہ کا برف میں بجھا ہوا پانی کہلاتا تھا اور امیر پیتے تھے یا بیماروں کو بتائی جاتی تھی۔
یہ برف نہ ملتی تو جست کی صراحیاں، شورے میں لگائی جاتیں۔ یہ قلمی شورہ نہیں بلکہ زمین سے اٹھا ہوا ناصاف شورہ، جو سستا پڑتا تھا اور کام ایسا ہی دیتا تھا۔ جب سے نمک اور شورہ سازی کی ممانعت ہوگئی، اس لیے کہ وہ بارود کے بنانے میں کام آتا ہے اور لائسنس لازمی ہوگیا، شورہ سازی اور شورہ میں صراحیاں لگانا بھی بند ہوگیا۔ اور سچ یہ ہے کہ اب اس کی ضرورت ہی نہیں، پیسہ ٹکے سیر برف مل جاتی ہے۔ اور چاہیے کیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.