Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پاکستان میں اردو ادب کے ستر سال

محمد حمید شاہد

پاکستان میں اردو ادب کے ستر سال

محمد حمید شاہد

MORE BYمحمد حمید شاہد

     

    جن دنوں پورے برصغیر کا مسلمان ایک الگ وطن کا خواب دیکھ رہا تھا، یہاں کا ترقی پسند ادیب اپنے ہی ڈھب سے سوچ رہا تھا۔ ایک الگ وطن کا خیال اس کے لہو میں کسی قسم کا جوش پیدا نہیں کر رہا تھا تاہم قیام پاکستان کے بعد ادھر بھی، اور ادھر بھی ترقی پسندوں نے نئے نئے موضوعات کا در اردو ادب پر کھول دیا۔ یہ سوال بھی عین اسے زمانے میں سامنے آیا تھا کہ کیا پاکستان کا ادب اپنے مزاج کے اعتبار سے تقسیم سے پہلے والے ادب سے مختلف ہونا چاہیے؟ اور کیا ادب کو قومی شناخت کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے؟ تقسیم سے پہلے کا اردو ادیب ہند اسلامی مشترکہ تہذیب کا نمائندہ تھا تاہم قیام پاکستان کے بعد اس کا رشتہ، یہاں کی زمینی روایت کے ساتھ ساتھ فرد کی روحانی تاریخ کے مظاہر سے شعوری طور پر جڑتا چلا گیا۔ یہیں سے ایک کشمکش کا آغاز بھی ہوا کہ یہ بات ترقی پسندوں کو ایک آنکھ نہ بھا رہی تھی، خیر واقعہ یہ تھا کہ ادب کے مزاج میں اگر ایک طرف یہاں کی ہزاروں سالہ تاریخ کام کر رہی تھی تو اس کے قلب میں یہ سوال بھی موجود تھا کہ اس کی جڑیں کہیں اور سے روحانی اور فکری غذا پا رہی ہیں۔ 

    یاد رہے کہ وہ ادیب جو تقسیم کے حامی نہ تھے اور انسان اور انسانیت کے ساتھ بہت سختی سے وابستہ تھے، ایک وقت ایسا آیا تھا کہ وہ ادیب بھی ہندوستان چھوڑ کر پاکستان آنے پر مجبور ہوگئے تھے، شاید اس لیے کہ یہیں ان کے باطنی تخلیق کار کی تکمیل ممکن تھی۔ ’منٹو کی کہانی ’’کھول دو‘‘ کو کچھ لوگ کسی اور نگاہ سے دیکھتے ہیں مگر مجھے تو یہ بھی اُس کے پاکستانی ہونے کی روداد سناتی ہے۔ پاکستان آنے کے بعد منٹو نے جو دو پہلی کہانیاں لکھیں اُن میں ’’کھول دو‘‘ شامل ہے۔ تاہم یہی منٹو کی پہلی پاکستانی کہانی بنتی ہے۔ اس افسانے میں جہاں فسادیوں اور لوٹ مار کرنے والوں کے خلاف نفرت اُبھاری گئی ہے، وہیں ہماری ملاقات ایک حساس پاکستانی سے بھی ہوتی ہے۔ ایسا پاکستانی جو فسادات اور قتل وغارت گری کو نفرت اور دُکھ سے دیکھتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اپنے خوابوں کی سرزمین کی طرف دیکھنے والوں کے ساتھ ایسا ہوتا۔ ’’کھول دو‘‘ کو سمجھنے کے لیے قیام پاکستان کے بعد کے بدلے ہوئے منٹو کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ میں اُس تبدیلی کی بات کر رہا ہوں جسے ناقدین نے باقاعدہ نشان زد کیا ہے۔ منٹونے خود ’’زحمت مہر درخشاں‘‘ میں لکھا تھا کہ پاکستان آنے کے بعد یہ الجھن پیدا کرنے والا سوال اس کے ذہن میں گونجتا رہا ہے کہ کیا پاکستان کا ادب علیحدا ہوگا؟

    اگر ہوگا تو کیسے؟ اور یہ کہ اسٹیٹ کے تو ہم ہرحالت میں وفادار رہیں گے، مگر کیا حکومت پر نکتہ چینی کی اجازت ہوگی؟ اور آزاد ہو کر کیا یہاں کے حالات فرنگی عہد حکومت کے حالات سے مختلف ہوں گے؟ یہی وہ بنیادی سوالات ہیں جو پاکستانی ادب کا مزاج متعین کر رہے تھے۔ میں نے کہا نا،وہ ادیب بھی جو پاکستان کے قیام سے پہلے تقسیم کے مخالف تھے یا اس سارے تاریخی عمل سے الگ تھلگ ہو کر بیٹھ گئے تھے، پاکستان بننے کے بعد پاکستانی ہوکر سوچ رہے تھے۔ منٹو صاحب پاکستان آئے، اسے اپنا وطن بنایا، اسٹیٹ کے وفادار ہوئے اوراس نظام کے ناقد ہو گئے جو فرنگی عہد سے مختلف نہیں ہورہا تھا۔ جہاں جہاں انہیں ٹیڑھ نظر آیا وہاں وہاں انہوں نے بھر پور چوٹ لگائی۔ اَفسانہ ’’کھول دو‘‘ بھی ایسی ہی شدیدچوٹ ہے۔ ایک سچے پاکستانی کی اُس معاشرتی روّیے پر بے رحم چوٹ جس نے ہمارے سنہرے خوابوں کو گدلا دیا تھا۔ 

    برصغیر کی تقسیم کا واقعہ جہاں آزادی کے دِل خوش کن خوب سے جڑا ہواہے وہیں نقل مکانی کے المیے سے بھی وابستہ ہے۔ وہ علاقے جن سے ماضی کی ساری یادیں وابستہ تھیں اوروہ خیال میں بہت گہرائی میں پیوست تھے، ادیب کا رشتہ اس خیال سے مستحکم ہو کر سامنے آیا۔ اس نئی زمین کے لیے جس طرح کے خواب دیکھے گئے تھے اس کی عملی تعبیر میں سو طرح کے رخنے تھے۔ یہی سبب ہے کہ فیض احمد فیض کی جانب سے داغ داغ اُجالا کی بات ہونے لگی تھی ایسے میں ماضی کی زمینوں کو دیکھنا اور وہاں کے دُکھ سکھ کا نئی صورت حال سے موازنہ کرنا اُردو ادب کا باقاعدہ موضوع بن گیا۔ 

    سینتالیس سے ساٹھ تک کے زمانے کے ادب میں اسی ماضی کی گونج صاف طور پر سنی جاسکتی ہے۔ حتیٰ کہ انتظار حسین پر تو اسی ناسٹلجیاکا شکار ہونے کی پھبتی بھی کسی جاتی رہی۔ تاہم واقعہ یہ ہے کہ انتظار حسین جیسے ادیب محض ماضی قریب سے وابستہ نہیں ہوئے تھے وہ ہند اسلامی تہذیب سے وابستہ ہوکر کچھ خواب دیکھ رہے تھے، چاہے یہ خواب ’’آخری آدمی‘‘ کی صورت میں ہی کیوں نہ ہوں۔

    ساٹھ اور ستر کی دہائی تک آتے آتے بہت تبدیلی آچکی تھی۔ ترقی پسندوں کا نعرے لگانے والا رجحان مات کھا چکا تھا۔ ادب انسان کے باطن میں موجزن احساس سے جڑ رہا تھا۔ اسی داخلیت نے دروں بینی کے چلن کو عام کیا تو لسانی تشکیلات کا تجربہ سامنے آیا۔ علامت و تجرید کی طرف افسانہ مائل ہوا۔ ہئیت اور تیکنیک کے تجربات ہوئے۔ اس سے ایک اسلوب بنا۔ 

    یوں مجموعی سطح پر دیکھا جائے تو ادب ایک نئے تصور سے جڑا اور زبان کے اندر اظہار کی بے پناہ قوت پیدا ہوئی۔ تخلیقی زبان لکھنے کی اس لگن کے زمانے میں جہاں نظم مختلف ہوگئی تھی وہاں ہمارا افسانہ بھی اس سے اثر قبول کر رہا تھا۔ یہی وہ زمانہ ہے جب ہمارے ہاں سب کچھ ’’نیا‘‘ ہو گیا تھا۔ نیا افسانہ، نئی نظم، نیا ادب حتیٰ کہ غزل بھی نئی۔ ان دنوں ادھر سرحد کے پار بلراج مین را نے ’’ماچس‘‘ لکھا تھا اورسریندرپرکاش نے ’’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘‘ تو ادھر پاکستان میں انورسجاد نے ’’ماں اور بیٹا‘‘، رشید امجد نے ’’گملے میں اُگا ہو شہر‘‘ لکھے تھے، احمد ہمیش نے ’’کہانی مجھے لکھتی ہے‘‘ لکھی حتیٰ کہ کہانی کی روایت سے جڑے ہوئے منشایاد جیسے افسانہ نگاروں نے نئے بھی اس چلن میں لکھنا قبول کر لیاتھا، کہ اس زمانے میں اس میدان میں قدم گاڑھے بغیر توجہ پانا ممکن ہی نہ تھا۔ تاہم جب اس نئی لہر سے یکسانیت کی بو آنے لگی، اور یہ تحریک فیشن زدگی کا شکار ہوگئی تو قاری اور ادیب میں مغائرت در آئی۔ 

    ایک بات یہاں دہرانے کے لائق ہے کہ سن سینتالیس میں ہجرت کرنے والے جب انسانیت کے دشمن درندوں کے نرغے میں تھے تو بھی ہمارا اَفسانہ چوکنّا تھا۔ منٹو نے ’کھول دو‘ لکھا یوں کہ سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ قیدی اثاثوں کی طرح تقسیم ہوئے تو اسی کے باکمال قلم نے ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ لکھا۔ احمد ندیم قاسمی کا ’پرمیشر سنگھ‘ قافلے سے بچھڑ جانے والے کا صرف سانحہ ہی نہیں وقت کے مخصوص پارچے پر کہانی کی مہر بھی ہے۔ یہ روّیہ اب تک چلاآتا ہے۔ کچھ دن گزرتے ہیں منشا یاد نے اَفسانہ لکھا تھا ’’کہانی کی رات‘‘ اور مجھے افسانہ لکھنا پڑا تھا ’’سورگ میں سور‘‘ یا پھر ناول ’’مٹی آدم کھاتی ہے‘‘ سچ پوچھیں تو ہمارے ادب میں ہماری قوم سانس لے رہی ہے وہ قوم جسے تاریخ کا سفاک جبر کاٹ کاٹ کر مردہ بنا رہا ہے۔ عام آدمی کی خوشیاں ان کے غم سب اس میں جھلکتے ہیں۔ یہ اندازِ نظر اور تاریخ نویسی کا یہ ڈھنگ ہمارے ادب کا شعار رہا ہے۔ 

    ستر کی دہائی کے عین آغاز میں ہم دولخت ہو گئے تھے۔ انتظار حسین، مسعود مفتی اور مسعود اشعر کے علاوہ وہ تخلیق کارجو براہ راست اس سانحے سے گزرے۔ وہ وہیں بس گئے یا وہ جو یہاں آگئے تھے، لکھنے بیٹھے تو لہورُلا گئے۔ غلام محمد، محمود واجد، امِّ عمارہ، شہزاد منظر‘نور الہدیٰ سید، علی حیدر ملک، احمد زین الدین، شاہد کامرانی اور شام بارکپوری کے لکھے ہوئے افسانے اس قومی سانحے کی سچی تصویر بناتے ہیں۔ میں جب بھی اس قومی سانحے کی بابت سوچتا ہوں تو مجھے ریاض مجید کی غزلوں کا مجموعہ ’’ڈوبتے بدن کا ہاتھ‘‘ یا د آجاتا ہے۔ 

    ضیا الحق والے اسلامی مارشل لا کہ جسے امریکی حمایت نے گیارہ سال تک پھیلا دیا تھا، بھٹو کی پھانسی، افغانستان میں امریکی مفادات کے تحفظ کو جہاد قرار دینا، روس کا ٹوٹنااور ہماری تہذیبی حمیت کا پارہ پارہ ہونا ایسے سانحات کو لیے ہوئے تھا جو اس زمانے کے ادب کا مزاج بدلتے رہے۔ پہلے امریکی جہاد اور پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک حربے کے طور پر استعمال کی جانے لگی تو عالمی سامراج کو ہم نوا بھی مل گئے۔ یہی وہ فکری انارکی کا زمانہ ہے کہ ملکوں ملکوں دہشت گردی پھیلانے اور دہشت زدہ کرکے عالمی وسائل پر قبضہ کرنے کی مہم چلی اور سوچنے سمجھنے والے چکرا کر رہ گئے۔ 

    اسی زمانے میں میڈیا کے ذریعے کامیاب ذہن سازی کے تجربات ہوئے اور قومی سطح پر بیانیہ تشکیل دینے کی باتیں ہونے لگی۔ ایسے میں ہمارے ادیب الگ تھلگ ہو کر کیسے بیٹھ سکتا تھا، اس نے اپنے قلم کا حق ادا کیا اور جم کر لکھا۔ لکھتے ہوئے، اس کی ہمیشہ کوشش رہی کہ وہ کمزور کا ساتھ دے۔ کیوں ہمارا ادیب سمجھتا ہے کہ طاقتور کی حمایت ادب کا منصب نہیں ہے۔ خالدہ حسین کا افسانہ ’’ابن آدم‘‘ پڑھ لیجئے اس میں آپ کو دہشت زدہ انسان کا چہرہ اورامریکی فوجیوں کے ہتھے چڑھ کر جنسی تشدد کا شکار ہونے والی عراقی عورت کا چہرہ دونوں نظر آجائیں گے۔ دونوں کے چہرے نفرت نے اورکرب و اذیت نے بدل کر رکھ دیے ہیں۔ 

    ہمارا ادب خود کواس عراقی عورت کے ساتھ پاتارہا ہے۔ جس پر تشدد روا رکھا گیا تھا۔ دہشت کا اگلا موسم ہماری زمین پر اترا تو سب کچھ خزاں رسیدہ نظر آنے لگا، مسجدوں، امام بارگاہوں، مزاروں پر دھماکے، ڈرون اور خود کش حملے ہماری نفسیات کو تلپٹ کرنے لگے تھے۔ جہاں جہاں دہشت کی آگ برس رہی تھی وہاں وہاں سب کچھ حتی کہ انسانیت اور اس کی مسلمہ اقدار بھی راکھ ہوتی جارہی تھیں۔ ابھی اپنے پیاروں کو دفنا کر لوٹے بھی نہ ہوتے کہ کچھ اور جنازے تیار ملتے، کہیں کہیں تو جنازہ پڑھنے والے بھی دہشت گردوں کا نشانہ ہو جاتے تھے۔ ایسے میں انسانیت پر ایمان متزلزل ہو نے لگا تھا، کہانیاں اور شاعری ایسے میں ان موضوعات سے وابستہ کیسے رہتیں جو اسے تہذیبی امی جمی والے زمانے میں مرغوب تھے، یہ اپنے مزاج کے اعتبار سے برہم ہوئیں کہ برہم ہونا بنتا تھا۔ 

    آزادی سے لے کر ٹوٹنے تک اور اب تک کے پر آشوب زمانے کے آتے آتے یوں محسوس ہونے لگا ہے جیسے دنیا یکدم سکٹر گئی ہے۔ ساری لکیریں مٹ گئی ہیں، ساری شناختیں معدوم ہو گئی ہیں۔ گلوبل ویلج بنتی اس دنیا میں اب اندر کے دُکھوں سے کہیں بڑے دکھ باہر سے آرہے ہیں۔ مارکیٹ اکانومی نے کنزومر ازم کی جو ہوا باندھ رکھی ہے عالمی سامراج کا اس سے بھی مفاد وابستہ ہے اور اس نے بھی ہمارے ادب میں ایک مزاحمت کا روّیہ پیدا کر دیا ہے۔ پھر اس دباؤ کے زمانے میں ہماری معاشرت کے اندر کے تضادات، فرقہ ورانہ تعصبات، جہالت اور اندر دبی غلاظتیں باہر پھوٹ بہی ہیں۔ ہم علم ‘تہذیب اور تربیت سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو غچہ دے کر آگے بڑھ سکتے تھے مگر اس کے ذریعے ریاستی قوت کو سامراج اور سرمائے نے ہتھیا کر سارے راستے مسدود کر دیے ہیں۔ 

    کئی کئی چینلز بظاہر کھلی آزادی کے ساتھ موجود ہیں مگر فی الاصل ایسا نہیں ہے۔ پھر یوں بھی ہے کہ ٹی وی کا ریموٹ کنٹرول ہر ایک کے ہاتھ میں یوں آگیا ہے جیسے بندر کے ہاتھ استرا۔ سب کچھ کٹ رہا ہے۔ مناظر بدل رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ثقافتی چولیں بھی ڈھیلی پڑنے لگی ہیں۔ کمپیوٹر کے ہر آئی کان کے پیچھے سے انفارمیشن کا جو سیلاب امنڈا پڑتا ہے اس کی کوئی تہذیب نہیں ہے لہٰذا بچی کھچی مثبت روایات بھی اسی ریلے میں غوطے پر غوطہ کھا رہی ہیں۔ ساری انسانیت، بازاری نفسیات اور قبضہ گیروں کی زد پر ہے۔ 

    بجا کہ جارحیت کرنے والے کو دنیا بھر کے سارے وسائل پر دسترس چاہیے اور یہ بھی درست کہ جنگ اور دہشت اسی کا پروڈیکٹ ہے، مگر اس کا احساس بھی تو ہونا چاہیے کہ ہم ادبدا کر اپنے تضادات کا خود شکار ہو رہے ہیں بنیاد پر ستی سے لے کر دہشت گردی تک ہمارا اپنا چہرہ مکروہ ہو کر سامنے آتا رہا ہے اور آرہا ہے۔ تاہم یہ امر لائق امتنان ہے کہ دہشت کے اس زمانے میں ہماری شاعری اور ہمارا ادب اس دیوزاد کو نشان زد کرتا رہا ہے اور کر رہا ہے جو ہماری کہانیوں میں کبھی ’’آدم بو، آدم بو‘‘ پکارتے آیا کرتا تھا اور ان تضادات کو بھی جو ہمارے اندر سے بدبودار گٹر کی طرح اُبل پڑے ہیں۔ 

    اُردوغزل، مقبول ترین شعری صنف
    ہماری شاعری کی مقبول ترین صنف غزل تھی، سال بہ سال وقت گزرتا رہا مگر اس کی مقبولیت میں کمی نہ آئی یہ الگ بات کہ اظہار و بیان کی نئی صورتوں کی تاہنگ بھی اس عرصے میں بڑھی جس نے نظم کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا لیکن اس سب کے باوجود غزل شاعروں کی ترجیح رہی ہے۔ اردو غزل ایک تہذیبی صنف ہے اور اپنی مضبوط روایت رکھنے کی وجہ سے، ایک ہی وقت میں آسان ترین اور مشکل ترین صنف رہی ہے۔ غزل کی اس روایت کو بنانے والوں میں میر، سودا، مصحفی، آتش، مومن، غالب، یگانہ سے اقبال تک سب نے حصہ ڈالا اور تقسیم تک آتے آتے غزل نہ تو صرف مارے جانے کے خوف سے نکلی ہرن کی دردناک چیخ رہی،نہ محض عورتوں سے باتیں کرنا یا عورتوں کی باتیں کرنایہ الگ بات کہ مجموعی اعتبار سے غزل کو دیکھا جائے تو یہ صنف ایک تہذیب کے مسلسل انہدام کی ایک مسلسل اور دردناک چیخ ہو گئی ہے اور اپنی جمالیات کے اعتبار سے نسائی حسن جیسی لطافتیں اور نزاکتیں رکھتی ہے۔ 

    دلچسپ مشاہدہ یہ رہا کہ قیام پاکستان کے بعد ترقی پسند وں کا ہدف غزل رہی جب کہ غزل نے انہی ترقی پسندوں کے لحن کو قبول بھی کیا اور کلاسیکی روایت کو بدل جانے دیا۔ ویسے غزل کا بدلنا بہت پہلے سے شروع ہو چلا تھا جس میں اقبال نے سرعت پیدا کی اور ترقی پسندوں تک آتے آتے تبدیلی کو بہت نمایاں طور پر دیکھا جاسکتا تھا۔ قیام پاکستان کے وقت صوفی غلام مصطفے ٰ تبسم، حفیظ جالندھری، احسان دانش، مجید امجد، میرا جی، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی،ساقی فاروقی، ضیا جالندھری اور دوسرے شاعر موجود تھے، کچھ نمایاں اور کچھ شناخت بنانے کی جدو جہد میں مصروف۔ 

    اسی زمانے میں عابد علی عابد نے کہا تھا، ’’لوح مزار دیکھ کے جی دنگ رہ گیا/ہر ایک سر کے ساتھ فقط سنگ رہ گیا‘‘ اور اسی زمانے میں فیض رومان اورانقلاب کو ہم آہنگ کر رہے تھے، ’’ہم نے جو طرز فغاں کی ہے قفس میں ایجاد/فیض گلشن میں وہی طرز بیاں ٹھہری ہے‘‘ تو یوں ہے کہ غزل بدلی مگر اس نے اپنی نزاکتوں کو نہ چھوڑا۔ انجم رومانی نے کہا تھا، ’’ہمیں نے آج تک اپنی طرف نہیں دیکھا؍ توقعات بہت کچھ زمانہ رکھتا ہے‘‘ تو یوں ہے کہ زمانے کی غزل سے بہت توقعات رہیں مگراس کا بدلنا بھی ایک ادا رکھتا تھا جس نے اس ادا کو نہ سمجھا وہ پٹ گیا۔ عارف عبدالمتین نے کہہ رکھا ہے، ’’میں سمندر تھا مگر جب تک رہا تجھ سے جدا؍ اپنی گہرائی کا خود مجھ کو بھی اندازہ نہ تھا‘‘، ایک تخلیقی انسان سمندر سہی مگر غزل ہی ایسی صنف رہی ہے جو انسان کو اس کے باطن کی گہرائی کی خبر دیتی ہے۔ ظفر اقبال تک آتے آتے غزل کے بدلنے اور نہ بدلنے کا سوال بہت شدت سے سامنے آیا۔ 

    اس سارے عرصے میں ناصر کاظمی، احمد مشتاق، رساچغتائی، سلیم احمد، محبوب خزاں، منیر نیازی،جون ایلیا، عطا شاد، احمد فراز، توصیف تبسم، ریاض مجید،افتخار عارف،بیدل حیدری،علی مطہر اشعر،خورشید رضوی، جلیل عالی، عبیداللہ علیم، اظہار الحق،عدیم ہاشمی، محسن احسان، پروین شاکر،جمال احسانی،ثروت حسین، حلیم قریشی، فیصل عجمی، خالد اقبال یاسرسے خالد احمد اور غلام حسین ساجد تک مجھے جیسے جیسے نام یاد آتے جا رہے ہیں لکھتا جارہا ہوں، انہی میں، اس کشور ناہید کو بھی شامل جانیے جنہوں نے کہا تھا، ’’اس قدر تھا اداس موسم گل؍ ہم نے آب رواں پہ سر رکھا‘‘ اور شاہدہ حسن اور فاطمہ حسن کو بھی۔ تو یوں ہے کہ غزل کا دامن مالامال کرنے والے ان گنت ہے۔ اور اس باب میں اچھے شاعروں کی ایک قطار ہے، ایک سے بڑھ کر ایک۔ غلام محمد قاصرکو میں کیسے بھول رہا ہوں اور محسن نقوی کو بھی۔ تنویر سپرا اور شکیب جلالی نے اپنے مزاج کی الگ غزل کہی اور ہمارے ذہنوں میں اپنے نام محفوظ کر گئے۔ انور شعور کی غزل کے میں عاشقوں میں ہوں، انورکا ایک شعر ہے، ’’دُرجِ دل ڈھونڈ کر نہال ہوں میں؍ جیسے دریافت ہو سفینے کی‘‘ تو یوں ہے کہ غزل کے باکمال شاعروں کے ہاں ہر بار آپ کو ایک دفینہ ملے گا اور لطف یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی ڈسپلن میں اردو اور سماجی علوم کہیں نیچے چلے گئے مگر شاعروں کے ہاں غزل کہنے کی لگن ویسے ہی برقرار ہے۔ 

    یقین نہیں آتا تو عباس تابش، ذوالفقار عادل، رحمان حفیظ،سجاد بلوچ، طارق نعیم، اختر عثمان، قمر رضا شہزاد، شاہین عباس، حمیدہ شاہین،فیضی،ادریس بابر،انجم سلیمی، سعود عثمانی، ضیا ترک،اجمل سراج، صاحب کس کا نام لوں کس کا نہ لوں۔ تہذیب حافی سے محسن چنگیزی تک،احمد حسین مجاہداورسعید شارق سے عمران عامی تک آتے آتے کئی نام ذہن کے افق پر چمکنے لگے ہیں مگر ناموں کا یہ سلسلہ میں یہیں روکتا ہوں کہ فی الاصل مجھے یہاں یہ کہنا ہے کہ اس صنف میں تخلیقی اظہار کرنے والوں میں کمی نہیں آئی اوران ستر برسوں کی مقبول ترین شعری صنف غزل ہی ہے۔ 

    نئی نظم، بھرپور شعری اظہار کا قرینہ
    ایک بار میں نے یہ کہہ دیا تھا کہ اردو ادب میں غزل کے بجائے نظم کی روایت زیادہ قدیم ہے تو وارث علوی کی محبوب اصطلاح میں ’’بھائی لوگ‘‘ مجھے فوراً جھٹلانے کو نکل کھڑے ہوئے تھے۔ بارہویں صدی کے آخر میں پیدا ہونے والی اردو جس علاقے میں پہنچی اور جہاں جہاں اس میں ہماری غزل نے آنکھ کھولی وہاں پہلے سے نظم کا وسیلہ اظہار پہلے سے موجود تھا کہ شاعری درس و تدریس کا بہتر ذریعہ سمجھی جاتی تھی اوراس کے لیے نظم کی صنف موزوں ترین تھی۔ مکمل بات،با معنی اور پر از اثر۔ لہذا مذاہب کی خوب خوب تبلیغ ہو رہی تھی اور نظم یہ فریضہ بخوبی سر انجام دے رہی تھی۔ خیر یہ جملے تو یونہی سرزد ہو گئے مجھے قیام پاکستان کے بعد کی نظم پر ایک ڈیڑھ بات کہنی ہے اور کہنا یہ ہے کہ وہ نظم جس کی روایت ہمارے ہاں بہت قدیم تھی پاکستان بننے کے بعد اس سے ہم نے اپنا رشتہ لگ بھگ منقطع کر لیا تھا۔ 

    جدید نظم نے اس نظم سے کوئی علاقہ نہ رکھا جو نظیر اکبر آبادی کے زمانے میں ایک انگڑائی لے کر بیدار ہوئی تھی اورنہ اس نظم کولائق اعتنا جاناجو ان سے پہلے سحرالبیان والے میر حسن، گلزار نسیم والے پنڈت دیا شنکر نسیم، قول غمیں اور زہر عشق والے مومن اور مزرا شوق دہلوی کی مثنویوں کی صورت موجود تھی۔ واسوخت، قصیدہ، ہجو، رباعیات، قطعات اور مرثیہ سب پیچھے رہ گئے حتیٰ کہ حالی بھی جو کرنل ہالرائڈ کے ایما پر ایسے مشاعروں کا اہتمام کرتے تھے جن میں طرح مصرع کے بجائے موضوع دیا جاتا تھا۔ اقبال سے نظم نے بہت کچھ اخذ کیا اوراس نے عصری حسیت سے جڑ کر اظہار کا قرینہ پالیا۔ 

    پاکستان کے ستر برسوں کی نظم کے اولین صورت گر ن م راشد، میرا جی، مجید امجد اور فیض احمد فیض بنتے ہیں۔ حمید نسیم کے مطابق فیض انسانی روابط کے شاعر تھے اورفیض کا یہ کمال بنتا ہے کہ دکھ سہتے ہوئے بھی عالم نشاط کا سا نشہ چھایا رہتا ہے۔ عجب جادو ہے کہ دل پر دستِ صبا سے دستک دیتا ہے۔ فیض اپنی نظم اور غزل، دونوں کے سبب مقبول ترین شاعر ہیں مگر واقعہ یہ ہے کہ نئی نظم نے ن م راشد کے اسلوب کی پیروی کی۔ نظم کا موجود اسٹریکچر ٹوٹ چکا تھا اور اسے توڑنے میں اور نیا سانچہ بنانے میں راشد اور میرا جی بہت کام کیا۔ جس معنیاتی دنیا سے راشد اور میرا جی کلام کرنا چاہتے تھے اس کے لئے نئی لغت درکار تھی۔ 

    نئے اسلوب کے لئے راہ ہموار کرنا تھی اور نئی فکر و احساس کے اجالے کے لئے منجمد تاریکی کو کاٹنا تھا۔ اُنہیں جس معاشرتی گھٹن کا احساس شدت سے تھا اور جن اخلاقی قدروں کو وہ جھوٹا سمجھ رہے تھے وہ بڑا حوصلہ مانگتی تھیں اور یہ حوصلہ راشد اور میرا جی میں تھا۔ جس ماضی کی راشد نفی کر رہے تھے، اس ماضی کی نظم سے کٹنا ان پر لازم ہو گیا تھا، صرف نظم سے نہیں ماضی کے سارے شعری وسائل سے۔ اپنے تہذیبی ماضی سے بھلا مکمل طور پر کوئی کیسے کٹ سکتا ہے؟ راشد بھی جدا نہ ہو سکے اور یہ ان کی ناکامی نہیں ان کی نظم کی کامیابی بنتی چلی گئی۔ میرا جی کے ہاں راشد کے مقابلے میں فکری لپک کم سہی مگر داخلی سوزو گداز کہیں زیادہ تھا۔ ناقدین نے ان کا سلسلہ میرا جی کی اپنی محرومیوں سے جوڑا ہے اور کسی حد تک یہ بات درست بھی معلوم ہوتی ہے۔ تاہم مجھے کہنے دیجئے کہ میرا جی راشد کی طرح ماضی سے بگڑے ہوئے نہیں تھے۔ 

    لہذا ماضی کی زندہ روایات سے جڑنے کو عیب نہ گردانا۔ وہ تسلیم کرتے تھے کہ تاریخ اور نسلی یادیں مل کر گزرے ہوئے زمانے کو بھی اپنا تجربہ بنا دیا کرتی ہیں۔ وہ یہ بھی کہ آدمی کا شعور ماضی، حال اور مستقبل سے مل کر متشکل ہوتا ہے۔ مجید امجد کو ذرا دیر مانا گیا تاہم مان ہی لیا گیا اور درست مانا گیا کہ ا نہوں نے انسان کی حسی اور لاشعوری زندگی کو نظم میں سمو کر اسے عجب طرح کی ندرت سے ہمکنار کیا تھا۔ مجید امجد کے ہاں وقت زندہ بدن میں دل کی طرح دھڑکتا ہے۔ 

    جہاں مجید امجد کی نظم ہے وہاں سے ماضی بھی جھلک دے جاتا ہے اور مستقبل کا چہرہ بھی درخشاں رہتا ہے کہنہ وقت کی بوڑھی کبڑی دیواروں کے پاؤں چاٹتی گلیاں ہوں یا گزرے دنوں کے ملبے تلے ٹوٹتے فرش اور اکھڑتی اینٹیں، اشکوں سے معمور شامیں ہوں یا پھر چلمنوں سے پرے کا منظر جو نظر نہیں آتا مگر نظر میں رہتا ہے کہ وہ سب مجید امجد کی نظم کا حصہ ہو گیا ہے۔ اس کے بعد تو نظم نگاروں کا ایک سلسلہ ہے جو اوپر کے شاعروں میں سے کسی ایک سے اپنا سلسلہ جوڑتا ہے۔ احمد فراز، احمد ندیم قاسمی، افتخار عارف، عارف عبد المتین،منیر نیازی ہوں یا وزیر آغا، جیلانی کامران،ساقی فاروقی، ضیا جالندھری، آفتاب اقبال شمیم،ریاض مجید،حسن عابدی، احسان اکبر اور دوسرے نظم نگار سب اپنے اپنے محبوب قرینوں سے جہانِ معنی و جمال کے مقابل ہوتے رہے ہیں۔ 

    لگتا یوں ہے کہ انیس ناگی اور افتخار جالب ماضی کا قصہ ہو گئے ہیں مگر یوں ہے کہ نئی نظم کے تذکرے کا وہ بھی لازمی حصہ ہیں۔ نظم کی اقلیم کے ان بڑے علاقوں سے ذرا فاصلے پر اسی عرصے میں توصیف تبسم، قمر جمیل، عرش صدیقی، اور سرمد صہبائی اپنی اپنی بستیاں بساتے ہیں۔ جلیل عالی سے لے کرعلی اکبر عباس، علی اصغر عباس اور اختر عثمان تک عمدہ غزل کہنے والے، غزل سے فرصت لے کر ایسی نظمیں تخلیق کر دیتے ہیں توجہ کھینچتی رہتی ہیں۔ پروین شاکر نے نسوانیت کے مشرقی احساس کو نظم کا حصہ بنایا تھا زہرہ نگاہ اُس ظلم کی کہانی نظم کی زبان سے سناتی ہے جو عورت سہہ رہی ہے اور سہے جاتی ہے۔ فہمیدہ ریاض، کشور ناہید سے حمیدہ شاہین ثروت زہرہ تک شاعرات کا ایک سلسلہ ہے جو اپنے عورت ہونے اور سب کچھ اپنی نظر سے دیکھنے پر اصرار کرتا ہے۔ 

    یاسمین حمید نے عورت کے اندر موجود انسانی وجود سے مکالمہ کیا۔ عرش صدیقی اور احمد شمیم کا تذکرہ تو رہے جاتا ہے حالاں کہ عرش صدیقی نے افسانہ لکھا تو یوں کہ اپنی چھب الگ سے دکھائی اور نظموں میں دسمبر کی ایسی طرح ڈالی کہ آج کے نظم نگار بھی اس پر طرح لگانا باعثِ فخر گردانتے ہیں۔ احمد شمیم، ثمینہ راجہ، منصورہ احمد اور جاوید انورکم جیئے، لیکن جو لکھا خوب لکھا۔ ستیہ پال آنند کا دعویٰ ہے کہ انہیں بھی پاکستانی نظم نگار سمجھا جائے حیرت ہوتی جب انہیں اس عمر میں بھی پوری تخلیقی توانائی کے ساتھ نظم سے وابستہ دیکھتا ہوں۔ ثروت حسین، سارا شگفتہ، ذیشان ساحل افضال احمد سید، حارث خلیق سب کا کام ایسا ہے کہ توجہ کھینچتا ہے۔ 

    علی محمد فرشی، نصیر احمد ناصر،ابرار احمد،وحید احمد، اقتدار جاوید،رفیق سندیلوی اور میرے محبوب انوار فطرت اور فرخ یارسے لے کر پروین طاہر اور سعید احمد، فہیم شناس کاظمی، الیاس بابر اعوان، قاسم یعقوب، مقصود وفا،مبین مرزا،عمران ازفر،رفعت اقبال، ارشد معراج، سرمد سروش، شاہد اشرف،رفاقت رازی، خلیق الرحمن کس کس کا نام لوں، بہت سے نام میں پہلے ہی ایک مضمون میں لے چکا ہوں جنہیں یہاں نہ ملے وہ وہاں دیکھ لیں کہ وہ سب میرے لیے بہت اہم ہیں۔ 

    کہنا یہ چاہتا ہوں کہ اب نظم بھی کم مقبول صنف نہیں رہی ہے۔ اس کے تیور بدل گئے ہیں زبان بدل گئی ہے۔ پابند نظم کا چلن کیا بدلا کہ اس نے تخلیقی سطح پر حیران کن جست لگائی ہے جدید نظم اور نئی نظم نے نثری شاعری یعنی نثم کو بھی دل سے قبول کرکے اپنے اوپر نئے امکانات کے دریچے کھول کیے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ میں بہ اصرار کہتا آیا ہوں کہ نئی نظم اتنی توانا ہو گئی ہے کہ اُس نے زندگی سے اصل معانی کشید کرنے کا فریضہ، مہمل نظریہ سازوں کی مدد کے بغیر، ادا کرنے لگی ہے۔ نئے منظر نامے میں نئی نظم حیات انسانی کے معلوم اور نا معلوم علاقوں پر نور کی سی سرعت اور لطافت کے ساتھ پہنچتی ہے اور اپنے حصے کے سچ کی وسعت کو اپنے فراخ سینے میں بھید کی طرح سمیٹ لیتی ہے۔ 

    اُردو افسانے کا منظر نامہ
    جب پاکستان بنا تب تک افسانے کا منظر نامہ جن ناموں سے بنتا تھا ان میں راشدالخیری، منشی پریم چند، خواجہ حسن نظامی، سجاد حیدر یلدرم، اوپند ر ناتھ اشک، حیات اللہ انصاری، مجنوں گورکھ پوری، میرزا ادیب، احمد علی، سجاد ظہیر،عزیز احمد، عصمت چغتائی، راجندر سنگھ بیدی،سعادت حسن منٹو، غلام عباس،حسن عسکری، قرۃ العین حیدر،احمد ندیم قاسمی، اشفاق احمد اور انتظار حسین تک، سب اپنا پنا حصہ ڈال رہے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ اس میں کچھ اور رنگ بھرنے کو انور سجاد، منشایاد، خالدہ حسین، رشید امجد، اسد محمد خاں جیسے لوگ آگئے۔ اسلم سراج الدین، خالد طور، سید راشد اشرف، نیلوفر اقبال، آصف فرخی، مبین مرزا، نیلم احمد بشیر، اے خیام، یعقوب شاہ غرشین، اخلاق احمد، آمنہ مفتی، عرفان جاوید، زین سالک سے لے کر اس خاکسار تک اور اس کے بعد بھی ایک زرخیز نسل میدان میں اتر چکی ہے اور سب کی ایک ہی دھن تھی کہ افسانہ لکھنا ہے اور مختلف ہو کر لکھنا ہے۔ 

    شاعری کا منظر نامہ اپنے وقت اور اپنے مکاں کے اعتبار سے ایک التباس پیدا کرتا ہے؛ دور سے دیکھو تو دہکتی ریت پر لہریں لیتا پانی، قریب جاؤ تو فقط سراب؛ جب کہ افسانے کو اپنا منظر یوں اُجالنا ہوتا ہے جیسے آسمانی نور زمین پر اُترتا ہے تو سب کچھ واضح ہوتا چلا جاتا ہے مکاں بھی وقت بھی اور اس سے بندھی ہوئی ساری زندگیاں بھی؛ جسموں کے اندر مقید زندگیاں۔ ہاں کہا جاسکتا ہے کہ زندگی ایک دام ہے، ایک پھندا، مگر افسانے کو اس جسم میں قید آدمی کے امکانات کو جو جسم سے باہر بھی بکھرے ہوئے ہوتے ہیں، انہیں تلاش کرتا ہوتا ہے۔ یادرہے کہ افسانہ لکھنا، واقعہ لکھنا یا چند واقعات کی تجمیع کا نام نہیں ہے یہ تو نادریافت کی دریافت ہے۔ اُس کا تعاقب ہے جس کی شناخت کسی بیان سے ممکن نہیں ہے۔ 

    سو، لکھنے والے اس عرصے میں فکشن کا اپنا تخلیقی بیانیہ مرتب کرتے رہے۔ وقت بڑا ظالم ہے کہ وہ اُردو افسانے کے منظر نامے سے ان ساری افسانہ نماکہانیوں یا انشائی تحریروں کو خود بخود الگ کرتا آیا ہے، جو، کسی مطالبے پریامحض فیشن میں لکھی گئیں۔ ہم دور کیوں جائیں افسانے کا موجود منظر نامہ علامتی افسانہ نگاروں کے زمانے سے جڑا ہوا ہے اور اس سے پہلے ترقی پسندوں کا چرچا تھا۔ وقت کی چھاننی سے بہت کچھ چھن چکا۔ کھرا کھوٹا الگ ہوا۔ اب ہم اس عطا کو بھی صاف صاف دیکھ سکتے ہیں جو ترقی پسندوں کی عطا تھی اور جدیدیت پسندوں کی بھی۔ ترقی پسند افسانے کی پہلی نشانی یہ تھی کہ وہ خارج سے بہت مضبوطی سے جڑا ہوا ہوتا۔ طبقاتی شعور کے پانیوں سے اس کی مٹی گوندھی جاتی۔ اس کو انقلاب کا نعرہ عطا کیا جاتا۔ ایسے میں لکھنے کا جو قرینہ بن سکتا تھا وہ بنا۔ یہی کہ کرداروں کی زبان اس طبقے سے لی جائے، جسے افسانہ نگاروں کا یہ گروہ نظریاتی سطح پر عزیز رکھنے کا دعویٰ رکھتا تھا۔ افسانے کے اختتام میں عمل کی ترغیب ڈال لی جاتی۔ یہ ایک لحاظ سے افسانے کی تخلیقی قرآت کے امکانات کا اتلاف تھا۔ زندگی جس طرح موجود تھی اور جتنے رُخوں سے موجود تھی، وہ اہم نہ رہی، اس کی مقصدیت اہم ہو گئی۔ 

    آدرش اہم ہو گیا توجذباتی اور نظریاتی حوالے تیکنیک اور تخلیقی عمل کی آزادی کو مجروح کرنے لگے۔ بیانہ اکہرا ہوکر محض بیان ہو گیا تو افسانے میں واقعہ اور واقعیت حاوی ہوئی اور تخلیقی زبان اپنے جوہر دکھانے سے کترانے لگی۔ تخلیقی زبان سے اس افسانے میں گہرائی پیدا ہو سکتی تھی، جہاں اسے موقع دیا گیا اس میں گہرائی پیدا بھی ہوئی کہ یہ گہرائی انسانی بطون سے مکالمہ کر سکتی تھی مگر ترقی پسندوں پر جن عذابوں کو لکھنا فرض ہواتھا، ان میں اس بھری کائنات میں اکیلے رہ جانے والا آدمی، طبقاتی ہجوم کے اندر کہیں گم ہو گیا تھا۔ ترقی پسند افسانے کے رد عمل میں سامنے آنے والے جدید افسانے کی طرف؛ جو فی الاصل بغاوت کا افسانہ تھا۔ اس افسانے میں شعور کی رو، داخلی خود کلامی،واحد متکلم کے صیغے کا استعمال، انشائی زبان، اختصار کے لیے اشاریت جیسے بنیادی عناصر کو صاف صاف آنکا جا سکتا ہے۔ 

    اس افسانے میں اُس داخلی شخصیت کا بیان ہونے لگا جو اپنے خارج میں کہیں نہیں ہوتی تھی، انتشار معنی یا معنویت کی معدومیت اسے یوں مرغوب تھی کہ کائنات کے اندر فرد اپنی معنویت کھو بیٹھا تھ۔ یہ افسانہ کچھ زیادہ ہی سوچنے والا تھا لہذا اس میں سے مقامی اور ثقافتی رنگ غائب ہوگیا، اجتماعی زندگی قابل ذکر نہ رہی، فرد اہم ہوگیا اور اس کا وجود۔ وجود نہ کہیں، وجودیت کے عذاب کہہ لیں۔ اسلوب کاری کے لیے نثری حیلوں کا استعمال اس کا وصف خاص تھا۔ بجا کہ یہ دونوں انتہا پسندانہ رویے تھے اور آخرکار تیکنیکی جمود کا شکار ہو گئے، مگر واقعہ یہ ہے کہ جس طرح سیلاب آتا ہے اور اپنے پیچھے زرخیز مٹی بچھائے چلا جاتا ہے، ان انتہاپسندانہ رویوں سے، افسانے نے بہت کچھ اخذ کیا اور پچھلے تجربوں کو یکسر مسترد نہیں کیا۔ 

    اب افسانہ انحراف کی روش پر نہیں انجذاب اور امتزاج کی روش اپنا چکا تھا۔ اس کے لیے کہانی اور ماجرائیت ممنوعہ علاقہ رہا علامت۔ تاہم ستر برس کے تجربات سے آج کے تخلیق کار نے سیکھا کہ متن میں یہاں وہاں علامت کے پیوند لگانے کی بجائے، پورے افسانے کواس میں موجود کہانی سمیت، اس کی نامیاتی وحدت کے ساتھ علامت بنایا جاسکتا ہے۔ اردو افسانہ حقیقی دنیا (ہر چند کہیں ہے؛ نہیں ہے) کے مقابل تخلیقی تیقین کے ساتھ فکشن کی دنیا کی تعمیرکر رہا ہے؛ بالکل اُسی جیسی مگر اس سے کہیں زیادہ سچی اور حقیقی۔ حقیقی دنیا تعقل کی دنیا ہے اور اسی کی تظہیرکی پابند بھی، جب کہ افسانے کی دنیا، تعقل سے کہیں زیادہ ایک ذہنی کیفیت سے بنتی ہے اور ایک ذہنی کیفیت سے ہی اس کی تظہیر ممکن ہو رہی ہے۔ حقیقی دنیا جذبات کی دنیا ہے، جب کہ اردو افسانے کی دنیا جذبیت سے متشکل ہورہی ہے۔ اِسی جذبیت سے کہانی کی متھ بنتی ہے جو راست ابلاغ کی بجائے حسی تصویری بناتی ہے یا پھرحسوں کو مختلف سطحوں پر متحرک کرتی ہے۔ 

    اردو ناول، قیام پاکستان کے بعد
    تقسیم سے پہلے کے منظر نامے کی جانب دیکھیں تو ’’شکست‘‘ (کرشن چندر) اور ’’گریز‘‘ (عزیز احمد) جیسے ناولوں کی طرف دھیان جاتا ہے۔ وہاں سے کچھ اور پیچھے نذیر احمد کے ’’ابن الوقت‘‘ اور ’’فسانہ مبتلا‘‘ یا دوسر ے ناولوں تک یا پھر اس سے بھی پیچھے کے داستانی ادب تک ہمارے پاس ایک بھرپور روایت تھی مگر واقعہ یہ ہوا کہ ہم نے داستان اور قصہ کہانی کی روایت کو پیچھے چھوڑ دیا، حقیقت سے بعید قصے ہوں یا مقصدیت کے بوجھ سے لدی ہوئی کہانیاں، دونوں ہمیں لطف نہ دے رہے تھے۔ خیر، مرزا ہادی حسن رسوا کے ناول ’’امراؤ جان ادا‘‘ کو جس نے دیکھا ٹھٹک کر دیکھا، پڑھا لطف لیا اور یوں اس صنف کا راستہ روشن ہوتا چلا گیا۔ پریم چند کے ’’گؤدان‘‘ کو پڑھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس صنف کی راہ متعین ہو چکی تھی۔ 

    بعد ازاں جن ناول نگاروں نے اس راہ کے کانٹے چنے اور تخلیقی عمل کو عظمت کی راہیں سجھائیں ان میں سجاد ظہیر، عصمت چغتائی، عزیز احمد، کرشن چندر اور قرۃ العین حیدر کے اسما ء شامل ہیں۔ سچ پوچھیں تو اکیلی قرۃ العین حیدر نے اس باب میں جو عطا کیا ہے وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آیا ہے۔ قرۃ العین حیدر کا ناول ’’آگ کا دریا‘‘ ۱۹۵۹ء میں شائع ہوا تھا۔ آزادی کے بعد عزیز احمد نے ’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘ جیسا اہم ناول دیا۔ شوکت صدیقی کا ’’خدا کی بستی‘‘ اور ’’جانگلوس‘‘، نثارعزیز بٹ کے ’’نگری نگری پھر ا مسافر‘‘ اور ’’کاروان وجود‘‘ سے لے کر ممتاز مفتی کے ’’علی پور کا ایلی‘‘ جمیلہ ہاشمی کے ’’تلاش بہاراں‘‘، الطاف فاطمہ کے ’’دستک نہ دو‘‘، امراؤ طارق کے ’’معتوب‘‘ خدیجہ مستور کے ’’آنگن‘‘، انور سجاد کے ’’خوشیوں کا باغ‘‘ اور فہیم اعظمی کے جنم کنڈلی تک چلے آئیں ہمیں فکشن کی دنیا بھیدوں بھری لگے گی۔ عبد اللہ حسین کے ناول ’’اداس نسلیں‘‘ کواس کے بے ساختہ مکالموں کی وجہ سے پاکستانی بیانیے کا پہلا ناول قرار دیا گیا۔ 

    انتظار حسین کے ’’بستی‘‘ کوبکر انعام کے لیے شارٹ لسٹ ہوا تو سب نے ان کے دوسرے ناولوں ’’چاند گہن‘‘ اور ’’آگے سمندر ہے‘‘ کی جانب بھی متوجہ ہوئے۔ مستنصر حسین تارڑ نے ناول میں اپنے تخلیقی جو ہر کی دھاک بٹھائی۔ ’’بہاؤ‘‘ اور ’’راکھ‘‘ جیسے ناولوں پر مصنف بجا طور پر فخر کر سکتا ہے۔ اکرام اللہ کا ’’گرگ شب‘‘، بانو قدسیہ کا ’’راجہ گدھ‘‘، طارق محمود کا ’’اللہ میگھ دے‘‘ مظفر اقبال کا ’’انخلاع‘‘ اور انقطاع‘‘ کا ذکر اوپر ہونا چاہیئے تھا۔ عاصم بٹ کے ’’دائرہ‘‘ آمنہ مفتی کے ’’آخری زمانہ‘‘ نجم الدین کے ’’کھوج‘‘ اوراختر رضا سلیمی کے ’’جاگے ہیں خواب میں‘‘ اور ’’جندر‘‘ تک چلے آئیں تو اس صنف میں لکھنے والوں کی ایک کہکشاں نظر آتی ہے پاپولر ناول لکھنے والوں پر الگ سے بات ہونی چاہیے کہ ان کا ذکر چھڑ گیا تو بات پھیلتی چلی جائے گی۔ سو ہم اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ ان ستر برسوں میں اس صنف میں بھی ہمارا دامن مالا مال ہوا ہے۔ 

     

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے