Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پنچ آہنگ

وسیم فرحت علیگ

پنچ آہنگ

وسیم فرحت علیگ

MORE BYوسیم فرحت علیگ

    کسی شاعر کو فوری شہرت دلانے والی واحد صنفِ سخن غزل ہے۔چہ جائیکہ غزل کو اس کارِ خیر کی بڑی بھاری قیمت بھی چکانی پڑتی ہے۔تاہم شاعر صاحب فوری طور پر غزل کے توسط سے مشہور ہوجاتے ہیں۔موجودہ دور جدید تکنیک و نئے مزاج کا دور ہے۔تعمیر نما تخریب اور تخریب نما تعمیر اس دور کاخاصہ ہے۔فی زمانہ شہرت، قابلیت کے رہین ِ منت نہیں ۔اگلے وقتوں میں شہرت کا تاج صرف انھیں شعراء کے سر کی زینت بنتا تھا جو اس قابل گردانے جاتے۔یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔اونے پونے داموں پر موقر،غیر موقر،ادبی،غیر ادبی و نیم ادبی رسائل میں خود پر ’’گوشے‘‘ شائع کروا لینا اب دور از کار معلوم نہیں پڑتا اور نہ ہی سرشت ِ انسانی کے خلاف۔

    ’’لکھنے‘‘ سے زیادہ ’’چھپنے‘‘ کا رجحان ہی اس کا اصل محرک ہے۔میری اپنی دانست میں یہ یکسر دماغی خلل ہے۔کہ اس مقام پر شاعر اظہار ِ مافی الضمیر کے لیے نہیں بلکہ صرف ’’نمائش‘‘کی خاطر قلم اٹھاتا ہے۔شاعری سراسر تفریح طبع کا ذریعہ بن کر رہ جاتی ہے۔اس نہج کی شاعری میں فکر کا مادہ تو ضرور شامل ہوگا لیکن مذکور ہ فکر ’’خالص‘‘ کاروباری نوعیت پر محمول ہوتی ہے۔ادبی سفر رفتہ رفتہ ابتذال کی جانب رواں ہوجاتا ہے۔اس جذبے کا سب سے بڑا فائدہ ہمارے ادبی رسائل کے مدیران حضرات کو پہنچتا ہے۔اولاً انھیں معاشی مسائل سے مطلق دوچار ہونے کی نوبت نہیں آتی( کہ صاحب ِ گوشہ اچھی خاصی رقم کا انتظام کر دیتا ہے)اور ثانیاً ’’مخدومی‘‘ مدیران کو ترمیم و تنسیخ،مشمولات کے انتخاب میں سر کھپانے نیزادارتی قینچی چلانے کی زحمت نسبتاََ کم اٹھانی پڑتی ہے(کہ گوشے مابعدرسالے میں جگہ ہی کتنی بچتی ہے کہ ان امور پر توجہ دی جائے) ۔

    قوالی نما مشاعروں نے بھی ادب کی ساخت کو بری طرح پامال کیاہے۔خوش گلو سطحی قسم کا شاعر اپنی مترنم آواز کے بوتے پر چل پڑتا ہے اور تحت اللفظ والے شعراء حضرات ہر شعر سے پہلے لمبی لمبی تمہیدیں باندھ کر سامعین کو بالجبر اپنا شعر سمجھانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔آل انڈیا مشاعروں میں دو تین مرتبہ شرکت کرلینے والے شاعر صاحب جوش و اقبال کے ہم پلہ ہوجاتے ہیںاور پھر ’’ نے ہاتھ برگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں‘‘ کے عین مصداق صد فی صد کاروباری شاعری منصہء شہود پر نازل ہوتی ہے۔شاعری بر وقت ِ مشاعرہ نیز شہر ِ مشاعرہ کے ہم مزاج ہونے لگتی ہے۔(کہ جہاں مشاعرہ ہو، وہاں کی ’’عوام‘‘ جس نہج کی شاعری پسند کریگی)۔قبلہ یوسف ناظم نے ایک نہایت لطیف نکتہ بیان کیا کہ’’اردو کا شاعر پیدا ہی بڑا ہوتا ہے‘‘۔مذکورہ کلیہ کے بعد مجھے مشاعرہ بازشعراء پر مزید لکھنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔خواجہ الطاف حسین حالیؔ نے فطری شاعری کے ظہور میں آنے کی عرق ریزی کی تعریف یوں بیان کی ہے کہ۔

    خشک سیروں تن ِ شاعر میں لہو ہوتا ہے

    تب نظر آتی ہے اک مصرعہء تر کی صورت

    موجودہ دور کے مشاعرہ و گوشہ باز شعراء اکرام مولانا حالی کے مذکورہ شعر کی ضد ہیں۔

    مندرجہ بالا تمام حالات سے قطع نظر ماضی قریب میںعلاقہء برار سے کچھ ایسے نابغہ فنکار گزرے ہیں جو ذرائع ابلاغ سے بے نیاز، ادب کی آبیاری میں سر گرداں رہیں۔جن کے نزدیک شاعری اظہار کا ذریعہ ہی نہیں تھی بلکہ وقت ِ ضرورت بطور ہتھیار بھی بروئے کار آتی رہی۔انسانی کرب کی کڑواہٹیں،زندگی کی رنگارنگ تصویریں،عدم و وجود کے حقائق،داخلی کرب و خارجی احساسات سے بھرپور شاعری ان بزرگوں کے یہاں پائی جاتی ہے۔میں چند ایک ایسے ہی بزرگوں سے قارئین کو روشناس کرنا چاہتا ہوں جو واقعی اس تحسین کے اہل تھے جو آجکل ان کے پاسنگ میں بھی نہ بیٹھنے والے حضرات حاصل کر چکے ہیں۔بقول حفیظؔ جالندھری۔

    کار ِ مغاں یہ قند کے شربت بیچنے والے کیا جانیں

    تلخی و مستی بھی ہے غزل میں ،خالی رس کی بات نہیں

    ہر چند اس نہج کے شعراء کی فہرست بھی طویل ہے،تاہم چندے یہاں پیش کیے جاتے ہیں۔

    قبلہ غلام حسین رازؔ بالاپوری صاحب اسی سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں۔بالاپورشہر کے علمی ماحول میں گلشن ِادب کی لہویابی کرنے والے چند بزرگ شعراء میں آپ کا شمار ہے۔راز صاحب کی شاعری میں روایت کی علمبرداری کے ساتھ موجودہ عہد کی تلخ حقیقتیں بھی روشن ہیں۔ان کی شاعری لہو کو وقتی ا بال دینے والی شاعری ہرگز نہیں ہے بلکہ ہر عہد کے پیمانوں پر کھرا اترنے والی شاعری ہے۔تغزل سے مزین ان کی غزلیں حسن و عشق کی وہ وارداتیں رقم کرتی ہیں کہ طبیعت عش عش کر اٹھے۔معاشرتی حقیقتوں نے ان کے کلام میں جذب ہوکر وہ رنگ اختیار کیا کہ نعرہء احتجاج بھی نغمہء جاوداں کی صورت اک ادائے مستانہ سے سامنے آتا ہے۔موصوف تا حال نوے کے پیٹھے میں بھی ادب کو سینچ رہے ہیں۔بے حد ذہین،بلا کے خلاق،عملی و ادبی زندگی میں ذبردست فعال انسان جیسی صفات سے آپ کی حیات منور ہے۔خدا انہیں طویل عمر و صحت ِ کلی ّ عطا کرے۔آمین۔

    ’’مشت ِ نمونہ از خروارے‘‘

    ؎ ہزار ناز رہا قدرت ِ بیاں پہ ہمیں

    مگر وہ حرف ِ تمنا کہ جو کہا نہ گیا

    ؎ ادب میں،حلقہء احباب میں ،سیاست میں

    جہاں جہاں بھی رہے ہم ،کھلی کتاب رہے

    ؎ چشمہ ہوں میٹھے پانی کا صحرا کی گود میں

    اقرار ہے مجھے کہ سمندر نہیں ہوں میں

    مرحوم عبدالصمد جاویدمتخلص بہ علامہ گنبد،بلا کے نباض فطرت آدمی،غضب کی ادب شناسی،شاعری کے علاوہ دیگر فنون میں بھی ماہر۔ علامہ گنبد اپنے وقت کی سب سے زیادہ چونکا دینے والی آواز رہے۔طنزیہ شاعری کے پیکر میں آپ نے ایسے ایسے کرشمے دکھائے کہ اہل ِ برار منہ تکتے رہ گئے۔طنزیہ مزاحیہ شاعری کے عمومی معیار کو اپنے واجب مراتب میں برتنے والے برار کے واحد شاعر۔دو ٹوک اور غیر مصلحت اندیش کلامی ان کا خاصہ رہی ۔قول و فعل میں یکسانیت سے انھیں سروکار تھا۔’’ ہم لوگ‘‘ جیسے موقر روزنامے کے روح ِ رواں تھے۔روزنامے نے سیاستدانوں نیز ارباب ِ حل و عقد کے ہوش اڑا دیے۔’’ہم لوگ‘‘ اپنے وقت کا خاصہ متاثر کن اخبار مانا جاتا رہا ہے۔آپ کے مضامین میں بھی گہرا طنز دیکھا جا سکتا ہے۔بطور نمونہ چند اشعار۔

    ؎ فائر انجن کو خبر کیجیے فوراً آئے

    کپڑا بازار سے کچھ شعلہ بدن جاتے ہیں

    ؎ مکاں کی جستجو تھی بمبئی میں

    حدودِ لا مکاں تک آ گئے ہم

    ؎ آنسوئوں میں بڑی لذت تھی نہاں پہلے بھی

    اک طرف بیٹھ کے رونے میں مزا آج بھی ہے

    مرحوم غنی اعجازؔ صاحب اپنے پیش روئوں سے بالکل منفرد و مختلف لب و لہجہ رکھنے والے شاعرتھے۔ترقی پسند تحریک و جدیدیت کے درمیانی عہد میںآپ کی شاعری کو دیکھا جا سکتا ہے۔رومانیت بذات ِخود کسی نظریاتی تحریک کی محتاج نہیں۔کسی عہد کے حالات کی رہین ِ منت نہیں۔غزل میں عارض و گیسو کی تعریف کے ساتھ ساتھ ٹھاٹھیں مارتا ہوا انسانی کرب غنی اعجاز صاحب کی شاعری کا خاصہ ہے۔ہر چند کہ کچھ مقتدر ناقدین ِ ادب انھیں ’’جدیدیت ‘‘کے زمرے میں شمار کرتے ہیں،لیکن بقول مولوی عبدالحق’’ ہر اچھا شعر ہر عہد میں جدید ہی رہیگا پھر چاہے وہ دو سو برس پرانا ہی کیوں نہ ہو‘‘ کے مصداق مرحوم غنی اعجازؔ صاحب کو کسی ایک خانے میں رقم کرنا،مرحوم پر زیادتی کے مترادف ہوگا کہ مرحوم کی شاعری کثیرالجہت تھی۔

    بطور نمونہ چند اشعار۔

    ؎ لوگ خوش ہیں اسے دے دے کے عبادت کا فریب

    وہ مگر خوب سمجھتا ہے،خدا ہے وہ بھی

    ؎ اف یہ یادوں کا تسلسل یہ خیالوں کا ہجوم

    چھین لی آپ نے مجھ سے مری تنہائی بھی

    ؎ بل پہ خوشیوں کے نہ ٹک سکتے تھے مسکن روح کے

    جسم کے خیمے غموں کی ڈور سے تانے گئے

    ؎ دشمنوں کو بھی خلوص ِ دل سے اپنانے گئے

    ہم کہ اپنی سادگی سے ہر طرف جانے گئے

    خلیل فرحتؔکارنجوی کے متعلق ڈاکٹر محبوب راہی صاحب کی رائے درج کر رہا ہوں کہ وہ میرے تجزیہ سے بہتر ہے۔

    ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں ،

    ’’آج اپنے محترم ،مخلص اور بلند قامت دوست کے فن پر خامہ فرسائی کی سعادت مجھے حاصل ہورہی ہے جو میرے ابتدائی مشق سخن کے زمانے میں علاقے بھر میں خاصہ مشہور و معروف ہوچکا تھا۔ میدان سخن میں جن دنوں میں گھٹنوں کے بل رینگتا ، لڑکھڑاتا چل رہا تھا،اس کا اشہبِ فکر میدانِ شعر میں چاروں کھونٹ سرپٹ دوڑ رہا تھا۔وہ جو مشاعروں کی جان ہوا کرتا تھا ۔ جس کی موجودگی مشاعرے کی کامیابی کی ضامن ہوتی۔ جو اپنی جسمانی و جاہت اور فکری بلند قامت کے ساتھ جب مائیک پر آتا تو محفل پر سناٹا چھا جاتا اور جب اپنی پاٹ دار آواز میں بلند آہنگی، خود اعتمادی اور بیباکی کے ساتھ فکر و فن کی فلک آسا بلندیوں سے ہمکنار اشعار ایک ادائے مستانہ کے ساتھ سناتا تو ہر شعر پر نعرہ ہائے دادو تحسین کا وہ غلغلہ اٹھتا کہ مشاعرہ گاہ کی چھتوں کو سنبھالنا دشوار ہوجاتا۔ وہ جو فن کی باریکیوں پر گہری نگاہ رکھتا ہے۔ فنی معائب اور چھوٹی بڑی لغزشوں پر غیر مصلحت پسند انہ اپنے انداز میں برسرِ محفل لہجۂ بیباک میںٹوکنے والا، نیز شعری محاسن پر کھل کر داد دینے والا، اپنے دور کا علاقۂ برار کا بلا مبالغہ سب سے اچھا اور سچا شاعر۔۔خلیل فرحت ایک وسیع المطالعہ ،بیحد ذہین اور طباّع، غضب کی قوتِ حافظہ کے مالک ‘ایک نہایت خوش وضع ‘خوش طبع ‘خوش اطوار ، خوش گفتار ‘پر بہارِجانِ محفل قسم کے شاعر ہیں۔‘‘

    خلیل فرحت ؔ کارنجوی صاحب کی شاعری اقبال کے اس شعر کی عکاس ہے کہ۔

    ؎ خرید سکتے ہیں دنیا میں عشرت ِپرویز

    خدا کی دین ہے سرمایہء غم ِ فرہاد

    بطور نمونہ چند اشعار۔

    ؎ اے داورِ محشر ہمیں فردوس عطاہو !

    دنیا میں جہنّم کی سزا کاٹ چکے ہیں

    ؎ دل سے مرے تنہائی کی شدّت نہیں جاتی

    اب تو بھی چلا آئے تو وحشت نہیں جاتی

    ؎ موت نے کفن دے کر تن کی آبرو رکھ لی

    ہوچکا تھا بوسیدہ زندگی کا پیراہن

    ؎ ستارے،پھول،شبنم،چاندنی ، موتی،شفق،غنچے

    حسیں شئے کوئی ہو ہم عکس جاناناں سمجھتے ہیں

    ؎ بہاروں کو ترس جائے گا گلشن ہم نہ کہتے تھے!

    خزاں پروردہ ہاتھوں میں جہانِ رنگ و بو کب تک

    ؎ اپنے اپنے سفر پر ہیں کب سے رواں، پھر بھی کیا بات ہے دونوں تھکتے نہیں

    آپ راہوں میں کانٹے بچھاتے ہوئے ،ہم زمینوں کو گلزار کرتے ہوئے

    بسم اللہ ناصرؔمرحوم،اپنے وقت میں اپنے فن میں یکتا،کہ کوئی ثانی نہ ملے۔ایک ہی نشست میں ایک مصرعہ پر کئی غزلیں کہہ لینے کی خداداد صلاحیت سے معمور،شیروں کی طرح دہاڑتے ہوئے مافی الضمیرکا اظہار،مجاہدوں کی طرز ِ ادا،باغیانہ لب و لہجہ والی تخلیقات،کثیرالجہت فنکار،بسم اللہ ناصرؔ۔

    خلیل فرحت کارنجوی،عبدالصمد جاوید نیز بسم اللہ ناصریہ تینون بلند قامت فنکارایک مخصوص دور میں شہر آکولہ کی زینت بنے رہے۔ایک دوسرے سے ہم خیال،ہم مرتبہ اور متوازی فکر کے حامل۔بسم اللہ ناصر کی شاعری میں مصروف ِجنگ سپاہی کی گونج اور ازلی کرب کو بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ایک بے حدحساس قلمکار،جو غم دوراں سے مسلسل رو بہ جدل ہے،اور ایسے عالم ِ اذیت میں دل برداشتہ و قلم برداشتہ تخلیقی امور انجام پا رہے ہوں،تو یہاں وارداتِ قلب کی بجائے سسکیاں لیتی ہوئی روح ِ آدم آپ ناصر مرحوم کی شاعری میں پائیں گے۔موصوف کا دیوان شائع نہ ہو سکا۔مذکورہ بالا ادب کے تینوں ستونوں میں بجز خلیل فرحت مرحوم،کسی اور کا اثاثہ ان کے پسماندگان کے پاس محفوظ نہیں ہے۔اور یہ بہت زیادہ حیرت کن و افسوس ناک بات ہے۔

    بطور نمونہ بسم اللہ ناصرکے چند اشعار۔

    ؎ کب وقت نے سولی پہ چڑھایا نہیں ہم کو

    کس دور میں بتلائو سر ِ دار نہیں ہم

    ؎ کیا خبر وقت کب ہم کو آواز دے

    سر سے باندھے ہوئے ہیں کفن آج بھی

    متذکرہ بالا پانچ ہی شعراء کے یہاں پنچ آہنگی شاعری ملتی ہے۔ذرائع ابلاغ کی فراوانی،ہم خیالوں کی گروہ بندی اور سکّوں کی کھنک سے بہت جلد شہرت کی بلندی چھولینے والوں نے مذکورہ حضرات کی شاعری کا مطالعہ کرنا چاہیے ۔مذکورہ شعراء فی الحقیقت جس قدر و منزلت کے مستحق تھے،وہ انھیں میسر نہ آئی۔آج کے ’’شاعر صاحب‘‘ محض پانچ ہزار روپیے کے عیوض خود پر گوشہ شائع کروالینے میں کامیابی حاصل کر لیتے ہیں۔خلیل فرحت ؔ کارنجوی مرحوم نے خوب کہا تھا کہ۔

    ؎ لعنت ایسی شہرت پر

    جو ہو کسی کی دست ِنگر

    یا پھر بقول حفیظ جالندھری۔ ؎

    جنس ِ شہرت بہت ارزاں تھی مگر میں نے حفیظ

    دولت ِ درد کو بیکار نہ کھونا چاہا

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے