Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

فون گاف کی ایک پینٹنگ

قمر جمیل

فون گاف کی ایک پینٹنگ

قمر جمیل

MORE BYقمر جمیل

    سچائی مجھے عزیز ہے اسی طرح سچ بنانے کی خواہش کہ میں

    رنگوں کے موسیقار بننے سے موچی بننا زیادہ پسند کروں گا

    ….. (فون گاف)

    فون گاف کی پینٹنگ میں جوتے دیکھ کر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ جوتے ہیں کیا۔ کیا یہ جوتے یونہی رہیں گے اسی طرح پڑے رہیں گے متروک حالت میں بظاہر خالی… بغیر تسمہ لگے ہوئے ایک مخصوص بے نیازانہ علیحدگی کے انداز میں کسی کی آمد کا انتظار کرتے ہوئے کہ ان جوتوں کے ساتھ کیا کیا جائے یہ جوتے کیا مالک کو واپس کر دیے جائیں گے؟

    دریدا کے خیال میں فون گاف کے جوتے کے جوڑے کے سلسلے میں Schapiro Myer اور مارٹن ہائیڈیگر کے درمیان مکالموں کا ایک جوڑا واقع ہوتا ہے کہ یہ دراصل ہیں کس کے۔ کون ان جوتوں کا مالک ہے۔ ہائیڈ یگر کہتا ہے کہ یہ ایک کسان کے جوتوں کا جوڑا ہے بعد میں Schapiro کہتا ہے کہ نہیں یہ خود فون گاف کے جوتے ہیں پتا چلنا چاہیے کہ یہ شہر سے آئے ہوئے جوتے ہیں۔یا دیہات سے… ہائیڈیگر کہتا ہے کہ یہ جوتے دیہات سے آئے ہیں۔

    دریدا کہتا ہے کہ مجھے یہ جوتے چوہوں کی طرح لگتے ہیں یا جال کی طرح لگتے ہیں جو میوزیم کے بیچ کسی پیدل چلنے والے کے منتظر ہیں۔ ان جوتوں کی تصویر کی سچائی میں کیا سچائی کی مصّوری نہیں ہے؟ Schapiro کہتا ہے کہجس شخص کے تصویر پر دستخط ہیں یہ اسی کے جوتے ہیں یا ان جوتوں پر کسی آسیب کا سایہ ہے بہر حال یہ جوتے ہیں کس کے… دریدا کہتا ہے کہ میں یہ کہتا ہوں کہ Schapiro Myer اور مارٹن ہائیڈیگر کے درمیان خط و کتابت ہونی چاہیے ہائیڈیگر نے شروع میں کہا تھا کہ جوتوں کا یہ جوڑا ایک کسان کا ہے اسے یہ یقین کیسے ہوا کہ یہ جوتوں کا جوڑا ہے آخر لوگ جوڑا کس کو کہتے ہیں۔ ہائیڈیگر کو یقین ہے کہ یہ ایک کسان کے جوتوں کا جوڑا ہے بعد میں Schapiro کہتا ہے کہ نہیں یہ خود فون گاف کے جوتے ہیں پتا چلنا چاہیے کہ یہ شہر سے آئے ہوئے جوتے ہیں یا دیہات سے۔ ہائیڈیگر کہتا ہے کہ یہ جوتے دیہات سے آئے ہیں۔

    Schapiro کہتا ہے کہ جوتوں کا یہ جوڑا شہری آدمی کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسے اس قدر یقین کیوں ہے کہ یہ جوتوں کا جوڑا ہے جوڑا کس کو کہتے ہیں، کیا دستانوں کا بھی جوڑا ہوتا ہے اور اس کے علاوہ اور چیزوں کا بھی۔ یہ جوتے فون گاف نے اپنے پاؤں سے اتارے ہیں یہ اسی کا ضمیمہ ہیں ان سے اسی کی تکمیل ہوتی ہے وہ انہیں واپس بھی لے سکتا ہے اس میں شک نہیں کہ یہ خالی جوتے ہیں اور فون گاف نے اپنے پاؤں سے اتارے ہیں۔

    دریدا کہتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ان جوتوں کو ایک ادارہ سمجھنا چاہیے ایک یادگار۔ یہ ایک تخلیق ہے اور اس میں کوئی چیز نہیں ہے۔ایک سامان ایک مصنوعی چیز جس کی افادیت سے محبت کی جاسکتی ہے۔

    ایک دوسرے سے جدا ہونے کے باوجود یہ ایک جوڑا ہیں۔ آپ ٹانگوں کو جوڑا نہیں کہہ سکتے۔ دونوں جوتے اگر داہنے پاؤں کے ہوں تو ہم انہیں بھی جوڑانہیں کہتے۔

    ہائیڈیگر کہتا ہے فن کا نمونہ کوئی چیز بھی ہو سکتی ہے یعنی بنائی ہوئی چیز لیکن چیز ہونے کے علاوہ یہ فن کا نمونہ کچھ اور بھی ہوتا ہے۔ چیز صرف آرٹ ہی کا نمونہ نہیں دستکاری کا نمونہ بھی ہو سکتی ہے اس لیے ہائیڈیگر یہ کہتا ہے کہ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آرٹ کس چیز میں اور کس طرح اور کہاں تک ہوتا ہے۔ انسان قدیم ترین زمانے سے جانتا ہے کہ آرٹ علامت یا تمثیل Allegory ہے یعنی ایک ایسی چیز جو دوسری چیز میں تبدیل ہو جائے۔ آرٹ کی حیثیت Thingness وہ عنصر ہے جس پر دوسرے مستند جوہر یا مستند عنصر کی نمود ہوتی ہے پہلے سوال یہ سامنے آتا ہے کہ چیز کس کو کہتے ہیں۔ تب ہی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس چیز پر ایک اور عنصر کا اضافہ ہوا ہے۔

    کانٹ کہتا ہے کہ ساری دنیا ہی اس طرح کی ایک چیز ہے (جیسے سڑک پر پڑا ہوا پتھر ایک چیز ہے) چیز کا اصل باطن Thing in itself بھی ایک چیز ہے اس کا ظاہر تو چیز ہے ہی ریڈیو اور ٹیلی وژن بھی چیز ہیں اس طرح آرٹ کا نمونہ بھی ایک چیز ہے کیوں کہ یہ معدوم نہیں ہے جو عدم نہیں ہے وہ چیز ہے لیکن ہم کسان کو یا مزدور کو یا ٹیچر کو چیز نہیں کہتے۔ یعنی چیز میںکچھ خصوصیات ہوتی ہیں جس میں احساسات کا مختلف جہات سے ایک اتحاد ہوتا ہے ایک مادہ جس کی کوئی شکل کوئی ہیئت متعین ہو چیز ہے۔ چیز خود ایک چیز بھی ہوتی ہے سامان بھی اور آرٹ کا کوئی نمونہ بھی۔

    جوتے چیز ہیں اور افادیت بھی رکھتے ہیں اس لیے ان کا شمار سامان میں ہوتا ہے۔ البتہ فون گاف کی اس پینٹنگ میں یہ پتا نہیں چلتا کہ یہ جوتے کہاں رکھے ہوئے ہیں۔ ایک غیر متعین جگہ ہے جہاں یہ جوتے رکھے ہوئے ہیں ان کے قریب کوئی مٹی کا ڈھیلا یا کوئی اور ایسی چیز نظر نہیں آتی جس سے یہ پتا چل سکے کہ یہ جوتے لگتے ہیں اور کچھ نہیں۔

    ہائیڈیگر کی رائے میں ان جوتوں کا بھداپن یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ جوتے پہننے والا شخص رطوبت زدہ مٹی میں چلتا رہا ہے۔ کھیتوں کی نالیوں میں کچی زمین پر جہاں پہیوں کے نشانات ہوں گے ان جوتوں کو پہننے والا آدمی آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوگا اور اس زمین میں بھی اس کے قدم چلتے ہوں گے بہر حال ان جوتوں کے سامان ہونے کا انحصار ان کی افادیت میں ہے۔

    ہم سامان کو چیز کہتے ہیں آدمی کو چیز نہیں کہتے اس طرح ہم ہرن کو چیز نہیں کہتے ہاں ہتھوڑا، گھڑی اور جوتے چیزیں ہیں۔ مٹی کا ڈھیلا بھی ایک چیز ہے۔ یعنی فطری چیز ہے اس کے علاوہ انسان کا بنایا ہوا سامان بھی چیز ہے۔

    لیکن آرٹ کا نقطہ آغاز کیا ہے۔ آرٹ کا آغاز فنکار سے ہوتا ہے اور فنکار کا نقطہ آغاز اس کی تخلیق ہے۔ سامان صرف استعمال کے لیے ہوتا ہے مثلاً چاقو چیز ہوتے ہوئے چیز سے کچھ زیادہ ہے لیکن آرٹ سے کم کیوں کہ چاقو کسی مقصد کا ذریعہ ہوتا ہے اور آرٹ اپنی جگہ خود مکتفی ہوتا ہے یعنی چاقو آرٹ اور چیز کے درمیان ایک چیز ہے۔ قدیم زمانے سے اب تک چیز کا مطلب ہے وہ مادہ جس نے ایک ہیئت اختیار کر رکھی ہے ہائیڈیگر صرف چیز یعنی Mere Thing اس چیز کو کہتا ہے جو نہ افادی ہوتی ہے اور نہ بنائی جاتی ہے۔

    پھر آرٹ کیا ہوتا ہے۔ فون گاف کی پینٹنگ یہ بتاتی ہے کہ جوتے حقیقت میں ہوتے کیا ہیں یعنی پینٹنگ میں اس چیز کا اصل وجود اپنے آپ کو منکشف کرتا ہے تو کیا جوتوں کی نقل اتار نامصوری ہے۔ جی نہیں یا کسی اور چیز کی نقل اْتار نا مصوری ہے نہیں آرٹ کسی چیز کی نقل نہیں اْتارتا بلکہ اس چیز کے عمومی جوہر کو دوبارہ تخلیق کر کے دکھاتا ہے۔

    آرٹ کے دو حصے ہوتے ہیں ایک تو اس کا جہان معنی اور دوسرے اس کا ارضی مقام مثلاً ایک عبادت گاہ یا مندر یا گرجا جو کسی چیز کی نقل نہیں ہوتا۔ یہ عمارت وادی کے بیچوں بیچ ہو سکتی ہے مثلاً یہ ایک Temple ہے جس میں دیوتا کی شبیہہ ہے ایک چہار دیواری ہے جس میں دیوتا کی یہ موجودگی چہار دیواری کو معبد بنا دیتی ہے۔ مندر کی عمارت ایک سخت چٹان پر کھڑی ہوتی ہے اور طوفان کا مقابلہ کرتی رہتی ہے۔ اس چٹان کو ہائیڈیگر ارض کہتا ہے۔ مندرکی عمارت اسی چٹان پر جہانِ معنی کو قائم کر دیتی ہے تخلیق کا مطلب ہے ایک جہانِ معنی کو قائم کر دینا۔ یہ جہانِ معنی خود وجود کے اندر ہوتا ہے اس جہانِ معنی کو آپ کبھی اپنے سامنے نہیں دیکھ سکتے یہ ایسا معروض نہیں ہے جو ہمارے سامنے ایستادہ ہو اور ہم اسے دیکھ سکیں۔ یہ جہانِ معنی ایک غیر معروضی حقیقت ہے جس میں ہم مبتلا رہتے ہیں پودوں اور پتھروں اور جانوروں میں یہ جہانِ فن اس جہانِ معنی کو کھول کر رکھ دیتا ہے اس جہانِ معنی کی تشکیل ہی آرٹ کا پہلا قدم ہے۔ تخلیق فن پارے میں جہانِ معنی اور ارضیت دونوں موجود ہوتے ہیں۔ آرٹ کی تشکیل میں ان دونوں کا برابر کا حصہ ہوتا ہے۔

    جہانِ معنی اس ارض پر قائم ہوتا ہے اور ارض اسی جہان سے روشن ہوتا ہے جہانِ معنی ارض پر قائم ہونے کے باوجود اس ارض پر غلبہ پانا چاہتا ہے اور ارض اس جہانِ معنی کو اپنے اندر سموئے رکھنا چاہتا ہے۔ جہانِ معنی سے ہر لفظ باہر نکلنا چاہتا ہے اور لفظ چاہتے ہیں کہ جہانِ معنی انہی میں سمویار ہے۔ ان میں سے ہر حریف یہ چاہتا ہے کہ دوسرے کو اپنے آگے سے کھینچ لے جائے اس طرح جہانِ معنی اور ارضیت میں ایک جنگ جاری رہتی ہے ارضیت اور جہانِ معنی کی یہ جنگ آرٹ کے نمونے ہی میں وقوع پذیر ہوتی ہے جس میں مجموعی طور پر Being کا ظہور ہوتا ہے۔ فون گاف کی اس پینٹنگ میں بھی سچائی ظہور کرتی ہے جوتوں کی اس ہستی Being کے ذریعے جو ایک سامان کی حیثیت رکھتی ہے ارضیت اور جہانِ معانی دونوں اپنا انکشاف کرتے ہیں اس طرح اس پینٹنگ میں سچائی اپنا ظہور کرتی ہے۔

    RECITATIONS

    ظفر جمیل

    ظفر جمیل,

    ظفر جمیل

    volume01 article15 ظفر جمیل

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے