پھول والوں کی سیر
امریوں میں پورا دن گزار کر جب آغا نواب مہرولی میں اپنے بالا خانے پر پہونچے تو سب تھک کر چور ہو رہے تھے۔ بڑے تو خیر بیٹھے سیر دیکھا کئے مگر بچوں نے کچھ کم ادھم مچائی تھی؟ جب رات کا کھانا کھا کر لیٹے تو ایسے گھوڑے بیچ کر سوئے کہ بس صبح کی خبر لائے۔ قطب صاحب میں ابھی بہت سی چیزیں دیکھنی باقی تھیں۔ اس لئے سب نے منہ ہاتھ دھو پوریوں کچوریوں کا ناشتہ کیا۔ دودھ کا ایک ایک پیالہ سب کو ملا۔ یہاں کا دودھ ایسا عمدہ اور گاڑھا ہے کہ جی چاہے تو اس میں سیک کھڑی کر لو۔ بھلا شہر والوں کو یہ دودھ کہاں نصیب؟ ایک ہی جوش میں اس پر یہ موٹی ملائی آ جاتی ہے۔ ناشتے سے فارغ ہو کر سب سیر کو نکل گئے۔ یہاں سواری کا نہیں پیدل پھرنے کا مزہ ہے۔ یہاں اکے دکے تانگے، پالکی گاڑیاں سب موجود۔ اگر کہیں دور جانا ہو تو چند ٹکوں میں دم کے دم پہونچا دیتے ہیں۔
امریوں میں صبح ہی سے آج رونق ہے۔ مور جھنگار رہے ہیں۔ پپیہا پی کہاں کی ٹیر سنا رہا ہے۔ کوئل کوک رہی ہے۔ دیگیں دندنا رہی ہیں۔ پتیلیاں ٹھنٹھنا رہی ہیں، کڑھائیاں چڑھی ہوئی ہیں۔ ان میں تیل اونٹ رہا ہے۔ پکوان کی تیاری ہو رہی ہے۔ جھولے پڑے ہوئے ہیں، پتنگیں بڑھ رہی ہیں، آم کا پٹکا لگ رہا ہے، جامنیں ٹپاٹپ گر رہی ہیں۔ بھمیری آوازوں میں بادشاہ کا گیت فضا میں گونج رہا ہے۔
جھولا کن نے ڈالو ہے آمریاں
باگ اندھیرے تال کنارے
مرلا جھنکارے، بادر کارے
برسن لاگیں بوندیں پھیاں پھیاں
جھولا کن نے ڈالو ہے آمریاں
دو سکھی جھولیں اور دو ہی جھلا ویں
چاروں مل گئیاں بھول بھلیاں
بھولی بھولی ڈولیں شوق رنگ سیاں
جھولا کن نے ڈالو ہے امریاں
امریوں سے نکل کر گندھک کی باؤلی پہونچے، اس کا پانی ذرا سیاہی مائل ہے اور اس میں گندھک کی بو ہے۔ پھوڑے پھنسیوں والے اس میں نہاتے ہیں اور شفا پاتے ہیں۔ باؤلی میں کودنے والے لڑکے لنگر لنگوٹ کسے تیار کھڑے ہیں۔ انھیں روپیہ اٹھنی، چونی، حد یہ کہ چھوٹی دونی دکھاکر باؤلی میں پھینکئے، یہ اس کے ساتھ ہی چھلانگ لگائیں گے اور جب پانی میں سے ابھریں گے تو ان کے دانتوں میں آپ کا پھینکا ہوا سکہ ہوگا۔ یہ آپ کو سلام کرکے پھر باؤلی پر جا کھڑے ہوں گے کہ کوئی اور سیلانی آئے اور ان کا کرتب دیکھے۔
سیلانی ناظر کے باغ میں گئے۔ اس کے چاروں حوضوں کی سیر کی۔ بارہ دری میں لیٹے بیٹھے۔ یہیں دن کا کھانا کھایا، بازار دور نہیں ہے۔ ہمہ نعمت مل جاتی ہے مگر جو مزہ روے میدے کے پراٹھوں اور گولے کے کبابوں میں ہے وہ اور کسی کھانے میں نہیں ہے۔ بیسیوں تندور گرم رہتے ہیں۔ برابر والی دکان سے روا میدہ اور گھی خریدیے اور نان بائی کے حوالے کیجئے۔ ایک کونے میں آٹا گوندھنے کا کونڈا گڑا ہوا ہے۔ اس پر ایک گبرو جوان ننگے بدن لنگوٹا پہنے کھڑا ہے۔ روا میدہ لے کر کونڈے میں ڈالتا ہے، حسب ضرورت پانی اور گھی ڈال کر مکیاں لگاتا ہے اور چشم زن میں گوندھ گاندھ نان بائی کے حوالے کرتا ہے۔
آٹا ٹھہر جاتا ہے تو نانبائی سیر کے پانچ یا سیرکے چھ پیڑے توڑتا ہے اور پتھر کی سل پر رکھتا جاتا ہے۔ پھر ایک ایک پیڑا اٹھاتا ہے اور خشکی لگا کر پیڑے کو پھیلاتا ہے۔ گھی لگا کر اسے بیچ میں سے نصف چاک کر دیتا ہے اور اسے لپیٹ کر لمبا سا سانپ بنا لیتا ہے۔ اس سانپ کا پھر پیڑا بناتا ہے۔ یہ اس لئے کرتا ہے کہ پر اٹھے کہ کئی پرت بن جائیں اور اندر سے کچا نہ رہے۔ پراٹھا بڑھا کر رفیدے پر رکھتا ہے اور تندور کے کنارے پر بایاں ہاتھ رکھ کر دائیں ہاتھ سے جھک کر تندور میں پر اٹھا لگا دیتا ہے۔ اتنے میں یہ تیار ہو، دوسرا پیڑا اٹھا لیتا ہے اور اس کے ساتھ بھی یہی عمل کرتا ہے۔ ادھر دوسرا پراٹھا تیار کر کے تندور میں لگایا، ادھرتندور میں دو کانٹیاں ڈال کر پہلا نکال لیا اور چنگیر میں ڈال دیا۔ دس منٹ میں دو سیر کے پراٹھے تیار کر کے آپ کے حوالے کر دیتا ہے۔ اگر آپ کے ساتھ بھنا ہوا قیمہ اور ہری مرچیں ہیں تو سبحان اللہ، ورنہ لگاون کے لئے آم کا اچار، سیخ کے کباب، دہی یا ربڑی سامنے سے خرید لیجئے اور اللہ عزیز کیجئے۔ سیلانی شام تک ناظر کے باغ میں رہے اور آس پاس کے کھنڈروں کی سیر کرتے رہے۔ شام کا جھٹ پٹا ہوا تو اپنے اپنے ٹھکانوں پر جا پہنچے۔
اگلے دن قطب صاحب کی لاٹ پر گئے۔ جوانوں نے شرط لگائی کہ ایک سانس میں پانچوں کھنڈ طے کر کے اوپر پہونچیں گے۔ جو دم دار ہوتے ہیں وہ بغیر رکے سیڑھیاں طے کرتے چلے جاتے ہیں، باقی پھسڈی کہلاتے ہیں۔ لاٹ پر فرّاٹے کی ہوا کھائی، چاروں طرف نظر دوڑائی۔ دلی کی عمارتوں کو جانچا اور اتر آئے۔ آس پاس کے کھنڈروں میں گھومے پھرے، بھیم کی چھٹنکی پر پتھر کو ہلایا، کڑوا نیم چکھا، واپسی میں بھول بھلیاں میں ٹھیکی لی۔ اس میں بھی سیلانی اترے ہوئے ہیں۔
تیسرے دن چہل تن چہل من پر پہنچے۔ ان کی چالیس قبریں کبھی پوری نہیں گنی جاتیں۔ تعداد یا تو گھٹ جاتی ہے یا بڑھ جاتی ہے۔ بکاؤلی کے قلعے، جمالی کمالی کے مزار اور اندھیرے باغ کی سیر کی۔ لیجئے تین دن میں ساری سیر ہو گئی۔
ساون کی جھڑی ختم ہوئی اور بھادوں کی پھوار شروع ہوئی۔ اسی قطب صاحب میں پھول والوں کی سیر کے نام سے ایک بڑا صاف ستھرا میلہ ہوتا تھا۔ حضرت خواجہ بختیار کاکیؒ کی درگاہ یہیں مہرولی میں ہے۔ اسی کی وجہ سے اس جگہ کا نام قطب صاحب پڑ گیا ہے۔ یہ ہمیشہ سے ایک صحت افزا مقام سمجھا جاتا ہے۔ اکبر شاہ ثانی اور بہادر شاہ ظفرؔ نےاسی وجہ سے یہاں اپنے محل بنوائے۔ جب بھی معاملاتِ سلطنت سے انھیں فرصت ملتی، قطب صاحب جابراجتے۔ یہ میلہ اکبر شاہ ثانی کے زمانے میں شروع ہوا۔ اس کی ابتداء یوں ہوئی کہ اکبر شاہ ثانی کے ایک چہیتے بیٹے تھے مرزا جہانگیر۔ بادشاہ کے اصل ولی عہد تو تھے بہادر شاہ ظفرؔ مگر اکبر شاہ ثانی مرزا جہانگیر کو اپنا ولی عہد بنانا چاہتے تھے مگر فرنگیوں نے اسے نہیں مانا۔
بادشاہ فرنگیوں کے دبیل تھے کیونکہ راج تو بادشاہ کا تھا مگر حکم فرنگیوں کا چلتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ فرنگیوں سے انھیں دو لاکھ روپے ماہوار وظیفہ ملتا تھا اور ایک ریزیڈنٹ قلعۂ معلی میں رہتا تھا جس کی مرضی کے بغیر بادشاہ کوئی حکم جاری نہیں کر سکتے تھے۔ مرزا جہانگیر کا لاڈ پیار میں ستیاناس ہو گیا تھا۔ ایک دن ریزیڈنٹ سے ان کا آمنا سامنا ہوا تو مرزا نے کہا، ’’لولو ہے بے لولو ہے۔‘‘ سٹین صاحب شہزادے کی بیہودگی کو سمجھ تو گئے مگر چندرا کے مرزا کے ساتھیوں سے پوچھا کہ ’’صاحب عالم کیا کہتا ہے؟‘‘ ساتھیوں نے رفع شر کے لئے کہا، ’’حضور، صاحب عالم آپ کو لو لو یعنی موتی کہتے ہیں۔‘‘ سیٹن نے زہر خند کر کے کہا، ’’ہم صاحب عالم کو لولو بنائےگا۔‘‘
صاحب عالم سمجھتے تھے، اپنے باپ کی حکومت ہے۔ اس فرنگی کی یہ مجال کہ یہ ہمیں لولو بنائے؟ انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ جھٹ سٹین پر طمنچہ داغ دیا۔ زندگی تھی جو وہ بچ گیا۔ سٹین نے اس واقعہ کی رپورٹ کمپنی بہادر کوکی اور مرزا جہانگیر کو نظر بند کر کے الہ آباد بھیج دیا ور بادشاہ سلامت سے عرض کیا کہ شہزادے کو تربیت کی ضرورت ہے۔ جب ان کی تربیت پوری ہو جائےگی تو الہ آباد سے واپس آ جائیں گے۔ زبردست کا ٹھینگا سر پر، چار و ناچار بیٹے کی جدائی گوارا کرنی پڑی۔ مرزا جہانگیر کی والدہ نواب ممتاز محل نے منت مانی کہ جب مرزا چھٹ کر آئیں گے تو قطب صاحب میں حضرت خواجہ بختیار کاکیؒ کے مزار پر پھولوں کا چھپر کھٹ اور غلاف چڑھاؤں گی۔ خبر نہیں الہ آباد میں مرزا پر کیا گزری۔ بارے جب وہ الہ آباد سے چھٹ کر آئے تو الہ آباد سے دلی تک ہر شہر میں ان کا بڑا شاندار استقبال ہوا۔
اب خواجہ ناصر نذیر فراق دہلویؔ سے منت چڑھانے کا حال سنئے، ’’برکھا رت، ساون کا مہینہ، بادشاہی خیمے، مخملی، باناتی، اطلسی، سبز، سرخ، زرد، ریشمی، کلابتونی، سوتی طنابوں سےجکڑے کھڑے تھے۔ ان کے سنہری کلس اور شمشے سورج میں چمک رہے تھے۔ اوپر نیلا آسمان، نیچے زمین پر سبزے کا فرش۔ خیموں کا سلسلہ اور جابجا پانی میں ان کا عکس طلسمات کا عالم پیدا کر رہا تھا۔ بادشاہی خیمے سے لے کر قطب صاحب بندہ نواز کی درگاہ تلک جہاں مستورات جا سکتی ہیں، دو رویہ قناتیں کھڑی تھیں کیونکہ ملکۂ دوراں مرزا جہانگیر کو لے کر منت ادا کرنے لئے درگاہ میں حاضر ہوں گی۔
تیاری تو صبح سے ہو رہی تھی مگر دن کے تین بجے حضرت ظل سبحانی نے کہا، ’’پنکھا چڑھانے کا وقت آ گیا۔‘‘ ملکہ دوراں نے پچاس خوان اندر سے کی گولیوں اور پھینیوں کے آراستہ کئے۔ ایک چاندی کی کشتی میں سونے کا پنکھا، جس میں پنّا، پکھراج، نیلم، یاقوت اور سچے موتی جڑے تھے، جس کی بالشت بھر نیچی جھالر کو بیگم نے جوہی کی کلیوں سے خود گوندھا تھا۔ مرزا جہانگیر کو دولہا بنا کر سہرا پھولوں کا، بدّھی طرّہ عطر میں بسا کر، اس کے سر پر بندھوا کر وہ کشتی صاحب عالم کے سر پر بسم اللہ کہہ کر بیگم نے رکھی اور بادشاہ زادے کی بلائیں لے کر کہا، ’’اماں میرا منہ نہ تھا کہ تو فرنگیوں کے چنگل سے نکل کر شاہ جہاں آباد میں آئے اور میں تجھے دیکھوں۔ یہ سب حضرت کا صدقہ ہے۔ جان من منت کی کشتی سنبھال کر اور سر ادب نیاز سے جھکا کر درگاہ کو چلو۔ آؤ۔‘‘
’’غلاف شریف کی سینی بادشاہ نے اپنے سر پر اور صندل اور عطردان بیگم نے اپنے سر پر اور مٹھائی کے خوان بادشاہ زادوں نے اپنے سروں پر رکھ کر سب نے مل جل کر آستانۂ پاک کی راہ لی۔ بیگمیں، بادشاہ زادیاں، تلواں جوڑے پہنے تھیں۔ گوکھروں کے جال، سلمہ ستارہ، کلابتوں کی تمامی زری، بونٹی، زربفت، کمخوابِ زری، ماچھ، اطلس، دلدائی، بابرینٹ، بنارس، گجرات، سورت، احمد آباد شریف، لاہور کے شاہی کارخانوں کے ریشمی اور زریں کپڑوں کے لباس پہن کر آراستہ ہو رہی تھیں۔ لاکھوں روپے کا جڑاؤ گہنا ہاتھ گلے میں تھا۔ پورپور نارنول کی مہندی رچی ہوئی تھی۔ ڈھیلے پائنچوں کو دو لونڈیاں اٹھائے چلتی تھیں تو دو باندیاں پیچھے دوپٹے کو سنبھالے چلتی تھیں۔ آگے آگے روشن چوکی اور نفیری بجانے والیاں سب عورتیں تھیں۔ بیگموں کے جھانجن، چوڑیوں اور پازیب کے جھنکار سے زندوں اور مردوں کے دل کانپتے تھے۔
قنات در قنات یہ سب درگاہ شریف پہونچے، باجے گاجے سب آستانے کے باہر ہی تھما دیے۔ ملکۂ جہاں اور سب عورتیں فرخ سیر والی جالیوں تک جاکر رک گئیں۔ اگرچہ ساری درگاہ کا زنانہ ہو رہا تھا۔ عورتوں کے لئے ہمیشہ سے یہی حد ادب ہے۔ بادشاہ اور مرزا جہانگیر اور سب مرد مزار شریف پر گئے اور پہلے غلاف اور پھر صندل چڑھایا، اوپر سے عطر لگایا۔ پنج آیت پڑھی گئی۔ شیرینی تقسیم ہوئی، نقد نذرانہ جھجری میں بھر دیا گیا۔ بادشاہ زادے کو قدم بوس کرایا اور سب حاجتی دعا کر کے قنات کے اندر پلٹ کر سرا پردۂ شاہی میں داخل ہوئے۔‘‘
رعایا نے بھی اس خوشی میں بادشاہ کا ساتھ دیا۔ خوب خوشی منائی اور پھولوں کا ایک چھپر کھٹ حضرت بختیار کاکی ؒ کے مزار پر چڑھایا۔ پھول والوں نے پھولوں کا ایک بڑا سا پنکھا چھپر کھٹ میں لٹکا دیا تھا۔ یہ رسم اور روایت بعد میں بھی قائم رہی۔ بادشاہ کو یہ تقریب اس قدر پسند آئی کہ یہ میلہ ہر سال ہونے لگا۔ دربار شاہی سے پھول والوں کے دوسو روپے سالانہ مقرر ہو گئے تھے۔ یہ میلہ ’’پھول والوں کی سیر‘‘ کہلایا۔ شاہی ختم ہوئی۔ فرنگیوں کا راج بھی ختم ہوا مگر دلی کے منچلے اب بھی ہر سال برکھا رت میں یہ میلہ مناتے ہیں اور خواجہ صاحب کے مزار پر پھولوں کا چھپر کھٹ اور پنکھا چڑھاتے ہیں۔
پہلے یہ غریبوں اور امیروں سب کا میلہ تھا، بعد میں غریبوں کا رہ گیا۔ امیر اپنی موٹروں میں دلی سے قطب صاحب جاتے اور دو چار گھنٹے جی بہلا کر چلے آگے مگر دلی کے غریب بڑے حوصلہ مند تھے۔ خوب جی کھول کر خرچ کرتے، کچھ دنوں پہلے سے اس کی تیاری شروع کر دیتے، قرض دام سے بھی نہ چوکتے۔ انھوں نے اپنی آن کے پیچھے لاکھ کاگھر خاک کر دیا۔
لیجئے، میلے کی تاریخ مقرر ہو گئی۔ دستکاروں نے کر خنداروں نے دھیانگیاں اور پیشگیاں لیں۔ نئے جوڑے سلوائے۔ چکن کے کرتے بیلوں بھرے، آڑے پاجامے جن میں آدھی پنڈلی تک چوڑیاں، پاؤں میں سلیم شاہی، سر پر سلمہ ستارے کی گول ٹوپی، پھڈّی باڑ کی، تیل پھلیل لگایا، منہ میں گلوری دبائی۔ الائچی کی خوشبو اڑتی ہوئی۔ کندھے پر چادرہ یا شالی رومال۔ دائیں بائیں دیکھتے عجیب شان سے چلے جاتے ہیں۔ کیوں نہ ہو دلی کے دل والے ہیں۔ یہ صرف آج کے آرام کو دیکھتے ہیں، کل کی کل دیکھی جائےگی، جس نے دیا ہے تن کو وہی دےگا کفن کو۔
ہاں تو آج چودہویں تاریخ ہے۔ مہرولی کے بازاروں میں وہ ریل پیل ہے کہ کبھی تھالی پھینکو تو سروں ہی سروں پر جائے۔ کھوے سے کھوا چھل رہا ہے۔ کمزور کے چلنے کا بھرم ہی نہیں۔ ابھی یہاں کھڑے تھے، ابھی جو ریلا آیا، وہاں پہونچے۔ دکانیں روشنی سے بقعہ نور بنی ہوئی ہیں۔ سقے کٹورے بجا رہے ہیں اور ہر آنے جانے والے سے پوچھتے ہیں، ’’میاں آب حیات پلاؤں؟‘‘ مشک میں کنوئیں کا پانی ہے جس میں برف پڑی ہے، جی چاہا تو پانی پیا اور پیسہ دو پیسہ ہاتھ پر رکھ دیا۔
ککڑ والے کی عجب شان ہے۔ قد آدم حقے میں کئی گز لمبی نے لگی ہے۔ حقہ کیا ہے، دولہا ہے کہ سر سے پاؤں تک پھولوں میں لدا ہوا ہے۔ چاندی کی زنجیریں اور لٹو آویزاں ہیں۔ نے نیچی ہوتی ہے تو بازار والے باری باری کش لگاتے ہیں اور اوپر ہوتی ہے تو بالاخانوں پر برآمدوں میں بیٹھے ہوئے لوگ دو دو کش لیتے ہیں۔ خمیرے کی لپٹیں اٹھ رہی ہیں اور سارا بازار مہک رہا ہے۔
مغرب کے بعد جھرنے سے نفیری کی آواز آئی اور ساری خلقت ادھر ڈھل گئی۔ پنکھا جھرنے سے اٹھایا۔ یہ پھولوں کا بڑا سا پنکھا ہے جس میں مقیش اور پنیاں لگی ہوئی ہیں۔ ہنڈوں کی روشنی میں پنکھا جگر جگر کر رہا ہے۔ آگے آگے ڈھول تاشے والے، ان کے پیچھے دلی کے اکھاڑے۔ ہر اکھاڑے کے آگے استاد اور پٹھے ہیں جو اپنے اپنے کمالات دکھاتے چلے آتے ہیں۔ کوئی لیزم ہلا رہا ہے۔ کوئی تلوار کے ہاتھ دِکھا رہا ہے، کوئی خنجر کے وار کر رہا ہے۔ کہیں بانک، پٹہ، بنوٹ کے کرتب ہیں۔ اکھاڑوں کی ایک لمبی لین ڈوری چلی گئی ہے۔ ان کے پیچھے نفیری والے ہیں۔ کٹورے بجانے والے سقوں کی ٹولیاں بھی ہیں۔ یہ سقے موٹے برنجی کٹورے ایک ایک ہاتھ میں دو دو لے کر بجاتے ہیں اور بجانے میں لے کی ایسی تراش کرتے ہیں کہ بے اختیار منہ سے سبحان اللہ نکل جاتا ہے، ڈھول تاشے کے ساتھ مٹکتے اور پینترے بدلتے جاتے ہیں۔
یہی کیفیت ڈنڈے والوں کی ہے۔ بڑے ناز و انداز سے گھیرے میں گھومتے اور ایک دوسرے سے ڈنڈے ٹکراتے ہیں، دیکھنے والے ان کے مٹکنے پر ریجھے جاتے ہیں۔ سب سے آخر میں پنکھا ہے جس کے آگے شہنائی بجتی آتی ہے۔ اس کے پیچھے پھول والوں کے غول ہیں۔ یہ جلوس آہستہ آہستہ بازار میں گزرتا ہے، بالا خانوں سے پھول برستے ہیں، گلاب چھڑکا جاتا ہے۔ ہنرمند فنکاروں کو لال سبز دوپٹے دیے جاتے ہیں۔
کوئی بارہ بجے تک یہ جلوس جوگ مایا کے مندر پہنچتا ہے۔ ایک بجے تک پنکھا چڑھا کر لوگ واپس آتے ہیں۔ اگلے دن اسی دھوم دھام سے حضرت خواجہ بختیار کاکیؒ کی درگاہ میں پنکھا چڑھتا ہے۔ اس سے فارغ ہوکر سب کے سب شمسی تالاب پر پہونچتے ہیں۔ یہاں آتش بازی چھوڑی جاتی ہے۔ دلی کے آتش بازوں کو اپنا ہنر دکھانے کا اس سے بہتر موقع بھلا اور کب مل سکتا ہے۔ جہاں پر مہتابی کے چھٹتے ہی طرح طرح کی آتش بازی چھوٹنے لگتی ہے اور وہ روشنی ہوتی ہے کہ رات کو دن ہو جاتا ہے اور شمسی تالاب کا پانی پگھلا ہوا سونا بن جاتا ہے۔ چار پانچ گھنٹے تک یہ آتشیں گل بوٹے کھلتے رہے۔ آتش بازی کے ساتھ میلہ ختم ہوا اور تھکے ہارے سیلانی صبح ہوتے اپنے اپنے ٹھکانوں پر واپس آئے۔ اتنے میں فجر کی اذان ہو گئی۔ اب سونے کا بھلا کیا وقت رہ گیا؟ اپنے رب کا شکر ادا کرو کہ اس نے یہ بہار دکھائی۔ نور ظہور کا وقت ہے۔ آغا نواب اور ان کے سب گھر والوں نے وضو کیا، نماز پڑھی، ناشتہ کیا اور سب کے ساتھ اپنی سواریوں میں دلی روانہ ہو گئے۔
بڑی ننھی نے کہا، ’’نانی اماں، یہ سیر تو بڑے مزے کی رہی۔‘‘
نانی اماں بولیں، ’’ہاں بیٹی غنیمت ہے۔‘‘
چھوٹی ننھی نے تنک کر کہا، ’’نانی اماں آپ کو تو آج کل کے زمانے کی کوئی بات پسند نہیں آتی۔‘‘
نانی، ’’بیٹی آنکھوں نے جو کچھ دیکھا ہے اور ان کانوں نے جو کچھ سنا ہے اس کے آگے آج کل کوئی بات نہیں جچتی۔ اب اس سیر کو ہی لے لو، جیسی ہمارے بچپن میں ہوتی تھی، ویسی تو ہم نے بھی نہیں دیکھی۔‘‘
بڑی ننھی، ’’اچھا تو اگلے وقتوں میں اس میں کیا چار چاند لگے ہوئے تھے؟‘‘
نانی، ’’ہاں بیٹی چار چاند لگے ہوئے تھے۔ یہ میلہ بادشاہ کی سرپرستی میں ہوتا تھا اور بادشاہ خود اس میں شریک ہوتے تھے۔ وہ دھوم دھام ہی کچھ اور تھی۔ لال قلعہ کی کوکھ ہری تھی، الغاروں دولت بھری پڑی تھی۔ لڈو ٹوٹتا ہےتو بھورا بھورا سبھی کو پہنچتا ہے۔‘‘
چھوٹی ننھی، ’’اچھا تو بتائیے نا کہ آپ کے زمانے میں سیر کیسی ہوتی تھی؟‘‘
نانی، ’’یہ شہر آبادی کا ذکر ہے، غدر پڑنے سے پہلے کا۔ مجھے پورا سا ہوش بھی نہیں تھا۔ ہاں ہمارے ہاں ایک مغلانی آیا کرتی تھیں۔ بڑی بڑی غلافی آنکھیں، گالوں کی ہڈیاں ابھری ہوئیں، منہ میں کوئی دانت نہ تھا۔ سر پر روئی کے گالے سے بال، دھان پان سی آدمی تھیں، وہ سنایا کرتی تھیں اس سیر کا حال۔ کہتی تھیں کہ،
’’مہینوں پہلے بادشاہ کے ہاں پنکھے کی تیاریاں ہو جاتی تھیں۔ بادشاہی محل جھاڑ جھوڑ، فرش فروش، چلمنوں پردوں سے آراستہ کر دیا جاتا۔ ایک دن پہلے محل کا تانتا روانہ ہوتا۔ خاصگی رتھوں میں تورے داریں، تصرفی میں سب کارخانے والیاں، نوکریں، چاکریں، لونڈیاں، ہاندیاں ہوتیں۔ خواجے سپاہی ساتھ چلے جاتے۔ دوسرے دن بادشاہ سوار ہوتے۔ بیگمات اور شاہزادے پالکی اور عماریوں میں ساتھ ہوتے۔ شہر کے باہر سواری آئی، جلوس ٹھہر گیا، سلامی اتار کر رخصت ہوا۔ چھڑی سواری ہوا دار یا سایہ دار تخت یا چھ گھوڑوں کی بگھی میں خواجہ صاحب میں داخل ہوئے۔ سنہری بگھی اور پالکی نما بنگلہ، اوپر چھجہ، ان پر کلسیاں ہیں، کوچون لال لال بانات کی قمریاں، پھندنے دار گردان ٹوپیاں کلابتونی کی پہنے ہوئے، گھوڑوں کی پیٹھ پر بیٹھے ہانکتے جاتے ہیں۔
آگے آگے سانڈنی سوار، پیچھے سواروں کا رسالہ آبدار جھنڈا لئے، چوبدار عصا لئے، گھوڑوں پر سوار، بگھی کے ساتھ ساتھ اڑے جاتے ہیں۔ بادشاہی محل سے لے کر تالاب اور جھرنے اور امریوں اور ناظر کے باغ تک زنانہ ہو گیا۔ جا بجا سرانچے کھنچ گئے، سپاہی اور فوجوں کے پہرے لگ گئے، کیا مقدور غیرمرد کے نام ایک پتہ بھی کہیں دکھائی دے جائے۔ محل کی جنگلی ڈیوڑھی سے بادشاہ ہوادار میں اور ملکہ زمانی تام جھام میں اور سب ساتھ ساتھ سواری کے جھرنے پر آئے۔ بادشاہ اور ملکہ زمانی بارہ دری میں بیٹھے اور سب ادھر ادھر سیر کرنے لگے۔ کڑاھائیاں چڑھ گئیں، پکوان ہونے لگے۔ امریوں میں جھولے پڑ گئے۔ سودے والیاں آبیٹھیں۔
ایک کھڑی، ایک کوہلسا رہی ہے، ’’اے بی زناخی، اے بی دشمن، اے بی جان من! اچھی چلو پھسلنے پتھر پر سے پھسلیں۔‘‘ وہ کہتی ہیں، ’’اے بی ہوش میں آؤ اپنے حواسوں پر سے صدقہ دو۔ اپنے عقل کے ناخن لو، کہیں کسی کا ہاتھ منہ تڑواؤگی۔‘‘ انا ددا سمجھانے لگیں، ’’واری، کہیں بیویاں، بادشاہ زیادیاں بھی پتھروں پر سے پھسلتی ہیں۔ لونڈیوں اور باندیوں کو پھسلواؤ اور آپ سیر دیکھو۔‘‘
’’چلو بی، میں تمہارے پھلاسڑوں میں نہیں آتی۔ تم یوں ہی پھپھڑدلالے کیا کرتی ہو۔ نہیں نہیں ہم تو آپ ہی پھسلیں گے۔‘‘
شام ہو گئی، جسولنی نے آوازدی، ’’خبر دار ہو، بادشاہ سوار ہوئے۔‘‘ وہ سب کچھ پھینک پھانک سواری کے ساتھ ہوئیں۔ نوکریں، چاکریں گٹھری مٹھری سمیٹ سنبھال پیچھے للو پتو کرتی دوڑیں۔
پندرہ دن تک روز اسی طرح جھرنے اور تالاب اور لاٹھ کا زنانہ ہوگا۔ تین دن سیرکے باقی رہے، پھول والوں نے بادشاہ کو عرضی دی، دوسو روپے جیب خاص سے ان کو پنکھے کی تیاری کے لئے مرحمت ہوئے۔ تاریخ ٹھہر گئی۔ شہر میں نفیری بج گئی۔ جھرنے کا زنانہ موقوف ہوا۔ اب شہر کی خلقت آنی شروع ہوئی۔ جمعرات کے دن سارے شہر کے امیروغریب، دکاندار، ہزاری بزاری جمع ہو گئے۔ شہر سنسان ہو گیا۔
اب تیسرا پہر ہوا۔ ادھر شاہزادوں کی سواری، ادھر پنکھے کی تیاری ہونے لگی۔ شہر کے امیروغریب اچھے اچھے رنگ برنگے کپڑے پہن کر نئی سج دھج، نئی نرالی انوکھی انوٹ، انوکھی وضع سے اپنے اپنے کمروں، برآمدوں، چھجوں، کوٹھوں اور چبوتروں پر ہو بیٹھے۔
اہاہا! دیکھنا، وہ پھول والوں کے پنکھے کس دھوم سے آئے۔ کیا بہار کے پنکھے ہیں! آگے پھولوں کی چھڑیاں، ہزارے چھوٹتے، نفیری والے ٹھٹکتے ٹھٹکاتے، روپے رولتے چلے آتے ہیں۔ پیچھے شہزادے ہاتھیوں پر سوار، آگے سپاہیوں کی قطار، تاشہ مرفہ بجاتے ہوئے، پیچھے خواص میں مختار بیٹھے مورچھل کرتے ہوئے، نقیب چوبدار پکارتے ہوئے، ’’صاحب عالم پناہ‘‘ چلے آتے ہیں۔ ان کے پیچھے اور امیر امراء کے ہاتھی چلے آتے ہیں۔ اس دھوم دھام سےشام کو شاہی محلوں کے نیچے پنکھے آئے۔ اب نفیری والوں کی سیر دیکھو، کیسی جان توڑ توڑ کر نفیری بجا رہے ہیں۔ خواجے اوپر سے ان کی جھولیوں میں چھنا چھن روپے پھینک رہے ہیں۔ انعام لے لے کر رخصت ہوئے۔ پنکھے جا جا کر درگاہ میں چڑھا دیے۔
رات بھر ناچ رنگ کی محفلیں ہوئیں۔ ڈھولک، ستار، طنبورہ کھڑکتا رہا۔ صبح کو سونے چاندی کے چھلے، انگوٹھیاں، اکے، نونگے، پوتھوں کے لچھے، موتیوں کے ہار اور لال، سبز اودے، پچرنگے سوت کے ڈورے، پنکھیاں، پراٹھے، پنیر، کھویا، یہاں کی سوغاتیں لے لوا چلنا شروع کیا۔ شام تک سب میلہ بھِرّی ہو گیا۔
بادشاہ ساری برسات یہیں گزاریں گے۔ سیروشکار، کل سلطنت کے کاروبار سر انجام ہوتے رہیں گے۔ جو بیگماتیں سیر میں نہیں آئیں انھوں نے اپنے چھوٹوں کو قلاقند، موتی پاک، لڈو کی ہنڈیاں آٹے سے منہ بند کر کے چٹھیاں لگا اور بٹووں میں اشرفیاں روپے ڈال کر چوبداروں اور خواصوں کے ساتھ بھنگیوں میں بھیجیں۔ سب نے پانچ پانچ، چار چار، دو دو روپے چوبداروں اور خواصوں کو انعام میں دیے اور ان کے لئے سوغاتیں یہاں سے بھیجیں۔ لو صاحب! پھول والوں کی سیر ہو چکی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.