Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پولیس کا تخلیقی چہرہ

حقانی القاسمی

پولیس کا تخلیقی چہرہ

حقانی القاسمی

MORE BYحقانی القاسمی

     

    پولیس کا تخلیقی چہرہ۔۔۔ یہ عنوان جب میں نے سوچا تھا تو مجھے یقین تھا کہ چند صفحات میں ہی پوری داستان سمٹ جائے گی لیکن جب جستجو کا سفر شروع ہوا تو آنکھیں حیرت سے وا رہ گئیں کہ جسے میں کوزہ سمجھتا تھا وہ تو سمندر نکلا۔۔۔ 

    میری جستجو کا دائرہ محدود تھا کہ میرے پاس نہ زیادہ وسائل ہیں، نہ فرصت، نہ میں کسی دانشگاہ سے وابستہ ہوں، نہ آس پاس کسی کتب خانہ کا ذخیرہ ہے، اس کے علاوہ ہم جیسوں کی ساری توانائی تو دفتری اور گھریلوتناؤ ہی میں ختم ہوجاتی ہے۔ ایسے میں کیسی جستجو، کہاں کا ذوق و شوق۔۔۔ پھر بھی جب میں نے اس عنوان کے تحت چیزیں تلاش کرنی شروع کیں تومحسوس ہوا کہ مختلف میدانوں میں پولیس کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ شاعری ہو یا نثر، تحقیق ہو یا تاریخ، افسانہ ہو یا ناول، صحافت ہو یا ثقافت، ہرایک میدان میں پولیس محکمہ سے جڑی ہوئی شخصیتوں نے اپنے تخلیقی اور تنقیدی جوہر دکھائے ہیں اور معاشرہ کو یہ محسوس کرنے پر مجبور کیا ہے کہ ان کا منصبی فرض کچھ بھی ہو مگر ان کی رگوں میں تخلیقیت رواں دواں ہے۔ ان کا حساس ذہن سماجی، سیاسی اور ثقافتی مسائل کے ادراک میں کامیاب ہے۔ ان کے باطن میں احساس کا ارتعاش ہے۔ ا ن کے اندر بھی جذبات کا دریا موجزن ہے۔ وہ ساری خوبیاں جو ایک آرٹسٹ یا فنکار میں ہوتی ہیں، ان سے یہ بھی متصف ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ انہیں کسی بھی جامعہ یا دانشگاہ میں نہ تو موضوع کی حیثیت حاصل ہے اور نہ ہی انفرادی طور پر پولیس کی ادبی خدمات کو موضوع بنایاگیا ہے۔ 

    دراصل ہمارے معاشرے میں پولیس محکمہ سے وابستہ افراد کی جو شبیہ ہے، وہ اس قدر مسخ کردی گئی ہے کہ انہیں جذبات اور احساس سے عاری اور انسانی دردمندی سے خالی وجود سمجھاجاتا ہے۔ ان سے ادب یا آرٹ کی توقع عبث سمجھی جاتی ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے کہ یہ بھی اسی انسانی معاشرہ کے افراد ہیں۔ ان کے پاس بھی گداز دل ہے۔ ان کے شب وروز بھی انسانی دکھ درد سے گھرے ہوئے ہیں۔ یہ اذیتوں اور عذابوں میں گھرے ہونے کے باوجود صرف اپنے نہیں بلکہ معاشرے کے خوابوں کو بھی زندہ رکھتے ہیں۔ جرائم، حادثات اور واردات پر ان کی نگاہ ضرور ہوتی ہے مگر اجتماعی واردات اور انسانی المیہ سے یہ بے خبر نہیں ہوتے۔ عام انسانی واردات کا ان کے ذہن پر بھی بہت گہرا اثر ہوتا ہے۔ یہ بھی اسی سماج کا ایک حصہ ہیں جہاں سے تخلیقی احساس کو تحرک ملتا ہے۔ انہیں بھی اسی انسانی معاشرہ سے موضوع اور مواد ملتا ہے۔ یہ سوچنا کہ ان کی آنکھیں بند ہیں، یہ غلط تصور ہوگا بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ سماج کی جتنی جہتوں اور نفسیات پر ان کی نظر رہتی ہے، شاید ہی دوسروں کی ہو۔ صحیح معنیٰ میں تجربات اور مشاہدات کی دولت انہیں ہی نصیب ہے۔ وہ مشاہدہ جو تخلیق کو تحیر اور تازگی عطا کرتا ہے، جو اظہار کو توانائی بخشتا ہے۔ حالات کی کشمکش اور تناؤ سے بھی ان کے تخلیقی احساس کو تحریک ملتی ہے۔ جتنے بھی داخلی اور خارجی محرکات تخلیق کے لیے ضروری ہیں، ان سب سے یہ معمور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس محکمہ سے وابستہ فنکار کے احساس کی دنیا توانا اور تاباں نظر آتی ہے۔ 

    باغِ سخن
    شاعری داخلی احساس کا مظہر ہوتی ہے۔ اس میں بھی پولیس محکمہ سے وابستہ فنکاروں نے اپنے تخیل کو نئی اڑان دی ہے اور اپنے احساس کو ایک نیا افق عطا کیا ہے۔ بعض شاعروں نے تو رہ ورسم عام سے الگ راہ اختیار کی ہے اور اس روش خاص سے گریز کیا ہے جس پر ہر کس وناکس گامزن ہے۔ جارج پیش شور، ریاض خیرآبادی، شجاع خاور، عین رشید، خلیل مامون، کے۔ این، دارو والا ایسے شعرا ہیں جو شعری منظر نامہ میں اپنے امتیازات کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کی شاعری میں انبوہی رنگ وآہنگ نہیں ہے، ان کا طرز سخن جداگانہ ہے۔ ان کے علاوہ بھی شاعری کے میدان میں کچھ ایسے نام ہیں جن کے یہاں انفرادیت کی جستجو کی جاسکتی ہے۔ 

    اردو کے شعری منظر نامہ پر محکمۂ پولیس سے وابستہ بہت سے افراد ہیں جن کے سوانحی کوائف اور نمونۂ کلام قدیم اور جدید تذکروں میں ملتے ہیں۔ لالہ سری رام کے مشہور تذکرہ ’’خُمخانۂ جاوید‘‘ کی پانچ جلدوں کی ورق گردانی کی جائے تو بہت سے نام سامنے آئیں گے۔ اس تذکرہ کی تمام جلدوں تک ہماری رسائی نہیں ہوپائی۔ ایک دو جلدوں میں محکمۂ پولیس سے وابستہ کچھ شاعروں کے نام ملے تو حیرت ہوئی کہ ایسی بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں کے حامل بھی اس شعبہ سے وابستہ رہے ہیں۔ ’’خُمخانۂ جاوید‘‘ کے حوالہ سے یہاں چند شاعروں کا تذکرہ مناسب ہوگا۔ 

    شیدا
    پنڈت کاشی ناتھ صاحب، دہلی کے باشندے ہیں۔ محکمۂ پولیس میں انسپکٹر کے فرائض ادا کرچکے ہیں۔ فن سخن میں شاہزادہ میرزا قیصر بخت مرحوم فروغ کے شاگرد ہیں۔ عرصۂ دراز سے کچھ حال معلوم نہیں۔ سیدھا سادہ شعر کہتے ہیں۔ کلام کا نمونہ ملاحظہ ہو،

    کرے نگاہ دم ذبح وہ مرے سر پر
    حباب جس نے نہ دیکھا ہو آپ خنجر پر

    نظر کی طرح تمہاری بھی آمد وشد ہو
    ہماری آنکھ کا پردہ اگر پڑے در پر

    سبک ہوں پھول کی صورت نگاہ عالم میں 
    الٰہی میں بھی جگہ پاؤں ان کے بستر پر

    (لالہ ’خمخانہ جاوید‘ مرتبہ پنڈت برجموہن دتا تریہ کیفی مطبوعہ لالہ امیر چند کلکتہ-17، علی پور روڈ، دہلی (1960)، جلد پنجم ص 136۔) 

    طالب
    منشی طالب علی خاں قصبہ بہگانہ علاقہ تنما ریاست جے پور کے باشندے ہیں۔ اجمیر میں کئی سال تک پولیس میں ملازم رہے۔ اردو فارسی سے بخوبی واقف ہیں۔ علم معانی وعروض میں دخل رکھتے ہیں۔ حضرت قتیل بھرت پوری سے تلمذ ہے۔ زیادہ حالات معلوم نہ ہوئے۔ کلام یہ ہے،

    پوچھو نہ کچھ حیات کا عرصہ ہے مختصر
    میری شب فراق کا قصہ دراز ہے

    قسمت رسا ہوئی تو کسی روز دیکھنا
    وہ آستاں ہے اور جبین نیاز ہے

    آنکھیں کریں گی پردہ دری یہ خبر نہ تھی
    میں جانتا تھا عشق مرے دل کا راز ہے

    جلتے ہیں اور جل نہیں چکتے فراق میں 
    ہم دل جلوں کے دل میں بھی کیا سوز وساز ہے

    طالب تو نکلا ایک ہی رند خراب حال
    ہم تو سمجھتے تھے کہ بڑا پاک باز ہے

    خودی کھو دے جو انساں واقف اسرار ہوجائے 
    محیط عشق میں ڈوبے تو بیڑا پار ہوجائے

    قیامت تک بھی اس کو جام صحت مل نہیں سکتا
    جو ان بیمار آنکھوں کا کوئی بیمار ہوجائے

    عدیل
    سید محمد عسکری کنتوروی، جناب حبیب کنتوروی کے برادر خورد ہیں اور انہیں سے مشورہ سخن کرتے ہیں۔ ہیئت، ہندسہ ریاضی وغیرہ حیدرآباد کے مدرسہ تعلیم المعلمین میں پڑھا۔ اس وقت سرکار نظام میں پولیس انسپکٹر ہیں۔ بہت طبیعت دار شاعر ہیں۔ مضمون اچھے پیدا کرتے ہیں۔ زبان کی صفائی کی طرف توجہ کم مگر خلاف محاورہ شعر نہیں کہتے۔ فراہم شدہ کلام کا انتخاب درج ذیل ہے،

    چہرہ اداس حال پریشاں دل نڈھال
    بگڑا ہوا ہے آج ترے مبتلا کا رنگ

    آئی اگر ہنسی بھی تو آنسو ٹپک پڑے 
    مدت سے ہے یہی دل درد آشنا کا رنگ

    دن رات منتظر ہوں قیامت کا اس لیے 
    شاید ہو اس میں بھی کوئی تیری ادا کا رنگ

    دیر و حرم کا پردہ اسرار ایک ہے 
    عشق صنم میں پھر نہیں سکتے خدا سے ہم

    غش آیا جس پے طور پر موسی کو اے عدیل
    جلوہ ہے اس جمال کا میری نگاہ میں 

    (خمخانہ جاوید جلد پنجم، ص 578)

    اس کے علاوہ مختلف تذکروں میں بھی پولیس شعرا کا ذکر ہے۔ خاص طور پر منطقائی تذکروں میں بہت سے نام مل سکتے ہیں۔ ہندوستان کی جتنی ریاستیں ہیں ان میں بعض شعر وادب کے باب میں بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ ان میں بہت سے علاقوں کی ادبی تاریخیں بھی ترتیب دی گئی ہیں۔ شاعروں اور ادبیوں کے تذکرے بھی لکھے گئے ہیں۔ ان ریاستوں کے کچھ پولیس شعراکا یہاں ذکر کیا جارہا ہے، یہ محض نام شماری ہے۔ ان کی شاعری کے فنی اور فکری تجزیے کے لیے کافی صفحات درکار ہیں۔ اس لیے صرف تعارف اور تذکرے پر ہی اکتفا کیا جارہا ہے۔

    (الف) اترپردیش
    اترپردیش کی ریاست میں ایسے بہت سے فنکار ہیں جنہوں نے محکمۂ پولیس میں رہتے ہوئے اپنی تخلیقی سرگرمیاں جاری رکھیں اور شعر وادب کو خوبصورت احساسات اور انسانی جذبات سے روشن رکھا۔ ان احساسات میں معاشرتی مسائل اور المیے بھی شامل ہیں اور وہ واردات بھی جو پتھر دل انسان کو موم کر دیتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کا تعلق بھی اسی انسانی معاشرہ سے ہوتا ہے جہاں ہرلمحہ مختلف طرح کے حادثات وقوع پذیر ہوتے ہیں اور ان کا اثر ان کے ذہنوں پر بھی پڑتا ہے اور یہ اپنے تاثرات کو نثر اور شاعری کی شکل میں ڈھال دیتے ہیں۔ 

    اسی ریاست کے ایک اہم شاعر فرخ بنارسی ہیں جن کے دادا میرا امداد علی بحر بھی شاعر تھے۔ ان کا پورا گھرانہ شعر وسخن سے آباد تھا۔ انہوں نے ہریش چندر کالج بنارس سے میٹریکولیشن کیا۔ مراد آباد سے پولیس سب انسپکٹر کی ٹریننگ لی۔ محکمۂ پولیس کی مصروفیات کے باوجود تخلیقی عمل میں مستغرق رہے۔ وہ زندہ دل شخص تھے۔ ان کا ایک مجموعہ ’تجلیات فرخ‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ ’آئینۂ فرخ‘ کے عنوان سے دوسرا مجموعہ مرتب کیا تھا جو شائع نہ ہوسکا۔ وہ غزل کے بہت عمدہ شاعر تھے۔ معاصر شاعروں سے ان کا لب ولہجہ مختلف تھا۔ ان کی شاعری میں حکمت ودانش بھی ہے، فلسفہ بھی، عشق اوررومان بھی۔ ڈاکٹر امرت لال عشرت نے ان پر ایک طویل مضمون تحریر کیا ہے جو ’سلسلۂ مصحفی کے سخنوران بنارس‘ مرتبہ ڈاکٹر عبدالسلام میں شامل ہے۔ اس میں انہوں نے لکھا ہے کہ’’غالب اور اقبال کے لسانی ماحول میں اصغر اور فانی کے انداز میں صوفیانہ اور فلسفیانہ نازک رسی اور نازک کاری فرخ بنارسی کے کلام کا اساسی جوہر ہے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی تحریر کیا ہے کہ’فرخ قادر الکلام شاعر تھے۔ ان کے قصیدے اور رباعیات امتیازی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن ان کا دل ان کی غزلوں میں دھڑکتا ہے۔ یہ صنف شاعری انہیں محبوب تھی اور اسی میں انہوں نے اپنے واردات قلبی اور کیفیات واحساسات ذہنی کو الفاظ کے ڈھانچے میں ڈھالا ہے۔ ان کے کلام میں بڑی پختگی ہے۔‘‘ امرت لال عشرت نے ان کے کلام کا جو نمونہ درج کیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے کلام میں وہ ساری کیفیتیں ہیں جن سے سخن میں تاثیر پیدا ہوتی ہے۔ وہی الفاظ، استعارات، کنایات جو کلاسیکی شعریات کا حصہ رہے ہیں، ان کی شاعری میں بھی موجود ہیں۔ ایسے اشعار جن کی قرأت سے ذہن میں احساس کے کئی دریچے وا ہوجاتے ہیں،

    چھوٹنے والے ہیں زنداں سے اسیرانِ جنوں 
    اب چمک جائے گی تقدیر بیابانوں کی

    نیند آتی نہیں زنداں میں مجھے وحشت سے 
    آنکھ لگتی نہیں کیوں میرے نگہبانوں کی

    ساقی کی نگاہوں سے چھڑکنے لگتی مستی
    لبریز ابھی ساغر صہبا نہ ہوا تھا

    موج مے دیکھ کے جذبات میں لہریں اٹھیں 
    پھر گیا آنکھ میں نقشہ تری انگڑائی کا

    آؤ آپس میں کریں چاند کے حصے تقسیم
    روشنی تم میں رہے داغ مرے دل میں رہے 

    اللہ رے چشمِ مست کی کیف آفرینیاں 
    رگ رگ میں روح دوڑ رہی ہے سرور کی

    نہیں ممکن کہ عشق سے خالی رہے دل
    یہ وہ شیشہ ہے جو ٹوٹے تو پیمانہ بنے 

    جستجو جس کی ہے وہ دل میں ہے محمل میں کہاں 
    قیس سے کوئی یہ کہہ دے کہ نہ دیوانہ بنے 

    نہ رہا ہوش جب اٹھی رخِ روشن سے نقاب
    کچھ نہ حیرت کے سوا دید کا حاصل ٹھہرا

    ان اشعار سے ان کے ذہن کی شگفتگی اور جولانی طبع کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ بہت پختہ رنگ کے شعر ہیں۔ جن میں کیفیت بھی ہے اور قوت تسخیر بھی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اپنے دل کی ساری دھڑکنوں کو شاعری میں سمو دیا ہے۔ 1875 میں پیدا ہونے والے اور 1945 میں وفات پانے والے فرخ بنارسی کی شاعری ان کی شخصیت کا عکس ہے۔ ان کی شاعری میں جتنی شوخی ادا ہے، ان کی شخصیت میں بھی وہی سرمستی اور سرخوشی ہے۔ امرت لال عشرت نے لکھا ہے کہ ’’فرخ بنارسی حسن پرستی میں یکتائے روزگار تھے۔ بھنورے کی طرح کسی ایک خوش نما پھول پر قیام انہیں پسند نہیں تھا۔ شہر در شہر اور کو بہ کو گلشن حسن کی گل گشت میں مصروف رہتے تھے۔ ان کے دوستوں کے خیال میں اسی گل چینی نے ان کے تغزل اور شعریت کو جوان رکھا اور بڑھاپے میں بھی نکاح کی فکر میں رہے۔ فرخ کو فن موسیقی سے بھی دلچسپی تھی۔ استاذ معز الدین خاں اس دور میں ٹھمری کے بنارسی رنگ کو پیش کرنے میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ فرخ کا اس گھرانے میں بھی آنا جانا تھا۔ استاذ کی ہمشیرہ رحیم النساء کی فن اور شخصیت میں کوئی ایسی دلربائی تھی کہ فرخ ہزار جان سے فریفتہ ہوگئے۔ پھر ایک دن ہزار مخالفت کے باوجود اس غیرت ناہید کو جس کی ہر تان بقول مومن دیپک تھی۔ اپنے گھر لے آئے، اہل خانہ اس پیوند سے کبھی خوش نہیں رہے اور فرخ کو اس جرم کی پاداش میں بہت سی ذہنی اذیتیں برداشت کرنا پڑیں۔ لیکن رحیم النساء گویا فرخ کی ہستی کا ایک مستقل جز بن کر رہ گئی تھیں۔ انہیں خانہ بدر بھی کیاگیا۔ لیکن وہاں تو۔۔۔ 

    فریاد ہو کہ نغمہ ہو فرخ اثر کہاں 
    ہے ہر صدا صدائے بیاباں ترے بغیر

    رحیم النساء اپنے بھائی استاذ معز الدین خان کی مانند بہت بڑی موسیقار مانی جاتی تھیں۔ اس بیگم سے فرخ کی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ اگرچہ اس کے بعد بھی فرخ نے بہت سے نکاح اور متعہ کیے لیکن رحیم النساء کا احترام ہمیشہ پیش نظر رہا اور ان کی دوسری بیگمات کا درجہ ہمیشہ کمتر رہا۔‘‘ 

    محمد یوسف انصاری آسی کوچوی محکمۂ پولیس میں ہیڈ کانسٹیبل تھے۔ تدریس سے بھی ان کی وابستگی رہی ہے۔ عرفان عباسی نے تذکرہ شعرائے اترپردیش جلد 26 میں ان کے کچھ اشعار درج کیے ہیں۔ 

    ایک ان کی نظر میں گرنے سے 
    نظر نظر بدگمان ہوتی ہے 

    موجِ طوفان سے کھیلتے رہنا
    آدمی سیکھ لے کناروں سے 

    ہم نے پھولوں سے زخم کھائے ہیں 
    ہم کو شکوہ نہیں ہے خاروں سے 

    اعظم گڑھ سے تعلق رکھنے والے سید نظیر احمد اخلاق اعظم گڑھ کے جیل خانہ میں نائب داروغہ کے عہدے پر فائز تھے۔ حضرت جلال لکھنوی کے شاگرد، ان کے سوانحی کوائف تو زیادہ نہیں ملتے۔ مگر خمخانۂ جاوید میں ان کا نمونۂ کلام موجود ہے۔ 

    پائی ہے تم نے ماہِ لقا شکل حور کی
    روشن ضیائے رخ سے تجلی ہے طور کی

    اک ٹھوکر کبھی تربت پہ لگائی ہوتی
    میری سوئی ہوئی تقدیر جگائی ہوتی

    (بحوالہ سخنوران اعظم گڑھ مرتبہ قمر الزماں مبارکپوری، صفحہ 260) 

    اسی ریاست کے شہر غازی پور میں بھی بہت سے ایسے تخلیق کار ہیں جن کا تعلق محکمۂ پولیس سے رہا ہے اور انہوں نے شعر وادب کی مشاطگی میں نمایاں کارنامے انجام دیے ہیں۔ ان میں شہرت تاجپوری، سائل غازی پوری، ایوب ناصر، خان نثار قابل ذکر ہیں۔ 

    سیدزوارحسین شہرتؔ کا تعلق تاج پور دہمہ غازی پور سے تھا، وہ بہار پولیس میں ملازم تھے۔ دربھنگہ میں اسسٹنٹ سب انسپکٹر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ 1898ء میں پیدائش ہوئی اور 8دسمبر 1983 کو انتقال ہوا۔ ڈاکٹر علی شیر خان نے نمونہ کلام کے طور پر چند اشعار درج کیے ہیں،

    وہ روٹھ جائیں تو لوٹیں مزا منانے کا
    یوں ہی ملے گا بہانہ گلے لگانے کا

    نظر کی راہ سے آبیٹھو خانۂ دل میں 
    فریب دو نہ تصور میں بار بار مجھے 

    (بحوالہ، غازی پورکی ادبی خدمات، ص، 247) 

    اوسیاں ضلع غازی پور کے انعام الحق سائل غازی پوری، کلکتہ میں پولیس ملازمت میں تھے۔ مشاعروں میں اکثر شریک ہوتے تھے۔ ان کا نمونہ کلام درج ذیل ہے،
    مقصد ہے گفتگو تو چلورو برو کریں 
    اب چاک پردہ سبھی ماوتو کریں 

    اقرا ر کرلیا ہے کہ پتھر نہ پوجیں گے 
    سر کو کہاں جھکائیں گے یہ جستجو کریں 

    صحرا بہ صحرا پھول کھلائیں گے گلاب کے 
    سائل نہ اب طواف یونہی کو بہ کو کریں 

    (بحوالہ، علی شیر خاں، غازی پور کی ادبی خدمات، ص، 345-46) 

    ایوب ناصر کا تعلق پاراغازی پور سے ہے۔ کلکتہ پولیس میں ملازمت تھی۔ انہوں نے اچھے شعر کہے ہیں۔ نمونہ ملاحظہ ہو،

    کچھ حادثے چمن میں ہوئے عجیب سے 
    ہم مطمئن ہیں گل سے نہ اب عندلیب سے 

    سرپر ہمیشہ دھوپ کی چادر تنی رہی
    کوئی گھٹابھی چھائی نہیں ہے نصیب سے 

    تیرے خنجر کے نشاں ہیں مری پیشانی پر
    کوئی اعجاز تو بخشا ہے میرے بھائی نے 

    (بحوالہ، غازی پور کی ادبی خدمات) 

    ہزل کے شاعر خاں نثار بھی اوسیاں غازی پور سے تعلق رکھتے ہیں۔ کلکتہ پولیس میں برسرروزگار تھے۔ اعزاز افضل جیسے شاعر سے شرف تلمذ حاصل ہے۔ ان کے مزاحیہ طنزیہ شاعری کے نمونے ملاحظہ ہوں،

    کھدر پہن کے بیچ رہا تھا شراب وہ
    آیا جو تھانے دار تو جھنڈا اٹھالیا

    ہم بھی کوئی گنوار سپاہی نہ تھے نثار
    ہم نے بھی جام پھینک کے ڈنڈا اٹھا لیا

    کس ندی میں کتنا پانی ہے ہم سے پوچھیے 
    دور سے ہم بھانپ لیتے ہیں تلاطم دیکھ کر

    شاعروں کے پیٹ میں مرغی ہے یا مرغا نثار
    ہم سمجھ جاتے ہیں انداز ترنم دیکھ کر

    کانپور جو علم وادب کا گہوارہ رہا ہے۔ جہاں سے نشور واحدی، فنا نظامی، زیب غوری جیسے بڑے ناموں کی نسبت رہی ہے، وہاں بھی کچھ شعراء ایسے تھے جن کا تعلق محکمۂ پولیس سے رہا ہے۔ ان میں ایک نام سعادت کا بھی ہے جو رشک کے شاگرد تھے اور کرنیل گنج کانپور میں تھانہ دار کے عہدے پر فائز تھے۔ ان کے نمونۂ کلام سے ان کی ذہنی اور فنی پختگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے،

    فاتحہ پڑھنے کو وہ سفاک آیا قبر پر
    موت نے امید پوری کی دلِ ناشاد کی

    طوطیٔ ہندوستاں سمجھیں کیوں نہ شاعر مجھے 
    اے سعادت ہے عنایت رشک سے استاد کی

    یہیں سے شرف کا بھی تعلق ہے جو نواب واجد علی شاہ کے زمانہ میں یہاں کے تھانہ دار تھے۔ میر علی رشک کے شاگرد، ان کا دیوان بھی شائع ہوچکا ہے۔ ان کا ذکر سعادت خاں ناصر کے تذکرہ ’’خوش معرکہ زیبا‘‘ اورلالہ سری رام کے ’’خُم خانۂ جاوید‘‘ میں بھی موجود ہے۔ ان کا نمونۂ کلام یوں ہے،

    خوشبو تمہارے منہ کی بدلتی نہیں کبھی
    دیکھی نہیں ہے یہ بات کسی عطر دان میں 

    جب کیا شکوہ نہ ملنے کا تو یوں کہنے لگا
    خوف بدنامی کا صاحب ہے زمانہ اور ہے 

    (بحوالہ تذکرہ شعرائے کانپور، مؤلفین سلیم عنایتی ؍فاروق جائسی) 

    کانپور سے ہی پنڈت گوری شنکر سپروکا بھی تعلق ہے جو محکمۂ پولیس میں اچھے عہدے پر فائز تھے۔ مشاعروں اور نشستوں میں اکثر ان کی شرکت رہتی تھی۔ ان کی ایک کتاب ’’جوشِ محبت‘‘ ہے۔ ان کے کلام سے ان کے تخلیقی رویہ اور رجحان کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے،

    شنکر کے سوا دھیان کسی کا نہیں مجھ کو
    میں دل سے شب وروز یہی نام ہوں رٹتا

    برائی کا بدلہ ہے دنیا میں نیکی
    اسے یاد رکھنا نصیحت ہے میری

    جاں صدمۂ فرقت سے نکل جائے تو اچھا
    یہ ساری بلا سر سے ہی ٹل جائے تو اچھا

    گوری شنکر جی 1869 میں کلکتہ میں پیدا ہوئے اور 1931 میں کانپور میں انتقال ہوا۔ 

    یہیں کے عاشقی بلہوری بھی تھے جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے گریجویٹ اور پولیس کے اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ یہ ملازمت انہیں راس نہیں آئی تو مستعفی ہوکر گھر پر ہی رہنے لگے۔ فارسی اور اردو دونوں میں ہی انہوں نے شعر کہے ہیں۔ تارِ وصال کے عنوان سے 1969 میں ان کا دیوان بھی شائع ہوا ہے۔ ان کا کلام بہت پختہ اور شگفتہ ہے۔ نمونہ ملاحظہ فرمائیں،

    عدم حیات سے پہلے عدم حیات کے بعد
    سکون رات سے پہلے سکون رات کے بعد

    حسن ہمہ تن راگ ہی راگ
    عشق سراپا آگ ہی آگ

    عاشقی بلہوری 1893 میں کانپور میں پیدا ہوئے اور 1961 میں وفات پائی۔ 

    سیدنثار حسین کاظمی المعروف بہ اختر کاظمی کا تعلق فتح پور سے ہے۔ ان کا تعلق بھی پولیس کے خفیہ محکمہ سے رہا ہے۔ انہوں نے افسانے بھی لکھے ہیں ناول بھی ’خزاں کے بعد‘ ان کا پہلا ناول ہے، مگر شاعر کی حیثیت سے ان کی شناخت زیادہ ہے۔ شہر سخن ان کا مجموعہ کلام ہے۔ وسیع تر تجربے اور مشاہدے نے ان کی تخلیق کو نیا رنگ وآہنگ عطا کیا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں،

    عمر بھر مشعل راہ بنتی رہی 
    میری ماں مجھ کو ایسی دعا دے گئی

    میرے شانے سے لپٹ کر روپڑا بچپن مرا
    گاؤں کا گھر چھوڑ کر جب میں نگرآنے لگا

    شاعر سنبھلی بھی پولیس محکمہ میں ملازم تھے۔ ڈاکٹر کشور جہاں زیدی نے لکھا ہے کہ انہوں نے ایک تفتیشی رپورٹ منظوم لکھ کر افسربالا کے سامنے پیش کی، افسر بھی ایسا ادب نواز نکلا کہ خوش ہوکر پرموشن کردیا۔ ان کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں،

    زمیں کا نام نہ لیں آسماں کا ذکر کریں 
    جہاں قدم نہ گئے ہوں وہاں کا ذکر کریں 

    یہ کیا ضروری ہے شاعر سخن وروں کے لیے 
    بشرپہ دھیان نہ دیں کہکشاں کا ذکر کریں 

    (ب) مدھیہ پردیش
    مدھیہ پردیش بھی ایک زرخیز زمین رہی ہے۔ یہاں شعر و ادب کی بہت مستحکم اور مضبوط روایت رہی ہے۔ بڑی بڑی شخصیتوں نے اس سرزمین میں جنم لیا ہے۔ اسی ریاست سے نام منوہر سہائے انور کا تعلق ہے جو ریاست ٹونک کے محکمۂ پولیس میں ملازم تھے۔ یہ تلمیذ داغ پروفیسر نارائن پرساد گوالیاری کے خلف رشید تھے۔ اردو، انگریزی اور فارسی زبانوں کے ماہر منوہر نے کچھ عرصے اس محکمہ میں ملازمت کی۔ اس کے بعد گوالیار سے لاہور چلے گئے جہاں منشی محبوب عالم کے اخبار ’’پیسہ‘‘ میں ترجمہ نگار کی حیثیت سے انہیں ملازمت مل گئی۔ پروفیسر منوہر نے ’’سراج الدین علی خاں آرزو- حیات اور تصانیف‘‘ کے عنوان سے انگریزی میں تحقیقی مقالہ تحریر کیا جس پر انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی۔ منوہر فارسی زبان وادب کے ماہر تھے۔ انہوں نے ڈی اے وی کالج لاہور میں اردو فارسی کی تدریسی خدمات بھی انجام دیں۔ یہ عمدہ شاعر بھی تھے اور ان کا کلام اس دور کے مشہور اور مقبول رسالہ ماہنامہ بیسویں صدی میں تواتر اور تسلسل کے ساتھ چھپتا تھا۔ مالک رام جیسے عظیم محقق نے بھی ان کے کلام کی بڑی تعریف کی ہے اور تذکرۂ معاصرین جلد3 میں ان کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ ڈاکٹر اسلم آزاد نے اپنی کتاب ’اردو کے غیرمسلم شعرائ- تاریخ وتنقید‘ (2009) میں ان کے سوانحی کوائف مع نمونۂ کلام درج کیے ہیں۔ منوہر سہائے انور کے چند اشعار سے ان کی جودت طبع کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ 

    جھگڑے میں بھی ہے اک لطف ورنہ
    ہمارا آپ کا جھگڑا کیا ہے 

    اے دوستو تمہاری عنایت کا شکریہ
    کب تھے نصیب رنج والم اس قدر مجھے 

    منوہر سہائے انور مدھیہ پردیش کے سبل گڑھ میں یکم جنوری 1901 میں پیدا ہوئے اور 17جنوری 1974 کو وفات پائی۔ 

    مدھیہ پردیش کے سرونج سے محکمۂ پولیس سے وابستہ بہت سے شعرا اور ادبا رہے ہیں۔ ان میں ایک شہرت مالوی بھی ہیں۔ محمد نصراللہ شہرتؔ محکمۂ پولیس کے انسپکٹر اور سرونج کے کوتوال بھی تھے، اس کے علاوہ وہ ریاض المدارس کے بانیوں میں تھے، انہوں نے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ قصیدے، مرثیہ، مثنوی، مخمس، قطعات، مسدس کے علاوہ غزلیں اور نظمیں بھی کہی ہیں۔ غزل میں بھی ان کا انداز منفرد ہے۔ ڈاکٹر شان احمد فخری نے اپنی کتاب’’سرونج کی ادبی خدمات‘‘ میں ان کا تفصیلی ذکر کیا ہے اور ان کے کلام کی خوبیوں کے حوالے سے بہت عمدہ گفتگو کی ہے۔ ان کے مطابق شہرت کا شمار مالوہ کے اچھے فنکاروں میں ہوتا ہے، خاص طور سے نظم کے میدان میں انہیں اچھی قدرت حاصل تھی۔ ان کے تعلق سے شان احمد فخری کا کہنا ہے کہ ’’شہرتؔ کے کلام میں متضادکیفیت پائی جاتی ہے، ایک طرف وہ داغؔ کے رنگ میں نظر آتے ہیں تو دوسری طرف حالیؔ کے مقلد دکھائی دیتے ہیں، کہیں لکھنؤ کا رنگ ابتذال جھلکتا ہے تو کہیں حالیؔ اور اکبرؔ کی طرح مصلح قوم نظرآتے ہیں۔‘‘ 

    شہرتؔ فارسی کا اچھا ذوق رکھتے تھے۔ بنیادی طور پر ان کی طبیعت میں رومانیت تھی۔ ان کی غزل کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں، 

    کہا منصور نے سولی پہ چڑھ کر
    ادا رسم محبت کر رہا ہوں 

    ان کو اتنا نہ ستا اے چرخ، اتنا غم نہ دے 
    حضرت دل ہیں بہت ناز کے پالے ہوئے 

    ولی اللہ خان کلیم سرونجی بھی پولیس ملازمت میں رہے اور ان کا شمار بھی یہاں کے اچھے شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کے تعلق سے ڈاکٹر شان احمد فخری نے لکھا ہے کہ’’عوام میں کلیم صاحب کی بددماغی اور سخت مزاجی کے متعدد واقعات مشہور ہیں لیکن کلیم صاحب فطرتاً ایسے نہیں تھے۔ کسی نے ان کا مزاج سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ پولیس کی طویل زندگی نے ان کی مزاج میں سختی ضرور پیدا کردی تھی اور ان کا لہجہ بھی کرخت ہوگیا تھا، لہٰذا وہ اپنی عادتِ ثانیہ سے پیچھا نہ چھڑا سکے اور عوام وخواص میں بدمزاج مشہور ہوگیے، لیکن جن لوگوں نے کلیم صاحب کو قریب سے دیکھا ہے اور ان کے ساتھ کافی وقت گزارا ہے وہ انہیں انتہائی مخلص، شریف، منکسرالمزاج اورقول کا دھنی مانتے ہیں۔‘‘ 

    کلیم سرونجی کا مجموعۂ کلام’’ورق ورق‘‘ 1984ء میں شائع ہوا تھا۔ اس کا مقدمہ پروفیسر عمر حیات خاں غوری نے تحریرکیا تھا۔ کلیم سرونجی غزل کے اچھے شاعر ہیں۔ زبان وبیان پرگرفت ہے۔ کلام میں تنوع ہے۔ زندگی کے تجربات اور مشاہدات ہیں۔ ان کے چند اشعار سے ان کی افتاد طبع اور ذہنی کیفیات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ 

    دل کا ہرایک داغ روشن ہے 
    آندھیوں میں چراغ روشن ہے 

    اسی کا نام ہے شاید قیامت
    زمیں چھونے چلی ہے آسماں کو

    ذرا نگاہ اٹھائی تھی ہوش کھو بیٹھے 
    کلیم پر ترے جلوے بہت گراں گزرے 

    مہکی ہے بدن میں جو تری یاد کی خوشبو
    کیا دشت تخیل میں کوئی پھول کھلا ہے 

    مدھیہ پردیش کے ہی ضلع راج گڑھ سے ضرغام سارنگپوری کا تعلق ہے جو پولیس کی ملازمت میں تھے، ان کا نام سید کاظم علی تخلص ضرغامؔ تھا۔ انہوں نے مختلف شعری اصناف میں اپنے جوہر دکھائے ہیں۔ ان کی شاعری میں سادگی اور سلاست ہے۔ ڈاکٹر مہتاب عالم نے اپنی کتاب ’’وسط ہند میں اردو ادب‘‘، حصہ اول میں ان کے سوانحی کوائف کے ساتھ درج ذیل نمونہ کلام درج کیا ہے، 

    زمیں سے آسماں تک بول بالا ہے محمد کا
    خدا کا نور ہے ہر جا اُجالا ہے محمد کا

    کلام اللہ میں دیکھا تو مدحت ہے محمد کی
    ہر اک آیت کے آئینہ میں صورت ہے محمد کی

    (ڈاکٹر مہتاب عالم، وسط ہند میں اردو ادب، ص، 519) 

    مدھیہ پردیش کے گوالیار سے منصور علی خاں موجد کاتعلق ہے جو ٹریفک پولیس میں ملازم تھے۔ انہوں نے بقول ڈاکٹر قمر گوالیاری واقعات کربلا پر کافی اچھی نظمیں کہی ہیں۔ غزل سے بھی ان کا گہرا رشتہ رہا ہے۔ قمر گوالیاری نے ان کی غزل کے چند اشعار اپنی کتاب’’گوالیار اور اردو زبان وادب‘‘ میں درج کیے ہیں۔ بہت عمدہ اشعارہیں، 

    کچھ ایسی زمانے کی فضا دیکھ رہے ہیں 
    کس سمت کو چلتی ہے ہوا دیکھ رہے ہیں 

    ہم کو بھی ہے ضد ترک وفا ہم نہ کریں گے 
    کرتے ہیں کہاں تک وہ جفا دیکھ رہے ہیں 

    ممکن ہے کہ پوشیدہ ہوں اچھائیاں اس میں 
    جس شخص کو ہم لوگ برا دیکھ رہے ہیں 

    اس دور میں اپنے بھی پرائے ہوئے موجدؔ
    ہم پھول میں خاروں کی ادا دیکھ رہے ہیں 

    مدھیہ پردیش کے بھوپال سے مقبول واجدؔ کا تعلق ہے۔ یہ ایک عمدہ تخلیق کار ہیں اور مختلف سطحوں پر فعال اور متحرک بھی۔ 

    (ج) جھارکھنڈ
    جنگلاتی زمین جھارکھنڈ کی تشکیل 15نومبر2000میں عمل میں آئی۔ صوبہ بہار سے الگ ہو کر اس سرزمین نے اپنے الگ تخلیقی اور ثقافتی وجود کا احساس دلایا۔ اس کے اضلاع رانچی، پلاموں، ہزاری باغ، دھنباد وغیرہ ادبی ثقافتی لحاظ سے بہت زرخیز ہیں۔ اسی ریاست سے قمر مخدومی کا بھی تعلق ہے۔ جو پولیس حولدار کی حیثیت سے تعینات رہے ہیں۔ واسع پور دھنبادکے رہنے والے ہیں۔ انہوں نے خانقاہ کبیریہ سہسرام سے عالم اور فاضل کی سند حاصل کی۔ سخنوران جھارکھنڈ کے مصنف ڈاکٹر اقبال حسین کے مطابق انہوں نے ہائی اسکول میں اردو اور فارسی کی تدریسی خدمات بھی انجام دی ہیں۔ ’’نغمات قمر‘‘ کے عنوان سے ان کا ایک مجموعہ بھی شائع ہوچکا ہے۔ مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ نظموں میں انہوں نے اپنے تخلیقی جوہر کا ثبوت دیا ہے۔ غزل کے بھی کچھ شعر ہیں جس سے ان کی فکری اور فنی سطح کا اندازہ لگانا آسان ہوگا۔ 

    کرو نہ غم ضرورت پڑی تو ہم دیں گے 
    لہو کے تیل چراغوں میں روشنی کے لیے 

    قمر تم اپنے پرائے کی بات کرتے ہو
    قسم خدا کی زمانہ فریب دیتا ہے 

    مخدومی کی نظموں میں جنگ، ہمالیہ، جشن عید، یوم جمہوریہ قابل ذکر ہیں۔ ان کی شاعری میں وطن دوستی کے جذبات نمایاں ہیں۔ جنگ کے تعلق سے ان کی ایک بہت مشہور نظم ہے جس کے کچھ بند ملاحظہ فرمائیں، 

    جنگ ہوتی ہے تو انسان لرز اٹھتے ہیں 
    قلبِ انسان میں ارمان لرز اٹھتے ہیں 

    حسن وتہذیب کے ایوان لرز اٹھتے ہیں 
    دیر وکعبہ کے نگہبان لرز اٹھتے ہیں 

    آبرو ملک کی پھانسی پہ لٹک جاتی ہے 
    قوم خوشحالی کے رستے سے بھٹک جاتی ہے 

    قمر مخدومی نے ایک رسالہ ’جام نو‘ بھی نکالا تھا۔ ان کی پیدائش 11جنوری 1937 میں ہوئی۔ جائے ولادت داؤد نگر، اورنگ آباد بہار ہے اور وفات جون 1981 میں ہوئی۔ 

    بکارو سے عبدالشکور پروانہ کا تعلق ہے جنہوں نے مختلف اصناف میں اپنی فنکاری کے جوہر دکھائے ہیں۔ محکمۂ پولس سے وابستگی کی وجہ سے ان کے یہاں عصری عوامی مسائل کی جھلک ملتی ہے۔ سخن وران جھارکھنڈ میں ڈاکٹر اقبال حسین نے ان کا نمونۂ کلام درج کیا ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عبدالشکور نے شعر و ادب کا مطالعہ بہت گہرائی سے کیا ہے۔ ان کے چند اشعار سے ان کی تخلیقی کیفیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، 

    شمع کی گود میں پروانہ جل گیا دیکھو
    اسے خیال نہیں کہ زندگی کیا ہے 

    خوف کی تلوار ہر اک موڑ پر
    ہے بشر بیزار ہر ایک موڑ پر

    عاشقی ہی عاشقی ہے شہر میں 
    آنکھیں ہیں دوچار ہر اک موڑ پر

    داروغہ کی حیثیت سے انہوں نے بہت ہی اہم خدمات انجام دی ہیں۔ وہ 6مئی 1951 میں بھوجپور میں پیدا ہوئے۔ 

    (د) گجرات
    شاہ وجیہہ الدین علوی، وارث علوی، محمد علوی اور ہندوستانی زبان میں لکھے گئے پہلے دلت ناول ’’انگلیات‘‘ کے خالق جوزف میکوان کی یہ سرزمین دوارکا، سومناتھ جیسے مذہبی مقامات اور مہاتما گاندھی کی جنم بھومی کی وجہ سے ایک الگ شناخت رکھتی ہے۔ فن تعمیر کے اعتبار سے بھی اس ریاست کا اپنا امتیاز و اختصاص ہے۔ یہاں بھی شعر و ادب کی کاشت ہوتی رہی ہے اور تخلیق کاروں نے اس سرزمین کی تخلیقی عظمت کو بھی جرید عالم پر ثبت کیا ہے۔ 

    گجرات کے بڑودہ سے تعلق رکھنے والے عاشق افسری کا شماربھی وہاں کے استاد شاعروں میں ہوتا ہے۔ جو پولس محکمہ سے وابستہ تھے۔ انہوں نے مختلف اصناف میں شاعری کی ہے۔ ان کے یہاں قدیم اور جدید دونوں رنگ ملتے ہیں۔ ظہیر صبا قادری نے اپنی کتاب ’’تذکرہ سخنوران بڑودہ‘ میں ان کا نمونۂ کلام درج کیا ہے۔ عاشق افسری کے یہ چند اشعار دیکھیں، 

    واقف ہیں ہم جہاں کے نشیب وفراز سے 
    رکھتے ہیں پاؤں بھی وقت کی رفتار دیکھ کر

    ہم نے جس کے لیے دنیا کو بھلایا عاشق
    اس نے یوں ہم کو بھلایا ہے کہ جی جانے ہے 

    بڑودہ کے نسیم القادری محکمۂ پولیس میں ملازم تھے۔ ان کا اصل نام محبوب علی میر علی عبدالقادر ہے اور تخلص نسیم۔ انہوں نے منشی علی احمد آشی اور درد بڑودوی سے مشورہ سخن کیا۔ ظہیر صبا قادری کے مطابق ان کی شاعری زمینی سچائی اور عصری آگہی کا مرقع ہے۔ انہوں نے اردو کے ساتھ ساتھ گجراتی میں بھی شاعری کی ہے۔ ظہیر صبا قادری نے ان کا نمونۂ کلام درج کیا ہے۔ اس کے چند اشعار پیش ہیں، 

    کوئی مقامِ ادب سے پکارتا ہی رہا
    جنوں کے ہاتھ محبت میں بڑھ کے تھام لیتے 

    جن کے تاروں سے ابھرنے لگا جیون سنگیت
    من کی دھرتی پر برسنے لگے نغمۂ کومل

     (ہ) پنجاب
    پنجاب اور ہریانہ بھی سر سبز شاداب تخلیقی علاقے ہیں۔ یہیں سے راجندر سنگھ بیدی، اوپندر ناتھ اشک، بلونت سنگھ جیسے بڑے تخلیق کاروں کا تعلق رہا ہے۔ یہاں بھی بہت تخلیق کار ایسے ہیں جن کا تعلق محکمۂ پولیس سے رہا ہے۔ راجیش کمار اوج ہوشیار پور پنجاب کے رہنے والے ہیں۔ وہ شملہ میں ڈی آئی جی پولیس کے عہدے پر تعینات تھے۔ انہوں نے بہت اچھے شعر کہے ہیں۔ 

    منتظر آنکھیں اسی منظر کی ہیں 
    خوب تھا حسن نظارہ آپ کا

    انہیں اوج کیا علم فرقت میں ان کی
    چراغِ نظر بجھ چکا ہے کسی کا

    رہ کے گلشن میں بھی ترسے ہیں گلِ تر کے لیے 
    یہ مقدر تھا تو کیا روئیں مقدر کے لیے 

    ان کا کلام پختہ بھی ہے۔ اس میں سادگی بھی ہے، گہرائی بھی ہے۔ 

    راجبیر دیسوال ہریانہ کیڈر کے پولیس آفیسر ہیں۔ اردو شاعری کا بہت عمدہ ذوق رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری کا ایک مجموعہ’’رہ گزر‘‘ کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے۔ 20سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی ایک کتاب ’’بارشیں گرتی رہیں‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ انگریزی میں Wit and Humour of Haryanaاور My own Kajurahoشائع ہوچکے ہیں۔ انہیں ’’وشیش ساہتیہ ایوارڈ‘‘ اور ’’لکھی چند سمان‘‘ بھی مل چکے ہیں۔ 

     (و) راجستھان
    راجستھان جو راجپوتانہ کہلاتا تھا۔ یہ تقریباً 22ریاستوں پر مشتمل تھا۔ یہ ریاست بھی بڑی زرخیز رہی ہے۔ یہاں بھی بہت سے فنکار ایسے ہیں جنہوں نے محکمۂ پولیس میں رہتے ہوئے اہم تخلیقی خدمات انجام دی ہیں۔ شعر وادب کے گیسو سنوارے ہیں اور تخلیقی ادبی سرمایہ میں گراں قدر اضافے کیے ہیں۔ 
    منصور علی خاں بسمل بھی ایک اہم شاعر ہیں۔ جن کے والد بھی جے پور میں تھانیدار تھے۔ یہ آغا دہلوی کے شاگرد تھے۔ منصور کے کلام میں پختگی، سلاست اور روانی ہے۔ شاہد احمد جمالی نے اپنی کتاب ’’غالب اور راجستھان‘‘ میں مولانا نظیر حسن سخا دہلوی کے رسالہ ’’جوہرِ سخن‘‘ کے حوالہ سے ان کا نمونۂ کلام درج کیا ہے جس کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بسمل کے کلام میں نہ صرف تنوع ہے بلکہ تازگی اور تفکر بھی ہے۔ 

    ایک قطرے میں خدا جانے بھرا تھا کیا اثر
    اشک آنکھوں سے گرا اور گرکر طوفاں ہوگیا

    سرِ شامِ غریباں ہے الٰہی خیر ہو دم کی
    برنگِ ابر چھائی ہے گھٹا چاروں طرف غم کی

    خدا جانے مری بیتابیاں کیا رنگ لاتیں 
    وہی حالت ہے پھر سینے میں سوزآتشِ غم کی

    منصور علی خاں بسمل جے پور میں 1878 میں پیدا ہوئے۔ 1963میں ان کا انتقال ہوگیا۔ بڑے نوجوان بیٹے کی موت نے ان کی بینائی چھین لی تھی۔ ان کا کوئی شعری مجموعہ شائع نہیں ہوسکا لیکن کلام رسائل میں محفوظ ہے۔ 

    احمد علی خاں منصور چوروی محکمۂ پولیس میں ملازم تھے۔ بعد میں ایم۔ اے اور بی۔ ایڈ کی تعلیم حاصل کی اور محکمہ تعلیم میں ملازمت کرلی۔ شعر وادب کا بہت عمدہ ذوق تھا۔ راجستھان کے نامور شعرا میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’دار کی دعوت‘‘ کے عنوان سے اوردوسرا’’احسان اناگیر‘‘ کے عنوان سے راجستھان اردو اکادمی سے شائع ہوا۔ انہوں نے مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ شاعری کے ساتھ نثر پر بھی قدرت حاصل تھی۔ پروفیسر مدبر علی زیدی نے ان کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’منصور صاحب نے نئے استعاروں، نئی تشبیہات، نئی تلازمات اور علامتوں سے جو شعری پیکر تراشے ہیں، وہ غزل کو نئی شاہ راہوں پر چلنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ان کی لفظیات کی ندرت اس کی شاہد ہے۔ (بحوالہ، شیخاواٹی میں اردو شعر ادب/ڈاکٹر اسلم نور خاں) انہوں نے ہندی میں بھی گیت، نظم، دوہے اور ماہیے تحریر کیے ہیں۔ ’’شیو چنتن‘‘ کے نام سے ان کا ہندی کلام شائع ہوچکا ہے۔ انہیں کئی اعزازات اور انعامات بھی مل چکے ہیں اوران کی ادبی خدمات کے حوالے سے تحقیقی کام بھی ہوچکا ہے۔ انہیں شخاواٹی کا نور بھی کہاجاتا تھا۔ ڈاکٹر اسلم نور خان نے ان کے قطعے، دوہے، منقبت، ماہیے اور رباعیات کے نمونے بھی درج کیے ہیں۔ ان کی غزل کے چند اشعار پیش ہیں، 

    ہر وقت برق ورعد کا خطرہ جہاں رہے 
    کیا خاک اس چمن میں آشیاں رہے 

     خوں میرا دے چکا ہے شہادت برنگ گل
    اب کیوں چمن میں مجھ سے کوئی بدگماں رہے 

    اک وہ کہ دوستوں کو بھی راحت نہ دے سکے 
    اک ہم کہ جو غریق غم دیگراں رہے 

    ترتیب دے رہا ہوں جنوں کی حکایتیں 
    اے جذب شوق حوصلہ دل جواں رہے 

    دولت گئی، وقار گیا، آبرو گئی
    انسان جب خود سرومغرور ہوگیا

    ظاہر کی بھوک نے اسے اندھابنا دیا
    اندر سے آج آدمی بے نور ہوگیا

    اس دور ظلم وجورمیں انصاف کی صدا
    جس نے بلند کی وہی منصور ہوگیا

    وہ خواب مرے تاج محل سے بھی حسیں تھے 
    وہ خواب جو شیشے کی طرح ٹوٹ گئے ہیں 

    بیکانیر کے حکیم محمد علی بیمار محکمۂ پولیس میں سرشتہ دار انسپکٹر تھے۔ تذکرہ خم خانہ جاوید کے مطابق بیمار کچھ دنوں تک مرزا غالب کی خدمت میں بھی رہے۔ یہ راجپوتانہ غضب اجمیر کے ایڈیٹر بھی تھے۔ جنگ نامہ روس وروم اور مسائل خمسہ ان کی اہم تصانیف ہیں۔ اچھی غزلیں کہتے تھے۔ تذکرۂ خم خانہ جاوید کے حوالے سے چند اشعار پیش ہیں، 

    عاشقِ زار کو ہرگز نہ ستاتا ظالم
    خوف کچھ بھی جو تجھے ہائے خدا کا ہوتا

    ہم مر گئے تس پہ خطاوار ہی ٹھہرے 
    اندھیر یہ ہم نے تیری سرکار میں دیکھا

    میر سید احمد دہلوی بھی اجمیر میں پولیس انسپکٹر کے عہدے پر فائز تھے۔ خُم خانہ جاوید کے مطابق ملا واحدی کے برادر نسبتی تھے۔ نظم ونثر دونوں میں اچھی صلاحیت تھی۔ ان کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں، 

    وعدۂ وصل کیا تو ہے مری جاں تم نے 
    پر ذرا یاد رہے یاد رہے یاد رہے 

    دامِ الفت میں کچھ اس طرح پھنساؤں اس کو
    ہاتھ ملتا بھی ہوا وہ ستم ایجاد رہے 

    شاعری شغل تو اچھا ہے جناب سید
    فکرِ دنیا سے اگر آدمی آزاد رہے 

    منشی سید ابوالحسن شرقی جودھ پور میں سب انسپکٹر پولیس تھے۔ شملہ میں ملازمت کی۔ خم خانہ جاوید کے مطابق ان کا ایک دیوان جو غیرمطبوعہ تھا چوری ہوگیا۔ ان کا نمونۂ کلام ملاحظہ ہو، 

    دن کو آہوں کے شرارے جو اڑے تھے شرقی
    رات کو چرخ پہ چمکے وہی اختر ہو کر

    رکھنا امید وفا کی نہ بتوں سے شرقی
    دوست کس کے یہ بھلا دشمن ایماں ہوں گے 

    میر آغا حسن پیکر تلمیذ عزیز ریاست جودھپور میں سب انسپکٹر پولیس کے عہدے پر فائز تھے۔ اصلاح سخن کے عنوان سے انہوں نے اصلاحات اساتذہ فن کو جمع کیا ہے۔ محمد شرف الدین یکتا کے تذکرہ بہار سخن میں ان کا نمونۂ کلام موجود ہے، 

    دل سے پیمان وفا کا حوصلہ جاتا رہا
    مدعی اب کیا بنیں کہ مدعا جاتا رہا

    جب سے قسمت نے چھڑایا ہم سے تیرا آستاں 
    سچ تو یہ ہے سر جھکانے کا مزا جاتا رہا

    پوچھتے ہیں لوگ پیکر وجہ خاموشی مری
    بے دلوں سے کیا بیاں کیجیے کہ کیا جاتا رہا

    وہ بھی کچھ تجھ سے دور دور رہے 
    جن کو دعویٰ تھا آشنائی کا

    اپنا غم دے کے بے خبر رہنا
    یہ بھی ایک ڈھب ہے دل ربائی کا

    (بحوالہ غالب اور راجستھان/شاہد احمد جمالی) 

    محمد خورشید علی مہربن سید انور علی شاد جے پور میں پولیس اہلکار تھے۔ طبیہ کالج جے پور سے طبیب فاضل اور عمدۃ الحکمہ کی ڈگری حاصل کی۔ مختلف رسائل میں ان کے کلام اور مضامین شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان کا انتقال کراچی میں ہوا۔ ان کا کلام پختہ ہے۔ چند اشعار پیش ہیں، 

    ہم نے جو تجھے دیکھ کے دل تھام لیا ہے 
    آداب محبت سے بڑا کام لیا ہے 

    یا الٰہی میرے دو تنکو ں کی رکھنا آبرو
    اک دھواں سا اٹھ رہا ہے صحن گلشن کے قریب

    چاہیے اے مہر اپنی تاب نظارہ کی شرم
    آج وہ بیٹھے ہوئے ہیں اپنی چلمن کے قریب

    وائے ناکامی کہ رخصت ہوگئی فصل بہار
    ہم ٹہلتے ہی رہے دیوارِ گلشن کے قریب

    ترے طاقِ ابرو کو سجدہ کیا
    نیازِ محبت ادا ہوگئی

    شاہد احمد جمالی نے ان کا بہت سا کلام اور مضمون کو محفوظ رکھا ہے۔ ان کا ایک اہم مضمون تجنیس مضارع بھی شامل کیا ہے جو ماہنامہ ’’شاعر‘‘ ممبئی میں اعجاز صدیقی ایڈیٹر شاعر کے نوٹ کے ساتھ شائع ہوا تھا۔ 

    عبدالرحمن کوکب تلمیذ آغا دہلوی ریاست جے پور میں پولیس کی ملازمت میں تھے۔ سب انسپکٹر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ مولانا سخادہلوی کے رسالہ جوہر سخن میں ان کا کلام درج ہے۔ غزلوں کے متفرق اشعار ملاحظہ فرمائیں۔ کلام میں بڑی پختگی ہے۔ 

    ہے لاگ اگر کچھ بھی تو جو کچھ ہے بجا ہے 
    رکھا ہے نہ کچھ طرز جفا میں نہ وفا میں 

    لاکھ پردے میں چھپودیکھ ہی لیں گے کوکب
    جو نظر باز ہیں آفت کی نظر رکھتے ہیں 

    نگاہ ناز خنجر تھا اشارہ اس کا قاتل تھا
    نظر ملتے ہی یہ دیکھا کہیں ہم تھے کہیں دل تھا

    کسی کے آتے ہی جانے کا کھٹکا ہوگیا پیدا
    خوشی تھی وصل کی لیکن خوشی میں غم بھی شامل تھا

    رونے پہ ہم جو آئیں سمندر میں گھر کریں 
    آنسو ہمارے دامن یار کو تر کریں 

    کوکب بتوں کے عشق میں سن ہوگیا ہے دل
    پتھر کا کیا علاج مرے چارہ گر کریں 

    (بحوالہ، غالب اور راجستھان/شاہد احمد جمالی) 

    بھنور سنگھ نازش، جے پور میں سب انسپکٹر پولیس تھے۔ مولانا معشوق علی اطہر ہاپوڑی اور مولانا کوثر سے شرف تلمذ ہے۔ بحوالہ شاہد احمد جمالی نمونۂ کلام پیش ہے، 

    جب تم نہیں تو مجھ کو غرض کیا بہار سے 
    میری طرف سے آگ لگا دو بہار میں 

    کر رہے ہیں وہ دعا کیوں مرے مر جانے کی
    کیا انہیں اپنے ہی بیمار سے ڈر لگتا ہے 

    عیادت کو جو وہ تشریف لائے مہرباں ہوکر
    مزا دینے لگا درد جگر آرام جاں ہوکر

    (خ) بہار
    ریاست بہار جو شعروسخن کے باب میں بڑی اہمیت کا حامل ہے یہاں بھی بہت سے ایسے تخلیق کار رہے ہیں جن کا تعلق پولیس محکمہ سے ہے، ضلع سارن (چھپرہ) سے تعلق رکھنے والے سید عزیز الحق ابن سید فضل حق اختر لشکری پوری بھی پولیس آفیسر تھے، پٹنہ یونیورسٹی سے گریجویشن کے بعد سب انسپکٹر کے عہدے پر مامور ہوئے، شعر وسخن سے بہت گہرا رشتہ تھا ان کا کلام تاج گیامیں شائع ہوتا رہا ہے، مجلہ ادراک گوپال پور کے ایڈیٹر سید حسن عباس کے حوالے سے تذکرہ شعرائے سارن کے مصنف سمیع بہواروی نے اختر کا نمونۂ کلام درج کیا ہے جس سے ان کی قدرت کلامی اور شگفتگی طبع کااندازہ ہوتا ہے۔ 

    ان کا منشا ہے کہ بسمل نہ تڑپنے پائے 
    ساتھ خنجر کے وہ زنجیر لیے پھرتے ہیں 

    قصۂ شیخ وبرہمن سے ہمیں کیا مطلب
    ہم تو دل میں تری تصویر لیے پھرتے ہیں 

    رسالہ تاج گیا، جنوری 1920ء میں ان کی غزل شائع ہوئی تھی جس کے چند اشعار قارئین کی نذر ہیں، 

    حسینان جہاں کب آشنا ہیں درد الفت سے 
    گلہ بے کار ہے شکوہ عبث ہے بے وفائی کا

    دل صد چاک اپنا آج کیسے کام کا نکلا
    ہوا سامان زلف یار کی عقدہ کشائی کا

    جسے دیکھووہی زخمی پڑا ہے تیرے کوچے میں 
    کوئی تیغ ستم کا کوئی ہے دست حنائی کا

    (بحوالہ تذکرہ شعرائے سارن، سمیع بہواروی، ص، 26) 

    رضا چھپروی بھی ایک اچھے شاعر تھے جن کا اصل نام احمد رضا کریم تھا وہ جی بی کالج مظفر پور کے گریجویٹ تھے۔ دربھنگہ کے مشہور محقق شاداں فاروقی نے ان کا شعری مجموعہ ’ساغر گل‘کے نام سے مرتب کیا تھا۔ ان کے کلام میں بھی بڑی تازگی وتنوع ہے۔ تذکرہ شعرائے سارن میں ان کا نمونۂ کلام درج ہے، 

    آج اس عمر کو پہنچے تو یہ معلوم ہوا
    راہ جاتی ہے یہی کوچۂ جاناں کی طرف

    اب یہ عالم ہے کہ تنہائی میں دَم گھٹتا ہے 
    دیکھیے کب ہو سفر شہر خموشاں کی طرف

    اب تو لے دے کے یہی وحشت دل ہے کہ رضا
    آنکھ اٹھتی ہے میری روزن زنداں کی طرف

    رضا چھپروی1906ء میں پیدا ہوئے تھے اور اکتوبر 1971ء میں ان کاانتقال ہوگیا۔ 

    محسن قاضی پوری بھی محکمہ پولیس میں ہی ملازم تھے۔ کئی زبانوں سے واقفیت تھی۔ انہوں نے اپنی تخلیق کو زیادہ تر نعتوں پر مرکوز رکھا، انہیں کا یہ نعتیہ شعر ہے، 

    تذکرہ کرتے ہیں آپس میں ملائک سارے 
    آجاتا ہے بڑے دھوم سے مہماں کس کا

    1865ء میں جمال پور سیوان میں پیدا ہوئے اور رسل پورہ سارن میں 12اگست 1945ء میں وفات پائی۔ 

    منشی میوہ لال عاجز بھی محکمۂ پولیس میں سب انسپکٹر تھے۔ ضلع گیا، بہار سے ان کا تعلق تھا۔ دربھنگہ میں تعینات تھے۔ ان کے کچھ اشعار ’’گلدستہ پیام یار‘‘ میں ماہ نومبر 1887ء میں اشاعت پذیر ہوئے تھے۔ ’’کلید گنجینۂ توحید‘‘ کے عنوان سے 16صفحوں کا ایک مختصر مجموعہ 1927ء میں شائع ہوا تھا۔ دوسرا مجموعہ ’’سر توحید‘‘ کے عنوان سے 1930ء میں شائع ہوا۔ ان کے کلام پر تصوف کا رنگ غالب ہے۔ نمونۂ کلام ملاحظہ کیجیے، 

    عالم غیب سے عاجز یہی آتی ہے صدا
    کچھ نہیں ہے کہیں مجھ واحدِ مطلق کے سوا

    خود ہی طالب ہوں میں خود میں ہوں مطلوب اپنا
    خود ہی معشوق ہوں خود عاشقِ شیدا میں ہوں 

    شبِ ہجراں ہمارے نالہ و آہ 
    عجب کیا ہے ہلادیں آسماں تک

    دلِ ناداں سمجھتا ہی نہیں کچھ
    بھلا اس کو میں سمجھاؤں کہاں تک

    صابر بہاری فردوسی بھی کانسٹبل تھے۔ نالندہ بہار میں اکتوبر1915ء میں ان کی پیدائش ہوئی۔ پٹنہ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ آپ کا پورا خانوادہ ہی شعری وادبی ذوق رکھتا تھا۔ یاسؔ بہاری، شوقؔ بہاری، وجدؔ بہاری آپ کے خاندان کی وہ شخصیتیں ہیں جن کا شمار اپنے زمانے کے اہم شعرا میں کیا جاتا تھا۔ سید احمد اللہ ندوی نے بھی ’’مسلم شعرائے بہار‘‘ میں ان کا ذکر شامل کیا ہے۔ ارشد قمر نے ان کا نمونۂ کلام اپنی کتاب ’شعرائے پلاموں‘‘ میں درج کیا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے کلام میں کتنی شائستگی اور سلاست ہے، ان کے چند اشعار، 

    آپ اگر قتل کا سامان لیے بیٹھے ہیں 
    ہم بھی کھونے کے لیے جان لیے بیٹھے ہیں 

    ہیں عجب چیز شہیدانِ محبت ناصح
    موت میں زیست کا سامان لیے بیٹھے ہیں 

    امتحاں کی کبھی پروا نہیں کرتے صابر
    سر ہتھیلی پہ یہ ہر آن لیے بیٹھے ہیں 

    سرمۂ عبرت بنا ہوں چشم عالم کے لیے 
    میں یہاں مٹتا گیا، ساراجہاں بنتا گیا

    راحتِ جاں بن گئی ہر اک مصیبت عشق کی
    درد دل جب جب بڑھا روح رواں بنتا گیا

    حسرت بکرم گنجوی بھی محکمۂ سی۔ آئی۔ ڈی میں انسپکٹر آف پولیس کے عہدے پر فائز تھے۔ ان کا اصل نام محمد داؤد خان تھا، بکرم گنج ضلع رہتاس، بہار میں 2جنوری 1937میں پیدائش ہوئی۔ آپ پولیس میڈل ایوارڈ سے بھی سرفراز کیے گیے۔ شفق سہسرامی سے آپ کوشرف تلمذ حاصل ہے، کئی مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ ارشد قمر نے دو غزلیں بطور نمونہ پیش کی ہیں، ان سے چند اشعار، 

    دامن میں لگ گئی ہے کسی گلبدن کی آگ
    مجھ کو جلا نہ ڈالے یہ غنچہ دہن کی آگ

    ملک ووطن یہ کس طرح جنت نشاں بنے 
    بجھتی نہیں ہے آج بھی ظلم کہن کی آگ

    مظلوم جو ستائے گیے ہیں جہان میں 
    کتنے ہی گھر جلائے گی ان کے کفن کی آگ

    (ط) مہاراشٹر
    مہاراشٹر کی سرزمین بھی شعرو ادب کے باب میں زرخیز ہے۔ یہاں کی شعری روایت میں روحانیت کی خوشبو بسی ہوئی ہے۔ تکارام، ایکناتھ، نام دیوکی اس سرزمین نے ادب اور آرٹ کو فروغ دیا ہے۔ یہ ایک بڑی ریاست ہے جس میں بمبئی، پونے، ناگپور، اورنگ آباد، مالیگائوں، ناسک جیسے اہم ثقافتی ادبی مراکز ہیں۔ بھبھوتی جیسے سنسکرت شاعر اور ڈرامہ نگار نارائن ہری آپٹے، وجے تیندولکر جیسی عظیم شخصیتوں کے اس علاقے میں شاعروں اور فنکاروں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ یہاں سے بھی کئی ایسے ادیب ہیں جن کا تعلق پولیس محکمہ سے ہے۔ ان میں ایک مختار احسن انصاری ہیں، جن پر ایک مضمون خلیق الزماں نصرت کا شامل مجلہ ہے۔ دوسری شخصیت مغموم پونوی کی ہے جو پولیس انسپکٹر کے عہدے پر فائز تھے۔ ان کا حقیقی نام منشی شیخ محمد ابراہیم ہے۔ اچھے شاعر تھے۔ گلزار سخن میں ان کا نمونۂ کلام ملتا ہے۔ نذیر فتح پوری نے شعرائے پونہ میں ان کا نمونۂ کلام درج کیا ہے، 

    پھوٹے وہ آنکھ جس کو تری جستجو نہ ہو
    وہ دل ہو چور چور کہ جس دل میں تو نہ ہو

    بزم دل وجگر میں ہے اسی سے روشنی
    تاریک میرا گھر ہو جو ماہ رو نہ ہو

    میں دل بنا ہواہوں سراپا تیرے لیے 
    وہ کون سی جگہ ہے درد جہاں تو نہ ہو

    (ظ) مغربی بنگال
    مغربی بنگال بھی ایک ایسی ریاست ہے جو ادب اورآرٹ کا مرکز ہے۔ یہاں سے بھی بہت سے ایسے فنکار رہے ہیں جن کا تعلق محکمہ پولیس سے رہا ہے۔ ان میں ایک اہم نام عین۔ رشید کا ہے جو نہ صرف شاعر تھے بلکہ ایک اچھے مترجم بھی تھے۔ شاعر کی حیثیت سے ان کی شناخت آفاقی ہے۔ (ان پر شمارے میں گوشہ شامل ہے اس لیے تفصیل سے گریز کیا جا رہا ہے۔) اسی مغربی بنگال سے مرلی دھر طالب کابھی تعلق ہے جو اسپیشل ٹاسک فورس سے وابستہ ہیں۔ ایک اچھے شاعر جن کا شعری مجموعہ ’’حاصل صحرانوردی‘‘ کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے۔ مقصود حسن بھی پولیس محکمہ میں ہیں، ان کی شعری تخلیقات رسائل وجرائد میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ 

    ہندوستان کے علاوہ پاکستان میں بھی بہت سے ایسے تخلیق کار ہیں جن کا تعلق محکمہ پولیس سے رہا ہے۔ انھیں میں ایک اہم نام ضیا جعفری کا ہے۔ سید عنایت علی شاہ ضیا جعفری پولیس میں سب انسپکٹر تھے۔ ضلع کیمل پور سے ان کا تعلق تھا۔ ان کے والد سید مرتضیٰ شاہ بھی انسپکٹر پولیس تھے۔ تذکرہ شعرائے اردو کے مصنف اصغر حسین خاں نظیر لدھیانوی کے مطابق ضیاء صحیح معنوں میں شاعر ہے۔ ان کے دل میں سوز وگداز بھی ہے اور کیف وسرور بھی۔ 

    پولیس کی ملازمت ان کی طبیعت کو راس نہیں آئی، اس لیے جلد مستعفی ہوگئے۔ ضیاء جعفری نے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ ’صبوحی‘ کے عنوان سے ان کا مجموعہ رباعیات شائع ہوچکا ہے۔ فارسی میں بھی شاعری کی ہے۔ ان کے کلام میں جو کیفیت ہے جو قاری کو مسحور کردیتی ہے۔ چند اشعار سے ان کی تخلیقی ندرت اور جدت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ 

    کئی جنتیں ہیں ابھی رہ گزر میں 
    ابھی خواب ہیں زندگی کے سہانے 

    بہت روئے شب اپنی تنہائیوں پر
    کھلی چاندنی تو لگے یاد آنے 

    غمِ جاناں غمِ ہستی کا سہارا تو نہیں 
    موج پھر موج ہے دریا کا کنارہ تو نہیں 

    آج رہ رہ کے جو بجتی ہیں مری زنجیریں 
    درِ زنداں پہ بہاروں نے پکارا تو نہیں 

    زندگی جن میں غزل خواں وہ گھنیری پلکیں 
    مدھ بھری آنکھ میں شاداب گناہوں کا پیام

    اردو کے علاوہ دیگر زبانوں میں بھی محکمۂ پولیس سے وابستہ افراد نے شاعری کی ہے۔ محمود بن محمد انڈین پولیس کے ایک اعلیٰ آفیسر جو سعودی عرب میں ہندوستانی سفیر کے طور پراپنے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں۔ آندھرا پردیش کے ہوم سکریٹری بھی رہے ہیں۔ وہ انگریزی کے شاعر ہیں۔ ان کا مجموعہ Fantasiaکے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ بھی ان کی انگریزی میں کئی کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ محمود بن حمد نظموں کے اچھے شاعر ہیں اور ان کی نظموں کے موضوعات بھی متنوع ہیں۔ ایس۔ فہیم احمد (آئی۔ آر۔ ایس) نے ان کی انگریزی نظموں کا ترجمہ ’’دل گداز‘‘ کے عنوان سے کیا ہے۔ ان نظموں کے حوالے سے علیم صبا نویدی نے لکھا ہے کہ ’’فہیم احمد نے محمود بن محمد کی کوئی سولہ چھوٹی بڑی نظموں کا انتخاب کیا ہے۔ ابتدا’’ماں‘‘ کے نام‘‘ کے عنوان کی چھ سطری نظم سے ہوئی ہے۔ تمام نظموں میں نثری ٹکڑے کھپائے گیے ہیں۔ بعض مقامات پر استغنائی ارتعاش نثر کو نظم کے بالکل قریب بھی کرتا دکھائی دیتا ہے۔‘‘ (بحوالہ، حیدرآباد کا شعر وادب، علیم صبا نویدی، مرتب، ڈاکٹر راہی فدائی، ص، 112-13) 

    علیم صبا نویدی نے محمود بن حمد کی دو نظمیں The Street Singerاور Tears and Smilesکا بطور خاص ذکر کیا ہے۔ محمود بن محمدکی نظموں میں آج کی زندگی کے مسائل و موضوعات ہیں۔ انگلو انڈین شاعروں میں ان کا مقام مستحکم ہے۔ 

    باب تحقیق
    محکمہ پولیس سے وابستہ افراد صرف شاعری یا فکشن سے وابستہ نہیں رہے ہیں بلکہ تحقیق وتنقید اور تاریخ کے میدان میں بھی ان کی خدمات بڑی اہم رہی ہیں۔ بسا اوقات حیرت ہوتی ہے کہ ایک نہایت غیر علمی اور غیر ادبی شعبے سے وابستہ ہونے کے باوجود انہوں نے کیسے کیسے گوہر نایاب تلاش کیے۔ 

    آغا حیدر حسن مرزا بھی ایک ایسے محقق ہیں جو حیدرآباد میں 1920ء میں محکمہ پولیس میں مہتمم تھے، ان کا سب سے اہم کام دکنی لغت و دکنی مخطو طات ہے جسے پروفیسر مغنی تبسم نے 2002ء میں شائع کیا۔ اس کے علاوہ پس پردہ ندرتِ زبان، حیدرآباد کی سیر ان کی اہم کتابیں ہیں۔ آغا حیدر حسن مرزا 5اگست 1892ء میں دلی میں پیدا ہوئے اور 5نومبر1976ء میں حیدرآباد میں وفات پائی۔ بقول ڈاکٹر مسز عسکری صفدر انہیں بیگماتی زبان پر عبور تھا۔ دلی کی زبان، تہذیب اور مشاہیر کے بارے میں ان کی رائے حرفِ آخر مانی جاتی تھی۔ نثر میں ان کا اسلوب جداگانہ اور منفرد تھا۔ وہ دکنی کے محقق اور مخطوطہ شناس تھے۔ (دکنی ادب کے محققین اور محسنین، ص، 48) 

    اسی باب میں ایک اہم نام مولانا احترام الدین شاغل جے پوری کا ہے۔ وہ جے پور اسٹیٹ پولیس میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر فائز تھے۔ راجستھان میں تحقیق کے باب میں ان کا نام بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ راجستھان کا اولین ادبی تذکرہ، تذکرہ شعرائے جے پوران کی ایک اہم تصنیف ہے جسے ایک مستند مرجع اورمعتبر ماخذ کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ اس میں جے پور کے تقریباً تین سو سے زائد شعرا کا تذکرہ ہے۔ پانچ سو صفحات پر مشتمل اسی تذکرے سے راجستھان میں اردو تحقیق کو ایک نئی راہ ملی۔ شاغل کا دوسرا تحقیقی کارنامہ صحیفۂ خوش نویساں ہے اس میں تقریباً 550خوش نویسوں کے کوائف اور آثار درج ہیں خاص طور پر اس میں ان خطاطوں کے حالات شامل ہیں جن کا ذکر اور کہیں نہیں ملتا۔ اس کتاب کے کئی اڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ اس کا تیسرا ایڈیشن قومی اردو کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی نے شائع کیا۔ اس کے علاوہ گل گوہر، نظر جمال ان کی اہم تصانیف ہیں۔ اردو نثر کو فروغ دینے میں ان کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ راجستھان کی یونیورسٹیوں میں ان پرپی۔ ایچ۔ ڈی۔ کے تحقیقی مقالے بھی لکھے جاچکے ہیں۔ راجستھان اردو اکادمی جے پور نے ان پر خداداد مونس کا ایک مونوگراف بھی شائع کیا ہے۔ مولانا احترام الدین شاغل نے ہی دیوان چند بجاج کی انگریزی کتاب جے پور پولیس گائد کا اردو میں ترجمہ کیا جس کا پہلا ایڈیشن 1932ء میں شائع ہوا۔ پھر 1938ء میں مشرح پولیس گائڈ کے نام سے اضافوں کے ساتھ ایک کتاب شائع ہوئی۔ ان کی ایک کتاب راجستھان پولیس کی کہانی بھی ہے۔ جس میں پولیس محکمہ کے کچھ افسران کے حالات درج ہیں۔ پولیس والوں کے لیے یہ بہت اہم کتاب ہے۔ اور ان کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ضرورت ہے کہ ان دونوں کتابوں کو دوبارہ شائع کیا جائے اور پولیس کے تربیتی نصاب میں شامل کیا جائے۔ 

    مولوی عبدالرحیم بیگ میرٹھی بھی ایک اہم نام ہے۔ یہ نہ صرف مولوی محمد اسمعٰیل میرٹھی جیسی معروف ادبی شخصیت کے استاد تھے بلکہ ایک اچھے شاعر اور مصنف بھی تھے۔ یہ بھی پولیس کی ملازمت میں تھے مگر مطالعہ کے شوق کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا اور ایک مدرسہ قائم کیا اور اس مدرسے کی ایک خاص بات یہ ہے کہ بقول پروفیسر خالد حسین خاں طبقات سخن کے مصنف مبتلا کے پوتے امداد حسین ظہور، مولوی محمد اسمٰعیل میرٹھی اور جارج پیش شور جیسی ہستیوں نے اسی مدرسے سے کسبِ فیض کیا۔ مرزا رحیم بیگ نے ہی غالبؔ کے قاطع برہان کے جواب میں ’ساطعِ برہان‘ جیسی کتاب لکھی تھی جو ہاشم پریس میرٹھ سے 1865ء میں شائع ہوئی۔ مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ نے سیاح کے نام ایک خط میں اس کتاب کی بابت یہ لکھا ہے، ’’وہ جو ایک اردو کتاب کا تم نے ذکر لکھا ہے وہ ایک لڑکے کے پڑھانے والے ملائے مکتب دار کا خبط ہے۔ رحیم بیگ اس کا نام ہے۔ میرٹھ کا رہنے والا ہے۔ کئی برس سے اندھا ہوگیا ہے۔ باوجود نابینائی کے احمق بھی ہے۔ اس کی تحریر میں نے دیکھی ہے تم کو بھیجوں گا مگر ایک بڑے مزے کی بات ہے کہ اس میں بیشتر وہ باتیں ہیں جن کو ’لطائفِ چینی‘ میں رد کرچکے ہو، اب اُس کے جواب میں فکر نہ کرنا۔‘‘ غالبؔنے اس کتاب کا بھی جواب لکھا جو ’نامۂ غالب‘ کے نام سے ’عودِ ہندی‘ میں چھپا ہے۔ عبدالرزاق شاکرؔ کو غالبؔ ایک خط میں لکھتے ہیں ’نامۂ غالب‘ کا مکتوب الیہ رحیم بیگ نامی میرٹھ کا رہنے والا ہے۔ دس برس سے اندھا ہوگیا ہے۔ کتاب پڑھ نہیں سکتا، سن لیتا ہے۔ عبارت لکھ نہیں سکتا، لکھوا دیتا ہے۔ بلکہ اس کے ہم وطن ایسا کہتے ہیں کہ وہ قوّت علمی بھی نہیں رکھتا اور اُن سے مدد لیتا ہے۔ اہل دہلی کہتے ہیں مولوی امام بخش سے ان کا تلمذ نہیں ہے اپنا اعتبار بڑھانے کو اپنے کو ان کا شاگرد بتاتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ’وائے اس ہیچ پوچ پرجس کو صہبائی کا تلمذ باعثِ عز ووقار ہے، رسالہ اس کا ساطع برہان دہلی پہنچ کر ڈھونڈوں گا اگر مل گیا تو خدمت میں پہنچے گا۔ (بحوالہ، اردو کے ادبی معرکے، مصنفہٗ، ڈاکٹر عامر یعقوب، ص، 340-41) 

    معین الدین حسن خان بھی تاریخ وتحقیق کا ایک اہم نام ہے۔ انہیں پہاڑ گنج دہلی کے تھانے میں بادشاہ دہلی کی طرف سے کوتوال مقرر کیا گیا تھا۔ ان کی کتاب ’خدنگِ غدر‘1857ء کی تاریخ کے باب میں ایک مستند مآخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کا انگریزی ترجمہ مٹکاف نے 1858ء میں شائع کیا تھا۔ اس کتاب کو خواجہ احمد فاروقی جیسے محقق نے اپنے مقدمے کے ساتھ شائع کیا اور ان کے بارے میں لکھا کہ ’’معین الدین حسین نواب اشرف الدولہ، قدرت اللہ بیگ، خان بہادر، غالب جنگ کا بیٹا اور دہلی کا متوطن تھا۔ اس کے اجداد سمرقند اور بخارا شریف سے احمد شاہ بادشاہ کے زمانے میں ہندوستان آئے تھے اور سردار اور ہفت ہزاری کے مناصب پر فائز تھے۔۔۔

    ’’11مئی 1857ء کو جب بغاوت شروع ہوئی تو معین الدین حسن پہاڑ گنج دہلی کے تھانے میں بادشاہ دہلی کی طرف سے کوتوال تھا۔ اس ہنگامہ و آشوب میں اُس نے سرتوفلس جان مٹکاف کی جان بچائی تھی لیکن انگریزوں کی فتح یابی کے بعد خود اس کا گھر بار، مال، اسباب نقد وجنس، اثاث البیت سب لٹ چکا تھااور اس کے سر کی قیمت بھی لگ چکی تھی۔ اس لیے وہ دہلی سے ممبئی اور ممبئی سے حجاز مقدس چلاگیا۔ ہندوستان واپس آنے کے بعد اس پر انگریز دشمنی اور غداری کاالزام لگایا گیا۔ تحقیقات ہوئی، مقدمہ چلا، لیکن مٹکاف کی کوششوں سے بری ہوگیا۔‘‘ 

    ’’خدنگ غدر‘‘ معین الدین خان کے چشم دید حالات پر مشتمل ہے۔ بقول خواجہ احمد فاروقی ’’یہ ایک ایسے شخص کا لکھا ہوا ہے جو خود قلزم خوں کا شناور تھا‘‘ اس کتاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ معین الدین حسن خاں خود اس بغاوت میں شامل تھے اور ان کی تمنا تھی کہ مغلیہ سلطنت دوبارہ قائم ہو۔ انہوں نے بہت سے انگریزوں کی جان بچائی اور انقلابیوں کو بھی بچایا۔ اس کتاب میں انہوں نے غدر سے متعلق تمام واقعات کا ذکر کیا ہے، خاص طور پر میرٹھ، غدرِ دہلی اورشورشِ کانپور کے بارے میں لکھا ہے۔ اودھ، احمداللہ شاہ اور حضرت بیگم محل کا بھی ذکر کیا ہے۔ خدنگ غدر 1857ء کی تاریخ کا ایک اہم مآخذ ہے۔ ڈاکٹر درخشاں تاجور نے اپنی کتاب ’معاصر اردو مآخذ‘ کی روشنی میں 1857ء میں اودھ کا محاذ کے حوالے سے جن کتابوں کو اہم مآخذ کے طور پر شامل کیا ہے اُن میں خدنگ غدر بھی شامل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کتاب ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی کا انسائیکلو پیڈیا کا درجہ رکھتی ہے۔ 

    اسی سلسلۂ تحقیق وتاریخ میں ایک اہم نام چودھری نبی احمد سندیلوی کا ہے جو بھوپال میں بحیثیت صدر انسپکٹر پولیس ملازم رہے۔ یوپی میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس رہے اور بندیل کھنڈ کی ریاست چرکھاری میں انسپکٹر جنرل پولیس کی حیثیت سے بھی کام کیا تھا۔ پولیس ملازمت میں رہتے ہوئے بھی تصنیف وتالیف کے عمل کو نہیں چھوڑا۔ تاریخ سے اِن کی خاص دلچسپی رہی ہے۔ ’کال کوٹھری‘جنگ پلاسی کے علاوہ ’ بہرام خاں ‘ ’وقائع عالم گیر‘’محمد بن تغلق‘ ’سلطان محمود غازی‘ ’تاریخ سندھ‘’مرقع بنارس‘ ’مشاہیرِ سندیلہ‘ ان کی اہم کتابیں ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے مختصر تاریخ جھجھر بھی لکھی ہے۔ تاریخ کے حوالے سے ان کی ایک اور اہم کتاب تذکرہ مؤرخین بھی ہے جسے ضیا فاروقی جیسے جوہر شناس نے مرتب کرکے شائع کر دیا ہے۔ اس کتاب میں ہندوستان کے مسلمان اور ہندو مؤرخین کے حالات اور ان کی لکھی ہوئی تاریخوں کا تذکرہ ہے۔ اس میں تقریباً166تاریخی کتابوں کا ذکر ہے۔ انہوں نے ان تاریخوں کو گمنامی سے بچانے کے لیے کتاب مرتب کی ہے۔ تاریخ ہند سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ ایک بیش قیمت کتاب ہے۔ تاریخ ہی سے متعلق ان کی ایک اہم کتاب مرقع بنارس بھی ہے۔ جس میں انہوں نے دیگر تفصیلات کے علاوہ بنارس کے ان مندروں اور مسجدوں کی تاریخ رقم کی ہے، جن پر عدالتوں میں تنازعہ چل رہا ہے۔ تاریخ کے طالب علموں کے لیے چودھری نبی احمد کی کتابیں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ ان کا تعلق سندیلہ ضلع ہردوئی سے ہے۔ خاندانِ مولویان اور قضاتِ گوپامئو سے تعلق کی وجہ سے علمی اور ادبی وراثت ان تک منتقل ہوئی۔ 

    تحقیق کے باب میں ڈاکٹر نریندر ناتھ ویرمنی کا نام بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ انہوں نے اردو نظموں میں قومیت اور وطنیت 1857کے عنوان سے ایک نہایت وقیع تحقیقی مقالہ تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے قومیت و وطنیت کے مفہوم ومحرکات پر تفصیلی گفتگو کی ہے اور ان دونوں کے مفاہیم کو اردو شاعری کے تناظر میں واضح کیا ہے، ان کا خیال ہے کہ قومیت ووطنیت کے سالم تصورات میں جبر واستبداد کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی، انہوں نے اپنے اس تحقیقی مقالے میں اردو شعرا پر 1857کی بغاوت کے اثرات کے حوالے سے بھی گفتگو کی ہے اور حالی اور ان کے ہمعصر شعرا آزاد، اکبر، اسماعیل، شبلی، اقبال، چکبست، جوش ملیح آبادی، سیماب اکبرآبادی، ظفرعلی خاں، تلوک چند محروم، ساغر نظامی، آنند نرائن ملا کے یہاں قومیت اور وطنیت کے تصورات تلاش کیے ہیں، اس کے علاوہ ترقی پسند شعرا علی سردار جعفری، ساحر لدھیانوی، مجاز، احسان دانش، جانثار اختر، مخدوم محی الدین اور جذبی کی شاعری میں بھی قومیت وطنیت کے تصورات کی جستجو کی ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ اردو زبان نے قومی یکجہتی اور باہمی اتحادکی ایک روشن مثال پیش کی ہے۔ ڈاکٹر نریندر ناتھ ویر منی ایک آئی پی ایس آفیسر ہیں جو اندور میں سابق ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل آف پولیس بھی رہے ہیں، ان کی پیدائش 23نومبر1932کو سرگودھا، پاکستان میں ہوئی۔ انہوں نے ایم۔ اے۔ ایل ایل بی اورپی ایچ ڈی اور ڈی لٹ کی ڈگریاں حاصل کیں۔ برکت اللہ یونیورسٹی، بھوپال سے انہوں نے پروفیسر آفاق احمد کی نگرانی میں ڈی لٹ کی ڈگری لی۔ مدھیہ پردیش کے یہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے ڈی لٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ڈاکٹر نریندر ناتھ چترکوٹ یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے۔ پولیس کے اعلیٰ عہدے پر فائز رہتے ہوئے انہوں نے اردو زبان وادب سے اپنا رشتہ قائم رکھا اور اہم ڈگریاں حاصل کیں۔ ڈاکٹر عزیز اندوری ان کی پی ایچ ڈی کے گائڈ تھے۔ انہوں نے اردو زبان وادب سے ان کی شیفتگی ومحبت کے جذبے کی بڑی ستائش کی ہے۔ 

    اسی ذیل میں معصوم عزیز کاظمی (گیا) کا نام بھی لیا جاسکتا ہے، جو بہار میں آئی۔ جی کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ ان کے تحقیقی مضامین مختلف علمی اور ادبی رسائل وجرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ مولانا محمدعلی جوہرایک عہد ساز شخصیت کے عنوان سے ان کی ایک گراں قدر تصنیف خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ سے شائع ہوئی ہے۔ اس کے پہلے باب میں انہوں نے مولانا محمد علی جوہر کی زندگی کے حالات اور اہم واقعات درج کیے ہیں۔ دوسرے باب میں ان کی صحافتی اور ادارتی خدمات کا احاطہ کیاہے۔ خاص طور پرہمدرد اردواور کامریڈانگریزی کے حوالے سے تفصیلات درج کئی گئی ہیں۔ تیسرے باب میں مولانا محمد علی جوہر کی شاعری کے حوالے سے گفتگو ہے۔ آخری باب میں ان کی مکتوب نگاری کا جائزہ پیش کیا گیا ہے اورکتاب کے آخر میں ماخذ اور مصادر دئیے گئے ہیں۔ مولانا محمد علی جوہر کے حوالے سے اردومیں بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ یہ تمام کتابیں اہمیت کی حامل ہیں۔ ان کتابوں کے درمیان معصوم احمد کاظمی کی کتاب بھی اس لیے اہمیت کی حامل ہے کہ ان کا تجزیاتی انداز اوروں سے مختلف ہے۔ جوہر شناسی کے باب میں یہ کتاب حوالہ جاتی حیثیت رکھتی ہے۔ پروفیسر کوثر مظہری نے ان کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے بہت اچھی رائے دی ہے کہ ’جوہریات کے مطالعہ میں معصوم احمد کاظمی کی یہ کتاب ایک تحقیقی اور تنقیدی نوعیت کا اضافہ ہے۔ یہ کتاب محنت اور جز رسی کے ساتھ لکھی گئی ہے۔ ماخذ ومعیار تک مصنف نے پوری دیانت داری کے ساتھ رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ‘ (بازدید اور تبصرے، ص، 353) 

    دیارِ فکشن
    فکشن میں کچھ ایسے اہم نام بھی ہیں، جن کا تعلق محکمۂ پولیس سے رہا ہے اور ان فکشن نگاروں نے واقعی اپنی ذہنی طباعی اور ذکاوتِ ذہنی کا ثبوت دیا ہے۔ فکشن ایسے ذہنوں کے لیے زیادہ موزوں اس لیے بھی ہے کہ جس طرح کے وقوعات واردات اور غیر متوقع سیچویشنس سے اس محکمۂ سے جڑے ہوئے لوگوں کو شب وروز گزر نا پڑتا ہے، دوسرے لوگوں کے لیے یہ ممکن نہیں ہے۔ ہر مرد اور عورت کی ذات میں بہت سی داستانیں اور کہانیاں چھپی ہوتی ہیں اور محکمۂ پولیس سے وابستہ لوگوں کا ہمیشہ ایسے افراد سے واسطہ پڑتا ہے جو کسی بھی افسانے کا کردار بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پولیس محکمے کے لوگوں کو کردار یا پلاٹ کی تلاش کے لیے زیادہ مشکلوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ انھیں کرداروں اور پلاٹوں سے روز ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ اس لیے میرے خیال میں پولیس محکمے سے وابستہ افراد زیادہ بہتر فکشن تشکیل دینے کی قوت رکھتے ہیں۔ کیوں کہ فکشن جن عناصریا منازل سے عبارت ہے اس سے اس شعبے کا ایک لازمی رشتہ ہے۔ موضوعی سطح پر بھی ان کے پاس ایک بڑا کینوس ہوتا ہے۔ انھیں نئے نئے موضوعات معاشرے سے ملتے رہتے ہیں۔ سیاست اور سماج کے نئے نئے زاویے اور نئے نئے مسائل ان کے سامنے آتے رہے ہیں۔ ان مسائل کو اگر فنی روشنی مل جائے تو اس سے عمدہ فکشن کی تشکیل ہوسکتی ہے۔ فکشن کے تعلق سے ایک اہم نام ظفر عمر بی۔ اے۔ علیگ کا ہے۔ جومحکمۂ پولیس میں ایک اعلا عہدے پر فائز تھے۔ ان کا ایک ناول’’نیلی چھتری‘‘ بہت مقبول ہے۔ اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔ مولوی عبدالحلیم شررؔ نے اپنے مجلہ ’’دلگداز‘‘ میں ایک مختصر نوٹ شائع کیا تھا کہ ’مولوی ظفر عمر بی۔ اے۔ علیگ ڈپٹی سپرنٹنڈٹ پولیس کی علمی قابلیت اور ادبی خصوصیت سے کون واقف نہیں ہے۔ انہوں نے ایک نیا ناول تصنیف کر کے شائع کیا ہے، جس کے پلاٹ میں انہوں نے بحیثیت ایک پولیس آفیسر اپنی اعلا طباعی اور ذکاوت کا ثبوت دیا ہے۔ واقعی یہ دلچسپ اور پسندیدہ ناول ہے۔ شروع کرنے کی دیر ہے پھر انسان بغیر ختم کیے ہوئے ہاتھ سے نہیں رکھ سکتا۔ اس کے علاوہ ان کا دوسرا ناول ’بہرام کی گرفتاری‘1919ء میں شائع ہوا۔ یہ ایک جاسوسی ناول تھا۔ یہ ناول بھی بہت مشہور ہوا۔ ان کا تیسرا ناول ’لال کٹھور‘1929ء میں شائع ہوا۔ اِ ن تمام ناولوں سے انہیں بہت شہرت ملی اور ان ناولوں کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔ چودھری محمد نعیم نے اپنے ایک مضمون ’بہرام کا خالق، ظفر عمر بی۔ اے علیگ‘ میں ان ناولوں کو تخلیقی ترجمہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تمام ناول ترجمے ہیں۔ ظفر عمر بی۔ اے۔ علیگ کا نام جاسوسی ناول نگاروں میں لیا جاتا ہے۔ ان کا تعلق میرٹھ سے تھا۔ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج، علی گڑھ سے انہوں نے بی۔ اے کی ڈگری لی تھی۔ یہ 1884ء میں پیدا ہوئے اور 1949ء میں ان کی وفات ہوئی۔ 

    فکشن کا دوسرا اہم نام پیغام آفاقی ہے۔ انہوں نے بہت سے افسانے تحریر کیے۔ مکان اور پلیتہ جیسے ناول ان کی تخلیقی اور فنی گہرائیوں کی گواہی دیتے ہیں۔ ناول ’مکان ‘تانیثی احتجاج کا ایک شاہکار ہے۔ اس ناول کو اتنی مقبولیت ہوئی کہ دوسری زبانوں میں بھی اس کے ترجمے ہوئے۔ اس کا تانیثی کردار ’نیرا‘ ایک مستحکم اور زندہ جاوید کردار کی حیثیت رکھتا ہے۔ مکان ناول آج کے تنقیدی ڈسکورس کا ایک اہم حصہ ہے۔ معاصر ناولوں پر لکھی گئی کوئی بھی تنقید ’مکان‘ کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ ’پلیتہ ‘بھی ان کا مشہور ناول ہے۔ کالا پانی کے تناظر میں لکھا گیا یہ ناول ایک سیاسی رزمیے کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس میں پرانی تاریخ کو نئے عہدکے جبر سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔ (پیغام آفاقی پر کئی تحریریں شامل ہیں، اس لیے مزید تفصیل سے گریز کیا جارہا ہے) 

    پولیس محکمہ سے تعلق رکھنے والے ایک اہم فکشن نگار اُمراؤ طارق بھی ہیں۔ یہ سندھ میں ڈپٹی سپرنٹنڈٹ پولیس تھے۔ ان کا تعلق بنیادی طور پرموضع شاہ پور ضلع فتح پور، ہندوستان سے ہے۔ لاء کالج سے ایل۔ ایل۔ بی، شریعت لاء میں ڈپلومہ، کراچی یونیورسٹی سے پولیٹکل سائنس میں ایم۔ اے کیا، اردو لاء کالج میں اعزازی لیکچرر بھی رہے۔ اِن کا ناول ’معتوب‘ اردو کے اہم ناولوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ’بدن کا طواف‘’تمام شہرنے پہنے ہوئے ہیں دستانے ‘، ’خشکی پر جزیرے ‘ان کے مشہور افسانوی مجموعے ہیں۔ انھیں پاکستان کا ’آدم جی ‘ادبی ایوارڈ بھی مل کا ہے۔ اُمراؤ طارق نے خاکے بھی تحریر کیے۔ ان کے خاکوں کا مجموعہ ’دھَنک کے باقی ماندہ رنگ ‘ کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے۔ میں نے اپنے مضمون ’فتح پور کا تخلیقی طور‘ میں ان کا ذکر کیا ہے۔ یہاں پاکستان کے مشہور ناقد پروفیسر غفور شاہ قاسم کا یہ اقتباس نقل کرنا مفید ہوگا کہ’’امراؤ طارق کے افسانے کسی ناپختہ ذہن کی خوش فہمیوں کا نتیجہ نہیں بلکہ پختہ اور باشعور تخلیقی فن کار کے ذہنی تجربوں اور مشاہدات کا حاصل ہیں۔ ان کے افسانوں میں خیالات اور الفاظ قدم سے قدم ملاکر چلتے ہیں۔ کہیں احساس نہیں ہوتا کہ الفاظ افسانہ نگار کی گرفت سے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور خیالات پیچھے رہ گیے ہیں۔ موضوع اور مواد کے نقطۂ نظر سے دیکھیے تو پہلی نظر ہی میں اندازہ ہوجاتا ہے کہ افسانہ نگار نے اپنی تخلیقی انگلیاں معاشرے کی نبضوں اور دکھتی رگوں پر رکھ دی ہیں۔ اُس نے سازِ حیات کے تقریباً تمام بیمار تاروں کو چھیڑا ہے اور گرد وپیش کی زندگی کے سارے بیمار مناظر اس کے پیش نظر رہے ہیں۔‘‘ فکشن کے تعلق سے محترمہ سلطانہ مہر کے ایک سوال کے جواب میں امرائو طارق نے بڑی اچھی بات کہی ہے کہ ’فکشن کا قاری سے رشتہ ٹوٹ گیا ہے اور فکشن چیستاں بن گیا ہے۔ (گفتنی اول) 

    فکشن کا ہی ایک بڑا نام مرزا حامد بیگ ہے ان کا بھی تعلق محکمہ ٔ پولیس سے رہا ہے۔ ان کے والد محمد اکرم بیگ بھی پولیس آفیسر تھے۔ مرزا حامد بیگ نے خود مختصر حالات زندگی کے تحت لکھا ہے کہ ’’1968ء میں والد صاحب D.S.P.کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے تو ہم لوگ سندھ سے کیمبل پور چلے آئے، 1971میں انسپکٹر سندھ کی ملازمت سے بھاگ کر ایم۔ اے اردو، لاہور کا رخ کیا۔‘‘ مرزا حامد بیگ اردو کے ایک اہم افسانہ نگار ہیں، جن کے افسانوں کا مجموعہ ’’گمشدہ کلمات، تار پر چلنے والی، گناہ کی مزدوری، جانکی بائی کی عرضی‘‘ قابل ذکر ہیں۔ اردو افسانے کی تنقید میں بھی ان کا نام نہایت احترام سے لیا جاتا ہے۔ ان کی کتاب ’’اردو افسانے کی روایت‘‘ ایک دستاویزی حیثیت رکھتی ہے۔ انہوں نے بہت سی کتابوں کے ترجمے کیے ہیں اور ترجمے کے نظری مباحث پر بھی ان کی کتابیں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ انہوں نے اردو ادب میں انگریزی سے نثری تراجم پر ڈاکٹریٹ کی ہے۔ تقریباً 29کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کے افسانوں میں ’’مغل سرائے‘‘ ایک قابل ذکر افسانہ ہے، اس کے علاوہ بھی ان کا ادبی دائرہ بہت وسیع ہے۔ مختلف موضوعات پر ان کی کتابیں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔ 

    علامہ نیاز فتح پوری بھی اردو کے اہم فکشن نگار ہیں۔ ان کا تعلق بھی پولیس محکمہ سے رہا تھا۔ مرزا حامد بیگ کے مطابق نیاز نے 1900عیسوی میں بطور سب انسپکٹر مرادآباد میں پولیس ٹریننگ لی 1901میں بحیثیت سب انسپکٹر تھانہ ہنڈیہ الہ آباد میں تعینات ہوئے اور 1902میں مستعفی ہوگئے۔ (اردو افسانے کی روایت) نیاز فتح پوری کا سب سے پہلا افسانہ ’’ایک پارسی دوشیزہ کو دیکھ کر‘‘ ہے، جو نقاد آگرہ میں شائع ہوا تھا، اس کے علاوہ ’’ایک شاعرکا انجام‘‘ ’’نقاب اٹھ جانے کے بعد‘‘ ’’جمالستان‘‘ ’’حسن کی عیاریاں اور دوسرے افسانے‘‘ ’’شہاب کی سرگزشت‘‘ ’’شبنمستان کا قطرۂ گوہری اور قربان ہائے حسن، کیوپڈ اینڈ سائکی‘‘ ان کے مشہور افسانوی مجموعے ہیں۔ افسانہ نگار کی حیثیت سے ان کی شناخت مستحکم ہے۔ وہ رومانوی افسانہ نگاروں میں بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ 

    اسی سلسلے میں نزہت حسن کا نام لیا جاسکتا ہے، جن کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ ’حاشیے کی زندگی ‘ کے عنوان سے 2006ء میں راج کمل پرکاشن سے شائع ہوا اور انگریزی میں ’The Marginal‘ کے عنوان سے بھی اس کی اشاعت ہوئی۔ نزہت حسن کا وطنی تعلق امروہہ سے ہے، مگر اُن کی پرورش اور پرداخت ممبئی میں ہوئی۔ انہوں نے ممبئی کے ایک مشہور اسکول’میری اینڈ جیسس‘ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ دلی یونیورسٹی سے کیمسٹری سے پوسٹ گریجویشن کی ڈگری لی، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ’ماس کمیونیکشن‘ کا کورس کیا۔ آئی۔ پی۔ ایس کا امتحان دیا۔ پولیس کے مختلف عہدوں پر فائز رہنے کے بعد 21فروری 2015ء میں نیشنل بُک ٹرسٹ کے ڈائرکٹر کے عہدے پرفائز رہیں اور اپنے علمی شوق کی وجہ سے اس ادارے کو فیض بھی پہنچایا۔ ان کی کہانیوں کا مجموعہ شائع ہوا تو مختلف زبانوں کے اخبارات اور رسائل میں بہت عمدہ تبصرے ہوئے اور ان کی فن کارانہ تخلیقی قوت کی ستائش کی گئی۔ ایک نئے زاویے سے ان کی کہانیوں کو پرکھا گیا اور یہ محسوس کیا گیا کہ پولیس کی آنکھیں کچھ ایسے پہلو تلاش کر لیتی ہیں جو عام تخلیق کاروں کے لیے ممکن نہیں۔ ان کے پاس موضوعات کی کثرت ہوتی ہے۔ انسانی زندگی اور معاشرے سے جڑے ہوئے بہت سے ایسے مسائل ہوتے ہیں جن سے واسطہ صرف اسی محکمے کے لوگوں کو پڑتا ہے۔ 

    مظفر شعیب ہاشمی بھی بہار میں آئی۔ جی کے عہدے پر فائز تھے۔ ان کی کہانیاں ڈاکٹر امام اعظم کی ادارت میں شائع ہونے والے مجلہ ’تمثیل نو‘ میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ احسان کا بوجھ، خوش فہمی، دھندہ، رات گئی بات گئی، مجھے یہ رشتہ پسند ہے، میم صاحب، ہائی جیکرس، ہزاروں سال کا انتظار، اچھا بابا ان کی عمدہ کہانیاں ہیں۔ ہزاروں سال کا انتظار میں ایک اسطوری ڈائمنشن ہے۔ ’’اچھا بابا‘‘ ان کی بڑی اہم کہانی ہے۔ یہ کہانی ایک کانٹراسیکچول عورت کی ذہنی جنسی ترجیحات اور اس کی تقلیب وتحلیل سے متعلق ہے۔ Bridget Jones Syndromeکی اسیر اور Sexual quotientکی متلاشی، نمرتاکی ذہنی تقلیب کی کیفیت کو کہانی کار نے نہایت خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ کہانی میں کیمیائی رد عمل کے اثرات اور Pheromones کے پھیلاؤ اور فسوں کو قاری کلائمکس میں اس وقت محسوس کرتا ہے جب وہ کہتی ہے، ’’اچھا بابا! تم جیت گئے‘‘ یہ سیکس کی شکست اور محبت کی فتح کی کہانی ہے۔ یعنی Love wins over sex۔ اس کہانی کی قرأت کئی سطحوں پر کی جاسکتی ہے۔ اس کا صحیح تحلیل وتجزیہ سوشل سائیکالوجسٹ یا نیوروسائنس کا کوئی متفحص ہی کرسکتا ہے کیوں کہ پوری کہانی نیورل سسٹم کے تحریک پر ہی مبنی ہے۔ دماغ کے بائیں حصے پر دائیں حصے کا غالب آجانا، یہ اس کہانی کا طلسماتی ہی نہیں سائنسی عنصر بھی ہے جس پرغور کیا جائے تو کہانی کی تہہ سے کئی طرح کے مفاہیم برآمد ہوں گے۔ بین مذہبی مناکحت کے تصور پر مبنی یہ پہلی کہانی نہیں ہے۔ ذکیہ مشہدی کی ’’صدائے بازگشت‘‘ میں اس نوع کی کہانی موجود ہے، مگر کہانی کار نے کچھ اس طور سے کہانی بنی ہے کہ تخلیقی متن کے بجائے سماجی سیاسی اور مذہبی متن کے طور پر لوگ اس کی قرأت کریں گے اور اس سے نیا سماجی، سیاسی ڈسکورس بھی جنم لے گا۔ بہت ممکن ہے کہ اس کہانی کے حوالے سے ڈاکٹر سید حسین اور وجے لکشمی، قاضی اشرف محمود اور سمترا اور بہت سے لوگوں کا ذکر چھڑ جائے اور مہاتما گاندھی کے رد عمل کی بابت بھی بات ہونے لگے۔ بہر حال تخلیقی سیاق میں میرے نزدیک یہ کہانی دو متضاد ذہنی جوڑے کے اختلاط سے ہی نہیں بلکہ دو تہذیبی دھاروں کے ارتباط سے بھی عبارت ہے۔ آج کی لبرل عورت کی اس ذہنی تقلیب میں سماجی، مذہبی رویے کی تقلیب کا اشارہ بھی مضمر ہے اور یہ تقلیب سماج، مذہب، عقیدے کی تطہیر کا سبب بھی بن سکتی ہے اور بین تہذیبی مفاہمت کی وسیع تر، کشادہ شاہراہ بھی عطا کرسکتی ہے۔ ان کی کئی اہم کہانیاں بحث ومباحثے کا موضوع بھی بنیں۔ 

    ارریہ کے مشہور شاعر ظہور الحق مضطر کے صاحبزادے مشفیع الحق (ارریہ) بھی محکمۂ پولیس سے وابستہ ہیں اور انہوں نے بھی بہت سی کہانیاں لکھی ہیں جو اردو کے اخبارات وجرائد میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ 

    فکشن کے باب میں کچھ اور بھی نام ہوسکتے ہیں، دنیا کی دیگر زبانوں میں بھی اس محکمے سے وابستہ فنکاروں نے اپنی تخلیقی توانائیوں سے فکشن کی ثروت میں اضافہ کیا ہوگا۔ ہندوستان کی علاقائی زبانوں میں بھی بہت سے ایسے فنکار تلاش کیے جاسکتے ہیں، جو اس محکمے سے وابستہ رہتے ہوئے بھی تخلیق کے مابعدالطبیعاتی عمل سے جڑے رہے ہیں۔ 

    پولیس والوں نے صرف افسانے نہیں لکھے ہیں بلکہ یہ افسانوں کے کردار بھی بنے ہیں۔ بہت سہ افسانہ نگاروں نے پولیس کو مرکزی کردار بنا کر کہانیاں لکھی ہیں۔ پیغام آفاقی جو خود پولیس محکمہ سے وابستہ تھے انہوں نے اپنے شاہکار ناول ’’مکان‘‘ میں ایک پولیس کو بھی اپنا کردار بنایا ہے اور اس کے حوالے سے پولیس محکمہ کی بدعنوانیوں کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ زیادہ تر افسانوں میں پولیس کو ایک منفی کردار کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے۔ کیول دھیر کی کہانی ’’بد چلن‘‘ میں بھی پولیس کا کردار ہے جس میں اس کی بدعنوانی اور رشوت خوری کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ قیوم میو نے بھی اپنی کہانیوں میں پولیس کو بحیثیت کردار پیش کیا ہے۔ ان کی ایک کہانی ’’پرموشن‘‘ ہے جس میں انہوں نے پولیس کی بربریت اور وحشیانہ پن کو پیش کیا ہے۔ پروموشن میں انہوں نے پولیس نظام پربہت گہرا طنز کیا ہے، اس کہانی میں پولیس اور ڈاکو دو مختلف اور متضاد کردار ہیں جن میں ایک کا تشخص تحفظ سے عبارت ہے تو دوسرے کا لوٹ پات سے، لیکن قیوم میو نے ان دونوں کرداروں کی تقلیبی کیفیت کو نمایاں کیا ہے کہ جو سماج کے محافظ کہلاتے ہیں ان کا کردار وحشیانہ ہے اور جو سماج کے لٹیرے کہلاتے ہیں، ان کے اندر انسانی ہمدردی اور رحم دلی ہے۔ پولیس کے اس منفی کردار کے تعلق سے اردو افسانوں میں بہت سے افسانے لکھے گیے ہیں شہناز رحمن نے اپنے مضمون میں اسی پہلو پر روشنی ڈالی ہے۔ یقیناً پولیس کا یہ منفی کردار بہت سے ذہنوں میں ہے مگر ہمیں اس کے سیاسی وسماجی عوامل واسباب بھی تلاش کرنے ہوں گے، اور اس کے لیے صرف پولیس ہی نہیں بلکہ طاقتور اور منفعت پسند سماج کے رویے کو بھی موردِ الزام ٹھہرانا ہوگا کہ اسی کی وجہ سے لوگوں کے ذہنوں میں پولیس کا یہ منفی کردار نقش ہوا ہے۔ 

    کنج خودنوشت
    خود نوشت کے باب میں کئی ایسی آپ بیتیاں ہیں جو پولیس افسروں نے لکھی ہیں اور ان کا امتیاز یہ ہے کہ یہ ایک ایسی دنیا کی سیر کراتی ہیں جو تناؤ تصادم اور کشمکش سے بھری ہوئی ہے۔ یہاں ہر ہر قدم پر خطرات کے سائے منڈلاتے رہتے ہیں۔ ایسی خودنوشت میں ایک ایسی دنیا ملتی ہے جس میں عام فنکار کے لیے داخل ہونا آسان نہیں ہے۔ ممتاز پولیس آفیسر خان بہادر، نقی محمد خان خلیل خورجوی کی’’عمر رفتہ‘‘ ایک ایسی آپ بیتی ہے جو دوسری آپ بیتیوں سے بہت الگ ہے۔ خان بہادر کا تعلق یوپی کے اتر پردیش کے اُس خورجہ سے ہے جہاں کے چینی برتن، اچار، شلجم اور تبریزی بہت مشہور ہیں۔ اس قصبے میں زیادہ تر زئی قبیلے کے لوگ رہتے ہیں اور اسی مناسبت سے اسے چھوٹا کابل بھی کہا جاتا ہے۔ خورجے سے ہی ڈپٹی نصراللہ خاں خویشگی کا تعلق ہے جن کا تذکرہ ’گلشنِ ہمیشہ بہار‘ اسلم فرخی جیسے ممتاز محقق نے مرتب کیا تھا اور یہی ڈپٹی نصر اللہ ہیں جن سے ڈپٹی نذیر احمد نے تعلیم حاصل کی تھی۔ نقی محمد کے والد سے اِن کے بہت گہرے مراسم تھے۔ حسن اتفاق یہ ہے کہ نقی احمد کے والد بھی انسپکٹر آف پولیس تھے۔ نقی محمد خورجوی علی گڑھ، الہ آباد، کشمیر، ریاستِ دینہ، بھرت پور اور کئی دیگر مقامات پر تعینات رہے۔ انہوں نے اس خودنوشت میں ان تمام علاقوں کے احوال اور اہم شخصیات سے ملاقاتوں کے علاوہ اپنی ملازمتوں کے تجربات، مشاہدات اور حادثات بھی بیان کیے ہیں۔ اُن کی سب سے پہلی پوسٹنگ تھانہ بنا دیوی، علی گڑھ میں ہوئی تھی۔ اس زمانے میں انھیں 30روپے ماہ وار تنخواہ ملتی تھی۔ انہوں نے بہت ہی دلچسپ پیرائے میں اپنی زندگی کے حالات لکھے ہیں۔ ان کی خود نوشت سے اس وقت کے سماجی، سیاسی احوال وکوائف کا بھی علم ہوتا ہے۔ ہند ومسلم تعلقات کی شیرینی اور تلخی سے بھی آشنائی ہوتی ہے۔ یہ خودنوشت اُس عہد کی ایک سماجی اور سیاسی دستاویز بھی ہے۔ نقی محمد خان علم وادب کا شستہ اور شائستہ ذوق رکھتے تھے۔ فارسی ادب پر گہری نظر تھی۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی اخلاقی اور تہذیبی قدر وں کو حرزِ جاں بنائے رکھا اور ان حرکات سے ہمیشہ نفرت رہی جو پولیس والوں سے مخصوص سمجھی جاتی ہیں۔ انہوں نے خود ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’میں 35سال پولیس کے محکمہ میں رہا، مگر پولیس والوں کی حرکات سے ہمیشہ دکھی رہا۔ مجلہ ’’ساقی‘‘ کے مدیر شاہد احمد دہلوی نے بھی اُن کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’پولیس جیسے محکمے میں کم وبیش 35سال رہنے کے بعد بھی اُن کی شرافتِ نفس زائل نہیں ہوئی۔ شرافت ووضعداری کے علاوہ خودداری بھی اُن کا ایک بڑا وصف ہے۔‘‘ نقی محمد خورجوی نے ہمیشہ اُن نصیحتوں پر عمل کیا جو ان کے والد نے سب انسپکٹر بننے کے بعد کی تھیں۔ انہوں نے اپنی خود نوشت میں لکھا ہے کہ ’’میرے سب انسپکٹر ہونے پر والد نے جو نصیحت فرمائی تھی اس کی میں نے سختی سے پابندی کی وہ نصیحت یہ تھی کہ افسر کی فرماں برداری، جھوٹ سے پرہیز، رشوت کسی حالت میں نہ لینا، شراب اور آورگی سے پرہیز، ماتحتوں کے ساتھ نرمی سے برتاؤ اور خدمت خلق کو اپنا شعار بنانااُن نصیحتوں پرعمل کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ عوام الناس افسراور ماتحت سب مجھ سے خوش رہے۔‘‘ انہوں نے جرائم کی نفسیات پر بھی روشنی ڈالی ہے اور اس تعلق سے اپنے تجربات بھی لکھے ہیں۔ وہ ایک جگہ کہتے ہیں کہ’’کوئی شخص ماں کے پیٹ سے جرائم پیشہ پیدا نہیں ہوتا ہر شخص کے حالات، اور ہر جرم کے اسباب مختلف ہوا کرتے ہیں۔ ایک معمولی چور ی کی فطرت کی بھی جانچ کی، ڈکیتوں اور قاتلوں سے معلومات حاصل کی، اور بالآخر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ انسانی دماغ خیالات سے کبھی خالی نہیں رہتا۔ اس کی خواہش، اس کے مقاصد اس کو کبھی صحیح راستے پر لے جاتے ہیں اور اس کو کبھی گمراہ کردیتے ہیں۔‘‘ 

    نقی احمدتقسیم ہند کے وقت پولیس ملازمت میں تھے اس لیے تقسیم ہند کے حالات، واقعات اور واردات کو بھی اپنی خودنوشت کا حصہ بنایا ہے۔ تقسیم کے نتیجے میں ہونے والے فسادات پر بھی روشنی ڈالی ہے، ان کا یہ خیال بہت اہم ہے کہ’’میں یہ فلسفہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں کہ سواسو سال کی حکومت میں انگریزوں نے ہندوستانیوں کی ذہنیت تبدیل کردی۔ لڑاؤ اور حکومت کرو، تو ایک پیش پا افتادہ اصول ہے، مگر میرا خیال ہے کہ مذہبی خیالات اور اختلافات کا اس میں زیادہ دخل ہے۔‘‘ 

    یہ خودنوشت بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ اس میں علم وادب کی بہت سی معتبر ہستیوں سے ملاقاتیں ہوتی ہیں اور اقتدار کے بہت سے ستونوں سے بھی۔ یہ واقعی بہت دلچسپ معلوماتی خودنوشت ہے۔ اس میں بہت سے حقائق اور انکشافات ہیں جو ایک پولیس آفیسر کو ہی معلوم ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے اپنی خود نوشت میں جا بجا اشعار بھی رقم کیے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا شعری ذوق بہت بلند تھا۔ اپنی خودنوشت کا خاتمہ بھی اس شعر پرکیا ہے، 

    زندگی جس طرح بھی گزری ہے 
    عہد رفتہ عزیز ہوتا ہے 

    اس خودنوشت میں ڈپٹی نذیر احمد کے تعلق سے بہت اہم معلومات ملتی ہیں۔ پروفیسر محمد انصار اللہ نظر ؔ نے ’ ڈپٹی نذیر احمد کے چند واقعات‘ کے عنوان سے اپنے مضمون میں نقی محمد خاں خورجوی کی خودنوشت کا حوالہ دیا ہے اور تحریر کیا ہے کہ ’’شمس العلماء مولوی نذیر احمد خورجہ کے مدرسے میں مولانا نصراللہ خاں کے مدرسے میں علم دینیات حاصل کرنے کے واسطے آئے تھے اورنقی محمد خاں کے والد دوست محمد خاں ڈپٹی نذیر احمد کے ہم سبق تھے۔ نقی محمد خان نے ڈپٹی نذیر احمد کا ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ ’’ایک روز ایک بچہ اپنی تختی لکھ کر حضرت (خویشگی) کو دکھلانے کے واسطے لے جارہا تھا، نذیر احمد صاحب نے یہ تختی اس سے لے لی اور قلم، دوات منگا کر کہا کہ دیکھو اس طرح خوش خط لکھتے ہیں، یہ کہہ کر اُس پر لکھ دیا ’نذیر احمد ڈپٹی کلکٹر‘ وہ لڑکاروتا ہوا حضرت کے پاس گیا اور شکایت کی، حضرت نے مسکراکر فرمایا کہ اپنا قلم اور دوات لے آ، جب وہ لے آیا، تو حضرت نے اس عبارت کے نیچے اپنے قلم سے خوش خط لکھ دیا’اگر تیری یہی خواہش ہے تو ڈپٹی کلکٹر ہوگیا‘۔ والد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ مولوی نذیر احمد صاحب نے حضرت کے قلم کی یہ تحریر دیکھی تو لڑکے سے قیمتاً وہ تختی لینا چاہی تاکہ بطور یادگار اس کو اپنے پاس رکھیں، لیکن وہ لڑکا اتنا ضدی تھا کہ کسی قیمت پر تختی دینے کے واسطے راضی نہ ہوا، خدا کی قدرت اس واقعے کے بہت عرصے کے بعد نذیر احمد صاحب بالآخر ڈپٹی کلکٹر ہی ہوئے۔‘‘ 

    نقی محمد خاں خورجوی کی اس خودنوشت میں بہت سے ادیبوں کے تذکرے ہیں۔ اُن تذکروں کے ذریعہ اس عہد کی ادبی صورت حال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ نقی کی اہم کتابوں میں حیات امیر خسرو، مع تشریح ایجاد موسیقی، تاریخ خورجہ اور تاریخ خاندان خلیل قابل ذکر ہیں۔ ضرورت ہے کہ نقی احمد خان کی آپ بیتی کا مکمل تجزیہ کیا جائے اور اُسے تحقیق کا موضوع بنایا جائے۔ کیوں کہ اس طرح کی آپ بیتیاں کم لکھی گئی ہیں، جس میں ملک اور نظم ونسق کے حوالے سے واقعات کا ذکر ہو۔ 

    کرن بیدی بھی محکمہ پولیس کی ایک اعلیٰ آفیسر بلکہ اول خاتون پولس افسر رہی ہیں۔ اُن کی خود نوشت بھی انگریزی، ہندی اور اردو تینوں زبانوں میں شائع ہوئی ہے۔ انگریزی میں My life as police officerہندی میں ’’ہمت ہے‘‘ اور اردو میں ’’سب کچھ ممکن‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ کرن بیدی ہندوستان کی پہلی خاتون آئی۔ پی۔ ایس آفیسر ہیں۔ ان کی پیدائش امرتسر کے مشہور خاندان میں 9جون 1949 میں ہوئی۔ انہوں نے ایم۔ اے، ایل۔ ایل۔ بی اور پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ ٹینس کھلاڑی، سماجی کارکن اور سیاست داں کی حیثیت سے شناخت رکھتی ہیں۔ اپنے پولیس کیریئر میں انہوں نے بہت ہی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ تہاڑ جیل میں اُن کی اصلاحات قابل صد تحسین ہیں۔ پولیس کی مصروفیت کے باوجود انہوں نے لکھنے پڑھنے کے شغل کو جاری رکھا، ان کی بہت سی تصنیفات ہیں جن میں سے بیشتر کے ترجمے مختلف زبانوں میں ہوچکے ہیں۔ مختلف قومی اور بین الاقوامی اعزازات سے سرفراز کرن بیدی ایک فرض شناس ایماندار افسر کی حیثیت سے لوگوں کے ذہنوں میں اپنا مقام بنا چکی ہیں۔ نوجیوتی انڈیا فائونڈیشن کے ذریعہ انہوں نے جو خدمات انجام دی ہیں وہ قابل ستائش ہیں۔ 

    ان کے علاوہ پدم بھوشن، جولیو فرانسس، ریبرو، کمشنر آف ممبئی، ڈائرکٹر جنرل آف پنجاب پولیس نے بھی اپنی خود نوشت ’’Bullet for Bullet / My life as a police officer‘‘ تحریر کی ہے۔ یہ خودنوشت بھی بہت اہمیت کی حامل ہے کہ اس میں ملک کے بہت سے اہم واقعات اور واردات کا بیان ہے۔ 

    کوچۂ صحافت
    صحافت کے میدان میں بھی محکمۂ پولیس سے تعلق رکھنے والے افراد نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ پچھلے زمانے میں ’ پولیس گزٹ‘ کے عنوان سے جرائد شائع ہوا کرتے تھے، جن کا مقصد پولیس کی اصلاح اور اطلاع کے علاوہ جرائم پر نگاہ رکھنا بھی تھا۔ اردو میں بھی پولیس گزٹ کے نام سے ایک اخبار شائع ہوا کرتا تھا۔ ممبئی میں ’’آئینۂ ہند‘‘ کے نام سے ایک ماہ وار اخبار کی اشاعت ہوتی تھی جو بعد میں ہفت روزہ کی شکل اختیار کرگیا، اُس اخبار کے مدیر’نندی رام بیلا رام‘ تھے، جو حیدرآباد میں چیف کانسٹیبل تھے۔ پروفیسر میمونہ دلوی نے اپنی کتاب’’ممبئی میں اردو‘‘ میں اس اخبار کے تعلق سے لکھا ہے کہ ’’یہ اخبار دیسی ریاستوں میں انگریزوں کی دست درازیوں کے خلاف سیر حاصل مضمون لکھا کرتا تھا۔ اخبار کے زیادہ تر صفحے ان ہی قسموں کی بحثوں سے بھرے رہتے تھے، خبریں مختصر اور مختلف اخبارات سے منتخب کرکے دی جاتی تھیں۔ جولائی1894ء میں اِس اخبار کا نام بدل کر انگریزی حرفوں میں ’’انڈین مِرر اِن لا‘‘ اور اردومیں ’’آئینۂ ہند، بمبئی‘‘ رکھا گیا۔ یہ اخبار برٹش رعایا کے فائدے کے لیے مضمون درج کرتا رہتا تھا۔ اِس اخبار کی پالیسی یہ تھی کہ وہ ہم عصر اخباروں پر کیچڑ نہ اچھالے بلکہ اپنی تمام تر توجہ حکومت کی غلطیوں اور بے جا مداخلت پر صرف کرتا تھا۔‘‘ 

    شجاع خاوربھی ایک اعلا پولیس آفیسر تھے۔ انہوں نے اردو میں ایک رسالہ ’’طرّہ‘‘ کے نام سے شائع کیا تھا، جو بالکل مختلف طور وطرز کا تھا۔ کے۔ پی۔ ایس۔ گِل جو Super Copکے نام سے مشہور تھے۔ وہ بھی ایک کواٹرلی جرنل Faultinessکی ادارت کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔ موجودہ دور میں وبھوتی نرائن رائے ایک اہم نام ہے جن کا رسالہ ’ورتمان ساہتیہ‘‘ ہندی حلقے میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ ایک فکر انگیز رسالہ ہے۔ 20سال سے شائع ہونے والے ورتمان ساہتیہ میں تنقیدی مقالات، تراجم، کویتائیں، کہانیاں، میڈیا کے علاوہ نمائندہ تخلیق کاروں کی بیش قیمت تحریریں شائع کی جاتی ہیں۔ اس کے بعض مباحث بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، جو دانشور طبقے کو بھی مہمیز کرتے ہیں۔ ورتمان ساہتیہ دانشور طبقے کے لیے ایک بہترین پلیٹ فارم ہے۔ اس کے علاوہ کچھ اور اخبارات، رسائل اور جرائد ہوسکتے ہیں جن کی ادارت کسی پولیس آفیسر کے ذمہ رہی ہو۔ اس ضمن میں نیاز فتح پوری کے ’’نگار‘‘ اور ریاض خیرآبادی کے ’’فتنہ اور عطرفتنہ‘‘ کا ذکر کیا جاسکتا ہے کہ مختصر عرصے کے لیے ہی سہی یہ دونوں بھی پولیس ملازمت سے وابستہ رہے ہیں۔ نیاز فتح پوری کارسالہ ’’نگار‘‘ تو بہت ہی مشہور رسالہ ہے جس کے خصوصی شماروں کی گونج آج بھی ہے۔ ادبی صحافت میں نگار کا مقام مستحکم ہے۔ نگار جیسے رسالے اردو میں بہت کم شائع ہوئے ہیں۔ ریاض خیرآبادی کے اخبار کی بھی اپنی ایک اہمیت ہے اور ان کی صحافتی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اسی باب میں خلیل مامون کا بھی ذکر کیا جانا چاہیے کہ انہوں نے محمودایاز کے سوغات سے اپنا صحافتی سفر شروع کیا اور اب نیاادب جیسا ضخیم ادبی رسالہ شائع کر رہے ہیں۔ اس رسالے نے بہت جلد اپنی شناخت مستحکم کی ہے، اس کے تعلق سے تبصرہ کرتے ہوئے میں نے لکھا تھا، 

    ’’بنگلور سے نظم کے معتبر شاعر اور ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ ادیب خلیل مامون کی ادارت میں شائع ہونے والا ’ نیا ادب ‘ سہ ماہی ادبی سلسلہ ہے۔ اور اس کا اختصاص یہ ہے کہ موضوعی سطح پر اس نے عمومی راہ و روش سے الگ راہ اختیار کی ہے اور ان موضوعات کو اپنی ترجیحات میں شامل رکھا ہے جنہیں ادبی دنیا فراموش کرتی جارہی ہے یا اتنی توجہ نہیں دے رہی ہے جتنی دینی چاہیے۔ خاص طور پر ادب کے فراموش کردہ ابواب کی با زیافت اس مجلہ کا شاید اولین مقصد ہے۔ نیا ادب کے کچھ مشمولات سے ایسا متبادر ہوتا ہے۔ شمارہ دو میں بلراج مینرا کے خصوصی گوشے سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے۔ کیونکہ مینرا جیسے accomplished رائٹر کا اچانک ادبی منظرنامہ سے غائب ہو جانا یا انہیں مکمل طور سے فراموش کئے جانے کی بات خود مدیر خلیل مامون نے کہی ہے، ’بلراج مینرا اردو کے جدید افسانہ نگاروں میں ایک ایسا نام ہے کہ جنہیں ایک عرصے سے ہندوستان اور پاکستان کے ادبی حلقوں میں دانستہ یا نادانستہ طور پر نظر انداز کیا گیا ہے ‘اس قول کی روشنی میں دیکھا جائے تو نہ صرف گوشے کے جواز کا پتہ چلتا ہے بلکہ مدیر کے عندیہ اور ارادے سے بھی آگہی ہوتی ہے۔ خلیل مامون نے بلراج مینرا کی بازیافت کی بہت خوبصورت شکل نکالی کہ اس گوشے میں ان سے لئے گئے دو انٹرویوز شائع کئے اور ان کے فکشن کے حوالے سے سرور الہدی کا مضمون ’بلراج مینرا اور ان کے ناقدین ‘ کو اہتمام سے رسالہ میں شامل کیا۔ سرور الہدی نے مینرا کے جن ناقدین کو اپنے مضمون کا محور بنایا ہے ان میں حیات اللہ انصاری ‘ محمد حسن ‘ محمود ہاشمی ‘ گوپی چند نارنگ ‘ شمیم حنفی ‘ عتیق اللہ ‘ قاضی افضال حسین ‘ شمس الحق عثمانی ‘ بلراج کومل ‘ محمد عمر میمن ‘ رشید امجد ‘ انور عظیم ‘ قمر احسن ‘ اقبال مجید ‘ باقر مہدی ‘ فضیل جعفری ‘ دیوندر اسر کے نام شامل ہیں۔ بلراج مینرا کے بارے میں فضیل جعفری کی یہ رائے بہت اہم ہے کہ ’انور سجاد اور مین را دونوں کے یہاں آمریت (خواہ وہ فوجی ہو یا جمہوری) سماجی سطح پر ہونے والے مظالم اور ہر طرح کے استحصال کے خلاف احتجاج پایا جاتا ہے۔ مین را کے ذہن کی طرح ان کا اسلوب بھی سماجی ہے ‘ بلراج مینرا سے نعمان شوق اور سرور الہدی نے گفتگو کرتے ہوئے سیاست اور نظریاتی وابستگی کے حوالے سے بھی ان کے نظریے کو جا ننے کی کوشش کی ہے۔ اور ان کے داخلی کرب تک رسائی میں کامیاب ہوئے ہیں۔ سرور الہدی سے اپنے کرب کا اظہار کرتے ہوئے مینرا نے بہت دلسوز بات کہی ہے، 

    ’ مجھے یاد ہے کہ جب منٹو کی وفات ہوئی تو پندرہ سولہ دن پہلے مجھے نوکری مل گئی تھی پریس کارپوریشن میں۔ یار منٹو مر گیا تو میری تیرہ چودہ دن کی نوکری تھی تو میں نے انگریزی میں ایک خط لکھا کہ مجھے آج کی چھٹی دی جائے۔ تو مجھے بلا یا گیا۔ جس نے مجھے نوکری دی تھی اس نے کہا کل تو تم نے جوائن کیا ہے اور آج تمہیں چھٹی کیسے دی جائے۔ میں نے کہا جی ہمارے اردو کا ایک رائٹر مر گیا ہے تو مجھے آج چھٹی چاہیے۔ اس نے کہا تمہاری چھٹی ہمیشے کے لئے اور نوکری سے نکال دیا۔ میں مٹیا محل چلا گیا۔ کونے پر مولانا کی دکان تھی۔ میں دکان پر کھڑا ہو گیا۔ اخبار دیکھنے لگا۔ ہر اخبار میں منٹو کی وفات کی خبر ہے لیکن جلی خبر نہیں معمولی سی خبر ہے ‘ اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ادیبوں کے تئیں ہمارے ’باخبر معاشرہ ‘ میں بھی کتنی بے حسی پائی جاتی ہے۔ نیا ادب کے اس شمارے میں مینرا کی کچھ بیش قیمت تحریریں بھی شائع کی گئی ہیں جن میں افق۔ ۱‘ کمپوزیشن ایک ‘ وہ ‘ مقتل ‘ روشنی کے لئے اور ریپ قابل ذکر ہیں۔ مینرا نے افق۔ ۱ میں دوغلہ پن پر لکھتے ہوئے بہت ہی قیمتی جملہ کہا ہے کہ ’ دوغلہ پن اس دور کا بہت ہی منافع بخش کا رو بار ہے اور اس کے سب سے بڑے کاروباری اب ان اداروں میں رینگ رہے ہیں جہاں دانشوری کے نام پر میڈیو کریٹی کا بازار گرم رکھا جاتا ہے ‘ مینرا کے علاوہ ظفر اقبال ‘ مہاشویتا دیوی ‘ جیلانی بانو ‘ عتیق اللہ پر مختصر گوشے ہیں مگر مشمولہ تحریروں سے ان شخصیات کے فنی ابعادروشن ہو جاتے ہیں۔ ظفر اقبال پر ناصر عباس نیر اور گوہر نوشاہی کے مضامین وقیع ہیں۔ اس کے علاوہ ریاض ہانس نے ایک انٹرویو لیا ہے جس میں ظفر اقبال نے کہا ہے کہ ’ میں تنقید اور نقاد پر یقین نہیں رکھتا۔ یہ لوگ بد دیانتی کرتے ہیں۔ تعصب پھیلاتے ہیں۔ جو ناکام ادیب ہوتا ہے نقاد بن جاتا ہے ‘ بنگلہ ادب کی ممتاز ہستی ساہتیہ اور گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ ادیبہ اور ہزار چوراسی کی ماں جیسی فلم کی رائٹر مہا شویتا دیوی سے شبیر احمد نے پر مغز گفتگو کی ہے جس میں مہا شویتا نے یہ اعتراف کیا کہ ’ اردو ادب کا ماضی بڑا شاندار رہا ہے۔ جہاں میر اور غالب جیسے شاعر پیدا ہوئے ‘ جہاں منٹو اور قرۃ العین حیدر جیسے فکشن نگار موجود ہیں اس ادب کو توrich ہونا ہی ہے۔ نقد و نظر کے تحت چار مضامین ہیں جن میں سے تین پروفیسر گوپی چند نارنگ کے ہیں۔ یہ تینوں مضامین غالب کی جدلیاتی وضع اور شعریات کی تفہیم میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ شمشیر عالم زاہد نے ’آزادی کے بعد چند مقبول ادبی رسائل ‘ کے حوالے سے بہت معلوماتی مضمون لکھا ہے۔ اس مضمون میں انہوں نے نقوش لاہور ‘ نگار لکھنو ‘ شاہراہ دہلی ‘ فنون لاہور ‘ اوراق لاہور ‘ گفتگو ممبئی ‘ شعرو حکمت حیدر آباد شعور نئی دہلی اور سوغات بنگلور کا مبسوط جائزہ لیا ہے اور ان رسائل کا اجمالی ذکر کیا ہے جو آزادی کے بعد ادبی منظرنامہ کو منور کرنے میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ زاہد اس سلسلہ کو تکمیل تک پہنچائیں تو اردو دنیا پر ان کا بڑا احسان ہوگا۔ 

    شافع قدوائی کا مقالہ ’ ایک چادر میلی سی، رد تشکیل قرات ‘عالمانہ ہے۔ انہوں نے اس ناول کے بنیادی رمز پر گفتگو کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ’ ایک چادر میلی سی کی پوری فضا پر تشدد کے سائے لرزاں ہیں۔ شروع ہی میں تلوکے کا قتل ‘ تلو کے ہاتھوں رانو کو زدو کوب کیا جانا ‘ جاترن کا زنا بالجبر ‘ اولا شادی سے انکار پر منگل کی پٹائی ‘ چودھری مہربان داس اور دھرم شالے کے دیگر کارکنوں کو قید کی سزا وغیرہ اس قسم کے متعدد واقعات سے بیدی نے بیانیہ عرصہ (Narrative Space) خلق کیا ہے اور خاطر نشان کیا ہے کہ تشدد حیات کا رمز اولین ہے ‘ تسمیہ بشیر کی تحریر بھی اسی تشدد کے مسئلہ سے جڑی ہوئی ہے۔ ان کے مضمون کا عنوان ہے ’آج کے کشمیری ادب میں تشدد کی ترجمانی ‘۔ موجودہ تناظر میں یہ بہت اہمیت کا حامل مضمون ہے۔ اس کے معروضات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مضمون سے کشمیری تخلیق کاروں کی داخلی سائیکی اور ان کی Agonyکو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ تسمیہ نے اختر محی الدین کے ناول ’ جہنم کی آگ اپنی اپنی ‘رحمان راہی کی نظم ’ بنا صدا پکار ‘شفیع شوق کی نظموں اور ہری کشن کول ‘ رتن لال شانت ‘ چمن لال بکھو ‘ مکھن لال پنڈتا ’اومکار ناتھ کول ‘ روپ کرشن بھٹ کے افسانوں کے تناظر میں تشدد کے سایہ میں پنپنے والی تخلیقات کا جائزہ لیا ہے جو اس نکتہ پر منتج ہوتا ہے کہ ’ تشدد انسان کی خمیر میں ہی شامل ہے۔ اذیت رسانی اور اذیت طلبی انسانی حقیقت کے ناقابل تنسیخ جز ہیں ‘ نثری نظم کی شعریات کے حوالے سے عبد اسمیع کا مضمون جامع ہے مگر نثری نظم کے انتخاب میں بہت سے اہم اور نمائندہ نام شمولیت سے رہ گئے۔ خلیل مامون نے شیو پرکاش کی کنڑ نظموں کا عمدہ ترجمہ کیا ہے۔ فیاض رفعت کے ناولٹ ’ بنارس والی گلی ‘ سے رسالہ سہ آتشہ ہو گیا ہے۔ افسانوں ‘ نظموں اور غزلوں کا انتخاب قابل داد ہے۔ نیا ادب کے مشمولات ہمارے ذہنوں کو صرف مہمیز نہیں کرتے بلکہ ادبی مباحث اور مسائل کے تئیں سنجیدہ رویے اور طرز فکر کا تقاضا کرتے ہیں۔‘‘ 

    امرؤ طارق بھی ادبی صحافت سے وابستہ رہے ہیں۔ علامہ نیاز فتح پوری کے رسالہ نگار سے ان کی وابستگی رہی ہے۔ اس کے علاوہ اردو کالج میگزین ’’برگ گل‘‘ کی ادارت کے فرائض بھی انجام دیے، اور اس کے دو خصوصی شمارے شائع کیے جو ادبی حلقوں میں بہت مقبول ہوئے۔ 

    خیابانِ ترجمہ
    ترجمہ بہت دشوار عمل ہے، مگر اس میدان میں بھی پولیس محکمہ سے تعلق رکھنے والوں نے بہترین صلاحیتوں کا ثبوت دیا ہے اور بہت سی اہم کتابوں کے تراجم سے عوام کی آگہی میں اضافہ کیا ہے۔ بہت پہلے رائے بہادردیوان چند کی انگریزی کتاب کا ترجمہ مولانا احترام الدین شاغلؔ نے نہایت صاف اور سلیس زبان میں کیا تھا۔ یہ کتاب اردو میں پولیس گائڈ کے نام سے شائع ہوئی تھی۔ 420صفحات پر مشتمل یہ کتاب 1933ء میں اجمیر سے اشاعت پذیر ہوئی تھی۔ اس کے انگریزی ایڈیشن کے مصنف رائے بہادر دیوان چند پنجاب کے ڈی ایس پی تھے۔ انھیں کی دوسری کتاب کا ترجمہ مشرح پولیس گائڈ کے عنوان سے بابو محمد شفاعت سب انسپکٹر پولیس نے کیا تھا۔ اِس میں انسداد، انکشاف، حراست، پیروکاری، نگرانی، ٹریننگ اور ڈسپلن جیسے موضوعات پر گفتگو کی گئی ہے۔ پولیس والوں کے لیے تربیتی نقطۂ نظر سے یہ بہت اہم کتاب ہے۔ 

    ترجمہ کے ضمن میں شیوسنگھ سینگر کا ذکر ضروری ہے کہ انہوں نے پُران کا ترجمہ کیا ہے، ان کے ترجمے اور تحقیق کے حوالے سے فیاض احمد وجیہہ نے ’انداز بیاں ‘ کے لیے پر نہایت معرکۃ الاراء خصوصی مضمون تحریر کیا ہے اور تحقیق کے کچھ نئے باب وا کیے ہیں۔ عین رشید کا ذکر بھی لازمی ہے کہ انہوں نے مرزا اسداللہ خاں غالبؔ کا نہ صرف بنگلہ میں ترجمہ کیا بلکہ بنگلہ میں غالبؔ کو متعارف کرانے کا سہرا انھیں کے سر ہے، اس کے علاوہ انھوں نے ہی مقبول فلمی نغمہ نگار اور شاعر جاوید اختر کے شعری مجموعہ ’’ترکش‘‘ کا بنگلہ میں ترجمہ کیا۔ ترجمے کے ضمن میں نیاز فتح پوری کا بھی ذکر ضروری ہے کہ انہوں نے رابندر ناتھ ٹیگور کی کتاب ’’گیتانجلی‘‘ کا ترجمہ اردو میں کیا، اس کے علاوہ جرجی زیدان کی ’’تاریخ الدولتین‘‘ کا اردو میں ترجمہ کیا۔ ترغیبات جنسی بھی ایک طرح سے ترجمہ ہی ہے۔ 

    فنون لطیفہ
    فنون لطیفہ میں بھی محکمۂ پولیس سے تعلق رکھنے والوں میں کئی نام اہم ہیں، جنہیں کسی بھی طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مصوری، خطاطی، اسکیچ میں محکمۂ پولیس سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد ایسے ہیں جنہوں نے واقعی فنون لطیفہ میں اپنی شاندار فنکارانہ قوت کا ثبوت دیا ہے۔ 

    مرادآباد سے تعلق رکھنے والے وہاج الحق کاشف ایک بہترین شاعر، خطا ط اور مصور ہیں جنہوں نے پینٹنگ کے میدان میں امتیازی نقوش مرتسم کیے ہیں، ان کے طغروں میں ان کا فن بولتا ہے۔ طغرے کی جمالیاتی کیفیات ہر دیکھنے والے کو متاثر کرتی ہیں۔ مرادآباد کے استاد شاعر قمر مراد آبادی کے فرزند ارجمند وہاج الحق کاشف کے موئے قلم میں بڑی کشش ہے۔ مانی وبہزاد کی طرح وہ اپنے نوک قلم کا جادو جگاتے ہیں۔ بہت سی قرآنی آیات کو انہوں نے طغرے کی شکل میں آراستہ کیا ہے۔ 

    راجندر کلکل بھی ایسے ہی فن کار ہیں جنہوں نے اسکیچ میں اپنے کمال فن کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے ہندوستان کی بڑی بڑی ہستیوں کے اسکیچ بنائے ہیں، جن میں سیاست داں بھی ہیں، بالی ووڈ کے فنکار بھی ہیں۔ ان کے اسکیچوں میں ان شخصیات کے باطنی وخارجی زاویے بھی منعکس ہوتے ہیں۔ ان کے بیشتر اسکیچ میں متعلقہ شخصیات کے آٹو گراف بھی ہیں۔ کلکل شاعر ہیں۔ اور ان کے شعری احساسات ان کے اسکیچوں میں بھی نظرآتے ہیں۔ 

    تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے ایم۔ اے۔ حمید عکسی بھی ایک باکمال مصور ہیں۔ محکمۂ پولیس سے وابستہ رہتے ہوئے انہوں نے مصوری کے شوق کو جِلا بخشی۔ اس آرٹ کو انہوں نے اپنے اندر زندہ رکھا۔ یہ ایسی ایسی تصویریں بناتے تھے کہ محکمۂ پولیس ششدر رہ جاتا تھا۔ فن مصوری کے حوالے سے انہیں بہت شہرت ومقبولیت حاصل ہے اور اسی مصوری کی وجہ سے انگریزی، ہندی اور تیلگو اخبارات میں ان کے انٹرویو شائع ہوئے۔ انہوں نے میر تقی میرؔ اور اختر الایمان کی تصویریں بھی بنائی ہیں۔ محکمۂ پولیس کی جانب سے انہیں ’’پولیس چترکار‘‘ کا خطاب بھی ملا ہے۔ مصور ہونے کے ساتھ ساتھ وہ شاعر بھی ہیں۔ ان کا شعری مجموعہ ’’عکسِ حمید‘‘ شائع ہوچکا ہے۔ خطاطی سے بھی انہیں خاص دلچسپی ہے۔ ان کی تحریر دیکھنے سے معلوم ہوتا کہ جیسے موتی چمک رہے ہوں۔ ان کی انگلیوں کی جنبش میں کمال کا فن چھپا ہوا ہے۔ 

    پولیس کا نظام تربیت
    ملک کے نظم ونسق کی درستگی، امن واماں کی بحالی، سالمیت اورتحفظ کے لیے پولیس کا کردار ہمیشہ اہم رہا ہے۔ بنیادی طور پر یہی معاشرے کے محافظ اور نگہبان ہوتے ہیں۔ یہی وہ طبقہ ہے جو انسانی معاشرے کے خوف کو خواب میں بدل سکتاہے۔ اور یہی طبقہ ہے جو آنکھوں سے نیند بھی غائب کرسکتا ہے۔ عام انسانی زندگی سے اسی طبقے کا سب سے زیادہ واسطہ رہتا ہے۔ ماضی تا حال معاشرے میں اسی طبقے کی ذمہ داریاں سب سے زیادہ ہیں۔ مغلوں کے دور میں بھی پولیس کا ایک مضبوط نظام تھا اور ایک ایسی میکانزم تھی جس کے ذریعہ مختلف علاقوں کی نگرانی کی جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی سے ہی پولیس کے نظام تربیت پر ارباب حکومت کی خاص توجہ رہی ہے اور اس تعلق سے بہت سی کتابیں تحریرکی گئی ہیں۔ پولیس کی تربیت کے بہت سے ادارے بھی قائم کیے گیے ہیں۔ ماضی میں کچھ ایسی کتابیں باضابطہ مرتب کرائی گئیں جن کا تعلق نظم ونسق و انتظام سے ہے۔ ریاستِ رامپور کے نواب محمد سعید کے عہد میں بھی کچھ اس طرح کی کتابیں ترتیب دی گئی تھیں جن میں ’ آئین سپاہ فارسی اور انتظام سعید فارسی ‘ قابل ذکر ہیں۔ یہ دونوں کتابیں رضا لائبریری، رامپور میں ہیں۔ ’’آئینہ سپاہ‘‘ کا اردو ترجمہ بھی کیا گیا ہے۔ ’’انتظام السعید‘‘ میر عوض علی عدیل کی کتاب ہے۔ اس کے تعلق سے ڈاکٹر تبسم صابر نے لکھا ہے کہ اس میں انتظام کی درج ذیل تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔ نظم اوّل در تدبیر انسداد دزدی، نظم ثانی در سبیل رفع مجبوری نمودن، نظم ثالث در خصوص تدارک دفع خوں ریزی خانہ جنگی، نظم رابع در باب سد الباب واردات۔ 

    اسی سلسلے میں ظفر عمر بی۔ اے۔ علیگ کی کتاب ’’پولیس مین‘‘ کا ذکر کیا جاسکتا ہے۔ یہ 1911ء میں شائع ہوئی تھی اور 142صفحات پر مشتمل تھی۔ اس کے بارے میں چودھری محمد نعیم نے کہا ہے کہ ’’غالباً اپنی نوعیت میں نہ صرف اردو میں بلکہ ہندوستان کی کسی اور زبان میں اسے اوّلیت حاصل تھی‘‘ ۔ پولیس مین کے عنوان سے شائع یہ کتاب پولیس کی تربیت کی غرض سے تحریر کی گئی تھی۔ چودھری محمد نعیم نے اس کتاب کے حوالے سے رسالہ ’’ادیب‘‘ سے ایک مختصر نوٹ بھی نقل کیا ہے جو 1911کے شمارہ میں شائع ہوا تھا۔ وہ نوٹ یوں تھا’’پولیس مین اس کتاب کے مؤلف مسٹر ظفر عمر صاحب بی۔ اے علیگ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس بدایوں ہیں، اصلاح پولیس ملک کا ایک اہم ترین مسئلہ ہے جو کُل ملک کے دل میں اس وقت شعلہ زن ہے۔ یہ اصلاح بہت کچھ اہل پولیس کی انفرادی تعلیم وتربیت اور اخلاق پر موقوف ہے۔ مسٹر ظفر عمر نے اس رسالے میں اہالیان پولیس کے حقیقی فرائض، آداب، اخلاق، برتاؤ کو سنجیدہ اور دل آویز پیرائے میں دکھایا ہے کہ اگر اہلیانِ پولیس ان پر عامل ہوں تو ہندوستان کی پولیس فرشتہ ٔ رحمت بن جائے۔ یہ رسالہ اس قابل ہے کہ ہر پولیس مین اس کو اپنی جیب میں رکھے اور روزانہ اس کا وِرد کرے۔‘‘ 

    اس کتاب کا انگریزی میں بھی ترجمہ شائع ہوااور یہ دیوناگری میں بھی شائع ہوئی۔ یوپی اور پنجاب کے پولیس نصاب میں بھی شامل کی گئی، اور واقعتاً یہ کتاب ایسی ہے کہ اسے ہندوستان کی تمام زبانوں میں شائع کیا جانا چاہیے اور نصاب کا حصہ بنایا جانا چاہیے تاکہ اس کی روشنی میں پولیس کی امیج بہتر بن سکے، اور اس چہرے کا چرتر بدل جائے تو پھر لوگوں کے ذہن میں پولیس کے تعلق سے جو تصور ہے وہ تبدیل ہوسکتا ہے اور پولیس والے ہمارے معاشرے کے لیے زحمت کے بجائے رحمت بن سکتے ہیں۔ 

    مولانا احترام الدین شاغلؔ نے بھی محکمۂ پولیس کے انتظام اور قانون سے متعلق کتابیں شائع کی ہیں۔ وہ خود بھی پولیس محکمہ سے وابستہ رہے ہیں۔ اس لیے اپنے مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں انہوں نے جو ہدایات مرتب کی ہوں گی، وہ یقیناٹھوس اور مستحکم ہوں گی۔ انہوں نے دیوان چند بجاج کی انگریزی کتاب ’’جے پور پولیس گائڈ‘‘ کا ترجمہ کیا۔ ان کی دوسری کتاب راجستھان پولیس کی کہانی ہے جس میں انہوں نے راجستھان پولیس کی ان کارروائیوں کا بھی ذکر کیا ہے جو ڈکیتوں کے خلاف کی گئی ہیں۔ 160صفحات پر محیط یہ کتاب مسلم ایجوکیشنل پریس، علی گڑھ سے شائع ہوئی تھی۔ ان کتابوں کے علاوہ بہت ممکن ہے کچھ اور کتابیں شائع ہوئی ہوں، رسائل ومجلات میں بھی کچھ مقالات شائع ہوئے ہوں گے۔ مغلیہ دور اور برطانوی حکومت میں بھی پولیس نظام کی اصلاحات پر بہت زور تھا۔ اس لیے پتہ لگانا ضروری ہے کہ اس دور میں اس تعلق سے کیسی کیسی کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ رسالہ ’’جامعہ‘‘ میں مولوی عبدالجلیل ندویؔ کا مضمون’’سلاطین مغلیہ کے عہد میں پولیس کا انتظام‘‘ اس سلسلے میں ہمارے کچھ رہنمائی کرسکتا ہے۔ اس میں مغلوں کے پولیس نظام اور اصلاحات پر بحث ہے۔ شیر شاہ کے عہد میں پولیس کا کیا نظام تھا، اس پر عبدالعلیم احراری نے رسالہ’’جامعہ‘‘ میں شائع اپنے مضمون ’’شیر شاہ‘‘ میں بحث کی ہے۔ ضرورت ہے کہ پولیس انتظام سے متعلق مختلف ادوار کا جائزہ لیا جائے اور ان سے ایک ایسا خلاصہ تیار کیا جائے جس سے پولیس کا نظام بہتر بنانے میں مدد مل سکے۔ 

    محکمۂ پولیس کے ایوارڈ یافتگان
    محکمۂ پولیس میں اعلا تخلیقی ذہانتوں کے حامل افراد رہے ہیں۔ اس غیر ادبی ماحول میں بھی ان کی تخلیقیت زندہ رہی یہ حیرت انگیز بات ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگاکہ نامساعد حالات نے ان کی تخلیقی حسیت کو اور بھی مہمیز کیا اور ان کی تخلیقی رو کو نئی روشنی عطا کی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اعلا ادبی اداروں نے بھی ان کے فن کا اعتراف کیا اور انہیں انعامات سے سرفراز کیا۔ 

    ہندوستان میں ساہتیہ اکادمی سب سے بڑا ادبی، ثقافتی کثیر لسانی ادارہ ہے، جس کے ایوارڈ کو نہایت اعتبار اور وقار کے ساتھ دیکھا جاتا ہے۔ یہ ایوارڈ کسی بھی فن کار کی تخلیقی خدمات کے لیے ایک سند کی حیثیت رکھتا ہے۔ محکمۂ پولیس سے تعلق رکھنے والے بہت سے تخلیق کار ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے سرفراز ہوئے ہیں۔ ان میں ایک اہم نام انگریزی کے مشہور شاعر اور ادیبkeki N. Daruwallaکا بھی ہے جنہیں 1984ء میں ان کے شعری مجموعہ The Keeper of the Deadپر ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ملا ہے۔ اس کے علاوہ انھیں پدم شری ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ لاہور میں 1937میں پیدا ہونے والے Keki Nasserwanji Daruwallaنے 1958میں IPSجوائن کی تھی۔ وہ کیبنٹ سیکریٹری بھی رہے۔ گورنمنٹ کالج لدھیانہ سے انگریزی ادب میں ماسٹرس کی ڈگری حاصل کرنے والے دارووالا کی پہلی شعری کتاب Under Orionتھی۔ اس کے بعد ان کا دوسرا مجموعہ Apparition in Aprilشائع ہوا۔ ان کی مشہور کتابوں میں Winter Poemsاور Crossing of Riverبہت اہم ہے، انہیں مختلف ریاستی ایوراڈ مل چکے ہیں۔ The Poetry Societyانڈیا کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ ان کی کہانیوں کے کئی مجموعے بھی شائع ہوچکے ہیں۔ وہ انڈین انگلش لٹریچر کے ایک بلند پایہ شخصیت ہیں جن کی شاعری کے حوالے سے کئی اہم تنقیدی مطالعات سامنے آچکے ہیں ان پر انگریزی کے بہت اہم نقادوں نے مضامین بھی تحریر کیے ہیں۔ ایف۔ اے انعامدار نے ان کے مختلف شعری ابعاد کے حوالے سے ایک کتاب Critical Spectrumکے عنوان سے مرتب کی ہے جو ان کے شعری افکار واظہار کی تفہیم کے حوالے سے بہت ہی مستند اور معتبر کتاب ہے جو 1991میں متّل پبلکشنز سے شائع ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ رام ایودھیا سنگھ اور روی نندن سنہا نے بھی ان کی شاعری کا تنقیدی محاسبہ کیا ہے اور یہ دونوں محاسبے کتابوں صورت میں شائع ہوچکے ہیں۔ 

    ارود میں پولس آفیسر خلیل مامون کو ان کے شعری مجموعے ’آفاق کی طرف ‘ پر ساہتیہ اکادمی ایوارڈ دیا گیا تو پنجابی کے مشہور شاعر ماہر لسانیات من موہن سنگھ کو ان کے پنجابی ناول ’’نروان‘‘ پر 2013ء میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ دیا گیا۔ انہوں نے نروان کے علاوہ بہت سے شعری مجموعے اور تنقیدی کتابیں بھی لکھی ہیں۔ یہ انڈین پولیس سروس میں بہار کیڈر سے تھے جو چنڈی گڑھ کے انسپکٹر جنرل پولس کے عہدے پر فائز رہے۔ انہوں نے بہت سی کتابوں کے انگلش میں ترجمے کیے ہیں۔ پنجابی کے مماز ڈرامہ نگارآئی۔ پی۔ ایس آفیسر سوراج ویر سنگھ کو بھی ان کے ڈرامہ ’’بے چاند رات‘‘ پر ساہتیہ اکادمی ایوارڈ دیا گیا۔ ان کا یہ ڈرامہ بھی بہت اہمیت کاحامل ہے۔ یہ میگھالیہ کے ڈائرکٹر جنرل آف پولیس رہ چکے ہیں۔ اسی طرح ’’کلادھرشک پا‘‘ کو بھی ان کی کہانیوں پر ساہتیہ اکادمی ایوارڈ دیا گیا۔ شیلندر سنگھ بھی ڈوگری میں اپنے ناول ’’حاشیے‘‘ پر ساہتیہ اکادمی ایوارڈ حاصل کرچکے ہیں۔ یہ جموں کشمیر پولیس سے وابستہ ہیں۔ تمل کی ممتاز تخلیق کارپولیس آفیسر G.Thilakavathiکو ساہتیہ اکادمی ایوارڈ دیا جاچکا ہے۔ ان کا تعلق دھرما پوری، تمل ناڈ سے ہے۔ تین سو سے زیادہ کہانیاں اوربہت سے ناول تحریر کرچکی ہیں۔ اور ان کا ایک شعری مجموعہ بھی شائع ہوچکا ہے۔ وپن بہاری مشرا بھی آئی۔ پی۔ ایس آفیسر ہیں، انھیں بھی بہت سارے ایوارڈ مل چکے ہیں۔ اڑیہ میں تقریباً35کتابیں لکھ چکے ہیں، جن میں کہانیوں کے 16مجموعے 7ناول اور دیگر کتابیں شامل ہیں۔ انہوں نے ہندی زبان سے اُڑیہ اور اڑیہ سے ہندی میں ترجمے بھی کیے ہیں۔ ڈاکٹر ایس۔ آئی۔ بوچہ کو منی پوری میں ڈاکٹر اے۔ پی۔ جے عبدالکلام کی کتاب Wings of Fireکے منی پوری ترجمے کے لیے ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا تھا۔ ڈی۔ آئی۔ رینج کے آفیسر نے ڈاکٹر عبدالکلام کی دو اور کتابوں کا منی پوری میں ترجمہ کیا ہے، اس کے علاوہ’’کمیونیٹی پولیسنگ‘‘ اور’’گیم اینڈ رَگ بی‘‘ ان کی قابل ذکر کتابیں ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ اور بھی تخلیق کار ہوں گے جن کو اعلا ادبی ایوارڈ ملے ہوں گے ان کی جستجو بھی ضروری ہے تاکہ یہ اندازہ لگایا جاسکے کہ سرکاری یا غیرسرکاری سطح پرعلمی اور ادبی اداروں نے کس حد تک محکمۂ پولیس والوں کی تخلیقی ہنر مندی اور کمال فن کا اعتراف کیا ہے۔ 

    محکمۂ پولیس سے وابستہ جتنے بھی فن کار ہیں وہ قابل ستائش ہیں کہ انہوں نے تخلیق کے ذریعہ اپنی بہتر شبیہ کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی تخلیقی لفظیات اور احساسات کے مطالعہ کے بعد کہیں بھی یہ پتہ نہیں چلتا کہ ان کا تعلق ایسے کسی محکمہ سے رہا ہوگا جو سفاکیت وجارحیت کے لیے مشہور ہے جسے آج کے عہد میں غیر انسانی چہرے کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پولیس کی لفظیات کا اگر تجزیہ کیا جائے توایک برعکس صورت حال سامنے آتی ہے کہ ان کی لفظیات میں نہ صرف کوملتا ہے، شیرینی ہے بلکہ ایک طرح سے محکمہ کی مستعمل ومروج لفظیات کے خلاف ایک رد عمل بھی ملتا ہے جس طرح کی کرختگی کی ان سے توقع رہتی ہے، اس کے برعکس ان کے یہاں لفظیات ملتی ہے۔ ان کے یہاں رومان بھی، عشق بھی، خواب وخیال بھی ہیں اور اس طرح وہ اپنے شب وروز سے نہ صرف انحراف کرتے ہیں بلکہ یہ بھی احساس دلاتے ہیں کہ ان کے دل بھی عام انسانوں کی طرح دھڑکتے ہیں، ان کے اندر بھی وہ عام انسانی جذبات ہیں۔ پولیس کے تخلیقی احساسات پولیس کی شبیہ کو بدلنے میں کس حد تک کامیاب ہیں یہ تو میں نہیں کہہ سکتا لیکن اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ پولیس تخلیق کاروں کے یہاں عام انسانی جذبات واحساسات ملتے اس لیے پولیس والوں کو ان کی تخلیق کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ یہی ان کا اصل چہرہ ہے جو ان کے منصبی چہرے سے مختلف ہے۔ 

    پولیس کا تخلیقی خانوادہ
    پولیس خانوادے نے شعروادب کی مشاطگی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ادب کی تاریخ میں بہت سے مشہور فن کار ایسے ہیں جن کے آباء واجداد کا پیشہ سپہ گری رہا ہے۔ جس کی تفصیل ڈاکٹر ابرار اجراوی نے اپنے مضمون میں درج کی ہے۔ 

    نور بجنوری ایک بلند پایہ شاعر تھے جن کے والد قاضی فرحت اللہ پولیس انسپکٹر تھے، نور بجنوری نے علی گڑھ سے تعلیم حاصل کی تھی اور بعد میں ہجرت کرکے پاکستان چلے گیے، ان کی نظمیں، غزلیں اردوکے اہم رسائل میں شائع ہوتی تھیں، ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’جگ مگ‘‘ کے عنوان سے منظر عام پر آیا اور دوسرا مجموعہ’’ہجر کا سورج‘‘ تیسرا مجموعہ’’چراغوں کا سفر‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ احمد ندیم قاسمی نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ ’نور کی غزل میں اردو غزل کی ان تمام روایات کا فنکارانہ احترام موجود ہے جو نہایت حسین ہے اور جب تک شاعری زندہ ہے وہ زندہ رہنے اوررکھے جانے کے قابل ہے۔ نور بجنور ی کی صاحبزادی رعنا پروین نے ان کے حوالے سے بہت عمدہ مضمون لکھا ہے جو ڈاکٹر شیخ نگینوی کی مرتبہ کتاب ’دبستان بجنوردوم‘ میں شامل ہے، ان کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں، 

    میں زندگی کی سخاوت پہ کانپ اٹھتا ہوں 
    کہ بے دریغ یہ ظالم لٹا رہی ہے مجھے 

    اب مجھے پہچاننے والا یہاں کوئی نہیں 
    چپ کھڑا ہوں دیر سے شہر وفا کے سامنے 

    ہم سے کبھی کسی کی خوشامد نہ ہوسکی
    فن ذلتوں کی راہ میں دیوار بن گیا

    لطیف انور گورداس پوری کے والد ڈپٹی سپرنٹنڈٹ پولیس تھے۔ لطیف انور ایک اچھے شاعر اور صحافی تھے۔ انہوں نے گورداس پور سے ’’پاسبان‘‘ نام کا ایک معیاری ماہنامہ نکالا، جو ادبی حلقوں میں بہت مقبول ہوا۔ انھوں نے شاعری بھی کی۔ میر اور فانی کے انداز میں شعر کہے، مگر اپنا رنگ جدا رکھا۔ شاعری میں بامحاورہ، سادہ اور سلیس زبان استعمال کرتے تھے۔ ان کی شاعری میں مکالمے کی سی کیفیت ہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں، 

    راہ وفا میں خاک خود اپنی اڑا کے دیکھ
    کچھ دیکھنا ہے تجھ کو تو سب کچھ لٹا کے دیکھ

    کشتی کا رخ بدلتا رہا کیوں ہوا کے ساتھ
    ہر موج حشر خیز کو ساحل بنا کے دیکھ

    کنج قفس سے شاخ نشیمن نہیں ہے دور
    ہم بے دلوں کو اس میں ابھی تک کلام ہے 

    منزل کی سمت بیٹھتے اٹھتے بڑھے چلو
    سالک کو آبلوں کی شکایت حرام ہے 

    (بحوالہ، تذکرہ شعرائے اردو/ نظیر لدھیانوی) 

    عمو، بے آبرو، دل کی آواز، فرزانہ، حور، خطا، خیانت، لیڈی ڈاکٹر شفق، تسنیم، ٹیپو سلطان شہید، جیسے ناولوں کے خالق قیسی رامپوری ثم اجمیری ایک بڑے فکشن نگار تھے۔ ان کے نواسے عادل حسن کے مطابق تقریباً ان کے اسّی ناول ہیں۔ قیسی رامپوری کے والد بھی ریاست کوٹہ میں پولیس کی ملازمت میں تھے۔ انھوں نے خود اپنے مختصر سوانحی حالات میں لکھا ہے۔ نام حامد الدین خلیل الزماں، والد بزرگوار کااسم مبارک محمد زماں خاں تھا۔ سلسلۂ نسب چونتیس پشت میں حضرت قیس جن کا اسلامی نام عبدالرشید تھا سے جاکر ملتا ہے، ان بزرگ کا مزار کابل میں ہے۔ پردادا کابل سے نوشہرہ میں آکر آباد ہوگئے تھے۔ وہیں سکونت اختیار کرلی تھی، لیکن والد صاحب جوانی کے عالم میں وہاں سے چل دیے اور ریاست کوٹہ میں آکر پولیس کی ملازمت میں داخل ہوئے۔ تمام آباواجدا دکی عمر فوجی ملازمت میں بسر ہوئی، مگر نانا صاحب تجارت پیشہ تھے اور غدر کے بعد متمول ترین تاجروں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔۔۔ میری پیدائش 20جون 1908کی ہے، فارسی و اردو نانا صاحب سے پڑھی اور 15پارے تک انھیں سے قرآن حفظ کیا، لیکن بعد کو طبیعت اچاٹ ہوگئی اور اس نعمت سے محروم رہ گیا۔ (بحوالہ، راجستھان کے منتخب تحقیقی وتنقیدی مضامین، مرتبہ شاہد احمد جمالی) 

    قیسی رامپوری نے اجمیر میں ’’کیف‘‘ نام کا ایک رسالہ بھی نکالا۔ جس نے بہت جلد اپنی ایک شناخت قائم کرلی۔ قیسی کا افسانوی مجموعہ’’کیفستان‘‘ بہت مشہور ہے۔ اس کے علاوہ ان کے شاہکار مضامین، افسانے شاہد جمالی نے مرتب کیے ہیں۔ قیسی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’لوگوں کو اب تک قیسی رامپوری اور قیسی اجمیری میں اشتباہ باقی ہے۔ اس قسم کے خطوط اب تک آتے رہتے ہیں۔ چنانچہ میں واضح کرتا ہوں کہ ایک ہی ذات ہے جو دو جگہ منقسم ہے رامپور سے وطنی مناسبت ہے اور اجمیر میرا مستقر ہے۔ ‘

    اشک سنبھلی بھی ایک معتبر اور قادر الکلام شاعر تھے، جن کے والد سید امراؤ علی محکمہ پولیس میں ہیڈ کانسٹبل تھے اور ممتاز عالم دین کے علاوہ فارسی کے استاد شاعر بھی تھے۔ سید محمد ظفراشکؔ سنبھلی ایک ادبی اور علمی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے، ان کا ایک شعری مجموعہ ’’امواج تعزل‘‘ کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے۔ ڈاکٹر کشور جہاں زیدی نے اپنی کتاب’’میری زمیں کے چاند ستارے‘‘ میں ان کا نمونۂ کلام درج کیا ہے۔ ان میں سے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں، 

    شکل اس کی بدل گئی غم سے 
    جس خوشی کے قریب ہم پہنچے 

    غم دیے ہیں تو کرم ہے اس کا
    مجھ کو غم سہنے کی عادت بھی ہے 

    آشیاں کا جلاکے ہر تنکا
    ہم بھی جشن بہار کرتے ہیں 

    پروفیسر اجلال احمد اجلال ایک اچھے شاعر تھے، جن کے والد اقبال احمد محکمۂ پولیس میں داروغہ تھے۔ ان کا آبائی وطن کوریا پار اعظم گڑھ تھا۔ یہ انگریزی ادب کے استاد تھے۔ نیشنل شبلی کالج اعظم گڑھ میں تدریسی خدمات بھی انجام دیں۔ شبلی نیشنل کالج میگزین میں ان کا کلام شائع ہوتا رہا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں، 

    تمہاری بزم طرب سے دور ہوں لیکن
    دیے امید کے اب بھی کوئی جلاتا ہے 

    نکھر رہی ہے شب انتظار وعدوں سے 
    سحر سے کہہ دو ابھی ان کا انتظار کرے 

    وہ اک نظر کہ تغافل بھی ہے تمنا بھی
    بھلائے دل تو کسے، کس کا اعتبار کرے 

    ادھر ہے وعدۂ فردا، اِدھر درازیٔ شب
    نہ جانے کب ہو سحر، کون انتظار کرے 

    اسیر مچھلی شہری کے والد بھی سرکار انگلیشیہ کے دور میں پولیس انسپکٹر تھے، ان کا شمار بھی قادرالکلام شعرا میں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر رحمت قریشی مچھلی شہری نے مچھلی شہر کی علمی اور ادبی خدمات میں ان کا نمونۂ کلام درج کیا ہے، 

    شہروں شہروں تیرا چرچا، محفل محفل ذکر ترا
    تیری یادوں سے وابستہ یہ دلِ ناداں آج بھی ہے 

    گردش کے یہ دن ہیں پھربھی، آپ ہی کا ہے لطف وکرم
    وجد وسرور وکیف میں ڈوبی، محفل رنداں آج بھی ہے 

    محترمہ رقیہ محویؔ کے والد بہادر الطاف حسین خان بھی پولیس انسپکٹر تھے۔ محترمہ کی شناخت ایک اچھی شاعرہ کے طور پر ہوتی ہے۔ مختلف جرائد ورسائل میں ان کا کلام شائع ہوتا رہتا ہے۔ بقول ارشد قمرؔ’’رقیہ محوی کی شاعری میں میر کا انداز موجود ہے، ویسے بھی آپ فطرتاً قنوطیت پسند تھیں، شاید اسی لیے آپ کی غزلوں میں سوز وگداز نمایاں ہے۔ (بحوالہ، ارشد قمر، تذکرہ اردو شعرائے پلاموں، ص، 72) ان کا نمونۂ کلام ملاحظہ ہو، 

    ان کی محفل نہیں افسردہ مزاجوں کے لیے 
    پھول ہونٹوں پہ تبسم کا کھلا لوں تو چلوں 

    آمد آمد ہے بہاروں کی چمن زاروں میں 
    پھول پتی سے دروبام سجا لوں تو چلوں 

    اس خس وخار کی اے محوی ؔ حقیقت کیا ہے 
    آشیاں بجلی کی زد پہ میں بنا لوں تو چلوں 

    محترمہ کا آبائی وطن فرخ آباد، یوپی ہے، مگر 1929میں رانچی میں پیدا ہوئیں اور 28اگست 1992ء میں انتقال ہوگیا۔ 

    محترمہ نہاں محبوبؔ کے والدعبدالمحمود سب انسپکٹر پولیس کے عہدے پر فائز تھے۔ نہاں کو شاعری وراثت میں ملی تھی، ان کی بہن ذکیہ سلطانیہ نیرجو ساغر نظامی جیسے مشہور شاعرکی شریک حیات تھیں، وہ بھی شاعرہ تھی، محترمہ نہاں کا وطن مرادآباد ہے، مگر پلاموں کے ڈالٹن گنج میں ان کا قیام عرصے تک رہا۔ ارشد قمر نے ان کی دو غزلیں بطور نمونہ درج کی ہیں۔ دونوں میں سے چند اشعار پیش ہیں، 

    گلوں سے عشق نہیں ہے چمن سے پیار نہیں 
    وہ عندلیب ہوں جس کے لیے بہار نہیں 

    وہ مئے پلا کہ فنا کو بھی ہوش آجائے 
    خمار بادۂ ہستی کا اعتبار نہیں 

    پھولوں کی تمنا اب کیسی، کانٹوں سے وہ راہ ورسم کہاں 
    اک تیری حسرت کے صدقے، ہم سارے ارماں بھول گیے 

    ویرانہ دل میں کھلنے لگیں، جب آپ کی یادوں کی کلیاں 
    ہم روئے بیاباں بھول گیے، رنگِ چمنستاں بھول گیے 

    طنز ومزاح کے مشہور شاعر بدنام سیوانی کے والد خواجہ طفیل احمد بھی پولیس محکمہ میں تعینات تھے، وہ گورکھپور میں داروغہ بھی رہے۔ بدنام سیوانی کا شمار طنزومزاح کے عمدہ شاعروں میں ہوتا ہے، ان کے اشعار میں ظرافت کے ساتھ طنز بھی ہوتا ہے، چند اشعار سے ان کے ظریفانہ مزاج کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ 

    بازار وہ چلیں تو چلیں ہوکے بے نقاب
    آجائیں گھر تو چہرے پہ پردہ دکھائی دے 

    للچے ہے ایسے مرغ ومسلم پہ مولوی
    بلی کو جیسے دور سے چوہا دکھائی دے 

    خدا رکھے سلامت آٹھ بچوں کا میں ڈیڈی ہوں 
    لکیریں ہاتھ کی کہتی ہیں کہ اک سنتان باقی ہے 

    کراکے میں نے نس بندی لکیریں تو مٹادی ہیں 
    مگر بیگم کا دعویٰ ہے خدا کی شان باقی ہے 

    بیوی تو مقدر سے پائی تھی حسیں لیکن
    اولاد کی کثرت نے تصویر بدل ڈالی

    (بحوالہ، تذکرہ شعرائے سارن، ص، 82-83) 

    سجاد حیدر کے والد سید کرار حیدر بھی بھاگلپور، بہار میں داروغہ تھے۔ سجاد حیدر ایک مشہور شاعر ہیں۔ بیٹی ان کی ایک اہم تصنیف شمار کی جاتی ہے، یہ ایک مسدس ہے تذکرہ شعرائے سارن کے حوالے سے اس مسدس کے چند بند پیش ہیں۔ 

    گلشن زیست میں بیٹی سے بہار آتی ہے 
    اپنے ہمراہ وہ پیغام خوشی لاتی ہے 

    گھر کے آنگن میں کلی جب مسکاتی ہے 
    باپ خوش ہوتا ہے ماں پیار سے اتراتی ہے 

    سارے کنبہ کی توجہ کا ہے مرکز بیٹی
    چشم قدرت میں بھی ہوتی ہے معزز بیٹی

    ان کے علاوہ بہت سے اور بھی فن کار تلاش کیے جاسکتے ہیں جن کا تعلق پولیس خانوادے سے ہوگا۔ 

    ’’اندازِ بیاں‘‘ کے اس خصوصی شمارے میں کوشش کی گئی ہے کہ پولیس کے تعلق سے جتنے بھی زاویے ہوسکتے ہیں، ان سب کا احاطہ کیا جائے، مگر یہ ممکن نہیں ہے اس لیے اسے صرف ایک آغاز سمجھا جائے، اصل جستجو کا سفر تو اس شمارے کی اشاعت کے بعد شروع ہوگا، ادبی تاریخ اور تذکروں میں بہت سے چھپے ہوئے نام بھی منظر عام پر آئیں گے۔ ادبی تاریخ کے صفحات پلٹے جائیں گے اور اس زمرے کی بہت سی شخصیتوں کے آثاروکوائف سے آشنائی ہوگی۔ 

    میراکام صرف ایک منجمد تخلیقی معاشرے کو متحرک کرنا ہے، میں اس مقصد میں کتنا کامیاب ہوایہ فیصلہ ہم اور آپ نہیں، صرف اور صرف وقت کرے گا۔ آنے والا وقت ہی اس موضوع کی اہمیت اور معنویت کو متعین کرے گا۔ مجھے احساس ہے کہ بہت سے اہم نام چھوٹ گیے ہیں، مگر میں اس کے لیے خود کو قصور وار نہیں سمجھتا کیوں کہ میں نے مقدور بھر کوشش کی تھی، مختلف ترسیلی ذرائع سے اس کی تشہیر بھی کی گئی تھی، اب تخلیقی معاشرہ ہی بیدار نہ ہوتو کوئی کیا کرسکتا ہے؟ میری اپنی مجبوریاں اور محدودات ہیں، مجبوریوں کی زنجیریں توڑنے کی قوت مجھ میں نہیں ہے۔ مجھے اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لوگ کیا کہیں گے کیوں کہ کہنا بہت آسان ہوتا ہے اور کرکے دکھانا بہت دشوار۔ مجھے امید ہے اس سے آگے کا کام دوسرے لوگ کریں گے تو زیادہ اچھا ہوگا اور یقیناً ان کی کوششوں سے اس موضوع کو کچھ اور وسعتیں ملیں گی، کچھ اور جہتیں روشن ہوں گی اورتحقیق کے لیے ایک نیا موضوع سامنے آئے گاکہ آج کے عہد میں تحقیق کے لیے موضوعات کاقحط اور بحران ہے۔ 

     

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے