پریم چند کی ترقی پسندی
ترقی پسند ادیب اور نقاد پریم چند کو اپنی صف میں شمار کرتے رہے ہیں لیکن بعض حلقوں سے اکثر یہ آواز بلند ہوتی سنائی دی ہے کہ اگر ترقی پسندی وہی چیز ہے جس کی بنیاد تاریخ کے مادی تصور پر ہے تو پریم چند ترقی پسند نہیں ہو سکتے۔ معترضین کا مقصد یہ ہے کہ سیاسی انقلاب، تاریخ کا مادی ارتقا، سماجی اصلاح، انسانی فطرت، عورت اور مذہب کے متعلق پریم چند کے خیالات وہ نہیں ہیں جنھیں ترقی پسند مانتے ہیں اور پیش کرتے ہیں۔ اس اعتراض میں بہت کچھ صداقت ہے لیکن یہ صداقت ادھوری ہے اور پریم چند کے خیالات کی صحیح تصویر پیش نہیں کرتی۔ کیونکہ پریم چند میں بہت کچھ ہے اور ترقی پسندی کو پیش نظر رکھ کر ان کے ادبی کارناموں اور سماجی شعور پر غور کرنے سے کچھ اور نتائج برآمد ہوتے ہیں جن کو نظرانداز کرنے سے پریم چند پر مجموعی حیثیت سے رائے قائم نہ کی جا سکےگی۔
ترقی پسندی کچھ بھی نہیں ہے اگر وہ کسی بندھے ٹکے اصول کے ماتحت ہر مسئلہ کا فیصلہ کرتی ہے یا اگر وہ ایک ہی لاٹھی سے سب کو ہانک دیتی ہے۔ ترقی پسند تنقید کا خیال ہے کہ ہر ادیب اپنے سماجی شعور کی بنا پر اپنے طبقاتی رشتے میں، اپنے معاشرتی عقائد اور فنی تصورات کی روشنی میں ایک نیا مسئلہ پیش کرتا ہے۔ ہر ادیب کے خیالات کا کوئی پس منظر ہوتا ہے، اس کی تخئیل کا کوئی خزانہ ہوتا ہے، اس کے انتخاب اور اجتناب کا کوئی اصول ہوتا ہے، اس کے خاص مسائل پر زور دینے کا کوئی سبب ہوتا ہے۔ ان تمام باتوں پر نظر رکھنے کے بعد ہی کوئی رائے قائم کی جا سکتی ہے اور جیسے ہی ان تمام باتوں کو کسی ادیب کے کارناموں کے آئینے میں دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے، نازک تجزیہ اور ترکیب کی وہ منزل آ جاتی ہے جہاں صرف ایک چابک دست نقاد ہی کا ذہن کام کر سکتا ہے۔
انسانی شعور کی پیچیدگیوں کو سلجھا کر فنکار کے اصل مقصد کو ڈھونڈ نکالنا، اس کے فنی محرکات کا پتہ لگا لینا اچھے ترقی پسند نقاد کا کام ہے۔ اگر وہ اپنے اس ہمہ گیر اور ہمہ جہتی سماجی شعور سے کام نہ لے تو ان ادیبوں اور فنکاروں کے علاوہ جو سوفیصدی اس کے ہم خیال ہیں اور کسی کو وہ ادیب اور فنکار تسلیم ہی نہ کرے، لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ جو ادیب سماجی ارتقا کی جس منزل میں ہے اسی کی مناسبت سے وہ جانچا جا سکتا ہے اور اسی نقطۂ نظر سے اس کی ترقی پسندی یا عدم ترقی پسندی کے متعلق رائے قائم کی جا سکتی ہے۔
پریم چند کو بیسویں صدی کے ابتدائی اور انیسویں صدی کے آخری دور کا انسان سمجھنا چاہئے۔ ان کے شعور کی تشکیل میں ان اصلاحی تحریکوں کا ہاتھ تھا جن کی ابتدا غدر سے کچھ دن پہلے ہو چکی تھی اور جو بیسویں صدی کے ابتدائی سالوں میں پھل پھول لا رہی تھی۔ وہ ایک دیہات کے رہنے والے تھے۔ نچلے متوسط طبقہ کا ایک خاندان ان کا گہوارہ تھا۔ تحصیل علم کی وہ آسانیاں جو انسانی شعور کو خاص سانچوں میں ڈھالتی ہیں، پریم چند کو میسر نہ تھیں۔ انھیں خود اپنا راستہ ڈھونڈنا، فضا کے تیور پہچاننا، مصیبتوں کا مقابلہ کرنا اور ہواؤں کے رخ کو سمجھنا تھا۔ انھیں کشمکش حیات سے لبریز سمندر میں کودنا اور زندہ رہنے کے لئے جد وجہد کرنا تھا۔ خود ان کی خانگی زندگی کی دشواریاں، انفرادی اور خاندانی زندگی کے متعلق ان کا نقطۂ نظر خاص طرح کا بنا رہی تھی۔
سیاسی اور سماجی حیثیت سے بیسویں صدی کے ابتدائی دور کا ہندوستان نہ تو وہ زوال آمادہ اور انحطاط پذیر ہندوستان تھا جو انیسویں صدی کے وسط میں تھا اور نہ وہ ہندوستان جو خود اعتمادی کے ساتھ اپنی منزل کی طرف گامزن ہو۔ امکانات کی پھیلی ہوئی زنجیر، کڑیاں جوڑنے والوں کی منتظر تھی اور ہر شخص اپنی پسند، اپنے طبقاتی رجحان، اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق سرمایۂ خیال جمع کر سکتا تھا۔ یہ ایسا عہد تھا جب کعبہ اور کلیسا دونوں اپنی اپنی جانب کھینچ رہے تھے اور لکھنے والوں کا رومانی بن جانا بھی ممکن تھا اور حقیقت پسند بھی، لبرل بن جانا بھی ممکن تھا اور کانگریسی بھی، انسان فرقہ پرست بھی بن سکتا تھا اور متحدہ قومیت کا حامی بھی، برطانوی حکومت کا ساتھی بھی ہو سکتا تھا اور مخالف بھی۔ ان امکانات میں سے کن باتوں کے ساتھ ہونا ترقی پسندی کی نشانی تھا اور کن سے وابستہ ہونا رجعت پرستی یا کم سے کم جمود کی، ان کو پہچان لینا کچھ ایسا دشوار نہیں ہے۔
یہ دور ہندوستان کی ذہنی تاریخ میں غیرمعمولی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کا تجزیہ میں بار بار کر چکا ہوں۔ یہاں ان کے متعلق کچھ لکھنا ضروری ہونے کے باوجود ممکن نہیں ہے۔ اس دور میں ترقی پسندی کی جستجو کرنے والے کو، تہہ در تہہ نفسیاتی گتھیوں اور جذباتی وفاداریوں کو ان کے صحیح پس منظر اور ٹھیک تعلقات کے ساتھ دیکھنا ہوگا۔ پریم چند نے ہندوستان کی اسی الجھی ہوئی دنیا کو اپنی ذہانت، ہمدردی، خلوص اور وسیع النظری سے سمجھنے کی اور ہر اچھے ادیب کی طرح انتشار میں تنظیم، بدحالی میں حسن اور الجھنوں میں سلجھاؤ پیدا کرنے کی کوشش کی۔ کارزار حیات میں کود کر طوفان کو دیکھا اور زندگی کے تجربوں سے اپنی جھولیاں بھرلیں اور انھیں تجربوں کو بنا سنوار کر اپنے افسانوں اور ناولوں میں پیش کیا۔
اردو ادب میں حقیقت نگاری کی تحریک اپنی ابتدائی شکل میں حالیؔ اور آزادؔ کے یہاں شروع ہو چکی تھی لیکن جس طرح ہندی ادب پر چھایا واد کی چھاپ لگی ہوئی تھی، اسی طرح اردو ادب میں میں تصور پرستی کا وجود پایا جاتا تھا (یہ چیز شکل بدل کر آج بھی رونما ہوتی رہتی ہے) اس لئے پریم چند اس کے اثرات سے محفوظ نہیں کہے جا سکتے۔ وہ بھی ایک تخئیلی نظامِ اخلاق کا تصور رکھتے تھے جس میں کبھی کبھی ان کے کردار خالص مثالی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں لیکن وہ ہندوستان جس کا ذہن بدل رہا تھا، جس کا مستقبل ماضی کی تاریکی اور حال کی کشاکش سے ابھر رہا تھا، اس میں حقائق سے آنکھیں بچاکر گزر جانا ناممکن تھا۔ پھر پریم چند کے ایسے انسان کے لئے تو ایسا کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔ کیونکہ انھوں نے آنکھیں کھول کر سب کچھ دیکھا تھا اور سب اپنی قوتِ دماغی سے سمجھا تھا۔
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کے یہاں حقیقت اور تخئیل کاری کا جو میل جول ہے، وہ کوئی ناقابل فہم متضاد صورت حال پیش کرتا ہے بلکہ اسے ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ پریم چند کی حقیقت پسندی نے ان کی تصور پرستی سے سمجھوتہ کر لیا تھا اور ان دونوں کے میل سے ان کا فن غذا پاتا تھا۔ جتنا وقت گذرتا جاتا تھا اور زندگی کی حقیقتیں واضح ہوتی جاتی تھی، پریم چند اتنا ہی حقیقت کی طرف بڑھتے جاتے تھے اور ان کے شعور میں وسعت اور گہرائی پیدا ہوتی جاتی تھی۔ ناولوں میں ان کا آخری ناول ’’گئو دان‘‘ اور کہانیوں میں تقریباً آخری کہانی ’’کفن‘‘ اس کی مثالیں ہیں۔
پریم چند کی ترقی پسندی کا مطالعہ بیسویں صدی کے سیاسی اور سماجی شعور کا مطالعہ ہے۔ اس دور کشمکش میں جو متضاد قدریں رونما ہوئیں، جو مسائل پیدا ہوئے، جو گتھیاں ناخنِ خرد کو کشائش دیتی ہوئی پڑیں، ان کے بارے میں پریم چند کا کیا رویہ رہا، ان کے مطالعہ پر ان کی ترقی پسندی کا دار ومدار ہے۔ اصلاح پسندی کے اس دور میں انقلابی یا ترقی پسند قدروں سے کون سی قدریں مراد لی جا سکتی ہیں، اس کے لئے کچھ بڑی گہری نظر کی ضرورت نہیں ہے۔ انگریزی سامراج کے خلاف لڑنے والی سب سے بڑی ترقی پسند جماعت کانگریس تھی۔ کانگریس میں بھی مختلف رجحانات تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ معاشی آزادی کا تصور بھی جنم لے رہا تھا۔ عوام کی بہبودی، عام تہذیبی ترقی کانگریس کے خاص مقاصد بن رہے تھے۔ سوشلزم کے سائنٹفک اور رومانی تصورات جنگ آزادی کی نوعیت پر اثرانداز ہو رہے تھے اور ہندوستانی سیاسیات کا رشتہ بین الاقوامی سیاسیات سے جڑ رہا تھا۔
پریم چند نے سرکاری نوکری سے استعفی دے کر سامراج کو ٹھکرا دیا۔ اپنے افسانوں میں انھوں نے برطانوی استبداد کو تیز روشنی کے سامنے لا کھڑا کیا۔ انھوں نے کانگریس میں اعتدال پسندوں کے مقابلہ میں گرم دل یعنی انتہا پسندوں کی حمایت کی اور آہستہ آہستہ سوشلزم کے قریب آ گئے۔ جب کہیں ان کے یہاں زمیندار اور کسان کا تصادم ہوا ہے تو ان کی ہمدردیاں کسان کے ساتھ رہی ہیں، جب ساہوکار اور کسان کی کشمکش رہی ہے تو وہ کسان کے ہمدرد دکھائی دیے ہیں۔ برہمن نے جب غریب دیہاتی کو لوٹنا چاہا تو انھوں نے دیہاتی کا ساتھ دیا ہے۔ جب سرمایہ دار اور مزدور کا مقابلہ ہوا ہے تو وہ مزدور کے ساتھ دکھائی دیے ہیں۔ حاکم و محکوم کے جھگڑے میں وہ اپنی ساری دماغی اور جذباتی طاقت کے ساتھ محکوم کے حقوق کے علمبردار نظر آتے ہیں۔
مختصر یہ کہ جہاں کشمکش نے طبقاتی اختلاف کی شکل اختیار کر لی ہے، وہاں انھوں نے زبردست اور ظالم طبقہ کے مقابلہ میں محکوم اور کمزور طبقہ کی طرف سے آواز بلند کی ہے۔ یقینا ًان کا یہ طبقاتی شعور تاریخ کا مادی شعور رکھنے والے تاریخ داں کا شعور نہیں ہے، جو طبقوں کی کشمکش کے اساسی اصول کو سمجھتا ہے بلکہ اس انسان دوست فنکار کا تصور ہے جس کا مشاہدہ تیز اور جس کا شعور انصاف پسند ہے۔
اس طرح پریم چند اپنے دور کے شعور کے ان پہلوؤں کے ترجمان ہیں جو غلامی پر آزادی کو، قدامت پرستی پر اصلاح کو، تنگ نظری پر بلند نگاہی کو، طبقاتی جبر اور ظلم پر انصاف اور مساوات کو، سامراج یا آمریت پر جمہوریت کو ترجیح دیتے تھے۔ اس میں شک نہیں کہ بہت سے مقامات ایسے آئیں گے جہاں پریم چند کے خیالات واضح نہیں ہیں یا جہاں انہوں نے حقیقتوں سے آنکھ ملانے کی جرأت نہیں کی ہے لیکن ان کا فن مجموعی طور پر پڑھنے والوں پر یہی اثر ڈالتا ہے کہ وہ ملک کی عوامی زندگی کو ابھارنے اور بہتر بنانے کے لیے جدوجہد کے ترجمان تھے۔
اس خاص دورِ حیات میں زندگی کے صرف انھیں تقاضوں کو پورا کرنا ترقی پسندی کی دلیل بن سکتا ہے۔ آج جب ہندوستان اپنا مستقبل بنانے کے لیے آزاد ہے، ترقی پسندی کے مطالبے دوسرے ہیں، لیکن جس ہندوستان نے نے پریم چند کے شعور کی تربیت کی تھی، اس کی جد وجہد کی بنیادیں آج کی جد وجہد سے مختلف تھیں، دیکھنا یہ ہے کہ جزوی اور فروعی مسائل میں نہیں، ملک کی تقدیر بنانے والے اہم مسائل میں وہ کدھر ہیں؟
ترقی پسندی کوئی ڈھلا ڈھلایا، بنا بنایا مشینی فلسفہ نہیں ہے۔ اس کی ساری طاقت اس کے تجزیے میں، حالات اور واقعات کی مادی رفتار اور سماجی ارتقاء کی روشنی میں بدلتی ہوئی انفرادی اور اجتماعی ذہنیت کا مطالعہ کرنے میں پوشیدہ ہے۔ حقیقت کا وہ تصور آج بدل چکا ہے جو پریم چند کے دل کو گرماتا تھا۔ اس لئے پریم چند سے حقیقت کے اس سائنٹفک تصور کا مطالبہ درست نہ ہوگا، جو آج کے ادیبوں سے کیا جا رہا ہے۔ پریم چند کا تعلق نچلے متوسط طبقہ سے تھا، اس کی خوبیاں اور خرابیاں پریم چند میں تھیں۔ اس کے متضاد تقاضے حقیقت اور روایت میں تصادم پیدا کرکے جذبات کو کبھی ایک طرف کر دیتے ہیں کبھی دوسری طرف۔ پریم چند اس سے بری نہیں لیکن مجموعی طورپر ان کے افسانے اور ناول پڑھنے والے یا ان کے خیالات کا مطالعہ کرنے والے کے دل ودماغ میں رجعت پرستی کے جذبات پیدا نہ ہوں گے، بلکہ ظلم کے خلاف نفرت کا طوفان اٹھےگا۔
یہ ایک ایسی کسوٹی ہے جس پر ہر دور کے ترقی پذیر یا انحطاط پسند رجحانات کا صحیح اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ایسے ادوار میں جب طبقاتی نظام میں کشمکش بڑھ رہی ہوگی یا پرانا ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کر نیا ڈھانچہ بن رہا ہوگا، اس وقت دونوں ادوار میں اپنا کام جاری رکھنے والے فنکاروں کے یہاں تضاد ضرور نمایاں ہوگا۔ اسی تضاد کے تجزیے سے گذر کر فنکار کے رجحان اور عقائد کا مطالعہ کیا جا سکےگا۔
پریم چند ۱۹۳۶ء تک زندہ رہے اور اس وقت تک ہندوستانی سیاسی تصورات تیزی سے تغیر پذیر ہو چکے تھے۔ پریم چند اسی تغیر کا ساتھ دے رہے تھے لیکن ان کی خامیاں بھی تھیں اور وہی خامیاں تھیں جو ہندوستانی متوسط طقہ کی چلائی ہوئی سیاسی تحریک میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ پریم چند کے شعور کا یہ بھی قابل غور پہلو ہے کہ وہ ادب کی ابدی قدروں سے ناتا توڑ کر سیاسی تحریک کے ساتھ اپنے ادب کو آگے بڑھا رہے تھے۔ انڈین نیشنل کانگریس سے تو انھیں اپنی فکر کے لئے غذا ملتی تھی لیکن وہ دوسری سماجی اور اصلاحی تحریکوں سے بھی اثر لیتے تھے۔
چنانچہ راناڈےؔ وغیرہ کی سماجی اصلاح کی تحریک کا عکس ان کے افسانوں اور ناولوں میں واضح طور پر ملتا ہے۔ اسی طرح ان کے سیاسی شعور میں سماجی تغیر کا شعور بھی شامل تھا اور وہ تدریجی طورپر سیاسی قومی انقلاب کے تصور سے اقتصادیات کی طرف بڑھ رہے تھے۔ عملاً سیاسیات میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے وہ اپنی ترقی پسندی کے باوجود اس منطقی نتیجہ تک نہ پہونچ سکے جہاں انھیں پہونچنا چاہئے تھا لیکن ان کے افسانوں اور ناولوں میں اس زندگی کا عکس ملتا ہے، اشتراکیت جہاں لے جانا چاہتی تھی۔ اپنے انتقال سے چند مہینے پہلے ترقی پسند مصنفین کی پہلی کانفرنس کی صدارت اور اس کے مقاصد سے ہمنوائی ان کے ترقی پذیر رجحانات پر حقیقت کی مہر ثبت کرتی ہے۔
پریم چند کی تحریروں کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے باقاعدہ اشتراکیت یا مارکسزم کا مطالعہ نہیں کیا تھا لیکن ان کے تجربوں نے ان میں وہ سماجی شعور پیدا کر دیا تھا جو طبقاتی تجزیہ کا محرک بنتا ہے۔ اس سلسلہ میں حقیقت نگاری نے ان کی مدد کی۔ وہ ہندوستانی سماج کے مختلف طبقوں میں ہر قسم کے لوگوں سے واقف تھے۔ اگرچہ ان کی گہری واقفیت ہندوستان کے کسانوں ہی سے معلوم ہوتی ہے۔ زیادہ تر کسانوں ہی کے سلسلے میں انھوں نے طبقاتی نظام پر نگاہ ڈالی ہے، اپنے آخری زمانہ میں پریم چند نے ایک مضمون لکھا تھا جس کا عنوان تھا ’’مہاجنی تہذیب۔‘‘ یہ مضمون کئی حیثیتوں سے مطالعہ اور غور کے لائق ہے کیونکہ اس سے جہاں ان کی ترقی پسندی پر روشنی پڑتی ہے وہیں ان کے ذہنی تضاد کا بھی پتہ چلتا ہے۔
سرمایہ دارانہ تہذیب کا مقابلہ جاگیردارانہ تہذیب سے کرتے ہوئے پریم چند نے سرمایہ داری کے غیرانسانی رویے اور لوٹ کھسوٹ کی پورے جوش کے ساتھ مذمت کی ہے لیکن اس سلسلہ میں وہ جاگیرداری کے مظالم اور عیوب کونہ دیکھ سکے۔ کیونکہ جاگیردارانہ تمدن میں انھیں قدیم ہندوستان کے راجپوتی دور کی وہ اخلاقی اور قومی خصوصیتیں نظر آتی تھیں جنھیں وہ عزیز رکھتے تھے اور قومی کردار کی تعمیر کے لئے جنھیں ضروری خیال کرتے تھے۔ سامنتی دور میں رحم دلی، سخاوت، صلۂ خدمت، بہادری، خود داری، شرافتِ نفس وغیرہ کی جو جگہ تھی، پریم چند ان میں زندگی کا وہ بانکپن دیکھتے تھے جو مہاجنی دور میں مفقود ہے۔ مہاجنی دور میں دولت سے محبت کی جاتی ہے۔ جاگیرداری میں دولت جمع کرنے کی چیز نہیں، شان سے خرچ کرنے کی چیز تھی۔
یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھی یہی اخلاقی قدریں اپنے سماجی رشتے سے الگ ہوکر محض مطلق قدروں کی شکل میں جگہ پاتی ہیں اور پریم چند حقیقت کے پرستار ہوتے ہوئے بھی مثالیت کے چکر میں پھنس جاتے ہیں، حالانکہ یہ ملحوظ رکھنا چاہیے کہ اکثر و بیشتر ان کے ابتدائی دور کے افسانوں ہی میں یہ بات پائی جاتی ہے، جب بندیل کھنڈ کے قیام کے زمانے میں انھیں راجپوتوں کی بہادری کے کارناموں سے واقفیت حاصل کرنے کا موقع ملا۔ مہاجنی تہذیب کے ساتھ انھوں نے مغربیت کے ساتھ مادی نظامِ زندگی اور برطانوی استعمار اس طرح وابستہ کر لیا تھا کہ انھیں مغربی طرز فکر اور مغربی تعلیم میں بہت سے عیوب نظر آتے تھے۔ ذہن کا یہ پیچ در پیچ عمل جس کے لئے اس وقت ہندوستانی سیاسیات اور سماج میں جگہ تھی، پریم چند کو مکمل طورپر وہ معاشی نظام قبول کرنے پر آمادہ نہ کر سکا جسے اشتراکیت پیش کرتی تھی۔
پریم چند کے افسانوں اور ناولوں میں یہ تمام باتیں تلاش کی جا سکتی ہیں اور ان سے بعض متضاد نتائج بھی نکالے جا سکتے ہیں۔ کیونکہ سیاسی اضطراب اور سماجی کشمکش کے اس عبوری دور میں پریم چند کی شخصیت بھی اپنی وفاداریوں میں بٹ گئی تھی۔ وہ سرمایہ داری کے مخالف تھے لیکن انقلاب کی آواز پوری طاقت کے ساتھ اس لئے استعمال نہیں کرتے تھے کہ انقلاب میں عدم تشدد کا باقی رہنا یقینی نہیں۔ وہ مزدوروں اور غریبوں کے ترجمان تھے لیکن ان کے حقوق حاصل کرنے کے لئے کسی انقلابی جدوجہد کے بجائے سمجھوتے اور صلح پسندی سے کام لینے کے طرفدار تھے۔ یہ طریقہ اس تصورِ انقلاب سے ہم آہنگ تھا جس کی رہنمائی گاندھی جی کر رہے تھے، انہیں کسانوں کا درد تھا لیکن جاگیردارانہ نظام کو مٹا کر کسان راج قائم کرنے کا حوصلہ انھوں نے اپنے کرداروں میں نہیں پیدا کیا۔
’’گوشۂ عافیت‘‘ میں زمیندار کسان کشمکش کی تصویر ہے۔ ’’چوگانِ ہستی‘‘ میں سرمایہ دار اور مزدور کا مسئلہ ہے۔ ’’گئو دان‘‘ میں کسان، مزدور، سرمایہ دار، مہاجن، زمیندار، برہمن، حاکم، سب ہی آتے ہیں اور بعض جگہ ان کے تصادم کی حیرت انگریز تصویریں ملتی ہیں لیکن ان سب میں اس مستقبل کا واضح نقشہ نہیں ملتا جو کسان اور مزدور اپنی محنت سے بنا سکتے ہیں۔ تاہم کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ انگریزی سرمایہ دارانہ و جاگیردارانہ نظام چاہتے تھے جس میں کسانوں، مزدوروں اور غریبوں پر ظلم ہو۔ جب انگریزی سامراج کی سرکردگی میں ہندو اور مسلمان متوسط اور اعلیٰ طبقہ کے لوگ الگ الگ اپنی سیاسی جماعتیں بناکر عوام کو بھی ٹکڑوں میں باٹنے کی کوشش میں تھے، اس وقت متحدہ قومیت، ہندو مسلم اتحاد اور غیرمذہبی جمہوریت کی آواز بلند کرنا ترقی کی طرف زبردست قدم تھا اور پریم چند نے اپنے افسانوں اور ناولوں میں ہندوستان کی اس روح کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے جو مختلف مذہبوں اور گروہوں میں بٹی ہونے کے باوجود ایک ہے۔
اس میں شک نہیں کہ اس وقت بھی اور آج بھی قومیت کا مبہم نعرہ طبقاتی نظام کی موجودگی میں ہمیں دور تک نہیں لے جاتا لیکن اس وقت یہ نعرہ اتحاد کو مضبوط بنانے میں ایک زبردست آلے کی حیثیت رکھتا تھا، جو برطانوی سامراج کے خلاف ایک محاذ کے طورپر قائم کیا جا رہا تھا۔ پریم چند مذہب کے مخالف نہیں تھے لیکن فرقہ پرست عناصر کے دشمن ضرور تھے۔ وہ ان مذہبی رسموں اور اداروں کا مذاق اڑاتے تھے جن میں خلوص، سچائی اور روحانیت کی جگہ ریاکاری، اور عوام دشمنی اور نمائش کی نمود تھی۔
وہ برہمن جو دولت کے لئے اپنا ضمیر حکومت یا حکومت کے وفاداروں کے ہاتھ بیچ سکتا تھا، جو اپنے بھوج کے لئے عوام کا خون چوس سکتا تھا، جومذہب کے نام پر غریبوں کو لوٹ سکتا تھا، پریم چند کے تیروں کا ہمیشہ نشانہ بنا۔ جو مذہبی رسمیں ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالتی تھیں، پریم چند ان کی مخالفت کرنے کی جرأت رکھتے تھے۔ انھوں نے اچھوتوں کی زندگی کا مطالعہ نہیں کیا تھا بلکہ ان کے حقوق کی حمایت میں کہانیاں بھی لکھی ہیں اور ان میں بھی انسانیت کے جلوے دیکھے اور دکھائے ہیں جو انھیں دوسروں میں نظر آتے تھے۔
زندگی کے داخلی پہلوؤں پر نگاہ ڈالتے ہوئے پریم چند کی حقیقت نگاری، ان کے مخصوص اخلاقی عقائد، تصورات اور ذہنی کیفیات کے دھوئیں میں چھپ جاتی تھی۔ ایسے مواقع پر وہ روحانیت، تصوف، وجدان اور تقدیر کے جنجال میں پھنس کر حقیقتوں کے سماجی پہلوؤں سے آنکھیں بچا جاتے ہیں۔ کبھی کبھی وہ فطری واقعات کے غیر فطری یا فوق الفطرت حل تلاش کرنے لگتے ہیں اور وہ تضاد جس کا ذکر کئی جگہ آ چکا ہے، نمایاں ہوکر انھیں حقیقت پسندی سے دور کر دیتا ہے لیکن انھیں ان کے خیالات میں کوئی اہم جگہ حاصل ہو تو ہو، ان کے لکھے ہوئے ہزارہا صفحات میں ان باتوں کو زیادہ اہمیت نہیں ہے۔
پریم چند کا ذہن ارتقا پذیر تھا۔ ان کا فن حالات کے ساتھ ترقی کر رہا تھا۔ ان کے خیالات واقعات کی رفتار کا ساتھ دے رہے تھے۔ وہ ہندوستانی عوام کی روح میں اتر کر ان کے دکھ درد، ان کے کرب واضطراب، ان کی مایوسی اور امید، ان کے خوابوں اور خیالوں کو دیکھ سکتے تھے۔ وہ انہیں اس جال سے نکال کر بہتر زندگی کا خلعت دینا چاہتے تھے جس میں وہ صدیوں سے جکڑے ہوئے تھے۔ وہ براہ راست عوام کے پاس گئے اور ان کی تکلیفوں اور خوشیوں میں شریک ہوئے۔ انھوں نے عوام کے مقابلے میں دوسرے طبقات کے مظالم کا پردہ چاک کیا۔ اگرچہ وہ طبقات کے ختم ہونے سے بہتری کے جو امکانات تھے، ان پر نظرنہ ڈال سکے لیکن عوام کا ساتھ انھوں نے کبھی نہیں چھوڑا۔ اسی وجہ سے ان کی انسان سے محبت، ان کی عوام دوستی، ان کی بلند نگاہی کے مجموعی اثرات کے سامنے ان کا بعض قدیم تصورات کو عزیز رکھنا، ایک معمولی سی چیز بن جاتا ہے اور پریم چند ہماری ترقی پسندی کی روایت کا ایک بہت ہی اہم زینہ بن جاتے ہیں۔
اگر کوئی شخص پریم چند کی حقیقی قدر وقیمت کو سمجھنا چاہتا ہے تو اسے چند خامیوں یا ان فنی نقائص میں الجھ کر نہیں رہ جانا چاہئے جن سے پریم چند نہ بچ سکے بلکہ انسان دوستی کے اس بے پناہ طوفان کو دیکھنا چاہئے جو غلاموں، مزدوروں، کسانوں، مظلوموں اور اچھوتوں کے لئے ان کے دل میں اٹھ رہا تھا اور ان کے فن کو جہد حیات میں کام آنے والا ایک نازک مگر مضبوط آلہ بناتا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.