Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پروفیسر شمیم حنفی سے ایک گفتگو

سید ثاقب فریدی

پروفیسر شمیم حنفی سے ایک گفتگو

سید ثاقب فریدی

MORE BYسید ثاقب فریدی

    ثاقب فریدی: آپ نے مختلف کلاسیکی شاعروں پر لکھا ہے، ظاہر ہے کہ وہ ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں، لیکن ان سب کی شعریات ایک ہے، کلاسیکی شاعری کی شعریات کے تعلق سے آپ کا تصور کیا ہے؟

    شمیم حنفی: شاعروں اور ادیبوں میں بہت فرق ہونے کے باوجود مماثلت کے کچھ پہلو نکلتے ہیں۔ میں پوری ادبی روایت کو وحدت کے طور پر دیکھتا ہوں۔ ظاہر ہے کہ ہر شاعر کو نہ تو میں نے ایک سی توجہ سے پڑھا ہے اور نہ میں پڑھنا چاہتا ہوں۔ تمام شاعروں پراتنا لکھا گیا ہے کہ ان سب کو پڑھنا محال ہے اور میرے لیے ممکن نہیں ہے۔ میں لطف لے کر ادب کو پڑھنے کا عادی ہوں۔ میں ادب کو اس طرح نہیں پڑھتا کہ جیسے یہ کوئی ضابطے اور قوانین کی کتاب ہے کہ اس پر مجھے بحث کرنی ہے۔ ادب کو میں سائنس نہیں سمجھتا۔ تنقید کوسائنسی عمل سے مختلف ہونا چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ تنقید کا بنیادی کام وضاحت ہے۔ آپ کو یہ بتادیا جائے کہ آپ نے کن چیزوں کو لطف لے کر پڑھا ہے اور اس میں آپ کو کیوں لطف آیا۔ یہ ساری باتیں تنقید سے تعلق رکھتی ہیں۔ تنقید کو صرف یہ سمجھ کر پڑھنا کہ اس سے ہمیں ادب کو پرکھنے کا، ابدی اور آفاقی معیار قائم کرنے میں مدد ملے گی، یہ میرے خیال میں فضول باتیں ہیں۔ مجھے کلاسیکی شاعری کیا ہر زمانے کی شاعری، اس زمانے کی شاعری بھی جب ماضی میں بہت شدید ردعمل ہوا تھا، یعنی آزاد اور حالی کا زمانہ ’19ویں صدی کے اواخر کا زمانہ‘ مجھے ان سب سے دلچسپی ہے۔ مجھے مزے دار لگتے ہیں بہت سے شاعر مثلاً جلال، امیر مینائی وغیرہ۔ اصغر، فانی، حسرت، جگر، یگانہ، فراق، یہ سب آگے پیچھے کے شاعر ہیں، یہ سبھی مجھے بہت اچھے لگتے ہیں۔ اسی لیے میں کسی کو ناپسند تو نہیں کرتا، لیکن میری اپنی پسند کے بھی شاید کچھ ضابطے ہوں گے۔! میں یہ سمجھتا ہوں کہ چاہے میں کسی بھی عہد کی شاعری پڑھ رہا ہوں اور وہ میرے دل کو لگ جاتی ہے، اور مجھے اپنے تجربے اور زندگی کا کوئی عکس وہاں مل جاتا ہے، تو مجھے اس سے دلچسپی پیدا ہوجاتی ہے۔ میں اس کے خلاف ہوں کہ کلاسیکی شاعری کے مطالعہ میں صرف کلاسیکی سطح پر معیار قائم کریں، جیسے ہمارے یہاں ایک زمانے میں صنائع بدائع کا، رعایت لفظی اور رعایت معنوی کارواج بہت رہا ہے۔ اس کے حساب سے لوگ شاعری کو جانچتے تھے۔ آج بھی جانچیں آپ، مجھے اس سے کوئی شکایت نہیں ہے، لیکن میں خود ایسا نہیں کروں گا کبھی۔ میں یہ دیکھوں گا کہ اس شاعر کے یہاں پرانے اصولوں کی پاسداری کے باوجود ہمارے لیے کیا ہے، یعنی ہمارے زمانے تک آتے آتے وہ شاعری اپنا کچھ رنگ و روغن کھوچکی ہے یا نہیں؟ تو میں اس طرح پڑھتا ہوں شاعری۔ میرے لیے ادب کو پڑھنا مشقت کا معاملہ نہیں ہے، ایک طرح کے ذہنی لطف کا اور کہنا یہ چاہیے کہ ایک وجدانی تربیت اس سے ہوتی ہے۔

    ثاقب فریدی: یہاں ایک سوال یہ قائم ہوتا ہے کہ کلاسیکی شاعری میں جسے ہم شعر بنانا اور رعایت لفظی کہتے ہیں، ان چیزوں کو آپ شاعری میں تلاش نہیں کرتے، پھر بھی ان کے ذریعے شعر میں ایک حسن پیداہوتا ہے اور شعر ہمیں اپنی طرف متوجہ کرتا ہے، اس حوالے سے آپ کا کیا خیال ہے؟

    شمیم حنفی: یقیناً لطف پیدا ہوتا ہے۔ مناسبات لفظی وغیرہ کا جیسے آپ یہ کرتے ہیں کہ اس لفظ کو صاحب کس طرح برتا گیا ہے اور اس سے کیا کیا گوشے نکلتے ہیں۔ میں اس طرح کے تجزیوں کا بہت دیر تک بوجھ نہیں اٹھاسکتا۔ میں نے عرض کیا کہ ادب سے میری دلچسپی صرف علمی نہیں ہے، میں نے ایک زمانے تک ادب کو اسی طرح سے پرھا جیسے کہ عموماً لوگ پڑھتے ہیں۔ کلاس روم میں جیسے میرے اساتذہ نے پڑھایا، وہ بہت اچھے لوگ تھے اور یہ ایسے زمانے کے لوگ تھے جنہیں ادب سے حقیقی دلچسپی تھی۔ جن اساتذہ سے میں نے ادب پڑھا ان میں احتشام صاحب، سرور صاحب، فراق صاحب خاص تھے۔ میں انگریزی اور اردو ادب کا طالب علم رہا، لیکن مجھے ان ہی اساتذہ سے دلچسپی پیدا ہوئی، جو ادب کو ایک ذوقی تجربہ سمجھ کر پڑھتے اور پڑھاتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب فراق صاحب کسی شعر پر گفتگو کرتے تھے تو مجھے زیادہ مزہ آتا تھا۔ بجائے اس کے کہ اس شعر کا تجزیہ ہمارے محققین یا علمائے ادب کس طرح کرتے ہیں، بہت خشک اور بے جان قسم کی تنقید مجھ سے بالکل نہیں چلتی۔ ظاہر ہے کہ تنقید کو کوئی تفریح کا ذریعہ نہیں ہے، علمی مشغلہ تو ہے ہی، نقاد بھی ایک طرح کا تربیت یافتہ قاری ہوتا ہے، یہ سب میں مانتا ہوں، لیکن نقادوں میں مجھے جو دلچسپی پیدا ہوئی اپنے ا ساتذہ میں، ان میں فراق صاحب اور سرور صاحب جب باتیں کرتے تھے تو مجھے زیادہ لطف آتا تھا۔ احتشام صاحب میرے باقاعدہ استاد رہے اور میری پی ایچ ڈی کے گائڈ بھی رہے۔ میں نے ان کے جیسا شفیق ا ستاد اور شریف انسان دنیا میں کم دیکھا ہے، لیکن بہرحال ادب کے معاملے میں ان کی جو ترجیحات تھی اس سے مجھے کچھ ناآسودگی ہوا کرتی تھی۔ ادب کو وہ صرف علمی مشغلہ بناکر باتیں کرتے تھے کہ اس کا کیا تعلق ہے تاریخ سے۔ ادب تھوڑا بہت تو ان چیزوں کا متحمل ہوتا ہے، لیکن بہت دور تک ان کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ ادب ایک پیرلل اور متوازی دنیا تعمیر کرتا ہے آپ کے لیے۔ ادب کو بالکل یہ سمجھ کر پڑھنا کہ جیسے نسخے مل جاتے ہیں ہمیں طب کی کتابوں میں، تنقید کی کتابوں میں کسی تجربے کو پرکھنے کے، تو میں اس کا قائل نہیں ہوں۔ اسی لیے میں اس بات کا بھی بہت قائل نہیں ہوں کہ استعارہ چونکہ تشبیہ سے بہتر ہے اس لیے جس نے تشبیہ استعمال کی اس کے مقابلے استعارہ استعمال کرنے والا شاعر بہتر ہوجائے گا، میں اس کو نہیں مانتا۔ ہمارے یہاں کالی داس کو ’اپما سمراٹ‘ کہا جاتا ہے۔ مشرق کی شاعری کا مزاج یہ رہا ہے کہ اس میں تشبیہیں اور قادرالکلامی اور اس طرح کے بہت سے اوصاف ہیں جن لوگوں کی مغربی تنقید کے ذریعہ ہی تربیت ہوئی ہے وہ اس کو زیادہ اہمیت نہیں دیں گے۔ میں اب بھی یہی سمجھتا ہوں کہ ہر ادب کو سمجھنے کے لیے اصول بھی اسی ادب کی روایت سے زیادہ ہم آہنگ ہونے چاہئیں۔

    ثاقب فریدی: جہاں تک رعایتوں اور مناسبتوں کی بات ہے، اس کے حسن کا اعتراف کر رہے ہیں، لیکن آپ عموماً گھنے اور گہرے تجربات کی بات کرتے ہیں، اٹھارہویں صدی کے شعراء خصوصاً میر اور سودا وغیرہ غزلوں میں ایک ایسا لفظ رکھ دیتے ہیں، جس سے معانی کی طرفیں کھلنے لگتی ہیں۔ جیسے میر کا شعر ہے ’’گلی میں اس کی گیا سوگیا نہ بولا پھر‘‘ یہاں ’گیا سوگیا‘ دو معانی کا متحمل ہے ’گیاسوگیا‘ کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ مستقل چلے جانا، کبھی نہ لوٹنا اور دوسرا معنی گلی میں جاکر سوجانا۔ کلاسیکی شاعری میں برتے گئے ان لفظوں کے متعلق آپ کیا سوچتے ہیں؟

    شمیم حنفی: اس طرح اگر آپ شعر کو یہ سمجھیں کہ شطرنج کی گوٹیاں رکھی ہوئی ہیں، یہ دونوں ایک جگہ کردی گئیں، تو اس سے لطف تو پیدا ہوتا ہے۔ ’گیا سو گیا‘ تو مجھے بھی اچھا لگتا ہے، لیکن یہ کہ خالی اسی کو اپنا مقصود سمجھ لینا، ہم اس کے لیے ادب کو نہیں پڑھتے بلکہ ہم ادب کو ایک وسیع تر تجربے کے دریافت کے لیے پڑھتے ہیں۔ مجھے اٹھارہویں صدی سے بہت دلچسپی ہے۔ میر اور سودا دونوں اتفاق سے میرے پسندیدہ شاعرہیں۔ مجھے سودا کے کلام میں بھی بہت لطف آتا ہے۔

    ثاقب فریدی: آپ نے میؔر اور سوؔدا سے قبل کے شاعر ولی پر بھی ایک مضمون لکھا ہے۔

    شمیم حنفی: ولی کے یہاں ظاہر ہے کہ اچھے اشعار کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے، یہ بھی ظاہر ہے کہ اٹھارہویں صدی کے اوائل میں ہی ولی کا انتقال ہوگیا تھا، سترہویں صدی تک ہمارے یہاں ادب کو پرکھنے کے جو معیار تھے، ولی کے یہاں ان کا عکس ہے، مجھے کوئی شعر اچھا لگتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ کسی اور کو کوئی دوسرا شعر اچھا لگتا ہو۔ ادب میں یہی تو اچھائی ہے کہ آپ کو اپنے مطلب کی چیز مل جاتی ہے اور ہر ایک کو اپنے مطلب کی چیز مل جاتی ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم آپ کے مطلب کی چیز کو ہی اپنے مطلب کی چیز بنالیں۔ دونوں پسند کرسکتے ہیں میر کو، لیکن میر کی پسندیدگی کے اسباب مختلف ہوسکتے ہیں۔

    ثاقب فریدی: میں نے آپ کو ایک طالب کی علم حیثیت سے پڑھا ہے۔ مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے کلاسیکی شاعری کا اپنی ترجیحات کے مطابق مطالعہ کیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ میں اپنے مطلب کی چیزیں اس میں دیکھتا ہوں، آپ نے ایک جگہ لکھا ہے ’’نقاد اپنے مطالعہ میں اولین حیثیت فن پارے کو دے اور فن پارے کے اندر چھپے ہوئے امکانات کی روشنی میں اپنی تنقیدی حس کو بروے کارلائے نہ یہ کہ اپنے نظریات یا تاثرات کا عکس فن پارے میں تلاش کرنے کی سعی کرے‘‘ اس تعلق سے آپ کیا کہیں گے؟

    شمیم حنفی: مجھے یاد نہیں ہے کہ میں نے اپنی تحریروں میں ایک دوسرے کی تردید کرنے والی باتیں بھی لکھی ہوں، لیکن یہ بھی تو ہوتا ہے کہ ایک وقت میں ایک موڈ ہوتا ہے اور دوسرے وقت میں دوسرا موڈ ہوتا ہے۔ یہ ہوسکتا ہے کہ اپنے ہی قائم کیے ہوئے اصول کو کسی وقت ہم مسترد کرسکتے ہیں، ایسا یقیناً ہوا ہوگا، لیکن میرا خیال یہ ہے کہ ادب کو محض لفظی بازی گری کا نمونہ سمجھ کر میں کبھی نہیں پڑھتا، یہ نہیں کہ الفاظ کے الٹ پھیر کا نام شاعری ہے، میری تلاش کچھ اور ہوتی ہے۔ کبھی کبھی تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ کسی شعر میں مجھے کیا بات پسند آتی ہے، اکثر وہ بات ہوتی ہے جس کا براہ راست کوئی بیان نہیں ہوتا۔ مجموعی طور پر تجربے کی ایک پرچھائیں جو پڑتی ہے، اس شعر میں اس کی دریافت کرلینا۔ کسی نے تنقید کے بارے میں کہا ہے کہ تنقید میں اکثر وہ چیزیں تلاش کی جاتی ہے جو غیرضروری ہوتی ہے اور وہ چیز جو تلاش کی جانی چاہیے، نقاد اس سے بے خبر رہتا ہے۔ اول تو یہ کہ میں نے شاعروں کے کلیات زیاد نہیں پڑھے ہیں، میں بالعموم انتخاب دیکھتا ہوں، اگر کسی سمجھ دار آدمی نے انتخاب کیا ہے، اگر میں صرف کلیات پڑھنے بیٹھوں تو پتہ نہیں اتنی دیر میں اور کیا کچھ پڑھ لوں گا؟ میں میر کو سمجھنے کے لیے ان کے پورے کلیات کی ورق گردانی نہیں کرتا، ان کے اشعار کا انتخاب بہت سے لوگوں نے کیا ہے، ظاہر ہے کہ مولوی عبدالحق کا انتخاب مجھے پسند نہیں، میر کے بہت سے اچھے شعر جو مجھے پسند ہیں، اس انتخاب میں نہیں ملتے۔ دشواری یہ ہے کہ جس ادبی اور شعری روایت کی تاریخ تین سو، ساڑھے تین سو سال پرانی ہو، اس میں یہ کوشش کرنا کہ ہم سب کچھ پڑھ ڈالیں، ممکن نہیں، یہ عالموں کا کام ہے، وہ کر رہے ہیں اور ہمیں ان کی خدمات کا اعتراف کرنا چاہیے، لیکن یہ میرے بس کی بات نہیں ہے۔

    ثاقب فریدی: آپ نے فرمایا کہ میں مکمل کلیات نہیں پڑھتا، کچھ اچھے لوگوں کے ا نتخاب ہیں وہ دیکھتا ہوں، تو کوئی ایک ایسا شاعر جس کی طرف آپ متوجہ ہوئے اور اس کی کلیات یا دیوان کا بالاستیعاب آپ نے مطالعہ کیا ہو؟

    شمیم حنفی: ہاں، ہوئے ہیں، کیوں نہیں ہوئے ہیں؟ مثلاً اقبال، ان کا فارسی اور اردو کلام میں نے پڑھا ہے، مجھ سے جہاں تک ہوسکا۔ میرے زمانے کے شاعروں میں راشد، فیض، میراجی گرچہ میراجی کا کلیات خاصا ضخیم ہے، انہوں نے بہت کچھ کہا ہے، گیتوں کی شکل میں اور نظموں کی شکل میں۔ سرور الہدیٰ نے مجھے ان کا دیوان دیا تھا، میں اسے وقتاً فوقتاً پلٹتا رہتا ہوں، کبھی کچھ گیت اور کبھی کچھ نظمیں پڑھتا ہوں۔ کچھ شعراء بلا شبہ ایسے رہے ہیں۔ ہمارے زمانے کے شاعروں میں ناصر کاظمی۔ میرے دوستوں میں بہت سے شعراء ءہیں جیسے احمد مشتاق ہیں، لیکن جو ظفراقبال کا کلیات ہے، وہ سارے کا ساراپڑھنے کی تاب مجھ میں نہیں ہے۔ گرچہ میں ان کا اور ان کی شاعری کا بڑا احترام بھی کرتاہوں، میرا خیال ہے کہ ان کے جیسا قادر الکلام شاعر ہمارے زمانے میں نہیں ہوا، لیکن ان کا کلیات پڑھ کر میں کیا کروں گا؟ یہ جو تماشے ہوتے ہیں لفظوں کے عجیب و غریب، اینڈی بینڈی ردیفیں اور دوراز کارقافیے ان سب کا تجربہ بہت اچھا سہی، جنہیں فرصت ہے کر رہے ہیں لیکن جتنے شعر وہ کہتے ہیں اتنا پرھنا میرے بس میں نہیں ہے۔ میں کبھی کبھی یہ دیکھتا ہوں کہ جس کا کلام آٹھ جلدوں میں چھپ رہا ہو، تو سب کچھ پڑھ لینا کہاں پڑھنا ممکن ہے؟ مجھے وہ شاعر زیادہ اچھے لگتے ہیں جنہوں نے کم کہا ہو اور جو ہمیشہ شعر احتیاط سے کہتے ہوں۔ فراق صاحب کا کلیات بھی میں نہیں پڑھ سکتا، گرچہ ان کا کلام میں نے پڑھا ہے۔ انہوں نے ایک زمانے میں یہ بات میرے سپرد کردی تھی کہ میں ان کی غزلوں کے الگ الگ مجموعے بنادوں، تقریبا چھ سو غزلیں تھیں۔ وہ چاہتے تھے کہ سو، سوا سو غزلیں ہرجلد میں آجائیں، اس وقت میں نے ان کا پورا کلام دیکھا۔ اس وقت میں الہ آباد میں تھا۔ کبھی کبھی ایسا ہوا کہ میں نے ان کی غزل پڑھنی شروع کی اور دوچار اشعار پڑھنے کے بعد میری طبیعت اکتاگئی اور میں نے اسے چھوڑ دیا۔ ان کے یہاں کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خراب غزل میں اچانک کچھ اچھے شعر نکل آتے ہیں۔ میں نے ادب کو اپنے طریقے سے پڑھا ہے۔ ہاں! یہ کوشش ضرور کی ہے کہ اپنی پوری روایت کو سمجھ سکوں۔ لیکن یہ کہ پوری روایت کا ہر لفظ میری نظر سے گزرجائے تو میں نے ایسی کوشش کبھی نہیں کی۔

    ثاقب فریدی: آپ نے فراق، ناصر کاظمی، احمد مشتاق اور میراجی وغیرہ کی بات کی۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے شعراء ءمیں کس شاعر کے کلام نے آپ کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔

    شمیم حنفی: غالب کے کلام میں اٹھارہ سو دو ہزار کے قریب اشعار ہیں، کسی بھی شخص کے لیے اسے پڑھ لینا بہت آسان کام ہے لیکن اب ان کے معاصرین میں آپ کہیں کہ آپ نے شاہ نصیر کا مکمل کلام پڑھا یا نہیں، ذوق کا پورا کلام پڑھا یا نہیں، تو میں نے ان کا پورا کلام نہیں پڑھا۔ مجھے اچھے لگتے ہیں ذوق، میں نے ان کے بارے میں ایک مضمون بھی لکھا ہے، ان کے مطلعے بہت پسند ہیں مجھے، لیکن سارا کلام میں نے نہیں پڑھا۔ ظاہر ہے کہ ان کی استطاعت بھی میں نہیں رکھتا۔ محمد حسین آزاد کو ذوق سے عقیدت تھی، آزاد نے جس طرح ان کے کلام کی حفاظت کی، لیکن خود محمد حسین آزاد کے بارے میں آپ سے یہ عرض کروں کہ گرچہ میں نے غور سے ان کی تحریریں پڑھی ہیں۔ ایک طرف تو ان کا وہ لیکچر ہے ’’نظم کلام موزوں کے باب میں خیالات‘‘ جہاں وہ یہ بتاتے ہیں، کہ کیا شاعری ہے اور کیا شاعری نہیں ہے۔ دوسری طرف ان کی چھوٹی سی کتاب ہے ’بیاض آزاد‘ جس میں انہوں نے اپنی پسند کے اشعار نقل کیے ہیں۔ میں نے یونہی ایک دن لیٹے لیٹے ان کی یہ کتاب پڑھ ڈالی۔ مجھے بڑی ہنسی آئی یہ پڑھ کر کہ جو زیادہ تر برے شعر تھے وہ انہوں نے اپنی بیاض میں نقل کر رکھے تھے۔ ان میں اس طرح کے اشعار زیادہ تھے جن میں اینڈی بینڈی ردیفیں تھیں جو بہت نامانوس ہیں، قوافی تھے جو بہت مشکل ہیں، سنگلاخ زمینوں میں اشعار تھے، مجھ سے اس طرح کی چیزیں دیر تک نہیں چلتیں۔

    ثاقب فریدی: میر اور سودا آپ کے پسندیدہ شاعر ہیں، ان پر آپ کے لکھے گئے مضامین میں نے پڑھے ہیں، تو میر کے مقابلے سودا کی غزل کا حصہ مختصر ہے، اسے باآسانی ایک نشست یا دونشست میں پڑھا جاسکتا ہے۔ اس کے تعلق سے آپ کا کیا خیال ہے؟

    شمیم حنفی: میرا خیال یہ ہے کہ بہت عمدہ ہیں وہ۔ جیسے میر کے اشعار ہیں جن میں غم کی اور اداسی کی کیفیت ملتی ہے، بے پناہ شعر ہیں ویسے اشعار اردو کے کسی شاعر نے نہیں کہے، لیکن سودا کے اشعار کا بھی کوئی جواب نہیں ہے او رمیرا اپنا خیال یہ ہے کہ سودا کے مراثی میں جتنی اثرانگیزی ہے اور وہ ہماری طبیعت پر جس طرح حاوی ہوجاتے ہیں، میر کے مراثی اس طریقے سے اثرانداز نہیں ہوتے۔ سودا کے غزلوں کے اگر منتخب اشعار آپ پڑھیں تو واقعہ یہ ہے کہ ایسے اشعار میر کے ہم پایہ ہی ملیں گے۔ اٹھارہویں صدی کے شعراء میں میر او رسودا ہی کیا دیگر شعراء کے یہاں بھی بہت اچھے اشعار ہیں، مثلاً میر حسن، نظیراکبرآبادی کی غزلوں کے اشعار آپ دیکھیں تو یہ خیال بھی آتا ہے کہ نظیر کو ہمارے یہاں غور سے نہیں پڑھا گیا۔ اصل میں جب آپ کوئی کتاب پڑھتے ہیں تو یہ خیال غالباً ’عذراپاؤنڈ‘ کا ہے، جب ہم کوئی کتاب پڑھتے ہیں تو وہ کتاب بھی ہم کو پڑھ رہی ہوتی ہے۔ ایک طریقے سے وہ بھی ہمارا امتحان لیتی ہے کہ ہمیں کس طرح پڑھا جارہا ہے۔ میں تو سرسری گزر جاتا ہوں بعض کتابوں سے، اس کا حاصل کیا ہے، اس تک رسائی کی کوشش کرتا ہوں۔ اس شاعر کے یہاں بنیادی خوبی کیا ہے، اس کے مرکزی مسائل کیا ہیں، تو مجھے کبھی ناکامیابی نہیں ہوئی شاید اس عمل میں۔ میرے فیصلے جو رہے، وہ کسی کے لیے صحیح ہوں یا نہ ہوں، لیکن میرے لیے بہرحال صحیح تھے۔ بعد میں جب میں نے بہت توجہ سے وہ چیز پڑھی تو مجھے خیال آیا کہ جس نتیجے تک پہنچا تھا وہ غلط نہیں تھے، تو سودا کے اشعار بھی بہت عمدہ ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ اٹھارہویں صدی کے تمام شعراء خواجہ میردرد کا کلام بھی ہرلحاظ سے قابل توجہ ہے۔ حتی کہ میر سوز کے کلام میں بھی آپ کو ایسے ایسے شعر ملیں گے جو آپ کو حیران کردیں گے، بہت سے اشعار مجھے یاد ہیں جو میں دوستوں کو سناتا بھی ہوں، ان کے یہاں بھی اعلیٰ درجے کے اشعار مل جائیں گے۔ ان لوگوں نے جب کوئی شعر کہا ہوگا تو یہ سوچ کر تھوڑی کہ وہ کوئی خاص ترکیب باندھ رہے ہیں، کبھی اسی وجہ سے اس میں لطف بھی پیدا ہوگیا مگر میں نے کبھی اٹھارہویں صدی کا کلام اٹھارہویں صدی میں داخل ہوکر پڑھنے کی کوشش نہیں کی، میری صدی سے میرا رشتہ اٹوٹ ہے بالکل، میں اپنے زمانے کے مذاق و معیار کے اعتبار سے پرانا کلام بھی پڑھتا ہوں کہ وہ آج میرے لیے کیا معنی رکھتا ہے، اس لیے سودا اور میر مجھے دونوں اچھے لگتے ہیں، اس زمانے کے دوسرے غزل گو بھی مثلاً مصحفی مجھے بہت اچھے لگتے ہیں۔

    ثاقب فریدی: کلاسیکی شاعری کے تعلق سے آپ کی اور شمس الرحمن فاروقی کی ترجیحات بہت مختلف ہیں۔ فاروقی صاحب ہمارے عہد کے بڑے نقاد ہیں انہوں نے کلاسیکی شاعری کی شعریات مرتب کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اس شعریات کو سمجھے بغیر کلاسیکی شاعری کو سمجھا ہی نہیں جاسکتا۔ اس تعلق سے آپ کیا کہنا چاہیں گے؟

    شمیم حنفی: فاروقی صاحب ہمارے سب سے ممتازنقادوں میں ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس وقت جتنے لوگ تنقید لکھ رہے ہیں، ان میں وہ سب سے بڑے اسکالر ہیں۔ فاروقی صاحب نے فارسی بھی خوب پڑھی ہے، انگریزی ادب بھی خوب پڑھا ہے، وہ مشرق کی دوسری زبانوں کے ادب سے بھی واقف ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے ک انہوں نے میر تقی میر کو خاص طور پربہت توجہ کے ساتھ پڑھا ہے، لیکن یہ کہ بہت سارے شعر جو فاروقی صاحب کو پسند آئے ہیں، اپنی لفظی رعایت اور معنوی رعایت کے وجہ سے، اور اس طرح کی دوسری خوبیوں کی وجہ سے جو کلاسیکی شعریات میں بہت اہمیت رکھتی ہیں، مجھے ایسے کئی شعر بہت اچھے نہیں لگتے۔ کبھی کبھی مجھے خیال آتا ہے کہ انہیں برے شعراءتنے کیوں پسند آتے ہیں۔ مجھے بھی یاد ہیں بہت سے ایسے شعر۔ شاید اسی لیے کبھی کبھی وہ ناسخ کو آتش کے مقابلے میں ترجیح دیتے ہیں۔ میں خود ناسخ کی استادی کا بہت قائل ہوں، بہت ذی علم آدمی تھے، ناسخ کے تعلق سے ایک مرتبہ زہر انگاہ نے کہا تھا کہ ناسخ کے کلام میں ایسے اشعار بھی شامل ہیں، جنہیں پڑھا جائے تو حیرت ہوتی ہے، اور بہت سے اچھے اشعار بھی مل جائیں گے ان کے یہاں، لیکن میری ترجیح ہمیشہ آتش ہی رہتے ہیں ناسخ کے مقابلے میں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ آتش کے یہاں وہ شعر بغیر ڈھونڈے مل جاتے ہیں جب کہ ناسخ کے یہاں ڈھونڈنے پڑتے ہیں۔ توفاروقی صاحب کانقطۂ نظر بالکل دوسرا ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔ لیکن یہ ہے کہ فاروقی صاحب کو جن اسباب کے بنا پر کوئی شعر اچھا لگتا ہے، کبھی کبھی، مجھے ان اسباب سے زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی۔ میں تو صرف یہ دیکھتا ہوں کہ جو تجربہ بیان کیا گیا ہے، اس تجربے کا میرے اپنے تجربے، میری اپنی زندگی سے کوئی تعلق بنتا ہے یا نہیں۔ مان لیجیے کہ جیمس واٹ نے اس زمانے میں کوئی انجمن بنالیا تھا۔ بے شک بڑی بات ہے مگر آج کے زمانے میں تو وہ کام نہیں آئے گا۔ اس کی ترکیب اور ساخت کیا ہے، اس کا نسخہ کیا ہے، اس میں اب مجھے دلچسپی نہیں ہے۔ میں تو صرف یہ دیکھتا ہوں کہ چیزیں ترقی کرتی جاتی ہیں، ہمارے زمانے تک آتے آتے شعریات کے ضابطے مختلف کیوں ہوتے گئے۔ ہمارے عہد کے شعراء نے ان باتو ں کی طرف توجہ کیوں کم کردی، تو یہ باتیں میرے لیے بہت اہمیت رکھتی ہیں۔

    ثاقب فریدی: شمس الرحمن فاروقی نے جو اس طرف توجہ دی ہے کہ کلاسیکی شاعری کو اس کی شعریات کے بغیر سمجھا ہی نہیں جاسکتا، تو طالب علموں کو اسے کس طور پر دیکھنا چاہیے؟

    شمیم حنفی: ایک تو یہ کہ سارے طالب علم ایک جیسے نہیں ہوتے، سب آپ کی طرح تو نہیں ہوتے۔ بہت سے طالب علموں کو اس سے دلچسپی نہیں ہوگی کہ وہ شعریات کے ضابطوں کو، اصولوں کو پوری طرح سمجھنے کی کوشش کریں اور سمجھیں۔ ایک خرابی ہم نے یہ دیکھی کہ جن طالب علموں کے پڑھنے کی دلچسپی پرانی شعریات ہو جاتی ہے وہ نئے زمانے کے کلام کو پڑھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ مثلاً فیض، اخترالایمان، راشد، میراجی ہیں، ان میں ان کی دلچسپی کم ہوجاتی ہے۔ یہ نہیں ہونا چاہیے، یہ تو بہت بری بات ہے۔ خاص طور پر کہ اس لیے کہ اگر کوئی ادب کو اپنا پیشہ بناناچاہتا ہے تو پڑھانے کے لیے ہمیں ہرعہد سے واقفیت ہونی چاہیے، میں نے چالیس پچاس سال اسی مشغلے میں گزارے ہیں۔ لیکن بہرحال میں جب پڑھتا تھا اور پڑھاتا تھا جب بھی، میں کبھی یہ نہیں کہتا تھا طالب علموں سے کہ یہ نہیں پڑھنا چاہیے۔ ہر طالب علم کی اپنی مرضی ہوتی ہے۔ میں نے جس دلچسپی سے غالب کو پڑھایا، ناسخ کو میں نہیں پڑھا سکتا تھا۔ اس کے الگ الگ اسباب ہوتے ہیں۔ فاروقی صاحب کا معاملہ یہ ہے کہ وہ بڑے ذی علم آدمی ہیں، لیکن ان کی توجہ ان چیزوں کی طرف زیادہ ہوگئی ہے اب۔ بہت سی چیزیں اس میں ایسی ہوتی ہیں کہ آج کا انسان انہیں نظرانداز کرجاتا ہے۔ آج کے شاعروں میں راشد، فیض، میراجی، اخترالایمان کے علاوہ مجید ا مجد کو تو سبھی پڑھتے ہیں، لیکن مجھے ان کے علاوہ دوسرے شعراء میں بھی دلچسپی ہے۔ جیسے مختار صدیقی اور محمد صفدر وغیرہ بھی مجھے پسند آتے ہیں۔ ضیاجالندھری کی کچھ نظمیں، یوسف ظفر کی بہت سی چیزیں اچھی لگتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آدمی کیا کیا پڑھے؟ فاروقی صاحب کامعاملہ یہ ہے کہ وہ صبح سے شام تک پڑھنے کے عادی ہیں۔ مجھے کچھ اور مشغلوں سے بھی دلچسپی ہے، وہ بے حد پرھتے ہیں، میں اتنا نہیں پڑھتا ہوں۔ مجھے احساس ہے کہ ان کے جیسا عالم فاضل کوئی دوسرا نقاد میرے زمانے میں نہیں ہے۔ علم و فضل کی اس منزل تک پہنچنا میرا مقصد کبھی نہیں رہا اور مجھے اپنی کوتاہیاں بھی معلوم ہیں۔ اب اسی وقت میں آپ سے باتیں کر رہاہوں اور موسیقی بھی سن رہا ہوں۔ تو یہ سب بھی چلتا رہتا ہے، مجھے دلچسپیاں بہت ساری چیزوں سے ہیں، فاروقی صاحب سے تو کسی کا موازنہ کرنا ہی نہیں چاہیے۔ میں نے کیا کہا اور انہوں نے کیا کہا، اس پر بحث نہیں ہونی چاہیے۔ میں ان سے بڑی محبت کرتا ہوں۔ ظاہر ہے کہ ان سے مجھے غیرمعمولی ارادت ہے اور وہ میرے بزرگ بھی ہیں۔ مجھے ان کی تحریریں بہت پسند ہیں۔ مجھے ان کی تحریروں میں زیادہ مزہ اس لیے آتا ہے کہ ان کی تحریریں صاف و شفاف بہت ہیں۔ ان کی نثر مجھے بہت پسند ہے، تنقید میں جس طرح کی نثر انہوں نے لکھی، وہ بے مثال ہے۔ ہمارے زمانے کے کسی اور نقاد نے شایداس طرح نہیں لکھا۔ فاروقی صاحب کا ذہن بہت شفاف ہے اور ان پر چیزیں اتنی واضح ہوتی ہیں، وہ وضاحت میں جن چیزوں تک پہنچتے ہیں، مثلاً میر کے بہت سے شعر ہیں، جنہیں پڑھ کر میں سرسری گزر جاتا ہوں، لیکن کبھی وہ پڑھتے اور سناتے ہیں تو میں بعد میں سوچتا ہوں کہ اس شعر پر انہوں نے اتنا وقت کیوں ضائع کیا۔ لیکن بہت سے اور شعر ایسے بھی ہیں جن کو بے شک زیادہ دلجمعی کے ساتھ پڑھنا چاہیے۔

    ثاقب فریدی: فاروقی صاحب کے تعلق سے گفتگو کرتے ہوئے آپ نے ناسخ کا نام لیا ہے، مجھے یہ لگتا ہے کہ آپ نے ولی، میر، سودا، درد، غالب، مصحفی، قائم وغیرہ پر مضامین لکھے ہیں، آپ نے اپنے مضامین میں کہیں کہیں تو ناسخ پہ گفتگو کی ہے لیکن ناسخ پر کوئی باضابطہ مضمون نہیں لکھا۔

    شمیم حنفی: ناسخ پر لکھنے کے لیے جس طرح ان کو پڑھنا چاہیے، اس طرح میں نے ان کو نہیں پڑھا۔

    ثاقب فریدی: آپ نے یہ فرمایا کہ ناسخ کے یہاں بھی کچھ ایسے اشعار مل جاتے ہیں جو تجربے اور احساس کی سطح پر آپ کو متاثر کرتے ہیں؟

    شمیم حنفی: یقیناً، یقیناً ہیں، جیسا میں نے عرض کیا کہ کراچی میں ہم لوگ زہرا آپا کے یہاں بیٹھے ہوئے تھے، وہاں اتفاق سے ناسخ کا ذکر ہوا، وہ بہت اچھی گفتگو کرتی ہیں، ان کو بھی کلاسیکی شعراء ءسے بہت دلچسپی ہے۔ انہوں نے اپنی ایک بیاض بنارکھی ہے، جس میں اچھے اشعار نوٹ کرتی رہتی ہیں۔ تو پتہ نہیں کیا بات ہوئی جو انہوں نے کہا کہ میں نے ناسخ کے کچھ اشعار نقل کر رکھے ہیں۔ صاحب یقین نہیں آتا کہ یہ اشعار ناسخ کے ہیں، انہوں نے کہا کہ نہیں نہیں، بہت سے ایسے اشعار ناسخ کے کلام میں موجود ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں، اتنا صبر و ضبط مجھ میں نہیں ہے۔ کسی استاد کے لیے جس نے ادب پڑھانے کا مشغلہ اختیار کر رکھا ہے، یہ کہنا اچھی بات نہیں ہے، بہرحال مجھے اپنے زمانے سے زیادہ دلچسپی رہی، اس لیے میں نے غالب یا ان کے بعد کا زمانہ زیادہ دلچسپی کے ساتھ پڑھا ہے۔ ناسخ پر نہ لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ مجھے ان کے رویوں سے دلچسپی کم ہے۔ ناسخ کے کلام کو پڑھنے کے لیے مجھے جتنی مشقت کرنی پڑتی، مناسبات لفظی اور رعایات لفظی کو سمجھنے کے لیے جو توجہ کرنی پڑتی، جتناارتکاز اور concentrate کرنا پڑتا، وہ میں نہیں کرسکتا تھا۔۔۔

    ثاقب فریدی: ناسخ کے تعلق سے آپ نے ایک جگہ مضمون میں لکھا ہے کہ ناسخ ہماری شعری تاریخ کے معمار تو ہیں لیکن شعری روایت کے معمار نہیں ہیں، تو سوال یہ ہے کہ وہ کیا چیز ہے جو شعری تاریخ کے معمار ہونے اور شعری روایت کے معمار ہونے کے درمیان حائل ہے؟

    شمیم حنفی: میں جس روایت کو اپنے لیے روشنی کا ذخیرہ بناتا ہوں اور سمجھتا ہوں، اس روایت میں ناسخ تو نہیں ہاں آتش شامل ہیں، اس لیے کہ میں تو یہ دیکھتا ہوں کہ (خلیل صاحب کی ایک چھوٹی سی کتاب مقدمہ ملام آتش ہے) مجھے بہت پسند آئی تھی وہ کتاب۔ آتش کی زندگی اور ان کی شاعری دونوں سے مجھے بہت دلچسپی رہی ہے۔ ناسخ کے بارے میں یہ سب پڑھتا ہوں تو بے شک لطف آتا ہے، کہ وہ پہلوان تھے اور اتنی بیٹھکیں لگاتے تھے اور خوش خور بہت تھے اور اتنا کھانا کھاجاتے تھے، وغیرہ وغیرہ۔ آب حیات میں تفصیل سے ذکر ہے کہ سرمنڈا رکھتے تھے، کھلی چارپائی پر بیٹھتے تھے حقہ لیے ہوئے، مگر پہلوانی اور کسرت اگر شاعری میں کی جائے تو بہت سے مضحکہ خیز شعر بھی ملتے ہیں ناسخ کے یہاں۔

    لڑتے ہیں پریوں سے کشتی، پہلوان عشق ہیں

    ہم کو ناسخ راجا اندر کا اکھاڑہ چاہیے

    یہ غزل تو آپ کو پوری یاد ہوگی۔ جس میں اس طرح کے شعر ہیں کہ

    انتہائے لاغری سے جب نظر آیا نہ میں

    ہنس کے وہ کہنے لگے بستر کو جھاڑا چاہیے

    تو سن کر لطف تو مجھے بھی آتا ہے لیکن میں کسی استاد کا کلام اس لیے نہیں پڑھوں گا کہ مجھے اس طرح کے شعر مل جائیں۔ میری تلاش کچھ اور ہوتی ہے۔ روایت الگ چیز ہوتی ہے اور تاریخ الگ چیز۔ شعری تاریخ میں دوئم درجے کے سارے شعراء شامل ہوتے ہیں، لیکن روایت کی تعمیر میں شامل نہیں ہوتے۔ مثلاً نئی شاعری کی روایت اور نئی غزل کی روایت میں، میں یگانہ کو، فراق کو تو شامل کروں گا۔ ان میں حسرت، اصغر، جگر، فانی، عزیز، صفی، ثاقب، سیماب ان لوگوں کو شایدنہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ روایت وہ چیز ہوتی ہے، جو رگوں میں خون بن کر دوڑتی ہے۔

    ثاقب فریدی: نئی غزل کی روایت کے تعلق سے آپ تنقید میں یگانہ اور فراق سے قبل شاد کا ذکر کرتے ہیں۔ آپ نے ایک جگہ لکھا بھی ہے کہ ’’اردو کی نئی غزل تک حسیت کے ایک نئے طور اور تخلیقیت کا یہ رمز یگانہ اور فراق کے واسطے سے پہنچا تھا۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ نئی غزل کے ان اولین معماروں سے پہلے شاد کی غزل اس طرح کی سرگرمی کے لیے زمین ہموار کرچکی تھی‘‘ یعنی یگانہ اور فراق نے جو روشنی جلائی، شاد عظیم آبادی اسے پہلے ہی روشن کرچکے تھے۔

    شمیم حنفی: شاد کی غزلیں مجھے اسی لیے اچھی لگیں۔ یہ بھی وہی زمانہ ہے جو فانی وغیرہ کا ہے۔ لیکن یہ کہ تاریخ روایت سے الگ ہے۔ تاریخ تو وہ سب کچھ ہے جو ہوچکا ہے اس سے پہلے۔ لیکن روایت وہ ہے جو آج بھی ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔ تاریخ ہمیشہ ہمارے سامنے ایک زندہ تجربے کی طرح نہیں آتی، روایت کو ہم آج کے ساتھ رکھ کر دیکھ سکتے ہیں۔

    ثاقب فریدی: ناسخ کے تعلق سے فاروقی صاحب نے یہ بات کہی ہے کہ جس نے ناسخ کو نہیں پڑھا، وہ کلاسیکی شاعری کو سمجھ ہی نہیں سکتا۔ اس تعلق سے آپ کی کیا رائے ہے؟

    شمیم حنفی: ہوسکتا ہے کہ یہ بات صحیح ہو اور مجھے دعویٰ نہیں ہے کہ میں کلاسیکی شاعری کو سمجھ رہا ہوں۔ ممکن ہے فاروقی صاحب کا یہ خیال درست ہو، لیکن کلاسیکی شاعری میں میرے لیے کیاباتیں سمجھنے کی ہیں وہ میں جانتا ہوں۔ ہر ایک کے سمجھنے کے لیے وہ باتیں ہوسکتا ہے کہ نہ ہوں یا یوں کہنا چاہیے کہ کلیم الدین صاحب کیا تلاش کرتے تھے اور سرور صاحب اور احتشام صاحب کی کیا تلاش تھی۔ یہ ایک ہی زمانے کے لوگ ہیں مگر کتنے مختلف ہیں۔ فاروقی صاحب کی جو تلاش ہوتی ہے کلاسیکی شاعری میں، جس طرح کے محاسن وہ تلاش کرتے ہیں، مثال کے طور پر ’غزل کے اہم موڑ‘ جیسی کتاب بہت عمدہ ہے۔ وہ بہت اعلیٰ درجے کا لکچر ہے، جو انہوں نے غالب ا کیڈمی میں دیا تھا۔ لیکن یہ کہ جن چیزوں کو انہوں نے اپنا مقصود بنایا ہے، میری نظر میں وہ نہیں ٹھہرتے۔ میرے مقاصد کچھ اور ہیں۔ میں اپنی تاریخ میں بھی کچھ اور ڈھونڈتا ہوں۔ تاریخ میں میں اپنی روایت کو ڈھونڈتا ہوں۔ میری روایت مجھے ہرجگہ نہیں ملتی۔ تاریخ میں تو سب کچھ موجود ہے۔ دوئم درجے کے شعراء بھی ہر زمانے میں ہوتے ہیں۔ میر، سودا اور مصحفی کے زمانے میں کتنے ہی شعراء تھے جن کی میں بات کر رہا ہوں یا کرنا چاہوں گا، ظاہر ہے کہ اس وقت ہزاروں شعراء رہے ہوں گے۔ مؤرخ جوہوگا اس زمانے کا، اس کو تو واقف ہونا چاہیے۔ عالم جو ہے اس کی نظر اس پر ہونی چاہیے۔ آپ دیکھیں گے کہ میں نے کبھی ایسے شعراء کو اپنا حوالہ نہیں بنایا جو ہمارے زمانے کے لیے کوئی اہمیت نہ رکھتے ہوں۔ مجھے اب بھی وہی شعراء پسند آتے ہیں جو آج بھی نئے نظر آئیں۔ اکا دکا شعر تو ہر کسی کے یہاں مل جاتے ہیں۔ بار بار آپ میرے اور فاروقی صاحب کے درمیان موازنہ کیوں کرتے ہیں۔ میں نے کہانا کہ فاروقی صاحب کا علم و فضل بہت وسیع ہے، اس کے سامنے میں کہیں کھڑا نہیں ہوسکتا۔ ان کے مقاصد دوسرے ہیں اور میرے دوسرے۔

    ثاقب فریدی: آپ اپنی تحریروں میں گھنے اور گہرے تجربے کی بات کرتے ہیں اور استعارے کا لفظ آپ نے کم کم استعمال کیا ہے تو کیا استعارے کے بغیرکوئی شاعری گہرے اور گھنے تجربے کی حامل ہوسکتی ہے؟

    شمیم حنفی: کبھی کبھی پورا شعر ہی استعارہ بن جاتا ہے۔ اور جہاں تک استعارے کاتعلق ہے، شاعری میں، میں اس کے خلاف ہوں کہ آپ کسی چیز کو ایک لازمی عنصر قرار دیں یا لازمی وصف بنالیں۔ میرا خیال ہے کہ بڑا شاعر ایسا بھی پیدا ہوتا ہے، جس چیز کو آپ لازمی قرار دے رہے ہیں، اس کو ٹھکراکر آگے بڑھ جاتا ہے۔ تو مجھے تو اچھی تشبیہیں بھی پسند آتی ہیں۔ جیسے جوش صاحب کو ہمارے زمانے کے بہت سے نقادوں نے ناپسند کیا، لیکن میں انہیں ناپسند نہیں کرتا۔ وہ مجھے پسند ہیں۔ میں یہ تو نہیں کہوں گاکہ میرے پسندیدہ شاعروں میں ہیں۔ ان کی بہت سے نظمیں مجھے اچھی لگتی ہیں۔ میرا اب بھی خیال ہے کہ ان کی طنزیہ اور محاکاتی اور منظریہ شاعری کاکوئی جواب ان کے عہد میں نہیں ملتا۔ ان کی جیسی رباعیاں ان کے زمانے میں نہیں ملتیں۔

    ثاقب فریدی: جوش کے یہاں نقادوں کو ایک تکرار سی نظر آتی ہے، وہ ایک بات کو مختلف طور سے بیان کرتے ہیں۔ بار بار ایک ہی خیال لفظوں کی تبدیلی کے ساتھ ان کی شاعری میں آجاتا ہے۔

    شمیم حنفی: انیس نے بھی کہا ہے،

    گلدستۂ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں

    اک پھول کا مضمون ہو تو سورنگ سے باندھوں

    ایک رنگ کے مضمون کو سورنگ سے باندھنا قادرالکلامی ہے۔ اس کی تعریفیں ہمارے یہاں لوگوں نے کی ہیں۔ اس سے ان کی استادی کاپتہ چلتا ہے۔ مجھے ان کے بہت سے اشعار یاد ہیں جو انہوں نے فی البدیہہ کہے ہیں کسی واقعہ پر۔ جہاں تک استعارے کی بات ہے کہ بہت سے لوگ استعارے کا استعمال نہیں کرتے ہیں۔ نیر مسعود اپنی کہانیوں میں استعارے کا استعمال نہیں کرتے۔ لیکن اس کے باوجودکیا معرکے کی نثر اس شخص نے لکھی ہے۔ نیر مسعود کے افسانوں میں کامیابی کا سب سے براوسیلہ ان کی نثر ہے۔ دیکھیے ہمارے زمانے میں فکشن لکھنے والوں نے ویسی نثر نہیں لکھی، یا تو وہ نثر لکھی گئی جو افسانے کے علاوہ کسی اور صنف کے لیے مناسب ہے۔ اس لیے آپ استعارے کو لازمہ کیوں قرار دیتے ہیں؟ استعارے کا استعمال کیے بغیر بھی شاعری کی جاسکتی ہے۔ کسی شعر میں امیج ہوتی ہے، اسے لوگ استعارہ سمجھ لیتے ہیں، استعارے کو لازمہ بنانا اور یہ سمجھنا کہ تشبیہ استعمال کرنا ایک دوئم درجے کا کام ہے، یہ رویہ ٹھیک نہیں ہے۔ جوش نے بہت عمدہ تشبیہیں استعمال کی ہیں، کبھی پڑھیے تو اچھی لگتی ہیں۔ جیسے ان کی نظم ’کسان‘ ہے۔ میری دلچسپی خالی خولی استعارے میں نہیں ہوتی بلکہ اس حقیقت میں ہوتی ہے کہ کوئی شعر مجھے کیوں اچھالگا۔ اگرچہ اس میں استعارہ نہ ہو، اس کے باوجود وہ مجھے اچھا لگا۔

    ثاقب فریدی: آپ نے یہ بات بھی کہی ہے کہ کہیں کہیں پورا شعر استعارہ بن جاتا ہے، لیکن مجموعی طور پر آپ کو وہی شاعری زیادہ اپیل کرتی ہے جو گھنے اور گہرے تجربوں کے متحمل ہوتی ہے۔

    شمیم حنفی: میں نے ادب کوانسانی تجربوں کی دستاویز سمجھ کر پڑھا ہے۔ میں نے لسانی کرتب بازی اور مناسبات اور رعایتیں، صرف ان کی دریافت کے لیے نہیں پڑھا۔ اس لیے میری نظر ان چیزوں سے گزرتی چلی جاتی ہے۔

    ثاقب فریدی: نظیر اکبرآبادی کے لیے آپ نے ’شہر سخن‘ میں ’عجوبہ مکان‘ جیسا عنوان قائم کیا ہے، تو کیا یہ عجوبہ مکان گھنے اور گہرے تجربے کا بوجھ اٹھاسکتا ہے؟

    شمیم حنفی: اول تو یہ لفظ بھی انہی کے ہیں اور عجوبہ مکان انہیں کی ترکیب ہے۔ میری نظر سے کہیں گزری تھی تو میں نے اسی کو مضمون کا عنوان بنادیا۔ ان کی شاعری اپنے زمانے کے اعتبار سے بہت مختلف تھی۔ شہر سخن میں ایک ایسا مکان جس میں بہت تراش خراش نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود نظیر کو بڑا شاعر سمجھتا ہوں۔ اور اب بھی میرا خیال ہے کہ نظیر اکبرآبادی کی شاعری کو بہت توجہ سے پڑھنے کی ضرورت ہے، اپنے زمانے کے شعراء میں۔ اٹھارہویں صدی میں دیکھیے کیسے کیسے باکمال شعراء پیدا ہوئے۔ میر حسن، میر تقی میر، سودا، خواجہ میر درد، آپ دیکھیں تمام بڑے شاعروں کاجم گھٹ ہے۔ اس میں ایک شاعر جو ادبی مرکز میں پیدا نہیں ہوا، وہ آگرہ میں اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گزارتا ہے۔ وہاں کی ثقافت اور زندگی بڑی مختلف تھی، دلی اور لکھنؤ کی زندگی سے، لیکن اس کے باوجود اس کی نظمیں مجھے بہت اچھی لگتی ہیں۔ میں تو اس کی ساری نظمیں ’بنجارہ نامہ‘ سے لے کر ’آدمی نامہ‘ اور ’روٹی‘ وغیرہ سب مجھے بہت پرلطف لگتی ہیں۔ مجھے لطف بہت آتا ہے نظیر کو پڑھنے میں۔ ’عجوبہ‘ میں نے اسی لیے کہا ہے کہ اس کے یہاں عظمت کے وہ آثار تو نہیں ملتے جو میر یا غالب کے ہاں ملتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ بڑا شاعر ہے، اس مضمون میں میں نے یہی بتانے کی کوشش کی ہے۔

    ثاقب فریدی: ’چہار سو‘ (راولپنڈی، پاکستان) مئی، جون ۲۰۱۷ کے شمارے میں ’قرطاس اعزاز‘ کے عنوان سے جو گوشہ آپ پر شائع ہوا ہے، اس میں خالد جاوید صاحب کا ایک مضمون ’اردو شاعری کا آؤٹ سائیڈر‘ اور سرورالہدی صاحب کا ایک مضمون ’’تنقید کا تخلیقی آہنگ‘ کے عنوان سے ہے۔ آپ کی تنقیدی زبان کو تخلیق کے زمرے میں رکھ کر دیکھا جاتا ہے۔ اس تعلق سے آپ کیا کہنا چاہیں گے؟

    شمیم حنفی: یہ دونوں مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں تو انہیں کوئی خوبی میری یہاں تلاش کرنی ہی تھی، سو انہوں نے اپنے طور پر کی، سرورالہدیٰ نے بھی اور خالد جاوید نے بھی۔ ان دونوں سے میں بھی بہت تعلق رکھتا ہوں۔ تخلیقی انداز آنا تنقید میں، میں اسے کوئی برا نہیں سمجھتا۔ میرا خیال ہے ک ادب کی تنقید کواس زبان میں لکھنا، جس میں قاضی عبدالودود صاحب اپنے مضامین لکھا کرتے تھے، آپ کہاں تک حساب رکھیں گے ان چیزوں کا؟ ظاہر ہے کہ اس کی زبان افسانے اور ناول کی زبان بھی نہیں ہونی چاہیے۔ یہ ہونا چاہیے کہ آپ کے وجدانی تجربے کے بیان کے لیے جس طرح کی زبان درکار ہوتی ہے، وہ ہونی چاہیے۔ مجھے شاید اسی لیے عسکری صاحب کے معاصرین میں عسکری صاحب اچھے لگتے ہیں۔ وہ زبان جو لکھتے ہیں، وہ میرے دل کو لگتی ہے۔ کلیم الدین صاحب ظاہر ہے کہ بہت صاف گوئی کے ساتھ اپنی بات کہتے ہیں، ان کے یہاں لفظوں کی فضول خرچی نہیں ملتی، لفاظی اور مبالغہ نہیں ہے، یہ سب ان کے اوصاف ہیں، یہ ساری خوبیاں ان کی مجھے اچھی لگتی ہیں، لیکن یہ کہ حالی کی شخصیت ادنیٰ، مزاج اوسط، فہم وادراک معمولی، میں اس طرح سے نہیں لکھ سکتا۔ ادب کو پڑھنے کا تجربہ ایسا ہونا چاہیے جیسے آپ کسی اچھے منظر کو دیکھ رہے ہوں۔ اچھے شعر کو سمجھنے کا تجربہ بھی ویسا ہی ہوتا ہے۔ جیسے ابھی یہ relaxing music جو ہم سن رہے ہیں، جواس وقت جاری ہے، یہ آپ کے اعصاب کو سکون دینے والی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کو پڑھنے کے بعد یہ کہا جائے کہ اس میں فلاں راگ کی چھوٹ پڑ رہی ہے، میں یہ سب جانتا بھی نہیں ہوں، بہت سی باتیں۔ اگر مجھ پر یہ الزام ہے تو میں اس الزام کو قبول کرتا ہوں۔

    ثاقب فریدی: میں نے ’آخری پہر کی دستک‘ پڑھی ہے۔ اس پر میں نے ایک مضمون بھی لکھا تھا جو ’’اردو ادب‘‘ اپریل، مئی، جون ۲۰۱۷ کے شمارے میں شائع ہوا، اس مطالعہ کے دوران مجھے آپ کی غزلوں اور زیب غوری کی غزلوں میں بہت مماثلت نظر آئی۔ کیا آپ نے بھی یہ مماثلت محسوس کی ہے؟

    شمیم حنفی: زیب بہت اچھے شاعر تھے۔ ظاہر ہے کہ کوئی موازنہ نہیں کرناچاہیے میرا اور ان کا، اس لیے کہ وہ بہت اچھے شاعر تھے۔ مجھے ان کا کلام پسند ہے، لیکن ایک بات جو ان میں اور مجھ میں مشترک ہے، وہ یہ ہے کہ مصوری کی اصطلاحوں سے ان کو بھی بہت دلچسپی تھی اور مجھے بھی ہے، مصوری کاجو پورا عمل ہوتا ہے، مجھے بھی اس سے بہت لگاؤ ہے۔ بہت سے تجربوں کو میں نے رنگوں کی شکل میں دیکھا ہے، تو وہ زیب کے یہاں بھی ہے۔ زیب اور بانی اپنے معاصرین میں بڑے منفرد شاعرہیں۔ ان کے یہاں بہت سی ایسی خوبیاں ملتی ہیں جو ان کے معاصرین کے یہاں نہیں ملتیں۔ کبھی زیب سے ملاقات نہیں ہوئی۔ جب ان کی کتاب چھپی تھی تو انہوں نے مجھے بھجوائی تھی۔ اتفاق کی بات ہے کہ سب سے ملاقات ہوئی لیکن ان سے ملاقات نہیں ہوئی، نہ میں کبھی کانپور گیا، ان کے زمانے میں، اور نہ وہ کبھی علی گڑھ اور دہلی آئے کہ ملاقات ہوجائے۔ تو ایک دور کاتعلق رہا۔ وہ بھی تصویر بناتے ہیں لفظوں کے ذریعہ اور مجھے بھی کچھ ایسی دلچسپی ہے، گویا لفظوں کے ذریعہ آدمی پینٹ کر رہا ہے اپنے تجربوں کو۔ اچھی شاعری ایک عجیب و غریب فن ہے جس میں ایک قسم کا حسی تجربہ دوسری قسم کے حسی تجربے میں منتقل ہوجاتا ہے۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آپ شاعری کو موسیقی کی طرح اور موسیقی کو آپ ایک روشنی کی طرح دیکھنے لگتے ہیں۔ رہی اپنی غزل گوئی تو مجھے یاد ہے۔۔۔ خلیل صاحب سے میرا بہت تعلق تھا علی گڑھ کے زمانۂ قیام میں، بہت وقت ہم دونوں ساتھ گزارتے تھے۔ اس زمانے میں ان کو اپنے شعر سنایا تھا۔ اسی زمانے میں شاید میں نے زیادہ شعر بھی کہے تھے۔ زیب کے کلام سے ایک مماثلت تو ہے، اصل میں یہ سارے فنون جو ہیں، ایک دوسرے سے بہت قریب ہوتے ہیں اپنے عمل میں۔ خاص طور پر شاعری، موسیقی اور مصوری ان میں تو ایک عجیب و غریب رشتہ ہے۔ اس طرح کی بہت سی باتیں مماثل ہوسکتی ہیں۔ آپ نے تو بہت اچھا مضمون لکھا تھا، بہت شکریہ آپ کا۔

    ثاقب فریدی: سورج کے ڈوبتے ہوئے منظر کا ذکرآپ کے اور زیب دوونوں کے یہاں نظر آتا ہے، فضا، آسمان اور مظاہر کائنات کے رنگ آپ دونوں کی غزل میں موجود ہیں۔ اس مماثلت کو آپ کس طور سے دیکھتے ہیں؟

    شمیم حنفی: ممکن ہے زیب کے یہاں بھی رہی ہو یہ مماثلت۔ اس کا سبب تو شاید یہ ہے کہ میرے یہاں شام ایک عجیب و غریب وقت ہے، میں نے زیادہ تر زندگی کی بیشتر شامیں تنہا گزاری ہیں یا کسی ایسے دوست کے ساتھ جو میری تنہائی میں حارج نہیں ہوتا۔ میرے دوستوں کی تعداد بھی زیادہ لمبی نہیں ہے۔ خاص طور سے ایسے احباب جن کے ساتھ میں نے اپنی شامیں گزاری ہوں۔ شام کو چھت کے نیچے بیٹھنا مجھے پسند نہیں ہے۔ اس طرح کے مشاغل میری زندگی میں نہیں رہے جو شام کو ایک ساتھ بیٹھ کر ادا کیے جاتے ہیں۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں کیا کہناچاہتا ہوں، تو میں زیادہ تر وقت آسمان کے نیچے گزارتا ہوں۔ میرے بعض دوستوں کو اس میں بہت دلچسپی ہے۔ مثلاً میرے دوست رام چندرن جو مصور ہیں اور وقار صاحب جو علی گڑھ میں انگریزی کے پروفیسر تھے تو ہم لوگوں نے بہت سی شامیں ایک ساتھ گزاری ہیں، اور بھی میرے لڑکپن کے بہت سے دوست ہیں۔ تو ان سب کا یہ معاملہ رہا ہے۔ شام کا وقت مجھے بہت عجیب لگتا ہے۔ وہ وقت میرے لیے اپنا محاسبہ کرنے کا وقت بھی ہے۔ ٹہلتے ٹہلتے میں اپنے بچھڑے ہوئے بہت سارے دوستوں کو بھی یاد کرتا ہوں۔ اپنے عزیزوں کو یاد کرتاہوں جو مجھ سے بچھڑ گئے اور ان لوگوں کو بھی جو ابھی موجود ہیں، لیکن ان سے ایک طرح کی دوری ہوگئی ہے اور اس طرح کی دوری ہوجاتی ہے رفتہ رفتہ انسانی رشتوں میں۔ یہ ایک عجیب سلسلہ ہے جس میں خوشی اور افسردگی دونوں ایک ساتھ پروئے ہوئے ہیں۔

    ثاقب فریدی: اس شام کے منظر کے علاوہ آپ کی غزلوں میں ایک سیاہی بھی نظر آتی ہے۔ اس سیاہی کا پھیلاؤ بہت دور تک محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اس گہری سیاہی کااحساس آپ کی غزل میں کس طرح آیا۔ مثلاً آپ کا ایک شعر ہے :

    کالی مٹی، کالا بادل، کالا پانی

    میں نے بس اک نام سنا ہے صرف اندھیرا

    شمیم حنفی: میں رات میں بہت دیر تک جگنے کا عادی رہا اور تقریباً میں نے اپنی آدھی عمر اسی طرح گزاری ہے جب میں تین چار بجے سے پہلے نہیں سوتا تھا۔ وقار صاحب میرے دوستوں میں صبح بہت جلدی اٹھنے کے عادی ہیں۔ بہت دنوں تک ہم ساتھ رہے علی گڑھ میں اور اندور میں، تو اکثر یہ ہوتا تھا کہ جس وقت وہ اٹھتے تھے میں سو جاتا تھا۔ تو رات اور اندھیرا بہت بامعنی ہے میرے لیے۔ اندھیرے کی جو امیج بنتی ہے میرے لیے وہ بہت اہم ہے۔ یہ باتیں میرے ذہن میں رہی ہوں گی تو میں نے اس طرح کے اشعار کہے ہوں گے۔

    ثاقب فریدی: رنگوں کے علاوہ میں نے احساس اور تجربے کی سطح پر بھی زیب اور آپ کی غزلوں میں مشابہت دیکھی ہے۔ جیسے آپ کا شعر ہے،

    چٹختی گرتی ہوئی چھت اجاڑ دروازے

    ایک ایسے گھر کے سوا حاصل سفر کیا تھا

    اسی طرح زیب کا ایک شعر ہے،

    رنج سفر ازل سے ابد تک اٹھا کے بھی

    بدلے میں صرف گرد مسافت ملی مجھے

    شمیم حنفی: ہم جس زمانے میں سانس لے رہے ہیں، اس زمانے کا جو سایہ ہمارے سر پر ہے، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ کیا یہ بہت اچھی چھت ہے؟ دروازے جن سے ہم نے رہائی کا راستہ تلاش کیا تھا وہ نظریات بھی ہوسکتے ہیں اور ذاتی تجربہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہمیں اپنی زندگی میں اس قسم کا وقت تو نصیب نہیں ہوا جو کسی کو آرام اور سکون دے۔ پتہ نہیں میں نے کس کیفیت میں یہ شعر کہا تھا، لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ انسان نے جو سفر کیا ہے۔ وہ آج کی دنیا میں جہاں تک پہنچا ہے یہاں تک پہنچنے کے لیے تو سفر نہیں کیا تھا۔ آپ کا مضمون مجھے بہت دلچسپ لگا، میں تو نہیں سمجھتا تھا کہ جتنے پہلو آپ نے تلاش کیے ہیں، وہ تلاش کیے جاسکتے ہیں۔ پڑھنے والا پسندیدہ شاعر بھی ذہن پر کبھی کبھی حاوی ہوجاتا ہے، اسی طرح کی بات مجھے احمد مشتاق کے یہاں ملی ہے، ناصر کاظمی کے یہاں ملی ہے۔ میں نے ان کا کلام پڑھا ہو، اور وہ میرے ذہن پر اتنا حاوی رہا ہو کہ جب میں نے شعر کہا تو اسی طرح کی بات کہہ دی۔

    ثاقب فریدی: آپ نے زیب غوری کی غزل پر جو مضمون لکھا ہے اس میں رنگوں پہ گفتگو بہت کی ہے، زیب غوری کی غزل میں دیگر رنگوں کے علاوہ مظاہر کائنات کا رنگ بھی موجود ہے، آپ نے ان کی بہت ساری تعبیریں کی ہیں۔

    شمیم حنفی: رنگوں کی بات اس وجہ سے ہے کہ ان کے یہاں بھی رنگوں میں سوچنے کا عمل موجود ہے۔ عہد قدیم کا انسان رنگوں میں سوچتا تھا، کوئی چیز کیسی ہے اور کتنی اچھی لگتی ہے، جیسے ہرا رنگ، ہرے رنگ سے اس کے ذہن میں لہلہاتی ہوئی فصل آتی تھی یا کوئی کھیت یادرخت آتا تھا، لیکن رنگوں میں سوچنا آدمی کی بڑی پرانی عادت ہے، مجھ میں بھی ایک پرانا آدمی چھپا ہوا ہے اور یہ محسوس کرتا ہے بہت قدیمی انسان کی طرح جو بہت آلودہ نہ ہوا ہو، اپنے زمانے کے نئے پن سے۔

    ثاقب فریدی: آپ نے اپنی تنقید میں تاریخ و تہذیب کی بہت بات کی ہے اور آپ کی شاعری میں بھی مجھے یہ ساری چیزیں نظر آتی ہیں، یہ ایسا عکس ہے جو دونوں جگہ موجود ہے، اس تعلق سے آپ کا کیا خیال ہے؟

    شمیم حنفی: میں سوچتا ہوں کہ کسی ایک رنگ یا کسی تنہا حقیقت نے تو میرے شعور کی تربیت نہیں کی ہے۔ تاریخ بہرحال سب کا تجربہ ہوتی ہے لیکن تہذیب جو ہوتی ہے تاریخ میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔ تخلیقی تجربہ اس تاریخ اور تہذیب سے رشتہ رکھتا ہے، کلچر سے میری دلچسپی بہت رہی ہے اور کلچر کے مظاہر سے بھی۔ کلچر کے مظاہر کا جب میں ذکر کرتاہوں تو صرف علمی سطح پر نہیں بلکہ مجھے میلے ٹھیلے، بازار، آپس میں بات کرتے ہوئے چبوترے پر بیٹھے ہوئے لوگ، وہ آراستہ محفلیں جہاں کہانی سنائی جارہی ہوں، شعر سنے جارہے ہیں، میں نے اپنا بھی بہت سا وقت ایسے ہی گزارا ہے، کوئی سمیلن ہو رہا ہو سنگیت کا او روہاں کوئی گا رہا ہے یا کوئی ساز بجارہا ہے، بھیڑ جمع ہے اور سن رہے ہیں لوگ۔ یہ ایک عجیب و غریب تجربہ ہوتا ہے، تو ثقافت اور کلچر سے میری بہت دلچسپی رہی ہے۔ ادب کے علاوہ بھی انسان کے تخلیقی اظہار کے بہت سے ذرائع رہے ہیں، مصوری، موسیقی اور فن تعمیر وغیرہ۔ کمہاروں کا جو کام ہوتا ہے، مٹی کے برتن بنانے کا کام میں نے خود سیکھا ہے بہت دنوں تک۔ میرے ایک استاد تھے دیوی پرساد گپت نام تھا۔ ہندستان کے بڑے سریمک آرٹسٹ تھے۔ انہوں نے ٹیگور کے شانتی نکیتن سے تعلیم حاصل کی تھی اور ٹیگور سے پڑھا بھی تھا۔ بڑی لمبی عمر پائی اور ابھی چند برس پہلے ان کا انتقال یہیں دہلی میں ہوا۔ میں نے ان سے کچھ دنوں تک مٹی کا کام سیکھنے کی کوشش کی تھی۔ میں نے یہ بات کئی بار کہی ہے کہ مجھے کسی فن میں کمال حاصل کرنے کی توفیق کبھی نہیں ہوئی ہے۔ کچھ روزکرتا ہوں، جوش رہتا ہے اور پھر کسی وجہ سے چھوڑ دیتا ہوں اور کسی دوسرے مشغلے میں لگ جاتا ہوں۔ مٹی کے برتن بنانے لگا تھا میں۔ مجھے کمہار کا کام بہت اچھا لگتا ہے، چاک پر بیٹھا ہوا۔ مجھے تاریخ سے بہت دلچسپی ہے، مجھے ہر زمانے کا انسان قابل مطالعہ محسوس ہوتا ہے۔

    ثاقب فریدی: آپنے مختلف محفلوں میں شرکت کی ہے۔ آپ کی غزلوں میں بستی سے اکتاہٹ کی کیفیت ایک متضاد احساس کے طور پہ نظر آتی ہے۔ مثلاً آپ کا شعر ہے :

    اک دور کنارہ ہے وہیں جاکے رکیں گے

    بستی میں تو آثار ٹھکانے کے نہیں ہیں

    شیم حنفی: ٹھکانے کے لفظ میں آپ دیکھیے کہ دو طرح کی رعایتیں موجود ہیں۔ ٹھکانے کے یعنی قاعدے کے اور دوسرے یہ کہ ٹھکانایعنی جہاں آدمی زندگی اور رات بسر کر سکے۔ زندگی کے جس مرحلے میں میں داخل ہوگیا ہوں اور پچھلے دنوں جس کیفیت سے گزرا، اس میں اس طرح کے شعر کہے ہوں گے۔ جہاں تک کہیں جانے کی بات ہے تو اب میں بالعموم نہیں جاتا کہیں کسی پروگرام یا محفل میں، اس لیے کہ دہلی شہر میں باہر نکلنا اب مشکل ہے، بھیڑ بھاڑ بہت ہے، تو اکیلے جانے کی ہمت نہیں پڑتی اب۔ پہلے تو میں سنگیت سبھاؤں میں، کہیں ڈرامے ہو رہے ہیں یا تھیٹر، یا کوئی تماشہ میں برابر جایا کرتا تھا۔ مجھے نٹ وٹ بھی بہت دلچسپ لگتے ہیں، جب میں پڑھاتاتھا اس زمانے میں بھی یہ تھا کہ میں راستے سے گزر رہا ہوں سڑک پر کوئی تماشا دکھارہا ہے میں رک کر دیکھنے لگتا تھا۔ کوئی سانپوں کا تماشا یا جادو کا تماشہ دکھایا جارہا ہے تو میں بہت دلچسپی کے ساتھ ٹھہر کر دیکھتا تھا۔ مجھے اب بھی جی چاہتا ہے یہ سب دیکھنے کا۔ مجھے اجتماعی زندگی کے یہ سارے مظاہر اچھے لگتے ہیں، لیکن اب کم ہوگیاہے، اب کہاں جاتا ہوں۔ اب یہ ہے کہ اگر کوئی آگیا تو ساتھ میں کبھی کبھی چلا جاتا ہوں کہیں۔ اب میں اپنا زیادہ وقت اکیلا گزارتا ہوں۔

    ثاقب فریدی: آپ نے حسن عسکری، کلیم الدین احمد وغیرہ کا نام لیا تو آپ کو اپنے معاصرین میں کس کی تنقید زیادہ پسند ہے؟

    شمیم حنفی: اگر میں کہوں مجھے انتظار حسین اور قرۃ العین حیدر کی تنقید اچھی لگتی ہے، تو آپ حیران ہوں گے۔ اس زمانے کے باضابطہ نقادوں سے الگ ہوکر میں اپنی بات کہوں تو مجھے سہیل احمد، سجاد باقر رضوی کے مضامین بہت اچھے لگتے ہیں۔ مظفر علی سید کے مضامین بہت پسند ہیں۔ نئے لکھنے والوں میں ناصر عباس نیر ہیں، آصف فرخی کی تنقید مجھے اچھی لگتی ہے، عسکری صاحب کے معاصرین میں میری دلچسپی سب سے زیادہ انہی سے رہی۔ میں نے دلچسپی کے ساتھ جو تنقیدیں پڑھیں، وہ وارث کی تنقید ہے، فضیل جعفری کی تنقید ہے اور فاروقی صاحب کی تنقید ہے۔ نارنگ صاحب کی فکشن کی تنقید مجھے اچھی لگتی ہے۔

    ثاقب فریدی: فاروقی صاحب کو کون سی تحریر آپ کو زیادہ پسند آئی ہے؟

    شمیم حنفی: فاروقی صاحب کی شعر، غیرشعر اور نثر مجھے بہت اچھی لگی۔ میرے لیے تو وہ فاروقی صاحب کی تنقید کا ماحصل ہے، میں نے جس لطف کے ساتھ وہ کتاب پڑھی اور نہیں پڑھی۔ اس میں جو ترسیل کے مسائل پر مضامین ہیں، ان کا مضمون ’شعر، غیر شعر او رنثر‘ ہے، اس کے علاوہ اس کتاب کے سارے مضامین بہت اچھے ہیں۔ وارث کا معاملہ یہ ہے کہ وہ چٹخارے دار تنقید لکھتے ہیں تو لطف لینے کے لیے میں نے کبھی وہ بھی پڑھا۔ فضیل جعفری ہمارے زمانے کے بہت اچھے لکھنے والے ہیں، ساقی فاروقی نقاد تو نہیں لیکن کیا عمدہ کتاب اس نے لکھی، اگر جہاں تک میرے پسندیدہ نقاد کی بات ہے تو قرۃ العین حیدر اور انتظار حسین کا کوئی مضمون مجھے نظر آجائے تو میں دوڑ کر پڑھتا ہوں۔ آپ کہیں گے کہ یہ سوال سے گریز ہے لیکن یہ لوگ مجھے بہت پسند ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ میں ان کی تنقید کا بہت قائل ہوں۔

    ثاقب فریدی: آپ نے تنقید میں اتنا کچھ لکھا ہے، لیکن بالآخر آپ نے یہ فرمادیا ہے کہ میری تحریروں کو بطور تنقید نہ پڑھا جائے۔ تو ہم آپ کی تنقید کو کیا سمجھ کر پڑھیں؟

    شمیم حنفی: ثاقب صاحب، واقعہ یہ ہے کہ اتنی اچھی تنقید جب میں نے ان لوگوں کی پڑھیں، جن کا ذکر میں کر رہاہوں تو مجھے اپنی تنقید کار بے کار ہی لگی۔ ایک ایسا کام جو میں نے بلاوجہ کیا، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آدمی وہی کرتا ہے جو وہ کرسکتا ہے۔ میں حیران ہوں کہ جب میری کتابیں کثرت سے ادھر چند برسوں میں چھپنی شروع ہوئیں ہندستان اور پاکستان میں۔ میں شمار بھی نہیں کرسکتا تھا کہ میں نے اتنے مضامین لکھے ہیں۔ مثلاً ایک صاحب نے پاکستان سے لکھا کہ صاحب میں نے آپ کے تہذیبی و تاریخی مسائل والے مضامین جمع کیے ہیں، میں مجموعہ شائع کرنا چاہتا ہوں، میں نے دیکھا تو واقعی ان کی تعداد بہت ہوگئی، لیکن بہرحال، میرے ذہن میں نقاد کا جو تصور ہے وہ بہت بڑی چیز ہے۔ میں تو اپنا شمار ان لوگوں میں نہیں کرتا۔ آپ بس ہماری تحریروں کے متعلق یہ سمجھیے کہ ادب کا ایک قاری تھا، جو اپنے طور پر کچھ کہنا چاہتا تھا۔ ظاہر ہے کہ ہر قاری کتابیں نہیں لکھتا، لیکن اس نے لکھا ہے۔ اس طرح آپ پڑھیں، جس طرح میں نے بہت ساری تحریریں پڑھی ہیں۔

    ثاقب فریدی: شکریہ سر، آپ نے اپنا بہت قیمتی وقت مجھے دیا۔ میں آپ کاتہ دل سے ممنون ہوں۔

    شمیم حنفی: بہت شکریہ آپ کا، آپ نے اتنی دیر گفتگو کی، مجھے بہت لطف آیا آپ کی باتوں میں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے