Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پرانوں کی اہمیت

گوپی چند نارنگ

پرانوں کی اہمیت

گوپی چند نارنگ

MORE BYگوپی چند نارنگ

    پران ہندوستانی دیو مالا اور اساطیر کے قدیم ترین مجموعے ہیں۔ ہندستانی ذہن و مزاج کی، آریائی اور دراوڑی عقائد اور نظریات کے ادغام کی، نیز قدیم ترین قبل تاریخ زمانے کی جیسی ترجمانی پرانوں کے ذریعے سے ہوتی ہے، کسی اور ذریعے سے ممکن نہیں۔ یہ الہامی کتابوں سے بھی زیادہ مقبول اور ہر دل عزیز ہیں۔ مشہور رزمیہ نظموں رامائن اور مہابھارت کو بھی لوک کتھاؤں کے مآخذ کے اعتبار سے اسی زمرے میں شامل کیا جاتا ہے۔ ان میں اس برصغیر میں نسل انسانی کے ارتقا کی داستان اور اس کے اجتماعی لاشعور کے اولین نقوش کچھ اس طرح محفوظ ہو گئے ہیں کہ ان کو جانے اور سمجھے بغیر ہندستان کی روح کی گہرائیوں تک پہنچنا مشکل ہے۔

    پران کے معنی ہیں پرانا، پراچین، قدیم۔ جس طرح ہندو مذہب کا رسوماتی پہلو ویدوں (یعنی براہمنوں اور آرن یکوں) میں درج ہے اور فلسفیانہ اور عالمانہ پہلو اپنشدوں میں، اسی طرح عوامی پہلو پرانوں میں سامنے آتا ہے۔ خیال ہوتا ہے کہ جس طرح برہمنوں کی شدھ سنسکرت کے ساتھ ساتھ عوام کی انڈک بولیاں اور پراکرتیں ترقی کرتی رہیں، اسی طرح ویدوں کے ساتھ ساتھ پرانوں کی لوک کتھائیں بھی قدیم ترین زمانے سے رائج رہی ہوں گی۔ انہیں کتھاؤں کے ذریعے سے اعلیٰ طبقے کے پرتکلف برہمنی نظام کے ساتھ ساتھ عوام کی سطح پر مذہب کا ایک ڈھیلا ڈھالا اور لوچ دار نظام بھی پرورش پاتا رہا، جس میں سیکڑوں دیوی دیوتا مختلف علاقوں، آبادیوں اور گوتروں کے عقائد کی تشکیل کے طور پر سامنے آتے رہے اور بعد میں وقت آنے پر وسیع تر دیومالائی نظام میں منسلک کر دیے گئے۔

    تاریخی اعتبار سے پُران ہندو مذہب کے ارتقا کی اس منزل کی ترجمانی کرتے ہیں جب بدھ مت سے مقابلے کے لیے ہندو مذہب تجدید اور احیا کے دور سے گزر رہا تھا۔ اس سے پہلے ویدوں کی رسوم پرستی اور برہمنیت کے خلاف رد عمل کے طور پر بدھ مت اپنی سادگی، معاشرتی عدل اور عملی روح کی وجہ سے قبول عام حاصل کر چکا تھا، لیکن بدھ مت میں خدا کا تصور نہیں تھا۔ اپنشدوں کا برہمہ (مصدر ہستی) کا تصور بھی انتہائی تجریدی اور فلسفیانہ ہونے کی وجہ سے عوام کی دسترس سے باہر تھا۔ ہندو مذہب نے اب اس کمی کو اوتاروں کے آسانی سے دل نشیں ہونے والے عقیدے سے پورا کیا اور رام اور کرشن جیسے مثالی کرداروں کو پیش کرکے عوام کے دلوں کو کھینچنا شروع کر دیا۔ یہ انہیں طلسماتی کرداروں کی شخصیت کافیضان تھا کہ ہندو مذہب کو پھر سے فروغ حاصل ہوا۔ پُرانوں کی شیرازہ بندی اسی دور تجدید کی یادگار ہے اور انہیں نے ایک بار پھر مذہب کو عوام کے دل کی دھڑکنوں کا رازدار بنا دیا۔

    پُرانوں کی کہانیوں میں برہما، وشنو، مہیش (شو)، پاروتی، اما، درگا، لکشمی کے علاوہ دیوی دیوتاؤں اور رشیوں منیوں کے سیکڑوں کردار ایسے ہیں جو بار بار رونما ہوتے ہیں۔ ورن، اگنی، اندر، مارکنڈے، نارد، درواسا، سرسوتی، اوشا، ستیہ، ویاس، مارتنڈ، منو، مینکا، اروشی، کپلا، راہو، کیتو، کام، کالندی، دکش، کادمبری، ہوتری، ماروتی، ا شونی وغیرہ۔ ان میں سے کچھ تو انسانی کردار ہیں جو ایک بار سامنے آکر اپنے ارتقائی سفر کے ساتھ ختم ہو جاتے ہیں لیکن کچھ آسمانی کردار ہیں جو وقت کے محور پر ہمیشہ زندہ ہیں اور جو کسی بھی یگ یا کلپ میں رونما ہو سکتے ہیں۔ آسمانی اور زمینی کرداروں کے اس باہمی عمل و تعامل سے ان کہانیوں کا تانا بانا تیار ہوتا ہے۔

    ان کرداروں کی تاریخی حیثیت سے سروکار نہیں۔ اصل چیز ان کی معنویت اور مثالیت ہے۔ ان کی تکرار سے ان سے منسوب صفات واضح طور پر سامنے آ جاتی ہیں۔ ہر کردار رمز ہے، علامت ہے، کسی تصور یا کسی قدر کی، جس کے ذریعے ذہن انسانی اپنے عالم طفولیت میں بدی اور نیکی کی طاقتوں کی یا خیروشر یا مثبت ومنفی صفات کی حشر خیز کشمکش کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ یا یہ کہ زندگی اپنے اولین دور میں اپنے حسن اور معصومیت کو ان کرداروں کے آئینے میں دیکھنے کی کوشش کر رہی ہے اور ان پر خود ہی نازاں ہے۔ زندگی کے اس بحر ناپیدا کنار میں کہیں کوئی شکنتلا، ساوتری، دمینی، پورور داس، دروپدی، یدھشٹر، میتری، کنتی، رمنا، ہریش چندر، اشما پارتھا کسی آدرش کا چرغ جلائے بلبلے کی طرح ابھرتا ہے اور روشنی کا تاج پہنے نظروں سے گزر جاتا ہے۔

    ان کہانیوں میں نہ صرف بشریات و سماجیات کے ماہر کے لیے بلکہ نفسیات و ادبیات کے طالب علم کے لیے بھی دلچسپی کا بےحد سامان ہے۔ نیز اس شخص کے لیے بھی جو بھاشا کا جادو جگانا چاہتا ہے یا زبان کا زیادہ سے زیادہ تخلیقی استعمال کرنا چاہتا ہے۔ جدید دور میں جبکہ معنیات کے تقاضے کیا سے کیا ہو گئے ہیں اور زبان کے استعمال کی نئی غیروضعی و تخلیقی جہتوں کی تلاش کا عمل جاری ہے، اساطیر اور دیومالائی تمثیل وکنایوں سے مدد لینا ناگزیر ہو گیا ہے۔

    اس میں شک نہیں کہ پران ہندستانی زبانوں کا سب سے بڑا ’’فوق متن‘‘ ہیں۔ مابعد جدیدیت کے دور میں متن سے متن بنانے کی جو بحثیں چلی ہیں، اس تناظر میں کہانیوں کے ان سلسلوں کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے، کیونکہ خود ان میں سننے سنانے اور لکھنے کے عمل سے متن سے متن بنانے کا سلسلہ زمانہ قدیم سے جاری ہے اور آج بھی نئے دور میں نئے تقاضوں کا ساتھ دینے اور پرانے بھیدوں اور پہلے سے چلی آرہی بصیرتوں کے حوالے سے نئے بھیدوں اور نئی سے نئی بصیرتوں کو نئی تخلیقی چاشنی دینے کے لیے برصغیر کی اجتماعی روحانی تہذیبی روایت میں ان سے بڑا کوئی دوسرا خزانہ نہیں۔ پرانوں کا متن جو خود زمانہ در زمانہ ان گنت معلوم و نامعلوم مصنفین کا بنایا ہوا ہے، اس سے موجودہ عہد میں سیکڑوں قصے کہانیوں، ناولوں، ڈراموں اور منظومات سے نئے متن بنائے گئے ہیں (ہندوستانی ادب میں بھی اور عالمی ادب میں بھی) جن میں سے بہت سے نئے متون کو خود ان کے اپنے تخلیقی و معنیاتی خصائص کی بنا پر ادبی شاہکار کا درجہ حاصل ہے۔

    کلاسکی عہد میں کالی داس کا ’’شکنتلا‘‘، عہد وسطی میں تلسی داس کا ’’رام چرت مانس‘‘، جنوبی ہند میں کمبائن کی ’’رامائن‘‘ یا سینکڑوں دوسری رامائنیں یا مہاربھارتیں یا کتھائیں تو بہرحال پہلے کی ہیں۔ معاصر ادب میں کھانڈیکر کا شہرۂ آفاق ناول ’’مایاوتی‘‘ گریش کرناڈ کا مشہور ڈرامہ ’’ناگ منڈلم‘‘ (دونوں گیان پیٹھ ایوارڈ)، رماکانت رتھ کا مجموعۂ کلام ’’شری رادھا‘‘ (سرسوتی سمان)، پرتبھا رائے کا تانیثی ناول ’’دروپدی‘‘ وغیرہ بیسیوں نئی مثالوں میں سے کچھ ہیں۔

    رامائن اور مہابھارت کی طرح پران بھی سنسکرت نظم میں رواں دواں اور مترنم چھندوں میں لکھے گئے ہیں۔ ان کا عام ڈھانچا مکالموں کا ہے جو راوی در راوی کئی واسطوں سے تیار ہوتا ہے۔ مثلاً و شنو پران پلستہ نے برہمہ سے سنا۔ اس نے اسے پراشرکو سنایا اور پراشر نے اسے اپنے عزیز شاگرد میتریہ کو سنایا۔ ان سب کی گفتگو اور تاثرات و شنو پران کے تانے بانے میں گندھے ہوئے ہیں۔ قدیم سنسکرت محقق امر سنہا کی تقسیم کے مطابق پران پانچ قسم کے موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں۔

    (۱) آفرینش کائنات

    (۲) کائنات کا ارتقا، خاتمہ اور ثانوی آفرینش

    (۳) یگوں یگوں سے چلے آ رہے دیوی دیوتاؤں اور رشیوں منیوں کے اساطیری سلسلے۔

    (۴) منو کے عہد اور یگوں کی دیو مالاؤں کے وقائع

    (۵) بڑے خاندانوں خصوصاً سوریہ ونشی اور چندر ونشی خاندانوں کے حالات

    پرانوں کی تفہیم کے لیے ان کو پنج لکش یا پانچ امتیازی اوصاف قرار دیا گیا ہے، لیکن بہت کم پران ایسے ہیں جن میں یہ پانچوں اوصاف پائے جاتے ہوں۔ روایت کے مطابق مہاپران (بڑے پران) اٹھارہ ہیں اور اپ پران (چھوٹے پران) بھی اٹھارہ ہیں۔ مہاپرانوں کو مرکزی تری مورتی اور ان کے اوصاف کے اعتبار سے تین شقوں میں بانٹا جاتا ہے۔ ہندو نظریات کے مطابق مصدر ہستی یا ذات واجب وجود صرف ایک ہے برہمہ، جس کا کوئی ثانی نہیں اور جو ہر طرح کے صفات اور تعینات سے بری ہے۔ اس کی تین شانیں ہیں،

    برہمایعنی خالق (پیدا کرنے والا)، تخلیقی پہلو

    وشنویعنی رب (پالنے والا)، تعمیری پہلو۔۔۔ مثبت

    مہیش (شو) یعنی قہار (نیست و نابود کرنے والا)، تخریبی پہلو۔۔۔ منفی

    اسی طرح کائنات میں تین اوصاف (گن) بنیادی قرار دیے گئے ہیں،

    ستو یعنی پاکیزگی و لطافت

    تمس یعنی تیرگی و کلفت

    رجس یعنی جوش و جذبہ

    یہ تینوں اوصاف اسی ترتیب سے یعنی ستووشنو سے، تمس شو سے اور رجس برہما سے متعلق ہے۔ اس لحاظ سے اٹھارہ مہاپرانوں کی مندرجہ ذیل قسمیں ہوئیں،

    (۱) وشنو پران (ستو گن یعنی پاکیزگی و لطافت کے مظہر)، وشنو پران، ناردیہ پران، بھاگوت پران، گرڑ پران، پدم پران، وراہ پران۔

    (۲) شوپران (تموکن یعنی تیرگی و کلفت کے مظہر)، متسیہ پران، کورم پران، لنگ پران، شوپران، سکند پران، اگنی پران۔

    (۳) برہما پران (رجوگن یعنی جوش جذبے کے مظہر)، برہما پُران، برہمانڈ پران، برہما وے وزت پُران، مارکنڈے پُران، بھوشیہ پُران، وامن پُران۔

    اپ پُران بھی تعداد میں اٹھارہ ہیں: (۱) سنت کمار (۲) نرسنہ (۳) ناردیہ (۴) شو (۵) درواسس (۶) کپل (۷) مانو (۸) اشنس (۹) ورن (۱۰) کالکا (۱۱) شامب (۱۲) نندی (۱۳) سور (۱۴) پاراشر (۱۵) ادتیہ (۱۶) ماہیشور (۱۷) بھاگوت (۱۸) واششٹھ۔

    مہا پُرانوں اور اپ پُرانوں کے علاوہ تانتروں کو بھی پُرانوں میں شامل کیا جاتا ہے۔ ان کا اضافہ بعد میں ہوا۔ شکتی یعنی دیوی یا درگا کی عبادت کرنے والے تانتروں کو اپنے مقدس صحیفے تسلیم کرتے ہیں۔ اگرچہ مصدر ہستی کی حیثیت سے نسوانی قوت تخلیق یعنی ’’شکتی‘‘ کی پرستش کا ذکر پرانوں میں ملتا ہے لیکن تانتروں میں اسے مرکزی نظریے کی حیثیت حاصل ہے، نیز قبائلی سحر کاری اور متصوفانہ رسوم و رواج کے ساتھ ملاکر اس کو ایک باضابطہ نظام کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

    سب پُران ضخامت میں ایک جیسے نہیں۔ بھاگوت پران کے مطابق تمام پرانوں میں چار لاکھ اشعار ہیں۔ سکند پران سب سے بڑا ہے اور اکیاسی ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ برہما اور وامن پران سب سے چھوٹے ہیں اور دس دس ہزار شعرں کے ہیں۔ مہاپُرانوں میں وشنو پران کو سب سے اہم اور مکمل اور بھاگوت پران کو سب سے دلچسپ سمجھا جاتا ہے۔ یہ دونوں بےحد مقبول ہیں اور ہندوؤں کی مذہبی زندگی پر ان کا گہرا اثر رہا ہے۔ ان کے ترجمے ہندوستان کی تمام علاقائی زبانوں میں سلسلہ در سلسلہ اور متن در متن موجود ہیں۔ خصوصاً بھاگوت پران کی دسویں کتاب، جس میں کرشن کی زندگی کے حالات تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں۔

    وشنو پران کا انگریزی ترجمہ Wilson نے کیا تھا۔ بعد میں یہ Hall کے حواشی اور اضافے کے ساتھ شائع ہوا۔ بھاگوت پران اٹھارہ ہزار شعروں پر مشتمل ہے۔ بھاگوت کے معنی و شنو کے ہیں۔ وشنو پران کی طرح اس میں بھی وشنو کے اوتاروں کا بیان ہے۔ پدم پُران سے روایت ہے کہ بھاگوت میں سب پرانوں کی روح آ گئی ہے۔ Wilson کا بیان ہے کہ ہندوؤں کے ذہن و عقائد پر جو اثر بھاگوت کا ہے، شاید ہی کسی دوسرے پران کا رہا ہو۔ فرانسیسی زبان میں بھاگوت کا ترجمہ Burnouf کا کیا ہوا تین حصوں میں موجود ہے۔

    مارکنڈے پران اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہ غیرمذہبی ہے۔ اس کا مقصد کسی دیوی دیوتا کی پرستش و عبادت نہیں۔ اس پران کی کہانیاں رشی مارکنڈے نے جو رشیوں میں سب سے قدیم ہیں، دو پرندوں کو سنائیں۔ ان پرندوں کو ویدوں کے سب شعر زبانی یاد تھے۔ بعد میں انہوں نے یہ کہانیاں رشی جیمنی کو سنائیں۔ یہ ایک دوسرے سے جڑی ہوئی یعنی کہانی در کہانی ہیں۔ ان کا مشترک عنصر کائنات کا ارتقائی تسلسل یا وقت کے لامتناہی سلسلے کا بیان ہے جو ہر زمانے میں نئے حالات میں نئی نئی شکلوں کے ساتھ ظاہر ہوتا رہا ہے۔ مارکنڈے اور اگنی پُرانوں کا متن Hibliotheca Indica میں شائع ہو چکا ہے۔

    پُرانوں کی اہمیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہندوستان میں نجات (موکش) کے جو تین طریقے بتائے گئے ہیں، ان میں ویدوں اور گیتا کو اگر کرم یوگ (طریق عمل) کا مظہر مانا جائے اور اپنشدوں کو گیان یوگ (طریق معرفت) کا، تو بھگتی یوگ (طریق عشق) کا ماخذ پران ہی قرار پائیں گے۔ ان میں وشنو کے اوتاروں خاص طور پر رام اور کرشن سے قلبی وابستگی اور عشق و محبت پر جو زور دیا گیا ہے، اسے بھگتی کے اولین نقوش سمجھنا چاہیے۔ یہی وہ بیج تھا جو مسلمانوں کے داخلہ ہند کے بعد دونوں کے انتہائی با معنی تہذیبی و تخلیقی اختلاط کے نتیجے کے طور پر عہد وسطیٰ میں بھگتی تحریک کی شکل میں بارآور ہوا اور جس نے ہندوستان کے طول وعرض میں مذہبی جوش و خروش اور والہانہ پن کی لہر سی دوڑا دی۔

    اس زمانے کے ہندوستانی مقامی ادب میں آریائی دراوڑی تمام زبان میں بالعموم اور برج بھاشا، اودھی، راجستھانی و میتھلی میں بالخصوص، سگن وادی شاعروں کے یہاں وسیع پیمانے پر رام بھگتی اور کرشن بھگتی کے جو حد درجہ تخلیقی و متنوع رجحانات سامنے آئے، ان کا سرچشمہ بھی پُرانوں کی یہی روایتیں تھیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے