Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

قدیم ہندی اسٹیج

انصار ناصری

قدیم ہندی اسٹیج

انصار ناصری

MORE BYانصار ناصری

     

    اس مضمون کے پہلے حصے میں ہم قدیم ہندی ڈراما کی ابتدا، ڈراما کے اقسام، پلاٹ کی ترتیب، قدیم ہندی ڈراموں کی بعض خصوصیات وغیرہ کے متعلق تفصیلی گفتگو کرچکے ہیں۔ زیر نظر مضمون میں قدیم ہندی اسٹیج کے متعلق معلومات بہم پہنچانی منظور ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ اس مسئلہ پر اردو زبان میں آج تک کچھ بھی نہیں لکھا گیا۔ محمد عمر نور الٰہی صاحبان نے اپنی گرا ں مایہ تالیف ناٹک ساگرؔ (جو بلاشبہ اردو زبان میں اپنی قسم کی پہلی کتاب ہے) میں بھی اس ضمن میں کچھ نہیں لکھا۔ صرف اتنا لکھ کر اس بیان کو ختم کردیا کہ، ’’حقیقت یہ ہے کہ کسی تھیٹر کی تعمیر کاخیال اس وقت کے تمدن سے بالاتر تھا۔۔۔ لوگوں کا طرزِ معاشرت اور ملک کی آب و ہوا کسی ایسی تعمیر کی مقتضی نہ تھی جس سے تھیٹر کا کام لیا جاتا۔‘‘ 

    تعجب ہے کہ ایسے ذمہ دار حضرات نے ایک اہم مسئلے کے متعلق بغیر سوچے سمجھے یہ سرسری سی رائے پاس کردی۔ اگر وہ اس سلسلہ میں معمولی سی بھی توجہ سے کام لیتے تو خود ہی اپنی غلطی تسلیم کرلیتے۔ اس میں کلام نہیں کہ اس ضمن میں بسیار کاوش و تحقیق اور دقت نظری سے کام لینا پڑتا۔ لیکن انگریزی زبان میں اس قسم کی بہت سی کتابیں ہیں جن سے کافی سے زیادہ مواد فراہم ہوسکتا تھا اور اس طرح یہ کام تحقیق و تدقیق سے بوجہ احسن طے پاسکتا تھا۔ مگر بدقسمتی سے لائق مصنفین ناٹک ساگر نے اس زحمت کو گوارا کرنا مناسب نہ خیال کیا۔ بہرطور اب ہم چند انگریزی و دیگر کتب کی مدد سے قدیم ہندی اسٹیج کے متعلق زیر نظر مقالہ پیش کرتے ہیں۔ 

    قدیم ہندی اسٹیج کی ساخت، پرداخت اور نظم و اہتمام کے متعلق تمام امور بھرت کی نٹ شاستر (جس کے ۱۲ ابواب کا ترجمہ انگریزی زبان میں ہوچکا ہے۔) اور ابھی ناؤگپتا کی تفاسیر میں شرح و بسط کے ساتھ درج ہیں۔ سنگت رتن کار اور متروگپت آچاریہ وغیرہ سے بھی کافی مدد ملتی ہے۔ 

    قدیم ہندی ڈراما اور اسٹیج کے اصول و ترتیب وغیرہ پر غور کرنے سے پہلے یہ امر اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ قدیم ہندی تمدن ہراعتبار سے قدیم یونانی تہذیب کے بالکل برعکس تھا۔ یونان میں جمہوریت برسراقتدارتھی اور یہاں شخصی حکومت، اور یہی ایک چیز سارے اختلافات کی جڑ تھی۔ چنانچہ ایتھنزؔ کے قدیم کھیلوں کا ماحول، تماشائیوں کا ہجوم، ججوں کامقرر ہونا، تقسیم انعامات وغیرہ، اِن چیزوں کا قدیم ہندی کھیلوں میں نام و نشان بھی نہ تھا۔ پانچویں صدی قبل مسیح میں ایتھنزؔ کے تھیٹر کی شکل یہ تھی کہ اکروپولس (پہاڑی) کے دامن میں آرکیسٹرا او راسٹیج مقرر ہوتا تھا، اور پہاڑی کی ڈھلان پر تماشائیوں کے بیٹھنے کی جگہ تجویز ہوتی تھی۔ اس کے برخلاف قدیم ہندی تھیٹر خود مہاراجہ کے محل کے ایک حصہ میں بنا ہواتھا۔ 1 یونانی تماشوں کو ہزاروں تماشائی دیکھ سکتے تھے اور ہندوستانی کھیلوں کو صرف گنے چنے امراء و مصاحب وغیرہ۔ انہیں چند امور سے دونوں کے اختلافات کااندازہ ہوسکتا ہے۔ 

    بھرت جی کی معرکۃ الآرا تالیف ’’نٹ شاستر‘‘ کا دوسرا باب تھیٹر کی عمارت (سنگت سال) کے متعلق بے شمار تفصیلات سے بھرا پڑا ہے، جن میں سے ہم چند اہم باتوں کا ذکر کریں گے۔ ’’زمین جو تھیٹر کی عمارت کے لیے منتخب کی جائے، سخت اور ہر قسم کے جھاڑ جھنکار سے اچھی طرح صاف ہونی چاہیے۔ حدبندی وغیرہ کی اچھی طرح پیمائش کرلینی چاہیے تاکہ مقررہ طول و عرض میں فرق نہ آئے۔‘‘ سنگ بنیاد کا رکھنا ایک محتشم مذہبی رسم سمجھی جاتی تھی جس میں ناچ رنگ اور برہمن، برہمچاریوں وغیرہ کی دعوتِ طعام بھی شامل تھی۔ کمپنی کے ڈائریکٹر پر تین دن کا روزہ فرض تھا۔ 

    بھرتؔ جی نے سائز کے اعتبار سے تھیٹر کی تین اقسام مقرر کی ہیں لیکن ہم صر ف اسٹینڈرڈ سائز کے تھیٹر کاذکر کریں گے۔ عام طور سے یہی قسم رائج تھی اور اس کو ’’نٹ و شمان‘‘ کہتے تھے۔ یہ ۹۶ فٹ لمبی ۴۸ فٹ چوڑی وار ۲۵، ۲۰ فٹ اونچی ایک مستطیل نما عمارت ہوتی تھی۔ جس کی چھت گنبد نما ہوتی تھی او ردیواریں پختہ چونہ گچی کی۔ چہار دیواری پر شیروں، ہاتھیوں، پہاڑیوں سبزہ زاروں کی رنگارنگ تصویریں بنی ہوتی تھیں۔ منڈوے کے چاروں کونوں پر چار ستونوں کاہونا لازمی تھا۔ یہ چار ستون چاروں ہندو جاتیوں برہمن، کھشتری، ویشیا اور شودر کے نام پر معنون ہوتے تھے۔ پردہ پر بھی چاررنگ کاایک جھنڈا سا بنا رہتاتھا۔ یہ چار رنگ نیلا، سرخ، زرد اورسفید ہوتے تھے۔ ہر ایک رنگ ایک ایک جاتی سے منسوب ہوتاتھا۔ 

    اس قسم کے خالص جمہوری جذبات کااس زمانے کے تمدن میں نظر آنا عجیب سی بات ہے لیکن شاید مدعا یہ ہو کہ مہاراجہ کے نزدیک ہر ایک جاتی کا مرتبہ ایک ساہے اورراج محل کے ان مشاغل میں جن کا تعلق کسی خاص فن سے ہو، ہر درجے کے لوگ برابر کی حیثیت سے شریک سمجھے جاتے تھے۔ ’’نٹ وشمان‘‘ یعنی تھیٹر کے دو برابر کے حصے ہوتے تھے۔ پہلے حصہ کو ’’پرکچھ آگھر‘‘ (Auditorium) یعنی تماشائیوں کی نشست گاہ کہتے تھے اور دوسرے کو ’’رنگ بھومی‘‘ یعنی اسٹیج۔ قدیم ہندی تھیٹر کی عمارت کانقشہ ایک خاکہ کی مدد سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔ 

    خاکہ پر ایک نظر ڈالنے سے یہ صاف طور پر ظاہر ہوجاتا ہے کہ کچھ آگھر (تماشائیوں کی نشست گاہ) ۴۸ فٹ سے ۴۸ فٹ کا ایک مربع ہے۔ رنگ بھومی یعنی اسٹیج دو برابر کے حصوں میں منقسم ہے۔ پچھلا حصہ اداکاروں کے لباس تبدیل کرنے اورسانگ وغیرہ بھرنے کے لیے وقف تھا، اس کو نیپتیا آگھر یعنی گرین روم کہتے تھے۔ نیپتیا آگھر اور رنگ بھومی کے بقیہ حصے کے درمیان ایک دیوار جس پر طرح طرح کے رنگین نقش و نگار بنے ہوتے تھے، ایک مستقل پس منظر back-ground کے طور پر حائل ہوتی تھی اور اس دیوار کے آگے والا حصہ ہی اصل رنگ بھومی کہلاتا تھا۔ 

    نیپتیاآگھر یعنی گرین روم اصل رنگ بھومی (فرنٹ اسٹیج) سے ذرا نشیب میں ہوتا تھا۔ اور اس میں داخل ہونے کے لیے دوایک سیڑھیاں اترنی پڑتی تھیں۔ اصل رنگ بھومی پھر دو برابر کے حصوں میں منقسم ہوتا تھا، گو کوئی درمیانی حدفاصل نہ تھی۔ لیکن پردہ (یونیکا) انہیں دونوں حصوں کے درمیان حائل ہوتاتھا۔ یہ پردہ اوپر سے نہیں گرتاتھا بلکہ عام طور پر درمیان میں سے پھٹ کر اِدھر اُدھر ہوجاتا تھا۔ پردے کے سبب سے جو دوقیاسی حصے ہوجاتے تھے، اسے ہم آسانی کے لیے اگلا اور پچھلا اسٹیج کہیں گے۔ (frond and back stage) اگلے اسٹیج کے دونوں بازوؤں پر ۱۲مربع فٹ کے دو سائیڈ ونگز بنے ہوتے تھے، جس کو مت درنی یعنی Prosceniaکہتے تھے۔ ان کی ضرورت ظاہر ہے۔ 

    قدیم زمانے میں مت درنی (ونگز) آرکیسٹرا یعنی سازندوں وغیرہ کے لیے وقف تھے۔ کبھی کبھی پرامپٹر بھی یہیں سے اپنے فرائض اداکرتا تھا۔ سوتردھار (منیجر و مہتمم) بھی بعض اوقات اداکاروں کے حسن عمل کا معائنہ یہیں سے کیا کرتا تھا۔ اسٹیج کا سازوسامان (پراپرٹی) انہیں ونگز میں رکھاجاتا تھا۔ یہ چیز نوٹ کرنے کے لائق ہے کہ اگلے اسٹیج کے سامنے کوئی ڈراپ یا پردہ نہیں ہوتا تھا اور وہ مستقل طور پر سامنے سے کھلارہتا تھا۔ 

    پرکچھ آگھر یعنی نشست گاہ ایک کشادہ زینے کی شکل میں بنائی جاتی تھی، تاکہ آخری قطار میں بیٹھنے والے لوگ بھی آسانی سے دیکھ سکیں۔ سارے پرکچھ آگھر میں چوبی سیڑھیاں سی بنی ہوتی تھیں اور اولین سیڑھی فرش سے ڈھائی فٹ اونچی ہوتی تھی۔ ان سیڑھیوں پر لوگ آلتی پالتی مارکر بیٹھتے تھے۔ راجہ ایس ایم ٹیگور 2 نشست گاہ کی ترتیب کے متعلق لکھتے ہیں کہ، ’’سنگت سال کا مشرقی حصہ مہاراجہ یا امیر مجلس کے لیے وقف ہوتا تھا جو ایک سنگھاسن پر براجمان ہوتا تھا۔ برہمن، شاعر، جوتشی اور دیگر علماء مہاراجہ کے دائیں بازو اور سنگت سال کے جنوبی حصہ میں متمکن ہوتے تھے۔ اُمرأ و وزرا و اراکینِ سلطنت وغیرہ شمالی حصے میں اور راج محل کے کنور کماری، لڑکے بالے اسٹیج کے بالکل قریب بیٹھتے تھے۔ رانیاں اور حرم سراکی دیگر خواتین مہاراجہ کے بائیں طرف۔ نقیب عصا ہاتھ میں لیے امن وخاموشی قائم رکھنے کے لیے جابجا کھڑے رہتے تھے۔ دہریے، مصلح، اجنبی اور مشکوک لوگوں کو سنگت سال میں آنے کی اجازت نہ تھی۔ 

    پروفیسر ہورڈنر 3 آج سے چودہ سو سال قبل اُجین میں شکنتلا کی تمثیل کا نقشہ دلچسپ پیرایہ میں بیان کرتے ہیں۔ ناٹک ساگر میں بھی ان کا یہ بیان درج ہے۔ ہم وہیں سے ذیل کا دلکش مقام نقل کرتے ہیں، 

    ’’کالی داسؔ نے ایک نیا ڈرامہ تیار کیا ہے، جس کی پہلی نمائش موسم بہار میں قرار پائی ہے۔ اہل اجین اپنے شیریں مقال شاعر پر ناز کر رہے ہیں اور فرطِ عقیدت میں کہتے پھرتے ہیں کہ سلاستِ زبان اور صداقتِ جذبات میں ہندوستان کا کوئی ڈرامہ شکنتلاؔ سے لگا نہیں کھاسکتا۔ مہاراجہ بکرماجیت کا فرمان ہے کہ یہ ڈرامہ راج محل میں اسٹیج کیا جائے۔ منتخبِ روزگار اداکار، استاد العصر شاعر اور پھر بسنت کی دلفریبیوں سے جو کیفیت پیدا ہوگی، سب اس کے لیے ہمہ تن انتظار ہیں۔ 

    محل کاسنگت سال جو بالعموم رقص و سرود کی محفلوں کے لیے وقف تھا، شکنتلا کی نمائش کے لیے آراستہ کیا گیا۔ ایک کشادہ صحن میں سامعین کی نشست کا انتظام ہے۔ صحن کے گرداگرد سنگِ مرمر کے خوبصورت ستون حلقہ باندھے کھڑے ہیں، جن پر تازہ پھولوں کے ہار چڑھائے جارہے ہیں۔ صحن کے عین وسط میں شاہی شامیانہ نصب ہے، جس کی سنہری جھالریں چکاچوند کا عالم پیدا کر رہی ہیں۔ شامیانہ چھ نقرئی چوبوں پر قائم ہے۔ تھیٹر کے پہلو میں شاہی جھنڈا لہرا رہاہے۔ اسٹیج کا پردہ عل و الماس کی ایک بیش قیمت زنجیر سے بندھا ہوا ہے۔ یہ زنجیر شاعر کی نذر کی جائے گی کیونکہ مہاراجہ ادبیات کا بڑا قدرداں ہے۔ 

    سپیدۂ صبح کے نمود کے ساتھ ہی اسٹیج کے عقب میں ساز چھڑتے ہیں او رمہاراجہ بکرماجیتؔ تاج سر پر رکھے شاہی لباس پہنے اپنے خدم و حشم کے جھرمٹ میں جلوہ افروز ہے۔ ماتحت راجاؤں کودائیں طرف اور مہارانی اور کنیزوں کو بائیں ہاتھ پر جگہ ملتی ہے۔ مہارانی کی خواص کے ہاتھ میں ایک سونے کی بانسری اور سدابہار پھولوں کاگلدستہ ہے، جو ملک الشعرا کو مہارانی کی طرف سے پیش کیا جائے گا۔ سیاہ فام غلام سرخ وردیاں پہنے اور ارغوانی کمر بند لٹکائے فواکہات تقسیم کرتے پھرتے ہیں۔ اس کالی گھٹا میں سفید گردنوں والی ماہ جبیں خواتین موتیوں کی مالا پہنے نیم تاج سر پر رکھے بجلی سی چمکا رہی ہیں۔ دور دراز مقاموں سے آئے ہوئے مہمان اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھے باتوں میں مشغول ہیں۔ اراکینِ سلطنت، پیشوایانِ دین، علماء و فضلا غرض یہ کہ اجین کی سوسائٹی کی روح اس مجلس میں موجود ہے۔ 

    کہیں چند مدبر نیپال کی کسی بغاوت کے استیصال کی تدابیر پر بحث کر رہے ہیں۔ ایک پرسکون گوشہ میں شاہی جوتشی ورہا میدؔ ایک سفید ریش ایرانی سے سرگرم کلام ہے۔ شاہی مدیر سنسکرت لغات کے آخری جزو اپنے اس اجنبی دوست کے حوالے کر رہا ہے جو جنوبی چین سے محض اسی غرض سے آیا تھا۔۔۔ یکایک سارنگی، ستار اور بانسری کے مدہوش کن سربلند ہوتے ہیں۔ سارا سنگت سال دلنشیں نغموں سے وجد میں آنے لگتا ہے۔ چند خوش گلو نوجوان سامنے آکر بھجن گاتے ہیں اور مہاراج اور دیگر معززین کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ اس کے بعد سوتر وہار آشیرباد دیتا ہے اور ظرافت آمیز نظم میں حاضرین سے خاص توجہ کا التماس کرتا ہے۔ شاہی حاجب جواہرات کی زنجیر کھول کر کالیداسؔ کے سر پر رکھ دیتا ہے۔ پر دہ دوحصوں میں تقسیم ہو کر پھٹتا ہے۔ حاضرین کے شور و غل سے سنگت سال گونج اٹھتا ہے۔ ڈراما شروع ہوتا اور ہر طرف سناٹا چھا جاتا ہے۔۔۔ وغیرہ۔‘‘ 

    جہاں تک سین بلڈنگ اور اسٹیج مشینری کا تعلق ہے، قدیم ہندی اسٹیج اس سے بہت کم آشنا تھا۔ گو بھرتؔ جی نے معمولی مشینوں اور چھوٹے چھوٹے اسٹیج ٹرک کا ذکر کیا ہے، جسے ’’نیتر‘‘ کہتے تھے مگر یہ چیزیں عموماً نایاب تھیں۔ مختلف سین سینری البتہ گاہے گاہے استعمال ہوتی تھی۔ 

    بھرتؔ جی نے اسٹیج پراپرٹی (سازوسامان) جسے ’’پست‘‘ کہتے تھے، کی تین اقسام مقرر کی ہیں۔ ’’سندھیما‘‘ یعنی وہ اشیا جو بانس کی کھپچیوں سے بنائی جائیں اور جن پر ہرن چیتے وغیرہ کی کھال یا کوئی کپڑا منڈھا ہوا ہو۔ ’’ویاج ما‘‘ جو کسی نیتر کی مدد سے تیار ہوں اور ’’ونشٹتیا‘‘ یعنی صرف کپڑے کی اشیاء، ہتھیار وغیرہ کسی ٹھوس دھات کے نہیں ہوتے بلکہ لکڑی اور لاکھ کے بنتے تھے۔ یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ قدیم ہندی ڈراما کا مقصد صرف مایا یعنی نظر فریبی پیدا کرنا تھا اور اسی سبب سے وہ لوگ سین سینری اور اصلی سازوسامان کے کچھ ایسے زیادہ قائل نہ تھے۔ 

    اداکاروں کے لباس کے متعلق اگرچہ یہ احتیاط لازمی تھی کہ رواج کے مطابق ہوں پھر بھی چند خاص قسم کے لباس رسمی طور پر اداکاروں کے لیے مخصوص ہوگئے تھے۔ یہ لباس شوخ رنگ، چمکیلے فوق البھڑک اور جھوٹے گوٹے کناری سے لپے ہوئے تھے۔ راجہ مہاراجہ اور عورتوں کے لباس میں بے شمار زیورات بھی شامل ہوتے تھے مگر سارے زیورات مومی یا لاکھ کے ہوتے تھے جن پر سنہری روپہلی پترا چڑھا ہوا ہوتا تھا تاکہ روشنی میں خوب چمک سکیں۔ میک اپ یعنی سانگ بھرنے کے لیے عموماً رال (resin) گلال اور ابرک وغیرہ استعمال کی جاتی تھی۔ 

    تماشے زیادہ تر تہواروں یا شادی بیاہ کے موقعوں پر کیے جاتے تھے۔ رتنا ولیؔ اور مدراراکھششؔ دونوں ڈرامے پہلی مرتبہ تہواروں ہی پر کیے گئے۔ بسنت کے موقع پر کامؔ دیو (کیوپڈ) کا تہوار ڈراموں کی نمائش کے لیے وقف تھا۔ یوں مہاراجہ یا کسی اور رئیس کے ہاں لڑکا پیدا ہونے پر، دشمن پر فتح پانے یا صلح ہونے پر کسی نئی عمارت کی تعمیر کے موقع پر خوشی اور جشن کا اظہار عام طور سے ڈراما ہی سے ہوتا تھا۔ سہ پہر کا وقت ڈراموں کی نمائش کے لیے معین تھا۔ عموماً ایک ڈراما چار پانچ گھنٹے میں ختم ہوجاتاتھا۔ یہ امر بھی ذکر کے لائق ہے کہ یونان میں ایک ہی وقت میں دو تین ٹریجیڈیز اور ایک آدھ کامیڈی کی جاتی تھی اور یہاں اتنے ہی وقت میں صرف ایک مکمل اور مبسوط ڈراما ہوتا تھا۔ 

    ایکٹرز اور ایکٹریسیز سوسائٹی میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ چونکہ یہ لوگ راجہ مہاراجوں کے ہم مشرب ہوتے تھے اس لیے ان کے پیشے کی عزت و توقیر کی جاتی تھی۔ اداکاری کا پیشہ عرصہ دراز تک برہمنوں کے لیے مخصوص رہا۔ 

    اس جگہ قدیم ہندی تھیٹر اور ملکہ ایلزیبتھ کے زمانے کے انگریزی تھیٹر کا تقابل بے محل معلوم ہوگا، اس لیے کہ ہر دور میں بعض امور کے اعتبار سے عجب یکسانیت پائی جاتی ہے۔ پہلی بات جو نوٹ کرنے کے لائق ہے، یہ ہے کہ دونوں میں یہ مفاہمت عام تھی کہ حاضرین اپنے تخیل سے قصہ کامحل وقوع اور گردوپیش کے ماحول کا اندازہ خودبخود کرلیتے ہیں۔ انگریزی تھیٹر میں یہ اس طرح ہوتا تھا کہ ہر ایک سین کے شروع میں اس طرح کی چھوٹی چھوٹی تختیاں دکھا دی جاتی تھیں، 

    یہ ایتھنز ہے۔ 

    اندھیری رات موسلا دھار بارش

    ارڈن کاجنگل
    حاضرین جلسہ ان ہدایتوں کو پڑھ کر سین اور ماحول فرض کرلیتے تھے۔ ہندوستان میں اس قسم کی تختیوں کی بھی ضرورت نہیں ہوتی تھی بلکہ سوتردھار (منیجر) خود سامنے آکر فصیح و بلیغ زبان میں سین کا محلِ وقوع بیان کردیتا تھا۔ دوسری بات یہ کہ ہر دو تھیٹروں میں صرف ایک ہی پردہ کا استعمال رائج تھا۔ دونوں جگہ کے لباس بھڑکیلے ہوتے تھے۔ دونوں تھیٹرز کے ڈراموں کی زبان جوشیلی، محاورات اور ژولیدہ استعارات سے پر ہوتی تھی۔ ولایت میں زنانہ پارٹ لڑکے کرتے تھے اور یہاں عورتیں۔ دونوں اس چیز کے بھی برابر کے قائل تھے کہ ہیرو یا ہیروئن کی مصیبت کے وقت آسمانی قوتیں ان کی مدد کرتی ہیں۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ 

    قدیم ہندی اسٹیج اور الیزبیتھین اسٹیج کے تقابل سے ہم یہ نتیجہ مستنبط کرسکتے ہیں کہ جو جو باتیں ہندوستان میں چوتھی پانچویں صدی قبل مسیح میں رائج تھیں، ان میں کی بعض باتیں ولایت میں سولہویں صدی بعد مسیح رائج ہوئیں۔ تفاوت ملاحظہ ہو! 

    ہندوستان کی ڈرامائی تاریخ پر نظر رکھتے ہوئے ہم قدیم ہندوستانیوں کے بے مثل تمدن اور ان کی لائقِ رشک ذکاوت و حسن کاری کی ستائش و توصیف پر مجبور ہیں۔ لیکن کتنے افسوس کا مقام ہے کہ ہم نے تمام قدیم علوم و فنون کو اپنی ناقدر شناسی، جمود اور بے حسی کے سبب افسانہ کہن بنادیا ہے۔ اسی ڈراما کو لیجیے۔ یہ فن خالص ہندوستانی ایجاد ہے اور آج سے ہزاروں سال پہلے جب کہ اقوامِ عالم ڈراما کے نام سے بھی ناآشنائے محض تھیں، یہاں یہ فن اس درجہ مکمل، منظم اور منضبط تھا کہ دنیا کی ڈرامائی تاریخ اس کی نظیر پیش نہیں کرسکتی۔ لیکن آج ہم اسی فن کے اکتساب کے لیے انگریزی اور دیگر غیر زبانوں کے محتاج ہیں، یہ اس لیے کہ ہم نے اپنے اسلاف کے کارہائے نمایاں اور ان کی فتوحات کو پس پشت ڈال رکھا ہے۔ غیرقوموں اور غیرزبانوں سے بھیک مانگنے پر تیار ہیں لیکن خود اپنے آباؤاجداد کے کارناموں سے استصواب کرنا اپنے لیے عار سمجھتے ہیں۔ 

    پھر یہ نہیں کہ قدیم علوم و فنون سب کے سب فنا ہوگئے۔ بفضلِ ایزدی ابھی یہ نوبت نہیں آئی۔ بیشتر چیزیں موجود ہیں گویا ہماری ناقدری اور فقدانِ ذوق کے سبب دگرگوں حالت میں منتشر اجزا اِدھر اُدھر پڑے پھرتے ہیں۔ ہماری ذرا سی توجہ انہیں ازسرنو زندہ کرسکتی ہے۔ لیکن کسے غرض پڑی ہے کہ مفت کا درد سر مول لے! 



    حواشی
    (1) یہ امر بھی ذکر کے لائق ہے کہ راج محل کے علاوہ یاترا کے میلوں اور تہواروں کے موقع پر ہر شہر اور قصبے میں بھی تماشے ہواکرتے تھے۔ مثلاً بھوبھوتی کے بہت سے ڈرامے پہلی بار ایسے ہی تہواروں کے موقع پر مختلف شہروں میں ہوئے۔ 
    (2) ہندو ڈرامہ۔ مصنفہ راجہ ایس۔ ایم ٹیگور۔ 
    (3) انڈین تھیٹر، مصنفہ امی۔ پی ہورڈنر۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے