قدیم وجدید تعلیم میں افتراق
وقت اور حالات میں تبدیلی ایک فطری عمل ہے لیکن زندگی کی صداقتیں اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں ۔یہ سارا نظام ِ عالم ایک خود کار مشین کی طرح نہیں ہے بلکہ اس کے پس پردہ ایک ایسی عظیم طاقت کارفرما ہے جو حکمت وقدرت کے ساتھ اس کارخانۂ حیات وکائنات کو چلارہی ہے یعنی اللہ تعالیٰ۔انسان وقت اور حالات کے آگے بے بس ہے مگر خالقِ کائنات نے اُسے اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کیا ہے اور اُسے ضابطۂ حیات مرحمت فرماکر مقصدِ حیات سمجھا لیا ہے۔
تعلیم ،ایک ایسا زیور ہے جسے چُرایا نہیں جاسکتا ہے ۔یہ تعلیم ہی ہے جو ہمیں ذہنی ورُحانی اور تہذیبی اعتبار سے ایک بہترین انسان بنانے کے ساتھ معلومات کے بحرِبیکراں کی سیر کراتی ہے ۔تعلیم کے بغیر انسان اور حیوان میں کوئی خاص فرق نہیں رہتا۔ماہرین ِ تعلیم نے مجموعی طور پر اس بات کا ذکر کیا ہے کہ تعلیم انسان کی مکمل شخصیت کی ترقی کا نام ہے ۔ میںیہاںقدیم وجدید تعلیم میں افتراق کو واضح کرنے کی کوشش کروں گا تاکہ قارئین اور بالخصوص طلبہ وطالبات میں یہ شعور وادراک پیدا ہوسکے کہ وہ اُن مفید باتوں کو اپنائیں جو اُن کی زندگی کو روشن اور بااختیار بناسکیں اور اُن مضر باتوں سے احتراز برتیں جو اُن کو تباہی کے دہانے پر پہنچا چکی ہیں ۔
قدیم زمانے میں تعلیم مکتبوں ،پاٹھ شالاوں یا پھر خانقاہوں میں دی جاتی تھی ۔لوگ کم پڑھے لکھے ہوتے تھے ۔ذات پات ،رنگ ونسل ،بھید بھاؤاور دوسری کئی غیر عقلی اور بھونڈی رسموں میں لوگ اپنی زندگی گزارتے تھے ۔سائنسی انکشافات کا فقدان تھا اور پڑھے لکھے لوگ کم دستیاب تھے ۔آج کی طرح یہ لیپ ٹاپ،موبائل فون ،انٹر نیٹ اور طرح طرح کی سہولتیں میسر نہیں تھیں لیکن وہ ذہین اور دیانتدار بہت زیادہ تھے ۔ اُن میں ایجادات اور اختراعی ذہنیت بڑی تیز تھی۔ و ہ اخلاقی وروحانی قدروں کے پاسدار تھے اور اُن کی زندگیوں میں امن وسکون تھا ۔تعلیم کا نصاب زیادہ تر اخلاقی اور روحانی قدروں کو فروغ دینے یا اُنھیں عام کرنے سے متعلق ہوتا تھا ۔اُس زمانے کا میٹرک پاس آج کے بہت بڑے ڈگری ہولڈر سے دس قدم آگے ہوتا تھا ۔غرضیکہ وہ لوگ عالم ہونے کے ساتھ عامل بھی تھے ۔اُن کے قول وفعل میں تضاد نہیں ہوتا تھا ۔وہ جو کہتے تھے سو کرتے تھے ۔اُس دور کی تعلیم میں مدرس اور شاگردکے رشتے کو تقدّس حاصل تھا ۔تعلیم پیسہ کمانے کے لیے حاصل نہیں کی جاتی تھی بلکہ اخلاق وکردار اور شخصیت کو باوقار بنانے کی خاطر حاصل کی جاتی تھی ۔یہ قدیم تعلیم کا اصل مقصد تھا۔
جہاں تک جدید تعلیم کا تعلق ہے اس نے سائنس اور تکنالوجی کے ساتھ اپنا رشتہ اُستوار کیا ہے ۔تعلیم کے نئے نئے طریقے ایجاد کیے گئے ہیں۔بچّوں کی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے اُن کی ذہنی تربیت کی جاتی ہے ۔کھیل کود کے ذریعے ،تقریری مقابلے اور دیگر طریقۂ تعلیم اگرچہ کسی حد تک بہتر خیال کیے جاتے ہیں لیکن بچّوں کو اخلاقی وروحانی تعلیم سے بہت حد تک محروم رکھا گیا ہے ۔کمپیوٹر اور موبائل فون یا یوں کہیے کہ سوشل میڈیا نے ہمارے اسکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ وطالبات کو غیر اخلاقی حرکتیں کرنے پر آمادہ کردیا ہے ۔مانا کہ عصر حاضر کی نئی نسل جوان ہونے سے پہلے ہی جوان ہوگئی ہے ۔اُس کو سوشل میڈیا کے ذریعے بہت زیادہ معلومات حاصل ہوگئی ہے لیکن علم پہ عمل نہ ہونے کی وجہ سے وہ تعلیم کے صحیح مقاصد حاصل کرنے میں بہت پیچھے ہے ۔اخلاقی وروحانی یا تہذیبی وسماجی قدروں کے فقدان نے آج کے تعلیمی نظام کو روپے کمانے کی مشین بنادیا ہے ۔اب اس بات پر سے ایمان ویقین اُٹھ چکا ہے کہ عمل سے زندگی بنتی ہے بلکہ اس کے برعکس اب اس بات پہ لوگوں کا یقین ہے کہ اچھے عہدے اور عیش وآرام یا ذہنی عیاشی کے لیے تعلیم حاصل کی جائے ۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ آج کل کے دور میں جرائم کا گراف پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ بڑھ گیا ہے ۔لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ سائنس اور ٹکنالوجی کی تمام نعمتوں کو بہتر ذہن سازی ،اعلیٰ اخلاق وکردار اور مُشترکہ اقدار کے فروغ کے لیے استعمال میں لایا جائے تاکہ تعلیم کا اصل مقصد اپنی عملی صورت میں واضح ہوسکے اور نوجوانوں کے اندر والدین کی خدمت اورخداشناسی کی صفت پیدا ہوسکے ۔اس کے لیے میں یہاں چند اہم مشورے دینا چاہتا ہوں جو اس طرح ہیں :
۱۔پہلی بات یہ کہ تعلیمی اداروں میں اخلاقیات کو باضابطہ ایک کورس کی حیثیت حاصل ہو۔
۲۔دوسری بات یہ کہ اساتذہ بچّوں میں ایک ایسا نظم وضبط پیدا کرنے کی کوشش کریں کہ وہ غیر اخلاقی حرکتوں سے باز رہیں ۔
۳۔تیسری بات یہ کہ والدین بڑے پیار اور نرم لہجے میں ہرروز گھر پہ اپنے بچّوں کو بزرگوں کے سبق آموز وواقعات سُنائیں ۔
۴۔چوتھی اہم بات یہ کہ نصاب کو زیادہ سے زیادہ اخلاقی اور روحانی تعلیم کے مطابق ترتیب دیا جائے تاکہ بچّوں کی صحیح تربیت ہوسکے ۔
ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اگرجدید تعلیم دی جائے تو ایک بہتر اور خوشگوار ماحول ومعاشرہ پیدا ہوسکتا ہے جس میں ہم سب امن وسکون کی زندگی بسر کریں گے ۔عصر حاضر میں عالمی امن بھائی چارہ اور رواداری کی اشد ضرورت ہے ۔ورنہ تعلیم کا جو بنیادی مقصد ہے اگر وہی حاصل نہ ہوسکا تو اس صورت میں ہم سب ایک طرح کے برائے نام تعلیم یافتہ سماج میں سانس لیتے رہیں گے ۔بُرے کام آدمی کو وقتی طور پر تو مزہ پہنچاتے ہیں لیکن دائمی عذاب کا باعث بنتے ہیں جب کہ اچھے کام اور اچھی سوچ آدمی کو عزت ووقار سے جینے کی راہ فراہم کرتے ہیں ۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.