قومی طرز احساس اور علامتیں
(۱) ’’الجزائر کی جنگِ آزادی ایک ہمہ گیر مسئلہ ہے۔ اس کے لیے آفاقی فکر و نظر کی ضرورت تھی۔ کیا یہ آفاقیت ہمارے اردو ادب میں پیدا ہوئی؟ اگر نہیں تو کیوں؟‘‘
(ایڈیٹوریل ’’لیل و نہار‘‘ ۱۵/اپریل ۶۲ء)
(۲)
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق
(اقبال)
اوپر لکھے ہوئے دو اقتباسات میرے مضمون کا موضوع متعین کرتے ہیں۔ اس مضمون میں جیساکہ عنوان سے ظاہر ہے، میرا مدعا یہ نہیں ہے کہ میں الجزائر پر کسی نئی بحث کا آغاز کروں۔ میری خواہش صرف اتنی ہے کہ میں انسانی ذہن کی اس بنیادی قوت کا سراغ لگاؤں جو ہمارے طرزِ فکر، طرزِ نظر بلکہ یوں کہیے کہ طرزِ احساس کی (جو طرزِ فکر و نظر کا تعین کرتا ہے) تشکیل کرتی ہے، میرے ذہن میں دوسرا سوال یہ ہے کہ آیا تخلیقی صلاحیت کے لیے خواہ وہ کسی قسم کی ہو آفاقی فکر و نطر کی ضرورت ہے یا علامتی فکر و نظر کی۔ یہاں علامتی فکر و نظر سے میری مراد یہ ہے کہ دراصل مختلف انسانی گروہوں میں انسانوں کی مختلف النوع تہذیبی اکائیوں میں طرزِ احساس کا تعین ان کی تہذیبی علامتوں کے ذریعے ہوتا ہے اور چونکہ ہر قسم کی تخلیق کسی نہ کسی طرزِ احساس کی آیئنہ دار ہوگی۔ لہٰذا وہ بغیر علامتوں کے ممکن نہ ہوگی۔
گویا اب میرے سامنے دوسوالات ہیں: (۱) ہمارے ذہن کی وہ کون سی بنیادی قوت ہے جو ہمارے طرزِ احساس کی تشکیل کرتی ہے؟ (۲) ہر قسم کی تخلیقی صلاحیت کے لیے آفاقی فکر و نظر کی ضرورت ہے یا علامتی فکر و نظر کی؟
میرے پیش کیے ہوئے یہ دوسوال اپنے من میں رکھیے اور ساتھ ہی اوپر دیے ہوئے دوسرے اقتباس کو بھی دیکھیے۔ آپ علامہ اقبالؔ کے اس شعر کی کہ،
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق
ایک علامتی و شعری وضاحت کرلیجیے اور وہ یہ کہ اقبالؔ کا مومن دیومالاؤں اور داستانوں کے ہیرو کی طرح ایک تخلیقی انسان ہے۔ آج کے مفہوم میں وہ مذہبی رہنماؤں، سیاسی لیڈروں، سائنس دانوں، فلسفیوں اور ادیبوں کی طرح تخلیقی صلاحیتوں کا حامل ہے۔
مگر اس شعر کی اس وضاحت کے بعد آپ کے ذہن میں ایک تیسرا سوال ضرور پیدا ہوا ہوگا کہ آخر میں ان نتائج پر کیسے پہنچا کے ساتھ ہی یہ کہ آفاق میں گم ہوجانے والے کافر میں تخلیقی صلاحیتیں کیوں نہیں ہوسکتیں؟
چلیے میں اپنی بات یہاں سے شروع کرتا ہوں کہ انسانیت کی تاریخ اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب انسان میں انا اور شعور بیدار ہوئے۔ اس لیے کہ تاریخ شروع ہونے سے پہلے ایسے انسان کا وجود ضروری ہے جو تجربہ کرسکتا ہو۔ اور انسان نے شعوری طور پر تجربہ اس وقت شروع کیا جب وہ لاشعور کی جنت سے نکل آیا، یعنی یہ کہ جب اس کے لاشعور میں اَنا اور شعور بیدار ہوئے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ جب وہ خود کو خارجی دنیا (آفاق) سے الگ تصور کرنے لگا۔
اس دنیا کی لاکھوں سال کی تاریخ میں انسانی زندگی کی تاریخ سمندر میں محض ایک قطرے کی مانند ہے۔ خداوندِ خدا نے روشنی کو تاریکی سے الگ کیا، یا پھر بعض فطری حالات کا تقاضا یہ ہوا کہ انسان چارٹانگوں کے بجائے دوٹانگوں پر کھڑا ہوگیا اور اسی حالت میں جہاں وہ جسمانی طور پر جانوروں سے مختلف ہوگیا۔ وہاں دہنی طور پر بھی اس میں شعور کی نمود ہوئی۔ بہ الفاظِ دیگر اس کے لاشعور میں شعور پیدا ہوا۔
اس طرح انسان نے لاشعور کے بنیادی جذباتی سانچوں ARCHE TYPES کے ذریعے دنیا کا تجربہ شروع کیا۔ یہ بنیادی جذباتی سانچے کیا ہیں؟ آپ انہیں لاشعور کے اعضاء سمجھ لیجیے۔ جس طرح ہم اپنے جسمانی اعضاء وراثت میں پاتے ہیں، اسی طرح ہمارا ذہن اپنے اعضاء یعنی لاشعور کے بنیادی جذباتی سانچے وراثت میں پاتا ہے۔ یہ بنیادی لاشعوری سانچے خود دنیا کے لاشعوری تجربے کی ایک شکل ہوتے ہیں جن کے ذریعے انسان خارجی دنیا (آفاق) کا تجربہ کرتا ہے۔ فرائڈ بنیادی جذباتی سانچے کی بات نہیں کرتا۔ مگر وہ اس سے ملتی جلتی بات کہتا ہے۔ اور وہ یہ کہ انسانی ذہن میں صرف وہی چیزیں نہیں ہوتیں جو اس کا اپنا تجربہ ہوتی ہیں۔ بلکہ ارتقائے نسلِ انسانی کی پوری تاریخ میں جو نسلی تجربے ہوئے ہیں وہ بھی اسے پیدائش کے وقت وراثت میں ملتے ہیں۔ اس قدیم وراثت میں صرف رجحان طبع ہی شامل نہیں ہوتا بلکہ اس میں فکری مافیہ بھی ہوتے ہیں اور پچھلی نسلوں کے تجربوں کی یادداشت بھی۔
نیگؔ کی اصطلاح میں بنیادی جذباتی سانچے فکر و احساس کے وہ سانچے ہیں جو نسل کے تجربوں سے مرتب ہوتے ہیں اور انسان کے لاشعور میں پڑے رہتے ہیں۔ اور اس طرح وہ دنیا کے انسانی درک کا تعین کرتے ہیں، یا یوں کہہ لیجیے کہ وہ اس کے طرزِ احساس کا تعین کرتے ہیں۔
اب میں یہ بتانے کے لیے کہ یہ بنیادی جذباتی سانچے کس طرح ہماری زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ہماری زندگی میں ان کا کیا مقام ہے، اِرخ نیومان کا حوالہ دیتا ہوں،
’’اجتماعی لاشعور کے بنیادی جذباتی سانچے علامتوں کے ذریعے تخلیقی ذہنوں سے نکل کر تہذیب کی شعوری دنیا میں داخل ہوجاتے ہیں۔ یہی بنیادی جذباتی سانچے وہ عمیق حقیقتیں ہیں جو اجتماعی زندگی کو زرخیز کرتی ہیں، تبدیل کرتی ہیں اور اسے وسعت دیتی ہیں۔ انہیں کی وجہ سے سماج کی اجتماعی زندگی کے ساتھ ہی فرد کی زندگی کو وہ بنیاد ملتی ہے جو زندگی کا مفہوم متعین کرتی ہے۔ مذہب اور فن کا مفہوم مثبت اور مرکبی SYNTHETIC ہوتا ہے، یہ بات اوائل تہذیب پر بھی صادق آتی ہے اور ہماری ضرورت سے زیادہ شعوری تہذیب پر بھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مذہب اور فن ہمارے اس جذباتی مواد کے اخراج کا ذریعہ بنتے ہیں جسے شعوری زندگی سختی کے ساتھ کچل دیتی ہے۔ اجتماع اور خرد دونوں میں تہذیب کی پدری دنیا، جس کاآلہ کار شعور ہے پوری انسانی روح PSYCHE کاایک بہت ہی چھوٹا سا ٹکڑا ہے۔ اجتماعی لاشعور کی وہ مثبت قوتیں جنہیں نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ تخلیقی انسان کے ذریعے اظہار پاتی ہیں اور اس کے ذریعے سے سماج کا حصہ بن جاتی ہیں۔ ایک حدتک یہ قوتیں پرانی ہوتی ہیں جو تہذیب کی متفرق شکلوں کی وجہ سے دب جاتی ہیں اور ایک حد تک نئی، اس لیے کہ یہ قوتیں غیرمستعمل ہوتی ہیں اور اسی لیے مستقبل کی شکل متعین کرتی ہیں۔‘‘
(ارخ نیومان۔۔۔ شعور کا ارتقا اور اس کی تاریخ)
ہوتا یہ ہے کہ جب یہ بنیادی جذباتی سانچے، خود کو شعور اور اَنا کے سامنے پیش کرتے ہیں تو کسی نہ کسی علامت کی شکل میں ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان بنیادی جذباتی سانچوں کا کوئی مفہوم اس وقت متعین ہوسکتا ہے جب کہ یہ خود کو شعور کے سامنے علامت کی شکل میں پیش کریں۔ بہ الفاظِ دیگر یہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب کہ انسان میں شعور بیدار ہوا۔ یعنی یہ کہ انسان نے دنیا کا تجربہ اس طرح کرنا شروع کیا کہ اس کی علامتی تخلیق کی۔ اس بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس نے خارجی دنیا کو سمجھنے کے لیے علامتوں کی تخلیق کی اور ان علامتوں کے ذریعے خارجی دنیا کو سمجھا۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسان کے لیے دنیا کا مفہوم ان علامتوں کے ذریعے ہی سے متعین ہوا جو اس نے اپنی روح PSYCHE سے پیدا کیں، یا بہ الفاظِ دیگر اجتماعی لاشعور کے بنیادی جذباتی سانچوں کے خارجی دنیا میں انعکاس سے۔ اور چونکہ یہ علامتیں شعور کے سامنے لاشعور کا طرزِ اظہار ہیں اس لیے انسان کے لیے دنیا کی پیدائش شعور کی تخلیق سے مترادف ہے۔
اب یہ پتہ چلا کہ انسانی شعور کے ارتقاء کی تاریخ کی پہلی منزل یہ ہے کہ اس نے آفاق کی علامتی تخلیق کی اور اس کی دوسری منزل کا تعین اس پہلی منزل کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ یعنی دوسری منزل یہ ہے کہ اس نے ان علامتوں کو ہضم کرکے انہیں اپنے ذہن میں رچا بساکر اَنا اور شعور کو قوت بخشی اور اپنی شخصیت کی تعمیر کی اور اسی دوسری منزل سے ہی تجریدی فکر ممکن ہوسکی۔ یہی سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ یعنی یہ کہ کسی قوم میں تہذیبی زندگی، اس پوری قوم کی جذباتی زندگی کے اظہار سے وجود میں آتی ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ قوم کی جذباتی زندگی اپنے خلاق ذہنوں کے ذریعے علامتیں پیدا کرتی ہے او ریہی علامتیں قوم کی جذباتی زندگی کے اظہار کا ذریعہ بنتی ہیں۔ یوں کہہ لیجیے کہ ان علامتوں کے ذریعے قوم کے افراد اپنی روح سے گفتگو کرتے ہیں اور ان علامتوں کے گرد اپنی تہذیبی زندگی کااظہارکرتے ہیں۔ اس طرح ہم اپنی علامتوں کو سمجھ کر، بلکہ ان علامتوں کو اپنے اندر رچابسا کر اپنی شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں اور شعور میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہی بات خوابوں کے سلسلے میں بھی صحیح ہے۔ ہمارے خواب ہمارے لاشعور کی زبان اور اس کاعلامتی اظہار ہوتے ہیں۔ یعنی یہ کہ انہیں سمجھ کر ہم اپنی شخصیت اور شعور میں اضافہ کرتے ہیں۔
گویا یہ سارا سلسلہ کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ شعور کی تخلیق لاشعور سے ہوئی، تاہم شعور کے ذریعے ہی دنیا کی علامتی تخلیق ممکن ہوسکی۔ خارجی دنیا میں لاشعوری قوتوں اور اس کے بنیادی جذباتی سانچوں کا انعکاس ہی شعور کو بڑھاتا ہے اور اسے قوت بخشتا ہے مگر اس کی شرط یہ ہے کہ ہم لاشعور کی پیدا کردہ علامتوں کو شعور کے ذریعے اپنی شخصیت کاحصہ بنالیں۔ علامتوں کو شعوری طور پر ہضم کرنے کی وجہ سے انسان کی تخلیقی صلاحیت شعور کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ بڑھتی جائے گی۔ مگر یہ بات اہم ہے کہ تخلیق میں لاشعوری اور شعوری دونوں قوتوں کا اختلاط ضروری ہے۔ لاشعور تخلیق کامادی اصول ہے اور شعور پدری اصول۔ ساتھ ہی یہ بات بھی اہم ہے کہ شعور کا ارتقاء لاشعور کے بنیادی جذباتی سانچوں کے خارجی دنیا میں انعکاس، یعنی اس کے علامتی اظہار کو ہضم کرنے اوراسے شعوری طور پر سمجھنے سے ہی ممکن ہے۔
یہاں اقبالؔ کے شعر کو دوبارہ پڑھیے،
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق
میں نے پہلے کہا ہے کہ اقبالؔ کا مومن ایک تخلیقی انسان ہے۔ وہ خارجی دنیا کی تخلیق داخلی علامتوں کے ذریعے کرتا ہے۔ اس کے نزدیک آفاق میں گم ہوکر علامتوں سے رشتہ توڑلینا کفر ہے۔ شعور کی خارجی دنیا میں ضم ہوکر لاشعور سے رابطہ ختم کرلینا کفر ہے۔ زندگی کے مادی اصول کو چھوڑ کر صرف پدری اصول کے سہارے زندگی بسرکرنا کفر ہے اور زندگی کے تخلیقی اصول کو تج کر محض تنظیمی و عقلی اصول کو اپناکر بانجھ ہوجانا کفر ہے۔
تاہم اس کے برخلاف شعور کو تج کر کر لاشعور میں ضم ہوجانا موت ہے۔ پدری اصول کو چھوڑ کر محض مادری اصول کے تحت زندگی بسر کرنا خود فراموشی ہے اور موت کے مترادف ہے اور اقبالؔ کے ہاں موت حرکت کے منافی ہے اور اس لیے کفر ہے۔ آپ خود فراموشی کی دو قسمیں سمجھ لیجیے۔ پہلی وہ جس میں انسان لاشعور کی جنت میں کھوجانا چاہتا ہے اور اس طرح خارجی زندگی کے گناہ سے فرار حاصل کرتا ہے۔ اقبالؔ اس خودفراموشی کے خلاف ہے۔ بہ الفاظِ دیگر اقبالؔ اس خود فراموشی کے خلاف ہے جس میں انسان ترک کی ساری منزلوں سے گزر کر اپنی خودی کو بے خودی میں یا یوں کہیے کہ لاشعور میں ضم کردیتا ہے۔ اس طرح شعور کا قطرہ لاشعور کے دریا میں مل جاتا ہے، اور اسی کا نام ہے بے خودی اور ابدی سکون۔ دوسری خود فراموشی وہ ہے کہ انسان آفاق میں گم ہوجائے، یا اپنے شعور کو انبوہ کی بے شعوری میں ضم کردے اور اس طرح مرگِ ابنوہ کاجشن منائے۔
ان دونوں اقسام کی خود فراموشی کی مثالیں دیکھنی ہوں تو مشرق و مغرب میں دیکھیے۔ مشرق میں پہلی اور مغرب میں دوسری۔ مشرق کاکفر ’’بے ربطیٔ افکار‘‘ ہے اور مغرب کا’’لاوینئی افکار‘‘ ۔ مشرق میں سراسر عشق، او رمغرب میں سراسر عقل۔ مشرق میں مادری اور تخلیقی اصول حاوی ہے اور مغرب میں پدری اور عقلی اصول، اور اقبالؔ کے نزدیک صحیح تخلیقی زندگی وہ ہے جس میں عشق و جنون کی دیوانگی کے ساتھ خودی اور شعور کی فرزانگی بھی شامل ہو۔ جذباتی و مادری اصول کے ساتھ ساتھ عقلی و پدری اصول بھی کارفرماہو۔ اقبالؔ مشرق کے لیے یہ کہتا ہے کہ،
درجنوں از خود نہ رفتن کارِ ہر دیوانہ نیست
گویا اصل دیوانگی وہ ہے جس میں احساسِ خودی موجود ہو، خود فراموشی نہ ہو۔ اس طرح اقبالؔ پچھلے صوفیانہ فلسفہ کے خلاف ہے جس میں بقول فانیؔ اصلِ ایمان یہ تھا،
وحشتِ دل سے پھر ناہے اپنے خدا سے پھرجانا
دیوانے یہ ہوش نہیں ہے یہ تو ہوش پرستی ہے
اقبالؔ اس صوفیانہ فلسفہ کے خلاف اس لیے نہیں ہے کہ اس میں عمل نہیں ہے بلکہ اس لیے کہ یہ تخلیقی زندگی کی نفی ہے اور شاید اقبالؔ کے عمل کے معنی بھی تخلیقی عمل کے ہیں چاہے وہ شعر میں ہو یا فلسفہ میں، سائنس میں ہو یا سیاست میں۔
اسی طرح دوسری خودفراموشی کے لیے جس کا مظہر مغرب ہے، اقبالؔ یہ کہتے ہیں،
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑدے
ظاہر ہے کہ یہاں دل جذباتی و لاشعوری زندگی کی علامت ہے او رعقل شعوری زندگی کی اور ان ہر دوقوتوں کے اختلاط سے ہی تخلیق ممکن ہے۔ اقبالؔ بے شعلۂ جنوں افکار کو ذوقِ عمل کے لیے موت سمجھتے ہیں،
شعلہ ہے ترے جنوں کابے سوز
سن مجھ سے یہ نکتہ دل افروز
انجامِ خرد ہے بے حضوری
ہے فلسفۂ زندگی سے دوری
افکار کے نغمہ ہائے بے صوت
ہیں ذوقِ عمل کے واسطے موت
دیں مسلکِ زندگی کی تقویم
دیں سرِّ محمدؐ و ابراہیمؑ
دل در سخن محمدؐی بند
اے پورِ علیؓ زبو علی چند
اقبالؔ ’’تجلیاتِ کلیم‘‘ و مشاہداتِ حکیم کے اختلاط کے قائل ہیں کہ یہ اختلاط ہی اصل تخلیقی زندگی کا ضامن ہے،
وہ علم کم بصری جس میں ہم کنار نہیں
تجلیاتِ کلیم و مشاہداتِ حکیم
مگر اقبالؔ اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ تخلیق میں مادری اصول تخلیق کا مقصد اور پدری اصول محض اس کا ذریعہ ہے۔ حالانکہ تخلیق ان دونوں اصولوں کے مشترکہ عمل کانتیجہ ہے،
آیا کہاں سے نالۂ نے میں سرورِ مے
اصل اس کی نے نواز کا دل ہے کہ چوبِ نے
ایک بات اور ہے کہ اور وہ یہ کہ اقبالؔ یہ نکات ہمیں جن علامتوں کے ذریعے سمجھاتے ہیں وہ ہماری اپنی تہذیبی علامتیں ہیں۔ بوذرؓ، سلمانؓ، بلالؓ، علی مرتضیؓ، محمدؐ، ابراہیمؑ، کلیمؑ، خضرؑ وغیرہ، صرف تاریخی حقیقتیں ہی نہیں ہیں۔ یہ سب ہماری جذباتی علامتیں بھی ہیں۔ گویا اقبالؔ کے کلام کی روشنی میں جب ہم ان علامتوں کو سمجھتے ہیں تو ایک طرف تو اپنے شعور میں اضافہ کرتے ہیں اور دوسری طرف ان علامتوں کے ذریعے اپنی روح سے گفتگو کرتے ہیں اور روحانی زندگی کی تنظیم کرتے ہیں او ریہی علامتیں جن کے ساتھ ہماری جذباتی وابستگی ہے اور جو ہمارے لاشعور کا خارجی انعکاس ہیں، ہمارے طرزِ احساس کی تشکیل کرتی ہیں۔ اسی طرح ہماری دیگر تہذیبی علامتیں بھی ہمارے جذباتی رجحان کاتعین کرتی ہیں اور ہمارے طرزِ احساس کی تعمیر کرتی ہیں۔ ایک طرف تو ہماری زندگی کا روحانی اظہار (ادب، فنون، مذہب اور دیگر تہذیبی عناصر) ان علامتوں کو جنم دیتا ہے اور دوسری طرف یہی علامتیں ہماری تہذیبی و جذباتی زندگی کی حدود متعین کرتی ہیں۔ ہمارے طرزِ احساس و طرزِ فکر کی تشکیل کرتی ہیں اور ہمارے شعور کو بڑھاتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اسی بات کو یوں کہیے کہ ہمارا شعور صرف ہماری تہذیبی زندگی کی حدود میں ہی ترقی کرسکتا ہے اور ساتھ ہی تہذیبی زندگی کی حدود کو بڑھا سکتا ہے۔ اپنی اس بات کو واضح کرنے کے لیے میں ایک موٹی سی بات کہتا ہوں اور وہ یہ کہ کلیسائی مدرسوں میں اعلیٰ و ارفع ذہنوں کی تشکیل و پرورش نہیں ہوسکتی البتہ سی۔ ایس۔ پی قسم کے ذہن ضرور ڈھل سکتے ہیں۔
یہ بات تو ہوئی فرد کی۔ اب اس ساری بحث کو قومی زندگی سے منسلک کرلیجیے۔ جس طرح فرد اپنے احساسات، اپنے شعور اور اپنے نظریات سے قومی شعور اورقومی نظریات میں اضافہ کرتاہے اسی طرح قومی احساسات، قومی شعور اور قومی نظریات، آفاقی احساسات، آفاقی شعور اور آفاقی نظریات میں اضافہ کرتے ہیں اور کرسکتے ہیں مگر اس کے پہلے کی ایک شرط یہ ہے کہ فرد خود باشعور ہو، قوم کی اپنی نظر اور نظریات ہوں، ورنہ آفاقی فکر اورآفاقی نظر کے معنی صرف یورپ کی فکر اور امریکہ کی نظر رہ جاتے ہیں۔ قومی فکر و نظر (اور یہاں میں قومی فکر و نظر کی تشکیل کاضامن قومی تہذیب کو سمجھتا ہوں) کاآفاقی فکر و نظر میں ضم ہوجانے کا مطلب خود فراموشی ہے، موت ہے اور میراجی چاہتا ہے کہ میں اقبالؔ کا شعر ایک بار پھر پڑھوں،
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق
اپنے آپ میں گم ہوجانا، مجذوب ہونے یا پاگل ہونے کے مترادف ہے (اور ہمارے یہاں جانے کتنے پاگل مجذوب کہلاتے ہیں) ساتھ ہی آفاق میں ضم ہوکر اپنا شعور کھودینا تصنع اور کورانہ تقلید ہے۔ کسی قسم کی تخلیقی صلاحیت صرف اسی وقت ممکن ہے جب ہم میں شعورِ ذات موجود ہو۔ ’’درجنوں از خود نہ رفتن‘‘ والی کیفیت ہو۔ دیوانہ لاشعور میں ضم ہوجاتا ہے، وہ لاشعور کے خارجی اظہار کو شعوری تنظیم نہیں دے سکتا (اسی کی ایک شکل آج کی بیشتر نظمیں ہیں جن میں لاشعوری اظہار بلاکسی شعوری تنظیم کے کاغذ پر بکھر جاتاہے) بالکل اسی طرح قومی شعور کو آفاقی شعور میں ضم کردینا کورانہ تقلید ہے اور تخلیق کے منافی ہے۔
جس طرح فرد کے شعور میں اضافہ لاشعور سے منعکس شدہ علامتوں کو سمجھنے سے ہوتاہے۔ اسی طرح قومی شعور میں اضافہ بھی قوم کی تہذیبی علامتوں کو شعور کے ذریعے سمجھنے اور ہضم کرنے سے ہی ممکن ہے۔ جب ہماری علامتیں اپنے آپ کو دہراتی ہیں تو ہم یہ کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ ورنہ تاریخ کے دہرانے کایہ مطلب نہیں ہوتاکہ علاؤالدین اپنے چچا جلال الدین کو قتل کرنے کے لیے دوبارہ پیدا ہوتا ہے۔ ہماری علامتیں ہی ہمارے جذباتی ردِّعمل اور احساسات کی راہ متعین کرتی ہیں اور ہم ان کے ذریعے دنیا کو سمجھتے ہیں اور چونکہ یہی علامتیں ہماری تہذیبی زندگی کی تشکیل بھی کرتی ہیں۔ اس لیے یہ قوم کے افراد کو اپنے گرد جمع کرتی ہیں اور افراد ان کے گرد جمع ہوکر اپنی اقداری زندگی کو مقداری زندگی کے توسل سے ظاہر کرتے ہیں۔ کسی قوم کے انحطاط کاسبب یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے علائم کو بھول جاتی ہے جو اس کے افراد کی جذباتی زندگی کو مربوط رکھنے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ یہ انحطاط سیاسی اور سماجی ہونے سے پہلے جذباتی زندگی کاانحطاط ہوتاہے۔ تاہم قوم کے تخلیقی ذہن اپنی علامتوں کو اپنے اندر رچائے بسائے ہوتے ہیں اور انہیں علامتوں کے ذریعے اپنے لاشعور سے رابطہ قائم رکھتے ہیں۔
اب اگر ادیب اور فن کار، قوم کے تخلیقی ذہن، اپنی علامتوں کو دہراتے ہوئے دیکھتے ہیں (چاہے وہ الجزائر میں ہوں یا مصر میں) تو وہ جذباتی طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ ان کے لیے الجزائری نوجوان، بوڑھوں اور بچوں کی قربانی، عورتوں کی اسیری، یہ سب چیزیں، قربانی، شجاعت، حریث اور باطل کے آگے سر نہ جھکانے کی علامت بن جاتی ہیں اور انہیں باتوں کی علامت حضرت ابراہیمؑ اور حضرتِ حسینؓ ہیں جن کے باعث ہماری جذباتی زندگی اور ہمارے طرزِ احساس کی موجودہ شکل متعین ہوئی ہے۔
انہیں باتوں کے پیش نظر ہم ان تخلیقی محرکات کو سمجھ سکتے ہیں، جن کے زیر اثر الجزائر کے موضوع پر بہتر افسانے، نظمیں اور مضامین لکھے گئے اور الجزائر کاموضوع اردو ادب میں داخل ہوا اور اسی کے پیش نظر ہم یہ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ہنگری، کیوبا، کینیا اور انگولا وغیرہ کا موضوع اردو ادب میں کیوں داخل نہ ہوسکا۔
ممکن ہے یہاں یہ کہنے کی گنجائش نکل آئے کہ ہم علامتی فکر و نظر سے آفاقی فکر و نظر نکال سکتے ہیں مگر یہ بات نہ بھولنی چاہیے کہ جب آپ علامت سے اصول کو الگ کریں گے اور اس طرح آفاقی فکر و نظر کی تخلیق کریں گے تو اس وقت یہ آفاقی فکر و نظر تجریدی نعروں کی شکل میں ظاہر ہوگی۔ مگر تخلیق تجریدی نعروں سے نہیں تجسیمی علامتوں سے وجود میں آتی ہے۔ تخلیق آفاقی فکر و نظر کے تحت نہیں ہوتی بلکہ علامتی فکر و نظر کے زیراثر ہوتی ہے اور یہ بات زندگی کے لیے بھی اتنی ہی صحیح ہے جتنی کہ ادب کے لیے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.