قرات اور مکالمہ
پڑھنے کے عمل کو عربی میں قرأت کہتے ہیں۔ اب تک میں صرف قرآن پڑھنے کو قرأت سمجھتا تھا لیکن جب اردو تنقید میں انگریزی نظریۂ نقد نے اپنا پنجہ گاڑا تو متون کے مطالعے یا پڑھنے کے لیے ’قرأت‘ لفظ استعمال ہونے لگا۔ جب Reader-Oriented Criticism یا Reader-Response Criticism یا Reception Theory نے اپنے پاؤں پسارے، تو اردو میں قاری اساس تنقید جیسی ترکیب استعمال ہونے لگی اور Reading کے لیے لفظ قرأت رائج ہوگیا۔ لہٰذا اردو زبان و ادب کا ایک قاری ہونے کی حیثیت سے مجھے اب یہ لفظ اجنبی نہیں لگتا اور ذہن یہ قبول کرچلا ہے کہ قرآن کی قرأت کے علاوہ کسی بھی متن کے پڑھنے کو قرأت سے موسوم کیا جاسکتا ہے۔
کسی بھی متن کو پڑھنا کیوں ضروری ہے؟ کیا اس دنیا میں آپ نے سنا ہے کہ کسی شخص نے غالب کے دیوان پر محض ہاتھ پھیرا ہو یا منہ سے چوما ہو اور اس سے معانی و مفاہیم کے دھارے پھوٹ پڑے ہوں؟ کیا ایسی کوئی مشین یا کوئی جادو وقوع پذیر ہوا ہے کہ جس کے سبب کوئی متن اپنے باطن کے خزانے یا معانی اُگل دے؟ کیا دنیا کی کسی حسینہ میں یہ صلاحیت ہے کہ اپنی کن اَنکھیوں سے متن کو دیکھے اور تعبیرات اور معانی کی جھڑی لگ جائے؟ کیا کسی دیش کے صدر یا وزیراعظم یا برّی و بحری فوج کے سربراہ میں یہ قوت ہے کہ وہ اپنے منصب کا استعمال کرکے معمولی سے معمولی یا کمزور سے کمزور متن سے معانی اُگلوا سکے؟ نہیں نا؟ پتہ یہ چلا کہ متن سے معانی برآمد کرنے یا محظوظ ہونے کے لیے اس کی قرأت ناگزیر ہے۔
قرأت سرّی اور جہری دونوں ہوسکتی ہے۔ یہ وقت، متن اور قاری کی ذہنی ساخت پر منحصر کرتا ہے۔ کبھی بغیر معنی خیزی کے لیے پڑھ کر متن سے محض لطف اندوز ہونا ہے تو جہری قرأت ہوسکتی ہے۔ کبھی کوئی متن ایک سے زیادہ مرتبہ قرأت کا متقاضی ہوسکتا ہے۔ کبھی کبھی بغور اور سرّی قرأت سے معانی تک رسائی ہوپاتی ہے۔ زیادہ تر قرأت ایک خاموش اور یکسوئی کا عمل ہے۔ بھیڑبھاڑ یا شور و غل میں متن اور قاری کے مابین رابطہ ٹوٹتا رہتا ہے۔ کبھی کبھی آپ جس طرح متن کو بے معنی اور ازکار رفتہ سمجھ کر پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں اُسی طرح متن بھی قاری کو کبھی کبھی ٹھینگا دکھا دیتا ہے۔ وہ بھی قاری کا منہ چڑاتا ہے۔ جس طرح ہم آپ متن کی اوقات پر گفتگو کرتے ہیں، اس کے ڈھیلے پن اور اس کی فرسودگی کو زیربحث لاتے ہیں، متن بھی قاری کی بے ذوقی یا بدذوقی اور کچے تنقیدی شعور کو کوستا ہے۔ ’قرأت‘ مصنف، متن اور قاری کو ہم آہنگ اور ایک دوسرے کا ہم راز کرنے کا ایک عمل ہے۔ قاری جس قدر ہنرمند اور تربیت یافتہ ہوتا ہے، متن سے معانی کی کرنیں اسی قدر پھوٹتی ہیں۔ متن سے گفتگو اور مکالمے کے بغیر معانی و مفاہیم تک رسائی حاصل کرنا میرے نزدیک ناممکنات میں سے ہے۔ گرچہ یہ مکالمہ خودکلامی کی طرح کا ہوتا ہے لیکن سامنے متن موجود ہوتا ہے۔ یہ ایک بے زبان جانور یا ذی روح کی طرح ہے۔ اپنے مکالمے کے ساتھ ساتھ اس کے مکالمے بھی آپ کو خود وضع کرنے پڑتے ہیں۔
قرأت کی اہمیت متن کے حوالے سے یوں بڑھ جاتی ہے کہ بغیر اس کے Text ایک بے جان شے ہے، بلکہ جمادات کے زمرے میں ہے۔ جب ایک قاری اس کی قرأت کرتا ہے تو متن کھُلتا ہے اور اس کی گہرائی اور اس کا جمالیاتی پہلو سامنے آتا ہے۔ مصنف متن بنانے میں کتنا کامیاب ہوا اور اس میں پیش کردہ مضمون کی ترسیل کس خوبصورتی سے ہوپائی ہے، اس کا دار و مدار قرأت پر ہے۔ یہ قرأت خواہ کلاس روم میں کی جائے یا تنہائی میں۔ کسی بھی ادبی متن کے لیے وولف گینگ ایزر۱؎ Wolfgang Iser (پیدائش: 1926) نے Artistic اور Aesthetic جیسے دو Poles کا ذکر کیا ہے:
The artistic refers to the text created by the author and the aesthetic to the realization accomplished by the reader.”
آگے چل کر مزید وضاحت کی گئی ہے کہ دراصل متن کی واقعی تکمیل اس کی قرأت کے بعد ہی ہوتی ہے۔ اگر قاری کسی متن کو پڑھتا نہیں تو اس کے Inherent Characters غیاب ہی میں رہتے ہیں۔ قاری اور متن کے ملنے اور مکالمے سے جو صورتِ حال پیدا ہوتی ہے، دراصل ادبی متن اسی کا متقاضی ہوتا ہے۔Iserلکھتا ہے:
The convergence of text and reader brings the literary work into existence, and this convergence never be precisely pinpointed, but must always remain virtual. 1
حقیقت یہی ہے کہ جب آپ کسی شعر کے الفاظ پر اپنی نظریں گاڑے ہوئے اس کی قرأت کرتے ہیں تو دو سطحوں پر یہ عمل سامنے آتا ہے۔ ایک تو آپ کی آنکھیں جو متن کو دیکھتی ہیں اور پھر آپ کے ہونٹ اور آپ کی زبان، جو قرأت کے دوران متحرک ہوتے ہیں۔ یہ دونوں سطحیں ظاہری ہیں۔ اس کے ساتھ ہی آپ کے اندر ان الفاظ کے معانی کھلتے ہیں۔ ہوسکتا ہے شعر میں کوئی ایسا لفظ ہو جسے آپ پہلی بار دیکھ اور پڑھ رہے ہیں ، تو پھر قرأت کے عمل میں قدرے رکاوٹ ہوتی ہے۔ ممکن ہے آپ قیاسی معنی سے کام بھی چلا لیں۔لغت دیکھنے سے قرأت کا جو اپنا ایک لطف ہوتا ہے، وہ بھی مجروح ہوتا ہے۔ لہٰذا کبھی کبھی معنی دیکھے بغیر بھی ہم قرأت کے عمل سے گزرتے ہیں۔ اسی لیے قرأت اور باز قرأت سے معانی کے زیادہ کھُلنے کی باتیں کی جاتی ہیں۔ بلکہ سارے الفاظ کے معانی آپ جانتے ہوتے ہیں، جب بھی کئی بار قرأت کرنے سے معانی کی پرتیں زیادہ کھُلتی ہیں۔ متن اور قاری کے Convergence کا مطلب یہ ہے کہ دونوں میں ایک طرح کا ملاپ (کبھی کبھی تصادم) اور مکالمہ ہوتا ہے۔ متن اور قاری کی اس یکجائی (Convergence) کے حوالے سے ناصر عباس نیر لکھتے ہیں:
’’جب متن اور قاری یکجا ہوتے ہیں تو اس یکجائی کے آفتاب کی کرنیں متن اور قاری کی عمیق ترین تہوں کو روشن کرنے لگتی ہیں… ادراک (محض متن کی) موجودگی کا علم ہے، مگر قرأت موجودگی کو محسوس کرتی، اس کے نہاں مقامات میں سفر کرتی اور ایک مسلسل جمالیاتی کیفیت سے گزرتی ہے۔ متعدد معانی کے پیہم بدلتے منظر نامے اور کثرت کو ایک کُل میں ڈھلتے دیکھتی ہے۔ 2؎
متن دور سے سلام کرنے والے قاری کو کبھی خاطر میں نہیں لاتا۔ ہاں، اگر اخبار کی قرأت کررہا ہو تو قاری اور متن میں Convergence کی بات نہیں کی جاتی۔ قاری متن سے دوستی کرکے جب اس سے ہم کلام ہوتا ہے تو اس کی حقیقت آشکار ہونے لگتی ہے۔ یہی وہ مقام ہوتا ہے جب موضوع اور معروض برابر ہوجاتے ہیں۔
پروفیسر گوپی چند نارنگ نے گدامر (Gadamer)کے حوالے سے لکھا ہے:
’’یک طرفہ مکالمے کو وہ جھوٹا مکالمہ کہتا ہے۔ سچا مکالمہ دو طرفہ ہوتا ہے۔ اس میں طرفین اپنی اپنی شناخت کو برقرار بھی رکھتے ہیں اور ایک دوسرے سے استفادہ بھی کرتے ہیں۔ گدامر کا کہنا ہے کہ کسی متن کو سمجھنا ایسا ہے جیسے ہم کسی شخص کو سمجھ رہے ہوں۔‘‘ 3؎
قرأت کے دوران یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم شاعری کی قرأت اس میں پیش ہونے والے مضمون یا Subject matter تک رسائی حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں؟ شاید یہ بالکلیہ درست نہیں۔ یوں بھی جو خیال مضمون کی شکل میں شاعری یا فنکار کے ذہن میں آتا ہے، صفحۂ قرطاس تک آتے آتے اس کا پچاس فی صد حصہ ہی رہ جاتا ہے۔ جب قاری اس کی قرأت کرتا ہے تو اُسے بھی کم و بیش اپنے Imagination کے ذریعہ شاعر کے اس عمل سے گزرنا پڑتا ہے جس سے شاعر گزرا ہوتا ہے۔ اس کے باوجود وہ پوری طرح معانی و مفاہیم کو اپنی گرفت میں نہیں لے سکتا کہ متن بنانے والے اور قاری کی ذہنی افتاد اور سیاسی و سماجی حالات مختلف ہوسکتے ہیں۔ تہذیبی و ثقافتی Nuances الگ ہوسکتے ہیں۔ قرأت سے صرف معانی کی پرتیں ہی نہیں کھلتیں بلکہ متن کا وہ تہذیبی و ثقافتی اور سیاسی و سماجی سیاق بھی اُبھرتا ہے جس میں متن خلق ہوا ہوتا ہے۔ متن بنانے والے کی ذہنی ساخت اور اس کے نجی محسوسات اور جس ماحول کا وہ پروردہ ہے، وہ بھی متن کی چادر سے جھانکنے لگتا ہے؛ جو قاری جس قدر اعلا ذوق اور علمی و فور سے لیس ہوگا، متن کے باطن میں اتر کر اس کے خزانے تک اُسی حد تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب ہم کسی متن کو ایک آئینہ تصور کرتے ہیں تو ہمارے اندر کے تصورات اس میں نظر آنے لگتے ہیں۔ اخذ معانی کے لیے یہ ضروری ہے کہ Illusionپیدا ہو۔ اگر سب کچھ صاف صاف ہے تو قاری کا Imagination مجروح ہوتا ہے۔ شاعر یا فنکار نے جو کچھ بھی اپنے تجربات یا مشاہدات کو Text کی شکل میں پیش کیا ہے اس کی مختلف جہتوں اور سطحوں کو گرفت میں لانے کے لیے Illusion کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ یہ Illusion فنکار یا شاعر پیدا کرتا ہے۔ لیکن اس کے Overdose سے متن مجروح بھی ہوتا ہے۔ بلکہ کبھی کبھی متن غیراہم ہوجاتا ہے اور وہاں تاریکی چھا جاتی ہے۔ قاری جب متن سے کوئی تصویر بناتا ہے تو اس کے لیے Imagination سے کام لیتا ہے۔ لیکن یہ خیال آرائی Gestalt بناتا ہے جس میں استحکام اور استقامت کم ہوتی ہے۔ جب ہم کسی فن پارے کے Whole meaning کو متصور کرتے ہیں تو اسے Gestalt سے موسوم کرتے ہیں۔ لیکن دراصل یہ معنی خیزی متن کی کُلّی تعبیر پیش نہیں کرتی، کیوں کہ دراصل یہ Configurative meaning ہی ہوتا ہے۔ لہٰذا جب قاری کسی متن کو سمجھتا ہے تو وہاں اس کا ذاتی فہم و ادراک کام کرتا ہے اور اس میں اس کی اپنی توقعات بھی پوشیدہ ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھی ہم اپنے لحاظ سے ہی بلکہ اپنے کام کے معنی اخذ کرتے ہیں۔ یہ ’قرأت ‘ بالکل نجی ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ متنPolysymanticیعنی کثیر معنوی ہو لیکن ہم صرف اس کے ایک پہلو پر نظر رکھتے ہوں۔ (یہ بھی پڑھیں آخری سواریاں:ایک مطالعہ – ڈاکٹر شہناز رحمن )
ایزر (Iser)لکھتا ہے:
The text provokes certain expectations which in turn we project onto the text in such a way that we reduce the polysmantic possibilities to a single interpretation in keeping with the expectations aroused these extracting an individual, configurative meaning.” 4
اسٹینلے فِش (Stanley Fish) نے متن سے معنی یابی کے لیے تعبیری گروہ کا ذکر کیا ہے جو قاری کی حکمت عملی سے ممکن ہوتا ہے۔ وہ جس طرح چاہتا ہے ایک ہی متن کے معنی مختلف اوقات میں مختلف بتاتا ہے۔ اس گروہ کے بارے میں فِش کہتا ہے:
Interpretive communities are made up of those who share interpretive strategies not for reading (in the conventional sense) but for writing texts, for constituting their properties and assigning their intensions.” 5
بے شک قاری کو یہ آزادی ہے کہ وہ متن سے معنی اخذ کرے اور اپنی طرح کرے، لیکن وہ اس قدر بھی آزاد نہیں کہ اس متن کو اس کی اصل سے اتنی دور لے جائے کہ متن اور اس میں سانس لیتے ہوئے تہذیبی اور ثقافتی نشانات و علامات (Cultural Signs) کا دم پھولنے لگے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ متن کا ہر ایک لفظ ایک ثقافتی نشان (Cultural Code) ہوتا ہے، اس لیے آزادی کے ساتھ متن کے سیاق اور متن کار (مصنف، شاعر، فنکار) کے اپنے تہذیبی تناظر اور اس کے اپنے تحفظات و تعصبات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ کسی بھی ادبی متن کی قرأت میں اس جمالیاتی اور ثقافتی ہالے (Aura) کا لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اسی لیے تفہیمیاتی طرزتنقید یعنی Hermeneuticsکے لحاظ سے متن کے حوادث اور ماحولیاتی سائیکی سے متن کا گہرا رشتہ ہوتا ہے۔ ہنس جارج گدامر (Hans George Gadamer) نے تو اپنی کتاب Truth & Method میں یہ تک لکھا کہ کسی بھی متن کی قرأت ماضی اور حال کو جوڑنے کا کام کرتی ہے اور اس قرأت کے عمل میں ہم اپنے تہذیبی تعصبات سے خود کو بچا نہیں سکتے۔ (یہ بھی پڑھیں استعارہ ، حقیقت سازی اورمعنی کی گردش- ڈاکٹر ناصر عباس نیّر)
یہاں ڈاکٹر مولابخش کی رائے برمحل ہوگی جو انھوں نے قاری اساس تنقید پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے دی ہے۔ ان سوالوں میں جو کُرید یا جستجو ہے وہ متن اور قرأت کے حوالے سے ہمیں مزید باخبر اور چوکنّا کرتی ہے۔ لکھتے ہیں:
’’متن کو کون تشکیل دیتا ہے، صرف مصنف؟ مصنف کہاں پیدا ہوتا ہے؟ خلا میں؟ نہیں! مصنف کسی نہ کسی سماج اور تہذیب و ثقافت کا پروردہ ہوتا ہے۔ مصنف نے جو متن خلق کیا اس کی صنف کس نے بنائی ہے؟ کیا مصنف نے؟ نہیں! زبان جو وہ استعمال کرتا ہے، اس کا روزمرہ، اس کے محاورے، اس کی ترکیبیں علائم امثال، جملوں کی ساخت و غیرہ کیا اُسی مصنف نے بنائی ہیں جس نے متن خلق کیا ہے؟ نہیں! اُسی نے قافیے، ردیف، بند، مصرعے، اوزان، بحور کا تصور دیا ہے؟ نہیں! ….. سوال ابھرتا ہے کہ مصنف مذکورہ بالا اہم اصولوں کا خالق نہیں تو پھر کیا ہے؟ متن کا بنانے والا کون ہے؟ مصنف نہیں تو اور کون؟ جواب یہ ہے کہ مذکورہ بالا اصول ادبی شعریات یا ’لانگ‘ ہے جو پہلے سے ہماری ثقافت میں موجود ہے یا ادبی تہذیب میں موجود ہے۔ اس لیے فن پاروں کا اصل مصنف ثقافتی نظام (شعریات، لانگ یعنی نظام اکبر) ہے۔ مصنف شعریات کا خوشہ چیں یا ایک عامل یا ایک مولف ہے۔‘‘ 6؎
اگر پس ساختیات کی رو سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ متن کی فطرت چوں کہ داخلی ہوتی ہے اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں متن ہی متن کا تعین کرتا ہے۔ متن چوں کہ زبان سے بنتا ہے اس لیے زبان کا اہم رول ہوتا ہے۔ زبان ہی ترسیل کا ذریعہ ہوتی ہے۔ ایک فرد زبان کے ذریعے اپنے تجربات اور مشاہدات کو پیش کرتا ہے۔ گرچہ یہ عمل فرد سے شروع ہوتا ہے لیکن اس کے معانی جب کھُلتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس زبان کی چھتری تلے پورا معاشرہ سانس لے رہا ہے۔ ہماری پوری تہذیبی زندگی اور ثقافتی نشانات متحرک ہوتے ہیں۔(یہ بھی پڑھیں ندا فاضلی کا تخلیقی گاؤں – پروفیسر کوثر مظہری)
ہیرالڈ بلوم (Herald Bloome) نے اپنی کتاب A map of Misreading (1975) میں Tropology کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس میں یہ ہے کہ یہ بدیعیاتی تصور کو مزید وسعت بخشتی ہے۔ اس کی توجیحات اور ترجیحات کو بلوم نے غلط بتایا۔ حالاں کہ اس سے کسی طرح کے خطرے سے زیادہ متن کے معانی کی زیادہ سے زیادہ پرتیں کھلنے کے امکانات ہوتے ہیں۔ ٹروپ (Trope) باطنی سطح پر حقیقت (Reality) سے جو مخصوص نظام ترتیب پاتا ہے، اُسے ظاہر کرتا ہے اور لسانی معنیات پر روشنی ڈالتا ہے۔ ا س کے ذیل میں ہم استعارہ، مجاز اور دوسری صنعتوں کی روشنی میں متن کی توضیح کرتے ہیں۔ یہ عمل ایک طرح سے متن کی باطنی ساخت کو سمجھنے میں معاون ہی ہوتا ہے۔ ڈرائیڈن نے بھی اس کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ آگے ذکر آئے گا۔ اگر ہم مظہریت (Phenomenology) کی رو سے دیکھیں تو یہ کہتی ہے کہ ہم اپنے شعور کے ذریعہ حقیقت تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ دورانِ قرأت قاری معانی کہیں خارج سے نہیںلاتا بلکہ اس کے ذہن میں پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔ مظہریت کے ذریعہ یہ بھی اہم ہوتا ہے کہ قرأت کی مدد سے مصنف کے ذہن و شعور کا پتہ لگ سکے۔ ادب پارے کی تفہیم کے ذریعہ شاعر یا ادیب کی ذہنی ساخت تک پہنچنا ضروری ہے۔ میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ متن کے ذریعہ متن کار کے اپنے تحفظات و تعصبات اور تہذیبی سروکار کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اس کے لیے الفاظ کو بطور کلچرل کوڈ کے سمجھنا ضروری ہے۔ الفاظ اس قدر Naked نہیں ہوتے جس قدر ہم انھیں بعض دفعہ تصور کرلیتے ہیں۔ جرمن فلسفی Edmund Hussrel (1859-1938) نے مظہریت کو متن کی قرأت اور معنی خیزی و معنی آفرینی کے لیے ایک اہم نظریے کے طور پر استعمال کیا اور کہا کہ انسانی ذہن تمام تر معانی کا مبداء و مرجع ہے۔ قرأت سے انسانی شعور کا بھی تجزیہ ہوتا جاتا ہے۔ یہاں شعور کا تصور تقریباً جامد تھا اور وجود کی حیثیت اس سے الگ تھی۔ بعد میں ہاہیڈیگر (Heidiegger) نے اپنی کتاب (Being & Time, 1927) میں اس تصور میں تبدیلی کی۔ یہ کتاب انگریزی میں 1962 میں ترجمہ ہوکر آئی۔ اس کے حوالے سے پروفیسر گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں:
’’شعور کا تصور جامد طور پر نہیں، جدلیاتی طور پر کرنا چاہیے، بلکہ وجود ہی شعور ہے۔ بقول ہائیڈیگر انسانی وجود کا امتیاز اس کے ’دئیے ہوئے ہونے‘ (Givenness) میں ہے، جس کو وہ دازائن (Dasein) کہتا ہے۔ ہمارا شعور بہ یک وقت دنیا کی اشیا کا ادراک بھی کرتا ہے اور ان کے ذریعہ متشکل بھی ہوتا ہے۔ انسانی وجود کی اصل اس کا ’دیا ہوا ہونا‘ ہے اور اس کے رد یا قبول میں ا نسان کا کوئی اختیار نہیں… ہم اس سے ہٹ کر اور اس سے باہر ہوکر نہیں سوچ سکتے۔‘‘ 7؎
بے شک ہم سب دیے ہوئے ہونے (Givenness) کے تابع ہیں لیکن ہمیں کائنات اور دنیا کی حقیقت بھی بتا دی گئی ہے۔ اسGivennessکی وسعت اور حدود سے ہم واقف نہیں ہوتے۔ شاید ہائیڈیگر کی نظر سے اس ’دئے ہوئے ہونے‘ کی حد اور اس کے امکانات اوجھل تھے۔ میرا تو ماننا ہے کہ اسGivennessسے آگے انسانی شعور کے لیے کچھ ہے ہی نہیں۔ ع عرش سے اُدھر ہوتا کاشکے مکاں اپنا۔ رداور قبول بھی انسانی اختیار میں ہے۔ ہم اس سے ہٹ کر اور اس سے باہر بھی سوچنے پر قادر ہیں۔ یعنی یہ کہ ہم جہاں تک چاہیں سوچیں، کیوں کہ ہماری حد ہمیں معلوم نہیں۔ یہGivennessکا سرمایہ ہمارے پاس ہی ہے لیکن اس کی وسعت اور حد ہم پر واضح نہیں۔ اگر ہم ایزر (Iser) کے دیے ہوئے دو الفاظ فنی (Artistic) اور جمالیاتی (Aesthetical) کا استعمال کریں (جس کا حوالہ پہلے آچکا ہے) تو متن اور قاری کے درمیان اسGivennessکی رو سے ایک طویل مسافت اور وسیع کائنات خلق ہوتی نظر آتی ہے۔ فنّی سرا یعنی متن کا سرا اس کے خالق (مصنف) کے ہاتھ اور دوسرا جمالیاتی سرا اس متن کے قاری کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ مصنف جنوبی افریقہ کے کسی گاؤں کا ہو اور اس کے متن کا قاری ہندوستان میں علی گڑھ یا دہلی کے اردو بازار کا باشندہ ہو۔ اب دونوں کے شعور میں جو بُعد (زمانی، تہذیبی، لسانی، جغرافیائی) ہوگاوہ اسGivennessکے دائرے کو مزید وسیع کردے گا۔ اس لیے ہائیڈیگر نے اس کے حوالے سے منفی رویے کی جو بات کی ہے وہ محض غلط ہے۔ مظہریاتی تنقید کو یوں بھی سب سے زیادہIserنے موضوع گفتگو بنایا اور قرأت، اس کے نفاذ اور اس کے اہم نکات پر روشنی ڈالی۔
اگر معروضی مطالعے کی بات کی جائے تو قرأت کے دوران ہماری پوری توجہ متن پر ہونی چاہیے۔ لیکن اسے پوری طرح تسلیم نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ خود متن مصنف کے تہذیبی تناظر اور اس کی افتاد طبع کی چغلی کھاتا ہے۔ حالاں کہ سوسیور (Saussure) نے یہ کہا تھا کہ :
The bound between the signifier and the signified is arbitrary.” 8
دال اور مدلول کا رشتہ Arbitrary قطعی نہیں ہوتا۔ مجھے یہ کہنے دیجیے کہ اگر Text میں یہ رویہ تسلیم کرلیا جائے تو گویا مصنف اور متن و معنی کا باہمی رشتہ بھی ریت کی دیوار کی طرح ڈھے جاتا ہے۔ دال جو الفاظ کی شکل میں ہے اور الفاظ کی جو مختلف جہتیں اور اظہاری شکلیں ہیں، وہ سب کے سب مجروح و مسخ ہوجائیں گی۔ پھر یہ کہ ٹیری ایگلٹن (Terry Eagleton) نے لکھا ہے:
The text is a tissue of meanings” 9؎
جب ہم Tissue کی بات کرتے ہیں تو Arbitrary کچھ نہیں رہ جاتا۔ بائیولوجی میں ٹیشو کہتے ہیں A group of Cells کو۔ گویا متن میں ان گنت Cells ہوتے ہیں۔ متن میں کچھ بھی ازخود نہیں آتا اور اگر وہبی یا الہامی طور پر آبھی گیا، تو شاعر یا ادیب اس متن کو تخلیقی عمل کی تکمیل کے بعد پڑھتا بھی ہے۔ اگر پہلے نہیں، تو بعد میں وہ اپنے متن پر ایک تنقیدی نظر بھی ڈالتا ہے۔ یعنی، متن کا پہلا قاری خود مصنف ہوتا ہے۔ جہاں تک متن و معنی کے رشتے پر میں نے غور کیا ہے، اس کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ہاں کبھی کبھی مابعد الطبعیاتی اور ماورائی تناظر خلق ضرور ہوتا ہے۔ اسی لیے بین السطور اور ماورائے متن معانی کی بات بھی کی جاتی ہے۔ قرأت کے دوران جب ہم متن سے روبرو ہوکر مکالمہ کرتے ہیں تو کبھی کبھی ہم خود کو Transcend ہوتا ہوا بھی محسوس کرتے ہیں۔ یہ دراصل قرأت کا جادو ہے یا پھر متن کی بُنت اور معروض سبجیکٹ کی پیش کش اور ہنرمندی (Craftsmanship) ہے، جس کے سبب ہم ایسا محسوس کرتے ہیں۔ ایسے میں ہم شعر یا متن کی تشریح پوری طرح نہیں کرپاتے، بس یوں ہوتا ہے کہ متن اپنے وجود، معنیاتی نظام (Semantics) اور جمالیاتی و تہذیبی نشانات کے ساتھ قاری کے خون میں سیّال کی شکل میں حلول کرجاتا ہے۔ ایسے میں قاری اندر سے حیرت ناک، اضطراب آمیز سرخوشی و سرشاری محسوس کرتا ہے۔ ٹھوس معنی تحلیل ہوچکا ہوتا ہے۔ شایدیہی وہ مقام کیف ہے جس کو پروفیسر حامدی کاشمیری ’اکتشاف‘ سے موسوم کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’تنقید کا کام، جیسا کہ ذکر ہوا، شعری لسانیات کے وسیلے سے تخیلی دنیا کی سایہ گوں فضاؤں میں صاعقہ پوش وقوعات کی شناخت کرنا ہے اور قاری کو ان کی ندرت، معنویت اور جمالیاتی تاثیر کا احساس دلاناہے، یعنی تنقید ایک اکتشافی کردار انجام دیتا ہے۔‘‘ 10؎
یہاں ’سایہ گوں فضاؤں‘ اور ’صاعقہ پوش وقوعات‘ سے بہت زیادہ خائف ہونے کی چنداں ضرورت نہیں، جو کام کی بات ہے، اُسی پر غور کریں۔ میں نے اوپر جس ٹھوس معنی کے تحلیل ہونے کی بات کی، ایسا تجربہ ہر نوع کے متن یا ہر نوع کے قاری کے ساتھ نہیں ہوتا۔ یہ ایک Rare تجربہ ہوتا ہے۔ اگر ایسے میں دال اور مدلول Arbitrary ہیں تو مجھے اس کے اثبات میں ذرا بھی تامل نہیں۔ میں کچھ دیر کے لیے قرأت کے عمل کو Arbitrary تسلیم کرتا ہوں کہ قاری بہرحال پابند نہیں ہے کہ منشائے مصنف یا کسی اور قاری کی طرح ہی معنی اخذ کرے۔ ممکن ہے کہ جس شعر کو ہم مجازی تصور کرتے ہوں کسی دوسرے قاری کے نزدیک وہ خالص مطلق حقیقت اور تصوف کا شعر ہو یا پھر وہ سائنسی نظریات کے کسی گوشے کو روشن کرتا ہو۔ ڈاکٹر وہاب قیصر، پروفیسر محمد مستقیم، ڈاکٹر عبیدالرحمن وغیرہ نے غالب کے بہت سے اشعار کی تعبیریں سائنسی نقطہ ہائے نظر سے پیش کی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک عام قاری یا ایسا قاری جس کی صرف اردو شاعری تک رسائی ہے یا یہ کہ دنیا کے دوسرے علوم سے واقف نہیں، وہ غالب کے شعروں کی مذکورہ بالاسائنسی توجیحات سے لطف اندوز نہیں ہوسکتا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قاری کے سامنے متن بنانے والا نہیں ہوتا اور متن بنانے والے (مصنف) کے سامنے قاری نہیں ہوتا۔ اس عمل میں دونوں اپنی اپنی جگہ اپنے اپنے طور پر آزاد ہیں اور اس میں کسی طرح کی کوئی قباحت نہیں۔ لیکن غورکرنے کی بات یہ ہے کہ دونوں ایک دسرے سے محو گفتگو ہوتے ہیں اور یہ متن کا کمال ہے جو دونوں کو جوڑنے میں ایک پُل کا سا کام کرتا ہے۔ سوسن اسٹوارٹ (Susan Stewart) کا یہ اقتباس اس ذیل میں بامعنی ہوسکتا ہے:
The marks in the margins of the page are the marks of writing not the marks of reading. The reader speaks only to the absent writer, the writer speaks only to the absent reader. ” 11؎
قاری دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک تو عام قاری اور دوسرا نقاد قاری۔ عام قاری کی بھی کئی قسمیں ہوسکتی ہیں اور نقاد قاری کی بھی۔ اوپر کے اقتباس میں ہم نے دیکھا کہ دو غائبین/ دو حاضرین متن اور معنی تشکیل دیتے ہیں۔ ایک قاری غالب کا شعری متن پڑھ کر ایک معنی اخذ کرتا ہے اور جب وہ اسی شعری متن کی مختلف تشریحات کا مطالعہ کرتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ گیان چند جین نے کچھ اور معانی اخذ کیے ہیں تو فاروقی نے کچھ اور۔ حسرت موہانی نے ایک معنی اخذ کیا ہے تو سُہا مجدّدی نے دوسرا معنی مرادلیا ہے۔ وہی متن جب ترجمہ نگاروں کے ہاتھ لگ گیا ہے تو عینی آپا اور سردار جعفری کچھ اور معنی اخذ کرتے ہیں تو محمد ذاکر اور سرفراز نیازی کچھ اور۔ پون کمار ورما نے کچھ اور سمجھا ہے تو اوپی کیجری وال نے کچھ اور۔ بے چارہ مصنف جو متن بنانے والا ہے، وہ منہ کھولے حیرت زدہ اپنے متن کی اس کثیرالجہات معنویت پر خوش ہوتا ہے اور کبھی کبھی شرماتا بھی ہے۔ ایسے میں وہ یہ بھی سوچتا ہے کہ میں نے تو یہ تمام معانی مراد لیے ہی نہیں تھے، میں تو کچھ اور کہنا چاہتا تھا، میرا منشا تو کچھ اور ہی تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمیں مصنف کے عندیے کو سمجھنا چاہئے؟ کیا ہمیں اُس کے منشا کا احترام کرنا چاہئے؟ کیا ایسا نہ کرنے سے متن کی قرأت بے سمتی کا شکار ہوسکتی ہے۔ اگر ہم معنی اخذ کرنے میں اس قدر آزاد ہیں تو منشائے مصنف بے معنی ہے۔ یہاں اس بات پر توجہ ہونی چاہئے کہ متن بنانے والا اتنی اہمیت ضرور رکھتا ہے کہ وہ الفاظ و تراکیب کو برتنے پر قدرت رکھتا ہے۔ وہ اپنی تخلیقی قوت کی مدد سے معنی کے ساتھ متن بناتا ہے۔ ہاں متن بنا دینے کے بعد وہ اس کی ملکیت نہیں رہتی بلکہ قاری اور معاشرے کی ہوجاتی ہے۔ مصنف کی اہمیت تو بہرحال قائم رہتی ہے کہ وہ خالق ہے۔ وہ اس میں معنی چھپا کر خود چھپ گیا ہے۔ اب چاہے ہم اس کی جتنی اور جس قدر تعبیریں پیش کریں، سب درست۔ شمس الرحمن فاروقی نے لکھا ہے:
’’متن سے وہ معنی برآمد نہیں ہوسکتے جو اس میں نہیں ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا غلط ہے کہ منشائے مصنف کو بنیادی اہمیت نہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں من مانی کرنے کی اجازت ہے، بلکہ متن کی صحت پر اصرار کرنے سے یہ اصول مستحکم ہوجاتا ہے کہ جو معنی متن میں نہیں ہیں ہم انھیں برآمد نہیں کرسکتے ہیں۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو معنی نہ بیان کریں گے بلکہ اپنے مفروضات بیان کریں گے۔‘‘ ۱۲؎
سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ جب متن کثیر معنوی ہوتا ہے تو پھر ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ متن سے وہ معنی نہیں برآمد ہوسکتے ہیں جو اس میں نہیں ہیں۔ متن کے کسی ایک معنی پر ادعائیت، البتہ بے معنی اور مجہول سی بات ہوتی ہے۔ یوں بھی دیکھا جائے تو ہر آدمی جو بھی معنی متن سے برآمد کرتا ہے، دراصل وہ اپنا نجی مفروضہ ہی بیان کررہا ہوتا ہے کیوں کہ یہ ضروری نہیں کہ دوسرا قاری بھی اس کے معنی کو درست قرار دے۔ ہاں، ایک چیز جو متن کے حوالے سے اہم ہے، وہ یہ کہ متن جب معاشرے کی ملکیت ہوجاتا ہے اور ہمارے ثقافتی مدلولات سے ہم آہنگ ہوجاتا ہے تو پھر قرأت اور متن سے مکالمے کے وقت، اس کے تناظراور تفاعل کا لحاظ رکھنا پڑتا ہے۔
اگر اس کا خیال نہ رکھا جائے تو متن کی اصل معنویت کے گم ہوجانے کا خدشہ ہوتاہے۔ یوں تو متن کے باہر کچھ نہیں ہوتا جیسا کہ دریدا کہتا ہے:
There in nothing outside of the text.” 13؎
قرأت سے متن کی تمام جہتیں کھولی جاسکتی ہیں، لیکن اس کے باوجود اس کی متفقہ قرأت نہیں ہوسکتی۔ متن اور قاری میں البتہ ایک گہرا رشتہ ہوتا ہے۔ دونوں میں دوستی کے لیے دونوں میں قدر مشترک کے طور پر کچھ بھی ہونا ضروری ہے؛ متن کی فعالیت پر ہی قاری کی فعالیت کا دار و مدار ہے۔ پروفیسر عتیق اللہ نے صحیح لکھا ہے کہ:
’’جہاں متن فعال ہے وہاں قاری بھی مجہول نہیں رہ سکتا۔ قاری وہیں مجہول ہوگا جہاں متن ہی مجہول ہے۔ قاری کی شرکت وہاں زیادہ تخلیقی نوعیت کی ہوگی جہاں متن ایک مناسب معروضی تلازمے کے طور پر قاری کے ذہن کو تا بہ دیر حرکت میں رکھتا ہے۔‘‘ ۱۴؎
جب ہم متن سے مکالمہ کررہے ہوتے ہیں تو دراصل ہمارے سارے کے سارے Sensory Nervesکام کررہے ہوتے ہیں۔ جو الفاظ ہمارے سامنے ہوتے ہیں ان کی اپنی تصویریں ہوتی ہیں جو پردۂ ذہن پر ابھرتی ہیں۔ ہماری قرأت ہی تصویر بناتی ہے۔ ہر قاری اپنی طرح قرأت کرتا ہے جس سے تصویر بھی الگ الگ بنتی ہے۔ ہماری چشم باطن (Mind’s eye) ہی الفاظ کوVisualiseکرتی ہے۔ شاعری کے مطالعے کے حوالے سے آئی۔ اے رچرڈس (I.A. Richards) نے لکھا ہے کہ مطبوعہ الفاظ کو پڑھتے ہوئے جو ردعمل ہوتا ہے وہ چھ طرح کے Events میں تقسیم ہوسکتا ہے:
(i) The visual sensations of the printed words
(ii) Images very closely associated with these sensations
(iii) Images relatively free
(iv) References to, or ‘thinkings of’ various things
(v) Emotions
(vi) Affective volitional attitudes. 15؎
ہر ایک Event پر الگ الگ گفتگو نہیں ہوسکتی۔ لب لباب یہ ہے کہ قرأت کے وقت جو بھی Visual Image بنتا ہے وہ متن میں پیش ہونے والے Thought سے انسلاک پیدا کرتا ہے۔جب ہم کوئی لفظ ادا کرتے ہیں تو اس Articulationکا بھی Image بنتا ہے جس طرح Mind’s eye دیکھتی ہے اُسی طرح Mind’s ear سنتا بھی ہے۔ جب ہم کسی لفظ کے دوران قرأت ادا کرتے ہیں تو Mind’s ear اسے سن کر اس کا ایک Image بناتا ہے جسے Auditory Image کہا جاتا ہے۔ ہر لفظ اپنا Image لے کر آتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ معنی ہم خود اخذ نہیں کرتے بلکہ الفاظ کے ساتھ جو ناگزیر تصویریں ہوتی ہیں وہی معنی خیزی کے عمل میں معاون ہوتی ہیں۔ یوں بھی ہر لفظ ایک ثقافتی کوڈ ہے اور ہم اسی کے تحت معانی تک پہنچتے ہیں۔ ساختیات والوں نے بتایا کہ کسی بھی معاشرے میں اصول و ضوابط اور ثقافتی طرزعمل (Cultural Behaviour) کے درمیان ایکGap ہوتا ہے جس میں معانی موجود ہوتے ہیں۔ جو ناتھن کولر (Jonathan Cullar) نے اس ساختیاتی طرز قرأت و تنقید پر خاصی توجہ کی ہے۔ متن کے واحد معنی کے بجائے کثیر معنوی ہونے کی بات کی جاتی ہے۔ مختلف قرأت کرنے والے کے لیے دال (Signifier) کا مدلول (Signified) بدلتا رہتا ہے۔پس ساختیات کے تحت اگر دیکھیں تو دریدا نے بھی ساخت شکنی یا رد تشکیل (Deconstruction) میں کثیرالمعنویت پر زور دیا ہے۔ اسے دونوں کے درمیان قدر مشترک سمجھنا چاہیے۔
دریدا معنی کو التوا یا غیاب میں تصور کرتا ہے۔ وولف گینگ ایزر نے اس سے پہلے متن میں Inherent Character کے غیاب میں ہونے کی بات کہی تھی۔ دریدا نے سوسیور کے اس نظریے کو کہ نشان (Sign) دال اور مدلول میں منقسم ہے یعنی یہ کہ دو یا دو سے زائد دال کے فرق کا نتیجہ ہے۔ دال اور مدلول کا رشتہ من مانا ہے۔ دریدا نے افتراق (Differance) کی اصطلاح وضع کی تھی۔ قاضی افضال نے لاتشکیلی طرز تنقید کے حوالے سے لکھا ہے کہ:
’’متن کے تشکیلی مطالعے میں سب سے پہلی شرط تو یہی ہوگی کہ متن میں معنی کی وحدت تک پہنچنے کی عجلت کے بجائے رک کر Signifiers کے باہم افتراقی ربط اور اس سے نمو کرنے والے التوا (Deferment) کا کھیل دیکھا جائے۔‘‘ ۱۶؎
جب ہم متن کی قرأت کرتے ہیں تو دال کے باہم افتراقی ربط اور اس سے نمو کرنے والے التوا کا کھیل نہیں دیکھتے۔ یوں بھی یہ کھیل کبھی آسان ہوتا ہے تو کبھی بہت مشکل۔ اس نے غیاب اور التوا (Deferment) کی بات کی اور کہا کہ معنی مقرر یا Fixed نہیں بلکہ ’فکشن‘ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر معنی مقرر نہیں تو بے شک یہ فکشن ہے۔ فکشن کو ثبات نہیں، لیکن متن کے جو رسومیاتی اور مذہبی و تہذیبی روابط اور انسلاکات ہوتے ہیں، ان کی روشنی میں یہ ’فکشن‘ والی بات انحراف کی طرف لے جاتی ہے۔ قرأت کے دوران ہمیں کہیں نہ کہیں Conventional approach کو پیش نظر رکھنا ہوتا ہے۔ متن بنانے والے کا بھی اپنا ثقافتی تناظر ہوتا ہے اور قاری کا بھی، اس لیے کہیں کہیں سمجھوتہ بھی کرنا پڑتا ہے۔
متن بولا ہوا بھی ہوتا ہے اور لکھا ہوا بھی۔ یہ بحث کہ تحریر اہم ہے کہ تقریر، روسو سے دریدا تک چلی آئی ہے۔ روسو نے تقریر کو اہمیت دی تھی۔ دریدا نے کہا کہ تقریر کو فوقیت اس لیے دی جاتی ہے کہ وہاں شخص (مقرر) موجود ہوتا ہے۔ گویاPhonocentrismکو اہمیت دی گئی ہے۔ دریدا نے کہا کہ آج ہم افلاطون کو پڑھتے ہیں، اس کی تقریر نہیں سنتے تو کیا اس کی حیثیت ثانوی ہوگی؟ دریدا اپنی کتاب Of Grammatology میں تحریر کو موضوع گفتگو بناتا ہے اورLogocentrismکو اہمیت دیتا ہے، وہDifferanceکی بنیاد پر متن کے مطالعے، قرأت اور معنی آفرینی کی بات کرتا ہے۔ وہ کسی بھی متعین معنی کی نفی کرتاہے۔ پروفیسروہاب اشرفی لکھتے ہیں:
’’ہر چند کہ دریدا نے بے شمار متون کو اپنے رد تشکیل کے زمرے میں رکھ کر جائزہ لیاہے لیکن کسی بھی متن کا کوئی معنی متعین نہیں کیا ہے۔ دراصل دریدا یہ کہنا چاہتا ہے کہ کسی متن کا کوئی حقیقی معنی متعین نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا خیال ہے کہ کسی ایک مربوط، مستحکم، مدلل، اور منطقی معنی کی تلاش اس بندھے ٹکے خیال سے جڑی ہوئی ہے جو ذہنوں میں موجود ہے اور جسے ذہن صحیح باور کرتا ہے۔‘‘ ۱۷؎
کچھ لوگوں نے صوت مرکزیت اور لفظ مرکزیت کو خلط ملط بھی کیا ہے۔ یہاں Logo اورPhonoکی اصل نہیں سمجھنے کے سبب ایسا ہوا ہے۔ یہ خیال رہے کہ ہم جب کسی شعری متن کی قرأت کرتے ہیں تو پہلا زینہ اُسے صحیح تلفظ کے ساتھ پڑھنا ہوتا ہے۔ یہ بھی صوت مرکزی ہے گرچہ تحریر کی قرأت کی جارہی ہے۔ دریدا تحریر کے لیےLogocentrismاستعمال کرتا ہے۔ تحریر اور تقریر کے موخر و مقدم ہونے کی بحث موقوف رکھنا بہتر ہے۔ الفاظ کے غلط تلفظ سے صوتی انتشار اور ناہمواری پیدا ہوتی ہے۔ متن کے ساتھ متن کار نہیں ہوتا کہ قاری کا تلفظ درست کرسکے۔ اس لیے یہ پوری ذمہ داری قاری پر ہوتی ہے۔ اضافت اور عطف سے لے کر زیر، زبر، پیش کی درست ادائیگی کے بعد ہی متن کی قرأت صحیح ہوسکتی ہے۔ لانجائنس (Longinus) نے کہا تھا کہ بیان کی عظمت روح کی عظمت کی بازگشت ہوتی ہے۔ اس روح کی عظمت تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ہمیں متن کی صحیح قرأت کرنی پڑے گی ورنہ روح کی عظمت کی ترسیل ممکن نہیں ہوگی۔ کچھ لوگ متن صرف لطف اندوز ہونے کے لیے پڑھتے ہیں۔ کچھ کو متن کا خارجی پہلو یعنی الفاظ و تراکیب کا در و بست متوجہ کرتا ہے تو کچھ کو اس میں پیش ہونے والا خیال۔ کچھ اس کی برجستگی پر سر دھنتے ہیں تو کچھ معنی آفرینی پر۔ مجھے یہ کہنے میں تامل نہیں کہ پہلے تو متن کا پیرہین ہی ہمیں متوجہ کرتا ہے یعنی یہ کہ صنائع و بدائع اور الفاظ و تراکیب کا مناسب استعمال، گویا اسلوب بنانے والے عناصر اہم ہوتے ہیں۔ یہاں قاری کا ذہن شعری متن کے Lyrical ہونے کی بھی توقع کرتا ہے۔ صنائع و بدائع سے Rhythm پیدا ہونے کی بات بھی جڑی ہوتی ہے۔ خیال اور احساس دونوں کی ہم آہنگی کے اسرار اسی Rhythm اور Lyricمیں ہوتے ہیں۔ فرائی (Frye) لکھتا ہے:
What we think of a typically the poetic creation, which is an associative rhetorical process, most of it below the threshold of consciousness, a chaos of paronomasia, sound-links, ambiguous sense-links, and memory-links very like that of the dream. Out of this the distinctively lyrical union of sound and sense emerges. ۱۸؎
سوسیں لینگر کے بقول :
The fullest exploitation of language sound and rhythm, assonance and sensuous associations, is made in lyric poetry.” 19؎
طویل مصوتے، Tonal Pitch اور Vocal Stress کی بات کی ہے جس سے Rhythm پیدا ہوتا ہے لیکن انھوں نے اسے پراسرار بھی بتایا ہے۔ ساتھ ہی اسے زبان کا استحصال بھی کہا ہے۔
اس کے بعد ہی متن میں پیش ہونے والے خیال اور Thought کی طرف قاری توجہ کرتا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا شاعری/متن مسرت بہم پہنچانے کے لیے ہوتی/ ہوتا ہے؟ ڈرائیڈن (Dryden) شعری مسرت کے لیے شگفتہ اظہار کو اہم سمجھتا ہے۔ لیکن خیال اور الفاظ میں مناسب ہم آہنگی پر بھی زور دیتا ہے۔ ڈاکٹر جانسن (Dr. Johnson) نے بھی شاعری کے بنیادی مقاصد میں مسرت کی فراہمی کو اہم تصور کیا ہے۔ ورڈزورتھ کوبھی سنیے:
’’شاعر پر محض ایک پابندی ہوتی ہے اور وہ ہے انسانوں کو مسرت بخشنے کی پابندی۔ اس لیے کہ اس کے پاس وہ معلومات ہوتی ہیں جن کی اس سے توقع ہوتی ہے۔ وکیل، ڈاکٹر، جہازراں، ماہر نجوم یا سائنس داں کی حیثیت سے نہیں بلکہ انسان کی حیثیت سے۔‘‘ ۲۰؎
چلیے، قرأت کا پہلا اہم مقصد یہ ہوا کہ متن کے خارجی عوامل، اس کے Texture اور صنائع و بدائع پر غور کیا جائے۔ معنی تو خیر اس کے اندر ہے ہی، جائے گا کہاں؟ التوا میں ہو یا غیاب میں، جب قرأت کی جائے گی تو متن کے کھلتے ہی معنی بھی برآمد ہوجائے گا۔ قرأت کے وقت ہم جو مکالمہ یا مجادلہ متن سے کرتے ہیں، اس سے کبھی ہم زیر ہوتے ہیں تو کبھی متن۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ بے ارادہ اور بالواسطہ دو ذہنوں کا تصادم بھی ہوتا ہے۔ ایک متن بنانے والے کا ذہن اور دوسرا قاری کا۔ بارت (Barthes) نے ادبی متن کو جسم کہا ہے اور قاری بھی جسم کی حیثیت سے متن سے دوچار ہوتا ہے۔ بارت کی یہ جسم سے جسم کے ملنے والی بات پلّے نہیں پڑتی۔ چاہے مابعد جدید نقاد حضرات اس کی کتنی ہی وکالت کرلیں۔ یہ خیال رہے کہ قاری کے سامنے متن بنانے والا نہیں ہوتا اور متن بناتے وقت اس کے سامنے قاری نہیں ہوتا۔ اس ضمن میں Susan Stewart کا اقتباس اوپر آچکا ہے۔ لہٰذا جسم کو درمیان میں لانا بے تکی سی بات ہے۔ ہاں، دو اذہان بے شک مکالمہ کرتے ہیں، اور رد و قبول کے مقام سے بھی گزرتے ہیں۔ قرأت کی کوئی ترکیب یا اس کاکوئی فارمولہ نہیں ہوتا۔ ہر قاری آزاد ہے اپنی طرح متن کی قرأت کرنے کے لیے۔ عام قاری اور نقاد قاری دونوں کے طرز قرأت میں فرق ہوتا ہے۔
نئی قرأت کے نئے علم برداروں نے اکثر نظریے کے تحت انتہاپسندی سے بھی کام لیا ہے۔ اس نکتہ کی طرف پروفیسر ابوالکلام قاسمی کاموقف بہت معتدل اور برمحل ہے کہ:
’’ماہرین علم شرح متن کے بجائے قاری کو معنی کا حَکَم قرار دیتے ہیں اور ان میں سے بعض ماہرین تو اپنی نظریاتی انتہاپسندی کی اس حد تک پہنچ جاتے ہیں جہاں قاری کے ذاتی تاثر، موضوعیت (subjectivity) اور قرأت کے عمل کے ذریعہ متن کی بازآفرینی کرنے کی کوشش بھی کوئی منفی بات نہیں سمجھی جاتی۔‘‘ ۲۱؎
میرا ذاتی ادراک اورPeceptionتو یہ ہے کہ متن کی قرأت کے لیے کسی بھی ایزر، فِش، دریدا، بارتھ، لاکاں، فوکو کی قطعی ضرورت نہیں۔ ہاں آپ کے اپنے شعور کی بالیدگی اور قدرے Episteme کی اہمیت ضرور ہے۔
حواشـی
1۔ The Reading Process: a Phenomenological approach, By Wolfgang Iser, Ref. Modern Criticism & theory Ed. by David Lodge, Nigel Wood, 2000, Longman, Singapore, PP. 189
2۔ جدید اور مابعد جدید تنقید، انجمن ترقی اردو، پاکستان دسمبر 2002، ص: 181
3۔ ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات: گوپی چند نارنگ، ص: 291، 2002، دہلی
4۔ Modern Criticism & theory, p.197, Ed. David Lodge- 2000
5۔ بحوالۂ جدید اور مابعد جدید تنقید: ناصر عباس نیر، 2002ء، صفحہ: 182
6۔ جدید ادبی تھیوری اور گوپی چند نارنگ: ڈاکٹر مولا بخش، 2009ء، ص: 123-125
7۔ ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات: گوپی چند نارنگ، 2004، ص: 295
8۔ Course in Gen. Linguistics, Tr. by Wade Baskin, New York, 1966, p.67
9۔ Criticism and Ideology: A study in Marxist, Literary Theory, 1976, p-70
10۔ بحوالہ: اکتشافی تنقید کی شعریات: حامدی کاشمیری، نومبر 1999ء، ص: 81، کمپیوٹر سٹی راج باغ سری نگر، کشمیر
11۔ S. Stewart on longing : Narration of the miniature. The Gigantic, the Souvenir, the collection, 1993, p-14
12۔ شعر شورانگیز، حصہ اول، 1997ء، قومی کونسل، نئی دہلی، ص: 59
13۔ Of Grammatology: Derrida, 1976, p-158
14۔ ترجیحات: از عتیق اللہ، 2002ء، ص: 166
15۔ Principles of Literary Criticism, By: I.A Richards, 1999, p-99
16۔ تحریر اساس تنقید: قاضی افضال حسین، 2009ء، ص: 53، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ
17۔ مابعد جدیدیت: مضمرات و ممکنات: وہاب اشرفی، ایجوکیشنل، دہلی، 3003ء، ص: ۶3
18۔ Anatomy of Criticism: Northrop Frye, pp-271,272
19۔ Feeling and form, p-250, By: Susanne Langer, Ref. from: Myth, Truth and Literature; By Colin Falck, Combridge University Press, 1994, pp-60
20۔ مغرب کے تنقیدی اصول: سجاد باقر رضوی، ص: 305، کتابیات، لاہور 1966ء
21۔ علم شرح،تعبیر اور تدریس متن: مرتبہ پروفیسر نعیم احمد، شعبۂ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، 1995، ص: 128
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.