Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ریڈیو اور کلچر

کلیم الدین احمد

ریڈیو اور کلچر

کلیم الدین احمد

MORE BYکلیم الدین احمد

     

    (۱)
    سائنس کی ترقی نے ساری دنیا ہی بدل دی ہے لیکن یہ سائنس کوئی نئی چیز نہیں۔ جب انسان نے پہلی مرتبہ گردوپیش کی چیزوں سے اپنے آرام، اپنی ترقی کے لئے کام لینا شروع کیا، اس وقت سائنس نے جنم لیا۔ اس ترقی کی رفتار بہت سست رہی۔ نئی معلومات میں اضافہ ہوتا رہا۔ فطرت اور فطرت کی طاقتوں سے انسان اپنے ماحول کو زیادہ خوشگوار بناتا رہا اور تہذیب کے میدان میں آگے بڑھتا رہا لیکن یہ سب تبدیلیاں اس قدر آہستہ آہستہ ہوتی رہیں کہ بظاہر کچھ زیادہ نظر نہیں آتا تھا۔ گزشتہ چند سالوں میں سائنٹفک معلومات اور ایجادات میں ایسی حیرت انگیز اور تیز ترقی ہوئی کہ اس نے گویا ایک غیرمتوقع سیلاب کی صورت اختیار کر لی اوراس سیلاب کے لئے انسان تیار نہ تھا۔ سائنس کے انکشافات سے پہلے تو وہ کچھ گھبرا سا گیا، کچھ برہم ہوا لیکن آخر اسے اپنا رویہ بدلنا پڑا اورسائنس نے جو مادی آرام اور بہبودی کے سامان مہیا کئے انہیں دیکھ کر اس نے سائنس کا خیرمقدم کیا اوراس کی تعریف میں قصیدے پڑھئےگا۔

    پہلے مغرب نے، جسے روحانیت سے کچھ زیادہ لگاؤ نہیں اس نئے خدا کی پرستش شروع کی۔ پھر اب تو مشرق میں بھی اس دیوتا کی سب دیوتاؤں سے زیادہ پوجا ہوتی ہے۔ آج مذہب کی جگہ سائنس نے لے لی ہے۔ مذہب اور اخلاق سے متعلق خیالات میں انقلاب ہو گیا ہے۔ پرانی روایات شکستہ ہو گئی ہیں اور نئی روایات کی تعمیر ابھی نہیں ہونے پائی ہے۔ جو سمجھدار ہیں، جنہیں غوروفکر کی عادت ہے وہ صورت حال سے غیرمطمئن ہیں، لیکن زیادہ تعداد سے ایسے لوگوں کی ہے جو سائنس اورسائنس کی ایجادوں کا غیرناقدانہ طور پر خیرمقدم کرتے ہیں، جو سائنس کو راہ نجات سمجھتے ہیں اور جو ہر نئی ایجاد پر ’’سبحان اللہ‘‘کرتے ہیں، صرف اس لئے کہ وہ سائنس کی دین ہے۔

    انسان باالطبع ذرا کاہل واقع ہوا ہے۔ جو چیز اسے جانوروں سے ممیز کرتی ہے وہ اس کا دماغ ہے لیکن وہ اس دماغ سے برابر اور صحیح مصرف نہیں لیتا۔ زندگی کے کسی شعبہ کو لیجئے۔ وہ حماقت کی مثالوں سے بھرا ہوگا اور اس حماقت کی اصل وجہ دماغی کاہلی ہے۔ وہ سوچنا نہیں چاہتا ہے، گویا یہ ایک قسم کی ناگوار مشقت ہے جس سے وہ دور رہنا چاہتا ہے۔ سیاست ہو یا خانگی زندگی، ہر شعبہ اتنی برائیوں، اتنے نقصانات سے بھرا پڑا ہے کہ انسان کی حمایقت پر اچنبھا ہوتا ہے۔ خاص خاص وقت خاص خاص چیزوں میں وہ اپنی پوری دماغی طاقت سے مصرف لیتا ہے۔ لیکن زیادہ سے زیادہ وقت اس کا دماغ خواب یا نیم خواب میں مبتلا رہتا ہے۔ اس صورت حال کی ایک وجہ نظام تعلیم ہے جس قسم کی تعلیم کا رواج ہے، وہ دماغ سے صحیح مصرف لینا نہیں سکھاتی۔ تعلیم کا مقصد ہے دماغ کی تربیت، دماغی قوتوں کی صحیح ترقی اور روحانی وجذباتی پختہ کاری اور توازن کا حصول، لیکن جس تعلیم کا اس ’’روشن خیال‘‘زمانہ میں رواج ہے، وہ دماغ کو گنجلک بنا دیتی ہے۔ خیالات میں سطحیت پیدا کرتی ہے۔ روح اورجذبات کی صحیح تربیت نہیں کرتی۔

    بہرکیف تعلیم ایک اہم اور پیچیدہ مسئلہ ہے اور اس پر تفصیل سے کچھ کہنے کا یہ موقع نہیں ہے لیکن یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ موجودہ تعلیم کے طریقے نہایت ناقص ہیں اور تعلیم کے عام رواج کے باوجود بھی عموماً لوگ غوروفکر نہیں کرتے اورنہ اس کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسی لئے سائنس کے مقام، اس کے افادہ کی نوعیت سے انہیں واقفیت نہیں۔

    سائنس کے پرستار سائنس کو سائنٹفک نقطہ نظر سے نہیں دیکھتے۔ بات یہ ہے کہ انسان اب تک اوہام پرستی میں مبتلا ہے۔ کبھی اس نے مذہب کی ضرورت محسوس کی تھی اور فوق فطرت ہستیوں اور چیزوں کو اپنی روحانی اور جذباتی ضرورتوں سے مجبور ہوکر واقعہ بنا رکھا تھا۔ انہی روحانی اور جذباتی ضرورتوں سے مجبور ہوکر وہ آج سائنس کے آگے سر جھکاتا ہے یعنی مذہب کے بدلے وہ آج سائنس کے ذریعہ اپنی جذباتی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اورجیسے وہ پہلے مذہب کو ایک الہامی چیز سمجھتا تھا، آج سائنس کو الہامی چیز سمجھتا ہے بلکہ اس کی الوہیت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نظر آتا ہے اوراس طرح اپنی اوہام پرستی کا ثبوت دیتا ہے۔

    سچ تو یہ ہے کہ تہذیب کی ترقی اور علم ودانش کی بڑھتی ہوئی روشنی کے باوجود بھی انسان کی فطرت میں کچھ زیادہ تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ’’اصنام خیالی‘‘کی پرستش اس کی فطرت کا جزو اعظم ہے۔ وہ اپنے ہاتھوں سے بت بناتا ہے اور پھر اپنے بنائے ہوئے دیوتاؤں کی پوجا کرتا ہے، بت شکنی اپنا شعار سمجھتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک بت توڑتا ہے اورپھر اس کی جگہ دوسرا بت بنا لیتا ہے۔ سائنس کو بھی اس نے اسی قسم کا بت بنا رکھا ہے۔ سائنس بت ہے خدا نہیں لیکن اس بات پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ ہم سائنس کا جذبات کے دھندلکے کے بدلے عقل کی روشنی میں مطالعہ کریں۔

    میں کہہ چکا ہوں کہ سائنس گردوپیش کی چیزوں، فطرت کی طاقتوں سے مصرف لینے کا نام ہے یعنی یہ انسانی کارنامہ ہے اورانسانی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے اسے بنایا گیا ہے۔ یہ کوئی دیوتا نہیں جس کی پوجا کی جائے اورجس کی باتوں کے آگے بے سمجھے بوجھے سر جھکا دیا جائے لیکن کچھ سائنس داں ایسے بھی ملتے ہیں جن کا یہی شعار رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ صرف ایک دیوتا کو مانتے ہیں اوراسی کی پوجا اپنی زندگی کا حاصل سمجھتے ہیں۔ اوریہ دیوتا سائنس ہے۔ انہیں انسانی ضرورتوں سے کوئی واسطہ نہیں۔ ان کا مقصد صرف نئی معلومات بہم پہنچانا ہے، وہ کائنات کے قوانین کا کھوج لگاتے ہیں۔ وہ فطرت کے چھپے ہوئے بھید تلاش کرتے ہیں اور جس چیز کا پتہ انہیں مل جاتا ہے اسے دن کی روشنی میں لے آتے ہیں۔ پھر وہ کسی دوسرے قانون، کسی دوسرے بھید کی جستجو میں منہمک ہو جاتے ہیں۔ جہاں کوئی چیز معلوم ہو گئی تو پھر اس میں کوئی دلچسپی نہیں رہتی اور انہیں اس بات کی کوئی پروا نہیں رہتی کہ دوسرے اس چیز سے کیا مصرف لیتے ہیں۔

    وہ اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ سائنٹسٹ بھی سماجی نظام کا ایک رکن ہے اوراس حیثیت سے اس پر چند ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ سماج کی ترقی اور بہبودی کا خیال رکھنا اس کا پہلا فرض ہے۔ اب اس بات کا احساس ہو چلا ہے کہ سائنس سماج کے لئے ہے، سماج سائنس کے لئے نہیں۔ سائنٹسٹ بھی انسان ہے اور کبھی انسانی فرائض سے نجات نہیں پاسکتا۔ لیکن یہ احساس نئی نئی مشکلوں کا پیش خیمہ ہے۔ ابھی کہا جا چکا ہے کہ سائنٹسٹ انسان ہے اس لئے وہ بھی دوسرے انسانوں کی طرح بہت سے جھگڑوں میں پھنس جاتا ہے۔ مثلاً قوم و ملک کا جھگڑا۔ غالباً اسی مشکل کے احساس کی وجہ سے کچھ سائنٹسٹ الگ تھلگ رہنا چاہتے ہیں او رقوم و ملک کے جھگڑوں میں نہیں پڑنا چاہتے لیکن انہیں ان جھگڑوں میں پڑنا ہوگا۔ مشکلوں کو پس پشت ڈال دینے سے کام نہیں چل سکتا۔ ابھی انسانیت کے پورے امکانات ظاہر نہیں ہوئے ہیں۔ ابھی انسانیت چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے اور ٹکڑوں میں ہم آہنگی مطلق نہیں۔ ایک دن ان ٹکڑوں کو مل کر ایک نقش کامل بننا ہے اوراس مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے اور چیزوں کے ساتھ ساتھ سائنس کو بھی حصہ لینا ہوگا لیکن سائنس کی مدد اس وقت مفید ہو سکتی ہے جب ہم اس کے صحیح مقام سے واقف ہوں۔ اس کی بے جا ستائش نہ کریں اور نہ اس کے انکشاف سے روگردانی اپنا شعار قرار دیں۔

    سائنس ہمارے لئے نئی نئی چیزیں مہیا کرتا ہے لیکن ہمیں یہ نہیں بتاتا کہ ہم ان معلومات اوران چیزوں سے کیا مصرف لیں۔ سائنس کو قدروں سے کوئی واسطہ نہیں۔ اس کا مقصد تو محض جستجو ہے۔ انسان کو تجسس کا مادہ فطرت نے عطا کیا ہے اور اسی ذوق تجسس سے مجبور ہوکر وہ نئی معلومات کی جستجو میں رہتا ہے۔ نئے خیالات تراشتا ہے اور فطرت اور فطرت کی طاقتوں پر نئی نئی صورتوں سے قابو پانا چاہتا ہے۔ جہاں نئی معلومات مہیا ہو گئیں، نئے خیالات سے ہم آشنا ہو گئے اورفطرت پر ہمارا قابو بڑھ گیا تو پھر سائنس کی سرحد ختم ہو گئی۔ ان چیزوں سے مصرف لینا ہماری قدروں کی میزان پر منحصر ہے اوریہ میزان ہمیں مذہب اوراخلاق و فلسفہ کے ذریعہ مل سکتی ہے۔ سائنس کو اس میزان سے کوئی سروکار نہیں۔ آج سائنس نے ہمیں نئی نئی چیزیں اس فیاضی سے بخشی ہیں کہ ہم کچھ بدحواس سے ہو گئے ہیں۔ ہماری ترازو اس نئے بوجھ کو برداشت نہ کرسکی، وہ تو ٹوٹ گئی اور ابھی ہم نے کوئی نئی ترازو نہیں بنائی ہے۔ اس لئے ہماری حالت گم کردہ راہ کی ہو گئی ہے۔

    ہماری دماغی و روحانی اور جذباتی زندگی میں کچھ ایسی کشمکش جاری ہیں جن سے نجات کا کوئی ذریعہ نہیں دکھائی دیتا۔ ہماری سماجی زندگی شکستہ حال ہو گئی ہے اور اس کے سدھرنے کا کوئی سامان نہیں۔ اس غیرتشفی بخش صورت حال کا الزام ہم سائنس کو نہیں دے سکتے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم سائنس کی اس فیاضی کے لئے تیار نہ تھے۔ اخلاقی اورسماجی نظام کچھ کمزور سا تھا، ٹوٹ گیا۔ ضرورت ہے کہ ہم ایک نئے نظام کی بنیاد ڈالیں۔ اس نئے نظام کی جگہ سائنس نہیں لے سکتا۔ میں کہہ چکا ہوں کہ سائنس کو قدروں سے کوئی واسطہ نہیں اور یہ نیا نظام قدروں، اخلاقی، سماجی، انسانی قدروں کا نظام ہوگا۔ اس نظام میں سائنس کی بھی جگہ ہوگی اور سائنٹفک معلومات، انکشافات، ایجادات کو پیش نظر رکھا جائےگا لیکن اس نظام میں سائنس کی حیثیت ایک خادم یا زیادہ سے زیادہ ایک مددگار کی ہوگی، شہنشاہ کی نہیں اوراس نظام کو قائم کرنے کے لئے ہمیں یقین کی ضرورت ہے۔ اس یقین کی کہ انسانیت کے دل میں ایک اعلیٰ مقصد ہے جو اسے ترقی پر مجبور کرتا ہے۔ ایسی ترقی جو انسانیت کی بلندترین قدروں کو بروئےکار لاتی ہے۔ اس یقین کے بغیر کسی قسم کی ترقی ممکن نہیں۔

    کلچر کے نظام میں سائنس کی جگہ ہے لیکن مرکزی طاقت کی حیثیت سے نہیں۔ اسے فرماں بردار خادم ہونا چاہئے آقا نہیں۔ جسے کلچر کہتے ہیں، وہ بہت سی چیزوں کے باہمی تعلقات اور اثرات کی ایک کیفیت کا نام ہے جن میں قانون، سیاست، تجارت، صنعت وحرفت، سائنس، آرٹ، اخلاق، فلسفہ سبھی کچھ شامل ہے۔ یہ سب چیزیں تو ہیں لیکن یہ سب برابر اہمیت نہیں رکھتیں۔ عموماً اس نظام میں آرٹ کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی کیونکہ آرٹ اور سماجی حالات میں جو تعلق ہے اس سے واقفیت نہیں۔ آرٹ کو توصرف زیور سمجھا جاتا ہے اور اس کی سماجی اہمیت سے بےاعتنائی برتی جاتی ہے۔ واقعہ تویہ ہے کہ تخیل اور جذبات ہی کے ذریعہ عوام کے خیالات کو سنوارا جا سکتا ہے۔ اور تخیل اور جذبات کی دنیا میں آرٹ کی حکومت ہے۔ اسی سے کسی کلچر کے نظام میں آرٹ کی مرکزی حیثیت کا پتہ چلتا ہے۔

    آرٹ کا کلچر میں سب سے زیادہ دخل ہے اور اس کی طاقت اور سب طاقتوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہے اوراس کا اثر دوسری چیزوں پر بے پناہ ہے۔ کہہ سکتے ہیں کہ آرٹ اور کلچر مترادف الفاظ ہیں۔ آرٹ کا بے پناہ اثر مسلم ہے۔ تھیٹر، سنیما، میوزک ہال سے بے پناہ پروپیگنڈہ کا مصرف لیا جا سکتا ہے، کوئی ڈکٹیٹر ان کی مدد سے لوگوں کے دماغ اور دل پر چھاپہ مار سکتا ہے اوریہی کام ریڈیو سے بھی لیا جا سکتا ہے۔ اس سے بھی خیالات وجذبات کو بنایا بگاڑا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ تھیٹر، سنیما، میوزک ہال کی طرح ریڈیو کا بھی کلچر سے تعلق ہے اوراس کی بھی کلچر کی دنیا میں اہمیت ہے، اس سے بھی کلچر کو بنایا جا سکتا ہے۔

    (۲)
    ریڈیو بھی سائنس کا ایک کرشمہ ہے اور دوسری سائنٹفک ایجادوں کی طرح ہم اس کا بھی خیرمقدم کرتے ہیں اور غیرناقدانہ طورپر اس کی تعریف میں رطب اللسان ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سائنس چیزوں کی ایجاد کرتا ہے لیکن ان چیزوں سے کام لینا ہمارا کام ہے۔ سائنس نے بہت سی چیزیں ایجاد کی ہیں۔ جن چیزوں کا ہمیں کبھی وہم و گمان بھی نہ تھا وہ واقعہ بنی ہوئی ہیں، جو باتیں ہم خیالی داستانوں میں پڑھایا سنا کرتے تھے وہ اب خیالی نہیں رہیں، زندہ حقیقت کی طرح چلتی پھرتی نظرآتی ہیں۔ داستانوں میں ہم جادو کے گھوڑے پر بیٹھ کر ہوا میں اڑتے پھرتے تھے، آج نئے نئے قسم کے ہوائی جہازوں میں بیٹھ کر ہم دوردراز کا سفر قلیل مدت میں طے کر سکتے ہیں۔ زمین اور سمندر میں سفر کر سکتے ہیں۔ دور کی خبریں سن سکتے ہیں۔ دور کی چیزیں دیکھ سکتے ہیں۔ غرض بہت سے ایسے کام کر سکتے ہیں جن کے تصور سے پہلے ہمارے دل کی تسکین ہوتی تھی۔ یہ چیزیں اچھی بھی ہیں اور بری بھی۔ اوران کی اچھائی اور برائی استعمال پر منحصر ہے۔

    ہوائی جہاز کو لیجئے۔ اس سے کتنی آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ خط وکتابت اور سفر کی آسانی ہے۔ اسی سے مسٹر چرچل کی بیماری میں ضروری دوائیں جلد سے جلد پہنچائی جا سکتی ہیں، لیکن آج یہی ایک ایسے وسیع پیمانہ پر، جس کے تصور سے دل دھڑکنے لگتا ہے، قتل وخون، تباہی وبربادی انسان کی خوفناک مصیبتوں کا آلہ بنا ہوا ہے۔ سائنس نے ہوائی جہاز تو ایجاد کر دیا لیکن اس سے اچھا یا برا کام لینا تو انسان پر منحصر ہے۔ سائنس ہمیں یہ نہیں بتاتا اور نہ بتا سکتا ہے کہ ہم اس ایجاد سے کیا مصرف لیں۔ سائنس کو انسانی قدروں سے کوئی خاص سروکار نہیں۔ اس کی ایجادوں کی مدد سے انسانیت ترقی کر سکتی ہے اورانہیں سے انسانیت تباہ و برباد بھی ہو سکتی ہے۔

    آج کے خونی مناظر کے تصور سے دل بے اختیا ہوکر کہہ اٹھتا ہے کاش سائنس نے یہ ترقیاں نہ کی ہوتیں۔ پھر انسانیت کو اس خون کے غسل سے سابقہ نہ پڑتا۔ سائنس کی ترقی کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوا کہ پہلے سالہا سال کی جنگ میں جتنی جانیں تلف ہوتی تھیں اس قدر آج ایک روز میں ضائع ہو سکتی ہیں۔ توپیں، بم کے گولے، ٹینک، آبدوز کشتیاں، زہریلی گیس، مہلک امراض کے جراثیم، غرض ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسانیت خودکشی پر آمادہ ہے اور اس جرم میں سائنس اس کا معین ومددگار ہے۔

    ظاہر ہے کہ کسی چیز کی صرف اس لئے کہ وہ سائنس کی حیرت انگیز ایجاد ہے، ہم بے سوچے سمجھے تعریف نہیں کر سکتے۔ اس قسم کی تعریف ہماری بے صبری کی دلیل ہے اوریہ بھی صحیح ہے کہ سائنس کی کسی ایجاد سے ناجائز مصرف لینے کا ذمہ دار انسان ہے سائنس نہیں۔ کہہ سکتے ہیں کہ سائنس توہمیں قتل وغارت کی تلقین نہیں کرتا، انسان کو خودکشی پر نہیں ابھارتا، اس لئے سائنس مورد الزام نہیں۔ یہ بات ایک حد تک صحیح ہے لیکن ہمیں یہ نہ بھولنا چاہئے کہ سائنس پر سماجی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ یہ انسانی بہبودی کے لئے عالم وجود میں آیا اور اسے مقصد کو کبھی نہ بھولنا چاہئے۔ سائنس تباہی و بربادی کے سامان مہیا کرکے علیحدگی اختیار نہیں کرسکتا اوریہ کہہ کر الزام سے بری نہیں ہو سکتا کہ چیزیں تو ایجاد ہو گئیں، اب ان سے کام لینا میرا کام نہیں۔ سائنس اور سائنسداں کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی ایجاد کی ہوئی چیزوں کو انسانیت کی تباہی کا ذریعہ نہ بننے دیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ سائنس کو اپنے مقام سے واقف ہونا چاہئے۔ اگر یہ اپنے حد سے نہ بڑھے، اپنی خامیوں اور حدود سے واقف ہو اور خدائی کا دعویٰ نہ کرے توبہت سے الزام جو اس پر عائد ہوتے ہیں ان سے محفوظ رہےگا۔

    غرض ریڈیو یا سائنس کی کوئی دوسری ایجاد اپنی جگہ پر اچھی بھی ہو سکتی ہے اور بری بھی۔ اس ریڈیو سے بہت سے اچھے کام لئے جا سکتے ہیں۔ جلد ضروری خبریں بھیجی جا سکتی ہیں۔ ضرورت کے وقت مددطلب کی جا سکتی ہے۔ ایسی جگہوں میں جو ایک دوسرے سے کافی فاصلہ پر واقع ہوئی ہیں، براہ راست ربط قائم رکھا جا سکتا ہے۔ دوری کا مسئلہ ریڈیو اور ہوائی جہاز کی وجہ سے حل ہو گیا ہے، دنیا مختصر اور سمٹی ہوئی ہو گئی ہے۔ سماجی اور بین الاقوامی تعلقات میں آسانیاں ہیں اور مختلف کلچر ایک دوسرے سے الگ نہیں بلکہ سب آپس میں مل رہے ہیں اورمل کر ایک اعلیٰ انسانیت کا نمونہ قائم کر سکتے ہیں۔ یہ سب سہی لیکن اسی ریڈیو سے ناجائز مصرف لیا جا سکتا ہے۔ غلط خبریں نشر کی جا سکتی ہیں۔ جنگ میں اس سے اسی قدر مہلک کام لیا جا سکتا ہے جتنا بری وبحری اورہوائی فوجوں سے۔ اسی سے انسان کے ذہن کوغلام بنایا جا سکتا ہے، اس کی روح کو جراثیم کا شکار بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن ہم ان باتوں پر زیادہ غوروفکر نہیں کرتے اور جو چیز رائج ہو جاتی ہے اسے قبول کر لیتے ہیں۔

    ریڈیو کا رواج مغربی ملکوں میں عام ہے اوراب ہندوستان میں بھی عام ہو چکا ہے۔ مختلف ریڈیو اسٹیشن قائم ہوئے ہیں اور صبح سے رات تک پروگرام جاری رہتا ہے جیسے سنیما کا رواج عام ہے اوراسے عموماً زندگی کی ضروریات میں شمار کیا جاتا ہے۔ بہت کم لوگ ہیں جو سنیما کی اچھائی برائی کے بارے میں غوروفکر کرتے ہیں۔ اسے تفریح کا ایک اچھا ذریعہ خیال کیا جاتا ہے۔ سنیما اورکلچر میں کیا تعلق ہے، اس مسئلہ پر ہم سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ اسی طرح اخباروں کا مسئلہ ہے۔ اخباری اشتہاروں کا مسئلہ ہے۔ بازاری رسالوں، افسانوں اور ناولوں کا مسئلہ ہے۔ غرض ایسے کتنے مسائل ہیں جن پر غوروفکر کی ضرورت ہے کہ یہ چیزیں انسانیت کی ذہنی خودکشی کا ذریعہ نہ بن جائیں۔ ہم ہیں کہ کچھ سمجھتے ہی نہیں۔ ہاں تو ریڈیو کا مسئلہ کوئی الگ مسئلہ نہیں لیکن اتنی فرصت نہیں کہ ان سب مسئلوں پر ایک نظر ڈالی جائے اور شاید اس کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ ریڈیو نے اخباروں، اشتہاروں، تصویروں، بازاری رسالوں اورافسانوں کو گویا اپنی وسیع آغوش میں لے لیا ہے۔ اس لئے جو کچھ ریڈیو کے بارے میں کہا جائے وہ اور چیزوں پر بھی منطبق ہوگا۔

    میں کہہ چکا ہوں کہ جن چیزوں کا رواج عام ہو جاتا ہے توطبیعت اس سے مانوس ہو جاتی ہے اور اسے ناقدانہ طور پر نہیں جانچتی۔ مثلاً سرور صاحب ’’تنقیدی اشارے’‘ میں کچھ اس کتاب کے متعلق کے عنوان سے لکھتے ہیں، ’’ریڈیو پر جو تقریریں نشر ہوتی ہیں ان میں یا دوسرے مقالوں یا مضامین میں فرق ہوتا ہے۔ ریڈیو میں ایک تو وقت کی پابندی ہوتی ہے۔ یہ اچھی بھی ہوتی ہے اور بری بھی۔ پندرہ منٹ میں آدمی کیا کہے اور کیا چھوڑے۔ پھر بھی وقت کی پابندی سے یہ فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ بنیادی مسائل کے تحت میں خاص خاص رجحانات یا نمایاں خصوصیات کا ذکر ہو جاتا ہے۔ ریڈیو سننے والوں میں زیادہ تعداد ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو ادب کا ذوق ممکن ہے رکھتے ہوں، مگرادب سے زیادہ واقف نہیں ہوتے۔ ان کے لئے ضروری ہے کہ بات صاف صاف اور سلجھے ہوئے انداز میں کی جائے۔

    زبان جہاں تک ممکن ہے آسان ہو اور علمی تحقیق کے بجائے پیرایہ بیان کی دلآویزی پر توجہ رہے۔ آسان سے یہ مطلب نہیں کہ ادیب اپنے انداز کو چھوڑ دے یا زبان مخصوص آب ورنگ کو ترک کردے بلکہ وہ اپنے انداز کو زیادہ سے زیادہ عام فہم بنائے اور اپنے سامعین کے حلقہ کو وسیع کرے۔ ریڈیو کا کام نہ تو سب کو ہنساتے رہنا ہے، نہ محض نصیحت کرنا اور نہ صرف اطلاع کرنا، اسے تو کام کی باتوں کو گوارا بناکر پیش کرنا ہے، اسے حقائق کو دلچسپ اور دلچسپی کو مفید بنانا ہے۔ اسے عوام کو ساتھ لینے کی خاطر ان کی زبان میں بات کرنا اور انہیں کی سطح پر ان سے ملنا ہے مگر اس سطح پر رہنا نہیں بلکہ اسے رفتہ رفتہ بلند کرتے رہنا ہے۔ اسے یہ بات ذہن نشین کرنا ہے کہ ادبی مسائل یا علمی مسائل بھی زندگی کے ضروری مسائل ہیں اور اچھی، مفید اور ترقی پذیر زندگی کے لئے ان سے بھی آشنا ہونا ضروری ہے۔‘‘

    اس اقتباس میں دوتین باتیں قابل غور ہیں۔ سرور صاحب کہتے ہیں کہ ’’وقت کی پابندی اچھی بھی ہوتی ہے اور بری بھی۔’‘ لیکن وہ برائی کے بارے میں صرف اسی قدر کہتے ہیں کہ ’’پندرہ منٹ میں آدمی کیا کہے اور کیا چھوڑے۔’‘ اور اپنا باقی وقت ریڈیو کی حمایت میں صرف کرتے ہیں، حالانکہ ریڈیو پر تنقیدی تقریریں نشر کرنے کا مسئلہ غورطلب ہے اور اسے آسانی کے ساتھ ہم حل نہیں کر سکتے۔ سرور صاحب نے بہت سی تقریریں نشر کی ہیں۔ مجھے اس کا ایک مرتبہ تجربہ ہوا ہے لیکن اس ایک تجربہ سے مجھے معلوم ہوا کہ جنہیں اپنی ذمہ داری کا احساس ہے انہیں اس مسئلہ پر غور کرنا ہوگا۔ ریڈیو والوں کی فرمائش کی تعمیل ضروری نہیں۔ بہرکیف اس مسئلہ پر آگے زیادہ تفصیل کے ساتھ اپنے خیالات پیش کروں گا۔

    دوسری بات جواس اقتباس میں کھٹکتی ہے، وہ یہ ہے کہ سرورؔ صاحب نے ریڈیو کے مقصد پر کافی غور نہیں کیا ہے۔ کہتے ہیں، ’’ریڈیو کا کام نہ تومحض ہنساتے رہنا ہے نہ محض نصیحت کرنا اور نہ صرف اطلاع کرنا، اسے تو کام کی باتوں کو گوارا بناکر پیش کرنا ہے۔ اسے حقائق کو دلچسپ اور دلچسپی کو مفید بنانا ہے۔ اسے عوام کو ساتھ لینے کی خاطر ان کی زبان میں بات کرنا اور انہیں کی سطح پر رہنا نہیں بلکہ اسے رفتہ رفتہ بلند کرتے رہنا ہے۔’‘ معلوم ہوتا ہے کہ سرورؔ صاحب نے بنیادی مسئلوں سے سروکار نہیں رکھا ہے۔ ریڈیو کا رواج ہو گیا ہے۔ اس سے تفریح کا کام لیا جاتا ہے۔ اس پر تنقیدی تقریریں بھی نشر ہوتی ہیں۔ اس کا مقصد تفریح کے علاوہ تعلیم بھی ہے۔ غرض وہ ان سب عام باتوں کو تسلیم کر لیتے ہیں۔ وہ یہ نہیں پوچھتے کہ ریڈیو کا رواج اچھا ہے یا برا۔ اس سے کلچر پر کیا اثر پڑے گا۔ اس کا تفریحی پہلو ہمارے ذہن کی تعلیم و تربیت کرتا ہے یا اسے معطل بناتا ہے۔ اس کی وجہ سے ہم اپنی فرصت سے صحیح مصرف لے سکتے ہیں یا نہیں۔ کیا یہ واقعی عوام کی سطح کو بلند کرتا اور کر سکتا ہے اور کرسکتا ہے تو کس طرح؟

    غرض اس قسم کے بہت سے سوالات کئے جا سکتے تھے لیکن سرور صاحب اس پر کوئی روشنی نہیں ڈالتے اور مجھے کہنے دیجئے کہ شاید انہیں ان مسئلوں پر روشنی ڈالنے کی ضرورت بھی نہ تھی۔ وہ تو اپنی تقریروں کے متعلق عرض کرنا چاہتے تھے۔ ان کا مقصد ریڈیو اور کلچر کے تعلقات پر غور کرنا نہ تھا۔ میں نے سرورؔ صاحب کا ذکر اس لئے کیا کہ میں ان سے کچھ توقعات رکھتا ہوں اور جب ریڈیو کے مقصد کا ذکر ضمناً آ گیا تھا تو مجھے امید تھی کہ وہ ریڈیو سے خوشی نہیں بے زاری یا کم سے کم بے اطمینانی کا اظہار کریں گے۔

    میں کہہ چکا ہوں کہ ریڈیو کا مسئلہ کوئی الگ مسئلہ نہیں۔ سنیما، اخبار، رسالے اور افسانے، غرض دل بہلانے اور فرصت کی گھڑیاں کاٹنے کے وہ سارے لوازمات جوآج رائج ہیں، سبھوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ زمانہ میں تفریح کے بے شمار سامان مہیا ہو گئے ہیں۔ ایک طرف تو روزی کا معاملہ ہے۔ ہم دن بھر اپنے اپنے کاموں میں لگے رہتے ہیں اور آج کل زیادہ تر کاموں میں اختصاصی علم یا مہارت کی ضرورت ہے۔ کام کے وقت ہماری ساری توجہ اسی میں منہمک رہتی ہے اور ہمیں کسی بات کو سوچنے کی فرصت نہیں۔ کام کے بعد جب فرصت ملتی ہے تو ہمارا مشغلہ پھر تفریح ہے۔ آج کل تعلیم کچھ ایسی خراب ہو گئی ہے کہ ہمارے ذہن کی صحیح تربیت نہیں ہوتی۔ تعلیم ہمیں اپنے دماغ سے صحیح مصرف لینا نہیں سکھاتی۔ ہماری روح، ہمارا دماغ، کوئی اندرونی جنت نہیں بنا سکتا۔ اسے خارجی چیزوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

    ہماری روح، ہمارے دماغ کی یہ اندرونی خلا فرصت کے وقت بہت نمایاں ہو جاتی ہے۔ کام کے وقت تو ہم اپنے کام میں منہمک رہتے ہیں۔ اس وقت کسی روحانی یا دماغی کمی یا بے چینی کا احساس ممکن نہیں لیکن کام کے بعد اس کا احساس ہونے لگتا ہے اوراسی وجہ سے ہر تفریح کو اپنے مشغلہ بنا لیتے ہیں۔ ایسا مشغلہ جس میں ہمیں سوچنے کی، دماغ پر زور دینے کی ضرورت نہ پڑے، وہ اخبارات ہوں یا سنیما، ریڈیو ہو یا رسالے اور افسانے، کہیں بھی غور وفکر کی دعوت نہیں ہوتی۔ ہم پڑھتے، دیکھتے یا سنتے ہیں لیکن یہ پڑھنا، دیکھنا اور سنسنا دماغی قوت کو متحرک نہیں کرتا، انہیں چین کی نیند سلا دیتا ہے۔

    اب سوال یہ ہے کہ فرصت سے کیا کام لیا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ سائنس کی مدد سے ہم اپنے کاموں کو زیادہ آسانی سے اورکم وقت میں انجام دے سکتے ہیں۔ ہماری فرصت بڑھ گئی ہے اورشاید ایک وقت ایسا آنے والا ہے، جب دو تین گھنٹوں میں ہم دن بھر کا کام انجام دے لیا کریں گے اور پھر فرصت ہوگی۔ اس وقت فرصت سے کام لینے کا مسئلہ اور زیادہ اہم شکل اختیار کر جائےگا اور آج بھی یہ کچھ کم اہم نہیں۔ کیا بڑھتی ہوئی فرصت کا بس یہی مقصد ہے کہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت ریڈیو سننے، اخبارات دیکھنے، بازاری رسالے اور افسانے پڑھنے، تصویریں دیکھنے میں صرف کریں۔ اگر یہی مقصد ہے اور یہی ایک مقصد ہو سکتا ہے تواس سے فرصت کا نہ ہونا بہتر ہے۔ تفریح کے دوسرے ذریعوں کے مقابلہ میں ریڈیو زیادہ آسانی سے ’’وقت مارنے’‘ کا کام کر سکتا ہے۔ صبح ہوئی اور ریڈیو شروع ہوا۔ ’’آوازوں’‘ کی آغو ش میں ساری ضروریات انجام پاتی ہیں۔ کام سے لوٹنے پر پھر یہ آوازوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور یہ سلسلہ رات کو دیر تک جاری رہتا ہے۔ جہاں یہ سلسلہ ختم ہوا تو پھر سو رہے اور دوسرے دن اسی پروگرام کی تکرار ہوتی ہے۔

    اگر آپ کے پاس ریڈیو ہے تو پھر اس سے زیادہ آسان ذریعہ تفریح کا ممکن نہیں۔ گھر بیٹھے دل بہلایا جا سکتا ہے۔ سنیما میں کم از کم یہ خرابی ہے کہ کچھ ’’جسمانی محنت‘‘کی ضرورت ہوتی ہے یعنی سنیما تک جانے کی زحمت ہوتی ہے۔ اخبارات یا رسالے اور افسانے تفریحی تنوع کے لحاظ سے ریڈیو کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ مغرب میں ریڈیو تو زیادہ سے زیادہ گھروں میں ملتا ہے۔ اگر ترقی کا یہی سلسلہ جاری رہا توپھر مشرق میں بھی ’’یہ نعمت‘‘عام ہو جائےگی۔ لیکن ابھی وہ دن دور ہے، اس لئے ابھی اس کا موقع ہے کہ ہم اس مسئلہ پر غور کریں اور سوچیں کہ کیا اس بات میں مغرب کی تقلید ضروری ہے۔

    ہاں تو ریڈیو سے ’’فرصت پری‘‘بہت آسان ہو جاتی ہے لیکن کیا فرصت اسی لئے ہے کہ ہم اسے ریڈیو پر نشر کی ہوئی آوازوں، ہنگامہ خیز آوازوں کے سننے میں صرف کر دیں۔ کیا ہمارا دماغ اسی لئے ہے کہ اسے خواب آور دوا کی مسلسل خوراکوں سے معطل بنا دیا جائے؟ دماغ ہمیں سوچنے کے لئے دیا گیا ہے اورسائنس اگر فرصت میں اضافہ کرتا ہے تواس بڑھتی ہوئی فرصت سے ہمیں جائز مصرف لینا چاہئے۔ اپنے دماغ کی تربیت کرنی چاہئے۔ اسے بہتر سے بہتر کلچر قبول کرنے کے قابل بنانا چاہئے۔ دماغ کی تربیت اور ترقی کی صورت یہ نہیں کہ اسے ’’آوازوں’‘ کی یورش سے بیکار بنا دیا جائے۔ تربیت کی صورت یہ ہے کہ دماغ کو اپنی قوتوں سے کام لینا سکھایا جائے اوراس کے امکانات کو ترقی دی جائے۔

    میں نے ابھی کہا ہے کہ دماغ سوچنے کے لئے دیا گیا ہے اور چیزوں کے علاوہ ریڈیو کی اہمیت اس کی اچھائی برائی، پروگرام کی نوعیت اوراس کی قدر و قیمت پر سوچنے کے لئے دیا گیا ہے اور شاید ’’ریڈیو کے خدا‘‘کو اس کی خبر ہے کہ اس سوچ بچار کا نتیجہ ریڈیو کے حق میں اچھا نہیں ہوگا۔ اس لئے حفظ ماتقدم کے طورپر وہ ہمیں سوچنے کی مہلت نہیں دیتا۔ یہ ریڈیو کا سب سے بڑا عیب ہے کہ وہ ہماری فرصت کو اپنی خوراک بنا لیتا ہے۔ کہہ سکتے ہیں کہ ہم اس کا علاج آسانی سے کر سکتے ہیں۔ اگر ہم ریڈیو نہ خریدیں یا خریدنے کے بعداس سے ہر وقت کام نہ لیں تو پھر یہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے لیکن یہ بات اس قدر آسان نہیں۔

    سائنس کی ایجادوں میں سب سے اہم مشین کی ایجاد ہے۔ انسان ہاتھ سے چیزیں بنانے کے بدلے مشین کے ذریعے چیزیں بناتا ہے اور جہاں اپنے ہاتھوں سے دوتین چیزیں بناتا تھا اب اسی مدت میں وہ ہزاروں چیزیں بنا سکتا ہے۔ جہاں کثیر تعداد میں چیزیں بننے لگیں تو پھر انہیں بیچنے کا مرحلہ پیش آتا ہے۔ تجارتی کارکاخانہ عظیم الشان پیمانہ پر شروع ہوتا ہے اور انہیں بیچنے کے لئے اشتہارات کا سائنس یا آرٹ ترقی پاتا ہے۔ اس آرٹ یا سائنس کا مقصد یہ ہے کہ جن چیزوں کی ضرورت نہیں ان چیزوں کے خریدنے پر ہمیں مجبور کیا جائے اور جن چیزوں کی ضرورت ہے ان سے ہمیں محروم رکھا جائے۔ دنیا کی ایک زبردست طاقت اس پر آمادہ ہے، اور اس طاقت کے سامنے بڑی بڑی حکومتوں کی کوئی وقعت نہیں کہ ہم یہ بیکار چیزیں خریدیں۔ اس طاقت کی علامت ’’فورڈ‘‘ہے۔ آپ اپنی چیزوں کا جائزہ لیجئے اور دیکھئے کہ کتنی چیزیں ہیں جنہیں آپ ضروری کہہ سکتے ہیں۔ ان کی تعداد بہت کم ہوگی، ان چیزوں کے مقابلے میں جنہیں ہم آپ ضروری سمجھتے ہیں لیکن جو حقیقت میں ضروری نہیں۔

    یہ تو تجارت کا ادنیٰ اصول ہے کہ پہلے ضرورتیں پیدا کی جائیں پھر ان ضرورتوں کو پورا کرنے کا سامان مہیا کیا جائے۔ کتنے لوگ ہیں جو حضرت فورڈ کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور اپنی روح کو خارجی اثرات سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ ریڈیو تو ہر شخص خریدتا ہے فیشن کے خیال سے، اس لئے کہ ہمارے دوستوں کے پاس ہے۔ غرض بہت سی باتیں ہیں جو ہمیں اس بات پر آمادہ کرتی ہیں اورجب ریڈیو خریدنا ہے تو پھر اس سے مصرف کیوں نہ لیا جائے۔ غرض ایک قدم کے بعد دوسرا قدم فطری طور پر آگے بڑھتا ہے اور جہاں طبیعت تنزل کی طرف مائل ہوتی ہے تو پھر اسے روکنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو جاتا ہے۔

    بات میں بات نکلتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ کس قدر پیچیدہ ہے۔ اس پر سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے اور یہ ہماری دماغی کاہلی کا روشن ثبوت ہے کہ ہم سوچ بچار کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ ہم ریڈیو کی ضرورت تسلیم کر لیتے ہیں۔ یہ چیز رائج ہو گئی ہے اوراس کا خیرمقدم کرنا، نیاپن، روشن خیالی کی دلیل سمجھی جاتی ہے۔ ہماری طبیعت فرصت سے گھبراتی ہے، اس لئے ہم سنیما چلے جاتے ہیں اور بے معنی تصویریں جو ہماری نظروں کے سامنے گرتی ہیں، ان کے طلسم میں کھو جاتے ہیں۔ اتنی دماغی اور اخلاقی سکت تو ہوتی نہیں کہ ہم کسی مشکل کتاب پڑھنے یا کلاسیکل موسیقی سننے کی زحمت گوارا کریں، جس میں حقیقی خیالات و جذبات سے سابقہ پڑتا ہے اور جو ہمیں صرف بزرگ تخلیقی کارناموں میں ملتے ہیں۔ اس قسم کے کارناموں کو سمجھنے کی صلاحیت بھی سلب ہو جاتی ہے۔ وہ باتیں جو آسانی سے سمجھ میں آ جائیں، وہ چیزیں صرف ایک سطحی حسن رکھتی ہیں، ایسا حسن جو ایک نظر میں واضح ہو جائے۔ وہ ’’آوازیں’‘ جو ہمارے جذبات کو آسانی سے برانگیختہ کرتی ہیں بس یہی ہماری پسند کی حدود ہیں۔ نظر ان حدود سے باہر نہیں جاتی۔

    ہماری طبیعت میں بے اطمینانی نے گھر کر لیا ہے۔ ہم کسی چیز کا اطمینان قلب کے ساتھ جائزہ نہیں لے سکتے۔ جن چیزوں میں پیچیدگی، باریکی، گہرائی ہوتی ہے ان سے دل میں الجھن ہونے لگتی ہے۔ غور و تامل کو ہم تضیع اوقات سمجھتے ہیں، حالانکہ بات فرصت کی ہے اور غوروتامل کا ایک لمحہ بھی میوزک ہال میں ایک گھنٹہ گزارنے سے بہتر ہے لیکن اس حقیقت سے تو ہمیں واقفیت نہیں۔ غور و تامل کو ہم فشار قلب سمجھتے ہیں اورتنہائی کو قیدتنہائی اور اس فشار، اس قید سے بچنے کے لئے ہم طرح طرح کے سامان مہیا کرتے ہیں، حیلے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔ ریڈیو بھی اسی قسم کا ایک بہانہ ہے۔ کچھ لوگ جمع ہوں اور ریڈیو سے آوازیں آ رہی ہوں، وہ آوازیں کسی قسم کی ہوں کوئی مضائقہ نہیں۔ ہم اکیلے نہ ہوں اور کوئی دوسرا موجود نہ ہو تو بھی ہم اپنے خیالات کے ساتھ تنہا رہنا پسند نہیں کرتے اور ان آوازوں کی مدد سے ایک نئی دنیا بسا لیتے ہیں جہاں تنہائی کا گزر نہیں۔

    بہت ہی غیرمعمولی کیرکٹر رکھنے والا آدمی تنہائی اور خموشی کو برداشت کر سکتا ہے۔ عموماً تنہائی اور خموشی کی جان کن سختی کو ہم برداشت نہیں کرتے اوران دونوں سے نجات چاہتے ہیں۔ چودہ پندرہ برس ہوئے کہ ’برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن‘ نے کہا تھا کہ انگلستان میں ہر دوسرے گھر میں ریڈیو موجود ہے۔ یہ واقعہ اس بات کا ثبوت نہیں تھا کہ انگلستان میں موسیقی سے دلچسپی رکھنے والوں کی تعداد میں بے شمار اضافہ ہو گیا تھا۔ بات صرف اتنی تھی کہ ہر تین گھروں میں سے دو گھروں میں پڑھنا یا بول چال کرنا ریڈیو کی مدد سے ہوتا تھا۔ تنہائی اور خموشی اور غوروتامل کا ان گھروں میں گزر نہیں تھا۔

    ہندوستان میں بھی غالباً ایک وقت آنے والا ہے جب ہر گھر میں ریڈیو ہوگا اور ریڈیو سننا ہر شخص کا مسلسل مشغلہ ہی نہیں ’’فرض‘‘ہوگا۔ ممکن ہے کہ لوگ اس تصور سے خوش ہوں اور اس تصور کوجلد سے جلد واقعہ بنانا چاہتے ہوں۔ ممکن ہے کہ وہ اسے دنیاوی جنت کے حصول کا پیش خیمہ سمجھیں۔ ہندوستان، کہا جاتا ہے کہ مجموعہ اضداد ہے۔ اپنی زرخیز زمینوں اور زمین میں پوشیدہ کبھی نہ ختم ہونے والے خزانوں کے ہوتے ہوئے بھی یہ ملک غربت و فلاکت کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ پھر کیوں نہ ہم ریڈیو اور اس کے بڑھتے ہوئے رواج کو فال نیک سمجھیں۔ کیوں نہ ہم اپنے دل کو اس خیال سے خوش کریں کہ بہت جلد ہندوستان بھی اپنی غربت سے نجات پاکر مغرب کی طرح دولت، امارت اور مسرت سے مالامال ہو جائےگا۔

    بات یہ ہے کہ ہندوستان کو غربت سے بچانا اور بات ہے اور ریڈیو کا خیرمقدم کرنا کچھ اور بات ہے۔ میں کہہ چکا ہوں کہ یہ مسئلہ نہایت دشوار اور پیچیدہ ہے۔ اس مسئلہ کو سلجھانے کے لئے کلچر، تعلیم اور خصوصاً سیاست اور معاشیات سے بحث کرنی ہوگی اور اصولی تجارت، اصولی معاشرت پر بھی غور کرنا ہوگا۔ یہ چیزیں نہایت مشکل اور پیچیدہ ہیں اوران میں پڑنے کے معنی یہ ہیں کہ گفتگو کا سلسلہ کبھی نہ ختم ہوگا۔ بات میں بات نکلتی آئے گی۔ اس لئے میں صرف چند موٹی موٹی اصولی باتوں پر کچھ روشنی ڈالوں گا۔

    (۳)
    ریڈیو میں نیکی اور بدی کی زبردست طاقتیں پنہاں ہیں۔ اسے عموماً صرف تفریح کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ جہاں دل بہلانے کی اور بہت سی صورتیں ہیں وہاں ایک صورت ریڈیو بھی ہے لیکن اب تویہ ہر شخص جانتا ہے کہ ریڈیو کا واحد مصرف خالص تفریح نہیں۔ پہلے نہ سہی گزشتہ جنگ نے تو یہ بات بین طور پر ظاہر کر دی ہے کہ ریڈیو سے پروپیگنڈہ کا کام لیا جا سکتا ہے۔ اس سے مختلف طریقوں سے دشمن کے دل ودماغ پر شب خوں مارا جا سکتا ہے۔ اگر آلات حرب سے فتح کی صورت نظر نہیں آتی تو ریڈیو کی مدد سے مزید بے پناہ حملے کئے جا سکتے ہیں اور اندرونی بیخ کنی کی جا سکتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ فتح کی شکل قریب تر آ جاتی ہے۔ اسی ریڈیو کا فیض ہے کہ دنیا میں ایک نئی جنگ نے جنم لیا ہے جسے ’’اعصاب کی جنگ‘‘کہتے ہیں۔ اس جنگ میں خون خرابہ تو نہیں ہوا لیکن کسی قوم کے لیے خون خرابے والی جنگ سے کم مہلک نہیں۔ غرض گزشتہ جنگ نے ریڈیو کی پوشیدہ طاقتوں کو ظاہر کر دیا ہے اور اس سے لوگوں کو واقفیت ہو گئی ہے، لیکن یہ بات کہ ریڈیو کی تفریحی صورت میں بھی اسی قسم کی بے پناہ طاقت پنہاں ہے، یہ بات اس قدر عام نہیں۔

    زندگی کے سنوارنے اور بگاڑنے میں آرٹ سے کام لیا جا سکتا ہے۔ انسان کے دل ودماغ، انسان کی روح پر آرٹ کی حکومت ہے۔ کسی نے کہا ہے کہ مجھے قوم کے گیت بنانے دو، پھر جس کا جی چاہے وہ اس کے قوانین بنا سکتا ہے۔ گیت قوانین سے زیادہ اہم اور زیادہ پر اثرہوتے ہیں جو کسی قوم کے گیت بنائے گا وہ گویا قوم کا بادشاہ ہوگا۔ اس کی حکومت قوم کے دل ودماغ پر ہوگی۔ وہ ایک اشارے میں قوم کو ترقی کے رستے پر لگا سکے گا یا پھر اسے پستی میں پھینک دے گا۔ یعنی گیت صرف وقتی تفریح کا ذریعہ نہیں۔ آرٹ بچوں کا کھلونا نہیں کہ اس سے وقتی طور پر دل بہلا کر ہم پس پشت ڈال دیں۔

    اب اس بات کا سائنس داں کو بھی احساس ہو چلا ہے کہ آرٹ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اب اسے بھی آرٹ کی حقیقت اور اس کے جادو سے واقفیت ہو چکی ہے اور یہ جادو زیادہ بااثر ہوتا ہے کیونکہ اس کا اثر براہ راست نہیں ہوتا۔ یہ اثر نہایت لطیف اور غیرمرئی صورت میں ہوتا ہے۔ ہمیں کسی فنی کارنامہ سے مسرت ہوتی ہے اور ہمیں اس مسرت کا فوری احساس ہوتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس کارنامے کا مقصد بس یہی مسرت ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسرت کے ساتھ کچھ اور بھی ہوتا ہے۔ اس اثر سے ہم شعوری طور پر شاید واقف بھی نہیں ہوتے لیکن یہ باقی رہتا ہے اور ہماری دماغی اور جذباتی زندگی پر باقی رہنے والا نقش ثبت کرتا ہے۔

    ریڈیو کا تفریحی پہلو اس قدر ظاہر ہے کہ اس کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ اگر جنگ کی ضروریات سے قطع نظر کرکے دیکھا جائے تو دو اہم مقصد نظر آئیں گے۔ تفریح اور تعلیم۔ تفریح کا ہمیشہ کچھ نہ کچھ تعلیمی اثر بھی ہوتا ہے اور یہ اثر ہماری اچھائی کا بھی سبب ہو سکتا ہے اور ہماری برائی کا بھی۔ یہ تواب مانی ہوئی بات ہے کہ تفریح اور کھیل سے تعلیم کا مصرف لیا ج اسکتا ہے اور بچوں کی تعلیم میں کھیل سے اہم کام لیا جاتا ہے۔ ریڈیو کا تفریحی پہلو اس لئے اہم ہے کہ اس سے ہماری جذباتی اور دماغی زندگی کو جس رنگ میں بھی چاہے رنگا جا سکتا ہے۔ ریڈیو ہمیں خواب کی میٹھی نیند سلا سکتا ہے۔ ہمارے دماغ کو تیز اور زندہ بنا سکتا ہے۔ اسی سے ہمیں بہترین انسان کلچر کے رستہ پر لگایا جا سکتا ہے، یا ہمیں پست ترین ذہنی زندگی کی طرف دھکیل دیا جا سکتا ہے۔ اسی سے ہمیں زیادہ حساس زندگی کی طرف بلایا جا سکتا ہے اور اسی سے ہماری روح کو اسیر بنایا جا سکتا ہے۔ تفصیل کی ضرورت نہیں۔ ریڈیو کے امکانات سے شاید کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔

    جب یہ بات تسلیم کر لی گئی کہ ریڈیو صرف دل بہلانے کا ایک ذریعہ نہیں بلکہ اس میں نیکی اور بدی کے زبردست امکانات ہیں تو پھر لازمی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ زبردست طاقت کون استعمال کرے۔ ظاہر ہے کہ اسے کسی فرد کے ذمہ سپرد نہیں کیا جا سکتا اور نہ اسے تجارتی اصول پر چلایا جا سکتا ہے۔ یہ طاقت تو حکومت کو اپنے ہاتھوں میں رکھنی چاہئے کیونکہ کسی ایک شخص کو اتنی بڑی ذمہ داری سپرد نہیں کی جا سکتی اور نہ اسے تجارت کے غیرذمہ دار نمائندوں کے سپرد کیا جا سکتا ہے۔ حکومت ہی کے لئے یہ چیز زیبا ہے لیکن اب سوال یہ ہے کہ حکومت کیسی ہو۔ ایک ہٹلر اسی کی مدد سے ایک قوم کے ذہن کو غلام بنا سکتا ہے۔ ذہنی آزادی سلب کرکے لوگوں کو جانوروں کی سطح پر گرا سکتا ہے۔ ان کے دماغ، ان کے دل، ان کی روح کو ہر قسم کے مہلک جراثیم کا شکار بنا سکتا ہے۔ انہیں ایسے زہر کا جام پلا سکتا ہے جوان کے لئے اور ساری انسانیت کے لئے سم قاتل ہو۔ کوئی غارت گر اسی کی مد دسے مغلوب قوم کو میٹھی نیند سلا دے سکتا ہے اور انہیں میٹھی نیند سلاکر ان کے مال ودولت کو اپنے تصرف میں لا سکتا ہے۔ ہم بہت آسانی سے اس ریڈیو کے جادو سے ’’کنول کھانے والوں’‘ کی دنیا میں پہنچ سکتے ہیں اور ان کے ہم نوا ہو سکتے ہیں۔

    ’’موت زندگی کا حاصل ہے، پھر زندگی کیوں سراسر محنت ہو؟ ہمیں سب بکھیڑوں سے الگ رہنے دو۔ ہمیں بدی سے جنگ کرنے میں کیا خوشی ہو سکتی ہے؟ کہیں بڑھتی ہوئی موجوں کے ساتھ بڑھنے میں سکون نصیب ہو سکتا ہے۔ ساری چیز کو آرام میسر ہے اور وہ موت کے لئے سکون کے ساتھ تیار ہوتی رہتی ہیں، گرتی ہیں اور فنا ہو جاتی ہیں۔ کاش ہمیں لمبا آرام یا موت، سیاہ موت یا خواب سے بھری ہوئی راحت میسر ہو۔’‘

    جب ریڈیو سے یہ سب چیزیں ممکن ہیں توپھر یہ سوال کہ حکومت کیسی ہو، بہت اہمیت اختیار کر لیتا ہے۔ اس لئے ظاہر ہے کہ ریڈیو کے ساتھ سیاست کا مسئلہ بھی کھینچ آتا ہے اور سیاست کا مسئلہ کوئی ایسا آسان مسئلہ نہیں کہ اسے ضمنی حیثیت دی جائے لیکن سیاست کی اہمیت کے باوجود یہ موقع اس موضوع پر بحث کرنے کا نہیں ورنہ نتیجہ معلوم! یعنی یہ مضمون شاید کبھی ختم نہ ہو، اس لئے یہاں صرف یہ کہنا کافی ہے کہ حکومت جو بھی ہو وہ ’روشن خیال‘ اور نیک نیت ہو، اس کا مقصد انسانی قدروں کی حفاظت اوران کی ترقی ہو، وہ بہترین انسانی کلچر کے تصور سے واقف ہو اور اس تصور کوواقعہ بنانا چاہتی ہو۔ وہ عایا کی بھلائی کی امانت دار ہواور خدمت خلق اس کا عین ایمان ہو۔ اگر کوئی حکومت ان صفات کا مجموعہ نہیں تو اس کے ہاتھ میں ریڈیو کا ہونا خطرناک سی چیز ہوگی۔

    وہ قصداً یا بلاقصد اس کے برے امکانات کو بروئے کار لائےگی۔ اس صورت میں ریڈیو اعلیٰ کلچر کے حصول کا نہیں، انسان کی ذہنی اور روحانی تباہی و بربادی کا ذریعہ بن جائےگا۔ انسان اپنی ذہنی آزادی کھو بیٹھےگا، اس کی روح تنگ وتاریک زنداں میں مقید ہو جائےگی، یا اس کی طبیعت کسی زبردست خواب آور دوا سے ایسی مانوس ہو جائےگی کہ پھر اسے دنیا و مافیہا کی کوئی خبر نہ ہوگی۔ اس کا دماغ معطل ہو جائےگا اور اس کی روح اپنا انسانی جوہر کھو بیٹھےگی۔ جوچیز اس قدر خطرناک ہو، جس میں بدی کے ایسے زبردست امکانات ہوں، اسے بچوں کا کھیل سمجھنا دانشمندی سے دور ہے۔ اس سے اگر کام لینا ہو تو سمجھ بوجھ کے۔ ناسمجھی کا نتیجہ ہمیشہ خراب ہوتا ہے اور ناسمجھی کے ساتھ آگ سے کھیلنا توصرف خراب ہی نہیں مہلک بھی ہے۔ گویا یہ ایک قسم کی خودکشی ہے۔

    جس قسم کا کام عموماً ریڈیو سے لیا جاتا ہے وہ اچھا نہیں ہے۔ اسے بھی سنیما، میوزک ہال، اخبارات، ناولوں اور افسانوں کی طرح صرف دل بہلانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسی چیزیں زیادہ سے زیادہ نشر کی جاتی ہیں جوعام پسند ہوتی ہیں۔ جن سے ہمارے جذبات مختلف قسم کی آلائشوں سے پاک نہیں ہوتے۔ ان میں کوئی گہرائی اور لطافت پیدا نہیں ہوتی۔ اسی طرح ہمارے خیالات زندہ اور تیز نہیں ہوتے۔ ہمارا دماغ سکون اور توازن کی نعمت سے بہرہ ور نہیں ہوتا بلکہ کچھ گنجلک سا ہو جاتا ہے اور ہمارے خیالات میں سطحیت آ جاتی ہے۔ یہ سب کچھ ہوتا ہے لیکن ہمیں اس کی کوئی خبر نہیں ہوتی۔

    انسان بالطبع کاہل واقع ہوا ہے۔ وہ ہمیشہ آسان راستہ پسند کرتا ہے۔ وہ فطری طور پر تہذیب وکلچرکی دشوار گزار گھاٹیوں سے گزرنا پسند نہیں کرتا۔ اگر بچوں کو اپنی راہ پر چھوڑ دیا جائے تو بڑے ہوکر وہ نرے وحشی نظر آئیں گے، وہ اپنے فطری میلات کو کبھی نہ روکیں گے بلکہ اپنی ہر خواہش کو واقعہ بنانا چاہیں گے۔ خودغرضی ان کا شیوہ ہوگا اور دوسروں کی بھلائی کے لئے وہ اپنی خواہشوں کا خون نہیں ہونے دیں گے۔ غرض ان کے جذبات و خیالات، تعلیم وتہذیب، تربیت، کلچر کی خوبیوں سے بے بہرہ ہوں گے۔ انسان کو تہذیب کے زینوں پر چڑھنے میں کاوش سے کام لینا پڑتا ہے۔ اسے ہمیشہ ہوشیار رہنا ہوتا ہے۔ جہاں غفلت کی، پھر ساری محنت رائیگاں گئی، پھر ازسرنو محنت کرنی ہوگی۔ آج کل انسان کچھ اسی قسم کی غفلت کا شکار ہو رہا ہے۔ وہ آسان راستہ پسند کرتا ہے۔ دماغی اور جذباتی کلفتیں اس کے لئے سوہان روح ہیں۔ اس لئے وہ ان کلفتوں سے اپنا دامن بچائے رہنا چاہتا ہے۔ یہ فطرت کی عجیب ستم ظریفی ہے کہ وہی چیزیں جو تہذیب کی نشانی ہیں وہی تہذیب وکلچر کے مٹانے پر تلی ہوئی ہیں۔

    بہرکیف اس بات سے کسی کو انکار نہ ہوگا کہ عام لوگوں کی دماغی اور جذباتی سطح کچھ زیادہ بلند نہیں۔ عموماً ایسے لوگوں کی پسند کسی معیار کا سہارا نہیں ڈھونڈتی اور ان کا فنی معیار، ان کا ادبی مذاق بہت بلند نہیں ہوتا۔ اگرانہیں اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے، اگر ان کے لئے صرف انہی کی پسند کی چیزیں مہیا کی جائیں تو پھر ان کے مذاق میں کوئی لطافت اور پاکیزگی نہیں آسکتی۔ انہیں کسی بلند فنی معیار کا احساس نہیں ہوسکتا، وہ ہمیشہ اپنی پست ذہنی دنیا میں مگن رہیں گے۔ انہیں کسی دوسری بہتر اور اعلیٰ دنیا کی تلاش نہ ستائےگی۔ اگر انہیں کسی زیادہ اچھی اور حسین دنیا کی طرف بلایا بھی جائے تو وہ اس کی طرف شاید متوجہ نہ ہوں گے، مثلاً سستے ناولوں، رومانوی افسانوں، جاسوسی قصوں کو لیجئے۔ کتنے لوگ ان چیزوں کو پڑھتے ہیں اور ان سے اپنا دل بہلاتے ہیں۔ ان چیزوں میں فنی خوبیاں کچھ بھی نہیں ہوتیں اور نہ کسی کو فنی خوبیوں کی جستجو ہوتی ہے۔

    بات یہ ہے کہ دنیا میں ہمارے میلانات، ہماری خواہشیں پھلتی پھولتی نہیں۔ جو دل چاہتا ہے وہ ہو نہیں پاتا، شکست امید ہماری بے اطمینانی کا سبب ہوتی ہے اور ہم اس بے اطمینانی سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں اوریہ نجات ہمیں رومانی افسانوں، جاسوسی قصوں کی مدد سے مل جاتی ہے۔ ان کی مدد سے ہم ایک ایسی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں جہاں ہمارے میلانات، ہماری خواہشوں، امنگوں اور امیدوں کو ناکامی کا منہ نہیں دیکھنا پڑتا۔ اسی لئے ہمیں اس دنیا میں ایک مسرت، ایک روحانی سکون محسوس ہوتا ہے اور اس سکون کے آگے فنی خوبیوں کی کوئی وقعت باقی نہیں رہتی۔ ہمیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ یہ سکون مضر ہے اور ادبی حسن کی کمی ہمارے مذاق کو پست سے پست تر بنا دیتی ہے۔

    اگر یہ سستی کتابیں صرف دل بہلانے کا ذریعہ ہوتیں، اگرایک جماعت ان کتابوں کی مدد سے فرصت کی گھڑیاں آسانی اور دلچسپی کے ساتھ گزار سکتی اوربس، تو پھر شاید کسی کو بھی ان کتابوں کی مذمت کرنے کا حق نہ ہوتا لیکن مشکل یہ آپڑتی ہے کہ یہ کتاب تفریح کے ساتھ ہمارے مذاق کو بگاڑ دیتی ہیں۔ جس کی طبیعت ان سے مانوس ہو جاتی ہے پھر اسے دوسری چیزیں خصوصاً ایسی چیزیں جو ہمیں غورفکر کی دعوت دیتی ہیں، بالکل ناپسند ہوتی ہیں۔ اڈگروالس کے آگے شیکسپئر کی کوئی وقعت باقی نہیں رہتی۔ جو اچھا، ستھرا، سنجیدہ مذاق رکھتے ہیں، جو ناقدانہ اوصاف کے حامل ہیں وہ بھی جاسوسی افسانوں اور ناولوں سے شوق کرنے کے بعد سنجیدہ کتابوں کی طرف رجوع کرنے میں ایک قسم کی رکاوٹ محسوس کرتے ہیں اور جو ناقدانہ اوصاف کے حامل نہیں جو اچھا ستھرا، سنجیدہ مذاق نہیں رکھتے اور زیادہ تعداد اسی قسم کے لوگوں کی ہوتی ہے۔ انہیں تو جاسوسی یا رومانی افسانوں اور ناولو ں کا ایسا چسکا پڑ جاتا ہے کہ وہ کسی سنجیدہ کتاب کا خیال بھی دل میں نہیں لاتے۔

    معاشیات کا ایک اصول ہے کہ جن چیزوں کی مانگ ہوتی ہے توان چیزوں کے مہیا کرنے کا سامان بھی ہو جاتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں رومانی اور جاسوسی قصوں کی مانگ ہے اور اس ضرورت کی وجہ سے مختلف قسم کے ذرائع پیدا ہو گئے ہیں۔ لکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد پیدا ہو گئی ہے جن کی زندگی کا مقصد بس اسی قسم کے قصوں کا لکھنا ہے، اسی کو انہوں نے اپنا پیشہ بنا رکھا ہے۔ یہی ان کا اچھا خاصا ذریعہ معاش ہے۔ یہ قصے تجارتی اصول پر لکھے یا لکھوائے جاتے ہیں یعنی جس طرح سگریٹ، سگار، لپ اسٹک، پیٹنٹ دواؤں کی تجارت ہوتی ہے، اسی طرح اس قسم کی کتابوں کی تجارت ہوتی ہے اور تجارت کا اصل الاصول ہے نفع۔ یہاں بھی نفع کا خیال سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ لکھنے والے نفع میں ہوتے ہیں اور لکھنے والوں سے زیادہ پبلشرز دولت جمع کر لیتے ہیں۔ اگر نقصان میں کوئی رہتا ہے تو بیچارہ پڑھنے والا۔ وہ فوری، ناپائیدار مسرت کے لئے اپنے ذہن کو ہمیشہ کے لئے مجروح ومعطل بنا لیتا ہے۔

    ذرا سوچئے تو اگر ریڈیو کا کارخانہ بھی تجارتی اصول پر چلایا جاتا تو پھر کیا عالم ہوتا۔ اگرصرف مالی نفع مدنظر ہوتا اور یہ بھی حکومت کا نہیں پرائیویٹ لوگوں کا تو پھر جتنا نقصان جاسوسی اور رومانی قصوں سے پہنچ رہا ہے، اس سے زیادہ نقصان ریڈیو سے پہنچتا ہے۔ یہی تو ایک اچھی بات ہے کہ ریڈیو کا انتظام حکومت نے اپنے ذمہ رکھا ہے، سارا کا رخانہ حکومت کے دوسرے شعبوں کی طرح گویا ایک شعبہ ہے لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ ہر شعبہ میں کچھ تجارتی اصول پر چلایا جاتا ہے یعنی سننے والوں کیپسند وناپسند کا ضرورت سے زیادہ خیال رکھا جاتا ہے اور شاید نفع کا بھی۔ اگر پسند، ذاتی پسند ہی پر ہر چیز چھوڑ دی جائے تو اڈگروالس کے آگے چوسرؔ، شیکسپیئرؔ، ملٹنؔ، ورڈزورتھؔ وغیرہ کو کون پوچھےگا۔ زیادہ سے زیادہ لوگ تو وہی چیز پسند کرتے ہیں جوکوئی قدروقیمت نہیں رکھتی، جو انہیں آسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہے، جو سریع الاثر ہوتی ہے، جوان کے جذبات کو برانگیختہ کرتی ہے۔

    اگرہم عام پسند کا لحاظ رکھیں تو پھر ترقی معلوم! ہ رجگہ عام پسند کی سطح بہت نیچی ہوتی ہے۔ ضرورت اس کی ہے کہ اس سطح کو بلند کیا جائے۔ لوگوں کو اچھی چیزوں سے مانوس کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کی مذاق کی تربیت اصل مقصد ہونا چاہئے، نہ یہ کہ ان کی اپنی پسند کا، جو لازمی طور پر بری پسند ہوگی، خیال کیا جائے۔ پھر وہی بات یعنی سننے والوں کے مذاق کا لحاظ۔ سننے والوں کے مذاق کا لحاظ نہیں، ان کے مذاق کو بہتر بنانے، اسے ترقی دینے، اسے پائیدار اور حساس بنانے کا خیال رکھنا چاہئے۔ بہرکیف ریڈیو سے عام پسند کی چیزیں بھی نشر کی جاتی ہیں اور خاص پسند بھی لیکن عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ عام پسند چیزیں زیادہ ہوتی ہیں۔ پھر جب عام پسند چیزوں کی کثرت ہو تو بہت کم لوگ خاص چیزوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔

    یہ تو ہر شخص کا مشاہدہ ہوگا کہ جہاں ’’فوکس ٹروٹ‘‘ قسم کی چیزیں بج رہی ہیں تو انہیں لطف لے کر سنا جاتا ہے لیکن اگر کلاسیکل قسم کی کوئی چیز شروع ہو گئی تو پھر ریڈیو بجنا موقوف۔ اس صور ت حال میں خاص چیزوں کا کوئی اثرنہیں ہو سکتا۔ جنہیں سننے چاہئے، جن کے مذاق میں ترقی کی گنجائش ہے وہ سننے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے۔ وجہ یہ ہے کہ ان کی پسند کی اور بہت سی چیزیں موجود رہتی ہیں پھر تضیع اوقات کون کرے۔

    ہاں تو سننے والوں کی پسند کوئی معیار نہیں بن سکتی کیونکہ یہ پسند معیاری نہیں ہوتی۔ مذاق کا مسئلہ تربیت سے وابستہ ہے۔ جیسی تربیت ہوگی اسی قسم کا مذاق بھی ہوگا۔ مذاق کی درستگی مذاق کو بلند اور لطیف بنانا اچھی تربیت پر منحصر ہے۔ تربیت ہی ہمیں اچھی بری چیزوں میں تمیز کرنا سکھاتی ہے۔ اچھی چیزوں کو پسند کرنا سکھاتی ہے توبری چیزوں کو ناپسند۔ اچھی چیزوں کو دیکھنا، اچھی چیزوں کو سننا اچھی چیزوں کی صحبت میں رہنا ہمارے مذاق کو بلند اور لطیف بناتا ہے۔ کوئی بلندولطیف مذاق لے کر پیدا نہیں ہوتا۔ اسے تعلیم وتربیت، اپنی محنت وکاوش کی مدد سے حاصل کرتا ہے۔

    اگر ریڈیو سے صرف اچھی چیزیں نشر کی جائیں، مخرب مذاق چیزوں کو یک قلم جگہ نہ دی جائے تو ممکن ہے کہ پہلے ریڈیو سننے والوں کی ایک بہت بڑی جماعت خفا ہو جائےگی۔ لیکن اگر خفگی کی پروانہ کی جائے تو پھر انہیں ریڈیو کے ذریعہ اچھی چیزوں سے مانوس بناکر اور ان کی قدروقیمت کا انہیں احساس دلاکر مذاق کی تربیت کی جا سکتی ہے اور تفریح کے ساتھ ساتھ انہیں ایک اعلیٰ کلچر سے بہرہ ور کیا جاسکتا ہے۔

    (۴)
    سنیما اور تھیٹر میں ہم دیکھتے ہیں اور سنتے بھی ہیں۔ ریڈیو کی مدد سے ہم صرف سنتے ہیں البتہ اگر ٹیلی ویژن ترقی کر جائے تو پھر ہم دیکھنے بھی لگیں گے۔ ریڈیو کی یہ کمی اچھی بھی ہے اور بری بھی۔ سنیما اور تھیٹر میں بہت سی چیزیں ہماری توجہ کو جمنے نہیں دیتیں۔ اسے منتشر کر دیتی ہیں۔ سینری کا رنگین حسن، لباس وآرائش کی چمک دمک، اداکاروں کا چلنا پھرنا، ان کے اشارے کنائے، ان کی صورتیں اور شخصیتیں، غرض بہت سی ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو ہمیں کھینچتی ہیں اور ہم، جو کچھ کہا جا رہا ہے اسے پوری توجہ سے نہیں سن سکتے۔ اسی وجہ سے موجودہ زمانہ میں بلندپایہ ڈرامے ناپید ہو گئے ہیں۔ اس کمی کا سبب کچھ توسطحی حقیقت طرازی ہے اور کچھ سینری، لباس، نقل وحرکت کی بڑھتی ہوئی اہمیت۔

    شیکسپیئر کے زمانے میں یہ چیزیں اہم نہ سمجھی جاتی تھیں۔ اس لئے لوگ غور سے سن سکتے تھے۔ اس سے محظوظ بھی ہوتے تھے اور ڈرامہ نگار بھی سطحی واقعیت پر ادبی خوبیوں کو قربان نہ کرتا تھا۔ اس وجہ سے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ چیزیں کم کر دی جائیں اور پھر حسن الفاظ پر زیادہ زور دیا جائے۔ بہرکیف ریڈیو میں ہماری توجہ کو منتشر کر دینے والے سامان نہیں، ہم کامل غور سے سن سکتے ہیں۔ فضائی ہنگامے البتہ مخل ہوتے ہیں اور آوازوں کا یکایک مدھم ہو جانا سوہان روح کا سبب ہوتا ہے لیکن شاید یہ باتیں دور ہو جائیں۔

    سنیما نے تھیٹر سے زیادہ مقبولیت حاصل کرلی ہے۔ تمام تھیٹروں کا حال پتلا ہے۔ اس صورت حال کے اسباب پر بحث کرنے کا یہ موقع نہیں۔ اتنا کہنا کافی ہے کہ یہ صورت حال تشفی بخش نہیں۔ سنیما میں جو عکسی تصویریں ہم دیکھتے ہیں وہ تھیٹر کی زندہ اور جیتی جاگتی صورتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ ریڈیو تو سردست عکسی تصویر بھی مہیا نہیں کر سکتا۔ ہم صرف ایسی آوازیں سنتے ہیں جنہیں گویا جسم سے کوئی واسطہ نہیں۔ فضا کی خلاؤں سے گویا آوازیں آتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ موسیقی سننے کی بہترین صورت یہ ہے کہ اندھیرے میں آنکھیں بند کرکے کان کھول دیے جائیں۔ غالباً ریڈیو سننے کی بھی یہی بہترین صورت ہے۔ بہرکیف یہ آوازیں خوش آئند بھی ہوتی ہیں اور بھدی بھی۔ پتلی، بھاری، سریلی، بے سری، رعب دار، مضحک، مکروہ غرض ہر قسم کی ہوتی ہیں۔ پھر یہ آوازیں ہر قسم کے موضوع سے متعلق ہوتی ہیں اور ان موضوعات میں کوئی خاص لگاؤ نہیں ہوتا۔

    کسی ڈرامہ یا تصویر میں تو ایک خاص موضوع، کوئی تخیلی تجربہ ہوتا ہے، وہ اچھا ہو یا برا، اور یہ اپنا خاص اثر کرتا ہے۔ ریڈیو کا سلسلہ تو صبح سے رات تک جاری رہتا ہے اس لئے کسی ایک موضوع، ایک تخیلی تجربہ کا خیال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن مختلف چیزیں جو نشر کی جاتی ہیں ان کے انتخاب، ان کی ترتیب، ان میں کوئی حسن، کوئی سلیقہ نظر نہیں آتا۔ ابھی آپ کسی سائنٹفک موضوع پر سائنٹسٹ کی پرمغز تقریر سن رہے ہیں اور ابھی کوئی فوکس ٹروٹ یا ٹھمری۔ نتیجہ دماغی یا جذباتی پراگندگی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔ یہ پراگندگی پروگرام کی بوقلمونی کی وجہ سے اور پراگندہ ہو جاتی ہے۔

    ریڈیو سے ہر قسم کی چیزیں نشر ہوتی ہیں، مثلاً ڈرامے اور افسانے بھی نشر کئے جاتے ہیں۔ ڈرامہ اسٹیج پر کھیلا جاتا ہے سنا نہیں جاتا۔ سنے کا کے ڈرامے البتہ اس قسم کے تھے کہ لوگ ایک جگہ جمع ہوتے اور مصنف انہیں ڈرامہ سناتا۔ لیکن یہ بات تو مسلم ہے کہ ڈرامہ اس غرض سے نہیں لکھا جاتا اور ہر اچھے ڈرامے میں یہ خوبی ہونی چاہئے کہ اسٹیج پر کھیلا جا سکے۔ ریڈیو پر سننے سے اس کی ڈرامائی اور ادبی دونوں قسم کی خوبیاں برباد ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح افسانہ پڑھی جانے کی چیز ہے سننے کی نہیں۔ داستان البتہ کہنے کا فن ہے اور سننے ہی میں لطف ملتا ہے۔ لیکن افسانہ کا لطف پڑھنے ہی میں ہے، ڈراموں اور افسانوں کو ریڈیو پر سننے والوں میں کچھ سطحیت آجاتی ہے اور یہ ریڈیو کا عام عیب ہے۔ ایک تو ریڈیو سے اسی طرح کی چیزیں نشر کی جاتی ہیں جو عام پسند ہوتی ہیں، جو جلد آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہیں، یعنی جو سطحی خوبیاں رکھتی ہیں۔

    انتخاب موضوع، زبان، خیالات غرض ہر بات میں سننے والوں کی جماعت کا خیال رکھا جاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ سننے والے بس یہی چاہتے ہیں کہ آسانی سے سمجھ میں آ جانے والی باتیں سیدھی سادھی زبان میں لیکن سطحی حسن، باریکی، ظرافت وغیرہ جیسی خوبیوں کے ساتھ کہی جائیں۔ اس سے سننے والوں کے سطحی مذاق کی سطحیت گہری ہو جاتی ہے اورپھر جس فضا میں یہ چیزیں سنی جاتی ہیں وہ بھی کچھ کم نقصان کی حامل نہیں۔ دوست احباب جمع ہیں، بات چیت جاری ہے ممکن ہے کہ تاش یا اور کوئی شغل بھی جاری ہو اور ریڈیو ہے کہ وہ مسلسل زور وشور سے گرج رہا ہے۔ یاروں نے کچھ سنا اور کچھ نہ سنا۔ چہ میگوئیاں کیں، چلو قصہ ختم ہوا لیکن ریڈیو کا قصہ ختم نہیں ہوتا۔

    اس طرح کی فضا میں کوئی کام کی بات نہیں ہو سکتی ہے اورنہ کوئی بیش قیمت چیز پیش کی جاسکتی ہے۔ جو بات غو ر وفکر کے بعد کہی جاتی ہے اسے غور وفکر سے سنننا بھی چاہئے لیکن ایسی فضا میں غوروفکر کا گزر ممکن نہیں۔ ایسی فضا میں ادبی، فنی محاسن کی پہچان اور پھر ان سے محظوظ ہونا ممکن نہیں تو دشوار ضرور ہو جاتا ہے۔ میں نے داستان گوئی کے ذکر کے سلسلے میں کہا تھا کہ جس فضا میں داستان کہی اور سنی جاتی ہے، اس فضا میں ادبی محاسن کا ذکر ممکن نہیں، جہاں کوئی گنا چھیل رہا ہے کوئی پونڈے پر چاقو تیز کر رہا ہے، جابجا پیالوں میں افیون گھولی جا رہی ہے، وہاں گہری، باریک اور پیچیدہ باتوں کا گزر نہیں ہو سکتا۔ داستان گو اس اس حقیقت سے واقف ہوتے تھے، اس لئے وہ اپنی ساری پونجی کو سربازار لے آتے تھے یعنی اپنی داستان کو ایسی خوبیوں سے مزین کرتے تھے جو آسانی سے سمجھ میں آ جائیں، جن سے محظوظ ہونے کے لئے کسی کاوش اور دماغ سوزی کی ضرورت نہ پڑے۔

    یہ تنقید ریڈیو پر بھی چسپاں ہوتی ہے۔ گنا اور افیون تو نہیں لیکن اسی قسم کی چیزیں نظر آتی ہیں۔ جزئیات مختلف ہیں لیکن فضا مختلف نہیں اور یہ فضا پائندہ اور بیش قیمت فنی کارناموں کے لئے سازگار نہیں۔ سائنٹفک، سیاسی اور اسی قسم کے دوسرے شعبوں میں بھی کوئی ایسا کارنامہ نہیں پیش ہو سکتا جو وقتی تفریح یا سطحی عام پسند معلومات سے زیادہ وقعت رکھتا ہو، غرض ہر صورت میں یہی عالم ہے۔ اسی سطحیت کی جلوہ گری ہے۔

    میں کہہ چکا ہوں کہ ریڈیو کے دواہم پہلو ہیں۔ تفریح اور تعلیم۔ تفریح سب کے لئے اور علم ان لوگوں کے لئے جنہیں تعلیم کی ضرورت ہے۔ لازمی طور پر یہ تعلیم بہت ناقص قسم کی ہوگی۔ آپ نے اکثر اشتہار دیکھا ہوگا کہ آپ کو ڈاکٹری، انجینئرنگ، صحافت، اصول تجارت، قانون، ریاضیات، شارٹ ہینڈ، غرض دنیا کے سارے علوم وفنون خط وکتابت کے ذریعہ سکھائے جا سکتے ہیں۔ آٹھ دس سبق میں آپ ہر فن میں ماہر ہو سکتے ہیں، بس فیس بھیجنے کی دیر ہے۔

    ریڈیو بھی آپ کو ہر فن میں ماہر بنانے کا دعویدار ہے بس ریڈیولائسنس لینے اور ریڈیو خریدنے کی دیر ہے۔ ظاہر ہے کہ آپ آٹھ دس سبق میں کسی دشوار فن پر عبور حاصل نہیں کر سکتے۔ یہ ڈھونگ توصرف آپ کی سادہ لوحی سے ناجائز مصرف لینے کے لئے کھڑا کیا جاتا ہے۔ اگر آپ ریڈیو اور ریڈیو والوں سے کسی واقعی تعلیم حاصل کرنے کے امیدوار ہیں۔ وہ لازمی طور پر ناقص ہوتی ہے۔ ایک تو وقت کی پابندی ہے وہ پندرہ منٹ ہویا ۴۵ منٹ جو قلیل وقت ملتا ہے۔ اس میں کسی موضوع پر تشفی بخش طریقے سے خیالات کا اظہار نہیں ہو سکتا، دو قسم کی خرابی پیدا ہوتی ہے۔

    اگر بولنے والا سطحی قسم کا ہے تواسے پندرہ منٹ کی مدت بھی بہت معلوم ہوتی ہے اور وہ باتیں ذرا پھیلاکر کرتا ہے۔ گفتگو میں مغز کم ہوتا ہے الفاظ زیادہ۔ لیکن جنہیں کچھ کہنا ہے انہیں دوسری قسم کی مشکل میں آتی ہے۔ وقت کی پابندی کے خیال سے وہ اکھڑی اکھڑی باتیں کرنے لگتے ہیں۔ ضروری کہنے کی باتیں وہ کہہ نہیں سکتے اور ان کی تقریر ان کے خیالات کو مسخ شدہ صورت میں پیش کرتی ہے۔ پھر یہ خیال کہ ریڈیو سننے والوں کی بہت بڑی جماعت ان کی باتوں کو سمجھ سکے، انہیں سیدھی سیدھی باتیں کہنے پر مجبور کرتا ہے۔ گہرائی، باریکی، نفاست سے وہ پرہیز کرتے ہیں یعنی وہ تقریر کرتے ہیں لیکن شاید اپنی تقریر سے وہ مطمئن نہیں ہوتے۔

    خط وکتابت کے ذریعہ جو سبق دیے جاتے ہیں وہ ہوائی سبق سے زیادہ مفید ہوتے ہیں۔ آپ انہیں غور سے پڑ ھ سکتے ہیں۔ ایک مرتبہ نہیں کئی بار اور اگر پھر بھی کچھ باتیں سمجھ میں نہ آئیں توآپ ان کی مزید تشریح طلب کرتے ہیں۔ ’’ہوائی سبق‘‘ کو توشاید آپ نامکمل طور سے سنتے ہیں اور پھر دوبارہ نہیں سن سکتے اور پھر یہ سبق محدود اور ناقص قسم کے ہوتے ہیں۔ جنہیں اس خاص موضوع سے واقفیت ہے۔ انہیں یہ ’’ہوائی‘‘ باتیں محض تضیع اوقات کا ذریعہ معلوم ہوتی ہیں۔ جو واقف نہیں اور زیادہ تعداد اس قسم کے سننے والوں کی ہوتی ہے، وہ بھی کچھ خاص فائدہ حاصل نہیں کرتے۔ ایک تویہ سبق ہی محدود، ناقص، عام فہم اور عام پسند قسم کے ہوتے ہیں، جن میں کوئی گہرائی، کوئی جدت نہیں ہوتی اور کوئی مغز بھی نہیں ہوتا۔ پھر سننے والے کچھ حصہ سنتے ہیں اور کچھ حصہ نہیں سن پاتے اور جو سنتے ہیں اس میں سے بعض باتیں شاید سمجھ لیتے ہیں اور کچھ بالکل نہیں سمجھتے۔ اسی سے دور کی بھی مشابہت نہیں رکھتیں۔ تقریر اگر انسانی جسم کی طرح مربوط اور حسین تھی تو ان کے ذہن میں چند منتشر ہڈیاں رہ جاتی ہیں اور بس۔ اور ان ہڈیوں سے کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔

    کہا جاتا ہے کہ کچھ نہیں سے کچھ ضرور بہتر ہے لیکن یہ بات ہر جگہ درست نہیں۔ اکثر کچھ نہیں زیادہ مفید ہے۔ عدم واقفیت اکثر زیادہ مضر نہیں ہوتی۔ ادھوری واقفیت، خام کاری زیادہ مضر ثابت ہوتی ہے اور اکثر مہلک بھی ہوتی ہے۔ ریڈیو اسی قسم کی ادھوری واقفیت اور خام کاری پھیلانے کا ذریعہ ہے۔ یہ ادھوری واقفیت صرف ایک فن یا شعبے سے متعلق نہیں ہوتی۔ ریڈیو بھی اشتہاری اسکولوں کی طرح سارے علوم و فنون سکھاتا ہے، آپ سیاسیات پر تقریریں سن سکتے ہیں اور آرٹ پر بھی۔ معاشیات، مذہب، قانون، فلسفہ، نفسیات، انتھروپولوجی، ناچ، گانا، غرض ہر علم ہر فن میں سبق لے سکتے ہیں لیکن اسی خام، غیرتشفی بخش طورپر۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سننے والے کے دماغ میں بہت سی معلومات کا ذخیرہ جمع ہو جاتا ہے۔ جن میں سے کچھ تواس نے سمجھا ہے کچھ بالکل نہیں سمجھا ہے اور زیادہ تر غلط سمجھا ہے۔ یہ بات کسی ترتیب سے جمع نہیں ہوتی بلکہ بغیر تنظیم ومناسبت کے ڈھیر کر دی جاتی ہیں اور آپس میں اس طرح خلط ملط ہو جاتی ہیں کہ انہیں ایک دوسرے سے علیحدہ کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔

    غرض ریڈیو سننے والے کا دماغ ایک عجوبہ روزگار ہو جاتا ہے جس کی جگہ عجائب خانہ میں ہونی چاہئے۔ ایک طرف تو اسکول اور کالج کی تعلیم ناقص ہوتی ہے اور دماغ کی تربیت نہیں کرتی، اس کی قوتوں کوصحیح ترقی نہیں دیتی، اس کے امکانات سے ہمیں مصرف لینا نہیں سکھاتی بلکہ ہمارے دماغ کو مجروح کر دیتی ہے۔ اس پر یہ ’’ہوائی‘‘ تعلیم سونے پر سہاگہ ہوتی ہے۔ مجروح تو دماغ پہلے سے رہتا ہے۔ یہ تعلیم اس سے زیادہ مجروح بلکہ معطل کر دیتی ہے۔ اگراس میں کچھ غور و فکر کی سکت تھی بھی تو وہ زائل ہو جاتی ہے۔ معلومات تو وہ مہیا کر لیتا ہے وہ ناقص ہی سہی لیکن ان معلومات سے کام لینا اسے نہیں آتا، وہ انہیں ہضم نہیں کر سکتا اور وہ ایک بوجھ کی طرح اسے پریشان کرتی ہیں۔

    ایک دوسری خرابی بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس ’’تعلیم‘‘حاصل کرنے کے لئے کسی کاوش کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ریڈیو موجود ہے، پروگرام بھی پیش نظر ہے، وقت آیا اور انگلیوں کی ایک جنبش میں تعلیم کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یعنی ہمیں نئی نئی باتیں معلوم ہونے لگیں۔ ہم ہیں کہ خموش سن رہے ہیں۔ یہ اس صورت میں کہ ہم واقعی کچھ استفادہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہاں تو ہم خموشی سے سن لے رہے ہیں۔ بچپن میں جب لکھنے پڑھنے کی دشواریوں سے سابقہ پڑتا ہے تو اکثر جی چاہتا ہے کہ کاش کوئی یہ سب چیزیں گھول کر پلا دیتا اور سب باتیں معلوم ہو جاتیں، پھر یہ دشواریاں نہ ہوتیں۔ خصوصاً مولویوں اور ماسٹروں کی جاوبیجا تنبیہ سے نجات مل جاتی لیکن یہ تمنا کبھی بر نہیں آئی۔ ریڈیو نے ہماری بچپن کی تمنا کسی حد تک پوری کر دی ہے۔ پانی میں گھول کر نہ سہی، فضا میں موجوں کی طرح منتشر کرکے ہمارے کانوں کے سہل رستہ سے ہمیں ساری باتیں بتا دی جاتی ہیں۔ کسی قسم کی رکاوٹ یا دشواری نہیں ہوتی۔ کسی ناگوار واقعہ سے سامنا کرنا نہیں ہوتا۔ بغیر کسی کاوش، کسی تردد کے ہمارا دماغ نور علم سے معمور ہو جاتا ہے۔

    دیکھنے میں آیا ہے کہ ہم کسی بات کی ذاتی تفتیش سے بہتر یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی یہ بات ہمیں بتادے۔ ذاتی تفتیش ذرا مشکل کام ہے۔ اس میں جسمانی اور دماغی محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اکثر ناکامیوں، ناامیدیوں سے سابقہ کرنا ہوتا ہے۔ غرض یہ عجیب کٹھن کام ہے۔ پھر ہر بات کی ذاتی تفتیش ممکن بھی نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ایک ملک ہے جسے امریکہ کہتے ہیں لیکن اس ملک سے ہم ذاتی واقفیت نہیں رکھتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ماؤنٹ ایورسٹ دنیا کا سب سے اونچا پہاڑ ہے لیکن ہم نے کسی پہاڑ کی شکل بھی نہیں دیکھی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ بیماریوں کا سبب مختلف قسم کے جراثیم ہوتے ہیں لیکن ان جراثیم کی صورت ہم نے کبھی نہیں دیکھی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ایک زمانہ میں اکبر ہندوستان کافر مانروا تھا لیکن اسے ہم نے دیکھا نہیں ہے۔ غرض زیادہ سے زیادہ معلومات کے لئے ہم دوسروں کی باتوں پر یقین کر لیتے ہیں۔ اگر ہم ہر واقعہ کے ثبوت کے لئے ذاتی واقفیت ضروری سمجھیں تو پھر ہم کچھ سیکھ نہیں سکتے۔

    بہرکیف ذاتی تفتیش ہر جگہ ممکن بھی نہیں اورپھر ہماری فطرت بھی اسے پسند نہیں کرتی کہ ہم بےکار مشکلوں میں پڑ کر اپنا وقت ضائع کریں۔ دل تویہ چاہتا ہے کہ سب کہیں اور سنا کرے کوئی۔ ریڈیو سے ہماری یہ تمنا بر آتی ہے۔ سب کہتے ہیں اور ہم خموش سنتے ہیں۔ اس طرح ہمارا دماغ سکون کی جستجو میں کامیاب ہو جاتا ہے او رسکون کے ساتھ اسے جمود کی نعمت بھی حاصل ہو جاتی ہے اوریہ دماغی جمود عام سننے والوں تک محدود نہیں رہتا۔ یہ مرض پلیگ کی طرح تمام سننے والوں کو ہو جاتا ہے۔ انقلاب فرانس کا ایک مقصد یہ تھا کہ مساوات کا قیام ہو۔ سب انسان آپس میں برابر ہیں اور یہ برابری عملی صورت میں تسلیم کر لی جائے۔ آج ریڈیو اس آئیڈیل کو نہایت خموشی کے ساتھ عملی صورت میں تبدیل کر رہا ہے۔ فرق یہ ہے کہ یہ برابری معاشیاتی نہیں ذہنی ہے۔ ایک طرف تو مقصد کم سے کم یہ ہے کہ عام سننے والوں کی ذہنی سطح کو بلند کیا جائے۔ اس مقصد کا برابر ادعا کیا جاتا ہے اور یہ مقصد تعریف کی بات ہے لیکن کہاں تک اس مقصد میں کامیابی ممکن ہے وہ اور بات ہے۔ پھر کہاں تک اس مقصد میں کامیابی کے صحیح ذرائع استعمال کئے جاتے ہیں وہ بھی اور بات ہے۔

    اس بات سے توکسی کو بھی انکار نہیں ہو سکتا کہ ہماری عام ذہنی سطح بہت نیچی ہے اور مغربی ممالک میں بھی تعلیم کے حلقہ کی وسعت کے باوجود یہ سطح کچھ زیادہ بلند نہیں۔ یہ سوچنے کی بات ہے کہ جب تعلیم، اسکول اور کالجوں کی تعلیم جوکسی حد تک منظم ہے، کچھ زیادہ کامیاب نہ ہوسکی تو پھر ریڈیو کی ناقص اور غیرمنظم تعلیم کس طرح اورکہاں تک کامیاب ہو سکتی ہے۔ کامیابی تو ممکن نہیں لیکن یہ ضرور ہوتا ہے کہ ایک ہی قسم کی معلومات مہیا کر دی جاتی ہیں اور زید، عمرو، بکر سب بغیر کسی تفرقہ کے اس خوان یغما میں شریک ہو سکتے ہیں۔ یہ نہیں کہ امراء کے لئے توایٹن، ہیرو، کیمبرج اور آکسفورڈ وغیرہ اور غریبوں کے لئے میونسپل اسکول۔ ریڈیو ناانصافی کا مرتکب نہیں ہوتا۔ یہ سبھوں کے لئے برابر معلومات مہیا کرتا ہے اور سبھوں کو ایک ہی طرح کی تربیت دیتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ سننے والوں کے دماغوں کی ایک ساخت ہوجاتی ہے اور ان کی ذہنی دنیا بھی یکساں ہو جاتی ہے لیکن یہ دنیا کچھ زیادہ بلند نہیں ہوتی۔

    اب سوال یہ ہے کہ پست دنیا ان لوگوں کی ذہنی دنیا کی ہمسری کس طرح کر سکتی ہے، جن کا ذہن تیز، چالاک ہے اور جو اس تیز و چالاک ذہن کو کام میں لاتے ہیں اور جو ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جسے پستی سے کوئی نسبت نہیں۔ بات یہ ہے کہ ریڈیو اس بلند دنیا کو پستی کی طرف دھکیل دیتا ہے یا کم سے کم دھکیل دینا چاہتا ہے یعنی اس کا دو بظاہر متضاد اثر ہوتا ہے۔ ایک جماعت کو تو یہ پستی سے نکالنا چاہتا ہے اور کچھ بلندی کی طرف بلاتا ہے اور دوسری جماعت کو یہ بلندی سے پستی کی جانب کھینچتا ہے۔ اس طرح دونوں جماعت اوراس کی ذہنی دنیا ایک دوسرے سے قریب ہو جاتی ہے اور اگر ریڈیو کی یہ کوشش جاری رہی تو پھر یہ دوری مٹ جائےگی اور وحدت کا جلوہ ہر جگہ نظر آئےگا۔ یہ ہے وہ ذہنی برابری کا تصور جو صرف ریڈیو کی مددسے عملی صورت اختیار کر سکتا ہے اور جب تک یہ تصور عملی صورت نہ اختیار کرے، معاشی برابری قائم نہیں ہو سکتی اور اگر قائم بھی ہو جائے تو پائیدار نہیں ہو سکتی کیونکہ جو زیادہ تیز وچالاک ہیں وہ کسی صورت میں اپنی فوقیت کا پھل حاصل کر لیں گے لیکن جہاں ذہنی برابری عام قانون ہو گئی تو اور چیزیں بھی لازمی طور سے برابر ہو جائیں گی۔

    یہ ریڈیو کا مقصد ہے کہ ادنیٰ اور اعلیٰ، بلندی وپستی، ذہانت وکم عقلی کا فرق دنیا سے مٹ جائے اور خدا کی ساری مخلوق بس ایک رنگ میں رنگ جائے۔ اب وہ کوئی رنگ سہی۔ یہی اثر ایک دوسری صورت میں بھی ہوتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ ریڈیو زیادہ سنتے ہیں وہ ریڈیو کی بائبل کی طرح عزت کرتے ہیں۔ ریڈیو کی پیروی اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ یہ پیروی اور چیزوں کے ساتھ زبان، تلفظ، لب ولہجہ میں ہوتی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی زبان بھی ریڈیو والوں کی زبان ہوجائے، ان کا تلفظ بھی ریڈیو والوں کے تلفظ کے مطابق ہو جائے اور وہ لب ولہجہ میں بھی ریڈیو والوں کی تقلید ضروری سمجھتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی زبان یک رنگ ہوجاتی ہے۔ اس میں جو مقامی اور ذاتی خصوصیتیں ہوتی ہیں وہ مٹ جاتی ہیں اور ہر شخص مثلاً انگلینڈ میں بی بی سی کی طرح بولنے لگتا ہے۔

    ہندوستان میں تو زبانیں اس قدر مختلف ہیں پھر ہر بولنے والے کی زبان میں اپنی مقامی خصوصاً ذاتی خصوصیتیں ہوتی ہیں کہ اس یکسانی کا شاید خیال بھی مشکل ہے لیکن جب دوسرے ممالک میں سننے والے فطری طور پر اس یک رنگی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہندوستان میں بھی یہ بات ممکن نہ ہو۔ یہاں سیاسی، مذہبی، قومی مسئلوں کی طرح زبان کا مسئلہ بھی نہایت پیچیدہ ہے اور ہمارے سیاسی رہنماؤں کی یہ کوشش رہتی ہے کہ یہ پیچیدگی اور دشواری کسی صورت سے سادگی اور آسانی سے بدل جائے لیکن اس مقصد میں انہوں نے ریڈیو سے کام لینے کی ضرورت نہ سمجھی۔ اگر ہندوستان کے ہر ریڈیو اسٹیشن سے صرف ہندی میں پروگرام نشر کیا جائے تو زبان کا مسئلہ حل ہو جائےگا۔ ہندی اور دوسری زبانوں کا جھگڑا بھی مٹ جائے گا، ہندومسلم کلچر کا فرق بھی مٹ جاتا رہےگا۔ ہندوستان کی یکجہتی کا خواب بھی واقعہ ہو جائےگا۔

    اب ریڈیو کا ایک دوسرا رخ ملاحظہ ہو۔ آج کل اخبار زندگی کی ضرورتوں میں شمار کیا جاتا ہے اور سنیما بھی زندگی کی ضروریات کا ایک جزو اعظم بنا ہوا ہے۔ کچھ وقت تو اخبار دیکھنے میں صرف ہوتا ہے اور باقی وقت خبروں اور تصویروں پر تبادلہ خیالات میں۔ یہ اخباروں اور تصویروں کا فیض ہے کہ ہماری سوشل زندگی بہت آسان ہو گئی ہے۔ جہاں دو چار دوست مل بیٹھے تو موضوع گفتگو کی کمی محسوس نہیں ہوتی۔ دماغ پر زور دینا نہیں پڑتا۔ دیکھا آپ نے جاپان کس طرح بڑھا چلا آ رہا ہے اور ہاں جرمنوں کے قدم پھر کچھ جم گئے ہیں اور اٹلی میں نہ جانے اتحادی کیا کر رہے ہیں۔ یہ جنگ ابھی ختم ہوتی نظر نہیں آتی اور معلوم نہیں سکنڈ فرنٹ کب قائم ہوگا۔ آج کل چیزیں کس قدر گراں ہوگئی ہیں۔ اصل مشکل تو یہ ہے کہ وہ پیسے خرچ کرنے پر بھی نہیں ملتیں۔ ہاں اور کنٹرول کا انتظام کس قدر خراب ہے۔ لوگوں کو طرح طرح کی مصیبتیں کا سامنا کرنا ہوتا ہے اور ہاں، وہ جو نئی تصویر آئی ہے آپ نے دیکھی؟ اس کا بہت شور ہے لیکن اس میں کوئی خاص بات نظر نہیں آتی۔ کچھ عام پسند گانے البتہ ہیں لیکن اداکاری نہایت معمولی قسم کی ہے۔ کوئی ایکٹریس بھی اچھی نہیں، نہ توکسی صورت ہی اچھی ہے اور نہ اداکاری میں کوئی کمال رکھتی ہے۔

    غرض یہ سلسلہ آسانی سے شروع ہوتا ہے اورجب تک ضرورت ہو، جاری رہتا ہے۔ ریڈیو نے بھی یہی فیض جاری کیا ہے اور دوسری چیزوں کے مقابلہ میں اس کا فیض زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ آج فلاں گانے والی کو آپ نے سنا تھا، نہایت اچھی ٹھمری گا رہی تھی۔ لیکن استاد فلاں کا گانا یونہی سارہا۔ آپ نے فلاں صاحب کی وہ تقریر سنی تھی۔ تقریر تو بالکل کھوکھلی سی تھی پھر کچھ اس قدر شور رہا تھا کہ سننا مشکل تھا۔ آج صبح کوآپ نے خبریں سنی تھیں۔ آثار کچھ اچھے نظر نہیں آتے اورسنا آپ نے ریل کا کرایہ بڑھ گیا۔ کل شام کو آٹھ بجے مسٹر چرچل کی تقریر نشر ہوگی۔ دیکھیں یہ کیا فرماتے ہیں۔ ہاں لکھنؤ سے تقریروں کا ایک نیا سلسلہ جاری ہوا ہے۔ جدت تو معلوم ہوتی ہے اور کچھ نہ سہی دلی سے ہر مہینہ ریڈیو میگزین نشر ہوتی ہے۔ آپ نے کچھ سنا ہے۔

    یہ سطحی قسم کی چیز ہے۔ غرض یہ کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہو جاتا ہے۔ کسی خاص موضوع پر گفتگو کرنے سے اور اس کے بارے میں اپنی ذاتی رائے قائم کرنے سے اسی قسم کی گفتگو زیادہ آسان ہے۔ ہماری گفتگو میں بھی ریڈیو پروگرام کی بوقلمونی کا عکس نظر آتا ہے۔ ہمارا ذہن ایک موضوع سے دوسرے موضوع کی طرف بہت سہولت کے ساتھ منتقل ہو جاتا ہے اور چند منٹوں میں ہم ساری دنیا کی باتوں کا احاطہ کر لیتے ہیں۔ ہماری گفتگو میں تنوع تو ہوتا ہے مغز نہ سہی۔ جیسے زندگی موجوہ زمانہ میں متنوع اور پیچیدہ ہو گئی ہے لیکن اس میں گہرائی نہیں ملتی۔

    گفتگو بھی ایک آرٹ ہے اور پہلے زمانے میں اس آرٹ سے واقفیت تھی۔ فرصت زیادہ ہوتی اس لئے غوروفکر کے مواقع کی کمی نہ تھی۔ مختلف چیزوں کے متعلق غوروفکر کے بعد ذاتی رائے قائم کی جاتی تھی۔ پھر دوسرے فنون کی طرح گفتگو کے بھی آداب تھے۔ لوگوں کی گفتگو کرنے کا سلیقہ تھا اور یہ سلیقہ کچھ تو سازگار ماحول کی وجہ سے پیدا ہو جاتا تھا اورکچھ ذاتی کاوش، دماغ سوزی کے سلسلہ سے حاصل کیا جاتا۔ گفتگو میں بہت زیادہ تنوع نہ سہی، مغز زیادہ، گہرائی زیادہ، جلا زیادہ، رنگینی اور دلچسپی زیادہ ہوتی لیکن اب یہ آرٹ ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ اس دلچسپ سوشل آرٹ کی جگہ اب اکھڑی اکھڑی باتوں نے لے لی ہے۔ جن میں نہ کوئی آرٹ ہے نہ اورکسی قسم کی خوبی اور جو ہمارے ذہن کے دیوالیہ ہو جانے کا ایک مزید ثبوت ہیں۔

    ضرورت ہے کہ آرٹ کی طرف پھر توجہ کی جائے لیکن اس طرف توجہ کون کرے۔ اس کی جگہ تو ریڈیو نے لے لی ہے۔ سلیقہ کے ساتھ گفتگو کرنے کی زحمت کون گوارا کرے، جب ہم ریڈیو کی طرف سے اس سوشل فرض سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہماری سوشل زندگی پر ریڈیو کا خراب اثر ہوتا ہے۔ ملنے جلنے، تبادلہ خیالات، مختلف شخصیتوں کے میل یا تصادم سے جو باتیں حاصل ہوتیں وہ اب مفقود ہو گئی ہیں اور اس نقصان کا ذمہ دار ریڈیو ہے۔

    (۵)
    عام اصولی باتوں کے بعدذرا جزئیات کی طرف آیئے۔ ریڈیو کا پروگرام روزانہ صبح سے رات تک جاری رہتا ہے اور ایک جگہ سے نہیں کئی جگہوں سے۔ یہ کوئی آسان بات تو نہیں۔ ایک طرف تو ایسے لوگوں کی ضرورت ہے اور کافی تعداد میں جن کے ذمہ نگرانی کا کام سپرد کیا جائے اور یہ نگرانی بہت بڑی ذمہ داری ہے جس کا ہر شخص اہل نہیں ہو سکتا۔ ان لوگوں کے سامنے پہلے تو کلچر کا ایک بلند آئیڈیل ہونا چاہئے۔ جن چیزوں سے کلچر کی تعمیر ہوتی ہے ان سے واقفیت ضروری ہے اور انہیں یہ بھی جاننا چاہئے کہ کلچر کس طرح بنتا اور بگڑتا ہے۔ اگر یہ سب باتیں موجود نہیں تو پھر ریڈیو ان کے ہاتھ میں ایک مہلک سی چیز ہوگی اور وہ قوم کی صورت سنوارنے کے بدلے اسے بگاڑ دیں گے۔ جان بوجھ کر نہیں، کسی بری نیت سے نہیں، صرف اس لئے کہ وہ کسی چیزکو بنا نہیں سکتے۔

    بہرکیف اس آئیڈیل کے ساتھ ساتھ ان میں کچھ اور بھی خوبیاں ہونی چاہئیں۔ آخر ان کا کام ریڈیو پروگرام کے لیے مواد جمع کرنا ہے۔ اس کام کے لئے انہیں اختصاصی واقفیت کی ضرورت ہے۔ ایک شعبہ میں نہیں، زندگی، علم، فن کے ہر شعبے میں مثلاً اگر آرٹ پر تقریروں کا سلسلہ شروع کرنا ہے تو پروگرام ڈائریکٹر کوآرٹ سے واقفیت ہونی چاہئے۔ ملک میں جو اس موضوع پر کامل عبور رکھتے ہیں انہیں جاننا چاہئے، اس میں یہ سکت ہونی چاہئے کہ وہ کھرے کھوٹے میں تمیز کر سکے، شہرت سے مرعوب نہ ہو جائے، اسے یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ جاننا اور بات ہے اورجو ہم جانتے ہیں اسے دوسروں تک کامیابی کے ساتھ پہنچانا اور بات ہے۔ غرض ساری باتوں کا لحاظ کرتے ہوئے اسے ایسے شخص کو چننا چاہئے جو اس کام کے لئے سب سے زیادہ موزوں ہو۔ اسی طرح اگر گانے کا کوئی پروگرام شروع کرتا ہے تو اسے کچھ فن موسیقی سے واقفیت ہونی چاہئے۔ بہت ضروری ہے کہ وہ مذاق صحیح، ستھرا، تربیت یافتہ مذاق رکھتا ہو۔ اچھی بری چیزوں میں تمیز ہونی چاہئے۔ چلتے ہوئے فلمی گانوں کا دلدادہ نہ ہو اور سہگل کو ہندوستان کا بہترین گانے والا نہ سمجھتا ہو۔

    غرض اس کی معلومات وسیع ہوں، مختلف علوم و فنون میں دستگاہ رکھتا ہو، کم سے کم جن چیزوں سے ذاتی واقفیت نہیں ان کے بارے میں صحیح واقفیت مہیا کر سکتا ہو، مخصوص شخصیت رکھتا ہو، غوروفکر کی عادت اور صلاحیت ہو، آزاد رائے قائم کر سکتا ہو اوراپنی ذمہ داری کا پورا پورا احساس رکھتا ہو، ظاہر ہے کہ یہ سب خوبیاں بہت کم لوگوں میں بیک وقت پائی جا سکتی ہیں۔ اس لئے ان لوگوں کے چننے میں پوری احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ یہ کام جس سے قوم کا بننا بگڑنا وابستہ ہے، خام کار لوگوں کو سپرد کر دیا جائے۔

    ہاں تو جو ریڈیو پروگرام مرتب کرتے ہیں انہیں اس پروگرام کے لئے مواد جمع کرنا ہوتا ہے۔ مواد کی تلاش میں خیال رکھنا چاہئے کہ بہترین مواد مہیا ہو سکے۔ ذاتی تعلقات، مقامی جذبات کو پس پشت ڈال دینا چاہئے۔ یہ نہ ہو کہ ریڈیو کو اپنے دوستوں یا مقامی لوگوں کی شکم پُری کا ذریعہ بنایا جائے۔ اس میں کسی قسم کی رعایت کی گنجائش نہیں۔ بس ہمیشہ یہی کوشش رہے کہ بہترین چیزیں مہیا ہو سکیں۔ اس کے بعد یا اس سے نیچے درجہ کی چیزوں کو بلاپس و پیش رد کر دینا چاہئے۔ یہ نہ ہو کہ ریڈیو پروگرام چند لوگوں کی ’منوپولی‘بن کر رہ جائے۔ البتہ اگر یہ سب چوٹی کے لوگ ہوں تو پھر مضائقہ نہیں لیکن دوسرے تیسرے درجہ کے لوگوں کو اورایسے ہی لوگوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، منوپولی حوالہ کر دینا قوم کی دشمنی ہے۔ بہرکیف بہترین مواد کی تلاش ہر جگہ ہونی چاہئے۔ جہاں بھی ہو اس میں مقامی وطنیت سے کام لینا مناسب نہیں اور نہ ملک کو مختلف حصوں میں تقسیم کرکے ریڈیواسٹیشن کو ایک حصہ میں بانٹ دینا چاہئے۔

    بہت ممکن ہے کہ کوئی سلسلہ ایسا ہو کہ اس کے ماہر کسی ایک حصہ میں نہیں بلکہ مختلف حصوں میں پائے جاتے ہیں۔ ایسی حالت میں کامیابی کی صورت بس یہی ہے کہ سبھوں کو جمع کیا جائے اور ان لوگوں کے اکٹھا ہونے میں کوئی قاعدہ قانون مانع نہ ہو۔ یعنی ریڈیو پروگرام اسی وقت مفید ہو سکتا ہے جب اس کے نگراں اس اہم کام کے اہل ہوں اور اس کی اہمیت کو سمجھ کر نیک دلی کے ساتھ اس کام میں منہمک ہو جائیں اور کسی خارجی خیال کو اپنے پاس پھٹکنے نہ دیں ورنہ پروگرام بیکار ہی نہیں مضرت رساں بھی ہو سکتا ہے۔

    مواد اس وقت جمع ہو سکتا ہے جب مواد موجود ہو۔ مواد بنایا تو جا نہیں سکتا۔ اسی جگہ مسلسل ریڈیو پروگرام کی سب سے بڑی کمزوری ظاہر ہوتی ہے۔ میں کہہ چکا ہوں کہ مواد بہترین ہونا چاہئے لیکن مواد تولازمی طورپر بہت کم ہوگا۔ ہر ملک میں یہی بات ہے اور ہندوستان تو دوسرے ملکوں کے مقابلے میں بہت پیچھے ہے، اس لئے یہاں دشواری زیادہ ہے۔ پھر جانے کتنے ریڈیو اسٹیشن ہیں اور ہر جگہ سے پروگرام کا سلسلہ صبح سے رات تک جاری رہتا ہے۔ اگر مواد کمی نہ کرے تو تعجب کی بات ہے۔ غالباً اس بات سے کسی کو بھی انکار نہ ہوگا کہ پروگرام کے ہر حصے کے لئے مواد، بہترین مواد کی کمی محسوس ہوتی ہے لیکن پروگرام تو بند نہیں ہو سکتا۔ خانہ پری ضروری ہے اور کتنی! نتیجہ یہ ہے کہ دوسرے تیسرے چوتھے درجہ کی چیزوں کی کثرت ہوتی ہے۔

    ایسی چیزوں کو سننا وقت کی بربادی ہے، اگر صرف وقت کی بربادی ہوتی تو بھی چنداں مضائقہ نہ تھا۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں کا زیاد ہ سے زیادہ وقت تو برباد ہی ہوتا ہے، ریڈیو سننے میں نہ سہی کسی دوسرے اسی قسم کے بیکار مشغلوں میں۔ اسی لئے اگر صرف وقت برباد ہوتا تو زیادہ نقصان نہ ہوتا۔ وقت کی بربادی کے علاوہ دوسرا نقصان بھی ہوتا ہے۔ میں کہہ چکا ہوں کہ بری چیزوں کو سننا، بری چیزوں کی صحبت میں رہنا مذاق کو بگاڑ دیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ نقصان زیادہ اہم اور دیرپا ہے خصوصاً جہاں مذاق صحیح کی کمی ہو۔ اس قسم کے دھکے کے بعد سنبھلنا زیادہ دشوار ہو جاتا ہے۔ یہ تو مانی ہوئی بات ہے کہ ریڈیو سے زیادہ سے زیادہ ایسی چیزیں نشر ہوتی ہیں جو ذوق سلیم رکھنے والوں کے لئے سوہان روح کا سبب ہیں۔ ان کی روح کو صدمہ پہنچتا ہے۔ ان کا ادراک وقتی طورپر مجروح ہو جاتا ہے۔ ان کے جذبات و خیالات مفلوج ہو جاتے ہیں۔ جب اچھی چیزوں کی کمی ہے تو پھر یہ ضروری نہیں کہ پروگرام کا سلسلہ روزانہ صبح سے رات تک جاری رہے۔

    ’’انڈین لسنر‘‘اٹھاکر دیکھئے۔ زیادہ تر چند ناموں کی تکرار نظر آئے گی اور بہت سے نام اس میں شاید ایسے ہوں گے جنہیں پہلی مرتبہ کے بعد مسترد کر دینا چاہئے تھا لیکن وہی نام چلے جاتے ہیں گویا انہوں نے زندگی بھر کا ٹھیکہ لے لیا ہے۔ اس طرح وقت اور پیسہ کی بربادی ہوتی ہے اور قوم کے مذاق پر ایک کاری ضرب لگتی ہے اور پروگرام کو ترتیب دینے والے بھی کسی حد تک اس معاملہ میں بے بس ہیں۔ خانہ پری ضروری ہے اور مواد جو ملتا ہے وہ گندہ۔ پھر وہ بےچارے بھی کیا کریں۔ پورے انتظام کی جانچ کی ضرورت ہے اور کامل دلیری اور آزادی کے ساتھ۔ اس صورت میں کچھ کام کی بات ہو سکتی ہے۔ کچھ مفید تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں۔ یہ کہ تبدیلیوں کی ضرورت ہے کسی سمجھدار شخص کو اس سے انکار نہیں ہو سکتا۔ اگر انکار ہے تو پھر اس شخص کی سمجھ پر شک کیا جا سکتا ہے۔

    کسی ذکی الحس شخص کے لئے سب سے زیادہ سخت سزا یہی ہو سکتی ہے کہ اسے حکم دیا جائے کہ وہ روز صبح سے رات تک ریڈیو پروگرام سنا کرے۔ اس’’مشقت‘‘سے زیادہ مشقت شاید تجویز نہیں کی جا سکتی اور اگر اس مشقت کو برداشت کرلے، اگر اس امتحان کے بعد اس کے ہوش و حواس قائم رہیں تو وہ جانور ہے یا فرشتہ، انسان تو وہ نہیں ہو سکتا۔ ایک تو دن میں اسے پانچ چھ بار خبریں سنائی جائیں گی۔ معلوم نہیں خبروں کو آج کل اتنی اہمیت کیوں دی جاتی ہے۔ ایک طرف تو دنیا بھر کے اخبار نکلا کرتے ہیں۔ اکثر صبح و شام نکلا کرتے ہیں لیکن ان اخباروں سے ہماری تشفی نہیں ہوتی۔ ہم ریڈیو پر بھی خبریں چاہتے ہیں اور ایک بار نہیں کئی بار اور پھر اخبار بھی پڑھتے ہیں۔ ایک یا ایک سے زیادہ۔ معلوم نہیں ہماری ذہنیت کس قسم کی ہو گئی ہے کہ ہم خبروں کے بھوکے رہتے ہیں اور جتنی خبریں ملتی ہیں انہیں ہضم کر جاتے ہیں اور تکرار کی بھی پروا نہیں کرتے۔

    اگر یہ صرف تجسس کے مادہ کی وجہ سے ہے تو ذوق تجسس کی اخباروں سے تشفی ہو سکتی ہے لیکن ہم توتازہ ترین خبروں کے منتطر رہتے ہیں اوراخباروں میں خبریں پھر بھی کچھ دیر سے ملتی ہیں۔ اس وقفے کے بعد معلوم ہو جاتی ہیں اور ہمیں سن کر نہیں صرف یہ جان کر کہ خبریں ہمیں بہت جلد معلوم ہو گئیں، ایک قسم کی ناقابل بیان تشفی ہوتی ہے۔ حالانکہ زیادہ خبریں ایسی ہوتی ہیں جنہیں دیر سے سننے سے دینی یا دنیاوی کسی قسم کا نقصان نہیں ہو سکتا۔ بات یہ ہے کہ اخباروں سے ہمیں ایک قسم کا احساس ہوتا ہے کہ ہمارا دماغ چست وچالاک ہے، اسے دنیا اور دنیا کے پیچیدہ معاملات میں دلچسپی ہے اور یہ زندگی کی رو میں پیچھے نہیں چھوٹ گیا ہے۔ یہ احساس محض دھوکا ہے اس میں کچھ بھی صحت نہیں۔ واقعہ تو یہ ہے کہ جو اخباروں میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی لیتے ہیں، انہیں پڑھنا اپنی زندگی کا سب سے بڑا فرض سمجھتے ہیں، ان کا دماغ چست وچالاک نہیں دیوالیہ ہوتا ہے۔ اس میں ایک قسم کا چھچھوراپن آ جاتا ہے۔

    خیر تویہ ایک جملہ معترضہ تھا۔ خبروں کی طرح دوسری چیزوں کا بھی یہی حال ہے۔ اگر صبح کو فلاں بائی نے کوئی ٹھمری یا غزل سنائی تو دن بھر میں شاید ایک درجن گانے تو ان بائی جی سے ضرور سننے ہوں گے۔ ذرا اس شخص کی روحانی اذیت کا تصور کیجئے جسے ریڈیو سننے کی سزا ملی ہو۔ پہلی ٹھمری یا غزل سے اسے کیسی تکلیف ہوئی ہوگی پھر انتظار کی تکلیف۔ اسے معلوم ہے کہ پہلی بار آخری بار نہیں بلکہ اسے بار بار یہی اذیت پہنچائی جائےگی۔ اذیت ایک طرف پھر اس اذیت کا بے بسی کے ساتھ انتظار اور پھر یہ خیال کہ اس سے نجات ممکن نہیں۔ اگر آپ کو ذرا بھی تخیل ہے توآپ اس شخص کی مصیبتوں کا اندازہ کر سکتے ہیں۔

    پروگرام میں ایک حصہ رہتا ہے ’’آپ کی فرمائشیں۔’‘ جہاں تک ممکن ہوتا ہے، ریڈیو سننے والوں کی فرمائشیں پوری کی جاتی ہیں اور دیکھنے میں آیا ہے کہ یہ فرمائشیں زیادہ تر عام پسند چیزوں کے لئے ہوتی ہیں۔ چلتے ہوئے فلمی گانے، پھر ایک حصہ ہوتا ہے فلمی گانے یا ملے جلے گانے، ان سبھوں میں بہت عام پسند چیزیں ہوتی ہیں۔ سننے والوں کے مذاق کا لحاظ رکھا جاتا ہے اور جو چیزیں وہ مانگتے ہیں ان کے لئے مہیا کی جاتی ہیں یعنی یہاں بھی تجارتی اصول کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ حالانکہ ریڈیو کا محکمہ سرکاری ہے اوراس میں تجارتی اصول کو جگہ نہ ملنی چاہئے۔ میں کہہ چکا ہوں کہ عام ریڈیو سننے والوں کی پسند معیار نہیں بن سکتی کیونکہ یہ پسند معیاری نہیں ہوتی۔ لازمی طور پر اس پسند کی سطح نہایت نیچی ہوتی ہے اور جس ڈھنگ سے ریڈیو کا کارخانہ چلایا جاتا ہے اس سے اس سطح کا بلند کرنا محال ہی نہیں ناممکن ہے۔

    ’’آپ کی فرمائشیں’‘ کسی کو خیال بھی نہیں ہوتا کہ یہ کس قدر مہلک رستہ اختیار کیا گیا ہے اوراس کا نتیجہ سننے والوں کے مذاق کی خودکشی ہے یعنی ان کا مذاق ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پست ہو جائےگا۔ کسی کو خیال بھی نہیں ہوتا کہ اس معاملہ میں سننے والوں کی فرمائشیں سننے کے بدلے ایسے لوگوں سے مشورہ طلب کرنا چاہئے جنہوں نے اس مسئلہ پر غور کیا ہے، جو ساری ضروری باتوں کو پیش نظر رکھ کر ایک ایسے پروگرام کی ترتیب میں مدد کریں جس سے مذاق عام کی تربیت ہو سکے، اسے پستی سے نکال کر بلندی کی طرف لایا جائے، اسے لطیف وحساس بنایا جائے لیکن یہاں تو آپ کی فرمائشیں ہیں، چلتے ہوئے فلمی گانے ہیں جنہیں رکشا والے طالب علم اور عورتیں پسند کرتی ہیں اور سب مزے لے لے کر گنگناتے ہیں۔

    یہ تھیں دو تین مثالیں ’’مشتے نمونہ از خروارے’‘ کے طور پر۔ ورنہ سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کے لئے۔

    غرض جس طرح اصولی باتوں سے لاعلمی ظاہر ہوتی ہے، اسی طرح جزئیات میں بھی غوروفکر کی کمی نمایاں ہے۔ غالباً یہ دونوں چیزیں لازم وملزوم ہیں۔ ریڈیو سائنس کی ایک تازہ ترین ایجاد ہے۔ اس سے مصرف لینا ہمارا فرض ہے۔ پھر ہم جس طرح اپنے دوسرے فرائض انجام دیا کرتے ہیں اسی طرح اس فرض سے بھی نبٹتے ہیں یعنی اس بارے میں بھی ہم سمجھ بوجھ کر کچھ نہیں کرتے۔ کسی صورت سے کام چلایا جانا ہے۔ فکر صرف ہے تویہ کہ خانہ پری کا انتظام، پورا پورا انتظام ہو جائے۔ صبح سے رات تک ریڈیو سے آوازیں بلند ہوتی رہیں۔ اب وہ کسی قسم کی ہوں، پبلک جو مانگتی ہے، دیے جاؤ تاکہ کسی قسم کا ہنگامہ نہ ہو۔ اخبار میں خطوط اور مضامین نہ شائع ہونے لگیں۔

    ریڈیو والے تنقید سے بہت ڈرتے ہیں۔ ان میں یہ اخلاقی جرأت نہیں کہ اپنے کام سے سروکار رکھیں اور تنقید کی پروانہ کریں۔ وہ تو سننے والے کو میٹھی نیند سلا دینا چاہتے ہیں۔ ان کا مسلک تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر یہ سننے والے افیون مانگتے ہیں توان کے لئے افیون کا کافی سامان کر دینا چاہئے پھر وہ مگن رہیں گے۔ اخباروں میں ریڈیو والوں کے خلاف خطوط اور مضامین نہ شائع ہوں گے اوران کی نوکریاں محفوظ رہیں گی۔ آخر ریڈیو والے بھی انسان ہیں۔ انہیں بھی روٹی کی فکر ہے۔ وہ ایسے بیوقوف نہیں کہ ایک آئیڈیل یعنی ایک بیکار سی چیز کے لئے اپنی زندگی برباد کر دیں۔ وہ کیوں کلچر وغیرہ مہمل سی چیز پر غوروفکر کرکے اپنا وقت برباد کریں۔ سننے والے خوش رہیں، تعریف کے خطوط آیا کریں اور اپنی ترقی ہوتی رہے۔ کلچر کی ترقی سے انہیں کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟

    (۶)
    ممکن ہے کہ بہت سی باتیں جو میں نے کہی ہیں، ان سے لوگوں کو اتفاق نہ ہو لیکن شاید ہی کسی کواس بات سے انکار ہوگا کہ ریڈیو اور کلچر جیسے موضوع پر غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ جس آسانی سے ہم ریڈیو کی ضرورت کو تسلیم کر لیتے ہیں یا ریڈیو سے جو مصرف لیا جا رہا ہے اسے اچھا سمجھ لیتے ہیں، یہ کوئی تعریف کے قابل بات نہیں۔ اس سے ہمارے دماغ کی سستی ظاہر ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم اپنی زندگی میں زیادہ سے زیادہ چیزوں کو بغیر جانچ پڑتال کئے ہوئے قبول کر لیتے ہیں اوراس غیرناقدانہ طور پر چیزوں کو مان لینا اچھی بات نہیں۔

    اب رہی یہ بات کہ کیا کیا جائے۔ اپنا مقصد اس اہم اور پیچیدہ مسئلہ کا بنا بنایا حل پیش کرنا نہیں صرف چند ضروری باتوں کی طرف سمجھدار لوگوں کی توجہ مبذول کرنا ہے۔ کلچرکا کیا آئیڈیل ہونا چاہئے؟ کون سا کلچر ہمارے لئے مناسب ہے؟ کلچر کون کون عناصرسے بنتا ہے؟ ہمارے لئے جو بہترین کلچر ہے اس کے حصول کا کیا ذریعہ ہے؟ جب تک ان سوالات پر ہم غور نہ کریں اور غوروفکر کے بعدکسی نتیجہ پر نہ پہنچیں، کوئی کام کی بات نہیں ہو سکتی۔ پھر صرف نتیجہ پر پہنچنا کافی نہیں، اسی نتیجہ کو واقعہ بنانا ہے، اسی کوہمیشہ پیش نظر رکھنا ہے اور ہر ممکن صورت سے اسے حاصل کرنا ہے، اس کے بعد دیکھنا یہ ہے کہ ریڈیو سے اس ’’کلچرل آئیڈیل‘‘کے حصول میں کام لیا جا سکتا ہے۔ میں نے یہ بات دکھانے کی کوشش کی ہے کہ جو کام آج ریڈیو سے لیا جا رہا ہے، وہ غیرمفید بھی ہے اور مہلک بھی۔

    ہاں تو دیکھنا یہ ہے کہ ریڈیو سے کیا مفید کام لیا جا سکتا ہے۔ کیا یہ ضروری ہے کہ ریڈیو کا پروگرام صبح سے رات تک جاری رہے؟ کیا یہ ضروری ہے کہ اچھا مواد ملے یا نہ ملے، پروگرام نشر ہونا بند نہیں ہو۔ ریڈیو اسی وقت مفید ہو سکتا ہے جب اس کے دونوں پہلو تفریحی اور تعلیمی پر غور کیا جائے۔ تعلیم ہو تو کس قسم کی۔ ریڈیو کے ذریعہ تعلیم ممکن بھی ہے یا نہیں، اگر ممکن ہے توکس قسم کی۔ یہ توظاہر ہے کہ یہ تعلیم اس قسم کی تو ہو نہیں سکتی جو ساری خرابیوں کے باوجود اسکولوں اور کالجوں میں دی جاتی ہے۔ ریڈیو سے زیادہ سے زیادہ کچھ مفید معلومات عام سننے والوں تک پہنچائی جا سکتی ہیں اور بس۔ ان معلومات کو تعلیمات کا درجہ دیا بھی جا سکتا ہے کہ نہیں۔ پھر یہ بھی غور طلب بات ہے کہ اگر یہی معلومات کسی دوسری صورت سے پہنچائی جا سکتی ہیں تو پھر اس کام کے لئے ریڈیو سے کام لینا کہاں تک جائز یا ضروری ہے اور یہ معلومات بھی اسی وقت مفید ہو سکتی ہیں، جب سننے والوں میں ان معلومات سے فائدہ حاصل کرنے کی صلاحیت موجود ہو یعنی ریڈیو کا مسئلہ علیحدہ نہیں۔ یہ تعلیم اور دوسرے مسائل سے وابستہ ہے اور ان سب مسائل پر ایک ساتھ سوچ بچار کرنا چاہئے۔

    میں نے یہ بات دکھانے کی کوشش کی ہے کہ تفریح کا تعلق کلچر سے گہرا ہے۔ سب سے زیادہ اس مسئلہ پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ تفریح اصل مدعا نہ ہو بلکہ تفریح کے ذریعہ ایک بہتر کلچر کی بنیاد ڈالی جائے تواس میں سننے والوں کی پسند و ناپسند کا خیال بالکل غیرضروری ہے۔ ضروری ہے تو یہ کہ تفریح کے بہترین سامان کی تلاش کی جائے اور ہمیشہ تفریح کے بہترین سامان پیش کئے جائیں۔ دوسرے تیسرے چوتھے درجہ کی چیزوں سے یکم قلم پرہیز کیا جائے۔ جن لوگوں کے ذمہ اس سامان کے مہیا کرنے کا کام ہے، ان کا مذاق ایسا ہونا چاہئے جس پر اعتماد کیا جا سکے۔ اس لئے ان لوگوں کے انتخاب میں بہت ہوشیاری سے کام لینا چاہئے۔ جو ناکارہ ہیں وہ گھسنے نہ پائیں اور جو بعد میں ناکارہ ثابت ہوں انہیں دودھ کی مکھی کی طرح نکال پھینکنا چاہئے۔ پھر یہ سمجھنا چاہئے کہ اگر دن میں یا ہفتہ میں ایک بار کوئی واقعی اچھی چیز پیش ہو سکے تو وہ کم قیمت چیزوں کے روزانہ بھر مار سے کہیں اچھا ہے۔ یعنی اگر ضرورت ہو تو ریڈیو کے موجودہ انتظام کو بالکل بدل دینا چاہئے۔

    خاص خاص وقت یا خاص خاص روز اچھی چیزیں پیش کی جائیں، اگر اچھی چیزیں روز مہیا ہو سکیں تو اس سے اچھی اور کیا بات ہو سکتی ہے۔ لیکن ایسا ہونا ناممکن نہیں تومحال ہے۔ اس مسئلہ پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر اچھا مواد زیادہ نہیں ملتا تو اس کی کیا وجہ ہے اور کس طرح اچھا مواد پیدا کیا جا سکتا ہے۔ یہ مسئلہ بھی صرف ریڈیو سے تعلق نہیں رکھتا۔ جو لوگ ریڈیو سے تعلق رکھتے ہیں، وہ مواد کی موجودہ کمی کے بارے میں کافی کام کی معلومات مہیا کر سکتے ہیں۔ پھر شاید یہ بھی بتا سکتے ہیں کہ یہ کمی کیوں ہے، اسے کس طرح دور کیا جا سکتا ہے اور اگر یہ کام ان کے بس کی بات نہیں تو وہ کم سے کم اس کمی کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں۔

    غرض ایسی کتنی باتیں ہیں جن کا ہمیں تفصیل کے ساتھ جائزہ لینا چاہئے۔ کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ریڈیو والے اس کام کو حسن وخوبی کے ساتھ انجام دیتے ہیں یا وہ اسے حسن وخوبی کے ساتھ انجام دینے کے اہل ہیں۔ ریڈیو پروگرام سے صاف پتہ چلتا ہے کہ سننے والوں کا مذاق پست ہے۔ ملک کا عام کلچر مائل بہ تنزل ہے اور ریڈیو والے پست مذاق ہیں۔ ان کا مطمح نظر تنگ ہے اور شاید وہ خودغرض بھی ہیں۔ انہیں کلچر سے زیادہ اپنی فکر ہے۔ کم سے کم یہ تو ضرور ہے کہ وہ دلیر اور آزاد تخیل نہیں رکھتے۔ اس لئے اگر ریڈیو کا کارخانہ اسی طرح چلتا رہا تو کلچر کا مستقبل ہر جگہ اور خصوصاً ہندوستان میں نہایت تاریک ہے۔

    گر ہمیں مکتب است و ایں ملا
    کار طفلاں تمام خواہد شد

     

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے