Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

راجندر سنگھ بیدی کی افسانہ نگاری

طارق چھتاری

راجندر سنگھ بیدی کی افسانہ نگاری

طارق چھتاری

MORE BYطارق چھتاری

    راجندر سنگھ بیدی کی تخلیقات کے تھیم، موضوع اور فنی اوصاف کو محسوس کرنا جتنا آسان ہے، بیان کرنا اتنا ہی مشکل۔ بیدی کے افسانوں میں شعور اور لاشعور کی حدیں معدوم ہو جاتی ہیں۔ ان کے کردار دیر تک اپنے شعوری عمل کے تابع نہیں رہ پاتے، بالآخر ان کا لاشعور تمام اعمال و افعال کا ذمّے دار قرار پاتا ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ مغویہ لاجونتی کے واپس آ جانے پر اس کا شوہر سندر لال شعوری طور پر تو اسے اپنے گھر اور دل میں بسا لیتا ہے مگر اس کا لاشعور لاجونتی کو پہلے والی لاجونتی کی مثل قبول نہیں کرپاتا۔ اسی سبب لاجونتی اپنے ساتھ بہت اچھے سلوک اور دیوی کا درجہ مل جانے کے باوجود مطمئن نہیں ہوتی اور آخر اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ وہ اور تو سب کچھ ہو سکتی ہے پر لاجونتی نہیں ہو سکتی۔ وہ بس گئی پر اجڑ گئی۔ دراصل شوہر کا حد سے زیادہ اچھا سلوک ہی وہ بدلا ہوا رویہ ہے جو لاجونتی کو غیرت کا احساس کراتا ہے اور اس کے دکھ کا سبب بنتا ہے۔ بیدی کا یہ افسانہ نفسیات در نفسیات کی بہترین مثال ہے۔ بیدی نے اس افسانے میں لاجونتی کے تحت الشعور میں دبی عورت کی نہایت پیچیدہ نفسیات کو کرید کر شعور کی حدوں میں لانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ جس طرح بیدی اس افسانے میں لاجونتی کے دکھ میں شامل ہیں اسی طرح وہ اپنے بیشتر افسانوں میں کرداروں کے ساتھ مل کر خشک آنکھوں سے گریہ کرتے نظر آتے ہیں۔ کرداروں کے معصوم دکھ درد اور ان کے معصوم اعمال و افعال کو پیش کرنے کے لیے کرداروں کی تہہ دار نفسیات کی عکاسی بیدی کے افسانوں کا وہ وصف ہے جو انھیں اپنے ہم عصروں سے ممتاز کرتا ہے۔

    راجندر سنگھ بیدی نے خارجیت سے داخلیت کاسفر کیا ہے، اگر وہ کسی کردار کی داخلی کیفیت کا بیان کرتے ہیں تو اس کی وجہ کسی خارجی واقعہ یا صورت حال میں تلاش کرتے ہیں۔ وہ کسی واقعہ کو محض دیکھ کر اسی طرح بیان کر دینے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ اس کی تہہ میں جا کر وجہ کی تلاش میں لگ جاتے ہیں اور اس اصل وجہ کو بھی افسانے میں کسی نہ کسی واقعہ کی شکل میں ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو اس کردار کی کیفیت کا سبب ہے۔ بیدی کردار کے اندرون میں داخل ہوکر اسے کھنگالنے میں ید طولی رکھتے ہیں۔ بیدی کے افسانوں میں ایسی تہہ داری ہے جو قاری کو معنی کے گوہر حاصل کرنے کے لیے ہر لمحہ غوطہ لگانے پر مجبور کرتی ہے۔ بیدی کے افسانے آسان نہیں ہوتے۔ وہ اپنے مجموعے ’’ہاتھ ہمارے قلم ہوئے’’ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں،

    ’’دراصل کہانی ہر ایک کے لیے لکھی بھی نہیں جاتی! میں تو سمجھتا ہوں کہ ایک آدمی بھی سمجھ گیا تو میری محنت ٹھکانے لگی۔‘‘ (ص، 10)

    راجندر سنگھ بیدی اردو کے صفِ اول کے افسانہ نگاروں میں ہیں۔ ان کے یہاں پنجاب کی تہذیب و ثقافت، فکر اور طرز معاشرت، کرداروں کے باطن کی تلاش، نفسیات کی پیچیدگیاں، فلسفیانہ موشگافیاں، جنسی جذبات کی عکاسی اور مفلسی میں عظمت کا احساس جیسے موضوعات، گہری فکر کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔ بیدی نے عورت کے تقدس اور اس کی اپنی اَنا پر متعدد افسانے لکھے ہیں۔ بیدی کی عورت اردو کے دوسرے افسانہ نگاروں سے مختلف ہے۔ وہ ماں، بہن، بیٹی، محبوبہ، دوست اور بیوی کے احساسات، جذبات اور نفسیات یعنی کہ تمام تر داخلی کیفیات کا مجموعہ نظر آتی ہے۔ الغرض بیدی نے عورت کے کردار کی اپنے مخصوص انداز میں تخلیق کی ہے۔ جیساکہ ’’اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘ کی اندو کا Complex کردار۔ بقول باقر مہدی،

    ’’بیدی کے افسانوں میں عورت کا کردار ایک مرکزیت کی حیثیت رکھتا ہے، وہ خوابوں کا سرچشمہ اور تعبیر نہیں، جیساکہ رومانی افسانہ نگاروں کا خیال ہے بلکہ ایک ’’نامیاتی حقیقت‘‘ ہے۔ اس کے روپ بے شمار سہی مگر گھوم پھر کر وہ ’’ماں’’ہی رہتی ہے اور اس کی نگاہوں کے افسوں، تبسم کے پھولوں اور خطوط میں جو دلکشی عیاں اور پنہاں ہے، اس میں ایک طرح کا کرب مضمر ہے۔ یہ درد و کرب تخلیق کاراز سربستہ ہے اور اس کی زندگی کی دھوپ چھاؤں کی ساری دلفریبی یہیں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اسے دوسروں کے دکھ اپنانے میں بھی زندگی کا آنند ملتا ہے۔ مردوں کے بنائے ہوئے سماج کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی بے زبان شخصیت میں وہ جادو ہے جو عیار اور ظالم کو تھرا دیتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی اس کا اعتراف نہ کرے۔ بیدی عورت کے اس پہلو کو اجاگر کرنے میں کوشاں رہے ہیں۔‘‘ (باقر مہدی، اردو افسانہ روایت اور مسائل، ص، 395)

    عورت کے علاوہ بھی بیدی کے تقریباً سبھی کرداروں میں سچائی اور ایک پروقار معصومیت نظر آتی ہے۔ ان کے اعمال و افعال بھی یوں تو دانش مندی سے پُر ہوتے ہیں لیکن نہایت معصوم۔ مثلاً بھولا، گرم کوٹ اور جو گیا کے کردار اور ان کے اعمال و افعال۔

    راجندر سنگھ بیدی کی زبان کے سلسلے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی زبان میں ایک طرح کا کھردراپن ہے اور اس میں وہ روانی نہیں ہے جو کرشن چندر کی زبان میں ہے۔ یہ بات کسی حدتک درست ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ بیدی کی زبان میں شاعرانہ چاشنی نہیں ہے لیکن فکشن کے لیے یہی زبان مناسب اور موزوں ہے۔ بیدی کی زبان کو ان کی تخلیقات کے موضوعات سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ گویا بیدی کی زبان موضوع کو سمجھنے کی کلید ہے۔ زبان ہی بیدی کا وہ حربہ ہے جو قاری کو نہ صرف ان کی تخلیقات میں involve ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے بلکہ قاری کو کسی حد تک تخلیق کار کا درجہ بھی عطا کرتا ہے۔ بیدی افسانے کے اختتام پر واقعے کے انوکھے پن کی مدد سے تحیر پیدا نہیں کرتے بلکہ وہ زبان کے تخلیقی استعمال سے شروع تا آخر ہر قدم پر قاری کو چونکاتے رہتے ہیں اور اس کے ذہن کو موضوع کے گرداب سے نکلنے نہیں دیتے۔ نتیجتاً قاری افسانے کی تہہ میں اترتا جاتا ہے۔ ان کے بیشتر افسانوں کے عنوانات بھی روایتی اردو کے مزاج سے مختلف نظر آتے ہیں۔ مثلاً ’’اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘، ’’متھن‘‘، ’’ایک باپ بکاؤ ہے’’اور پان شاپ‘‘ وغیرہ۔

    پان شاپ کے چند الفاظ اور جملے یہ ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ بیدی افسانے کی فضا، افسانے کے معنی و مفہوم اور کرداروں کے حالات یا پس منظر کو واضح اور رائج الفاظ میں تفصیل سے بیان نہیں کرتے بلکہ وہ یہ فرض کرکے زبان کا انتخاب کرتے ہیں کہ ان کا باشعور قاری تخلیق کی تمام نزاکتوں سے اتناہی واقف ہے جتنا کہ خود تخلیق کار۔ اسی لیے وہ مروجہ الفاظ سے گریز کرتے ہوئے بڑی بے تکلفی سے غیر مانوس اور نسبتاً اجنبی زبان کا استعمال کرتے ہیں۔

    پان شاپ سے کچھ الفاظ اور ادھورے جملے پیش ہیں، مثلاً موجد، ’’دافع چنبل وداد‘‘۔ اوساکافیئر کے ملازم، ’’ٹیٹاگھر‘‘ کا کاغذ، اوک پلائی کا ڈارک روم، طلائی سیکنڈس گھڑی، سنگرمشین، کرکس کے چشمے، کسمئ لب، منفی پلیٹس اور مثبت کاغذ وغیرہ۔

    بیدی کے افسانوں میں ان جیسے rare الفاظ کثرت سے استعمال ہوئے ہیں۔ وہ مختلف اشیاء کے تجارتی ناموں کے ساتھ ان کی کمپنیوں کے نام بھی یہ سوچے بغیر لکھ دیتے ہیں کہ قاری ان معروف اور غیر معروف کمپنیوں سے واقف بھی ہوگا یا نہیں۔ یہ فنی حربہ استعمال کرکے بیدی افسانے کے ماحول اور موضوع سے گہری وابستگی اور خالص ذاتی تعلق کا احساس کرا دیتے ہیں۔ مصنف کا یہی Personal Touch قاری کے ذہن و دل میں افسانے سے انسیت اور ہم آہنگی پیدا کرنے کا مؤثر طریقہ بن جاتا ہے۔ کسی دوسرے افسانے نگار کے یہاں زبان کے استعمال کا یہ طریقۂ کار اکتاہٹ کاسبب بن سکتا تھا مگر بیدی کے افسانوں میں پلاٹ کی تشکیل اتنی فن کاری کے ساتھ ہوتی ہے کہ قاری اکتاہٹ محسوس کرنے کے بجائے متحیر اور متجسس ہوکر افسانے میں پورے طور پر involve ہو جاتا ہے اور افسانے کی پراسرار فضا اسے اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔

    وہ کہیں ’’منفی پلیٹ‘‘ کو decode کرکے فوٹو کا نیگیٹو اور ’’مثبت کاغذ‘‘ کو قابل فہم اور رائج عبارت میں تبدیل کرکے Negative سے فوٹو کا Positive بنانے کے عمل میں خود بھی شریک ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ہندوستانی Mythology کے مخصوص الفاظ کا تخلیقی استعمال ان کے افسانے کی فضا کو دل کش، مرغوب اور پراسرار بناتا ہے۔ یعنی بیدی کی جس زبان پر اعتراضات کیے جاتے ہیں وہی زبان ان کے افسانوں کی طاقت، انفرادیت اور خصوصیت ثابت ہوتی ہے۔

    راجندر سنگھ بیدی کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ زندگی کے تلخ حقائق کی گہرائیوں تک پہنچ جاتے ہیں لیکن انھیں روشن کرنے میں ضبط و توازن کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنے دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ قاری ان کے افسانوں میں تخلیقی طور پر involve ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ نتیجے کے طور پر قاری کی فکر اور بصیرت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ادب کا مقصد بھی یہی ہے کہ وہ محض حظ حاصل کرنے کے لیے نہیں بلکہ قاری میں vision پیدا کرنے کے لیے ہونا چاہیے۔ بیدی سماج کے چھوٹے چھوٹے اور بظاہر غیر اہم واقعات کو بھی اپنے افسانوں کا موضوع بناتے ہیں مگر انھیں بڑی چابک دستی سے قاری کے ذہن کی گہرائیوں میں اتار دیتے ہیں۔ اس نوع کے واقعات کو پیش کرتے وقت وہ زندگی کا عمیق مشاہدہ کرتے ہیں۔ چونکہ بیدی پوشیدہ حقائق اور سماج کے پیچیدہ مسائل کو سمجھنے اور انھیں سلجھانے میں مہارت رکھتے ہیں، اس لیے ان کے افسانے قاری کی تربیت اور تہذیب بھی کرتے ہیں۔

    راجندر سنگھ بیدی دیہات کے پس منظر میں افسانے لکھیں یا میٹرو پولیٹن شہر کے، نہایت باریک نکتے، کرداروں کی گہری نفسیات اور موضوع کی فلسفیانہ اساس جیسے عناصر ان کے ہر افسانے میں موجود ہوتے ہیں۔ ’’لاجونتی‘‘ اور ’’اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘ دیہات کے پس منظر میں، ’’یوکپلٹس‘‘ اور ’’پان شاپ‘‘ شہر کے پس منظر میں لکھے گئے افسانے اس کی بہترین مثالیں ہیں۔

    کسی حد تک یہ بات سچ ہے کہ جس تخلیق کار کو زیادہ لوگ پسند کرتے ہوں اور کوئی اس کی تخلیقات میں کمی یا خامی محسوس نہ کرتا ہویا اس کے فن پر توجہ نہ دیتا ہو، ایسا ادیب منفرد، ممتاز اور original فن کار نہیں ہو سکتا۔ بیدی کے فن اور موضوعات پر اردو کے کئی معتبر ناقدین نے اعتراضات کیے ہیں۔ وہ اعتراضات اپنی جگہ درست بھی ہو سکتے ہیں مگر اس کے باوجود راجندر سنگھ بیدی آج ایک اہم اور بڑے افسانہ نگار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بیدی ایک سچے فن کار ہیں، وہ ہمیشہ خلوص دل سے افسانے تخلیق کرتے رہے اور انھوں نے اپنی تخلیقی سمجھ کے سوا کسی پر اعتماد نہیں کیا۔ اسی لیے وہ آج ایک منفرد، ممتاز اور Original فنکار کی حیثیت سے ادب کے منظرنامے پر ایک رخشندہ ستارے کی طرح موجود ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے