Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

رسالہ در مغفرت استعارہ

قمر جمیل

رسالہ در مغفرت استعارہ

قمر جمیل

MORE BYقمر جمیل

    علامت، استعارہ تشبیہ اور امیج یہ سب ایک ہی خاندان کی چیزیں ہیں۔ ہیگل نے فن ِتعمیر کو سب سے بڑا علامتی آرٹ بتایا ہے۔ علامت کسی نامعلوم حقیقت کا مظہر ہوتی ہے لیکن نامکمل مظہر، کسی مجرد خیال کا اظہار کرتی ہے لیکن نامکمل اظہار۔ گویا علامت کسی قید حواس میں نہ آسکنے والی چیز کے اظہار کے لیے وضع کی جاتی ہے جیسے دیویاں اور دیوتا نامعلوم حقیقتوں کی علامتیں ہیں علامت مجرد خیال کا نامکمل اظہار ہوتی ہے۔ اہرام مصر علامتی آرٹ کا سب سے ابتدائی نمونہ ہیں مصریوں نے جانوروں کی شکلوں کو علامت کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ابوالہول مصر میں علامتوں کی سب سے بڑی علامت ہے یہ بیٹھا ہوا ایک جانور ہے جس کا سر عورت کا ہے۔ ابوالہول اس بات کی علامت ہے کہ انسانی روح بہیمیت سے آزاد ہونا چاہتی ہے یہ ظاہر کرتی ہے کہ بہیمیت کی قوت میں بھی انسان اپنی آزادی کا اظہار نہیں کر سکتا۔ چونکہ جانور کے جسم میں انسان کی روح خود اپنا شعور نہیں حاصل کر سکتی اس لیے آزاد ہونا چاہتی ہے۔ شیوجی کا سب سے خطرناک ہتھیار ترسول ہے جو شیوجی کی خصوصیات کی علامت ہے جب علامت لاشعوری حدوں سے نکل کر شعور کی حدوں میں آجاتی ہے تو استعارے، تمثیلیں، تشبیہیں اور امیج جنم لیتے ہیں استعارہ مصورانہ کیفیت سے استعارے قریب تر ہوتا ہے علامت بہت فاصلے پر ہوتی ہے اتنے زیادہ فاصلے پر کہ اکثر اس کا ابلاغ پوری طرح نہیں ہونے پاتا۔ استعارہ نسبتاً غیر معلوم حقیقت کو مشابہت کی بنیاد پر ہمارے سامنے لاتا ہے سوال یہ ہے کہ آخر ہم علامت، استعارہ، تشبیہہ یا امیج استعمال ہی کیوں کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے باطن میں جو احساس جذبہ یا خیال ہے اسے اپنی پوری شدت اور خوبصورتی کے ساتھ خارجی اشیاء میں دکھائیں یا خارجی اشیاء کے بارے میں ہم جو محسوس کر رہے ہیں اس کا اظہار کریں چونکہ ہر تجربہ معمولی لفظوں میں اپنا اظہار نہیں کر پاتا اس لیے ہم اپنی باطنی کیفیتوں کا اظہار مشابہہ چیزوں کے ذریعہ کرتے ہیں یا متضاد چیزوں کو کھینچ کر ملاتے ہیں اور اس طرح اپنا اظہار کر دیتے ہیں امیجز کے ذریعے اظہار کر دینے سے ہمیں اپنے جذبے کی گرفت سے نجات مل جاتی ہے غزل میں استعارے تشبیہیں اور کنائے زیادہ ہوتے ہیں اس لیے کہ غنائی شاعری میں داخلیت کا زیادہ اظہار ہوتا ہے۔ مولانا حالی استعارہ کو بلاغت کا رکن اعظم سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شاعری کو اس کے ساتھ وہی نسبت ہے جو قالب کو روح کے ساتھ ہوتی ہے حالی صاحب کہتے ہیں کہ استعارہ، تمثیل اور کنایہ شاعری میں جان ڈالنے والی چیزیں ہیں لیکن اچھے شاعر کو حالی کی یہ نصیحت کبھی نہیں بھولنی چاہیے کہ استعارہ بعید الفہم نہیں ہونا چاہیے یعنی آفتاب کو آہوئے مادہ نہیں کہنا چاہیے اور نہ ستاروں کو اشک زلیخا سمجھنا چاہیے استعارہ بڑی اہم چیز ہے ان معنوں میں کہ ارسطو کے قول کے مطابق استعارہ کسی سے سیکھ کر نہیں لکھا جا سکتا اور یہ کہ استعارہ جینیس کی علامت ہے، اچھے استعارہ کا مطلب ہی یہ ہے کہ غیر مشابہہ چیزوں میں شاعر کو مشابہت کا وجدانی ادر اک حاصل ہوا ہے۔ تازگی تک ہماری رسائی استعارے ہی کے ذریعے ہو سکتی ہے یعنی وجدان کے ذریعے اور شاعر کی تازگی فکر کا احساس بھی استعارے کی تازگی کے ذریعے ہم تک پہنچتا ہے استعارہ مر بھی جاتا ہے، عسکری صاحب کے خیال کے مطابق مولانا حالی استعارے سے خوف زدہ تھے اور ممتاز حسین صاحب کو فیض صاحب کی نظم یہ رات اس درد کا شجر ہے سمبالک نظر آتی ہے ہر چند کہ نظم مذکور ( تمثالوں یا تصویروں) کا ایک سلسلہ ہے یاد رکھنا چاہیے کہ ہیگل نے ایک اسی طرح کی نظم کو Metaphor Extended کہا ہے فرق صرف یہ ہے کہ گوئٹے نے اپنی نظم کے عنوان سے نظم کے معنی کو واضح کر دیا ہے فیض صاحب نے عنوان سے ایسی کوئی مضاحت نہیں کی ہے فیض صاحب کی نظم کی بنیاد ایسی کسی علامت پر نہیں ہے جو پوری طرح ہماری گرفت میں نہ آئے فیض صاحب کی اس نظم کے استعارہ ہونے کا جواز اس لیے بھی ہے کہ استعارے میں لغوی معنی فوراً دب جاتے ہیں اور جو معنی مراد ہیں ان کے فوراً سامنے آنے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے۔ ہیگل نے لکھا ہے کہ وہ امیج جس کو ہم (Extended Metaphor ) سمجھ سکتے ہیں دو مختلف یا متضاد مظاہر کو ایک دوسرے کے قریب لے آتا ہے۔ واضح طور پر تقابل کے لیے نہیں بلکہ اس لیے کہ ایک کے معنی دوسرے کے ذریعے براہ راست واضح ہو جائیں مثلا گوئٹے کی نظم ’’ نغمہ محمد ‘‘ کے عنوان سے ہم یہ جان جاتے ہیں کہ اس نظم میں پانی چٹانوں سے بہتا ہوا سمندر تک جاتا ہے۔ اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی اور ان کی تعلیمات کے تیزی سے پھیلاؤ کی نمائندگی ہو جاتی ہے۔ فیض صاحب کی نظم

    یہ رات اس درد کا شجر ہے

    جو مجھ سے تجھ سے عظیم تر ہے

    انسانیت کے درد کی طرف اشارہ کرتی ہے اور پھر ہم سب سمجھ جاتے ہیں کہ اس نظم میں جو امیجز کا ایک سلسلہ ہے وہ کن احساسات کی نمائندگی کر رہا ہے۔ استعارے کے سلسلے میں ارسطو نے جس ادراک اور جس وجدان کا ذکر کیا ہے اسی کو بہت شدت اور تفصیل کے ساتھ ہمارے عہد میں کروچے نے بیان کیا ہے۔ آرٹ کا بنیادی تعلق وجدان سے ہوتا ہے یعنی استعارہ وجدان سے جنم لیتا ہے۔کروچے کے لفظوں میں

    ’’ جب ہم اندرونی لفظ پر قابو پالیتے ہیں کسی مجسمہ یا شکل کو واضح طور پر اپنے تصور میں لے آتے ہیں جب ہمیں موسیقی کا کوئی تھیم مل جاتا ہے تو اظہار پیدا ہوتا ہے اور مکمل ہو جاتا ہے اور کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی تب اگر ہم اپنا منہ کھولتے ہیں اور بولتے ہیں اور گاتے ہیں تو ہم در اصل کرتے کیا ہیں جو کچھ ہم اپنے باطن میں آہستہ آہستہ بول چکے ہوتے ہیں اور جو کچھ ہم اپنے اندر پہلے ہی گا چکے ہوتے ہیں وہ باآواز بلند گاتے ہیں۔ ‘‘

    کروچے کے خیال میں علم دو طرح کا ہوتا ہے۔ وجدانی علم اور منطقی علم۔ وجدانی علم تخیل سے حاصل ہوتا ہے اور منطقی علم تعقل سے۔ آرٹ اور استعارے کا تعلق وجدانی علم سے ہے۔ شاعرانہ اظہار جذبات کا براہ راست اظہار نہیں ہے۔ وجدان کا اظہار ہے۔

    استعارہ اشیائے مدرکہ کے جوہر کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ وجدان سے مراد دراصل وہ صلاحیت ہے جس کی مدد سے انسان کا ذہن براہ راست علم حاصل کرتا ہے بغیر کسی استدلال اور بغیر کسی تجزیہ کے یعنی وجدان ہم پر استدلال اور منطقی تجزیہ کے بغیر انکشاف کرتا ہے یعنی وجدان ہی عقلی تفکر اور استدلال کے بغیر حقیقت تک پہنچنے کا ذریعہ ہے، اقبال نے بھی انہی معنوں میں خدا تک پہنچنے کا ذریعہ عقل نہیں عشق کو ٹھہرایا ہے۔ برگساں نے بھی وجدان کو تعقل سے الگ ایک صلاحیت قرار دیا ہے۔ برگساں کی رائے میں انسان کا شعور دو چیزوں میں بٹ گیا ہے وجدان اور ذہانت میں اس کے خیال میں انسان کی ضرورت یہ ہے کہ انسان مادے سے بھی نبٹے اور زندگی کے دھارے کے پیچھے بھی چلے۔ شعور کا یہ دُہرا پن خود حقیقت کے دُہرا ہونے کا ثبوت ہے۔ یعنی حقیقت کی بھی دو ہیتیں ہیں۔ وجدان اور تعقل برگساں کا خیال ہے کہ شاعر کا وجدان ما بعد الطبیعیاتی تجزیہ سے زیادہ اظہار صداقت کرتا ہے استعارہ در اصل اظہارہے انگریزی زبان کے شاعر پوپ نے کہا تھا کہ سچا اظہار سورج کی طرح ہر اس چیز کو جس پر وہ چمکتا ہے واضح کر دیتا ہے جب زبان میں ہمارے باطنی وژن سے مطابقت پیدا ہو جاتی ہے تو ہم اسے استعارہ یا اظہار کہہ دیتے ہیں لغت کے ماہرین بھی کہتے ہیں کہ اظہار کا مطلب ہے کسی اندرونی حقیقت کو خارجی شکل دینا یا کسی ایک چیز کا دوسری چیز سے اظہار جب یہ اظہار نامکمل ہوتا ہے تو ہم اسے علامت اور جب مکمل ہوتا ہے تو استعارہ کہتے ہیں۔ ہیگل نے کہا تھا کہ آرٹ خیال کا حسّی اظہار ہے کروچے نے کہا خیال کا نہیں (آرٹ وجدان کا حِسّی اظہار ہے) علامت، استعارہ اور تمثیل ان سب کے لیے کروچے نے اظہار کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یہ وجدان کسی چیز کی مکمل تصویر ہوسکتا ہے کسی کردار کی، کسی جگہ کی کسی واقعے کی۔ اظہار کا یہ عمل Synthesis Apriori کی حیثیت رکھتا ہے یعنی اس وقت تک موجود ہی نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا اظہار نہ ہو جائے۔ استعارے تکرار سے مرجاتے ہیں محاورے بن جاتے ہیں اور ہر زبان میں ان مردہ استعاروں کی بہتات ہوتی ہے مثلاً حالی ہی کے قول کے مطابق جی اچٹنا ایک مردہ استعارہ ہے سوال یہ ہے کہ آخر استعارے تکرار سے مرکیوں جاتے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شاعری اور فکر دونوں تازگی چاہتے ہیں اور تکرار سے یہ تازگی باقی نہیں رہتی مثلاً ہیملٹ المناکی کے موڈ کا اظہار ہے زندگی سے بیزاری کا اظہار ہے ایسا اظہار جو اس سے پہلے کبھی ہوا ہی نہیں تھا یہ اظہار اس مخصوص شاعرانہ اور ڈرامائی ترتیب ہی میں ہو سکتا تھا جس میں ہوا ہے۔ ڈرامے کے سارے کردار سچویشن، عمل اور انجام سب اسی بنیادی المناکی کے موڈ کا اظہار ہیں۔ مختلف روپ اور لہجے ہیں۔ اظہار کے مختلف طریقے جو وجدان شاعر کو عطا کرتا ہے وہ شاعر کے لیے اظہار سے پہلے موجود نہیں ہوتے اس لیے استعارے تشبیہیں اور تمثیلیں پہلے سے متعین نہیں ہوتیں یعنی شاعر کے لیے شاعری کی کوئی متعینہ زبان نہیں ہوتی اسلوب کا کوئی مخصوص نمونہ نہیں ہوتا اگر کچھ استعارے بار بار دُہرائے جائیں تو وہ محاورے بن جاتے ہیں۔

    تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ تمام سچے شاعر بڑے جذباتی اور حساس تھے ان کی روحوں میں بڑی گہری حساسیت تھی۔ وجدان کو جو چیز ہم آہنگی اور وحدت عطا کرتی ہے وہ شدید احساس ہے وجدان اس طرح کا ہوتا اسی لیے ہے کہ وجدان شدید فیلنگ کا اظہار ہے۔ وجدان اسی وقت ظہور کرتا ہے جب شدید جذبہ اس کا ماخذ اور بنیاد ہو خیال نہیں بلکہ شدید فیلنگ آرٹ کو ہلکا پن عطا کرتی ہے اور ہر شاعرانہ تمثال یعنی امیج کسی نہ کسی حد تک استعارے کی خصوصیت رکھتی ہے۔ شاعر کا کام یہ ہے کہ چیزوں کو اپنے اصل روپ میں دیکھے شاعر نئے الفاظ اور نئے استعارے اس لیے استعمال نہیں کرتے کہ وہ نئے ہوتے ہیں بلکہ اس لیے کہ پرانے الفاظ اور استعارے اپنی حقیقت نمائی کی خاصیت کھو بیٹھتے ہیں۔ شاعر حقیقت کے ساتھ ساتھ اپنے جذبات کو بھی پیش کرتا ہے شاعر کے اپنے جذبات اور کائنات کی اشیاء کے درمیان تعلق کو ظاہر کرنے کے لیے شاعر استعارے سے کام لینے پر مجبور ہوتا ہے Yeats نے بہت خوب کہا ہے کہ دانائی پہلے پہل استعاروں ہی کی زبان میں بات کرتی ہے اصطلاحوں سے کام لینے سے پہلے انسان استعاروں سے کام لیتا ہے استعارہ ہمارے اندرونی ہیجان اور تناؤ کی طبیعی زبان ہے Livingstone نے لکھا ہے:

    ’’وہ شعرا جن میں زندگی کی حرارت عزیزی کا درجہ کم ہوتا ہے کیکڑوں کی طرح پشتہا پشت تک اپنے پیش روؤں کی اتاری ہوئی کیچلیوں میں اپنے آپ کو ملفوف کئے رہتے ہیں۔‘‘

    صرف وہ شاعر جن میں تخلیقی صلاحیت اور زندگی بھر پور انداز میں موجود ہوتی ہے وہ یہ طاقت رکھتے ہیں کہ زمانہ حال میں رہیں اس کی ہر لمحہ بدلنے والی قوتوں سے نبرد آزما ہوں اور اپنی ہئیت آفریں قوت کا اظہار کریں۔ زندگی سے گہراتعلق ہی امیج، شاعرانہ تمثیل اور استعارہ کا اصل سرچشمہ ہے یعنی ان سب کا اصل سرچشمہ زندگی سے گہرا لگاؤ ہے۔ حیات پرستی ان کا ماخذ ہے یادیں ہی استعارے تخلیق کرتی ہیں کیوں کہ یادیں ایک صورت حالات کے عناصر کو دوسری صورت حالات پر منطبق کرتی ہیں اب ذرا استعارے کا دوسرا رخ بھی ملاحظہ کیجیے بعض قواعد دانوں کو استعارے کے عناصر میں منطقی عدم مطابقت Logical Incongruity نظر آتی ہے اس لیے ان کا خیال ہے کہ استعارہ نہ صرف معانی کو منتقل کرتا ہے اور معانی کو بدل دیتا ہے بلکہ ان معانی کو گمراہ بھی کر سکتا ہے ۔بگاڑ (خراب) بھی سکتا ہے اس شک کا اظہار استعارہ کی اس تعریف میں بھی موجود ہے۔

    The figure of speech in which a name or descriptive term is transferred to some object to which it is not properly applicable.

    فلسفیوں نے بھی اسی شک کا اظہار کیا ہے۔ لاک سے لے کر وٹگنسٹائن تک یہ خیال ملتا ہے کہ استعارہ اصطلاحوں کا غیر موزوں تعلق ہے اس کی حیثیت آرائشی ہے اور یہ کہ یہ لغوی معنی کا Inexact Alternative ہے وٹگنسٹائن نے واضح طور پر کہا ہے کہ استعارہ کا استعمال، لاپرواہی، جلد بازی یا ذہنی ناشائستگی Intellectual Unchastity کا اظہار ہے۔

    حالی کے بیان سے ایسا لگتا ہے کہ استعارہ شاعری کے تخلیقی عمل سے بنیادی تعلق رکھتا ہے بلکہ اس کی قدر وقیمت کا تعین اسی بات سے ہوتا ہے کہ اس سے مضمون زیادہ لطیف اور بامزہ ہو جاتا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے’’ شعر شور انگیز‘‘ کی جلد اول میں لکھا ہے۔

    ’’والٹراونگ کا خیال ہے کہ سترہویں اور اٹھار ہویں صدی میں انگریزی شاعری کو ریمس Ramus کے اس نظریہ سے بہت نقصان پہنچا کہ استعارہ محض تزئینی چیز ہے شاعری کا جوہر نہیں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ استعارے کے بارے میں بعض باریک بینیاں جو جدید مغربی مفکروں کے ہاتھ آئی ہیں ہمارے قدیم نقادوں کی دست رس میں نہیں تھیں لیکن ہمارے یہاں یہ خیال شروع ہی سے عام رہا ہے کہ استعارہ شاعری کا جوہر ہے اسی لیے استعارے کو صنعتوں کی فہرست میں نہیں رکھا گیا بلکہ اس کا مطالعہ علم بیان کے ضمن میں کیا گیا کہ استعارہ وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے ہم ایک ہی معنی کو کئی طریقوں سے بیان کر سکتے ہیں۔ میر کا زمانہ آتے آتے استعارے کی حیثیت مضمون کے تصور میں اس طرح ضم ہو گئی تھی کہ اس کا الگ سے ذکر بہت کم ہوتا تھا لیکن ظاہر ہے کہ استعارہ ہر ایک کے بس کا روگ نہیں ہے۔ ارسطو نے یونہی نہیں کہا تھا کہ استعارے پر قدرت ہونا سب صلاحیتوں سے بڑھ کر ہے۔ یہ نابغہ کی علامت ہے کیوں کہ استعاروں کو خوبی سے استعمال کرنے کی لیاقت مشابہتوں کو محسوس کر لینے کی قوت پر دلالت کرتی ہے۔

    اب ذرا ملاحظہ کیجیے حالی کے مطابق استعارہ کسی طرح شاعری میں ظہور کرتا ہے اور کس طرح رخصت ہو جاتا ہے۔

    ’’ جنھوں نے اول غزل لکھی ہوگی انہوں نے عشق و محبت کے اسباب اور دواعی محض نیچرل اور سیدھے سادے طور پر معشوق کی صورت حسن و جمال اور نگاہ و انداز وغیرہ کو قرار دیا ہوگا۔ اس کے بعد لوگوں نے انہیں باتوں کو مجاز اوراستعارہ کے پیرایہ میں بیان کیا مثلاً نگاہ و ابرو یا غمزہ و ناز و ادا کو مجازاً تیغ و شمشیر کے ساتھ تعبیر کیا اور اس جدت و تازگی سے وہ مضمون زیادہ لطیف و بامزہ ہو گیا۔

    متاخرین جب اسی مضمون پر پل پڑے اور انھیں قدماء کے استعارہ سے بہتر کوئی اور استعارہ ہاتھ نہ آیا اور جدت پیدا کرنے کا خیال دامن گیر ہوا تو انہوں نے تیغ و شمشیر کے مجازی معنوں سے قطع نظر کی اور اس سے خاص تلوار مراد لینے لگے جو آب و تاب سب کچھ رکھتی ہے میان میں رہتی ہے حمائل کی جاتی ہے زخمی کرتی ہے خون بہاتی ہے اس کی دھار تیز بھی ہو۔ ہوسکتی ہے اور کُند جیسی، غرض کہ جو خواص ایک لوہے کی اصلی تلوار میں ہو سکتے ہیں وہ سب ہو سکتے ہیں وہ۔ اس کے لیے ثابت کرنے لگے۔

    اسی طرح صیاد کے استعارے کا حال بھی لکھا ہے کہ معشوق جو لوگوں کے دل شکار کرتا ہے اسے مجازاً صیاد کہا گیا پچھلوں نے رفتہ رفتہ اس پر تمام احکام حقیقی صیاد کے عائد کر دیے تو یہ صیاد سچ مچ کا چڑی مار بن گیا۔ کس طرح صیاد کا استعارہ مرتا ہے اس کا حال حالی نے مزے لے لے کر لکھا ہے صیاد کے استعارے کے جنازہ کا حال حالی کی زبان سے سن لیجیے۔

    ’’ وہ کہیں جال لگا کر چڑیاں پکڑتا ہے کہیں ان کو تیر مار کر گراتا ہے کہیں ان کو زندہ پنجرے میں بند کرتا ہے کہیں ان کے پر نوچتا ہے کہیں ان کو ذبح کر کے تڑپاتا ہے جب کبھی وہ تیر کمان لگا کر جنگل کی طرف جا نکلتا ہے تمام جنگل کے پنچھی اور پکھیرو اس سے پناہ مانگتے ہیں۔ بیسیوں پنجرے قمریوں اور کبوتروں اور کوؤں اور بٹیروںکے اس کے دروازے پر ٹنگے رہتے ہیں۔ سارے چڑی مار اس کے آگے کان پکڑتے ہیں۔

    حالی نے جس چڑی مار کا ذکر کیا ہے اور جس استعارے کا جنازہ ہمارے سامنے نکالا ہے وہ دراصل ہماری شاعری کا جیتا جاگتا صیاد ہے۔ صیاد کے چڑی مار بن جانے کا اور قفس کے پنجرہ بن جانے کا سبب ہمارے تہذیبی رویے کی تبدیلی ہے جس کی طرف حالی کی نگاہ نہیں گئی شعری حسیت پر ہر برٹ ریڈ نے صحیح لکھا ہے کہ اپنے عہد کے علوم کا بہت گہرا اثر پڑتا ہے ہر عہد کی شاعری پر اس عہد کی تہذیب بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ شاعرانہ توانائی کی کمی سے استعارہ کی جگہ تشبیہ لے لیتی ہے اور پھر اس تشبیہ کی جگہ سیدھا سادا بیان آجاتا ہے جیسے حسرت موہانی فرماتے ہیں:

    جب سے دیکھی ابوالکلام کی نثر

    نظم حسرت میں وہ مزہ نہ رہا

    ڈاکٹر جانسن نے غلط نہیں کہا تھا کہ استعارے کا معقول استعمال حسنِ اسلوب کی دلیل ہے کیوں کہ یہ ایک خیال کی بجائے دو خیال مہیا کرتا ہے معانی کو زیادہ منور طریقے سے بیان کرتا ہے اور یہ بیان مسرت کے احساس کے ساتھ ہوتا ہے۔ مولانا حالی نے صیاد کے استعارے کے علاوہ ساقی اور شراب کے استعارہ کا بھی ذکر کیا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ لاغری کے سلسلے میں استعارہ کی موت کا ایک سبب حالی نے تکرار کے علاوہ مبالغہ کو بھی ٹھہرایا ہے۔ استعارہ ایک طرح کا Correlative Objective ہے جو مبالغہ سے مرجاتا ہے مثلاً حالی کہتے ہیں:

    ’’ معشوق کے دہانہ کو تنگ کرتے کرتے صفحۂ روزگار سے یک قلم مٹا دیا، کمر کو پتلی کرتے کرتے بالکل معدوم کر دیا، زلف کو دراز کرتے کرتے عمرِ خضر سے بھی بڑھا دیا۔ رشک کو بڑھاتے بڑھاتے خدا سے بھی بدگمان ہو گئے۔‘‘

    در اصل حالی تکرار اور مبالغہ دونوں کو غیر فطری سمجھتے ہیں یعنی استعارہ کی موت کا سبب فطرت سے تجاوز ہے۔ فطرت سادگی سکھاتی ہے تو گویا جدت و تازگی و لطف اور مزے کی خاطر استعارہ لکھا گیا۔ حالی کی شاعری کے سلسلے میں تصور فطرت محل نظر ہے۔ کروچے نے صحیح کہا تھا کہ استعارہ شاعرانہ وجدان کا حصہ ہے معاف کیجیے اظہار شاعرانہ وجدان کا نام ہے اور استعارہ سب سے مکمل شعری اظہارہے یہ غیر فطری کیسے ہو سکتا ہے استعارے کی خوبصورتی ہم پر اپنے شعری وجدان ہی سے کھلتی ہے۔

    دریدا یہ سوال اٹھاتا ہے کہ فلسفہ کے متن میں بھی استعارہ موجود ہوتا ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو کس شکل میں اور کس حد تک؟ اور فلسفہ میں استعارہ کی حیثیت بنیادی ہے (Essential) ہے یا اتفاقی؟ دریدا کے خیال میں فلسفیانہ تبادلہ خیال میں استعاراتی قوت کا استعمال ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کا بھی اظہار ہم استعارہ کے بغیر کسی طرح کر سکتے ہیں یعنی حسی (Sensory) اظہار استعارہ کے بغیر کس طرح کیا جا سکتا ہے یہاں بھی دریدا استعمال Use کے لیے ایک فرانسیسی لفظ (Usure) استعمال کرتا ہے جس کے معنی فرانسیسی زبان میں بڑی شرح پر سود لینے کے ہیں یعنی بھاری سود لینے کے معنی میں یہ لفظ استعمال ہوتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ استعارہ کی توانائی اپنی جگہ برقرار رہے دریدا کہتا ہے کہ اس ایک لفظ میں فلسفیانہ استعارہ کی پوری تاریخ اور اس کا اسٹرکچر موجود ہے (Usure) کے دہرے معنی ہیں ایک تو بھاری سود اور دوسرے استعمال سے انحطاط دریدا اکثر ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے جن کے دہرے معنی ہوں وہ کہتا ہے کہ یہ ہمارے Interest میں ہے یعنی فائدے میں ہے کہ ہم استعارے سے گہرا تعلق رکھیں کیوں کہ استعارہ جو کچھ ہمیں دیتا ہے ہمیں اس سے زیادہ پرامید کر دیتا ہے یعنی یہ ہمارے فائدے میں نہیں ہے۔ اس سے ہمیں فائدہ نہیں پہنچتا اس کا مطلب یہ ہے کہ مابعد الطبیعیات کی ازل سے یہ کوشش ہے کہ اپنی مہمات سے فائدہ اٹھائے لیکن اس سے ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے کیوں کہ معاشیات کی اصطلاح میں یہ ایک ایسا خرچ ہے جو (Reserve) کے بغیر کیا جاتا ہے۔ دریدا نے حسی (Sensory) کا لفظ بھی دہرے معنی میں استعمال کیا ہے یعنی وہ جس کا تعلق حو اس سے ہوتا ہے اور اس سے بھی جس کا تعلق حواس سے نہیں یعنی تجرید سے ہوتا ہے لیکن اس مضمون میں حسی وہ ہے جس کا تعلق حواس سے ہوتا ہے۔ دریدا کہتا ہے کہ استعارے کے بغیر کسی حقیقت کو حسی انداز میں نہیں پیش کیا جا سکتا وہ کہتا ہے کہ ہم کسی لسانی مظہر (Linguistic Phenomenon) کا اظہار صنعتوں کے بغیر یعنی صنائع بدائع کے بغیر نہیں کر سکتے۔ وہ کہتا ہے کہ کسی متن، معنی، بیان یا لفظ کا استعمال کیا ہے اور کس طرح ممکن ہے۔ دریدا نے اس سلسلے میں اناطول فرانس کی کتاب ( Epicurus of Garden) سے ایک استعارہ لیا ہے اس کتاب کے آخری حصے میں اناطول فرانس نے Aristos اور Polyphilos کے درمیان ایک مختصر مکالمہ لکھا ہے جس کا ذیلی عنوان ہے ما بعد الطبعیات کی زبان اس میں یہ دونوں ایک حسی صنعت کا ذکر کر رہے ہیں جواب دکھائی نہ دے سکنے کی حالت تک پہنچ گئی ہے اور یہ حسی صنعت ہر مابعد الطبعیاتی تصور کے پس پشت موجود ہوتی ہے اور حسی صنعت کی اثر انگیزی کو ختم کر کے ما بعد الطبعیاتی زبان کی تاریخ جنم لیتی ہے یعنی استعارہ کی اصل صورت گھِس جانے کے بعد فلسفیانہ زبان پیدا ہوتی ہے لطف کی بات یہ ہے کہ یہاں وہ استعارہ کی صورت کے گھِس جانے کے لیے (Usure) کا لفظ استعمال کرتا ہے جس کے دہرے معنی ہیں ایک تو گھِس کر ختم کر دینا ریزہ ریزہ کر دینا، ٹکڑے ٹکڑے کر دینا اور دوسرے معنی ہیں کسی اصل زر سے جو رقم ضمیمہ کے طور پر پیدا ہو یعنی اصل رقم اپنی جگہ موجود ہو اور اس کا سود ملتا رہے بلکہ سود در سود ملتا ر ہے۔ یہاں استعارے کے سلسلے میں ان دونوں قسموں کے معانی کی تاریخ میں فرق مشکل ہے۔ اس مکالے میں پولیفیلاس کہتا ہے جب مابعد الطبعیات کے ماہرین اپنے لیے زبان تخلیق کرتے ہیں جس طرح چھری کی دھار تیز کرنے والا سان پر چھری رکھ کر اس کی دھار تیز کرتا ہے اسی طرح کے عمل سے اگر میڈل، تمغے یا کسی سکے پر جو شکل اور عبارت تحریر ہے اسے مٹا دیا جائے مطلب یہ ہے کہ جب سکہ سے بادشاہ کا چہرا، ملک کا نام اور سکہ کی قیمت مٹادی جائے تو اس سکہ پر کسی ملک کی زبان تحریر نہیں ہوتی۔ اور سکہ ہر قسم کی پابندی …. یعنی زمان و مکاں کی پابندی سے آزاد ہو جاتا ہے اور اس کی قیمت پانچ شیلنگ نہیں رہتی بلکہ غیر متعین ہو جاتی ہے اگر اس کی قدر کا تعین نہیں کیا جا سکتا اور یہ قدر غیر متعین ہو جاتی ہے تو لفظ حسی دنیا سے آگے مابعد الطبعیاتی دنیا میں قبولیت کے لیے موزوں اور مناسب ہو جاتا ہے۔ یعنی طبیعی دنیا سے نکل کر مابعد الطبعیاتی دنیا میں آجاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس دوران میں الفاظ بہت کچھ کھو دیتے ہیں اور پاتے کیا ہیں وہ فوری طور پر ظاہر نہیں ہوتا۔

    اناطول فرانس کی کتاب میں سکہ کے گھسنے کا استعارہ فلسفیانہ زبان کے سلسلے میں پولی فیلوس نے استعمال کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پولی فیلوس اصل زر کو محفوظ رکھنا چاہتا ہے یعنی حسی امیج کو برقرار رکھنا چاہتا ہے جو بہت جلد انحطاط پذیر ہو جاتا ہے اور جیسا کہ اٹھارویں صدی میں عام طور پر سمجھا جاتا تھا اور کلاسیکی رویہ بھی یہی تھا کہ حسی امیج کا خالص ہونا زبان کے ابتدائی اسٹیج میں قائم رہتا ہے اور یہ کہ زبان کی ابتدائی شکل یا مادہ جو ابتدائی مفہوم کا اظہار ہوتا ہے اس کا تعین کیا جا سکتا ہے چاہے وہ کتنا ہی پوشیدہ کیوں نہ ہو طبیعی سے، ما بعد الطبعیاتی معانی تک جو سفر ہوتا ہے علم صرف اس کی تعبیر پیش کرتا ہے یعنی مادہ سے اشتقاق کا علم اس کی تعبیر پیش کرتا ہے پولی فیلوس کی گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماہرین مابعد الطبعیات کا رویہ استعارہ کے بارے میں دانستہ یانادانستہ طور پر کیا رہا ہے۔ مکالمہ کا بقیہ حصہ اس بات کا جائزہ لیتا ہے کہ سکہ پر جو اصل تحریر تھی یا شکل تھی اسے کہاں تک زندہ کیا جا سکتا ہے فلسفیانہ تصور کے رائج ہو جانے سے جو استعارہ چھُپ گیا ہے اسے کس طرح سامنے لایا جائے وہ تمام الفاظ جو استعمال سے مسخ ہو گئے ہوں یا گھِس گئے ہوں یا کسی خاص Intellectual تصور کے لیے تخلیق کیے گئے ہوں ان سے ان الفاظ کی ابتدائی شکل یا مفہوم کو اخذ کیا جاسکتا ہے جیسے Papyrus یا چمڑے سے اگر کسی تحریر کو مٹا دیا گیا ہے تو اسے کیمیائی عمل کی مدد سے دوبارہ پڑھا جا سکتا ہے۔ اگر ما بعد الطبعیاتی تحریروں سے تجریدی اور نئی تعبیروں کے پس پردہ جو ابتدائی اور ٹھوس معانی ہیں وہ نکالے جائیں تو ہمیں نہایت عجیب اور نئے خیالات مل سکتے ہیں۔ دریدا نے اس مکالمہ کا یہ جملہ بھی لکھا ہے کہ انسانیت کی لغت حسی امیجز ہی سے مرتب ہوئی ہے اور یہ حواس سے متعلق Sensuousness تکنیکی اصطلاحوں میں بھی ملتی ہے جو ماہرین مابعد الطبعیات نے تشکیل دی ہیں ان اصطلاحات میں ایک مادیت بنیادی طور پر موجود ہے یعنی انسان کی لغت ہی میں بنیادی طور پر مادیت موجود ہے۔ دریدا کے خیال میں ابتدائی معافی حسی اور مادی ہوتے ہیں لیکن یہ بنیادی طور پر استعارہ نہیں ہوتے۔ یہ شفاف ضرور ہوتے ہیں لغوی معنی کی طرح لیکن یہ استعارہ بن جاتے ہیں اس وقت جب یہ فلسفیانہ مباحث میں مروج ہو جاتے ہیں پھر لوگ بھول جاتے ہیں کہ یہ استعارہ ہیں اور انھیں لغوی معنوں میں استعمال کرنے لگتے ہیں۔ استعارہ بنانے کا یہی عمل فلسفہ ہے۔

    دریدا کا خیال ہے کہ کسی لفظ کو گھِس کر اسے صاف بنانے کی بجائے ماہرین ما بعد الطبعیات فطری زبان میں سے سب سے زیادہ گھسے ہوئے لفظ کا انتخاب کر کے اسے ترجیح دیتے ہیں۔ (ہمارے یہاں جس طرح علامہ اقبال نے خودی اور بے خودی کے الفاظ کے ساتھ کیا ہے) مثلاً دریدا کا خیال ہے کہ ہیگل کی (مظہریت والی کتاب ماہرین ما بعد الطبعیات کو دیکھنے سے پتہ چلا کہ سب سے زیادہ اہم جملوں میں جو چھبیس الفاظ موضوع کی حیثیت رکھتے ہیں ان میں سے انیس الفاظ منفی ہیں۔ اس طرح ماہرین مابعد الطبیعیات الفاظ کو گھسنے کی محنت سے بچ جاتے ہیں یا گھسے پٹے الفاظ کے انتخاب کی محنت سے بچ جاتے ہیں اور انہیں وہ الفاظ آسانی سے مل جاتے ہیں جن میں صرف ’’In`Non `ab ‘‘ لگا کر کھردرے الفاظ کو بھی چکنا اور بغیر کردار کا بنا دیتے ہیں اس طرح یہ ماہرین ما بعد الطبعیات الفاظ کے استعارہ ہونے کے عمل کو روک دیتے ہیں ان کی Metaphoricity یعنی استعارہ بننے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔

    RECITATIONS

    ظفر جمیل

    ظفر جمیل,

    ظفر جمیل

    volume01 article12 ظفر جمیل

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے