روزہ داروں کی لڑائی
بھوک اور لڑائی میں غالباً کوئی خاص معنوی تعلق ہے۔ چنانچہ ہندوستان میں جس قدر لڑائیاں ہوتی ہیں اتنی اور کسی ملک میں نہیں ہوتیں۔ ظاہر ہے کہ سرزمین ہند کے یہ جھگڑے جوآئے دن یہاں ہوتے رہتے ہیں ’’فساد گندم‘‘ سے زیادہ شریفوں کی بھوک سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی تہ میں ہمیشہ بھوک اور افلاس کی چنگاریاں سلگتی ہوئی دیکھی جاتی ہیں۔
روزہ اور لڑائی کے درمیان جو رشتہ ہے، اس کے اسباب پر اب تک زیادہ غور نہیں کیا گیا لیکن یہ واقعہ ہے کہ رمضان المبارک میں اکثر اسی قسم کے واقعات ہوتے رہتے، جن کوروزے کی گرمی سے منسوب کردیا جاتا ہے۔ حالانکہ روزہ اور فتنہ و فساد میں کوئی دور کی نسبت بھی نہیں اور یہ مہینہ کبھی اس مقصد کے لیے استعمال نہیں ہوا لیکن مصیبت تو یہ ہے کہ عہدحاضر میں روزہ دارکو صرف بھوک اور پیاس ہی کی تکلیف کا مقابلہ نہیں کرنا پڑتا بلکہ ہزاروں ضروریات اور خواہشات سے دست کش ہونا پڑتا ہے۔ پان حقہ، تمباکو، چائے، سگریٹ، سوڈا لیمن وغیرہ کے ساتھ ہی اس کو صبح کی معجون مقوی بھی ترک کرنا پڑتی ہے اور شام کو جرعہ کیف اور بھی چھوٹ جاتا ہے۔
اس ترکِ لامتناہی کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مزاج میں چڑچڑاپن اور اعصاب میں ذکاوتِ حس پیدا ہوجاتی ہے جن کے اجتماع سے روزہ دار کا دماغ اٹلی کا دفتر جنگ بن کر رہ جاتا ہے اور جس قدر دن ڈھلتا جاتا ہے غصہ اور نازک مزاجی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ ذرا خلاف مزاج کوئی بات ہوئی اور دل سے ایک شعلہ بلند ہوکر براہِ راست دماغ کی طرف بڑھا اور اس کے وہاں پہنچتے ہی قوت مدافعت کھینچ کر مرکز اعصاب میں آگئی اور معرکۂ کار زار گرم ہوگیا۔ مگر اس لڑائی کے لیے فریقین کے جذبات میں یکسانیت ہونی چاہیے، اس لیے جب تک دونوں طرف روزے کی گرمی کارفرمانہ ہو، اس جنگ عظیم کی نوبت نہیں آتی۔
زمانہ موجودہ کی بڑھتی ہوئی ضروریات اور خواہشات نے اول تو روزے ہی میں کچھ اہمیت باقی نہیں چھوڑی اور ایسے مجاہدین کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے جو لذائذ دنیوی کو محض آئندہ کے عیش و آرام کی خاطر تیرہ چودہ گھنٹہ کے لیے چھوڑدیں۔ جولوگ خوش قسمتی سے عذاب و ثواب اور جزا و سزا کے قائل ہیں وہ مشکل ہی سے اس جہاد پر تیار ہوتے ہیں اور وہ بھی اس طرح کہ صبح سے شام تک اول تو پلنگ ہی سے نہیں اٹھتے، اگر اٹھتے بھی ہیں تو ملازم سے لے کر بیوی اور بچوں تک کاناک میں دم آجاتا ہے۔ بات بات پر بگڑتے، خفا ہوتے اور کپڑے پھاڑتے ہیں۔
کبھی بچوں کو ڈانٹتے ہیں کبھی بیوی سے الجھ پڑتے ہیں، خدا نے دوچار ماتحت بھی انہیں عطا کردیے ہیں تو یوں سمجھیے کہ بارہ مہینے میں ان غریبوں کو ایک مہینہ کی رخصت رعایتی کے معاوضہ میں یکم رمضان سے پہلی شوال تک قید بامشقت کی مصیبت بھگتنی پڑتی ہے۔ سال بھر سے جو کام نہیں ہوئے روزہ دار افسر انھیں رمضان ہی کے ایک مہینہ میں پورا کرنے کی ہدایت جاری کرتا ہے۔ کسی کوڈانٹتا ہے، کسی کو گھورتا ہے، کسی پر رول لے کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ کبھی جرمانہ کرتا ہے، کبھی برخواست کردینے کی دھمکی دیتا ہے۔ غرض اس کا دفتر صبح سے شام تک اکھاڑہ بنا رہتا تھا۔ اگر خدانخواستہ ماتحتوں میں سے بھی کسی نے تنگئی رزق کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی نیت سے روزہ رکھ لیا تو غضب ہی ہوگیا۔ بس سمجھ لیجیے کہ ان جاہلوں کی زور آزمائی سے ضابطہ کی زنجیر بھی محفوظ نہ رہ سکے گی۔
اگرچہ افسر کے مقابلہ میں ماتحت کو غصہ بہت کم آتا ہے اور اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ ماتحت کمزور ہوتا ہے، افسر قوی اور غصہ کی تاریخ صاف طور پر اعلان کرتی ہے کہ یہ جذبہ صرف قوی آدمی کے دل میں کمزور انسانوں کے خلاف ہی پیدا ہوسکتا ہے۔ تاہم بعض پہلوان قسم کے ماتحت جس کو دن بھر سے بیڑی اور چائے میسر نہ آئی ہو یعنی وہ روزہ دار ہوں یا روزہ داروں کی نقل کر رہے ہوں، شام کے وقت افسر کے مقابلہ میں آمادہ جنگ ہوجائیں تو انجام ہمیشہ ہمیشہ خطرناک ہوتا ہے۔ اس صورت میں دونوں طرف سے کوشش ہوتی ہے کہ ایک دوسرے کامنھ نوچ ڈالے یا پکڑ کر جھنجھوڑ ڈالے یا صرف سر ہی پھوڑدے۔
چنانچہ ایک دوست جو مہینے میں صرف تین ہی روزوں کی فرضیت کے قائل تھے یعنی پہلے منجھلے اور آخری روزے ہی کو فرض سمجھتے تھے، پہلے روزے کو دفتر تو معلوم ہوا، یا محض گمان ہوا کہ دفتر نہایت گندہ ہے اور مہینوں سے صاف نہیں کیا گیا۔ ہر طرف ردّی کے ٹکڑے اڑتے پھر رہے ہیں۔ میز گردوغبار سے اٹی ہوئی ہے۔ کرسی کی بھی یہی کیفیت ہے۔ ان مناظر کے ساتھ ہی دفتر کے ہر چپراسی، سپاہی اور اہلکار کے چہرے پر بغاوت، سرکشی، تمرد کے آثار نظر آنے لگے اور جی چاہا کہ فوراً ان سب کے سرقلم کردیے جائیں یا ان کو اس قدر مارا جائے کہ آئندہ غفلت اور سرکشی کاارتکاب نہ کریں۔ کمرے میں قدم رکھتے ہی تن بدن میں آگ لگ گئی اور چلاکر بولے، چپراسی چپراسی۔
سرکار! کی گھبرائی ہوئی آواز کے ساتھ دوتین چپراسی قسم کے انسان میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے نمودار ہوئے اورڈرتے ڈرتے پوچھا، حکم!
آج دفتر کی صفائی کیوں نہیں ہوئی؟
ہوچکی حضور!
جھوٹ بولتے ہو۔ دیکھتے نہیں، اندھے ہو یہ کاغذ کیسے پڑے ہیں اور میز پر دھول کس قدر جمی ہوئی ہے۔ دیکھو اب یہ حرکت کبھی نہ ہو، میں اس نمک حرامی کو پسند نہیں کرتا۔
سرکارابھی ابھی تو ہم جھاڑ کر گئے ہیں میز کو!
پھر وہی بکواس۔ تم سب نمک حرام ہو۔
بکواس نہیں سرکار، منشی جی سے پوچھ لیجیے۔
جہنم میں جائیں منشی جی، ہم کسی سے نہیں پوچھتے۔ بتاؤ تم نمک حرام ہو؟
نہیں صاحب ہم تو نہیں ہیں۔
نہیں ہو، تو سنو، تم سب پر پندرہ دن کی تنخواہ کا جرمانہ کیا جاتا ہے۔
چپراسی خاموشی سے اس مسئلہ پر غور کرنے میں مصروف ہوگئے کہ نمک حرامی اچھی یا پندرہ دن کی تنخواہ، دونوں میں سے کس چیز کو قبول کریں۔ ابھی یہ امر طے نہ ہوا تھا کہ قریب کے کمرے سے منشی جی نکل آئے۔ جن کو پورا یقین تھا کہ صاحب اپنے ماتحتوں کو جیل خانے تو بھیج سکتے ہیں، جہنم میں کسی طرح نہیں بھیج سکتے، خود جانا چاہیں تو خوشی سے چلے جائیں۔ مگر ہم پر انہیں اس معاملے میں کوئی اختیار نہیں۔ انھوں نے سامنے آکر نہایت دلیری سے سوال کیا، کس کو بھیج رہے ہیں آپ دوزخ میں؟ صاحب کاغصہ اور تیز ہوگیا۔ تیوری چڑھاکر فرمایا۔ تمہیں اور کسے؟
کس جرم میں؟
دفتر کی صفائی کیوں نہیں ہوئی؟
چپراسیوں سے پوچھیے کیوں نہیں ہوئی؟
میں تم سے پوچھتا ہوں۔
میرے سپرد یہ کام نہیں ہے۔
منشی جی معلوم ہوتا ہے تمہارادماغ بھی خراب ہوگیا۔
جی ہاں روزہ میرا بھی ہے، آپ کا بھی، غالباً دونوں پر ایک ہی اثر ہوا۔
کیا بکتے ہو؟ دھکے دے کر دفتر سے نکلوادوں گا۔ میں بغیر کسی امداد کے تمہیں یہاں سے نکال دوں گا۔ او کم بخت گستاخ، بدزبان، خاموش نہیں ہوتا۔
یہ کہہ کر صاحب نے رول اٹھایا اور منشی پر ایک زبردست حملہ کیا۔ منشی جی نے بڑی عجلت سے جست کی اور صاحب کا بازو پکڑ کر انھیں دوتین جھٹکے دے کر کہا، بتاؤں؟
صاحب اس عمل گستاخی کی تاب نہ لاسکے اور منشی جی کی گرفت سے آزاد ہونے کی کوشش کرنے لگے لیکن منشی جی قلم کے چاہے کیسے ہی کچے ہوں، ہاتھ کے بڑے سچے تھے۔ صاحب اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہوسکے بلکہ اور منشی جی نے ان کے سینے پر سرکی دوتین ٹکریں ماردیں۔ جب نوبت یہاں تک پہنچی تو صاحب چیخے۔ چپراسی چپراسی دوڑو۔ ہمیں بچاؤ۔
لیکن چپراسی نمک حرام نہیں تھے، وہ بڑی مستعدی سے اپنے فرائض انجام دے رہے تھے اور خوش تھے کہ دفتر کے ساتھ ہی ’’افسر‘‘ کی صفائی بھی عمل میں آرہی ہے۔
بڑی مشکل اس وقت ہوتی ہے، جب میاں بیوی دونوں ایک ساتھ روزے شروع کردیں اور چونکہ زنانہ رمضان مردانہ رمضان سے الگ نہیں ہوتا لہٰذا یہ حادثہ بھی اکثر ہوتا ہے۔۔۔ گیارہ بجے تک تو دونوں پر نیند کاغلبہ اور رات کی بیداری کاکسل غالب رہتا ہے۔ مگر اس کے بعد کا وقت بہت مخدوش ہوتا ہے۔ قدم قدم پر تصادم کا اندیشہ ہوتا ہے۔ میاں گھڑی گھڑی بے قراری کے ساتھ چولہے کو خالی دیکھ کر تقاضہ کرتے ہیں۔۔۔ تم نے ابھی تک کچھ کیا ہی نہیں اور افطار میں صرف تین گھنٹے رہ گئے ہیں!
کرنا ہی کیا ہے، صرف روٹی ہی پکانی ہے۔
اور افطاری کا کیا بندوبست ہوگا؟
بازار سے لے آنا۔۔۔! اور زیادہ افطاری ہوگی کیا بس کھجوریں کافی ہیں۔
پہلے روزے میں اس کفایت شعاری کو میں پسند نہیں کرتا۔ کم سے کم کچھ تو بناہی لو۔
روزے میں میرا کام کرنے کو جی نہیں چاہتا۔
کیا والد محترم کے یہاں بھی اتنا ہی آرام حاصل تھا؟
آپ اور والد برابر تھوڑا ہی ہیں!
برابر نہیں ہیں تو فرق کیا ہے مجھ میں اور ان میں، وہ کہاں کے تعلقہ دار ہیں؟
تعلقہ دار نہیں ہیں تو محتاج بھی نہیں۔۔۔ دیکھو بات نہ بڑھاؤ۔ میرے ماں باپ کا یہاں کیاذکر تھا۔ تم نے روزہ کیا رکھ لیا ہے بس لڑنے ہی کو پھرتے ہو۔ آخر ہم بھی تو ہیں روزے سے۔ روزہ رکھتے ہو اپنے لیے دوسروں پر احسان کیوں کرتے ہو۔ ہم سے مت الجھو۔
یہ کہہ کر بیگم صاحبہ جو منہ لپیٹ کر رونا شروع کریں گی تو غروب آفتاب سے پہلے اُن کی آنکھ کا آنسو بند نہ ہوگا۔ اور افطاری کے ساتھ ہی کھانا بھی خطرہ میں پڑجائے گا۔
ایک من چلے خان صاحب جو کئی سال سے علالت کی وجہ سے روزہ نہ رکھتے تھے اور اسی عرصہ میں کافی فربہ ہوگئے تھے، خفیف سی کھانسی کے باوجود روزہ رکھنے پر تیار ہوگئے۔ ادھر ان کی بیگم صاحبہ نے ’’سحر‘‘ کھائے بغیر ہی اس جہاد پر کمر باندھ لی۔ صبح ہی سے دونوں کو یہ معلوم ہونے لگاکہ دل پر بھاری بوجھ رکھا ہوا ہے اور دماغ چکرارہاہے، نہ کسی سے بات کرنے کو جی چاہتا ہے، نہ پلنگ سے اٹھنے کی ہمت ہوتی ہے۔ بار بار یہ شبہ ہوتا ہے کہ کوئی زبردست حادثہ ظہور پذیر ہونے والا ہے۔ ابھی دونوں میں کوئی اٹھانہ تھا کہ صاحب زادہ بلند اقبال نے چائے کا مطالبہ کیا۔ گویا والد محترم کی ترجمانی کی۔۔۔ اور پھر رو رو کر چائے۔۔۔ اماں چائے۔۔۔ پکارتا رہا۔ خاں صاحب سے ضبط نہ ہوا۔ انھوں نے ذراتلخی سے کہا،
چائے دے کیوں نہیں دیتی ہو؟
نہیں دیں گے۔۔۔ بیگم صاحبہ نے ڈانٹ کر جواب دیا۔
کیوں؟
ہماری طبیعت۔
نہ دو، مگر یاد رکھو، میں نے اب اس کے رونے چلانے کی آوازسنی تو اٹھاکر زمین پر دے ماروں گا!
ضرور! میں بھی یہی چاہتی ہوں۔
اس وقت اتفاق سے بچہ خاموش ہوگیا اور خاں صاحب دانت پیس کر رہ گئے مگر دماغ میں اسی وقت سے ایک خشکی سی محسوس ہونے لگی۔ دن بھر لوگوں سے لڑتے جھگڑتے رہے۔ شام کو تین بجے گھر میں آکر پوچھا کیا پکے گا؟ وہ بولیں جو پکے گا سامنے آجائے گا۔
خاں صاحب کو یہ جواب بہت ناگوار ہوا۔ پیشانی پر بل ڈال کربولے۔، سامنے آنے سے پہلے بتادینا کیا کوئی گناہ ہے؟
گناہ ہو یا ثواب، مجھ سے بات کرتے ہوتو ذرا آپے میں رہو۔
ورنہ تم مار ہی تو بیٹھو گی؟
مارنے پیٹنے کاکیا ذکر ہے؟
اس کا ذکر نہیں تو تم بھی حواس درست رکھو!
میں پہلے کہہ چکی ہوں مجھ سے مت الجھو، نہیں مانتے تو دیکھ لو کیا پک رہاہے۔
یہ کہہ کر بیگم صاحبہ نے چولہے سے دیگچی اتاری اور خاں صاحب کے سامنے الٹ دی۔ اور بولیں دیکھا تم نے کیا پک رہا ہے اور دکھاؤں کچھ؟
خاں صاحب کے روزہ افطار کرنے سے پہلے ہنڈیا ٹوٹ چکی تھی اور بیوی سامنے ڈوئی ہاتھ میں لیے کھڑی تھیں۔ ایسی حالت میں انھیں بھی مداخلت کا پورا حق تھا لیکن گر بہ کشتن روز اول کے وہ قائل نہ تھے، اس لیے اس وقت طرح دے گئے اور پلنگ پر لیٹ گئے مگرباربار دل میں گدگدی سی اٹھتی تھی اور رہ رہ کر اپنی توہین کاخیال آتا تھا لیکن اس خطرے کے پیش نظر خاموش ہوجاتے تھے کہ ذرا بھی کوئی انتقامی کارروائی کی گئی تو شام کو فاقہ ہی کرناپڑے گا تاہم بالکل ٹال جانا بھی پست ہمتی کی دلیل تھی۔ خاں صاحب نے اظہار غضب کادوسرا ذریعہ نکالا۔ بچہ دروازہ میں کھڑا ہوا کواڑوں سے شغل کررہا تھا۔ کبھی بند کرتاتھا کبھی کھولتاتھا۔ ڈانٹ کر بولے ہٹ یہاں سے مردود!
اس نے ماں کی طرف دیکھا جو یہ چاہتی تھی کہ وہ کسی حیلہ سے الگ ہی رہے اور کھانا پکانے میں حارج نہ ہو۔ چنانچہ نہایت سخت لہجہ میں بولیں، کھیلنے کیوں نہیں دیتے، اس نے کیا بگاڑا ہے؟
یہ بھی کوئی کھیل ہے، اب کے اس نے کواڑ بجائے تو جان سے مار کر پھینک دوں گا۔
بچہ اپنی ضد سے بازنہ آیا۔ اسے اس مشغلہ میں بڑا لطف آرہاتھا۔ اس نے پھر کواڑ بجائے۔ خاں صاحب پلنگ سے کود کر بچے کے پاس آئے اور زور زور سے دوتین چپت رسید کردیے۔ بیگم بولیں، مار ہی ڈالونا!
بس چپ رہو! تم ہی نے اس کو شہ دے رکھی ہے۔
میں چپ ہونے والی نہیں ہوں۔ تم نے کیوں مارا اس کو بے قصور؟
ابھی تو اور ماروں گا!
اچھا ماروتو!
تم کیا کروگی؟
جو کروں گی دیکھ لینا۔
خاں صاحب بڑے جوش کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ بیگم نے بچے کو گود میں لے کر کہا، دیکھو انگلی بھی لگائی تم نے توخیر نہیں۔
خاں صاحب بڑے دل گردہ کے آدمی تھے۔ اکثر معرکوں میں انھوں نے اپنی شجاعت کے جوہردکھائے تھے۔ مگر خدا پناہ میں رکھے عورتوں سے، جب یہ تشدد پر اترآتی ہیں تو بڑے بڑے سورمامیدان سے بھاگ جاتے ہیں۔ خاں صاحب نے جو بیگم کی نیلی پیلی آنکھیں دیکھیں تو سہم گئے اور اچھا شام ہونے دو، کہہ کرنہایت شان و شوکت کے ساتھ پسپا ہوگئے۔ ادھر بیگم نے باورچی خانہ میں پہنچ کر چولہا ٹھنڈا کردیا اور اذاں ہوئی تو نمک کی ڈلی سے روزہ کھول لیا۔ خاں صاحب نے بھی ایک گھونٹ پانی پی لیا۔ کئی دن تک اس لڑائی کا اثر باقی رہا اورگھر میں روزے کی برکتیں طرح طرح سے ظاہر ہوتی رہیں۔ چینی اور کانچ کے متعدد برتن بھی ٹوٹے۔ بھوک کی شدت سے خاں صاحب نیم جان ہوگئے۔ بچہ پٹا۔ ایک مصیبت ہو تو بیان کی جائے۔
اس کے چند دن بعد خاں صاحب تانگہ میں بیٹھے جارہے تھے۔ پیچھے سے کسی نے پکار کرکہا، تانگہ روکو!
خاں صاحب کو ایک اجنبی کی یہ جرأت سخت ناگوار ہوئی۔ تانگہ روک لیا مگر وہ قریب آیا تو کہا، کیوں رکوایا تم نے تانگے کو؟
غلطی ہوگئی معاف فرمائیے، میں کچھ اور سمجھا تھا۔
غلطی کے بچے! ہمارااتناوقت جو خراب ہوا۔
چپ رہو بے تمیز کہیں کے۔ مجھ سے روزے میں غلطی ہوگئی۔ اینٹھتا کیوں ہے اتنا؟
خاں صاحب بھی روزہ دار تھے اور انہیں بھی غلطی کرنے کا پورا حق تھا۔ اور پھر مرد سے مقابلہ تھا، بیوی سے تو تھانہیں، اس لیے وہ تانگہ سے کود کر ایک ہی یلغار میں حریف کے قریب پہنچے اور بیت سے غلطی کا ارتکاب شروع کردیا۔ ادھر سے بھی جواب دیا گیا۔ پھر انھوں نے جواب الجواب پیش کیا۔ اسی بحث و تمحیص اور ردوقدح میں خاں صاحب کے سرعزیز میں ایک ہلکا سازخم آگیا۔ وہ میدان سے بھاگ کر سیدھے گھر پہنچے۔ بیگم ان کے روزے سے پہلے ہی بدظن ہوچکی تھیں، دور ہی سے دیکھ کر بولیں کیا ہوا؟
خاں صاحب نے کچھ کہا نہیں۔ روزہ، روزے سے لڑگیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.