رومانی افسردگی
یہاں تک میں جدید افسردگی کی صرف ایک شاخ کا مطالعہ کرتا رہا ہوں۔ یہ صنف شاؔ تو بریاں اور باترنؔ میں بھی اور ان کے لاتعداد مقلدین میں بھی سطحی اور ظاہردارانہ معلوم ہوتی ہے۔ یہ افسردگی قدما میں بھی موجود تھی۔ بیقوری غم سے کھلونے کی طرح کھیلا کرتے تھے۔ اورعشرتِ غم سے لطف لیا کرتے تھے۔ شاتو بریاں کی مایوسی ادبی شہرت کا دوسراروپ معلوم ہوتی ہے۔ چسٹرٹنؔ بائرن کی اداسی میں جوانی اور اعلیٰ حوصلگی کی معرکہ آرائی دیکھتا ہے۔(۰) لیکن شاتوؔبریاں اور بائرنؔ کے یہاں بات یہیں تک ختم نہیں ہوجاتی۔ یہ معلوم کرنے کے لیے کہ رومانی افسردگی میں کیا چیز مخصوص اور مابہ الامتیاز ہے، ہمیں اس بنیادی فرق کو اورزیادہ واضح کرنا پڑے گا جو کلاسیکیوں اور روسو کے متبعین میں ہے۔ روسو پر ایمان رکھنے والے جدید نسل کی طرح اپنے انفرادی اور ذاتی وجود میں قدماء کی نسبت زیادہ پھنسے ہوئے ہیں۔ زمانۂ جدید کی افسردگی میں یہ احساس تنہائی تقریباً ہمیشہ رہا ہے۔ صرف اس لیے نہیں کہ ایک خلاق ذہنیت اپنے انوکھے پن پر زیادہ نگاہ رکھتی ہے، بلکہ اس لیے بھی کہ رواجی بندھن تجزیاتی تنقید کے ہاتھوں کمزور ہوچکے ہیں۔ جدید دور کے اس عارفے کی یقیناً سب سے اعلیٰ شکل وہ بیماری ہے جو ہمیں مذہبی اعتقادات کے زائل ہوجانے کے بعد لگی۔ یہی وہ بات ہے جو سیناں کور اور آرنلڈ کے حزن و مایوسی کو گرنے کی غمگینی سے ممتاز کرتی ہے۔ ’’گورغریباں‘‘ اپنی انسانی لے کی وجہ سے جدید تحریک سے تعلق رکھتی ہے۔ اس میں نچلے طبقے سے ہمدردی پائی جاتی ہے۔ لیکن اپنی افسردگی کے اعتبار سے یہ زندگی کی اس لازمی غم انگیزی پر قدماء کے غور و فکر سے آگے نہیں بڑھتی۔ جسے ہم اداسی کے نام سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ ’’گورستانی اسکول‘‘ کی دوسری تخلیقات کی طرح یہ بھی ملٹنؔ کی It penseroso سے براہ راست تعلق رکھتی ہے۔ یہاں یہ مناسب ہوگا کہ ہم گرے کے بیان کردہ امتیاز کو ملحوظ رکھیں۔ ’’میری اداسی سفید ہے۔ لیکن ایک اور بھی قسم ہے غم کی۔ سیاہ، تاریک۔ جسے میں نے کبھی کبھی محسوس کیا ہے۔‘‘ یہ خط اس نے ۱۷۴۲ء میں رچرڈ کولکھا تھا۔
بجاطور پر یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ بغیر اس کپکپاتی امید کو خیرباد کہے جو ’’گورغریباں‘‘ سے نمایاں ہے، گرےؔ نے شدید افسردگی کا تجربہ نہیں کیا۔ کوئی تنہائی اس آدمی کی تنہائی سے زیادہ خوفناک نہیں جسے پہلے مذہب پر اعتقاد رہا ہواور پھر وہ زائل ہوگیا ہو۔ ریناںؔ نے کلیساؔ سے اپنی علیحدگی کو یوں بیان کیا ہے ’’کہا جاتا ہے کہ بیکال جھیل کی مچھلیاں ایک دفعہ نمکین پانی میں رہتی تھیں۔ لیکن انہیں تازہ پانی کی مچھلیاں بننے میں ہزاروں برس لگے۔ مگرمچھ میں یہ تبدیلی چند ہی ہفتوں میں ہوگئی۔ جادو کے حلقے کی طرح کیتھولک مذہب زندگی کا اس قوت سے احاطہ کرتا ہے کہ جب کوئی شحص اس سے محروم ہوجائے تو اسے دنیا کی ہر چیز بے کیف معلوم ہوتی ہے۔ مجھے معلوم ہوتا تھا کہ میں کھو گیا ہوں۔ اور دنیا مجھے سرد اور بنجر ریگستان کی طرح نظر آنے لگی۔ اس لمحے جب عیسائیت میرے لیے صداقت نہ رہی۔ دنیا غیر دلچسپ معلوم ہونے لگی اور مضحکہ خیز۔ میری زندگی کی بنیادوں کے ڈھے جانے کا یہ سانحہ مجھ میں خلاء کی سی کیفیت پیدا کرگیا۔ ایسے خلاء کی جو بخار کے بعد یا غم انجام محبت کے بعد پیدا ہوجائے۔‘‘
مذہب پر سے ایمان اٹھ جانے کے بعد کی تنہائی بہت سے رومان پرستوں میں ایک عجیب طریقے سے بغاوت کے جذبے سے ملی جلی ہوتی ہے۔ اس قماش کے رومان پسند ایک ایسے خدا کے خلاف طعن و تشنیع کی بھرمار کردیتے ہیں جس کے وجود پر وہ کوئی ایمان ہی نہیں رکھتے۔ مثلاً لکونتؔ، دلیل۔ کی ’’قابیل‘‘ جو بائرنؔ کے ڈرامہ ’’قابیل‘‘ سے ملتی جلتی ہے۔ وہ خالی آسمان کو مکا دکھاتا ہے۔ یا الفریڈؔ دے۔ وگنی کی طرح اس خلاء کی طرف پر غرور حقارت کا رویہ اختیار کرتا ہے۔ وہ خداسے اس بغاوت کو چھوڑنے پر اس لیے راضی نہیں ہوتا کہ یہ بغاوت اسے عامیانہ سطح پر اترآنے سے بچاتی ہے۔ ایک بالکل ایسا ہی جذبہ ان ’’شیطانی کیتھولک‘‘ لوگوں میں ملتا ہے جو مذہب سے محض اس لیے چمٹے رہتے ہیں کہ گناہ کرنے میں اور زیادہ مزا آئے۔ باربے دورےؔ دے لی۔ کلیسا کے مجاہد اور بائرن کے دیو قدہیرو کو ملادینے میں کامیاب ہوگیا۔ لیکن عام طور پر رومانی پر ایتھیس دوسروں کے ساتھ عقائد میں شامل نہیں ہوتا۔ خواہ وہ عیسوی ہوں خواہ کلاسیکی۔ جہاں تک روایتی ادارے یا عقائد کا تعلق ہے رومان پرست انتہائی مرکز گریز ہوتا ہے۔ مگر ماضی کے کھنڈر پر وہ انسانی برادری کے اک نئے مذہب کی بنیاد رکھنے کی امید کرتا ہے۔ شیفٹس میری سے لے کراب تک اس تحریک کا ہر اصول ہمدردی پر زور دیتا رہا۔ اگر ہمدردی کا اصول ایسے لوگوں کو جو اپنی انفرادیت کوآخری حدوں تک لے جانا چاہتے ہیں۔ واقعتہً یکجا کرسکے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ رومانیت کو بحیثیت نظر یہ زندگی قبول نہ کرلیا جائے۔
لیکن نظریات اور حقائق کا تصادم اس تحریک سے زیادہ کہیں شدید نہیں۔ کوئی تحریک ایسی نہیں جو برادری کے دعوں سے اس درجہ لبریز ہونے کے باوجود دل ہلادینے والی تنہائی کے احساس کی حامل ہو۔ ’’مجھی کو دیکھو جو اس کرۂ ارض پر تنہا ہے۔‘‘ اس جملے سے روسوؔ کی آخری کتاب شروع ہوتی ہے اورآخر میں اسے اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ ’’وہ جو دنیا میں انسانوں سے سب سے زیادہ محبت کرتاہے۔ اسی کو سب سے زیادہ تنہا رہنا پڑا۔‘‘ میں اس دنیا میں اس طرح ہوں جیسے کسی اور سیارے سے اس اجنبی سیارے میں آپڑا ہوں۔‘‘ جب ان کی ذات سے کوئی بڑی شے انہیں قابو میں رکھنے کے لیے موجود نہیں ہوتی تو قلب ودماغ دونوں (رومانی مفہوم کے اعتبار سے) نہ صرف یہ کہ ایک دوسرے کے خلاف سمت میں جاتے ہیں بلکہ اپنے طور پر ہر ایک دوسرے سے علیحدہ ہوجاناچاہتا ہے۔ نہ صرف آرنلڈؔ نے بلکہ رومانی افسردگی کے دوسرے مریضوں نے بھی Empedocles کو ذہنی تنہائی کی علامت کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ’’وہ تنہائی اور آدمی پر غالب آجانے والی قوتِ فکر میں ڈوب کر رہ گیا تھا۔‘‘ اور اس لیے اسے دوسرے انسانوں سے کوئی ہمدردی باقی نہیں رہی تھی۔
اے Empedocles تو اب ایک زندہ آدمی نہیں ہے۔
تو خیالات کاشعلہ ہے جو ہر چیز کو بھسم کردیتا ہے۔
بلکہ برہنہ اور دائمی طور پر بے چین دماغ۔
اس کاآتش فشاں Aetna میں کود پڑنا فطرت میں مدغم ہوکر اپنی تنہائی سے رہائی پانے کی کوشش ہے۔
مذہب کی رو سے انسان کو کسی ایسی طاقت سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کرنی چاہیے، جو فطرت اور انسان دونوں سے بالا ہے۔ خواہ عیسائیت کی طرح ہم اسے خدا کہیں یا مشرق بعید کے بعض فلسفوں ۱؎ کی طرح محض ’’قانون‘‘۔ سب سے سخت عذاب جو اس قانون کو توڑنے سے عاید ہوتا ہے۔ یہ ہے کہ آدمی اس یکجہتی سے دور ہوجاتا ہے۔
’’محض بدمعاش آدمی ہی تنہا ہوتاہے۔ Diderot کے جملے میں جسے روسوؔ نے اپنے اوپر طعنہ سمجھا، سچائی کا یہی عنصر ملتا ہے۔ روسو نے جواباً یہ کہا کہ ’’برخلاف اس کے محض اچھا آدمی تنہا ہوتا ہے۔‘‘۲؎ ایک طرح روسوؔ کی بات صحیح ہے۔ اورجیسا کہ یونان کے سات دانشوروں میں سے ایک کا قول ہے کہ ’’بیشتر آدمی برے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شخص ایسا نیک کام کرنا چاہے جو دشوار بھی ہو تو بہت کم آدمی اس کا ساتھ دیں گے۔‘‘
روسوؔ کی یہ بات بھی صحیح ہے کہ بدمعاش آدمی کو سوسائٹی کی ضرورت ہے، تاکہ وہ اپنی بدمعاشیاں عمل میں لاسکے۔ لیکن اصل بات پر اب بھی روسوؔ کی نگاہ نہیں پہنچی۔ تنہائی سب سے زیادہ ایک نفسیاتی چیز ہے۔ ہوسکتا ہے کہ لوگوں سے بہت ملنے جلنے کے باوجود بھی ایک آدمی خوفناک تنہائی کاشکار ہو جیسے کہ پوکا Man of the Crowd لیکن برخلاف اس کے اس قدیم شخص کی طرح بھی ہوسکتا ہے جو کہتا تھا کہ تنہائی کے باوجود بھی وہ کبھی تنہا نہیں رہا۔ ہاتھورل نے جو خود بھی تنہائی کاشکار تھا۔ اس مسئلہ پر بہت کچھ سوچاہے۔ اورخاص طور سے اس حقیقت پر کہ گناہ کانتیجہ ہمیشہ تنہائی ہوتا ہے۔ اس نے سمجھ لیاتھاکہ اس مسئلہ کاتعلق نیو انگلینڈ کی مذہبی زندگی کے رجحان سے کیا ہے؟ پرانے Puritans خدا سے ہم آہنگی کا احساس رکھتے تھے اور انہیں کسی دوسرے ساتھی کی تمنا نہ تھی۔ ایمان کے کمزور پڑتے ہی بعد کے Puritans خدا کی رفاقت کے احساس سے محروم ہوگئے۔ لیکن انسانوں سے اس کی علیحدگی برقرار رہی۔ Hawthorne مسئلہ تنہائی کا اگر کوئی حل پیش کرتاہے تو وہ انسانیت پرستانہ ہے۔‘‘ اپنی ہمدردیوں میں وسعت پیدا کرو اوراس شخص کو جس نے اپنا مقصد اعلیٰ و ارفع بنناقرار دیا ہے، متنبہ کردو۔ علم یاقوت کی اجاڑ چوٹیوں پر اسے وہ اطمینان نہ مل سکے گا۔ جووادی میں چلنے پھرنے والوں کے ساتھ تعلقات رکھنے پر حاصل ہوتا ہے۔‘‘ فاؤسٹ جو علم کی تنہائی کی علامت ہے، ازسرنو تعلقات پیدا کرکے اس تنہائی سے نکل بھاگنا چاہتا ہے۔ اور اب اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ قوت کی لگن بھی تنہائی پیدا کرتی ہے۔ نپولینؔ بھی جو فوق الانسان کا نمونہ ہے فطرتاً تنہا رہا ہوگا۔ اس کے مدح خواں نطشےؔ نے ایک دن لکھا کہ ’’میں اپنی عمر کے تینتالیس سال گزار چکنے کے بعد بھی اس طرح تنہا ہوں جیسے کہ ایک بچہ۔‘‘ کارلائلؔ جس کا ’’ہیرو‘‘ اٹھارہویں صدی کی ’’منفرد ذہانت۳؎ سے متاثر ہے اپنی ڈائری میں لکھتا ہے‘‘ میری تنہائی، میرا احساسِ بے کسی، میری لامحدودیت (اس سے بہت کچھ مراد ہے) کون سی زبان ہے جواس کا اظہار کرسکے؟ تنہا! تنہا!‘‘
جیسا کہ روسوؔ کا مقلد اس لفظ کا مفہوم لیتا ہے۔ یہ تسلیم نہیں کیا جاسکتاکہ کوئی محبت کے ذریعہ اس تنہائی سے بچ نکلے جو علم یاقوت کی لگن سے پیدا ہوتی ہے۔ کیونکہ اس کے نزدیک محبت ہی لامحدود ہے۔ خواہ اس محبت سے مراد نفسانی جذبہ ہو یا وسیع پیمانے پر انسانیت سے اس کی ہمدردی۔ ابھی ژورنساں کے ساتھ اس کا معاشقہ ختم ہی ہوا تھا کہ موؔسے چیخ اٹھا۔ ’’یہ انسان جسم نہیں بلکہ تنہائیاں ہیں۔‘‘ ورڈ سورتھؔ تو نچلے طبقے کے لیے ایک ایسی ہمدردی رکھتا تھا، جس کی اجازت نئی کلاسیکیت نہیں دیتی تھی۔ یہ مشہور بات ہے کہ نچلے طبقے کے لوگوں نے اس ہمدردی کا پوری طرح جواب نہیں دیا۔ اس کے علاقہ کے ایک سرائے والے نے کینن راننرؔ لے سے کہا۔ ’’وہ کچھ اکیلا اکیلا سا آدمی ہے۔ یہ سب شاعری کا کرم ہے۔‘‘ اگر ورڈسورتھؔ اس کے بارے میں اس قدر درناک انداز سے لکھتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ خود اسے بھگت چکا تھا۔ (۴) انسانیت پرست رسکنؔ بھی اتنا ہی تنہا تھا جتنا انسانیت پرستی کو گالیاں دینے والا کارؔلائل۔
میں بتا چکا ہوں کہ گناہ کا نتیجہ تنہائی ہوتا ہے۔ لیکن بیشتر رومانیوں کے باب میں لفظ گناہ مشکل ہی سے صحیح لفظ ثابت ہوگا۔ اس تنہائی میں جس کی ان میں سے اکثرشکایت کیا کرتے ہیں، روحانی جمود کا کافی حصہ ہے۔ لیکن جیسا کہ میں کہیں کہہ چکا ہوں۔ روحانی انفعال کے معنی ہیں اپنے مزاج پر سے پابندیاں ہٹا لینا، اور کسی ایسے مرکز یا اصول کا لحاظ نہ رکھنا جو ان خواہشات پر قابو پاسکے اورآدمی کی اپنی ہستی سے بالاتر ہو۔ علم یا احساسات یاقوت کی ہوس کرنا۔ ایسا شخص جو اپنے مزاج کو آزاد چھوڑدینا چاہتا ہے، اور خالص مادّی سطح کے علاوہ کسی اور سطح پر اپنے تعلقات قائم رکھنا چاہتا ہے، وہ ایسی چیزوں کی خواہش کرتا ہے جو ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتیں۔ کیونکہ مزاج ہی وہ شے ہے جو انسانوں کو جدا کرتی ہے۔ لامحدود ہونے کا احساس (جس سے بقول کارلائل بہت کچھ مراد ہے) اور تنہائی وہ تقریریں جو انفرادیت پرست کو بھگتنی پڑتی ہیں۔ اگر ہم دوسرے انسانوں سے کسی اونچی سطح پر ملنا چاہتے ہیں تو ہمیں مزاج کو پوری طرح آزاد چھوڑ دینے کی بجائے کوئی اور تدبیر عمل میں لانی پڑے گی۔ اور ہمیں مذہبی یا انسانیت پرستانہ اصطلاح کے بموجب اپنے عقائد تبدیل کرنا پڑیں گے۔
ارسطوؔ نے کہا ہے کہ ایک آدمی اپنی مڑی ہوئی چھڑی کو کھینچ کر سیدھا کرسکتا ہے۔ ہمیں بھی اسی طرح اپنے مزاج کواس شخص کی طرح تبدیل کرلینا چاہیے جس کی ہم نقل کر رہے ہیں۔ عام طور پر مزاج پر پابندی قائم کرنے والی چیز، اخلاقی نظام، اور کسی ملک اور زمانے کی روایات ہیں۔ میں اوپر کہیں یہ دکھانے کی کوشش کرچکا ہوں کہ انفرادیت پسند انسان روایات سے چھٹکارا پانا چاہتا ہے اور اپنے مزاج کے لیے کوئی ضابطہ اور اصول بھی بنانا نہیں چاہتا۔ ایسے لوگوں کی منطق یہ ہے کہ کسی ضبط و نظم کو ماننا اور کسی مرکز کو تسلیم کرنا اپنی انفرادیت کو کھودینا ہے۔ لیکن کیا مزاج پر پابندیاں انسان کی ذات کے لیے اتنی خطرناک ہیں؟ اسی کاجواب ’’شخصیت‘‘ کی تعریف پر منحصر ہے چونکہ انسان کی شخصیت کے دو پہلو ہیں۔ جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں، اگر ایک آدمی تنہائی سے بچ نکلنا چاہتا ہے تو اسے اپنی عام شخصیت سے بلندتر کسی مقصد کو اختیار کرنا پڑے گا۔ اور یہی اس کی منفرد شخصیت ہوگی۔ لیکن چونکہ اس کا مقصد اس کی عام شخصیت سے بالا ہے۔ اس لیے یہ لازم نہیں کہ یہ مقصد اس کی پوری شخصیت سے بھی بالا ہو۔ ہوسکتا ہے کہ وہ حدود جو وہ اپنی عام شخصیت پر عاید کرتا ہے، اس کی اخلاقی شخصیت کو حاصل کرنے کے لیے لازمی ہوں۔ اور اخلاقی شخصیت ایک ایسی شخصیت ہے جو اس کے اور دیگر آدمیوں کے درمیان مشترک ہے۔
ارسطوؔ کہتا ہے کہ اگر کوئی شخص مسرت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنا عاشق صادق ہونا چاہیے۔ اور یہ کہنے کی کوئی ضرورت ہی باقی نہیں رہ جاتی کہ اس کا مطلب اخلاقی شخصیت سے ہے۔ ابسنؔ پر ایک جدید کتاب کامنصف کہتا ہے کہ ابسنؔ کے پیغام کا خلاصہ یہ لائن ہے۔
’’سب سے بڑھ کر یہ کہ۔۔۔ تو اپنی خودی کے ساتھ وفادار رہے۔‘‘
یہ بہت ہی صاف سی بات ہے کہ پولونیسؔ ابسنؔ کا پیش رو نہیں ہے۔ بلکہ ایک انحطاط پذیر ارسطاطالیسی ہے۔ وہ شخصیت جو ارسطاطالیسؔ کا منتہا ہے، اس ذات سے قطعاً مختلف ہے جس کے اظہار کے لیے ابسنؔ اوردوسرے منفرد ذہین لوگ بیتاب ہیں۔ اپنے مزاج پر اپنی انسانی شخصیت کی پابندیاں عائد کرنا ارسطوؔ کے خیال میں عمل کے مترادف ہے۔ ارسطوؔ مسرت کو مجہول کیفیت نہیں بلکہ عمل تصور کرتا ہے۔
برخلاف اس کے انسانی نقطۂ نظر سے ہر قسم کے مزاج پرست مجہول ہیں۔ وہ مسرت جس کی انہیں تمنا ہے انفعالی مسرت ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ایک شخص نپولینؔ کی سی توانائی لے کر قوت کا تعاقب کرے اور پھر بھی اخلاقی طور پر مجہول رہے۔ وہ سب علوم گھول کر پی جائے اور پھر بھی اخلاقاً مجہول رہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے رشلرؔ کی طرح وہ اپنی ہمدردیوں کا دائرہ اتنا وسیع کردے کہ ساری دنیا کا بوسہ لینے پر تیار ہو لیکن اخلاقی اعتبار سے مجہول ہی رہے۔
اخلاقی مجہولیت تبھی ختم ہوتی ہے جب ارسطوؔ کے خیال کے مطابق آدمی عمل شروع کردے۔ یعنی جب وہ خواہشات اورمزاج پر قابو پانا شروع کردے۔ یہ قابو جتنا بڑھے گا اتنا ہی اخلاقی اعتبار سے آدمی بہتر ہوگا۔ روسوؔ کو روح کے دو پہلوؤں سے انکار تھا۔ اس لیے اس کے نزدیک اس اندرونی عمل کا بھی وجود نہیں ہے۔ اور اس لیے داخلیت موضوعیت کی ہم معنی ٹھیری۔ لیکن داخلی ہونا روسوؔ کے فلسفے کی رو سے انتشار پسند ہونا ہے۔ بے مقصد و بے مرکز ہونا۔ خواب کو خیال کے ناپیدا کنار سمندر میں چھوڑ دینا۔
افادی اس جگہ مداخلت کرتا ہے۔ اور رومان پرست سے کہتا ہے کہ جب وہ داخلی اعتبار سے کام نہیں کرتاتو خارجی طور پر ہی کچھ کرے۔ اخلاقی صلاحیت کی مسرت کھودینے کے بعد اس طرح وہ مادی صلاحیت کی مسرت ہی حاصل کرے۔ اور دنیا کی خدمت کرے۔ یہ ہے مسئلہ مسرت کا وہ حل جو گیٹےؔ فاؤسٹ کے دوسرے حصے کے اختتام پر پیش کرتا ہے۔ اور ہم بغیر کسی جھجک کے یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ عمل جعلی ہے۔ افادی اعتبار سے خارجی طور پر عمل کرنا، بغیر اس داخلی عمل کے جو اخلاقی مزاجیت سے بچانے کاواحد ذریعہ ہے، قوت کی ہوس کو جو سب سے بڑی ہوس ہے دبانانہیں اکسانا ہے۔ گیٹےؔ کے نزدیک فاؤسٹ کے افادی عمل کی تکمیل یہ ہوگی کہ اسے خدمت خلق میں لطف آئے۔ اوربغیر کسی انتخاب کے ہر ایک سے ہمدردی کرے۔ لیکن صرف اس چیز سے قوت کی ہوس نہیں مٹ سکتی۔ ورنہ ہمیں روسوؔ کے ساتھ یہ ماننا پڑے گا کہ ہمیشہ وسیع ہونے والی خواہشات کوایک دوسرے کے خلاف رکھ کر قابو میں لایا جاسکتا ہے۔
اس طرح ایک خوفناک خطرہ تمام جدید ذہنی رجحان میں چھپاہوا ملتا ہے۔ یہ رجحان صرف ایک خوفناک میکانی صلاحیت پیدا کرتا ہے اور ایسے آدمیوں کو مادی اعتبار سے قریب تر لارہا ہے، جو اخلاقی اعتبار سے مرکز گریز ہیں۔ انسانیت نواز اور دوسری ان تمام تحریکات کے ناکامیاب ہونے کا سبب جو پچھلی صدی میں وجود میں آئیں۔ یہ ہے کہ یہ روایتی تحریکوں کی طرح وسعت پسندی کو روکنے کی کوشش نہیں کرتیں۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ وہ ’’تبدیلی عقائد‘‘ پر زور نہیں دیتیں۔ اور پس یہ کوئی تعجب کامقام نہیں اگر اس دور کی افسردگی کا امتیازی نشان احساس خلاء لا محدودیت اور تنہائی ہوں۔
رینےؔ اپنی ’’اخلاقی تنہائی‘‘ کی شکایت کرتا ہے۔ لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو اس کی تنہائی اخلاقی نہیں ہے۔ محض اپنی انسانی شخصیت کو ترقی دینے سے اور اسی سلسلے میں انتھک کوشش کرتے رہنے سے تنہائی کے مرض سے نجات مل سکتی ہے اور کسی حد تک مسرت کا حصول ممکن ہے۔ لیکن وہ مسرت جس کا خواب رینےؔ دیکھتا ہے غیراخلاقی ہے۔ ذاتی، شخصی اور خودغرضانہ۔ رینے سے بادپلیر تک اور بعد کے انحطاطیوں تک سلسلہ قائم کرنے سے زیادہ آسان کوئی کام نہیں ہے۔ مثلاً او۔ ایؔ ماں کے ناول ’’آربور‘‘ کا ہیرو۔ دے۔ اے سینٹ جو اس تحریک کے آخری زمانے کی مبالغہ آرائیوں کا نمونہ ہے۔ دے اے سنیت مکمل طور پر دوسرے انسانوں سے علیحدگی اختیار کرلیتا ہے اور اپنے اختراع کی ہوئی مصنوعی جنت میں عجیب اور شدید احساسات کی تلاش میں مشغول ہوجاتا ہے۔ لیکن خود پرستی کی آمیزش کی وجہ سے مسرت کاخواب ڈراؤنا مل جاتا ہے۔(۵) اور اس کے آرٹ کا محل ایک دوزخ بن جاتا ہے۔ Le Maitre یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ دے۔ اے سنیٹ محض ورٹرؔ یا رینےؔ ہی ہے۔ مگر اسے جدید شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ شکستہ اور ٹوٹا ہوا ورٹرؔ جس کے اعصاب کمزور ہیں اور معدہ ناکارہ۔ اور اسی سال سے ادب بد سے بدتر ہوتا چلا گیا ہے۔‘‘
جذباتی رومانیت ابتدا ہی سے دیوانے پن کی طرف بڑھ رہی تھی۔ کیونکہ اخلاقی کوشش کا بدل محض جذبات اورمزاج کے دھارے پر سستی سے بہتے رہنے کو قرار دیا۔ میں بتاچکا ہوں کہ اس اخلاقی مجہولیت کو بدھ مت نے تمام برائیوں کی جڑ بتایا ہے۔ اپنے عروج کے زمانے میں عیسائیت نے بھی اس مسئلہ پر توجہ دی تھی۔ اس نکتہ کی وضاحت کے لیے یہ ضروری ہے کہ جہاں میں نے کلاسیکی اوررومانی افسردگی کے متعلق کہا، وہاں زمانۂ وسطیٰ کی افسردگی پر بھی کچھ کہوں۔ شاتو بریاں نے اپنی کتاب ’’عیسائیت کی روح‘‘ کے ایک مشہور باب میں اپنے زمانے کی اس بیماری کا ماخذ عیسائیت اور زمانہ وسطیٰ کو قرار دیا ہے۔ اس بہانے اس نے اس کتاب میں جو عیسائیت کااعتذار ہے رینےؔ کو داخل کردیا۔ اور اس طرح بقول سنیت بیود کے مقدس روٹی میں اس نے زہر ملاکر دیا ہے۔ شاتوؔ بریاں کہتا ہے کہ زمانۂ جدید کا آدمی اس لیے افسردہ ہے کہ وہ تلخ تجربات سے نہیں گزرا۔ لیکن اس نے ایک زیادہ ترقی یافتہ تہذیب کی کتابوں میں ان تجربات کا حال پڑھا ہے۔ اوروہاں تجربات کے بوجھ سے دب گیا ہے۔ اور اس وجہ سے وہ قبل از وقت ناامیدی کا شکار ہوگیا ہے۔ اور زندگی سے لطف اٹھائے بغیر ہی اس میں زندگی کو ختم کرچکنے کا احساس بیدار ہوجاتا ہے۔ اس ناامیدی سے عیسائیت کاکوئی خاص واسطہ نہیں۔ زمانۂ وسطیٰ کا تو بالکل بھی نہیں۔ شاتوؔبریاں آگے چل کر کہتا ہے کہ مظاہر پرست دنیا (یونان و روم) کے زوال سے اور وحشیوں کے حملے سے انسان کی روح میں اداسی اور مردم بیزاری ایسی بیٹھی ہے کہ نکلتی نہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے اس طرح زخم کھایا تھا او ر اپنے ساتھیوں سے الگ ہوئے تھے، پہلے خانقاہوں میں پناہ گزیں ہوئے۔ لیکن جب یہ ذریعہ انہیں تسکین نہیں دیتا، اب وہ دنیا میں رہتے ہیں لیکن وہ اس سے تعلق محسوس نہیں کرتے۔ اورہزاروں اوہام کے شکار ہوجاتے ہیں۔ یہیں سے اس مجرم افسردگی کی ابتدا ہوتی نظر آتی ہے جسے بے مقصد احساسات جنم دیتے ہیں۔ وہ ایک خالی دل میں اپنا ہی شکا رکرتے ہیں۔ (باقی آئیندہ)
حاشیے:
(۰) یہ اجتماع ضدین چسٹرٹن سے پہلے وارڈ سورتھ کے یہاں بھی ملتا ہے۔ ’’جوانی میں ہم اندھیرے میدان پسند کرتے ہیں۔ جہاں الوؤں کے بسیرے ہیں۔ شام کو صبح صادق سے بہتر سمجھتے ہیں۔ اور خزاں کو بہارسے۔ توہمات سے ہم عموماً اتنے خوش ہوتے ہیں اور ہماری خوشی اتنی حد سے برھ جاتی ہے کہ ان سے تھک کرہم غمناک تصورات میں لذت لینے لگتے ہیں۔‘‘
(۱) تنہائی کے متعلق منوشاستر میں ایک بہت قابل ذکر ٹکڑا ملتا ہے۔ ایک آدمی تنہاہی پیدا ہوتا ہے اور تنہا ہی مرتا ہے۔ اس کے رشتہ دار اسے قبرتک لاکر چھوڑ دیتے ہیں اس کے بعد اس کی اکیلی امید صرف دھرم ہی ہے۔ دھرم کی مدد سے وہ اس تاریکی کو عبور کرلیتا ہے۔ جسے پار کرنا نہایت مشکل ہے۔‘‘
(۲) مارک ٹوئینؔ نے کہا ہے۔ ’’اگر تم نیک ہو تو تنہا رہوگے۔‘‘
(۳) جوہر قابل کی تنہائی کا احساس بلیکؔ میں بھی پایا جاتا ہے۔ ’’خدا نے مجھے مختلف چہرہ کیوں دیا۔ میں دوسرے انسانوں کی طرح کیوں نہ ہوا۔ جب میں کسی کو دیکھتا ہوں تو وہ چونک پڑتا ہے۔ جب میں بولتاہوں تو دوسروں کوناگوار ہوتا ہے۔ پھر میں خاموش اور مجہول ہوجاتاہوں۔ اور میرا کوئی دوست نہیں رہتا۔‘‘
(۴) انگریزی میں تنہائی کے متعلق ورڈ سورتھؔ کی ان لائنوں سے بہتر شعر نہیں مل سکتے۔ اس نے بیان کیا ہے کہ اس کے کمرے میں سے نیوٹنؔ کا مجسمہ نظر آتا تھا۔ جس کا ’’چہرہ خاموش تھا۔ یہ مجسمہ ایک ایسے دماغ کی علامت تھا جو خیالات کے عجیب و غریب سمندر میں اکیلے سفر کر رہا ہو۔‘‘ اسی طرح ملٹنؔ کے متعلق سانٹ میں لکھتا ہے۔ ’’اس کی روح ایک ستارے کی طرح تھی۔ اور الگ تھلگ۔‘‘
(۵) جیمسؔ ٹامسن اپنی ایک نظم میں کہتا ہے کہ وہ بڑی خوشی سے جہنم میں داخل ہوگا۔ کیونکہ ’’ناقابل برداشت بے حسی کی بجائے اسے وہاں تکلیف کی ابدی جنت مل جائے گی۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.