ساقی کا پہلا اداریہ (۱۹۳۰ء)
بنامِ شاہد نازک خیالاں
عزیزِ خاطر آشفتہ حالاں
اردو کو بہت پرانی زبان ہونے کا دعویٰ نہیں، مگر اس تھوڑی سی عمر میں اس نے اتنا عروج حاصل کیا اور اس قدر مقبول ہوئی کہ اس کی مثال السنۂ عالم میں نہیں ملتی۔ اس کا اقبال و رواج فی الحقیقت قابل رشک ہے۔ ہمارے ملک کی اور زبانوں کو اگر اس پر رشک آئے تو بجا مگر وہ اس سے ہم سری کا دعویٰ نہیں کر سکتیں۔ جو حلاوت اور عذوبیت اور شیرینی اردو زبان میں ہے کسی زبان میں موجود نہیں۔
یہ پودا ہے جس کو بادشاہوں نے اپنے خونِ جگر سے سینچا۔ امرا نےاس کی نشوونما کی اور ہندوستان کے مایہ ناز اہل قلم نے اپنے رشحات قلم سے اس کی آبیاری کی اور اب ہم یہ دیکھ کر خوش ہیں کہ وہ پودا جس نے کہ بادہائے مخالف کے سیکڑوں تھپیڑے سہے اور زمانے کے گرم وسرد کی لاکھوں خزائیں جھیلیں، آج ایک خوشنما درخت بن گیا ہے جس کے سایہ میں ہم بیٹھتے ہیں۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ اس کی بالیدگی کا حتی الامکان خیال رکھیں اور جہاں تک ہم سے ہو سکے اس کو زمانے کے مضر اثرات سے بچائیں۔ اردو ہماری زبان ہے اس لیے اس کی حفاظت ہمارے سب کاموں پر مقدم ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ اس کے ظل بابرکت کو اور وسعت دیں، یہاں تک کہ اگر ایک عالم پر نہیں تو کم از کم ہندوستان ہی پر چھا جائے۔
زبان اردو کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے واضح ہو جائےگا کہ ہماری زبان اب تک ترقی کرتی رہی اور اب بھی شاہراہ ترقی پر گامزن ہے۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اب نہ تو دہلی کی خاک سے غالبؔ و ذوقؔ پیدا ہوتے ہیں اور نہ لکھنؤ کی ارض مینو سواد سے آتشؔ و ناسخؔ۔ مگر صرف ایک صدی پیشتر کی اردو کا مطالعہ کیجئے اور اس کا مقابلہ آج کی زبان سے کیجئے۔ ملک میں نہ یہ زبان تھی اور نہ یہ کتابیں جو کہ آج ہمیں میسر آ رہی ہیں۔ تاریخ، جغرافیہ، ہیئت، نجوم، فلسفہ، مذہب غرض تمام معقول ومنقول علوم کی کتب ہمیں بافراط بہ آسانی ملتی ہیں اور ان کی تعداد میں روز بروز نمایاں اضافہ ہو رہا ہے اور وہ زمانہ دور نہیں جبکہ ہم اپنی زبان کو ایک علمی زبان بھی کہہ سکیں گے۔
زمانہ حال ترقی کا زمانہ ہے۔ ہمارے خیالات بہ نسبت گزشتہ نسلوں کے زیادہ وسیع اور زیادہ کشادہ ہیں۔ خیالات کے اظہار کے لیے ضروری ہے کہ زبان ہو اور زبان بھی وہی جس میں ہمارے خیالات بہ آسانی منتقل ہو سکیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہماری زبان میں اور زبانوں کے خیالات کس قدر منتقل کئے جا رہے ہیں۔ زبان اردو کی مثال ایک بچہ کی سی ہے کہ پہلے رینگتا ہے، پھر گھٹنوں چلتا ہے، پھر اپنے پیروں پر کھڑا ہوکر چلتا ہے اور پھر دوڑنے لگتا ہے، اسی طرح ہماری زبان نے بھی بتدریج ترقی کی ہے اور اپنے ابتدائی مراحل طے کرنے کے بعد اب تیزی کے ساتھ قدم اٹھا رہی ہے۔
ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ ان لوگوں کا دعویٰ قطعی باطل ہے جو کہتے ہیں کہ، ’’ہمارا زمانہ اردو زبان کا دورِ انحطاط ہے۔‘‘ اردو ترقی کر رہی ہے اور جوں جوں اردو بولنے والی نسلیں ترقی کرتی جائیں گی اور جیسے جیسے یہ نسلیں متمدن نسلوں میں شمار ہونے لگیں گی، ان کی زبان بھی ایک علمی زبان شمار کی جائےگی۔ اردو زبان ایک علمی زبان بن چلی ہے اور ایک نہ ایک دن کامل علمی زبان بن کر رہےگی۔
’’تمام ہندوستان کے لوگ جو اردو بولتے ہیں اہل زبان اور تمام ہندوستان کے وہ لوگ جو اردو کی خدمت کرتے ہیں، زبان دان ہیں۔ لیکن ان سب کا سرچشمہ دہلی اور لکھنؤ ہے۔ گویا دہلی اور لکھنؤ ایک ایسا کالج ہے جہاں سے زبان کی سند ملتی ہے۔ ان میں اولیت کا تاج دہلی کے سر ہے۔‘‘ (خواجہ عبدالرؤف لکھنوی) مگر ہمیں یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ اہل دہلی اپنے موروثی وقار کو دن بہ دن کھوتے جاتے ہیں، جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کے اہل قلم حضرات کو مکروہاتِ دنیا نے کچھ ایسا گھیرا ہے کہ وہ یا تو قلم ہی چھوڑ بیٹھے ہیں اور یا کوئی اچھا ذریعہ نہ ہونے کی وجہ سے خاموش ہیں۔
لکھنؤ میں زبان کا چرچہ ہے۔ کتنی ہی انجمنیں ہیں جو کہ تحفظِ ادب کے لئے قائم کی گئی ہیں۔ شعروسخن کی گرم بازاری ہے۔ آئے دن مشاعرے ہوتے رہتے ہیں۔ مباحثے ہوتے ہیں اور زبان کی ترقی کے لئے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے اور اہل لکھنؤ کو اپنے ارادوں میں خاطر خواہ کامیابی بھی ہو رہی ہے۔ دہلی میں اہل قلم کا کال نہیں اور وہ لوگ بڑی غلطی پر ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ دہلی اب برائے نام رہ گئی ہے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ ہمارے ہاں زبان کا بہت کم چرچہ ہے۔ ایک انجمن بھی ایسی نظر نہیں آتی جس کا مقصد زبان اردو کی ترقی ہو۔ شعروسخن کا بازار بھی سرد ہے۔ کبھی برس دو برس میں سن لیتے ہیں کہ فلاں جگہ محفل شعراء قائم ہوئی ہے۔ ان خامیوں کی وجہ سے تبادلۂ خیالات تو مطلق ہوتا ہی نہیں اور چونکہ زبان کی ترقی کی کوشش نہیں کی جاتی، اس لئے اہل دہلی کی ٹکسالی زبان بھی کس مپرسی کی حالت میں پڑی ہوئی ہے۔ ہمارے حوصلے پست ہو گئے ہیں اور باہر والے ہم کو ایک اجڑی ہوئی محفل سمجھتے ہیں۔
یہاں ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ اس زبان میں دہلی کا کوئی قصور نہیں بلکہ یہ اہل دہلی کی انتہائی بدمذاقی ہے کہ وہ اس قدر بےالتفاتی برت رہے ہیں۔ دہلی اب بھی وہی بائیس خواجاؤں کی چوکھٹ ہے جو پہلے تھی اور یہ ان ہی بزرگان دین کی برکت ہے جو یہاں کی خاک میں آسودہ ہیں کہ آج باوجود ہماری کم توجہی اور بے اعتنائی کے دہلی کی فصاحت و بلاغت وعظمت زبان کا نام اب بھی زباں زدِ خلائق ہے اور ایک عالم میں دہلی کی ٹکسالی زبان کا سکہ جاری ہے،
ثبت است بر جریدۂ عالم دوامِ ما
اور جب کوئی مسئلہ زبان دریافت کرنا ہوتا ہے تو دہلی یا لکھنؤ کے اساتذہ سے رجوع کیا جاتا ہے۔ ہمیں آج بھی وہی فخر حاصل ہے جو کہ نصف صدی پیشتر تھا یعنی،
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
ہندوستان میں دھوم ہماری زباں کی ہے
قاعدہ ہے کہ ہر چیز کی ترقی کے لیے ایک تو جد و جہد ضروری ہے اور دوسرے اس کی قدردانی۔ ہمارے ہاں زبان کی جد و جہد کچھ رہی سہی باقی بھی ہے مگر قدر دانی بالکل ہی مفقود ہے۔ پنجاب نے زبان اردو کی ترقی کے لئے جدوجہد بھی کی اور قدردانی بھی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آج ترقی اردو کا سہرا پنجاب ہی کے سر ہے۔ دکن میں قدر دانی پہلے ہوئی اور جدوجہد بعد میں۔ ہند کے مشہور اہل قلم کی قدر دانی دکن ہی میں ہوئی اور چونکہ علم دوست اصحاب کی قدر دانی و پرورش اب بھی وہاں ہوتی ہے، اس لئے اچھے لکھنے والوں کی بڑی تعداد دکن میں ہے۔ اردو کا چرچہ دکن میں سب سے زیادہ ہے، اس لئے وہاں کا ہر شخص مذاق صحیح رکھتا ہے،
ہر کجا چشمۂ بود شیریں
مردم و ملخ و مور گرد آئند
بہ لحاظِ خدمت و ترقی اردو لکھنؤ دہلی سے بڑھا ہوا ہے اور لکھنؤ کو بڑھا ہوا رہنا بھی چاہئے تھا کیونکہ لکھنؤ کے اہل قلم میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جن کے آباؤ اجداد دہلی کے تھے اور دہلی کے اجڑنے پر لکھنؤ چلے گئے تھے۔ دہلی کے پیچھے رہ جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں اچھے لکھنے والےکچھ دکن چلے گئے اور کچھ لکھنؤ۔ کیونکہ انہی دو مقاموں میں ان کی پرورش ہوئی اور دہلی ان کے چلے جانے سے تقریباً خالی رہ گئی۔ باوجود اس قدر ادبی نقصان کے خدا کا شکر ہے کہ دہلی اب بھی اردو کا مرکز ہے اور بہ آواز بلند کہتی ہے،
نسیم دہلوی ہم مخزنِ بابِ فصاحت ہیں
کوئی اردو کو کیا سمجھے کہ جیسا ہم سمجھتے ہیں
کسی زبان کو ترقی دینے کے لیے رسالوں کا جاری کرنا بھی ایک عمدہ طریقہ ہے۔ اس میں جہاں جد و جہد ضروری ہے، وہاں قدر دانی بھی لازمی ہے۔ ملک کے گوشہ گوشہ سے جرائد و رسائل جاری ہیں۔ نیویارک کی آبادی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ہر منٹ ایک پچہ پیدا ہوتا ہے اور ہر منٹ ایک موت ہوتی ہے۔ کم وبیش یہی ہمارے کے رسالوں اور اخباروں کے بارے میں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر روز ایک اخبار یا رسالہ جاری ہوتا ہے اور ہر روز ایک بند ہو جاتا ہے۔
کسی اخبار یا رسالہ کا جاری رہنا یا بند ہو جانا اس کے حسن و قبح پر موقوف ہے۔ یہاں ’’حسن و قبح‘‘ کی تصریح و تشریح کر دینی مناسب ہے۔ حسن وہ جو کہ اردو بولنے والے افراد کے بڑے حصے کی نظروں میں حسن ہے۔ قبح بھی علیٰ ہذا القیاس۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں کے ادبی مذاق کا معیار اس قدر گرا ہوا ہے کہ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے العصر، ادیب، نقاد جیسے پایہ کے پرچے صفحۂ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹ گئے اور جو بقید حیات ہیں ان کی قلیل اشاعت کا رونا سنتے سنتے ہمارے کان پک گئے۔
پرانے رسالوں کی بے قدری میں نیا رسالہ نکالنا عالم صحافت کی ترقی کے عجیب سامانوں میں ہے۔ برے پرچے ہی اچھے پرچے کے محرک ہوتے ہیں اور جب اچھا پرچہ نکل آتا ہے تو برے پرچے داغِ مفارقت دے جاتے ہیں۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ چاند کے چڑھتے ہی ستارے ماند پڑ جاتے ہیں۔ اس کشمکش باہمی میں میدان اسی کے ہاتھ رہتا ہے جو کہ ہر طرح اس کے لائق ہوتا ہے یا یوں کہیے کہ جو مذاق عامہ کے موافق ہوتا ہے وہی بازی لے جاتا ہے۔
دہلی کے کئی رسالے جاری ہیں، جن میں اچھے بھی ہیں اور برے بھی۔ ان کی میں مزید وضاحت کرنا نہیں چاہتا کیونکہ علم دوست اصحاب سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں ہے کہ ان میں سے کون سا اچھا ہے اور کون سا برا۔ ہاں اتنا ضرور کہیں گے کہ یہاں کا اچھا اور پنجاب کا یا لکھنؤ کا اوسط درجہ کا پرچہ برابر ہے اور اسی سے ہماری بے التفاتی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ دہلی کی اس بدمذاقی اور اس شدید کمی کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہوا کہ ایک علمی و ادبی رسالہ مناسب حالات و ضروریاتِ وقت کے نکالا جائے، جو اگر باہر کے پرچوں سے بیس نہیں تو انیس بھی نہیں رہے اور دہلی کے ان اچھے لکھنے والوں کے مضامین اس میں شائع ہوں جو کہ ایک اچھا ذریعہ نہ ہونے کی وجہ سے خاموش ہیں۔ چنانچہ ساقی کو اس خدمت کی انجام دہی کے لیے پیش کیا جاتا ہے کہ مےگساران سخن کی کیف اندوزی کے لیے نظم ونثر کے جرعہ ہائے لطیف فراہم کرتا رہے۔
ایں نامہ کہ بود نطع ایں فرش
من می برمش بہ کنگرۂ عرش
ایں لعل کہ داشت پائے در گل
من می نہمش بہ کرسی دل
ایں جرعہ کہ ریختند بر خاک
من می کشمش بجام افلاک
ہم اپنی بے بضاعتی کے باوجود اپنی ناچیز علمیت کے موافق زبان اردو کی خدمت کرنے کے لیے کمربستہ ہیں۔ ہمارا نصب العین یہ ہے کہ ساقی ایک ایسا جامع ہو کہ ہر شخص اس کے مطالعہ سے محظوظ ہو۔
کلیہ ہے کہ کمال کا حال ایک ہی دفعہ معلوم نہیں ہو سکتا۔ اس پرچہ میں بھی ہماری مرضی کے موافق ساری خوبیاں جمع نہ ہو سکیں۔ اچھے لکھنے والے اس بات کے منتظر ہیں کہ پہلے پرچے کو دیکھ لیں تب لکھیں۔ ہمیں بھی منظور ہوا کہ پرچہ کا معیار دیکھ کر لکھیں۔ غرض پہلے پرچہ میں یہ ضد نہیں کی گئی کہ ساری خوبیاں ختم کر دی جائیں۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ ساقی کے میکش اس کی پہلی کوشش سے اس کے غایت اہتمام کا قیاس نہ کر لیں۔ اس کی خوبیاں آئندہ معلوم ہوتی جائیں گی۔ اس وقت مشتے از خروارے آٖپ کے روبرو ہے۔ ہماری طرف سے تو یہ اقرار ہے کہ جس قدر اس پرچہ کی قدر کی جائےگی، اسی قدر اس کی خوبیاں بڑھتی جائیںگی۔ اب انتظار ہے تو آپ کے اظہار کرم کا۔
از جوش و خرد خود چہ گویم
ایں بادہ توئی و من سبویم
اب جو لوگ اپنی زبان کا حق سمجھتے ہیں، ساقی کی ترقی سے غافل نہ رہیں۔ تمام ضروری کاموں پر اس کی ترقی کو مقدم سمجھیں، کیونکہ ساقی کی ترقی زبانِ اردو کی ترقی ہے اور زبان اردو کی ترقی آپ پر فرض ہے۔
’’ساقی‘‘ میں صرف وہی مضامین درج کیے جائیں گے جو کہ معیار ادب پر پورے اتریں گے، اس لیے اگر کسی صاحب کا مضمون شائع نہ ہو سکے تو اس سے وہ پست ہمت نہ ہوں بلکہ کوشش کریں کہ آئندہ اس سے بہتر مضمون لکھیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ ایک طالب علم امتحان میں ناکامیاب رہتا ہے اور امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے دوبارہ محنت کرتا ہے اور چونکہ وہ زیادہ محنت کرتا ہے اس لیے کامیاب ہو جاتا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.