۴۰ سال سے اوپر کا عرصہ ہوگیا ہے جب کہ مولوی عبدالحق صاحب سے میری ملاقات ہوئی تھی او ریہ ملاقات ایسی ہوئی کہ ان سے میری تمام زندگی کے لیے تعلق بن گیا۔ مجھے جن مہان(۱) ہستیوں کو قریب سے دیکھنے اورملنے جلنے کا موقع ملا ہے اور جن کی یاد میرے دل میں ہمیشہ تازہ رہتی ہے ان میں سے مولوی صاحب ایک ہیں۔ ان کے متعلق جب باتیں چھڑ جاتی ہیں تو گھنٹوں گزر جاتے ہیں لیکن ان کی باتیں ختم نہیں ہوتیں۔ ان کی یادمیں کچھایسا لطف اور تازگی ہے اور ان کی شخصیت میں کچھ ایسی خصوصیت ہے کہ ان کی مورتی ہمیشہ میری آنکھوں کے سامنے جھولتی رہتی ہے۔ ان کی آنکھوں میں گہرائی سے دیکھنے کی کچھ ایسی قوت ہے کہ ان کے کسی راز کو چھپا سکنا مشکل ہے۔ ایک طرف تو وہ فطرتاً بہت ہی سنجیدہ ہیں۔ ان جیسے دل کھول کر ہنسنے والے لوگ میں نے بہت کم دیکھے ہیں۔ جو آدمی انسانی کمزوریوں کی گہرائی سے واقف ہوتا ہے اس میں انسان کے لیے گہری ہمدردی پیدا ہوجاتی ہے۔ باوجود ان کے ہنس مکھ پن کے ان میں انسان کے لیے گہری ہمدردی ہے وہ کسی طرح کا کوئی دعویٰ نہیں کرتے۔ وہ اکثر مولانا حالی کے اس شعر کو سنایا کرتے تھے،
دوست میرا منہ نہ دیکھے گر اسے معلوم ہو!
اس سے کیا کہتا رہا، اور آپ کیا کرتا رہا
ان کی شخصیت کی سب سے بڑی خصوصیت جو مجھے محسوس ہوئی وہ یہ ہے کہ ان میں کسی طرح کاتصنع یا بناوٹ نہیں ہے۔ میں نے دیکھا انہیں سب سے زیادہ چڑ اگر کسی چیز سے ہے تو وہ بناوٹ یا تصنع سے ہے۔ وہ بناوٹ یا نقلی پن کو برداشت نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں ہر طرح کی سادگی ہے، وہ سادگی جو کہ حقیقی انسان کی زندگی کی شان ہے اور اس کاسچاجوہر ہوتی ہے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ انسان بہت جلدی بننے لگ جاتا ہے اور اپنے آپ کو دوسروں کے سامنے بناکر پیش کرنے میں خوشی محسوس کرتا ہے۔
حیدرآباد میں وہ سیف آباد کے ایک بڑے بنگلے میں رہتے تھے۔ اس بنگلے میں مجھے ان کا مہمان بننے کی کئی بار عزت حاصل ہوئی تھی۔ ان کی مہمان نوازی، طرح طرح کی تکلف کی چیزوں کو کھلانے پلانے کے شوق کا تو وہی شخص کچھ اندازہ کر سکتا ہے، جس کو کبھی ان کے مہمان بننے کا موقع ملا ہے۔ میں جب کبھی اس بنگلے کے پاس سے گزرتا ہوں اس بنگلے کی طرف ٹھہر ٹھہر کر دیکھتا ہوں اور نہ جانے کتنی بھولی ہوئی یادیں میرے دل کے آسمان پر منڈلانے لگتی ہیں۔ اکثر صبح کو جب کبھی حیدرآباد کے کٹے پر ٹہلنے کے لیے چلا جاتا ہوں تو مجھے ایسا محسوس معلوم ہوتا ہے کہ جیسے میں انہیں وہاں ٹہلتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ کٹے پر اکثر صبح اتنی باقاعدگی سے کوئی صاحب ٹہلنے نہیں آتے ہوں گے جتنی باقاعدگی سے بابائے اردو یہاں ٹہلنے کے لیے آیاکرتے تھے۔ گرمی ہو، سردی ہو، برسات ہو، آندھی ہو، طوفان ہو، ان کے صبح کے ٹہلنے میں کبھی فرق نہ آیا۔
آرٹ اور شاعری کو صحیح طور سے سمجھنااور اس کی تعریف اور قدر کرناہر ایک آدمی کاکام نہیں ہے، چاہے وہ کتنا ہی زیادہ قابل اور پڑھا لکھا کیوں نہ ہو، اپنی جھوٹی تعریف تو سبھی کرتے ہیں۔ لیکن دوسروں کی سچی تعریف مشکل سے ہوتی ہے۔ س کے لیے ایک خاص قسم کا ذوق اور آنکھ چاہیے۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ زورشور کی واہ واہی آرٹ یا شاعری کی سب سے بڑی تعریف اور قدر ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے ملک میں آرٹ یا شاعری کے سچے قدرداں بہت کم ہیں۔ ڈاکٹر عبدالحق میں آرٹ کی سچی قدردانی تھی وہ جس شاعر یا کلاکار کو پسند کرتے تھے اس سے بے حد محبت کرنے لگ جاتے تھے اور اس کی زندگی کو بنانے کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہوجاتے تھے اور سب کچھ کرنے کے بعد بھی یہی کہتے تھے کہ میں ان کے لیے کچھ نہ کرسکا۔ مجھے اپنی ہندی کی نظموں کے لیے جو تعریف اور قدر بابائے اردو سے ملی وہ ہندی کے بڑے بڑے ادیبوں سے بھی نہیں ملی۔ نہ جانے کتنے طالب علموں کی انہوں نے اپنے پاس سے مدد کی اور وہ یہ مدد اتنی خاموشی سے کرتے تھے کہ اسے اپنے سے بھی چھپانے کی کوشش کرتے تھے۔
وہ شاعر یا ادیب بڑا خوش نصیب ہے جسے بابائے اردو جیسا قدرداں ملا ہو۔ میں ایسے بہت سے ادیبوں، شاعروں اور کلاکاروں کو جانتا ہوں جو پھٹے حال تھے، جن کا پوچھنے والا کوئی نہ تھا اور جن کی مدد کرنے میں انہوں نے اپنی طرف سے کچھ نہ اٹھا رکھا۔ میں بہت سے اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کے ماسٹروں، لیکچراروں اور پروفیسروں کو جانتاہوں، بہت سے ڈاکٹروں اور عہدیداروں کو جانتا ہوں جو آج مشہور ہیں، لیکن اگر انہیں ڈاکٹر عبدالحق کی مدد نہ ملتی تو انہیں یہ رتبہ اور عزت کبھی نصیب نہ ہوتی جو کہ انہیں آج حاصل ہے۔
میں اس سلسلہ میں ایک واقعہ کا ذکر کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میں کوئٹہ کے زلزلے میں زخمی ہوگیا تھا۔ مجھے جب اورنگ زیب آباد کے ریلوے اسٹیشن پر اسٹریچر پر اتارا گیا تو میں نے دیکھا کہ ریلوے اسٹیشن پر مولانا عبدالحق صاحب مجھے دیکھنے کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ وہ روز مجھے دیکھنے کے لیے آیا کرتے تھے۔ میں زخمی تھا، زلزلے کے ملبے میں میں ۹، ۱۰ گھنٹے دبا پڑا رہا تھا۔ ایسا زخمی ہوگیا تھا کہ اٹھ نہیں سکتا تھا۔ لیٹا رہتا تھا۔ ایک دن مولانا عبدالحق صاحب آئے، میں آنکھیں بند کیے پڑا تھا۔ انہوں نے چپ چاپ میرے کرتے کی جیب میں آہستہ سے ۲۰۰ روپے کے نوٹ ڈال دیے۔ میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے پوچھا،
’’مولانا صاحب، یہ کیا ہے؟‘‘
جواب میں بڑی عاجزی سے گھبراکر کہنے لگے،
’’پنڈت جی۔ یہ کچھ نہیں ہے۔ یہ بھی کوئی چیز ہے۔ آپ اس کا خیال مت کیجیے۔ میں تو آپ کی زندگی چاہتا ہوں۔‘‘
انہوں نے یہ الفاظ کچھ اس انداز سے کہے کہ میں انہیں ان روپوں کو واپس کرنے کی ہمت نہ کرسکا۔ مجھے جب بھی اس گھٹنا (۲) کی یاد آتی ہے۔ میری آنکھوں میں احسان مندی کے آنسو چھل چھلا اٹھتے ہیں۔ نہ جانے اس طرح انہوں نے کتنوں کی مدد کی ہوگی۔ ان کی قدردانی اس طرح کی تھی جو کہ قوموں کی زندگی بنادیتی تھی۔ ان کی تعریف لفاظی نہیں تھی، وہ ان کی زندگی کا جز تھی۔
اردو کے ادیبوں کی دنیا کو یہ معلوم ہے کہ ڈاکٹر عبدالحق بڑے اسکالر ہیں، ادیب ہیں، نقاد ہیں اور اونچے درجے کے لیکھک، لیکن یہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ موڈ میں آنے پر کبھی کبھی نظمیں بھی لکھتے ہیں۔ ان کی نظمیں اپنے ہی ڈھنگ کی ہیں۔ ان میں بحر وغیرہ نہیں ہے۔ انہوں نے ایک دفعہ شام کو چرنتا کی پہاڑیوں میں ٹہلتے ہوئے مجھے اپنی ایک نظم سنائی تھی۔ انہوں نے کچھ ایسے ڈھنگ سے پڑھی تھی کہ وہ مجھے ابھی تک یاد رہ گئی ہے۔
سب سے پکاّ
سب سے سچاّ
دوست۔۔۔ کتاب
سب سے بڑا
سب سے کڑا
ہے۔۔۔ زمانہ
وہ کبھی کبھی اردو کے شاعروں کی نظمیں سنایا کرتے تھے۔ میں نے اچھے اچھے شاعروں کے منہ سے ان کی نظمیں سنی ہیں۔ اگرچہ وہ بھی اچھا خاصا پڑھتے تھے لیکن مولوی صاحب کے پڑھنے کا ڈھنگ اور انداز بالکل نیا تھا۔ وہ شعر کو بہت آہستہ اور اس طرح پڑھتے تھے کہ اس کی خوبیاں آسانی سے شعر سننے والے پر نمایاں ہو اٹھتی تھیں۔ وہ جن شعروں کو پڑھتے تھے، ان میں بہت سے شعر مجھے یاد ہیں۔ وہ داغ کا یہ شعر اکثر سنایا کرتے تھے،
ان کے جلوے کے تو کیا کہنے، مگر
دیکھنے والے کو دیکھا چاہیے!
میں مولوی عبدالحق صاحب کے ساتھ کافی لمبے عرصے تک رہا۔ میں اس بیچ میں بہت دفعہ بیمار پڑا۔ لیکن میں نے اس لمبے عرصہ میں انہیں کبھی بیمار یا بستر پر پڑے ہوئے نہیں دیکھا۔ وہ اگر کسی چیز کو اپنے دوستوں سے بھی چھپاتے ہیں تو وہ یہ ہے کہ وہ کسی کو یہ کبھی نہیں بتانا چاہتے کہ انہیں کوئی تکلیف ہے۔ وہ کبھی بیمار نہیں پڑنا چاہتے۔ اگرکوئی کسی عام مرض کی اچھی دوا نہیں بتلادیتا ہے تو وہ اسے خرید کر اپنے پاس رکھ لیتے ہیں لیکن خود کبھی اس کا استعمال نہیں کرتے۔ وہ اس دواکو مریضوں میں بانٹ دیتے ہیں۔ وہ اکثر کہا کرتے ہیں کہ اگر میں کسی بات کو جرم سمجھتا ہوں تو وہ بیمار پڑنا ہے۔ وہ ہنس کر کہتے تھے کہ اگر میں سزا دینا چاہتا ہوں تو ان لوگوں کو جو ہمیشہ بیمار رہتے ہیں۔ انسان کوہمیشہ صحت مند رہناچاہیے۔ وہ خود بھی اور ساری دنیا کی بھی اچھی صحت دیکھنا چاہتے۔ وہ جب کبھی کسی کو اچھی صحت میں دیکھتے ہیں تو انہیں بڑی خوشی ہوتی ہے۔ صحت کو وہ انسان کی سب سے بڑی دولت سمجھتے ہیں۔
بابائے اردو کے ساتھ جن لوگوں کا بھی تعلق رہا ہے وہ ان کے متعلق ایسے ایسے قصے جانتے ہیں جن سے ان کی زندہ دلی، حاضر جوابی اور ذہین طبیعت کا پتہ چلتا ہے۔ ان سے ان کی شخصیت پر بھی گہری روشنی پڑتی ہے۔ میں جب عثمانیہ یونیورسٹی میں آیا، اس وقت یونیورسٹی کے وائس چانسلر عالی جناب قاضی محمد حسین تھے۔ ایک دفعہ کی بات ہے کہ قاضی محمد حسین صاحب نے بابائے اردو کو اپنے گھر میں خود دعوت دی۔ کھانا کھانے کے بعد باتیں ہونے لگیں۔ قاضی محمد حسین صاحب باتوں باتوں میں کہنے لگے،
’’مولوی صاحب، اگر میں کسی طرح ساری دنیا کا ڈکٹیٹر صرف ایک روز کے لیے بن جاؤں تو سچ مانیے، ایک روز میں ہی ایک نئی دنیا بناڈالوں۔‘‘
ڈاکٹر عبدالحق صاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا،
’’قاضی صاحب، خدا کو بھی دنیا کو پیدا کرنے میں سات دن لگ گئے تھے، اور آپ ایک دن میں نئی دنیا بنانا چاہتے ہیں! خوب!‘‘
ایک اور دفعہ کا ذکر ہے قاضی محمد حسین صاحب نے اپنے کمرے میں تین چار پروفیسروں کی میٹنگ بلائی۔ ان میں ایک میں بھی تھا۔ میٹنگ کا وقت ساڑھے دس بجے تھا۔ ڈاکٹر عبدالحق صاحب اس وقت یونیورسٹی میں اردو کے پروفیسر تھے۔ وہ ٹھیک ساڑھے دس بجے ان کے کمرے میں پہنچ گئے۔ قاضی صاحب وقت پر تشریف نہیں لائے تھے۔ گیارہ بج گئے جب وہ کہیں تشریف لائے۔ کمرے میں آکر حسبِ معمول پہلے اپنی چھڑی کو ٹانگا پھر اپنی ٹوپی کو، جونہی وہ اپنی کرسی پر بیٹھ رہے تھے۔ مولوی صاحب اٹھ رہے تھے۔ ان کے بیٹھتے ہی مولوی صاحب نے کہا،
’’آپ کو تو اپنے وقت کی قدر نہیں ہے۔ آپ ساڑھے دس بجے کا وقت دیتے ہیں اور ۱۱بجے آتے ہیں۔ میں مولوی آدمی ہوں مجھے اپنے وقت کی قدر ہے۔‘‘
یہ کہہ کر وہ اسی وقت چلے گئے۔ قاضی صاحب اس کا کیا جواب دے سکتے تھے، اور دیکھتے رہ گئے۔ مجھے سچ مچ یہ دیکھ کر حیرت ہوئی تھی کہ وہ وقت کی کتنی قدر کرتے تھے۔ مجھے کہا کرتے تھے،
’’تم تو ابھی جوان ہو، تمہارے سامنے تو بہت وقت پڑا ہے۔
لیکن میں اپنا وقت کیسے کھو سکتا ہوں۔‘‘
وہ کبھی اپنے پاس گھڑی نہیں رکھتے تھے، نہ جیب کی نہ ہاتھ کی۔ میں نے ان کے گھر میں کلاک یا ٹائم پیس تک بھی نہیں دیکھی۔ اس وقت کا حال تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ میں پہلے کی بات کہہ رہا ہوں۔ اگر وہ وعدہ کرلیں کہ تین بجے ہمارے ہاں آئیں گے تو ان کی کار ٹھیک تین بجے ہمارے گھر ہوتی تھی۔ اگر وہ آپ کو اپنے یہاں بلائیں اور کہیں کہ میری کار آپ کے پاس تین بجے تک آجائے گی تو مجال ہے کہ کار ٹھیک وقت پر گھر نہ آجائے۔ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ انہوں نے وقت مقرر کیا ہو اور بھول گئے ہوں۔ میں ان سے اکثر پوچھتا تھا کہ،
’’ہم لوگ تو گھڑی رکھ کر بھی وقت کی پابندی نہیں کرپاتے۔ آپ بناگھڑی رکھے ہوئے کس طرح وقت کی پابندی کرلیتے ہیں؟‘‘
ان کا سب کام کچھ اس طرح باقاعدگی سے ہوتاتھا کہ وہ خودبخود یہ جان لیتے تھے کہ کیا وقت ہے؟ وہ کبھی گھڑی والوں سے بھی نہیں پوچھتے تھے کہ کیا بجا ہے؟ ایک بار انہوں نے کلائی کی گھڑی کے بارے میں کہا تھا،
’’دیکھ لینا، ایک دن ہمارے زمانے میں کلائی دیکھے کا مطلب گھڑی دیکھنا ہوجائے گا۔‘‘
گھڑیوں میں جیب کی گھڑی کا رواج تو بہت کچھ مٹ گیا ہے اور کلائی کی گھڑی کا رواج بڑھتا جارہا ہے اور جب کبھی وقت دیکھنا پڑتا ہے، کلائی پر ہی نظر پڑتی ہے۔
مجھے بابائے اردو کے ساتھ یونیورسٹیوں کی گرمیوں کی چھٹیوں میں دوتین مقامات پر جانے اور ساتھ رہنے کا موقع ملا ہے۔ میں ان کے ساتھ ان کے گھر ہاپڑ گیا تھا۔ جب انہوں نے پہلی بار بمبئی سے کراچی کا بحری سفر کیا تھا تو میں ان کے ساتھ تھا۔ کراچی سے وہ کوئٹہ گئے تھے۔ کوئٹہ میں وہ کنگ ایڈورڈ میموریل سرائے میں ٹھہرے تھے۔ کوئٹہ کے زلزلے کے بعد تو اب سرائے کا نام و نشان نہیں رہا۔ اس سرائے کے چاروں طرف ایک شاندان باغیچہ تھا۔ یہ سرائے انہیں پسند آئی تھی اور اسی لیے بنگلوں کو چھوڑ کر انہوں نے اسی میں رہنا پسند کیا تھا۔ اس سے اوپر کی منزل کا سب سے بڑا کمرہ انہوں نے کرایہ پر لیا تھا۔ وہ یہاں دن بھر چپ چاپ کام کیا کرتے تھے۔ ایک دن ایک شاہ صاحب جو شام کے رہنے والے تھے اپنے کچھ مریدوں کے ساتھ اس سرائے میں آپہنچے۔ شاہ صاحب پہلے کبھی حیدرآباد آچکے تھے اور وہ ڈاکٹرعبدالحق صاحب سے مل چکے تھے اور انہیں پہچانتے تھے۔ شاہ صاحب نے ڈاکٹر عبدالحق صاحب کو کام میں لگے ہوئے دیکھا تو پہچان لیا۔ انہوں نے اپنے ایک آدمی کو بھیجا اور اس سے معلوم کروایا کہ کیا آپ کا اسم شریف عبدالحق ہے؟ اور کیا آپ حیدرآباد کے رہنے والے ہیں؟ انہوں نے سوچا کہ کہیں میں کہہ دوں کہ میرا نام عبدالحق ہے اور میں حیدرآباد سے آیا ہوں تو مجھے چپ چاپ بیٹھ کر اپنا کام کرنا نہیں ملے گا او رملنے جلنے سے میرا وقت خراب ہوجائے گا، اس لیے انہوں نے جواب دیا،
’’میرا نام عبدالحق نہیں ہے اور نہ ہی میں حیدرآباد سے آیا ہوں۔‘‘
شاہ صاحب حیران ہوگئے۔ ویسی ہی داڑھی، ویسا ہی قد، ویسی ہی پوشاک! ان سے رہا نہ گیا اور وہ خود ان کے کمرے میں چلے آئے اور ان سے پوچھنے لگے کہ کیا آپ کا نام عبدالحق نہیں؟ اور آپ حیدرآباد سے نہیں آئے ہیں؟ ڈاکٹر عبدالحق صاحب نے کہا،
آپ کو کچھ دھوکا ہوگیا ہے۔ میرا نام عبدالحق نہیں اور نہ ہی میں ان کو جانتا ہوں۔ میں یہاں دہلی سے آیا ہوں۔‘‘
شاہ صاحب ان کو بار بار دیکھ کر کہنے لگے،
’’نہیں۔ نہیں میری آنکھیں دھوکا نہیں کھاسکتیں، اگر آپ کانام عبدالحق نہیں، تو پھر آپ کانام کیا ہے؟‘‘
وہ اس کاجواب دینے ہی جارہے تھے کہ انہیں ہنسی آگئی اور راز کھل گیا۔ شام کو جب میں ان کے پاس پہنچا تو ہنس کر کہنے لگے،
’’ہم یہاں پھر بھی پکڑ لیے گئے۔ ہم سمجھتے تھے کہ اتنی دور یہاں تو ہمیں کوئی بھی نہیں پہچان سکے گا۔ لیکن یہاں بھی ہم پکڑ لیے گئے۔‘‘
میں ان کے ساتھ دیوبند گیا تھا۔ دیوبند چرنتا پہاڑوں سے نومیل دور ہے اور اس کی اونچائی سمندری سطح سے تین ہزار دو سو فٹ اونچی ہے۔ وہ اس عمر میں بھی اونچے پہاڑوں پر ایسے چلتے تھے جیسے کہ کوئی نوجوان ہی چل سکتا تھا۔ دونوں وقت میلوں گھومتے تھے۔ کبھی کبھی ہم کوئی سندر منظر دیکھنے کے لیے چلے جاتے تھے، اوپر کہیں اونچائی پر گراموفون کے ریکارڈ بجتے تھے۔ وہ جگہ پر بیٹھ کر دھیرے دھیرے چائے پیتے تھے۔ اس بلند مقام سے ان خوبصورت نظاروں کا لطف اٹھاتے تھے۔ ٹہلتے ٹہلتے جب کبھی وہ کسی اونچے درخت کو دیکھتے تھے تو اس سے لپٹ جاتے تھے اور کہتے تھے کہ،
’’یہ اتنا اونچا ہے کہ میری ٹوپی نیچے گرجاتی ہے۔‘‘
جب ٹہلتے ہوئے کسی خوبصورت مقام پرآجاتے تھے تو وہ سب کچھ بھول کر اپنے موڈ میں آجاتے تھے اور بہکی بہکی باتیں کہنے لگ جاتے تھے، انہیں اپنی باتوں پر خود ہی ہنسی آجاتی تھی۔ اپنی چھڑی اٹھاکر اشارہ کرتے ہوئے کہتے تھے،
’’پنڈت جی! تم کہتے ہومیں نے مکان نہیں بنوایا۔ دیکھو وہاں میں اپنا مکان بناؤں گا اور یہاں اپنے دوستوں کی دعوتیں کروں گا اور انہیں مناظر دکھاؤں گا۔۔۔‘‘
ایسا انہوں نے نہ جانے کتنے مقاموں کے بارے میں کہا تھا۔ بار بار ایسا کہتے کہ اور خودہی ہنسنے لگتے تھے اور فرماتے تھے،
’’کیوں پنڈت جی آپ ہنستے ہیں؟ آپ کو ہنسی آرہی ہے آپ کو یقین نہیں آتا کہ میں یہاں مکان بنواسکوں گا۔ میں یہاں ضرور مکان بنواؤں گا اور ایسی شاندار دعوت کروں گا کہ لوگ واہ واہ کریں گے۔‘‘
میں دیکھتا تھا اور مجھے حیرت ہوتی تھی کہ جیسے وہ کسی خواب میں پہنچ گئے ہیں اور وہ ایسا سمجھ رہے ہیں کہ ان کا خواب پورا ہوگیا ہے۔ وہ کسی خوبصورت مکان پربیٹھ کر اپنے دوستوں کو تکلف کی چیزیں کھلائیں۔ اور انہیں خوش اور ہنستے ہوئے دیکھیں۔ انہیں اس سے بڑی خوشی حاصل ہوتی تھی لیکن خواب کس شخص کے پورے ہوئے ہیں؟ اور آج بھی وہ سب خوبصورت مکان اس بات کے انتظار میں ہے کہ کب مولوی صاحب کا بنگلہ بنے گااور کب وہاں ان کے دوستوں کی پارٹیاں ہوں گی۔ اورنگ آباد میں ان کا مقام سچ مچ ایسی سندر جگہ پر تھا۔ سامنے پہاڑ تھے جو برسات میں ہرے بھرے ہوجاتے تھے۔ ان پر بھاپ جیسے بادل اڑتے رہتے تھے اور وہ اپنے جالی دار آنگن میں ان پہاڑوں کے آنچل میں بیٹھے ہوئے چپ چاپ کام کرتے تھے۔ صبح و شام وہ انہیں پہاڑوں میں گھومنے چلے جاتے تھے اور انہوں نے یہاں رہ کر اپنے دوستوں کی بہت سی پرلطف دعوتیں کی تھیں۔ ان دعوتوں کا اور اس مقام کا لطف وہی سمجھ سکتا ہے جو وہاں بیٹھا ہے اور ان دعوتوں میں شریک ہوا ہے۔ وہ تو ایک تاریخی مقام ہے۔ دیوبند میں تاج کے پھول چپہ چپہ میں پھیلے ہوئے تھے۔ ان پھولوں کے بیچ میں دن بھر یہ بیٹھے رہ کر چپ چاپ اپنا کام کرتے رہتے تھے۔ میں نے جب کبھی انہیں اپنے کام سے ہٹادیا تو ان کی آنکھیں ان سب خیالات کو کہہ دیتی تھیں جن کی دنیا میں یہ بیٹھے اپنا کام کرتے رہتے تھے۔ ان سے کچھ بولا نہیں جاتاتھا اور اس وقت یہ محسوس ہوتاتھا کہ انہیں اپنے کام سے ہٹانا جرم ہے۔
اور ہاں بابائے اردو کو اگر کسی چیز سے سب سے زیادہ محبت ہے تو کام ہے۔ وہ کام کو انسان اور کام کو بھگوان سمجھتے ہیں۔ وہ اکثر کہا کرتے ہیں،
’’انسان کچھ ایسا کام چور واقع ہوا ہے کہ کوئی نہ کوئی کام سے بچنے کا حیلہ ڈھونڈ لیتا ہے۔ وہ سب کچھ کرنا چاہتا ہے لیکن اپنا کام نہیں کرناچاہتا۔ وہ بڑی بڑی لچھے دار باتیں بناتا ہے۔ باتوں سے اپنے اور دنیا کو خوش کرنا چاہتا ہے، لیکن ایمانداری سے اپنا کام کرنا نہیں چاہتا۔ جب کام کرنے کا وقت آتا ہے تو انسان ٹال مٹول کرنے لگ جاتا ہے۔ میدان چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے۔ اگر انسان کا بس چلے گا تو وہ سب کچھ کرے گا۔ لیکن اپنا کام نہیں کرے گا۔‘‘
میں اردو کے دوستوں سے یہ عرض کروں گاکہ وہ اس جگہ کو گورنمنٹ سے لے لیں، وہ جگہ ڈاکٹر عبدالحق صاحب کی سچی یادگار ہے۔
میں نے بابائے اردو کو چپ چاپ گھنٹوں کام کرتے ہوئے د یکھا ہے اور انہیں دیکھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہیں کام کرنے میں کتنا لطف آتا ہے۔ وہ اکثر کہا کرتے ہیں کہ ہم اس کام کو اچھی طرح کرتے ہیں جس کام کو کرنے میں ہم کو بے حد مسرت ہوتی ہے۔ جس کام کو کرنے میں ہمیں کسی طرح کی خوشی نہیں ہوتی وہ کام نہیں بیگار ہے۔ جب اسٹینڈرڈ انگلش اردو ڈکشنری چھپ رہی تھی تو میں دیکھاکرتا تھا کہ وہ اس کے پروف رجسٹرڈ پوسٹ سے منگوایا کرتے تھے اور ان کی اصلاح کرکے انہیں رجسٹرڈ پوسٹ ہی سے واپس بھیجا کرتے تھے۔ وہ جو بھی کام کرتے تھے اسے پورے دل اور پوری طاقت کے ساتھ کرتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جو بھی کام کیا ہے وہ شاندار ہے اور ایسا ہی کام امر ہوجاتا ہے۔ اگر بابائے اردو جیسے کچھ دھن کے پکے اورلگن کے سچے ہوتے تو ہمارے دیس کی زبانیں چند ہی سالوں میں اتنی ترقی کرجاتیں کہ انہیں دیکھ کر حیرت ہوتی اور بہادر شاہ ظفر کا یہ شعر یاد آتا ہے،
ظفرؔ اس عالمِ پیری میں وہ اپنے ارادے ہیں
کہ جن میں تھک کے رہ جاتی جوانوں کی جوانی ہے
حاشیے
(۱) مہاں۔ بڑی
(۲) گھٹنا۔ واقعہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.