ساحرلدھیانوی (۸مارچ ۱۹۲۱ء۔ ۲۵اکتوبر۱۹۸۰ء) کا اصل نام عبد الحئی تھا، ان کاشمار اہم ترقی پسند شاعروں میں ہوتا ہے۔ ساحرلدھیانوی کی شہرت جتنا ان کی فلمی گیتوں کی وجہ سے ہے، اتنا ہی اچھی غزلوں کی وجہ سے بھی ہے۔ ساحر ان چند باکمال شعرا میں تھے جنھوں نے فلمی دنیا میں رہتے ہوئے ادبی وقار بحال رکھا، یہی وجہ تھی کہ انھیں جتنی شہرت فلم انڈسٹری میں ملی اتنی ہی شہرت ادبی دنیا میں بھی ملی اور پوری عمر دونوں حلقوں میں احترام کی نظروں سے دیکھے جاتے رہے۔ ان محترم شعرا میں کیفی آعظمی، مجروح سلطان پوری، خمار بارہ بنکوی، ساحر لدھیانوی، شہریار، اور ندا فاضلی قابل زکر ہیں۔ ان شعرا نے فلمی دنیا میں کام کرتے ہوئے کبھی اپنے فن کا سودا نہیں کیا اور نہ ہی مر عوبیت کا شکار ہوے بلکہ انھوں نے اپنی شرطوں پر کام کیا، با لخصوص ساحر کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ انھوں نے کبھی موسیقار کی جانب سے دیے گئے دھن پر نغمہ نہیں لکھا بلکہ وہ گیت سچویشن کے مطا بق لکھ کر دے دیا کرتے تھے۔ اس پر دھن تیار کیا جاتا تھا اور یہ بات بھی مقبول ہے کہ ساحر اپنی قیمت پر نغمہ فروخت کرتے تھے۔ ساحر لدھیانوی نو جوانوں کے شاعر تھے، وہ ہمیشہ زندہ دلی سے کام کر تے رہے اور انھوں نے فلمی دنیا کو وقار بخشنے کے ساتھ اس کا کھویا ہو ا وقار بھی بحال کیا۔
ساحرلدھیانوی کی شاعری ساحری سے کم نہیں ہے۔ ساحر اپنے عہد کے پُرگواور قادرالکلام شاعر ہیں۔ ان کی شاعری ایک عہد پر محیط ہے۔ ساحر کی شاعری سرچڑھ کر بولتی رہی، جس نے پورے عہد تک قاری اور سامع دونوں کو محظوظ اورمسحور کیا ہے۔ ان کے نغموں نے عابدوزاہد کوبھی گنگنانے پرمجبور کیاہے۔ ناقدین ادب نے ناشتے کے ٹیبل، چائے کی چسکی اور لقمہ تر کے ساتھ گنگنایااورخوب خوب لطف لیاناقدین ادب نے سو چا کہ جب ساحر کی شاعری ابہام، مہملیت، ثقالت اور تفہیمی عمل سے پر ہے تو پھرہمارے کرنے کاکام کیا رہ جاتا ہے۔ یہ شاعری خود ہم سے بات کرتی ہے، اس کا ترسیلی عمل جوئے کم سے بھی تیزرو ہے اور شعر افہام کے عمل سے خودآگے ہے، جس نے عوام اورخواص ہر کسی کے ذہن و دل پر دستک دیاہے، جس نے اپنا رشتہ ہر آدم صفت سے جوڑ لیاہو تو پھرنقاد کے کرنے کاکام کیارہ جاتاہے۔
بہت سنبھال کے اس نے مجھے رکھا ہے کہ میں
وہ میرا چاہنے والا مرا خدا ہے کہ میں
مرا وجود ہے خطرے میں پھر بھی زندہ ہوں
دوسراکمال ساحر کی شاعری کایہ ہے کہ اس نے اپنی شاعری میں استعمال کیے گئے، غیرمانوس الفاظ اور تراکیب کومفہوم کے اس رشتہ سے وابستہ کردیاہے جو شعرپڑھنے کے بعدفہم سے قریب ہوجاتے ہیں اور اپنے معنی کو تلاش کرکے اپنی تفہیم کا رابطہ خودبن جاتے ہیں، اب مسئلہ اس سے آگے چل کرتعین شعرکاہے کہ سب سے اچھا اور موزوں شعر کسے کہاجائے تو یہ خالص علمی اورتنقیدی بحث ہوجائے گی جو تجزیے کے دائرہ کار سے باہرہے۔ اس بحث کے لیے مشرق و مغرب کے میدان تنقید کے سرخیل نقادوں کے اقدام وبیان کی روشنی میں دیکھاجاسکتاہے جو ایک الگ کام ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ساحر کی شاعری تجسیم شعر اور تفہیم شعر سے ماورائیت اختیارکرچکی ہے۔
ساحر کے کلام میں عصری آگہی اورحسیت کے ساتھ کیفیات حیات سے آشنائی کے اشارے بھی ملتے ہیں۔ ان کاشعری منطقہ وسیع تر ہے، یہی وجہ ہے کہ ساحر نے ہمیشہ بلند وبانگ ترقی پسندشاعروں کی طرح اپنی شاعری کو نعرے بازی کے دھا رے سے بچایااورمعتدل انداز و آواز میں شعرکہنے کے عادی رہے۔ جس کی وجہ ہے کہ انھوں نے جذبے اور احساس کو چھولینے والی شاعری کی ہے اوریہی خصوصیت فیض احمدفیض کی شاعری کا بھی ہے۔ ساحر نے انقلاب زمانہ اثرات اور عصر ی حسیت کااظہار بصیرت کے ساتھ اور فنی نزاکتوں کاخیال رکھتے ہوئے کیا ہے۔ ان کے یہاں جہاں فنی چابک دستی پائی جاتی ہے، وہیں احساس کی تازگی شعر کا حسن دوبالا کردیتی ہے۔ بات انقلاب کی ہو، مذہب وملت کی ہو ہجر کا ہو یا وصال کا ان تمام معاملات کو کس ہنرمندی سے برتنا ہے، یہ ہنر ساحر کوخوب آتاہے۔ اگرخیال حزن وملال کو شعر کا جامہ پہناناہے تو ساحر وہ کمال کرتے ہیں، جو صرف ساحر کی ہی ساحری کاکمال ہوسکتا ہے۔ ایسا نہیں کہ غم زندگی کے اظہار میں وہ خود غموں سے چور ہو کر اورٹوٹ کر بکھرے ہوں اور بے سمتی کی راہ کے راہی معلوم ہو رہے ہوں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ شاعر کے حزن و ملال کی داستان کو سن کر سامع جگرپکڑ کر بیٹھ جائے اور دوقدم چلنے کے قابل بھی نہ رہے۔
ساحرامنگوں، جذبوں، تلاش وجستجو اور مضامین خیال نو کا شاعر ہے۔ ن کے شعری سرمائے میں مضامینِ تازہ اور جدتِ خیال کی کمی نہیں ہے، نوع بہ نوع کے خیالات در آئے ہیں، جسے ساحر نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ برتا ہے۔ انھیں خیالوں کی نیرنگیوں، جذبوں اور امنگوں کے چراغ روشن ہوئے ہیں جہاں ہمیں ہرایک دوسرے قدم پرنئے جذبے، نئے احساس اور فکر کی تازگی کااحساس ہوتا ہے۔ ساحر کی شاعری صاف وشفاف دریا کے دھاروں کی طرح ہے، جس طرح شفاف دریا کی لہروں کوخوبصورتی کے ساتھ دریا کے کنارے بیٹھ کر گنگنا یا جاسکتا ہے اور لطف بھی اٹھایاجاسکتا ہے اسی طرح ساحرلدھیانوی کی شاعری میں ثقالت لفظی ہو یا معنوی، تشکیل خیال اوربیان کے تسلسل میں کہیں کسی قسم کے بوجھل پن کااحساس نہیں ہوتا۔ خیالات میں جتنی تازگی پائی جاتی ہے، اتنی ہی احساس میں بھی روانی موجود ہے اوراظہار کی سطح پر آتے آتے شعر تحلیل معنوی کے قالب میں ڈھل جاتاہے،
دنیائے تجربات وحوادث کی شکل میں
جوکچھ مجھے دیاہے وہ لوٹا رہاہوں میں
رجعت پسند ہوں نہ ترقی پسند ہوں
اس بحث کوفضول وعبث جانتا ہوں میں
اب نہ ان اونچے مکانوں میں قدم رکھوں گا
میں نے اک باریہ پہلے بھی قسم کھائی تھی
لے دے کے اپنے پاس فقط اک نظرتو ہے
کیوں دیکھیں زندگی کو پرائی نظر سے ہم
آئنہ حوادث ہستی میں میرے شعر
جو دیکھ رہا ہوں وہ کہتا رہا ہوں میں
ساحرلدھیانوی کاشعری امتیاز یہ بھی ہے کہ انھوں نے فلموں میں صرف گیت لکھ کرسستی اور وقتی شہرت اور پیٹ بھر کما لینے کے یا یوں کہیے کہ گیت لکھ کر شراب وکباب کے لیے ا ¿جرت وصول کرنے کے لیے نہیں لکھے بلکہ ساحر نے فلموں کے ساتھ ہی فلموں میں لکھے جانے والے گیت (گانے) کے معیار کوبھی بلند کیا۔ اس میں انھوں نے فحش اورعریاں گیت کے بجائے اچھے اور صاف ستھرے نغمے لکھے جو حسن بیان کے ساتھ لطافت خیال اور جذبات کی پاکیزگی سے مملو ہے۔ انھوں نے روایتوں کی اقتدانہیں کی بلکہ اپنی روایت کے وہ خودامین اوربانی ہیں۔ جس کے نتیجے میں فلمی دنیا میں پھیلی گندگی کوپاک کرنے میں وہ کامیاب ہوئے۔ چونکہ ساحر ترقی پسندشاعرتھے، اس لیے انھوں نے اوروں کی طرح صرف عشق ومحبت اورلذتوں کاسہارا لے کرگیت نہیں لکھے بلکہ انھوں نے سیاسی، سماجی، اخلاقی بگاڑ اورخرابیوں کی جانب بھی متوجہ ہوئے اور اس دور میں جب کہ عورت صرف ایک کھلونے اورٹولس کے طورپراستعمال کی جارہی تھی، آپ نے اس کے خلاف پُرزورآواز اٹھائی۔
وہ صبح کبھی تو آئے گی، وہ صبح کبھی تو آئے گی
دولت کے لیے جب عورت کی عصمت کونہ بیچا جائے گا
چاہت کونہ کچلا جائے گا، غیرت کو نہ بیچاجائے گا
اپنے کالے کرتوتوں کو جب یہ دنیا شرمائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی، وہ صبح کبھی توآئے گی
عورت نے جنم دیا مردوں کو، مردوں نے اسے بازار دیا
جب جی چاہا مسلا کچلا جب جی چاہا دھتکار دیا
تُلتی ہے کہیں دیناروں میں بکتی ہے کہیں بازاروں میں
ننگی نچوائی جاتی ہے عیاشوں کے درباروں میں
یہ وہ عزت چیز ہے جوبٹ جاتی ہے عزت داروں میں
عورت نے جنم دیا مردوں کو، مردوں نے اسے بازار دیا
اسی طرح ساحرلدھیانوی نے غم روزگار کونت نئے طریقوں سے اظہار کا وسیلہ بنایا ہے جو کسی نہ کسی طورقاری کے لیے استعجابی صورت اختیار کرلیتا ہے، جس میں اظہار کے ادبی زاویے اورزائچے کے ساتھ ندرت بیان بھی خوب مزہ دیتی ہے، جیسے یہ شعردیکھئے،
میں نے چاند اورستاروں کی تمنا کی تھی
مجھ کو راتوں کی سیاہی کے سواکچھ نہ ملا
آخرہم یہ کہنے پرمجبور ہوتے ہیں کہ ساحرنے اپنے اظہار کی جادو گری کے ذریعہ عوام وخواص سب کواپناگرویدہ بنالیاتھا۔ اسی طرح ساحرلدھیانوی نے اپنی موزوں طبیعت کے سہارے فلمی گیتوں کی طرح، بھجن، نظمیں، غزلیں، گیت، طویل نظمیں وغیرہ کہی ہیں۔ اپنی شاعری خواہ وہ فلمی ہو یا غیر فلمی انھوں نے حالات کی ناہمواری، مسائل کی بے اعتدالی اورسماجی، معاشرتی سیاسی اور معاشی نظام ناہمواری کااظہار بڑے خوبصورت انداز سے کیاہے۔ چونکہ انھیں معلوم تھا کہ مغربی تہذیب کی شورش اورمغربیت زدگی نے مشرقیت کی جڑکوکسی نہ کسی حد تک کمزور کیاہے، یہی وجہ ہے کہ جمہوری طرزِزندگی اورمعاشرت پرانھیں پورایقین واعتمادتھا، لہٰذانھوں نے اپنے نغموں کو اپنے احتجاج کاذریعہ بناکر پوری زندگی انسان دوستی اورانسانیت کانعرہ بلندکیا۔
بنام امن ہیں جنگ وجدل کے منصوبے
یہ سورعدل، تفاوت کے کارخانے ہیں
مجھے انسانیت کادرد بھی بخشا ہے قدرت نے
مرامقصد فقط شعلہ نوائی ہو نہیں سکتا
فکر کی روشنی کوعام کریں
امن سے جن کوتقویت پہنچے
ایسی جنگوں کااہتمام کرو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.