سلیم انصاری کا شعری رویہ
شاعری واقعتاً ایک الہامی کیفیت ہے جس کا نزول حساس دلوں پر ہوتا ہے۔شعر گوئی کے لئے کسی سند یا تربیت کی ضرورت نہیں ہوتی۔پرانے دور میں شاعر پیدا ہوتے تھے اور تاعمر شاعر ہی رہتے تھے۔امراء و سلاطین کی بدولت ان کی زندگی بسر ہوتی تھی لیکن بیشتر شاعروں کی زندگی کسمپرسی کا شکار رہتی تھی۔وقت کے ساتھ انسان کا مزاج بدلا۔اب شاعری کُل وقتی مشغلہ نہیں رہا بلکہ زندگی کے سروسامان کی تگ و دو کے ساتھ ساتھ اظہارذات کے طور پر شعر گوئی کو وسیلہ بنایا جانے لگا۔یہی وجہ ہے کہ اکثر اوقات ایسے شاعروں سے سامناہو تا ہے جو حقیقی زندگی میں خشک اور بے کیف ملازمت سے وابستہ ہوتے ہیں اور انہیں غیر ادبی اور غیر شاعرانہ ماحول سے واسطہ رہتا ہے۔اردو زبان وادب میں ایسے شعراء و ادبا کی خاصی تعداد موجود ہے جن کا تعلق سیاست، انتظامیہ،پولیس،عدلیہ،طب وغیرہ سے ہے۔وہ اپنے فرائض منصبی سے بھی نبرد آزما ہوتے ہیں اور اردو کی زلف گرہ گیر کے پیچ و خم سنوارنے میںبھی منہمک رہتے ہیں۔
سلیم انصاری کا شمار اسی قبیل کے شعراء و ادباء میں کیا جاسکتا ہے۔وہ مرکزی حکومت کے محکمہ دفاع سے وابستہ رہے۔ دورانِ ملازمت مختلف ادبی و غیر ادبی علاقوںمیں اپنی ذمہ داریاں انجام دیتے رہے۔جس شعبہ سے وابستگی رہی،اس کے غیر رومانی اور خشک ماحول نے ان کی تخلیقی اور ادبی سرگرمیوں کی رفتار کو متاثر ضرور کیا لیکن ان کے اندر کے تخلیقی سوتوں کو خشک کرنے میں ناکام رہا۔اس کم رفتاری کے سلسلے میں ان کی یہ توجیہہ بھی لائق غور و فکر ہے کہ اپنی شعر گوئی کی جانب سے ایک قسم کی عدم اطمینانی کا وہ شکار رہے ہیں اور ان کی توجہ مقدار سے زیادہ معیار پر رہی ہے۔یہ واقعہ ہے کہ فنکار اگر اپنے فنی پیشکش سے مطمئن ہو جائے تو ارتقائی سفر تعطل کا شکار ہوجاتا ہے۔ اپنی شاعری کے حوالے سے ان کی اپنی یہ رائے ہے کہ یہ جذبات و احساسات نیز تجربات و مشاہدات کے اظہار کا ذریعہ ہے۔سلیم انصاری کے نزدیک ایک اچھا شاعر زندگی کی اعلیٰ اخلاقی اور تہذیبی قدروں کی نہ صرف ترجمانی کرتا ہے بلکہ انہیں اپنے اندر جینے کی بھی کوشش کرتا ہے۔ان کے کلام کے مطالعے سے ظاہر ہوتاہے کہ انہوں نے ایمانداری سے اپنے عہد کی صداقتوں کو اپنی شاعری کے توسط سے پیش کرنے کی سعی کی ہے اور مسلسل تخلیقی ریاضت سے اردو شعرو ادب میں اپنی شناخت مستحکم کی ہے۔
سلیم انصاری کے دو شعری مجموعے ’’فصلِ آگہی‘‘ اور ’’ شگفتِ آگہی‘‘ نیز ایک ادبی و تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’’مطالعے کا سفر‘‘ منظر عام پر آ چکے ہیں۔پہلا مجموعہ ۱۹۹۶ء میں شائع ہوا اور دوسرا ۲۰۲۰ء میں۔اس طویل وقفے کا سبب وہی ہے جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے یعنی مقدار سے زیادہ معیار پر توجہ مرکوز رکھنا ۔یہ واقعہ ہے کہ سادگی و سلاست کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری میں قابل ذکر انفرادیت ہے۔جب حرف دعا زبان پر لاتے ہیںتو یوں عرض کرتے ہیں:
جنہیں طلب ہے انہیں مال وزر عطا کردے
مجھے سلیقہ ٔ عرضِ ہنر عطا کردے
جو گھر میں ہیں انہیں توفیق دے مسافت کی
جو چل پڑے ہیں انہیں ہمسفر عطا کردے
نعت گوئی میں بھی سلیم انصاری نے عام روش سے ہٹ کر انداز اپنایا ہے۔عموماً حمد و نعت نظم کے پیرائے میں لکھی جاتی ہے جبکہ موصوف نے ان موضوعات کو غزل کا پیکر عطا کیا ہے۔ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ صرف غزل کے شاعر ہیں بلکہ غزل سے زیادہ انہوں نے نظم پر توجہ کی ہے ۔ان کے مجموعوں میں نظم کی تعداد غزل سے کم نظرنہیں آتی ہے۔
اڑ رہی تھی دشت میں صدیوں سے اندیشوں کی خاک
آپؐ آئے تو ہوئی روشن سیہ بختوں کی خاک
ذکرِ نعتِ محمدؐ کی خوشبو سے الفاظ مہکے مرے
سوچ کے بے کراں دشت میں جابہ جا پھول کھلنے لگے
انوار کی بارش ہے
شہرِمحمدؐ کے
دیدار کی خواہش ہے
کیا بخت منور ہے
مدحِ محمد ؐ میں
ہر سانس معطر ہے
مؤخر الذکر نعت ماہئے کی ہیئت میں ہے۔سلیم انصاری نے اپنی شعر گوئی کو کسی ایک حصار میں مقید نہیں رکھابلکہ اظہار کے متنوع پیکر اور مختلف ہیئت ان کی دسترس میں رہے۔غزل،آزاد غزل،نظم،آزاد نظم،دوہے،ماہئے،ہائیکو غرضیکہ انہوں نے اپنے وسعت بیان کے لئے ہر گزرگاہ پر قدم بڑھائے لیکن بنیادی طور پر غزل اور نظم ہی ان کے یہاں اظہار کا وسیلہ بنے ہیں۔سلیم انصاری کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے نظم کی فکر اور موضوعات کو غزل کے پیکر میں ڈھالا ہے اور بساوقات غزل کی محبوبانہ اداؤں کو نظم کیا ہے۔ نظم کی طرح ان کی غزلوں میں بھی عہد حاضرہ کا انتشار،انسان کی تشنہ خواہشات،جسم و روح کی کشاکش،فکروخیال کی پراگندگی،حالات کا جبر،انسان کے درون کا بیکراں سناٹا،احساس کی شکستگی وغیرہ شعری جامے میں ملبوس ملتے ہیں۔
میرے مرنے کی عجب شرط لگا دی گئی ہے
ٹوٹنا مجھ کو زیادہ ہے بکھرنا کم ہے
میں چیختا ہوں کسی دشتِ بے اماں میں سلیم
مری تلاش میں اب تک ہوائیں آتی ہیں
منہدم ہوتے ہوئے ذات کے اس گھر کو سلیم
میں نے اک حسرتِ تعمیر سے باندھا ہوا ہے
اب عطا کون کرے گا مرا پیکر مجھ کو
کوزہ گر بھول گیا چاک پہ رکھ کر مجھ کو
ابھی تلک ہے ہمیں خواب دیکھنے کا جنوں
کہ زندگی سے ابھی بدگماں نہیں ہوئے ہم
لکھ دی گئی قسمت میں عجب خانہ بدوشی
اک نسل یہاں پیٹھ پہ گھر باندھے ہوئے ہے
شجر سے ٹوٹ کے گرنے کا غم نہیں لیکن
ملال یہ ہے مجھے در بدر ہوا نے کیا
اپنے زخموں کی قبا سے ٹوٹتا رشتہ مرا
کتنے شعروں سے چرا لے جائے گا لہجہ مرا
اس احتیاط سے کی ہم نے درد کی تہذیب
کہ اپنے شعر سے بھی کچھ عیاں نہیں ہوئے ہم
کبھی مرزا غالب ؔ کو غزل کے تنگیٔ داماں سے شکایت تھی اور انہوں نے اظہار ذات کے لئے غزل میںوسعت بیاں کی تمنا کی تھی۔ان کی فکری جولانیاں کسی دشتِ امکاں کی تلاش میں رہیں اوربالآخر انہیں اعتراف کرنا پڑا کہ وہ عندلیبِ گلشنِ نا آفریدہ ہیں ۔غالبؔ کے بعد اردو غزل نے مسلسل ارتقائی سفر کیا اور اس کے موضوعات،اندازِ پیشکش،اسلوب بیان اور فکری وفنی اظہار میں مثبت تبدیلیاں واقع ہوتی رہیں۔
ابتدائی دور کی غزلیں حسن کی جلوہ سامانیاں،عشق کی بے تابیاں،رقیب کی عداوتیں یا پھر تصوف و فلسفہ تک محدود تھیں۔ سرسید کے رفقاء کار نے غزل کو حقیقی زندگی کاعکاس بنانے کی شعوری کوشش کی ۔نتیجتاًغزل میںمعاشرتی و سیاسی مسائل بھی جگہ پانے لگے ۔حالی نے دیوان غالب پر مقدمہ تحریر کرتے ہوئے جدید شاعری کے چند اصول مرتب کئے جس کی رو سے غزل حسن و عشق کی محدود فضا سے نکل کر داخلی کیفیات کے ساتھ ساتھ عصر حاضر کا بھی ترجمان بنا۔ حسرت موہانی ، اصغر گونڈوی،فانی،فراق گورکھپوری ، جگر مرادآبادی،معین احسن جذبی وغیرہ کی غزلوں میں یہ جدید رنگ بخوبی برتا گیا ہے۔ترقی پسند تحریک کے اثرات نے دیگر اصناف کے ساتھ اردوغزل کو بھی متاثر کیااور فیض،مجاز،جوش،سردار جعفری نے غزل کو انقلاب زمانہ،حب الوطنی، تحریک آزادی وغیرہ کا ترجمان بنا دیا۔بعد ازاں،تقسیم وطن نے جسم و روح پر جو زخم لگائے،اس نے انسان کو بے شمار مسائل سے دوچار کیا ۔آزادی کا ترانہ گانے والے لب زخم خوردہ ہوکر رہ گئے۔انقلابِ زمانہ کا پُر جوش نغمہ تحریر کرنے والے شعراء حیرت زدہ ہوکر کہنے پر مجبور ہوگئے کہ جس صبح کا انتظار تھا،یہ وہ صبح تو نہیں۔ انسان کے اندر کی مایوسی اور داخلی کیفیات غزل میں منعکس ہونے لگی اوراس عہد کی شاعری کو جدیدیت سے موسوم کیا گیا۔جدیدیت فکری اور موضوعاتی اعتبارسے انسان کی داخلی کیفیات تک محدود اوراس کے حسرت و یاس کے اظہار تک محصور ہوکر رہ گئی۔انسان کی فطرت میں جمود نہیں ہے۔وہ بہت جلد شکستگی کے احساس سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے اور نئے آسمانوں کی تلاش اس کا مقصود ہوتا ہے۔اردوشاعروں نے بھی جدیدیت کے محدود اور محبوس ماحول سے دامن کش ہوکر انسانی وجود کا رشتہ عہدو معاشرت اورحالات و واقعات سے ازسرِ نو بحال کیا۔ایک بار پھر اردو غزل عہد حاضر سے رشتہ جوڑکرانسان کے سماجی،سیاسی،نفسیاتی مسائل کی نمائندگی کرنے لگی۔۱۹۸۰ء کے بعدابھرنے والے اردو شاعروں کی ایک کثیر تعداد اس نسل سے تعلق رکھتی ہے جس نے بہادری اور توانائی کے ساتھ زمانے کے مختلف نشیب و فراز کو تسلیم کیا اور انہیں اپنی شاعری کے توسط سے پیش کیا۔ تقسیم کے اثرات،فرقہ پرستی،مذہبی شدت پسندی،شناخت کا مسئلہ،مذہبی بنیاد پرانسانی جان کی ارزانی ،بے زمینی کا احساس ،عدم اعتماد کی فضا،بڑھتی ہوئی آبادی،روپے کی گھٹتی ہوئی قیمت،مشینوں کی ترقی اور بے روزگاری جیسے مہیب مسائل دیگر اصناف کے علاوہ شاعری میں بھی اظہار کے پیکر میں ڈھلنے لگے۔اس نوع کی شاعری کو مابعد جدیدیت کے نام سے موسوم کیا گیا۔
سلیم انصاری کا تعلق بھی ۱۹۸۰ء کے بعد ادبی منظرنامے پر ابھرنے والے شاعروادیب کے قبیلے سے ہے۔ سلیم انصاری نثر نگار بھی ہیں اور شاعر بھی ۔ان کا اصل میدان شاعری ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان کے تبصراتی شعور اور تنقیدی زاویہ نگاہ نے اپنی شاعری پر بھی گرفت رکھی ہے۔میرے خیال میں ایک تخلیق کار میں اچھے نقاد کی خوبی ہوتی ہے اور ایک متوازن نقاد تخلیقی شعور سے بھی آراستہ ہوتا ہے۔سلیم انصاری شاعروں کے اسی زمرے میں شامل ہیں جنہوں نے شعری رویوںکے وسیع آسمان میں اڑان بھرنے کی سعی کی ہے۔ اس ضمن میں ان کی یہ رائے اہم ہے کہ مابعد جدید شعری رویہ کوئی مافوق الفطرت شے نہیں بلکہ شاعری میں زندگی اور اپنے عہد کا حقیقی چہرہ پیش کرنے کا عمل ہے۔جدیدیت نے فرد کے انتشار،مایوسی اور قنوطیت کو اجتماعی مسائل و مصائب پر ترجیح دی جبکہ مابعد جدیدیت نے نئی نسل کو ایک نیا اور کھلا تخلیقی آسمان فراہم کیا۔ یہ سچ ہے کہ مابعد جدیدیت کے شاعروادیب نے اپنی تخلیقات کو تشبیہات و استعارات اور اشاروں کنایوں سے سنوارالیکن مبہم علامتوں سے حتی الامکان اجتناب کرنے کی کوشش کی ہے۔معانی کی ترسیل و تفہیم کوترجیح دینا اس نسل کی خوبی قرار پائی۔سلیم انصاری کہتے ہیں:
ہم تو جدیدیت کو بھی مابعد کرچکے
لیکن ادب میں پھر بھی روایت کا دور ہے
ہمیں ملے ہیں وراثت میں لفظ اور خیال
سو ہم متاعِ سخن کو عزیز رکھتے ہیں
لٹائے اشک کے گوہر کھلائے درد کے پھول
زمینِ شعر تجھے مالامال ہم نے کیا
سلیم انصاری کی شاعری اپنے عہد کی نباض ہے۔یہ صحیح ہے کہ مابعد جدیدیت شاعری انفرادی مسائل کی پیشکش کے ساتھ ساتھ اجتماعی فکر سے ہم آہنگ ہوتی ہے ۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ وقت کے ساتھ اخلاقی قدریں اور معاشرتی منظرنامہ یکسر بدل چکا ہے۔سماجی مسائل کی پیشکش کا جو تیور اور لہجہ ترقی پسندوں نے اپنایا، وہ اب فرسودہ اور متروک ہوگیا ۔نئے الفاظ و تراکیب ، تشبیہات و استعارات،نئے لب و لہجے میں انفرادی و اجتماعی مسائل بیان ہونے لگے۔سلیم انصاری نے بھی منفرد انداز میں آج کے انسان کی شکستگی،حساسیت،احساس تنہائی اور عہد حاضر کے مسائل کو اشعارکا پیرہن عطا کیا ہے۔کالی داس گپتا رضا کے اس خیال سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا : ’’سلیم جدید لب و لہجے کے شاعر ہیں،مگر وہ محض شاعر نہیں بلکہ جدید مسائل پر بھی پوری نظر ڈال سکنے اور انہیں اپنی نظموں اور غزلوں میں سمو سکنے پر قادر ہیں۔‘‘
ناکام و نامراد ذہانت کا دور ہے
یعنی شکستگی کی علامت کا دور ہے
جسے شوق ِ جہاں بینی بہت تھا
خود اپنی ذات میں گم ہوگیا ہے
وہ اک چراغ جو جلنے میں بے مثال رہا
اسے ہی شہر میں اندیشۂ زوال رہا
زمین ِدل میں ہم نے بیج بوئے تھے اداسی کے
تعجب ہے انہیں اب تک شجر ہونا نہیں آیا
حالات کے جبر اور احساس تنہائی نے آج کے انسان میں حساسیت کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے۔وہ ہر لمحہ اپنا اور اپنے حالات کا محاسبہ کرتا ہے کہ یہ باطنی شکستگی روایات سے انحراف کا نتیجہ ہے یازریں مستقبل کی تگ و دو میں نسلوں کی تربیت سے غفلت کا ثمر ہے۔ وسعت سے بڑھ کر خواب سجانے کی پاداش میںخواہشات ضرورت بن گئیں اورضرورتیں بے لگام ہوتی ہیں۔آگہی کا یہ کرب جا بجا سلیم انصاری کی شعروں نظر آتا ہے لیکن انہوں نے اپنے غم کو بے لگام نہیں ہونے دیا بلکہ ان کی تہذیب و تزئین کی ہے اور پھر لفظوں کے حسن ترتیب سے مزین کرکے انہیں پیش کیا ہے۔
ہاتھ پھیلانے پہ راضی تھی ضرورت میری
جس نے جھکنے نہ دیا مجھ کو انا میری تھی
مجھے بھی کرلیا تقسیم گھر کے ساتھ بچوں نے
ستم یہ ہے کہ میں خود اپنے حصے میں نہیں آیا
میں چیختا ہوں کسی دشتِ بے اماں میں سلیم
پھر اس کے بعد مسلسل صدائیں آتی ہیں
مجھ کو تعبیر کی خواہش نہیں سونے دیتی
اور خوابوں کے پجاری ہیں مرے شہر کے لوگ
بدن دریدہ ہوںیارو شکستہ پا ہوں میں
کہ جیسے اپنے بزرگوں کی بددعا ہوں میں
ضرورت اور انا تھے برسرِپیکار آپس میں
تو سب سے پہلے مجھ میں مرگیا سچ بولنے والا
من حیث القوم شاعر کو اپنے وطن میں بے زمینی کے احساس نے بھی ایک خاص نوع کی شکستہ پائی بخش دی ہے جس میں داخلی کرب،خود ترحمی،غصہ، احتجاج واضح طور پرنظر آتا ہے۔وطنیت کا احساس اور اپنی زمین سے محبت اور پھر بے یقینی اور عدم اعتماد کی فضا شاعر کے درون میں بے چینی اور بیقراری پیدا کرتی ہے۔
اس زمیں کو بھی نہیں میری وفاؤں پہ یقیں
اپنے خوں سے جسے سیراب کیا ہے میں نے
تا حد نظر کوئی بھی دمساز نہیں ہے
یا پھر مری چیخوں میں ہی آواز نہیں ہے
سوگیا ہے شہر میرا کتنی گہری نیند میں
دستکیں دیتا ہوں لیکن در نہیں کھلتا کوئی
نہ پوچھو کس قدر میں رائیگاں ہوں
پرندہ ہوں مگر بے آسماں ہوں
حکم ہے سر جھکائے چلتا رہوں
زندگی سے سوال بھی نہ کروں
ہم تو خانہ بدوش ہیں پھر بھی
بے گھری کا یقین چاہتے ہیں
ہجرتیں لکھ کہ میرے بچے بھی
اب نئی سرزمین چاہتے ہیں
سلیم انصاری کاشعری وصف یہ ہے کہ انہوں نے عصر حاضر کی گنجلک زندگی،اس کے تقاضوں،بھیڑ میں تنہا انسان،اس کی حساسیت،صارفیت کے منفی اثرات،رشتوں کے کھوکھلے پن،نسلوں کے تفاوت،وقت کی تیز رفتاری ،عدم استحکام کے نتیجے میں پیدا ہونے والی احساسِ شکستگی کو اپنا موضوع ضرور بنایا ہے لیکن شعری اظہار میں مایوسی یا منفی فکر سے اجتناب کرنے کی شعوری کوشش کی ہے اوراپنے اشعارکے حوالے سے وہ امیدوں کے چراغ روشن کرتے نظر آتے ہیں:
موسمِ گل ترے جانے کا یقیں ہو کیسے
شاخ پر ایک پرندہ نظر آتا ہے مجھے
دیکھوں تو دور تک نہیں روشن کوئی چراغ
سوچوں تو مختصر سا یہ ظلمت کا دور ہے
رواں ہونا ہے مجھ کو مثلِ دریا
ابھی میرے کنارے بن رہے ہیں
ذرا سی دیر کو آندھی رکی ہے
پرندہ پھر اڑانیں بھر رہا ہے
ابھی تلک ہے ہمیں خواب دیکھنے کا جنوں
کہ زندگی سے ابھی بدگماں نہیں ہوئے ہم
غم ضروری ہے بہت ہم کو خوشی کی خاطر
پھول بھی کھلتے ہیں کانٹوں کی نگہبانی میں
چراغِ جاں بھی بجھا پر دھواں نہیں ہوئے ہم
بچھڑکے تم سے ابھی رائیگاں نہیں ہوئے ہم
وہ ہم سفر ہی نہیں مانتا مجھے اپنا
یہ جانتاہوں مگر ساتھ چل رہا ہوں میں
سلیم انصاری کی شاعری میں سفر کا لفظ اور ترکیب بدرجۂ وافر ملتا ہے۔سفر ان کے یہاں لغوی معنی میں بھی استعمال ہوا ہے اور استعارے کی شکل میں بھی۔اپنی ملازمت کی نوعیت کی وجہ سے سفر ان کی زندگی کا اہم جزو رہا جس کا اظہار انہوں نے مختلف پیرائے میں کیا ہے اورسفر کے حوالے سے اپنی کیفیات کی ترجمانی کی ہے ۔سفر ان کے یہاں حرکت کا استعارہ بن کر بھی مستعمل ہوا ہے اور منزل کا نشان بن کر بھی۔سفر حوصلہ آزما ہوتا ہے تو حوصلہ افزائی کا باعث بھی بنتا ہے۔سفر کی دقتوں اور مشکلوں سے گزرنے کے بعد حاصل ہونے والی مسرت بھی انسانی زندگی میں بہت اہم ہوتی ہے۔بساوقات ان کی شاعری میں ’’سفر‘‘بے گھری ،بے زمینی،جہد مسلسل اور وحشتِ دل کی عکاسی کرتا ہے۔
خاک سے خاک تک سفر میرا
اور کیا میری داستاں مٹی
مرے ذہن و دل پر ہے کیسا عذاب
سفر ہی کروں اور نہ گھر جاؤں میں
میں ناواقف ہوں آدابِ سفر سے
مگر پھر بھی شریکِ کارواں ہوں
سفر سے کیسا تعلق تھا وحشتِ دل کا
کہیں بھی جاؤں وہی دشت آ نکلتا تھا
کوئی چراغ نہ چہرہ نہ چاند رستے میں
سفر میں ساتھ ہے میرے بس اک ستارۂ دل
سفر جب زندگی کی شرط بن جاتا ہے نسلوں پر
طلوعِ صبح سے پہلے ہی خیمے کھلنے لگتے ہیں
کہ عجیب ساعتِ کشمکش میں ملا تھا اذنِ سفر ہمیں
جوسفر میں ساتھ چلے تھے وہ کہیں راستے میں اتر گئے
مظاہر قدرت کے لوازمات اور فطرت کے مختلف اجزاء کو شاعری میں پیش کرنے کی روایت پرانی ہے۔نئی بات یہ ہے کہ نئے شعرا ان الفاظ و تراکیب کو زیادہ وسیع پس منظر میں پیش کرنے کے ہنر سے واقف ہیں۔ علم کا میدان جتنا وسیع ہوگا، پس منظر میں بھی اتنی وسعت پیدا ہوتی ہے۔شاعری کا بنیادی جزو تخیل ہوتا ہے اورتخیل حقیقت سے جتنا قریب ہوگا،اشعار کا حسن اتنا ہی دیرپا ثابت ہوگا۔اشعار کا جمالیاتی حسن ہی اسے نثر سے ممیز کرتا ہے وگرنہ وہی واقعات و حکایات نثر میں بھی پیش کئے جاتے ہیں جو شاعری کاموضوع بنتے ہیں۔لفظوں کی دروبست،حسن ترتیب اور اندازِ پیشکش شاعروں کا شعری اختصاص متعین کرتا ہے۔ مختلف شعرا اپنے ذوق طبع کے مطابق بعض الفاظ و تراکیب اور علامات کو اپنے شعری اظہار کا ذریعہ بناتے ہیں اور یہی رنگ و آہنگ ان کی شناخت قائم کرتا ہے۔سلیم انصاری نے بھی مٹی ،خاک،ہوا،شجر،دشت،صحرا،دریا،سمندروغیرہ کو اپنے کلام میں خوب برتا ہے۔چونکہ یہ مظاہر فطرت حقیقی دنیا کے عناصر ہیں جو اپنی خاصیت ،مزاج،اثرات،کیفیات کے اعتبار سے قابلِ فہم ہیں،لہٰذاجب شاعر انہیں اظہار کا ذریعہ بناتا ہے تو ان کی تمام جہات کی ترسیل قاری کے ذہن و قلب پر ہوجاتی ہے۔
مجھے جنگل بلاتا ہے کہ مجھ میں
بکھر جانے کو ہے بیتاب مٹی
منکشف ہوتانہیںمجھ پر جو رازِ کائنات
ایک پردہ میرے اس کے درمیان مٹی کا ہے
ذہن ودل میں روشنی مٹی سے ہے
میری فصلِ آگہی مٹی سے ہے
یوں تو میں خاک بسر خاک نشیں ہوں لیکن
میری مٹی تجھے مہتاب کیا ہے میں نے
میں اپنی خاک سے روشن ہوا جو صورت مشک
تمام موسمِ گل کا غرور خاک ہوا
کیا خوابِ جنوں کی مرے تعبیر کھلی ہے
آنکھوں میں نئے دشت کی تصویر کھلی ہے
پیاس کی شدت نے رکھا وحشتوں کو برقرار
تھک گیا آواز دے کر دشت میں پانی مجھے
دریا ہوں اور ازل سے رواں ہوں تری طرف
اے میرے مہربان سمندر مجھے سنبھال
شجر سے ٹوٹ کے گرنے کا غم نہیں لیکن
ملال یہ ہے مجھے در بہ د رہَوا نے کیا
مرے وجود کے اندر بھی ایک صحرا ہے
ترا وصال کہاں تک مجھے نمی دے گا
لہو کو ریت کیا اور مرے بدن کو سراب
اب اس سے بڑھ کے مجھے وہ عذاب کیا دیتا
نشیمن تو اجاڑے تھے ہوا نے
شجر سے فاختائیں لڑرہی ہیں
شجر تو کب کا کٹ کے گر چکا ہے
پرندہ شاخ سے لپٹا ہوا ہے
غزل کی کائنات ایک وسیع و عمیق کائنات ہوتی ہے جس کے ہر شعر میں الگ الگ دنیا آباد رہتی ہے۔غزل کا ہر شعر اپنے آپ میں مکمل اورتشفی بخش ہوتا ہے۔پہلے مصرعے کی تمہید دوسرے مصرعے کی تکمیل پر قاری کو لطف و انبساط کے جہان میں پہنچا دیتی ہے۔ مصرعہ اول کی تشنگی اور اشتیاق مصرعہ ثانی میںمعانی کی ترسیل کرتے ہوئے قاری کو خوشگواریت کا احساس
دلاتی ہے۔ گویا غزل کا فن دریا کی کوزہ گری کا فن ہے۔ لہٰذا شعراء حضرات افہام وترسیل اور اپنی انفرادی شناخت کے لئے مختلف صنائع و بدائع اور تشبیہات و استعارات کا استعمال کرتے ہیں تاکہ قدیم موضوع کو بھی نیا پیکر عطا کیا جاسکے اورموضوع کی نئی جہات بھی روشن ہوجائے ۔ اعلیٰ پائے کی شاعری صنائع و بدائع سے بہرہ ور ہوکر ہی معیاری تخلیق کے پیمانے پر پوری اترتی ہے۔سلیم انصاری نے بھی اسی روش کو اپناتے ہوئے اپنے اشعار میںمحاورات و تراکیب،تلمیحات،تشبیہات و استعارات کو بخوبی برتا ہے جس نے ان کی شاعری کو منفرد رنگ و آہنگ عطا کیا ہے اور ان کے لب و لہجے کو ندرت بخشی ہے۔انہوں نے اپنے شعری کائنات میں مختلف النوع صنعتوں کو پوری معنویت کے ساتھ برتا ہے۔
مکمل حسن تیرا ایک مصرعے میں نہیں آیا
سمندر تھا جو گھٹ کر میرے کوزے میںنہیں آیا
اب نہ وحشت سے تعلق نہ کسی پیاس سے ربط
پھر صدا دیتے ہیں کیوں دشت و سمندر مجھ کو
میں کہ اظہار ہوں اور قید ہوں اک پتھر میں
میرے اندر سے نکالے کوئی آذر مجھ کو
مجھے عزیز ہے صحرا کی تشنگی ورنہ
رگڑ کے ایڑیاں پانی نکال سکتا ہوں
آنکھوں سے گئے وقت کا اخبار لگاکر
ہم بیٹھ گئے پیٹھ سے دیوار لگاکر
کشادہ تو ہے دسترخوان پر ہم
شعورِ میزبانی کھورہے ہیں
ستاروں پر کمندیں ڈالنے کی
مری دیوانگی کم ہورہی ہے
یارب جنونِ عشق سے محروم رکھ مجھے
یا میری وحشتوں کو نئے ریگ زار دے
دوست اپنا یقین چاہتے ہیں
سانپ ہیں آستین چاہتے ہیں
بے فکر ہوں میں ریت میں سر اپنا چھپاکر
اب دشت ہی طوفاں کے گزرنے کی خبردے
آتا ہے اگر تجھ کو ہنر کوزہ گری کا
پھر چاک پہ مٹی کے سنورنے کی خبردے
مرے لفظوں میں مٹی کی مہک ہے
میں اپنے ملک میں اردو زباں ہوں
وقتِ آخر یوں غزل میری مکمل ہوگئی
موت ہی کو زندگی کا قافیہ سمجھا گیا
سلیم انصاری نے غزل کی مروجہ مزاج سے الگ اپنی شاہراہ بنائی ہے۔ان کی غزلوں میں محبوب کی کج ادائیاں،عشوہ طرازیاں یا حسن کی جلوہ سامانیاں نہیں ملتیں،نہ ہی عشق کی بے تابیاںنظر آتی ہیں۔عموماً غزل کو حسن و عشق کے بیان سے ہی موسوم کیا جاتا ہے اور روزِ اول سے غزل کایہی بنیادی مزاج قرار پایا۔لیکن سلیم انصاری نے عصری تقاضوں اور اپنے عہد کے تلخ حقائق کی پیشکش کو محبوب کی اداؤں کے ذکر پر ترجیح دی۔محبوب کا تصور ان کے یہاں خیال کو دلکشی اورلفظوں کو رنگینی عطا کرنے کے لئے محض ہے۔ان کے خیال میں بدن کا وصال روح کی موت ہوتی ہے۔پھول،جگنو،شفق،ستاروں کی طرح محبوب کا تصور اور اس کا لمس بھی ان کے یہاں تخیل کی بلند پروازی کے لئے ہے۔ انہوں نے اپنے اشعار کو انفرادی سطح سے بلند کر کے اجتماعی اظہارکا ذریعہ بنایا۔چنانچہ ان کے یہاں احساس ذات کے ساتھ اظہارِ کائنات کی بھی ترجمانی ملتی ہے۔ڈاکٹر خالد محمود نے جس مختصر اور جامع انداز میں سلیم انصاری کی شاعری کا تجزیہ پیش کیا ہے،اس سے صد فیصد اتفاق کیا جاسکتا ہے۔وہ لکھتے ہیں:
’’ان کی شاعری نئے ادبی منظرنامے سے منسلک ہونے کے باوجود
اپنی الگ پہچان بھی بتاتی ہے۔سیاسی اور سماجی سطح پر ناانصافی،نابرابری،یقین و بے یقینی کی کشمکش اور لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتِ حال،اعتبار و اختلاط کی فریب دہی اور اقدار و روایات کی شکست و ریخت جیسے ان گنت معاملات و مسائل ہیں،جن کا ردعمل ایک شاعر کے درون میں اضطراب برپا کرتا ہے۔ یہی اضطراب تخلیقِ شعر کا سرچشمہ ہے۔سلیم انصاری کا کلام اسی اضطراب کا فنی اظہار ہے۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.