سماجی سائنس میں کارل مارکس کا حصہ
اپنی شہرہ آفاق کتاب واس کیپٹل (سرمایہ) کو شائع کرتے وقت کارل مارکس نے اپنے ایک دوست کو لکھا تھا کہ یہ وہ کتاب ہے جس کی تصنیف میں میں نے اپنی صحت تباہ کی ہے۔ اور اپنی ان مسرتوں کو قربان کیا ہے جن کا ہر شخص اپنے بال بچوں سے اور اپنی زندگی سے متمنی ہوتا ہے اور کم و بیش حاصل کرتا ہے۔‘‘ (مکتوبات مارکس اینگلز، ترجمہ انگریزی ص۲۷۹)
انتہائی درجہ کا افلاس، بیماریوں کے بار بار حملے۔ دو دو ہونہار بچوں کی موت۔ دن رات کی محنت شاقہ سے محبوب بیوی کی صحت کی تباہی۔ گھربار کی ویرانی، دوستوں کی دشمنی، فاقے، تنگ دستی اور جلاوطنی، یہ تھی وہ قیمت جو کارل مارکس نے تیس سال کی ان تھک محنت کا حاصل اپنی اس سماجی سائنس کو وجود میں لانے کے لیے ادا کی تھی۔ جو کہ آج صحیح طور پر اس کے نام سے معنون مارکس ازم کہلاتی ہے۔ شاید کسی بھی چیز کا جنم، خواہ وہ سائنس ہی کیوں نہ ہو، انتہائی تکلیف دہ اور روح فرسا لمحوں کے بغیر نہیں ہوسکتا۔
مارکس، اینگلز نیز ان لوگوں کی محنت شاقہ کاحاصل، جنہوں نے کہ اول الذکر ہر دو مفکر انقلابیوں کے دریافت کردہ اصولوں اور کلیوں کی روشنی میں اپنے خیالات کو جلادی۔ آج ہمارے سامنے واقعات پر پرکھی ہوئی حقیقتوں کا ایک مجموعہ، بار بار کے تجربے سے استخراج کیے ہوئے نتائج اور ایک ایسا اسلوب، منہاجیات کا ایک ایسا ضابطہ بن کر موجود ہیں جن کی صداقت کا ثبوت آج تک کی سماجی تاریخ اپنے ہر دور میں ہر قدم کے ساتھ پیش کرتی آئی ہے۔ بنی نوع انسان کے ان محسنوں کی ودیعت آج ایک باضابطہ سماجی سائنس کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ اس کی روشنی ہمارے راستے کے اندھیرے کو دور کر رہی ہے۔ اس کی موجودگی میں اگر ہم آج بھی بھٹکتے پھریں۔ یا ان روڑوں سے ٹھوکریں کھاتے چلیں۔ جو ہمیشہ سماجی تبدیلیوں کے راستے کی الجھنیں پیش کیا کرتی ہیں۔ تو اس کی ذمہ دار ہماری اپنی کور چشمی ہوگی۔ روشنی کا فقدان نہیں۔ یہ مارکس اور اینگلز کی زندہ جاوید عظمت کا ثبوت ہے کہ انہوں نے ایک طرف تو مستقبل کے اس سماجی نظام کے بنیادی نقوش کا پتہ لگایا۔ اور ان کا اعلان کیا جو موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کی جگہ لے سکتا ہے۔ اور دوسری طرف ان بنیادی طریقوں اور اسلوبوں کو دریافت کیا جن کو رو بہ کار لاکر اس نئے نظام کو قائم کیا جاسکتا ہے۔ سماجی تبدیلیوں کی ہر تحریک کے لیے اس سائنس کا علم آج اتنا ہی ناگزیر ہے۔ جتنا ریاضی کے لیے ہندسوں کاعلم۔ نئے سماج تک پہنچنے کے لیے اس سائنس کی روشنی اتنی ہی ضروری ہے جتنا کہ محبت کے لیے باہمی اعتماد۔ اس کے بغیر ہماری ہر تحریک ان بھول بھلیوں میں الجھے بغیر، ان تباہ کن خندقوں میں گرے بغیر نہیں بچ سکتی۔ جن میں انگلستان کی چارٹسٹ تحریک سے لے کر ہمارے ملک کی ۵۷ء کی بغاوت اور دورِحاضرہ کی تینوں کانگریسی تحریکیں گرچکی ہیں۔ پچھلی نصف صدی میں پے درپے تجربہ کے بعد یہ بات اچھی طرح پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ سرمایہ دار درندوں کے خلاف بغاوت کی ہر انقلابی تحریک اس وقت تک نہ صرف کامیاب ہی نہ ہوسکی بلکہ انقلاب کا مقصد تک سمجھنے سے قاصر رہی جب تک کہ مارکس کے دریافت کردہ اصولوں کو اس نے نہیں اپنایا اور ان کی روشنی میں اپنا پروگرام مرتب نہیں کیا۔ ہرجگہ اور ہمیشہ، جہاں جہاں بھی مزدور تحریک نے ان اصولوں سے روگردانی کی ہے۔ ناکامیابی کے آنسو اور شکست کی تباہی ہی انجام کار اس بدنصیب کے حصہ میں آئی۔ تاریخ اس بات کا عملی ثبوت بہم پہنچا چکی ہے کہ آزادی کی جدوجہد میں محض اسی مزدور تحریک کو کامیابی نصیب ہوئی۔ جس نے سرمایہ دارانہ نظام میں اپنی جگہ اور اپنی طاقت کو پہچانا اور جس نے اپنے اندر اپنی ایک ایسی سیاسی پارٹی کو جنم دیا جو مارکس، اینگلز اور ان کے ذہنی ورثاء کے بتائے ہوئے اصولوں کی روشنی میں یہ سمجھنے کی صلاحیت رکھتی تھی کہ کس طرح سرمایہ داری کی خونی عمارت کو منہدم کیا جاسکتا ہے اور اس کی جگہ کس طرح سوشلزم کی دنیا آباد کی جاسکتی ہے۔
لیکن اس کے معنی ہرگز یہ نہیں ہیں کہ مارکس ازم پر ایمان لے آنا ہی مزدور تحریک کی کامیابی پرمہر صداقت ثبت کردینا ہے۔ وہ سماجی سائنس کے بنیادی اصول مارکس اور اینگلز کے مرہون منت ہیں۔ ابھی خود اپنے ابتدائی مرحلوں میں ہے اور ہرخوردسال سائنس کی طرح اپنے موضوع کو مناسب اور موزوں تضمین کے ساتھ معتبر اور ہمہ گیر کلیوں میں پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اس سائنس سے کام لینے کے لیے انتہائی ذہانت، مصمم ارادہ اور احتیاط کی ضرورت ہے۔ نہیں تو ذرا سی غلطی اس کے پیڑوں کو جرمنی کے مارکسی علماء کی طرح گڑھے میں گرادیتی ہے۔ تاہم اس کی اس خورد سالی کے باوجود بار بار کے تجربے نے جس بات کو پایہ ثبوت تک پہنچایا ہے۔ اور جو بات اب پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ اگرچہ یہ سائنس اپنے استعمال کرنے والوں کی کامیابی کے لیے ضامن نہیں بن سکتی۔ لیکن کوئی بھی ایسی منظم تحریک جس کی مراد موجودہ سماج کو تبدیل کرکے بہتر قسم کے سماج کا قائم کرنا ہو۔ اس وقت تک ہرگز بھی کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکتی۔ اور اپنی منزل مقصود پر نہیں پہنچ سکتی جب تک کہ وہ تحریک اس سائنس کی مدد نہ لے اور ا س کی روشنی سے اپنے راستے کو منور نہ کرے۔
اس جدید سائنس کو ہم آسانی سے ’’سماجی حرکیات‘‘ (Social Dynamics) کانام دے سکتے ہیں کیونکہ ان سائنسوں کے بخلاف جو کہ سماج کے موجودہ اداروں کی محض تشریح ہی کرتی ہیں۔ اور جن کو ’’سماجی سکونیات‘‘ (Social Statues) کہا جاسکتا ہے۔ یہ سائنس مقدم طور پر ان قوانین کے مجموعہ پر مشتمل ہے۔ جو کہ یہ بتاتے ہیں کہ سماج کے اندر تبدیلیاں کس طرح وقوع پذیر ہوتی ہیں؟ کیوں ہوتی ہیں؟ اور کس سمت میں ہوتی ہیں۔ ہم یہ پھر دہراتے ہیں کہ سماجی حرکیات ایک جدید ترین اور انتہائی خورد سالی سائنسوں میں سے ایک سائنس ہے۔ ایسی سائنس جس کے ابتدائی اصول کوئی نصف صدی کی بحث و تمحیص و چھان بین اور سماجی زندگی کے ہر شعبہ میں بے شمار تجربوں کے بعد حال میں ہی مصدقہ اور مسلمہ مانے جانے لگے ہیں۔ حیاتیات اور طبیعات کے مقابلے میں یہ سائنس آج بھی اپنی ابتدائی نشوونما کے دور میں سے گزر رہی ہے۔
مذکورہ بالا دونوں سائنس یعنی حیاتیات اور طبیعات اپنے اپنے دعووں کی مخالفت کا جو دوربہت پہلے عبور کرچکی ہیں۔ یہ جدید سائنس آج مخالفت کے اس دور میں سے گزر رہی ہے۔ اس کا یہ دعویٰ کہ اس نے ایسے نسبتاً معتبر اور عام قوانین دریافت کرلیے ہیں جو کہ سماجی زندگی کی جملہ مدرکہ اشیاء کے باہمی تعلقات پر موثر حامل ہیں، ابھی کل تک شدید مخالفت کا موضوع بنا ہوا تھا۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح کہ اس سے پیشتر سترھویں صدی کے طبیعات دانوں کا یہ دعویٰ کہ وہ قوانین جو کہ مادہ کی خصلت پر قادر ہیں غیر تغیرپذیر ہیں اور دریافت کرلیے گئے ہیں۔ طبیعات دانوں کے اس دعوے نے اس سے پیشتر کے تمام نظریوں پر خصوصاً ان نظریوں پر جو کہ دینیات کی بنیادوں پر قائم تھے ایک کاری ضرب پہنچائی تھی اور جو اب میں شدید ترین مخالفت اور غصہ کے جذبات برانگیختہ کردیے تھے۔ وہی دینیاتی مفکر جو کہ رفتہ رفتہ اس بات کو ماننے لگے تھے۔ کہ بے جان مادہ اپنے عام قوانین کے ماتحت باقاعدگی کے ساتھ ایک ایسے طریقے پر اپنے ا وصاف کا اظہار کرتا ہے جس کا اندازہ پہلے سے لگایا جاسکتا ہے۔ انیسویں صدی کے حیاتیات دانوں کے اسی قسم کے اس دعوے کی تردید اور مخالفت میں پوری شدت کے ساتھ میدان میں ڈٹ گئے تھے کہ جاندار مادہ کے متعلق بھی ایسے ہی نسبتاً معتبر اور عام قوانین دریافت کیے جارہے ہیں، جن کے مطابق ہر جاندار مادہ باقاعدگی کے ساتھ اپنے اوصاف کااظہار کیاکرتا ہے۔ لیکن مارکسی نظریے کے اس دعوے نے کہ ایسے نسبتاً معتبر عام اور مستقل قوانین کا استخراج کرنا ممکن ہے جن کی مدد سے یہ معلوم کرنا مشکل نہیں کہ انسانی سماج کس طرح وجود میں آیا۔ کس طرح اس نے نشو و نما پائی، کس طرح اور کیوں ارتقا ءکی مخصوص منزلوں کو اس نے عبور کیا۔ کن وجوہات سے کس سمت میں یہ بڑھتا ہے۔ اور کون سے کون سے وجوہات اس کو انحطاط کی طرف لے جاتے ہیں۔ مخالفین کے اندر جذبات کی جو برانگیختگی اور مخالفت کی جو شدت پیدا کی ہے۔ اس کے مقابلے میں حیاتیات اور طبیعات کی مخالفت بالکل ہیچ معلوم ہوتی ہے۔
لیکن اپنی ان تمام مخالفتوں کے باوجود، سماجی حرکیات کی یہ خورد سال سائنس رفتہ رفتہ علمی اور عملی دنیا میں اپنے لیے جگہ بنارہی ہے۔ ٹھیک اسی طرح اور انہیں وجوہات سے جن کی بنا پر حیاتیات، طبیعات وغیرہ سائنسوں نے اپنے لیے جگہ بنائی تھی۔ نیوٹن اور اس کے ہم عصروں کے دریافت کردہ اصول، لوگوں نے دیکھا کہ نہ صرف منطقی طور پرہی درست ہیں بلکہ ان کی مدد سے بہت سی باتوں کے متعلق صحیح صحیح پیشین گوئی بھی کی جاسکتی ہے، مثلاً یہ بتایا جاسکتا ہے کہ سورج یا چاند گرہن کب ہونے والا ہے؟ ساتھ ہی ان اصولوں کی مدد سے بہت سے فطری امور پر قابو بھی پایا جاسکتا ہے۔ مثلاً ان اصولوں کے مطابق حساب لگاکر یہ ٹھیک ٹھیک بتایا جاسکتا ہے کہ کسی خاص زاویے پر ایک خاص طاقت سے پھینکی ہوئی چیز، جیسے کرکٹ کی گیند کس خاص مقام پر گرے گی۔ اس مقام کی ٹھیک ٹھیک نشان دہی کرنا، ان اصولوں کی مدد سے ممکن ہی نہیں بلکہ بہت آسان بھی ہے (میلوں کے فاصلے سے بلانشانہ دیکھے آج آسانی کے ساتھ ہم ٹھیک نشانہ پر توپ کا گولا مارسکتے ہیں) ڈارون اور اس کے بعد کے حیاتیات دانوں کے دریافت کردہ قوانین کے اندر بھی اپنے موضوع کے متعلق یہی خوبی پائی گئی جس کی بنا پر ان کے سامنے بھی مخالفین سرجھکانے کے لیے مجبور ہوئے۔ آج مارکس اور اینگلز کے دریافت کردہ سماجی حرکیات کے قوانین بھی اپنے اندر ٹھیک اسی قسم کی صلاحیتوں کا ثبوت پیش کر رہے ہیں۔ ان قوانین کی مدد سے آج یہ ممکن ہوگیا ہے کہ سماجی واقعات کے متعلق پیشین گوئی کی جاسکے اور اسی لیے یہ بھی ممکن ہوگیا ہے کہ موزوں حالات پیدا کرکے ان واقعات پر قابو پایا جاسکے۔
مارکس اور اینگلز کو نیوٹن اور ڈارون کے زمرے میں شمار کرنے سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کے زمانہ کی طبیعات اور حیاتیات کی طرح سماجی حرکیات کی سائنس بھی ابھی ادھوری اور نامکمل ہے۔ لیکن اس حقیقت کے اعتراف سے اس جدید سائنس کی عظمت میں شمہ برابر بھی فرق نہیں آتا۔ کیونکہ اس عظمت کو سمجھنے کے لیے ہمیں کسی سائنس کے بچپن اور شباب کے درمیان مقابلہ نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ مقابلہ کرنا چاہیے کسی سائنس کے وجود اور عدم وجود کے درمیان۔ اس میں شک نہیں کہ کائنات کے متعلق آئین سٹائین کا نظریہ نیوٹن کے کائناتی نظریے سے کہیں زیادہ تکمیل یافتہ اوربہتر ہے۔ لیکن نیوٹن نے جس عظمت کا ثبوت اپنے ان قوانین کو اس وقت دریافت کرکے دیا تھا جب کہ اس قسم کی کسی سائنس کا وجود ہی نہ تھا۔ آئین اسٹائین کی عظمت سے جس کے سامنے کہ نیوٹن کے قوانین موجود تھے۔ کہیں زیادہ برتر اور رفیع الشان ہے۔ سماجی حرکیات کی سائنس جوں جوں بڑھتی اور ترقی کرتی جائے گی۔ یہ زیادہ سے زیادہ مکمل اور ہمہ گیر ہوتی جائے گی۔ جیسی کہ فی الحقیقت یہ آج ہوتی جارہی ہے اور اپنے موضوع کے تمام مظاہرات کی گتھیوں کو سلجھاسکے گی۔ لیکن اپنی اس ترقی کے باوجود اس سائنس کے بنیادی اصول انہی بنیادی قوانین کے سہارے بیل چڑھیں گے جو کہ اس کے رفیع الدرجات ہادیوں نے اس کے ابتدائی محققوں نے دریافت کیے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ یہ سائنس اپنی نشوونما اور ترقی کے ساتھ اپنے بنیادی نظریوں کو بھی ارتقاء کی طرف لے جائے گی۔ لیکن اس عمارت کی بنیادیں بہرحال وہیں بنیادیں رہیں گی جن کو مارکس اور اینگلز کی غیرمعمولی کاوشوں نے تیار کیا ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح کہ دورحاضرہ کی حیاتیات ڈارون کے نظریوں کی بنیاد پر قائم ہے۔
مارکس اور اینگلز کی تعلیمات کے متعلق جو دعویٰ یہاں پیش کیا جارہا ہے وہ یہ نہیں ہے کہ انہوں نے عمرانیات کی کسی سائنس کو مکمل کیا ہے۔ جو دعویٰ یہاں پیش کیا جارہا ہے وہ اس دعوے کی نسبت کہیں بڑھ چڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ انہوں نے اس سائنس کو مرتب کرنے کی پیش قدمی کرکے وہ معرکتہ الآرا اور انتہائی دشوار کام کیا ہے جس کے لیے ایک غیرمعمولی ذہانت درکار ہوا کرتی ہے۔ اور جس کے بغیر کوئی بھی علم صحیح علم کا درجہ حاصل نہیں کرسکتا۔ ان دو مفکروں اور باعمل عالموں نے تاریخ میں پہلی بار سماجی زندگی کے متعلق تحقیق اور تدقیق کے سلسلے میں سائنس کا بنیادی اسلوب استعمال کیا ہے۔
سائنس کا بنیادی ا سلوب کیا ہے۔
سائنس کا بنیادی اسلوب پروفیسر ہالڈین کے الفاظ میں یہ ہے کہ اس کائنات میں ہر سالمہ (WOLECULE) خواہ وہ کیسا ہی اور کسی بھی شکل کا کیوں نہ ہو۔ اپنی بساط سے زیادہ قوت (انرجی) پاکر تغیرپذیر اور بے توازن ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حرارت جو کہ سالماتی حرکت (Molecular Mason) کی تیزی کا ہی دوسرا نام ہے۔ تقریباً تمام کیمیائی تبدیلیوں کی رفتار کو تیز کر ڈالتی ہے غرض یہ کہ ہر وہ سالمہ جس کے اندر اس کے مخصوص حدتغیر سے زیادہ انرجی (قوت) پیدا ہوجائے یا سالموں کا ہر وہ جوڑا جو ایک مخصوص قوت کی نسبت زیادہ زور سے آپس میں ٹکرائے لامحالہ طور پر اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرلیتا ہے۔ یہ زاید انرجی جو کہ تبدیلیاں پیدا کیا کرتی ہے۔ کبھی حرارت سے پیدا ہوتی ہے کبھی روشنی سے اور کبھی دوسرے سالمے کی حرکت سے۔ طیف پیمائی (Specfror Copy) کے ذریعے جس سے کہ یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ سالمے کس طرح ہر قدم پر انرجی حاصل کرتے ہیں اور پھر رہا کرتے ہیں۔ ہم بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ کسی سالمے کے اندر کیا کیا کیمیائی تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ اور ان تبدیلیوں کی رفتار کیا ہے۔
تبدیلیوں کا یہ اصول ہرجگہ کارفرما ہے۔ مشین کا دھرا جب رفتار کی ایک خاص حد پر پہنچ جاتا ہے تو اس کے بعد وہ اپنے محور کے گرد یکسانی سے نہیں گھومتا بلکہ بے توازن ہوکر باہر کی طرف کو جھکنے لگتا ہے۔ ہمارا سماج بھی اسی قسم کے وجوہات سے بے توازن بنا ہوا ہے۔ ہمارے سماج کی پیداواری طاقتیں چونکہ ہمارے سماج کے پیداواری تعلقات کی بساط سے بہت زیادہ بڑھی ہوئی ہیں۔ اسی لیے آج یہ بحرانوں کے چکر میں پھنسا ہوا ہے۔
ٹھیک اسی طرح جب ٹی۔ این۔ ٹی نامی مادہ آتش گیر کے ایک سالمہ میں حرارت پیدا ہوجاتی ہے تو اس کی انرجی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ اس کے جوہر (OTOMS) اپنی مخصوص ترتیبی ساخت کو قائم نہیں رکھ سکتے۔ لیکن انہی جوہروں کی ترتیب کو اگر بدل دیا جائے تو یہ نہ صرف ٹی۔ این۔ ٹی کے گرم سالمے کی ہی انرجی کو اپنے اندر سنبھال سکتے ہیں۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ انرجی کے حامل ہوسکتے ہیں۔ جیسے کہ نائیٹروجن اور کاربن ڈایوکسائیڈ کے جوہر۔ لیکن جوہروں کی وہ ترتیب جو کہ ٹی۔ این۔ ٹی کے سالمے کو مرتب کرتی ہے۔ اس بڑھی ہوئی انرجی کو برداشت نہیں کرسکتی۔ چنانچہ حرارت پاتے ہی وہ دفعتاً اور بڑے زور کے ساتھ خود کو تبدیل کرلیتی ہے اس کی تبدیلی کا یہی عمل دھماکے سے پھٹنے کا عمل ہوتا ہے۔
تمام نیچر چونکہ ایک ہے۔ اس لیے اس کو سمجھنے کے لیے سائنس کا اسلوب بھی ایک ہی ہے۔ اب اس اسلوب کو خواہ چٹانوں کو سمجھنے کے لیے استعمال کیا جائے خواہ پھولوں کو خواہ جراثیم کی دنیا پر اس کو استعمال کیا جائے۔ اور خواہ بینکروں اور مل کے مالکوں کی دنیا پر۔
مارکس اور اینگلز کی عظمتِ دوام اسی راز میں مضمر ہے کہ انہوں نے سائنس کے اس بنیادی اسلوب کو انسانی سماج پر بھی اسی طرح منطبق کیا، اسی طرح کہ ان سے پیشتر یہ جمادات، نباتات اور کائنات کے دیگر عناصر پر استعمال کیا جارہا تھا۔ انہوں نے معتبر تاریخی واقعات اقتصادی مواد اور فلسفیانہ نظریوں کو جو کہ تاریخ کے دامن میں صدہا سال سے جمع ہوتے جارہے تھے۔ ٹھیک طرح مرتب کیا، تولا، کلیے قائم کیے اور ان کے باہمی تعلقات کے ان عام قوانین کو دریافت کیا جو کہ ان سب کے اندر معتبر طور پر داخلی خصوصیت کی شکل میں موجود ہیں۔ ان دو مفکروں کی دور رس اور جزرس نگاہوں نے سماجی زندگی کے مظاہرات میں وہ باہمی تعلق دریافت کیا جس کے بغیر یہ سماجی زندگی ایک الجھا ہوا معمہ بنی ہوئی تھی۔ اور جب ایک بار یہ تصدیق ہوگئی کہ ایک قسم کی مدرکہ شے لامحالہ طور پر دوسری قسم کی مدرکہ شے سے وابستہ ہوتی ہے اور ان دونوں کے درمیان علتی (CANSAL) کڑیاں یعنی ایسی کڑیاں جو کسی معلول کی علت ہوں ایک دوسرے سے جڑی رہتی ہیں۔ تو پھر یہ مشکل نہ رہا کہ تاریخی اور عمرانی رجحانات کے متعلق ان کے نتیجوں اور ان کے مستقبل کی پیشن گوئی کی جاسکے۔ بشرطیکہ ان رجحانات میں کسی قسم کی کوئی دخل اندازی نہ ہو اور ساتھ ہی یہ بھی ممکن ہوگیا کہ ان رجحانات کے اندر مناسب دخل اندازی کرکے سالمے کے جوہر وں کی ترتیب کی طرح ان کی علتوں کو بدل کران سے موزوں اور حسب منشا نتائج حاصل کیے جاسکیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.