سر زمین خسرو ایٹہ کے الماس
شہرو ں کی اقداری، جمالیاتی خودکشی—!
مادیت، صارفیت زدہ معاشرے میں تہذیب، تخلیق کی خودکشی شاید کوئی معنی نہیں رکھتی۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے علاقے تہذیبی، تخلیقی شناخت کے حوالوں سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کی صرف جغرافیائی شناخت زندہ ہے۔ ایسے شہر بدنصیب کہلاتے ہیں جن کے افراد اعدادی نظام کے اسیر ہوتے ہیںاور اعشاریے سے جن کی پہچان ہوتی ہے۔
شہروں سے اظہارات کی شکلیں معدوم ہو جائیں تو شہر کی طرز و روش بھی تبدیل ہو جاتی ہے۔ ایسے میں کئی سوالات ہیں جو ذہن کے دروازے پر دستک دینے لگتے ہیں۔
n شہروں کے حیاتیاتی ارتقا یا نمو کا انحصار کن اشیا پر ہے؟
n شہروں کی زندگی کی سطحیں اور معیارات کیا ہیں؟
n شہروں کی حیات کا منبع و مرکز کیا ہے؟
n کیا شہر ان اجناس میں زندہ ہیں جو وہاں کی زمینیں اپنی کھوکھ سے اگلتی ہیں؟ یا ان اینٹوں میں جو شہر کو شکل و صورت تو عطا کرتے ہیں مگر اس کی سیرت کی تشکیل نہیں کر پاتے—
ان سوالات کا تعلق جنگل اور شہر کی شناخت اور تشخص سے ہے اور دونوں کے مابین حد فاصل سے بھی— شہر اور جنگل کے درمیان نقطہ امتیاز تخیل ہے یا تخلیق۔ تخیل اور تخلیق کے چراغوں سے ہی انسانی آبادیوں کو روشنی اور توانائی ملتی ہے اور اگر زمین کا باطن اس روشنی سے عاری ہو تو وہ زمین بنجر اور ویران کہلاتی ہے۔
آباد زمینوں میں چراغ ہمیشہ روشن رہتے ہیں کہ شہر کے باطن کو ان ہی چراغوں سے تابناکی نصیب ہے۔ زمینوں کی عظمتیں تاریخ و ثقافت کے روشن سلسلوں سے مربوط و مشروط ہوتی ہیں۔ یہ سلسلے اندھیروں میں گم ہو جائیں تو ایسے شہروں کو عظمتوں کا سورج نصیب نہیں ہوتا اور شہرتوں کے ستارے بھی روٹھ جاتے ہیں۔
ایٹہ بھی شاید ایسا ہی ایک شہر ہے جو تاریخ و تہذیب کے تحفظ کے باب میں بیدار نہیں ہے اور اس عدم بیداری کی وجہ سے تہذیبی، تخلیقی سطح پر اس شہر سے تنقیدی نوعیت کا رشتہ قائم کر پانا آسان نہیں ہے کہ وہ منظرنامے جو کبھی اس کے طالع بیدار کا حصہ رہے ہوں گے، اب آنکھوں سے اوجھل ہیں جبکہ جن قصبات و مضافات سے اس شہر کی تشکیل ہوئی ہے، ان میں تہذیب و تخلیق کے سلسلے روشن ہیں۔ ایٹہ کی آغوش میں کچھ ایسے علاقے ہیں جو قومی سطح پر شہرت اور شناخت کے حامل ہیں۔ مارہرہ، گنج ڈنڈوارہ، کاس گنج اور جلیسر— اپنی تہذیبی وراثت، ثقافت اور شعر و سخن کے حوالے سے خاصے معروف ہیں۔ مارہرہ تو ایسا خطہ ہے جہاں کے آفتاب و ماہتاب سے عرفان و تصوف کی کائنات بھی روشن ہے کہ یہ زمین تصوف کے ایک نئے سلسلے ’برکاتیہ‘ کا نقطہ آغاز ہے اور جہاں کی زیارت کی آرزو غالب جیسے عظیم شاعر نے بھی کی تھی۔ کاس گنج بھی افسانے کے حوالے سے ایک روشن نام ہے اور جلیسر شاعری کے باب میں یوں تابندہ ہے کہ وہاں سے کچھ ایسے شعرا کا بھی رشتہ ہے جن کی شہرت ملک سے باہر بھی ہے۔ کچھ اور علاقے بھی ہیں جو ایٹہ کے دامن کو جواہر سے مالامال کیے ہوئے ہیں ،ان ہی میں ایک قصبہ پٹیالی بھی ہے جسے امیر خسرو کا مولد و موطن ہونے کا شرف اور سعادت حاصل ہے۔ یہ شہر بدنصیب ایٹہ کی بہت بڑی خوش نصیبی ہے کہ خسرو جیسے عظیم صوفی شاعر کے ابتدائی شب و روز اسی شہر کے موسم و ماحول میں گزرے ہیں اور یہیں کی فضا نے ان کے ابتدائی شعور کی تشکیل کی ہے۔
ابوالحسن یمین الدین خسرو (1325-1253) اس ایک شخص میں کتنی جہتیں کتنے زاویے تھے۔ بابائے قوالی، ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کے ماہر، موسیقی میں خیال اور ترانے کے موجد، طبلہ کی ایجاد بھی ان ہی سے منسوب ہے، فارسی اور ہندوی دونوں زبانوں میں قادر الکلام، اصناف (غزل، مثنوی، قطعہ، رباعی، دوبیتی) میں طبع آزمائی کی ہے۔ یہ ایک ایسی جامع شخصیت تھی کہ بہت سی زمینیں بھی مل کر ایسے جامع الکمالات ہستی پیدا نہیں کر سکتیں۔ علامہ شبلی نعمانی نے صحیح لکھا ہے کہ ’’ہندوستان میں 600 برس سے آج تک اس درجہ کا جامع کمالات انسان پیدا نہیں ہوا اورسچ پوچھو تو اس قدر مختلف اور گوناگوں اوصاف کے حامل انسان ایران اور روم کی خاک نے بھی ہزاروں برس کی مدت میں دو ہی چار پیدا کیے ہوں گے۔ صرف ایک شاعری کو لو تو ان کی جامعیت پر حیرت ہوتی ہے۔ فردوسی، سعدی، انوری، عرفی، نظیری، بے شبہ، اقلیم سخن کے بادشاہ ہیں لیکن ان کی حدود حکومت ایک اقلیم سے آگے نہیں بڑھتی۔ فردوسی مثنوی سے آگے نہیں بڑھ سکتا، سعدی قصیدے کو ہاتھ نہیں لگا سکتے، انوری مثنوی اور غزل کو چھو نہیں سکتا، حافظ، عرفی، نظیری غزل کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکتے لیکن امیر خسرو کی جہان گیری میں غزل، مثنوی، قصیدہ، رباعی سب کچھ داخل ہے اور چھوٹے چھوٹے ہائے سخن یعنی نظم مستزاد، صنائع بدائع کا کوئی شمار نہیں۔ نثر کی کتابیں الگ ہیں ان پر مستزاد یہ کہ اوحدی نے ’تذکرہ عرفات‘ میں لکھا ہے کہ ’امیر خسرو کا کلام جس قدر فارسی میں ہے، اسی قدر برج بھاکا (ہندوی) میں ہے۔‘‘
امیر خسرو کا تعلق ترکی کے ہزارہ لاچین قبیلے سے تھا مگر ان کے والد بلخ افغانستان سے ہندوستان آئے اور یہاں کے شاہی دربار سے وابستہ ہو گئے۔ عماد الملک کی صاحبزادی سے ان کی شادی ہوئی اور انہی سے 651ھ میں امیر خسرو پیدا ہوئے۔ امیرو خسرو کا مولد و موطن ضلع ایٹہ کا پٹیالی ہے، جو کبھی گنگا کنارے آباد تھا۔ جسے مومن آباد یا مومن پورہ بھی کہتے تھے۔ امیر خسرو نے 1260ء میں پٹیالی سے دلی کا رخ کیا اور یہیں کے شاہی دربار سے وابستہ رہے۔ درباری شاعر کی حیثیت سے ان کی پہلی ملازمت بلبن کے بھتیجے ملک چھجو کے یہاں تھی۔ امیر خسرو واحد ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے 11 بادشاہوں (غیاث الدین بلبن، معز الدین کیقباد، کیومرث، جلال الدین فیروز شاہ خلجی، رکن الدین ابراہیم، علائوالدین خلجی، شہاب الدین، قطب الدین مبارک شاہ، ناصر الدین خسرو خاں، غیاث الدین تغلق شاہ، محمد تغلق) کا زمانہ دیکھا اور 7 بادشاہوں (شہزادہ محمد سلطان، معز الدین کیقباد، جلال الدین فیروز شاہ، علائو الدین خلجی، قطب الدین مبارک شاہ، غیاث الدین تغلق، محمد تغلق) کی ملازمت کی۔ امیر خسرو حضرت نظام الدین اولیا کے محرم اسرار تھے اور انہی کی صحبتوں کے فیض میں انہیں طوطی ہندکا خطاب عطا ہوا اور کلام میں قدرت نے اتنی شیرینی اور مٹھاس بھر دی کہ نغمہ خسرو آج بھی زندہ و تابندہ ہے۔ یہی طوطی ہند وہ ہندی نژاد فارسی شاعر ہے جس نے خمسہ نظامی کا سب سے بہتر جواب لکھا اور فارسی شاعری میں وہ مقام حاصل کیا کہ آج بھی بڑے بڑے ایرانی شعرا ان کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں۔ خاص طور پر ان کے خیال میں جو ندرت، جدت اور اختراع ہے اس کو سبھی تسلیم کرتے ہیں۔ امیر خسرو کی طبیعت مجتہدانہ تھی اس لیے انہوں نے نہ کبھی دوسروں کی خاک سے تیمم کیا اور نہ ہی دوسروں کی روٹی سے اپنا دسترخوان سجایا۔ انہوں نے اپنی ایک الگ راہ نکالی ’قلب اللسانین، وصل الحرفین، ردیف المعنتین‘ جیسے تجربے کیے اور فکری سطح پر دیکھا جائے تو امیر خسرو آج بھی اپنے تکثیری تشخص (Pluralistic Identity) کے ساتھ برصغیر کے اجتماعی حافظے میں زندہ و تابندہ ہیں۔ امیر خسرو کشادہ ذہن و فکر کے حامل شخص تھے اسی لیے انہوں نے اس کثیر لسانی اور کثیر ثقافتی معاشرے میں کسی طرح کی مذہبی سرحدیں قائم نہیں کیں اور نہ ہی کوئی ایسی لکیر کھینچی جو دو قوموں کے درمیان فاصلے یا فرق کا نشان بن سکے۔ امیر خسرو ہی نے کہا تھا
کافر عشقم مسلمانی مرا درکار نیست
ہر رگ من تار گشتہ حاجت زنار نیست
(مجھ عشق کے مارے کافر کو مسلمانی کی ضرورت نہیں، میری ہر رگ تار بن گئی ہے اس لیے مجھے ضرورت زنار ہی نہیں۔)
امیر خسرو کو ہندوستان سے بے پناہ محبت، عقیدت اور والہانہ شیفتگی تھی کہ انہوں نے ہندوستان کو جنت قرار دیتے ہوئے اس کی افضلیت کے حق میں 10 دلیلیں پیش کیں۔ انہوں نے ہندوستانی علوم و فنون کی نہ صرف ستائش کی بلکہ یہاں کے علما و فضلا کی نکتہ رسی کو مبارزانہ لہجے میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا:
برہمنی ہست کہ در علم و خرد
دفتر قانون ارسطو بدرد
(یہاں ایسے پنڈت ہیں کہ علم و حکمت میں یونانی فلسفی ارسطو کا دفتر بھی چاک کر دیں) اور یہ بھی فرمایا:
رومی ازاںگونہ کہ افگندہ بروں
برہمناں را ہست ازاں مایہ فزوں
(رومیوں سے زیادہ برہمنوں کے پاس علوم محفوظ ہیں۔)
امیر خسرو نے ہندوئوں کو نہ صرف توحید پرست قرار دیا ہے بلکہ دونوں کے عقیدوں میں مماثلت اور مشترکات کے عناصر بھی دریافت کیے ہیں:
عیسویاں روح ولد بستہ برو
ندو ازیں جنس نہ پیوستہ برو
(عیسائیوں نے اپنے عقیدے میں روح اور فرزند کو بھی شامل کیا مگر ہندوئوں کے یہاں ایسا نہیں ہے۔)
اختریاں ہفت خدا کردہ یقیں
ہندویٔ توحید سرا منکر ازیں
(ستارہ پرست سات خدائوں پر یقین رکھتے ہیں لیکن اہل توحید ہندو سات خدائوں سے انکار کرتے ہیں۔)
عنصریاں چار خدا بردہ گماں
گفتہ یکی ہندو ثابت بہماں
(عنصری فرقے کے خیال میں خدا چار ہیں مگر ہندو ایک خدا کو مانتے ہیں اور توحید کے قائل ہیں۔)
امیر خسرو کے ذہنی، فکری نظام کے جمال کا آئینہ وہ اشعار بھی ہیں جن میں حکمت و دانش کی ایک دنیا آباد ہے۔ ایسی ذہنی فراخی اور فرخی بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ امیر خسرو فرماتے ہیں
نیست آں مردانگی کاندر غزا کافر کشی
در صف عشاق خود را کشتن از مردانگی است
(جہاد میں کافر کو مارنا مردانگی نہیں ہے۔ ہمارے قبیلہ عاشقاں میں مردانگی یہ ہے کہ آدمی اپنے نفس کو مارگرائے۔)
موجودہ عالمی تناظر میں جب کہ جہاد اور دہشت گردی کی حدیں ایک دوسرے سے مل گئی ہیں اور قتل عام کا ایک سلسلہ سا جاری ہے، امیر خسرو کے اس شعر کی معنویت اور بڑھ جاتی ہے۔ اسی طرح امیر خسرو کہتے ہیں
بہ شہر ایں مثل شہرہ عالم است
کہ ہر کس ہنر بیش روزی کم است
(یہ مثل دنیا میں زبان زد ہے کہ جس کے پاس ہنر زیادہ ہے اس کی روزی کم ہوتی ہے۔)
مُرد نامرد برگنج ازپئی قدرت
کشدمرد از میان سنگ یاقوت
(روزی کے لیے نامرد خزانوں پر اپنی جان چھڑکتا ہے جبکہ مرد پتھروں سے یاقوت نکالتا ہے۔)
سگ چوشد آسود نشیند زجوش
مردم آسودہ شد فتنہ کوشی
(آسودہ کتا خاموش اور چپ چاپ بیٹھا رہتا ہے مگر آسودہ آدمی فتنہ پرور ہو جاتا ہے۔)
دہ پسر از یک پدر آسودہ گشت
یک پدر ازدہ پسر افند بدشت
(ایک باپ کی بدولت دس بیٹے خوش و خرم رہتے ہیں مگر ایک باپ دس بیٹوں کے ہوتے ہوئے بھی کسمپرسی میں رہتا ہے۔)
بہ معشوق یک شب چہ باشیم شادم
کہ مہمان غیرے شود بہ امداد
(ایک رات کے معشوق سے مل کر کیا خوشی ہو کہ وہ اسی طرح کل کسی اور کا پہلو گرم کرے گا۔)
امیر خسرو کی شاعری میں جہاں دانش کا خزانہ ہے وہیں ان کے یہاں رومانی سرشاری بھی ہے اور وہ سوز دل بھی ہے جس سے عاشقوں کو زندگی نصیب ہوتی ہے۔ امیر خسرو فرماتے ہیں:
شب ہائے عاشقاں را شمع مراد نہ بود
از سوز خویش بیند پروانہ روشنائی
(عاشقوں کی راتیں چراغ سے بے نیاز ہوتی ہیں۔ پروانہ اپنے سوز سے اپنی روشنی پیدا کرتا ہے۔)
اور یہ سچ ہے کہ امیر خسرو ایسے پروانہ تھے جنہوں نے اپنے سوز سے ایسی روشنی پیدا کی کہ اس میں تاریکی کا گزر بھی محال ہے۔ ان کی ہر فکر میں روشنی ہے اور ہر احساس میں نور ہے
نمی دانم چہ منزل بودشب جائے کہ من بودم
بہر سو رقص بسمل بود شب جائے کہ من بودم
آج بھی جب کانوں کو سنائی دیتا ہے تو رات روشنیوں سے معمور نظر آتی ہے۔
امیر خسرو نے ہر صنف میں تجربے کیے اور گراں قدر تصانیف سے اردو دنیا کو احساس دلایا کہ وہ کتنے قادر الکلام ہیں۔ ’تحفۃ الصغر، وسط الحیاۃ، غرۃ الکمال، بقیہ نقیہ، قصہ چہار درویش، قران السعدین، مثنوی دول رانی خضر خاں، مفتاح الفتوح، تغلق نامہ، خمسہ خسرو، خزائن الفتوح، دلائل الاعجاز، افضل الفوائد‘ اس کے علاوہ مثنوی ’نہ سپہر‘ جو کہ 9 ابواب پر محیط ہے اور اسی لیے ’نو سپہر‘ یعنی 9 افلاک کے نام سے مشہور ہے۔ اسی مثنوی میں امیر خسرو نے ہندوستان کی فضیلت کی 10 دلیلیں پیش کی ہیں۔ امیر خسرو ایک شاعر اور صوفی کی حیثیت سے لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہیں اور حضرت نظام الدین اولیاء کی قبر کی پائتی میں مدفون ہو کر مرجع خلائق ہیں۔ ان کا نغمہ تاقیامت ہمارے معاشرے میں روشنی اور شیرینی بکھیرتا رہے گا۔
امیر خسرو کی سرزمین ایٹہ کا ہی ایک روشن خطہ ’مارہرہ‘ ہے جو اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ یہاں تصوف کے برکاتیہ سلسلے کا آغاز ہوا۔ شاہ برکت اﷲ، جو کہ میر عبدالجلیل بلگرامی کے پوتے تھے، انہوں نے اس سلسلے کی بنیاد ڈالی اور شاہ برکت اﷲ برج اور فارسی کے ایک ممتاز شاعر تھے، جن کا مجموعہ ’پریم پرکاش‘ کافی مشہور ہے۔ وہ عشقی مارہروی کے نام سے معروف ہیں۔ انہوں نے اپنی تصنیف میں محاورات کی صوفیانہ تشریح کی ہے۔ ’عوارف ہندی‘ ایسی ہی ایک کتاب ہے جو محاورات کی توضیحات پر محیط ہے۔ مشہور ضرب الامثال’ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، ننگی نہائے تو کیا نچوڑے، آم کے آم گٹھلی کے دام، دلی کی دل والی منھ چکنا پیٹ خالی‘ اس طرح کے ضرب الامثال کی انہوں نے وجدانی تشریح کی ہے۔ شاہ برکت اﷲ عشقی کا برکاتیہ سلسلہ بہت دور دور تک پھیلا۔ شاہ آل محمد جو سرکار کلاں کے نام سے مشہور ہوئے، سید شاہ حمزہ، جنہوں نے ’کاشف الاستار اور فص الکلمات‘ جیسی کتابیں لکھیں۔ سید شاہ آل احمد اچھے میاں، اس کے علاوہ اور بہت سی شخصیات اس خانقاہ سے جڑی ہوئی ہیں۔ سید میاں مارہرہ کے ممتاز شاعر تھے، جن کی کئی کتابیں مشہور ہیں۔ اس خانقاہ کی برکات اور فیوض سے صرف وہاں کے عوام نہیں بلکہ اطراف و اکناف کی خلقت فیضیاب ہوتی ہے۔ اسی خانقاہ کی وجہ سے مارہرہ کو تصوف کے سلسلہ میں مرجعیت اور مرکزیت حاصل ہے۔ خانقاہ برکاتیہ کے زیر اہتمام تعلیمی اداروںکے جو سلسلے ہیں وہ قابل تحسین ہی نہیں قابل رشک بھی ہیں۔ پروفیسر سید امین میاں قادری کا تعلق بھی اسی خانقاہ برکاتیہ سے ہے، جنہیں حال ہی میں بین الاقوامی سطح پرمسلم شخصیات میں44 ویں اہم شخصیت قرار دیا گیا ہے۔ پروفیسر سید امین قادری مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں شعبہ اردو کے استاذ ہیں اور علم و ادب سے گہرا لگائو بھی ہے۔ ان کی تصنیفات میں ’’قائم اور ان کا کلام، ادب ادیب اور اصناف، شاہ برکت اﷲ— حیات اور کارنامے‘‘ قابل ذکر ہیں۔
مارہرہ اس لحاظ سے بھی ممتاز ہے کہ یہیں سے منشی محمد سعید احمد مارہروی کا تعلق ہے جن کی تصنیف ’حیات خسرو‘ (1909) خسرویات کے باب میں ایک معتبر اور مستند مآخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ کتاب 21؍نومبر 1903 کو پایہ تکمیل کو پہنچی۔ محمد سعید احمد ابن مولوی محمد سلطان احمد ساکن مارہرہ ضلع ایٹہ ممالک متحدہ آگرہ و اودھ نے یہ کتاب 8 ابواب پر مشتمل تحریر کی ہے۔ پہلے باب میں حضرت امیر خسرو کے بزرگ، پیدائش اور بچپن کے حالات درج ہیں۔ منشی سعید نے خسرو کی پیدائش کی بابت لکھا ہے کہ
’’امیر سیف الدین محمود نے ہندوستان میں نواب عماد الملک کی دختر نیک اختر سے جو علم و فضل سے موصوف اور زیور صلاح و تقویٰ سے آراستہ و پیراستہ تھیں، شادی کی اور اسی عفیفہ کے بطن سے اول اعز الدین علی شاہ اور اس کے بعد حسام الدین احمد پیدا ہوئے اور 653ھ مطابق 1255 ء میں بمقام پٹیالی اس صاحب کمال نے عالم ارواح سے کشور اجسام میں قدم رکھا جسے علم و فضل کے عالیشان دربار سے خسروئے اقلیم سخن کا خطاب عطا ہوا اور اس کی فصاحت و بلاغت تصنیف و تالیف نے اس کو بقائے دوام کے دربار میں معزز جگہ عطا فرمائی۔‘‘
کتاب کا دوسرا باب حضرت سلطان المشائخ نظام الدین اولیا کے حلقہ ارادت سے امیر خسرو کی وابستگی سے متعلق ہے۔ یہ باب اس اعتبار سے اہم ہے کہ حضرت سلطان المشائخ امیر خسرو سے بے حد محبت کا معاملہ رکھتے تھے۔ صاحب کتاب منشی محمد سعید نے لکھا ہے کہ
’’حضرت سلطان المشائخ کی توجہ سب مریدوں سے زیادہ ان کی طرف مبذول ہوئی اور انہوں نے اپنے اخلاص اور اعتقاد سے بہت جلد حضرت کی خدمت میں ایسی عزت و منزلت حاصل کی کہ کسی دوسرے مرید کو میسر نہ ہوئی۔ شہزادی جہاں آرا بیگم بنت شہنشاہ شاہجہاں سے کتاب ’مونس الارواح‘ میں منقول ہے کہ ’عنایت حضرت سلطان المشائخ کی امیر خسرو پر اس درجہ تھی کہ آپ فرماتے تھے میں سب سے تنگ ہوتا ہوں مگر اے ترک تجھ سے تنگ نہیں ہوتا۔‘‘
باب سوم، امراء شاہی اور سلاطین عہد کی ملازمت، مصاحبت اور دیگر حالات پر محیط ہے۔ اس حصے میں صاحب کتاب نے سلاطین کی جوہر شناس نظر کا اور امیر خسرو کی فضیلت علمی کا ذکر کیا ہے اور مختلف سلاطین سے امیر خسرو کے تعلقات اور وابستگی کی تفصیل لکھی ہے۔ کتاب کا چوتھا باب وفات، مذہب، اخلاق و آداب اور حالات سے متعلق ہے۔ اس میں بھی مصنف نے نہایت اہم معلومات درج کی ہیں اور اولاد کے تعلق سے لکھا ہے کہ ان کے بارے میں زیادہ مستند تفصیلات موجود نہیں ہیں۔ اب یہ بھی پتہ نہیں کہ خاندان خسرو میں کون زندہ ہے؟
پانچواں باب ایجاد و اختراع سے متعلق ہے اس باب میں انہوں نے امیر خسرو کی اجتہادی طبیعت اور دراکی کے کئی روشن حوالے پیش کیے ہیں۔ مصنف نے لکھا ہے کہ ’’صانع قدرت نے امیر خسرو کے دل و دماغ میں عقل و دانائی کا وہ بیش بہا نورانی جواہر موجزن کیا تھا کہ صاحب کمال نہ صرف ایک باکمال شاعر اور انشا پرداز ہی تھا بلکہ جامع علوم ظاہری و باطنی و منبع کمالات صوری و معنوی تھا۔ جس فن کو دیکھئے اسی میں اسے کمال حاصل تھا۔ تاریخی میدان میں وہ ایک صاحب نظر مؤرخ اور فقہ کے عالی شان دربار میں ایک دانشمند فقیہ اور تصوف کے رنگ میں ثانی شبلی و بایزید اور فن موسیقی میں کامل الفن اور شہرۂ آفاق تھا۔‘‘
باب ششم میں مصنف نے امیر خسرو کی علمیت اور تصانیف کا تذکرہ کیا ہے۔ مصنف کی رائے میں
’’امیر خسرو عربی، فارسی، ترکی، ہندی چار زبانوں کے فاضل اور نظم و نثر دونوں میں یکساں کمال رکھتے تھے۔ آپ کی کثرت تصنیف و تالیف کا حال اس سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ صرف آپ کی ان کتابوں کی تعداد جو سلک نظم میں منسلک ہیں99 ہیں اور آپ کے اشعار کی تعداد علاوہ کلام ہندی کے چار اور پانچ لاکھ کے درمیان میں بتائے جاتے ہیں۔ حاجی لطف علی خاں آذر صاحب تذکرہ آتش کدہ کا بیان ہے کہ اس تعداد میں سے 1 لاکھ اشعار خود میری نظر سے گزرے ہیں۔ ضیا الدین برنی صاحب تاریخ فیروز شاہی تحریر کرتے ہیں کہ ان کی تصنیف و تالیف اس قدر ہیں کہ نظم و نثر میں گویا انہوں نے ایک کتب خانہ تصنیف کر دیا ہے۔‘‘
باب ہفتم میں خمسہ خسرو (مطلع الانوار، شیریں خسرو، لیلیٰ مجنوں، آئینہ سکندری، ہشت بہشت ) کے علاوہ خضر نامہ، مثنوی نہ سپہر، مثنوی تغلق نامہ، خزائن الفتوح، رسائل الاعجاز، افضل الفوائد، خالق باری، قصہ چہار درویش، دیوان تحفۃ الصغر اور دیگر تصانیف کے متعلق تفصیلات پیش کی ہیں۔
باب ہشتم شعرائے عہد پر محیط ہے جس میں امیر حسن علاسنجری، ملک سعد الدین منطقی، عبید، قاضی مغیث ہانسوی کا ذکر ہے۔ منشی محمد سعید کی یہ کتاب خسرویات کے باب میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔ مآخذ کے اعتبار سے بھی اور اس اعتبار سے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ اس کتاب کے ذریعہ ایک مخصوص عہد کے نثری اسلوب سے آگہی ہوتی ہے۔
تلمیذ داغ حضرت احسن مارہروی، اس سرزمین کے آفتاب تھے، جن کی شہرت اور شناخت کے بہت سے حوالے ہیں۔
داغ کے تلامذہ میں اقبال، بے خو دہلوی، مائل دہلوی کے ساتھ احسن مارہروی کا نام شامل ہے۔ 4؍فروری 1905 میں داغ کا انتقال ہوا تو احسن مارہروی نے تاریخ وفات لکھی۔ چل بسا حیف داغ بلبل ہند=1322ھ
مارہرہ سے ہی سوامی مارہروی (1890- 9؍نومبر 1960)کا بھی تعلق رہا ہے جوترقی پسند تحریک کے حوالے سے ایک روشن دستخط کی حیثیت رکھتے ہیں اور جن کی شاعری کا رنگ دوسرے شعرا سے الگ تھا۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ صوفی خانوادے سے تعلق تھا اور ذہن اشتراکیت کے اجالوں سے معمور۔ ان کے ذہنی اور فکری تیور کا اندازہ اس شعر سے لگایا جا سکتا ہے
ہر جنس یہاں پر ملتی ہے ان چوروں کے بازاروں میں
ایمان بیچا جاتا ہے مذہب کے اجارہ داروں میں
سید شاہ برکت اﷲ عشقی و پریمی خاندان سے تعلق رکھنے والے سید سرور عالم سوامی مارہروی کو شعر و شاعری کا ذوق وراثت میں ملا تھا۔ ان کا شعری مجموعہ سوامی درشن (نظامی پریس، بدایوں1959) ان کے جذبات و احساسات کا آئینہ ہے اور فکری نظام کا اشاریہ بھی۔ پروفیسر قمر رئیس نے سوامی مارہروی کے ترقی پسندانہ افکار کے حوالے سے لکھا ہے کہ
’’سوامی مارہروی ترقی پسند ادیبوں کی تحریک سے ابتدا ہی سے جڑ گئے تھے۔ ان کا تعلق خانقاہی نظام سے تھا لیکن ان کا باغی ذہن ہمیشہ سے سے بیزارا ور منحرف رہا۔ سید مطلبی فرید آبادی اور سید سرور عالم سوامی مارہروی اپنے ز مانے کے ایسے ادیب و شاعر ہیں جو ایک طرف صوفیا کی عوام دوستی کی مستحکم روایت سے جڑے تھے تو دوسری جانب وہ انسان دوستی کے اشتراکی و انقلابی خیالات سے بھی متاثر تھے۔ دونوں کی شاعری کے محرکات غریب عوام کی زندگی اور ان کے دکھ درد سے تعلق رکھتے تھے۔‘‘
سوامی مارہروی کے تخلیقی تصورات اور تحرکات کی تفہیم کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ان کے شعری مجموعہ کے پیش لفظ کی قراْت کی جائے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ
’’یہ نظمیں اور گیت جو آپ کے ہاتھوں میں ہیں ان میں اس شاعر، اس انسان کا دل دھڑک رہا ہے، جو زندگی کی مختلف راہوں میں دربدر بھٹکتا رہا ہے۔ ان راہوں میں کتنے ہی پیچ و خم ملے، جن میں انسان بھٹک رہا ہے اورر استہ بھولا ہوا ہے۔ ان میں پنڈت اور مولوی بھی ملے جو مذہب کی دکانیں سجائے اس کے معصوم دل کو اپنے دام میں اسیر کرنے کی فکر میں بیٹھے ہیں۔ ان میں وہ سرمایہ دار بھی ملے جو محنت کشوں کے بہتے ہوئے پسینے سے جام بھرنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ میں نے ان کی زندگی کو قریب سے دیکھا تو بدحالی اور محرومی کی جو تصویر مجھے نظر آئی وہ مجھے تڑپانے کے لیے کافی تھی۔ اب میرے گیتوں میںآنسوئوں کی نمی کی جگہ بغاوت کی دبی دبی چنگاریاں تھیں، زندگی کی پوری حرارت تھی، میرے گیتوں میں صرف میری ہی آواز نہیں بلکہ لاکھوں دکھی انسانوں کی آواز بھی شامل ہے۔ (بحوالہ ترقی پسند ادب کے معمار، مرتب پروفیسرقمر رئیس)
مارہرہ کے اسی خانوادے کے چشم و چراغ جو افسانوی افق پر ایک درخشان ماہتاب کی حیثیت رکھتے ہیں سید محمد اشرف ہیں، جوسول سروسیز سے وابستہ ہوتے ہوئے بھی کہانیوں کی ایک طلسماتی کائنات آباد کیے ہوئے ہیں۔ ’باد صبا کا انتظار (2000)، نمبر دار کا نیلا (1997)، ڈار سے بچھڑے (1994)‘ ان کے مجموعے ہیں۔ جن میں ہر کہانی ایک نئے رنگ، اسلوب اور انداز میں سامنے آتی ہے۔
نمبر دار کا نیلا سید محمد اشرف کا بہت ہی مشہور اور مقبول ناولٹ ہے، جو انسانوں اور حیوانوں کی تقلیب ماہیت کے مرکزی خیال پر مبنی ہے۔ سید محمد اشرف کے ناولٹ ’نمبر دار کا نیلا‘ کا مرکزی کردار ’نیلا‘ ہے جو بے ضرر جانور سے خوف و دہشت کی ایک علامت بن گیا ہے۔ غیر فطری غذا اور انسانوں کی معیت میں وہ بھی انسانوں کی طرح جنونی اور پاگل ہو گیا ہے۔ نیلا ایک دہشت کا نام ہے۔ ایک بے نام سی دہشت کہ اکیلا پاگل نیلا ہے، ارہر کا کھیت ہے، پچاس ساٹھ آدمی ہیں پھر بھی دہشت اور سراسیمگی طاری ہے۔ ٹھاکر اودل سنگھ کے سوا گائوں کے سبھی لوگوں کے ذہنوں میں اتنا خوف بس گیا ہے کہ ہر آواز، موہوم سی آواز حتیٰ کہ ہوا بھی دہشت میں متشکل ہو جاتی ہے۔ اسی خوف و دہشت کی فضا میں اس ناولٹ کا تانا بانا بنا گیا ہے۔ کھیت سے آبادی تک نیلا کے دہشت پھیلانے والے سفر میں لوگوں پر کیا گزرتی ہے اور کن قیامتوں سے گزرتے ہیں ان ساری جزئیات کا بیان اس ناولٹ میں بھرپور انداز میں ہے۔ نیلے کی دہشت اس قدر تھی کہ دیہات میں کواڑ دن میں بند رہتے، قصبے میں بھی دروازے بند کر لیے جاتے۔ لوگ اس کی دہشت سے کانپتے تھے مگر ٹھاکر کی نظر میں یہ محض حس مزاح یا چونچال تھا۔ نیلا کو ہر نازیبا حرکت کی پوری چھوٹ حاصل تھی جس کے لیے ٹھاکر ہمیشہ حسن تاویل میں مصروف رہتے اور ہر منطق کا استعمال کرتے یہاں تک کہ الزام خود شکایت کرنے والوں کے سر آ جاتا جیسے گلفام کنجڑا کے ساتھ ہوا کہ ٹھاکر نے خود ہی غیر قانونی کام کے الزام میں پھنسا دیا۔ نیلا کی یہی دہشت، ٹھاکر کے وقار، اقتدار اور عزت کا استعارہ بن گئی تھی۔ اس لیے ٹھاکر جیسے شاطر، عیار نیلا کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو ہمیشہ مورد الزام ٹھہراتے رہے۔ ایک طرف جہاں پورا گائوں نیلا کی دہشت سے کانپ رہا تھا، وہیں ٹھاکر اودل سنگھ نے نیلا کو ’’معصوم گئوسمان پشو‘‘ ثابت کرنے کے لیے مندر کے پجاریوں تک کو خرید رکھا تھا۔ مندر کا پجاری سمرتیوں سے یہ ثابت کرتا کہ نیلا بھی گئو ماتا کے خاندان کا جانور ہے اور کہتا کہ گئو بدھ کا شراپ گائوں پر پڑے گا۔ تخویف و تحدید کا مذہبی حربہ استعمال کر کے ٹھاکر ہمیشہ نیلا کی دہشت کا جواز فراہم کرتا رہا… اس کردار نے حیوان اور انسان کے مابین سارے فاصلوں کو مٹا دیا اور یہ ثابت کیا ہے کہ انسان کے اندر بہت بڑا حیوان چھپا ہوا ہے اور جب کوئی معصوم جانور اس کا تابع مہمل بن جاتا ہے تو اس کی سرشت بھی بدل جاتی ہے اور وہ بھی حیوان سے شیطان بن جاتا ہے۔ ٹھاکر اودل سنگھ کا جو کردار ہے وہ ایک مقام سے مختص نہیں ہے، اس کے ڈانڈے دیہات، قصبہ اور شہر سے ملے ہوئے ہیں۔ سید محمد اشرف نے ٹھاکر اودل سنگھ کی سہ مکانی سے نئے معانی برآمد کیے ہیں۔ (ایک مقام، ایک مرکز تک اس کی مکانی محدودیت کہانی کے دائرے کو تنگ کر دیتی۔) گڑھی (گائوں)، حویلی (قصبہ)، کوٹھی (شہر) میں رہنے والا اودل سنگھ دراصل جبر و استحصال کی وہ علامت ہے جو گائوں سے شہر تک پھیلی ہوئی ہے اور حکومت، تجارت اور سیاست تینوں میں مشترکہ دلچسپی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ تینوں استحصال کی بااثر قوتیں ہیں۔ بالخصوص جب مذہب کی پشت پناہی بھی حاصل ہو۔ نیلا گئو ماتا کا اوتار ایک دھارمک ڈھال ہے جس کے پیچھے ٹھاکر اودل سنگھ، دہشت اور جبر کے تمام اعمال میں ایک مذہبی جواز تلاش کرتا ہے اور یہی مذہبی جواز پوری دنیا میں جبر و استحصال، قتل عام، خون و فساد کی جڑ ہے… اس کا سارا غیر قانونی کام نیلا کی مذہبی معصومیت میں چھپی ہوئی دہشت کے ذریعے انجام پاتا ہے۔ گائوں کے کسانوں کے نام پر کولڈ اسٹور میں سارا آلو بھر لینا اور رسیدوں پر انگوٹھوں کے نشان لگوا لینا، لاکھوں ٹیکس کی چوری کرنا اور چیئرمینی کا الیکشن جیت جانا، یہ سب کچھ نیلا کی دہشت کے سائے میںہوتا ہے۔ دراصل ٹھاکر اودل سنگھ اور نیلا ایک دوسرے کے تحفظ کا استعارہ ہیں کہ دونوں کی خمیر میں بنیادی طور پر ناانصافی اور جبر کا عنصر شامل ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی اصل قوت دھرم ہے اور سرمایہ داری کی بقا کے لیے دھرم ہی سب سے بڑا سہارا ہے۔ اس حقیقت کو سید محمد اشرف نے اچھی طرح آشکار کر دیا ہے کہ سیاست اور دھرم دونوں ہی ڈھونگ اور سوانگ ہیں اور جبر و استحصال کے خونی ڈرامے کے یہی دو مضبوط کردار ہیں اور جب ان دونوں کا مکروہ ملن ہوتا ہے تو وہ قیامت آتی ہے کہ پوری زمین دہل جاتی ہے اور آسمان خون کی بارش کرنے لگتا ہے۔ پھر انسان نیست و نابود ہو جاتے ہیں، صرف کاکروچ باقی رہ جاتے ہیں…
سید محمد اشرف کا یہ ناولٹ پڑھ کر خلیل جبران بے طرح یاد آئے جنہوں نے کلیسائی نظام کے جبر و استحصال کی کہانیاں لکھیں اور یہ واضح کیا کہ مذہب جبر کی بہت بڑی علامت ہے اور یہ علامت اتنی مقدس ہے کہ لوگ اپنی زبانیں بند رکھتے ہیں اور ظلم کا تماشا دیکھتے رہتے ہیں۔ نیل گائے سے نیلا کا دہشت کی ایک علامت بن جانا، اس بات کا اشاریہ ہے کہ مذہب دراصل دہشت کی ایسی علامت بن گیا ہے جس کے خلاف لوگ بولتے ہوئے ڈرتے ہیں مگر اس سے حددرجہ پریشان بھی رہتے ہیں۔ نیلا کو ’’مندر والے کھیت‘‘ میں چھپانا اور اس کے بدن کا کیسریا ہو جانا، مذہبی دہشت کا زبردست بیانیہ ہے، نیلے کا سورج دیوتا کے ڈوبتے وقت مندر کی طرف ڈنڈوت کرنا اور دونوں کھر جوڑنا اس بات کا ثبوت ہے کہ نمبردار کی صحبت میں وہ بھی ایک ایسا دھارمک بن گیا ہے جسے دھرم کی آڑ میں ہر طرح کے جبر و دہشت کی آزادی ہے…
نمبر دار ایک جاگیردار ہے جو اپنی جاگیر داری کے تحفظ کے لیے تمام استحصالی حربے آزماتا ہے، عوام کو غریبی اور جہالت کے اندھیرے میں رکھ کر مکمل طور سے اقتدار پر قابض رہنا چاہتا ہے۔ نمبر دار کو بچوں کی تعلیم بھی بہت اکھرتی ہے۔ ٹھاکر اودل سنگھ نے اپنی زندگی کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے پورے نظام کو غیر متوازن بنا دیا اور اس توازن میں نیلا سب سے بڑا معاون ثابت ہوا کیونکہ اقتدار، دولت اور اختیار کو ہضم کرنے کے لیے نیلا کی دہشت بہت ضروری تھی اور یہی نیلا کو پالنے کا کارن بھی تھا۔ نیلا میں یہ دہشت پیدا کرنے کے لیے ٹھاکر اودل سنگھ نے اسے وہ کھان پان دیا جو انسانوں کو دیا جاتا ہے۔ جنگل کی مادائوں سے دور اسے انسانوں کی صحبت میں رکھا اس کی وجہ سے اس کے جنون کا پارہ بڑھ گیا اور وہ فطری ڈر ختم ہو گیا جو ہر جانور کو انسان سے محسوس ہوتا ہے بلکہ وہ الٹا انسانوں کے لیے خوف کی علامت بن گیا…
سید محمد اشرف نے بڑے ہی اچھے موضوع کا انتخاب کیا اور اس میں اظہار کے مختلف اسالیب سے فائدہ اٹھایا ہے۔ اشرف نے پور پور بدعنوانی میں ڈوبے ہوئے پورے سیاسی نظام کے دیوالیے پن کو بے نقاب کیا ہے۔ سوچ کا حسن، بیان کی خوب صورتی، استعارات اور کنایات میں بڑی بڑی باتیں کہہ جانا، لفظوں میں نئے رنگ بھرنا اور ایک طلسماتی سحر جگانا کوئی ان سے سیکھے۔ سید محمد اشرف کے جملوں میں موسیقیت ہے، روم ہے، جھرنے کی طرح، آبشار کی مانند الفاظ ہیں۔ صوتی غنائیت اور صوری حسن کو برقرار رکھنے کے لیے کمہار کی طرح لفظوں کے کچے برتن کو اچھی طرح بھٹی میں سلگایا ہے۔ صوتی زیروبم، حسن ادا، بیان کی خوب صورتی، ایک جملے کا دوسرے جملے سے ارتباط اور پھر کیفیت کا اتصال، یہ سارا ہنر اشرف نے اپنی کہانیوں میں استعمال کیا ہے۔ بیان کی جمالیات دیکھئے:
’’سانولے پائوں اور اجلے تلوے گارے میں ڈوبتے اور ابھرتے اور اسی رفتار سے اونکار کا دل بھی ڈوبتا اور ابھرتا…‘‘
’’اس کی ساری گھٹنوں سے اوپر سرک آئی تھی اور مدھم چاندنی میں اس کی پنڈلیاں دیوالی کی موٹی موٹی بتیوں کی مانند چمک رہی تھیں۔‘‘
اشرف نے کہانیوں کا ایک طلسم نگر آباد کیا ہے اور اس میں بیان کی جادوگری دکھائی ہے۔ جزئیات کا بیان بھی بہت خوبصورتی کے ساتھ کیا ہے۔ حتیٰ کہ نیلا کے بدنی جسمانی تقاضے کا بیان بھی بہت ہی شائستہ لہجہ میں کیا ہے۔
’’دل چاہتا تھا کہ دو تین بھوری مادائیں اس کے ساتھ بھی گڑھی اور حویلی میں ہوتیں تو کتنا اچھا ہوتا۔ اس دن کے بعد سے اس نے جنگل میں مادائوں کے پاس جانے کی خواہش نہیں کی، کسی کسی وقت وہ کھوئی خواہش اس کے سر سے شروع ہو کر ریڑھ کی ہڈی سے ہوتی ہوئی اس کی ٹانگوں کے درمیان پہنچتی تھی تو اسے کالی داڑھی والے کی گھسٹتی ہوئی ٹانگیں اور لتھڑتی ہوئی تھوتنی یاد آ جاتی۔‘‘
اس ناولٹ میں مقامات آہ و فغاں کے سوا کئی خوبصورت مقامات بھی آئے ہیں۔ مثلاً بڑکی کے تعلق سے پورا سلسلہ واقعی اسی ذیل میں آتا ہے۔ جہاں اشرف کا قلم رومانی جولانی میں کھو جاتا ہے۔ پوریاں بیلتے وقت بڑکی کے جھولتے بدن کا بیان دیکھئے:
’’اس (اونکار) نے اپنی فکر کو دو بڑے بڑے میدوں کے پیڑوں کی شکل میں مجسم دیکھ لیا تھا۔‘‘
اس کے بعد کا جو قصہ ہے وہ بے معنی نہیں ہے۔ اشرف نے پوریاں بیلتے وقت بدن جھولنے سے لے کر سراغ رسا نی کے جس نئے طریقے کا انکشاف کیا اس میں بھی ایک ذہانت چھپی ہوئی ہے۔
’’اس نے زندگی میں صرف ایک مرد کی سانس کی مہک سونگھی تھی۔ اس لیے اسے اپنا مجرم پہچاننے میں دقت نہیں ہوئی۔‘‘ ظاہر ہے کہ یہ بیان بے معنی نہیں ہے۔ اس طرح سید محمد اشرف کے ناولٹ میں ایسے بیانات مل جاتے ہیں جو قاری کے اندر شعور و فکر اور تجسس کی ایک متحرک کائنات کو بیدار کر دیتے ہیں۔
سید محمد اشرف کا یہ ناولٹ ہمارے عہد کا زبردست تخلیقی بیانیہ ہے۔ ایسا بیانیہ جو ان کے ہم عصر فکشن رائٹرز سے بیان، سوچ اور قوت اظہار، ابلاغ و ترسیل کے اعتبار سے مختلف اور منفرد اور اعلیٰ ہے۔
ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ یافتہ فکشن نگار سید محمد اشرف کی سرزمین مارہرہ میں اور بھی بہت سے جواہر ہیں، یہیں سے ایک مشہور جاسوسی ناول نگار عارف مارہروی اور نئی نسل کے ممتاز اور منفرد شاعر شارق عدیل کا بھی تعلق ہے۔ امین الدین راہی بھی یہاں کے ایک اچھے شاعر تھے۔ جن کا ایک شعر ہے:
کہتی ہے یہ پروائی برسات کے موسم میں
اچھی نہیں تنہائی برسات کے موسم میں
دلیر مارہروی اور صدیق حسن بھی اسی زمین کے آفتاب ہیں جن کی تخلیقی درخشانی پاکستان کے حصے میں آئی۔
ایٹہ کے اطراف و اکناف میں کچھ اور بھی علاقے ہیں جو ادبی لحاظ سے زیادہ زرخیز نہ سہی مگر بنجر بھی نہیں کہے جا سکتے۔ کاس گنج بھی اس اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے کہ وہاں کے ایک افسانہ نگار حسرت کاس گنجوی، پاکستان کے معاصر فکشن نگاروں میں اہم مقام رکھتے ہیں اور ان کے افسانے مقتدر رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔
جلیسر بھی تخلیقی اعتبار سے روشن ہے۔ وہاں کے کئی شعرا قومی سطح پر اہمیت کے حامل ہیں۔ احمر جلیسری ایک نمائندہ نام ہے۔ جن کا شعری مجموعہ بھی منظر عام پر آ چکا ہے۔ احمر نے مشکل زمینوں میں بھی اچھے شعر نکالے ہیں، یہ ان کی قدرت کلامی کی دلیل ہے۔ ان کے چند اشعار سے ان کے رنگ سخن کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے:
چاپلوسی کے ہنر میں نے جو سیکھے ہوتے
مجھ کو مشہور یقینا مرا فن کر دیتا
اشک گرتے گر مری آنکھوں سے وقت دعا
دور اﷲ مرے رنج و محن کر دیتا
قنبر جلیسری بھی وہاں کے اچھے شاعروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ان کے علاوہ ایٹہ کی سرزمین سے ندیم کوثری، عزم شاکری، صدیق عالم، بزمی سیفی، عمر تابش، شرار بلرامی اور شکیل جیسے شعرا کا تعلق ہے اور مشاعرے کی دنیا میں ایٹہ نظر ایٹوی کے حوالے سے برصغیر کے علاوہ بیرون میں بھی جانا جاتا ہے۔ یہاں باضابطہ تصنیف و تالیف کا ذوق زندہ ہو یا نہ ہو لیکن شعری ذوق ضرور زندہ ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں سال میں دو ایک مشاعرے ایسے ہو جاتے ہیں جو ایٹہ کو ہندوستان کے شعری منظرنامے میں درخشاں کر جاتے ہیں۔
ایٹہ کے اطراف و اکناف میں یقینا بہت سے تخلیق کار ہوں گے۔ ضرورت ہے کہ وہاں کے شاعروں اور نثر نگاروں کی تخلیقات کا ایک جامع انتخاب تیار کیا جائے اور خسرو کی سر زمین کو پھر سے سرخرو ہونے کا موقع دیا جائے ورنہ زمین کا بنجر پن خسرو کی روح کو اذیت پہنچاتا رہے گا۔ اس سرزمین کا خسرو سے رشتہ ہے، یہ اپنے آپ میں بہت بڑی بات ہے اور اس رشتے کے رمز کو اگر صحیح طور پر سمجھنے کی کوشش کی جائے تو پھر تخلیق ایک نئی شکل اور صورت میں نظر آئے گی۔ ایٹہ اور خسرو ہمارے عہد کا ایک بہت بڑا ادبی، تخلیقی رمز و کنایہ ہے۔ ان کے رشتوں پر نئی تحقیق اور نئی روشنی کی ضرورت ہے تاکہ برج بھاشا اور اردو زبان کے رشتوں کی معنویت بھی مکمل طور پر سامنے آ سکے کہ امیر خسرو ہندوی کے شاعر تھے اور انہوں نے اردو زبان کو ایک نئی پہچان عطا کی تھی۔ اردو کی ابتدائی لسانی تشکیل میں خسرو کا جو کردار رہا ہے اس کی روشنی میں نئی تحقیقات کے ذریعہ لسانی مضمرات کو سمجھنے کی کوشش موجودہ تناظر میں نہایت ضروری ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.