Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سید محمد اشرف: ماحول اور اپنی تخلیقات کے آئینے میں

طارق چھتاری

سید محمد اشرف: ماحول اور اپنی تخلیقات کے آئینے میں

طارق چھتاری

MORE BYطارق چھتاری

    یہ وہ زمانہ تھا جب علی گڑھ کی پرکشش اور سحر آگیں فضا، یونیورسٹی کے طلبا کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے اور استعمال کرنے کی محرک ہوا کرتی تھی۔ کنیڈی ہاؤس کا خوش نما احاطہ، لائبریری کے سامنے وسیع سبزہ زار، فیکلٹی آف آرٹس کی سہ منزلہ جدید طرز کی خوبصورت عمارت کے دروازے پر بنے حوض، مختلف عمارتوں کو ایک دھاگے میں پرونے والی صاف شفاف دھلی دھلائی سی سفید ٹھنڈی سڑکیں۔ پام، ساگون، گل مہر، مولسری اور یوکلپٹس کے اونچے اونچے درخت۔

    یونیورسٹی کینٹین کے وسیع و عریض ہال کی نیم تاریک اور پرسکون فضا کہ صوفے نہایت سلیقے سے آراستہ ہیں، طالبِ علم خراماں خراماں چلے آ رہے ہیں، برآمدے نماپور ٹیکو میں داخل ہوتے ہیں اوررنگین شیشوں والے محراب دار بڑے دروازے سے اندر پہنچ کر صوفوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔ سعادت مند ویٹر پانی کے گلاس ٹرے میں لیے قریب آتے ہیں اور جھک کر میز پر سجا دیتے ہیں۔ سینئر طالب علم آرڈر دے دیتا ہے۔ اس کی آواز اتنی نرم اور دھیمی ہوتی ہے کہ اگر خاص طورسے سننے کی کوشش نہ کی جائے تو شاید برابر بیٹھا شخص بھی نہ سن سکے۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ طلبا گفتگو میں محو ہی رہتے ہیں اور ویٹر پانی لگاکر خاموشی سے بغیر آرڈر لیے واپس چلا جاتا ہے مگر تھوڑی دیر بعد وہ ایک ٹرے میں ٹیکوزی ڈھکی کیتلی، دودھ دان، شکردان، چمچے اور چند پیالیاں لے کر اس طرح آتا ہے جیسے طالب علموں کی ہر خواہش اور ضرورت سے وہ پہلے سے واقف ہو۔ نہ کسی کو آرڈر دینے کی ضرورت ہے، نہ اسے آرڈر لینے کی، گویا وہ سب کے دل کی زبان سمجھتا ہے۔

    اس زمانے میں اِس کینٹین کا کنٹریکٹ اردو کے ایک مشہور شاعر جناب جاوید کمال کے پاس تھا۔ کاؤنٹر پر کبھی وہ اور کبھی میکش بدایونی بیٹھے نظر آتے۔ ریٹائر ہونے کے بعد کبھی کبھی جذبی صاحب بھی شام کی چائے پینے اسی کینٹین میں چلے آتے۔ ان شخصیات کی موجود گی آشفتہ چنگیزی، ابوالکلام قاسمی، مہتاب حیدر نقوی، عقیل احمد، شارق ادیب، فرحت احساس، خورشید احمد، غضنفر، نسیم صدیقی، عبید صدیقی، اظہار ندیم، پیغام آفاقی، پرویز جعفری، صغیر افراہیم، اسعد بدایونی، شہپر رسول، قمرالہدیٰ فریدی، غیاث الرحمٰن، ابن کنول اور سید محمد اشرف کو اکثر و بیشتر یہاں کھینچ لاتی۔

    گفتگو شروع ہوتی، کبھی کسی ادبی مسئلے پر بحث ہو رہی ہے، کبھی کوئی مضمون پڑھا جا رہا ہے، کبھی شاعری سنی جا رہی ہے اور کبھی افسانہ۔ یہاں سے اٹھ کر یہ احباب کبھی شہریار صاحب تو کبھی قاضی عبدالستار صاحب کے دولت کدے پہنچتے اور بہت سی گتھیاں ان اہل دانش کی گفتگو سن کر سلجھ جاتیں۔ ان دنوں علی گڑھ کے یہ نوجوان ادیب ترقی پسند تحریک اور جدیدیت دونوں کے فکری اور فنی رویّوں سے غیر مطمئن تھے اور کسی نئی راہ کی تلاش میں تھے کہ سید محمد اشرف نے کئی اچھّے افسانے تخلیق کرکے ادب کے نئے لینڈ اسکیپ کے لیے زمین ہموار کر دی۔

    سید محمد اشرف کا تعلق خانقاہ برکاتیہ مارہرہ شریف سے ہے۔ اردو تہذیب کے مخصوص ماحول میں آنکھ کھولی، بچپن میں ہی بزرگوں کے ذاتی کتب خانے میں موجود کلاسیکی ادب کی کتابیں پڑھ ڈالیں۔ ان کے دادا حضرت آوارہ صاحب کی تربیت نے ادبی ذوق نکھارا، زبان کی اصلاح کی اور ’’ڈار سے بچھڑے’’، ’’نمبردار کا نیلا‘‘ اور ’’بادِصبا کا انتہار‘‘ جیسی کتابیں لکھی جانے کے لیے فضا تیار ہو گئی۔ سیّد محمد اشرف اپنے گھر کے ماحول کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں،

    ’’بہت وسیع و عریض قلعہ نمامکان، باہر چوک اور بڑا پھاٹک۔ گھر کے برابر خاندانی مسجد اور خانقاہ شریف۔ صدر دروازے سے نکل کر درگاہ شریف، یہاں زائرین کی آمد و رفت رہتی تھی اور رہتی ہے۔ عرسوں کے زمانے میں زائرین کا مجمع اور نعرۂ تکبیر اللہ اکبر، نعرۂ رسالت یا رسول اللہ، غوث کا دامن نہیں چھوڑیں گے، خواجہ کا دامن نہیں چھوڑیں گے، جیسے نعروں کی تکرار۔ مسجد اور درگاہ شریف کے برآمدے میں گھر کا مدرسہ، جہاں ایک حافظ صاحب اور ایک منشی جی محوِ تدریس۔ مکتب کے بچوں کے ساتھ پہاڑے اور گنتی رٹنے کا کورس اور فاضل بریلوی مولانا احمد رضا خاں علیہ الرحمہ کی نعتوں اوران کے مشہور زمانہ سلام، مصطفیٰ جان رحمت پہ لاکھوں سلام کی مشق کی آوازیں۔۔۔‘‘

    جس وقت سید محمد اشرف کو اپنے لاشعور میں موجود بیش قیمت خزانے کا ادراک ہو رہا تھا، اس وقت قصباتی زندگی کی یہی پُراسرار فضا اور خانقا کا پاکیزہ اور روحانی ماحول ان کی تخلیقی قوت کو استحکام بخش رہا تھا۔ اس ماحول کی عکاسی انھوں نے اپنے کئی افسانوں میں نہایت فنکاری کے ساتھ کی ہے۔

    ’’مجھے حجرے کے نیم تاریک ماحول میں بیٹھے بیٹھے نظر آیا جیسے صحرا میں اونٹوں کا طویل قافلہ چلا جا رہا ہو اور کسی بڑے دشمن کے نیزہ بردار سپاہیوں نے تیز اور لمبے نیزوں سے اونٹوں کی گردنوں کو چھید دیا ہو اور زخمی اونٹ بلبلا بلبلاکر چیخ چیخ کر تڑپ رہے ہوں۔۔۔ ہم لوگ جب حجرے سے نکلے تو آسمان صاف تھا اور ستارے بہت روشن تھے۔ ہم لوگوں کے لمبے لمبے سایے میاں کے حجرے سے دور ہو رہے تھے۔ مڑکر دیکھا تو سفید پوش میاں حجرے کے دروازے پر کھڑے ہمیں جاتے ہوئے دیکھ رہے تھے اور اسی وقت اجنبی آسمان کے نیچے چلتے چلتے ہم سب نے شاید ایک ساتھ سوچا کہ خدا جانے کل کیا ہوگا۔ دوسرے دن ظہر کے بعد ہم لوگ نہر کی طرف چل پڑے تھے۔ نہر کے پل پر کھڑے ہوکر میں نے سوچا کہ پرسوں اسی جگہ کھڑے ہوکر میں نے سوچا تھا کہ اونٹوں کے قافلے کے ساتھ رمضان اب رخصت ہونے ہی والے ہیں۔ شیشم کے دو بوڑھے درختوں کے درمیان کچھ بھی نہیں تھا جس سے خوف محسوس کیا جا سکے۔ سامنے نہر کے کنارے دور تک درختوں کا سلسلہ چلا گیا تھا اوران میں سے کسی بلند شیشم کے اوپر سے بڑی فاختہ کی ’’یا حق تو‘‘، ’’یادوست تو‘‘ کی مسلسل صدائیں اس کنارے سے بالکل صاف سنائی دے رہی تھیں اور اب غلام ماموں نے سوچا کہ جو دن میں سوچو رات کو وہی خواب میں نظر آتا ہے۔۔۔‘‘

    یہ اقتباس سید محمد اشرف کے ایک افسانے ’’منظر‘‘ سے ماخوذ ہے، جو ہندوستان کی ایک مخصوص تہذیب کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس تہذیب کے دامن میں پرورش پانے والا ایک خوبصورت نوجوان جب مختلف رنگوں کی خوشنما روشنیوں سے جگمگاتے علی گڑھ کی دل کش فضا میں داخل ہوتا ہے تو اس کے جوہر نکھرنے لگتے ہیں اور تخیل کی پرواز بلند سے بلند تر ہونے لگتی ہے۔

    اس وقت علی گڑھ میں کئی ایسے ریسٹورینٹ تھے جہاں ادیب اور شاعر بیٹھتے۔ آفتاب کے پیچھے ’’کیفے دی پھوس‘‘، دیرا رات تک کھلنے کے لیے مشہور ’’کیفے دی لیلہ‘‘ پیراڈائز، کبیرکاٹی ہاؤس، کوزی کورنر، رائل کیفے اور Mousieur کے علاوہ راجا پنڈراول کا ایک خوبصورت ریستوراں ’’Seven Stars‘‘ بھی تھا۔ رائل کیفے اور Mousieur جدید طرز کے ریسٹورینٹ تھے جہاں بلیرڈ کی میزیں بھی تھیں مگر سیون اسٹارس ایسا ریستوراں تھا جس میں قدیم وضع کے صوفے، نقشیں چمنیوں والے شمع دان، عالی شان فانوس، انگلستانی کروکری اور خوش اخلاق و خوش گفتار و خوش رو راجا قاسم علی خاں نواب آف پنڈراول کی بنفسِ نفیس موجود گی۔ وہ اکثر شاعروں اور ادیبوں کے ساتھ آکر بیٹھ جاتے، شعر سنتے اور شعر سناتے۔

    اسی ریستوراں میں میری پہلی ملاقات شارق ادیب کے ساتھ بیٹھے اس خوبصورت نوجوان سے ہوئی۔ تعارف ہوا تو معلوم ہوا کہ یہی کیمپس کے معروف افسانہ نگار سید محمد اشرف ہیں۔ ہم لوگوں کی ملاقاتیں ہوتی رہیں، دوستیاں بڑھتی رہیں اور پھر آہستہ آہستہ ادبی حلقہ وسیع ہونے لگا۔ اس وقت سید محمد اشرف سائنس کے طالب علم تھے مگر وہ سائنس فیکلٹی میں کم اور ادبی محفلوں، شعری نشستوں، بیت بازی کے مقابلوں اور کھیل کے میدانوں میں زیادہ وقت گزارتے تھے۔ ایسا فن کار جس کے اندر تخلیق کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہو، فکر کی بے شمار لہریں بن رہی ہوں، مٹ رہی ہوں اور جوکسی بھی طرح کی پابندی میں حبس محسوس کرتا ہو، وہ بھلا خود کو سائنس کے بندھے ٹکے فارمولوں میں کب تک قید رکھ سکتا تھا۔ یہی ہوا، سائنس سے آرٹس اور پھر ادب اور صرف ادب۔

    یہاں کھلی فضا تھی اور کشادہ ماحول۔ ہال کی لٹریری سوسائٹی سے نکل کر یونیورسٹی کے مرکزی لٹریری کلب کی طرف کوچ کیا اور سکریٹری شپ حاصل کر لی اور پھر ان کی تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کے مختلف امکانات پیدا ہو گئے۔ جس محفل میں وہ افسانہ سناتے، کیا ان کے ہم عصر اور کیا بزرگ ادیب، سبھی متاثر ہوتے۔ اس زمانے میں علی گڑھ ایک بڑا ادبی مرکز تھا۔ رشید احمد صدیقی، آل احمد سرور، خورشید الاسلام، پروفیسر مسعود حسین خاں، معین احسن جذبی، اخترانصاری، خلیل الرحمٰن اعظمی، قاضی عبدالستار، شہریار، سعید الظفر چغتائی، ساجدہ زیدی، زاہدہ زیدی، سید امین اشرف، وارث کرمانی، ایس این شاہ، بشیر بدر، صلاح الدین پرویز اور منظور ہاشمی وغیرہ تو یہیں مقیم تھے، باہر سے بھی ادب کی گراں قدر ہستیاں علی گڑھ تشریف لاتیں اور اردو ادب کا ذوق رکھنے والے طالب علم جن کی تعداد خاصی تھی، ان محفلوں میں شریک ہوتے۔

    مجھے یاد ہے کہ اس زمانے میں عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر، علی سردار جعفری، جاں نثار اختر، شمس الرحمٰن فاروقی، گوپی چند نارنگ، اخترالایمان اور محمود ہاشمی وغیرہ اکثر علی گڑھ آتے اور ہم لوگ کبھی یونیورسٹی کی کسی انجمن میں تو کبھی کسی بزرگ ادیب کے گھر پر ان کا کلام سنتے، ان سے گفتگو کرتے اور اپنی تخلیقات سناتے۔ سننے اور سنانے والوں میں سید محمد اشرف پیش پیش رہتے۔

    ایک تخلیق کار جو خوبصورت بھی ہو، نوجوان بھی، مہذب بھی، افسانہ نگار بھی اور شاعری بھی، وہ ارمانوں کی اس خلدبریں کی شہزادیوں کی توجہ کا مرکز نہ ہو، یہ کیوں کر ممکن ہے۔ لہٰذا سیّد محمد اشرف کے قریب وہ چہرے بھی نظر آنے لگے جن کو دور سے دیکھ کر اطمینان کر لینا ہی ہم لوگوں کے لیے بڑی خوش نصیبی کی بات تھی۔ لٹریری کلب کے سکریٹری کا الگ کمرہ تھا۔ دیواروں اور پردوں کا خوبصورت رنگ، کھڑکیوں کے بڑے بڑے شیشے، گول محرابوں والی نیچی نیچی چھتیں جیسے کسی بزرگ نے سرپردست شفقت رکھ دیا ہو۔ چند آرام دہ کرسیاں، بڑی میز، ایک صوفہ اور سامنے گدے دار کرسی پر بیٹھے لٹریری کلب کے سکریٹری سیّد محمد اشرف۔

    ادب کی چند شوقین دو شیزائیں یا کسی اور شوق میں ادبی ذوق کا اظہار کرنے والے ماہ پارے سامنے بیٹھے ہیں۔ گفتگو ہو رہی ہے۔ اشرف صاحب کی زبان سے شیریں، دل کش اور لطیف جملے ادا ہو رہے ہیں۔ جب لفظ پھول بن کے جھڑتے ہیں تو ریشمی دامن میں بھرلیے جاتے ہیں اور جب تیر بن کے چبھتے ہیں تو پگھلے ہوئے شیشے کے موتی اشرف صاحب کے دامن میں آ گرتے ہیں۔ ان کے پاس ایسے حسین وجمیل چہرے بھی نظر آتے جن کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ جدھر سے گزر جائیں لوگ قدموں کی دھول چراکر پیروں، فقیروں کے پاس دوڑ پڑتے ہیں کہ شاید کچھ۔۔۔ کچھ کے آگے وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔

    جب شام ہوتی اور سورج کی سرخی ماہ جبینوں کے رخساروں میں اترآتی تو نہ جانے کیوں ہمیں احساس ہوتا کہ کوئی ایسا چہرہ جو مثلِ ماہ نہیں، ماہِ کامل ہوگا، لٹریری کلب کے سکریٹری کی میز پر رکھا ہوگا اور کھلی ہوئی گھنیری زلفیں میز پر بکھری ہوں گی اور۔۔ اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ کلب کا سکریٹری ان سب باتوں سے بےنیاز ہے، ان کے ہم عصر رشک اور قیاس کے رنگوں سے اپنے ذہن کے کینوس پر بنائے اس منظر کو نظروں میں بسائے آہیں بھرتے رہتے۔ حالاں کہ وہ جانتے تھے کہ سچے فنکار کو کسی ایک رنگ کی نہیں بلکہ کائنات کے مختلف رنگوں کی تلاش رہتی ہے۔ ماحول اور مقام محض وسیلہ بنتے ہیں اور وہ کسی رنگ رائیگاں کو تلاش کرتے کرتے کہہ اٹھتا ہے کہ،

    ’’یہی وہ جگہ ہے جہاں بیٹھ کر ہم نے اپنی محبت کے قصے بنے تھے۔ یہیں بیٹھ کر میں نے تم سے کہا تھا کہ چاہو مجھے کہ میں چاہے جانے کے لائق ہوں۔ یہیں بیٹھ کر ہم نے سوچا تھا ہم تم بہت اچھے انسان ہیں۔ یہیں ہم نے رنگوں کی باتیں سنی تھیں۔ خوشبوؤں کی کہانی لکھی تھی۔ یہیں ہم نے جھگڑوں کے حل اپنی محدود عقلوں کے بوتے پہ طے کرلیے تھے۔ یہیں سب سے چھپ کر کبھی سب کے آگے ملاقاتیں کی تھیں۔ یہی وجہ ہے جہاں میں نے خود سراناؤں کو معصوم جذبوں کی چادر اڑھاکر تمھارے بدن کو چھوا تھا۔ یہیں تم نے معصوم آنکھوں سے پہلی دفعہ مجھ کو دیکھا۔ یہیں نرم ہونٹوں کو تم نے میرے ہاتھ کی پشت پر رکھ دیا تھا۔ یہیں اپنی گودی میں سررکھ کے تم نے کہا تھا کہ میں آپ کو چاہتی ہوں کہ اتنا کسی کو نہیں چاہتی میں۔

    یہیں بیٹھ کر میں نے پہلی دفعہ زندگی میں یہ سوچا کہ جس سے محبت کرو اس کو چھو لو تو سارے بدن میں عجب برق سی دوڑتی ہے۔ یہیں میں نے تمھاری گود میں سر رکھ کے سوچا تھا کہ اس سے زیادہ پناہیں کہیں بھی نہیں ہیں اور آج میں خود کو بہت مطمئن سا دکھاکر تمھیں، سوچتا ہوں کہ تم دور جانے والے کسی راستے پر اپنے خیمے کا بوجھا اٹھائے رواں ہو۔ بوجھل تھکن تمہارے چہرے پر سجی ہوئی ہے۔ خدا تم کو خوب خوشیاں دے عشو، کہ تمہارا غم مجھ سے کسی بھی طرح کم نہیں ہے۔‘‘

    (تلاش رنگ رائیگاں)

    مارہرہ شریف کے ماحول نے جہاں ان کی زبان کو صاف ستھرا اور شائستہ بنایا ہے، وہیں علی گڑھ کی فضا فنی لحاظ سے ان کے افسانوں کی تکنیک اور اسلوب پر اثر انداز ہوئی ہے۔ علی گڑھ کی دوستیاں، جھگڑے اور پھر کسی سینئر کی مدد سے کمپرومائز کی روایت کا اثر ان کے افسانوں میں محبت اور نفرت کے شدید جذبے اور بالآخر خوش گوار صلح کے مناظر کی روح میں دیکھا جا سکتا ہے۔ علی گڑھ میں طالب علم زندگی کے ہر مرحلے کو مل جل کر طے کرتے ہیں۔ اسی لیے یہاں ڈائیننگ ہال کھانا کھانے، شمشاد مارکیٹ چائے پینے، تصویر محل فلم دیکھنے، فیکلٹی اور لائبریری بلکہ کسی ذاتی کام سے بھی تنہا جانے کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اشتراک کے اسی رویے نے سید محمد اشرف کو معاشرے کے اجتماعی مسائل کو سمجھنے اور فن پارے کے تاثر میں وحدت پیدا کرنے کا ہنر سکھایا۔

    کھانے پینے کے آداب اور تکلفات، چائے کے کپ میں چمچہ اتنا آہستہ چلاؤ کہ کھنکھناہٹ نہ ہو، منہ کے نوالے کی آواز برابر بیٹھے شخص تک نہ پہنچ جائے، چائے کی چسکی، چائے کی چسکی ہی لگے، حُقّے کی گڑگڑاہٹ نہیں۔ آہستہ چلیے، آہستہ بولیے، انگلی اٹھاکر کوئی اشارہ مت کیجئے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ پابندیاں شروع میں نئے طالبِ علم کو بھلے ہی سخت اور بےجا لگتی ہوں لیکن کچھ دنوں بعد اس کی شخصیت کا حصّہ بن جاتی تھیں۔ اس وقت چائے خانوں کو ڈھابا نہیں کہا جاتا تھا اوران کے سامنے کھلے میں بیٹھ کر چائے پینے کا رواج نہیں تھا۔ ہر چائے خانے کے سامنے خوبصورت پردوں کی قناتیں لگا دی جاتی تھیں۔ پردے کے اندر کرسیاں لگی ہوتیں اور دھیمی آواز میں ریکارڈ پلیئر بج رہا ہوتا۔ بیگم اختر، مہدی حسن اور غلام علی کی غزلوں کے سر گونج رہے ہوتے۔ چائے پیتے وقت گپ بازیاں ہوتیں، یونیورسٹی کے مسائل پر گفتگو ہوتی، ادبی بحثیں چھڑتیں اور میدانِ عشق کی فتوحات بیان کی جاتیں۔

    اس طرح بیٹھنا کہ سڑک سے گزرنے والے کی نظر چائے پیتے طالبِ علم پر پڑ جائے، علی گڑھ کی سب سے معیوب بات تھی یعنی نمائشی انداز کی بجائے کچھ چھپاکر حسن پیدا کرنا یہاں کا وصف تھا۔ علی گڑھ کی تہذیب کا یہ دور 1975ء بلکہ 1980ء تک رہا۔ سید محمد اشرف کے افسانوں میں بات کو کھلے طورپر نہ کہہ کر بہت خوبصورتی کے ساتھ اشاروں، علامتوں اور استعاروں کے ذریعے کہنے کا فنکارانہ انداز کہ بات مبہم بھی نہ ہو اور تہہ دار بھی ہو جائے، علی گڑھ کے اسی ماحول کا وہ اثر ہے جو انھوں نے شعوری یا لاشعوری طور پر قبول کیا۔

    سید محمد اشرف نے طالبِ علمی کے زمانے میں نہ صرف اچھے افسانے لکھے بلکہ یونیورسٹی کی سیاست میں بھی حصّہ لیا۔ سید حامد صاحب کے دور میں وہ چند گھنٹوں کے لیے جیل بھی گئے، اپنی تعلیم پر بھی توجہ دی اور ایک دن سول سروس کے امتحان میں کامیابی حاصل کرکے انکم ٹیکس کے محکمے میں افسر ہو گئے۔ ملازمت کی ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ افسانے بھی لکھتے رہے۔ اسی زمانے میں انھوں نے ایک ناولٹ ’’نمبردار کا نیلا‘‘ لکھا، جسے پڑھ کر شمس الرحمٰن فاروقی صاحب نے فرمایا کہ، ’’اشرف کا ناول خوب، بہت خوب ہے۔ بےشک اتنا عمدہ فکشن اردو تو کیا انگریزی میں بھی میں نے بہت دن سے نہیں دیکھا —’’

    ان کے تازہ مجموعے ’’باد صبا کا انتظار‘‘ کی بھی تمام کہانیاں اردو کے ناقدین اور قارئین نے بے حدپسند کی ہیں۔ اس کتاب پر ساہتیہ اکادمی نے 2003ء کا انعام دے کر سید محمد اشرف کی صلاحیت کا اعتراف کیا ہے۔ اس عہد میں جہاں بیشتر لکھنے والوں کی تحریروں میں زبان کی غلطیوں کا شکوہ کیا جا رہا وہاں اگر چند افسانہ نگار زبان نہ صرف صحیح لکھتے ہوں بلکہ وہ اسلوب کی فنی نزاکتوں سے بھی واقف ہوں تو ادب کی صورت حال مایوس کن نہیں ہو سکتی۔ ایسے چند ہم عصر افسانہ نگاروں میں سید محمد اشرف کا نام بہت نمایاں ہے۔ انھوں نے اردو کو ’’نمبردار کا نیلا‘‘ جیسا ناولٹ، ’’آخری سواریاں’’جیسا ناول اور ڈارسے بچھڑے، منظر لکڑبگھا چپ ہو گیا، آخری بن باس، روگ، آدمی، نجات، ساتھی، باد صبا کا انتظار اور تلاش رنگ رائیگاں جیسے بہترین افسانے دیے۔

    اس کے علاوہ اپنی انتظامی صلاحیت کی بناپر ترقی کی منزلیں طے کرتے کرتے وہ انکم ٹیکس محکمے میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہوئے۔ ان کی انتظامی صلاحیت کی ایک زندہ مثال جامعہ البرکات بھی ہے، جس کے قیام اور نظم ونسق میں ان کا بھرپور تعاون شامل ہے۔ یہ تعلیمی ادارہ نہ صرف اپنی خوب صورت اور مستحکم عمارتوں کے لیے مشہور ہے بلکہ تعلیمی معیار اور ڈسپلن میں بھی اپنی مثال آپ ہے۔

    سید محمد اشرف ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ دوسروں کے جذبات کا خیال رکھتے ہیں تو خود میں سرشار بھی رہتے ہیں۔ وہ جتنا بزرگوں کا احترام کرتے ہیں، اتنی ہی سیلف رسپیکٹ بھی۔ ان کی ہردل عزیز شخصیت انکساری اور خودداری، رکھ رکھاؤ اور بےتکلفی، دل جوئی اور صاف گوئی کا خوبصورت امتزاج ہے۔ اسی توازن اور تناسب کی وجہ سے سید محمد اشرف کو، ادیب ہوں یا عام شہری، دوست ہوں یابزرگ، افسرہوں یا ماتحت سبھی بہت پسند کرتے ہیں اور جہاں وہ ہوتے ہیں ان کی شخصیت مرکزی حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے