سید محمد میر سوز
(دہلی کا ایک شاعر جس کو دنیا نے بہت کم یاد رکھا)
سوز کا ذکر تقریباً ہر تذکرہ میں نظر آتا ہے اور بجز آزاد کے کہ انہوں نے تو بیشک میر کے حوالہ سے انہیں پون شاعر مانا ہے، باقی تمام تذکرہ نویسوں نے اس کا ذکر اس احترام سے کیا ہے جو میرؔ، سوداؔ یا دردؔ کے باب میں ملحوظ رکھا گیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ آزاد نے میرؔ کا تذکرہ نکات الشعرا دیکھا ہی نہیں اور اگر یہ خود ان کی ذاتی اپج نہیں تھی تو شاید صرف کسی زبانی روایت پر اعتماد کر کے سوزؔ کے متعلق میر کا یہ محاکمہ لکھ گئے، ورنہ ممکن نہ تھا کہ وہ ایسی خلاف حقیقت بات لکھنے کی جسارت کرتے۔
آزاد نے میر کے حالات میں اس واقعہ کو اس طرح ظاہر کیا ہے، ’’لکھنؤ میں کسی نے پوچھا کہ کیوں حضرت آج کل شاعر کون ہے، کہا ایک تو سودا، دوسرا یہ خاکسار ہے اور کچھ تامل کر کے آدھے خواجہ میر دردؔ۔ کوئی شخص بولا حضرت اور میر سوز صاحب؟ چیں بہ جبیں ہوکر کہا کہ میر سوز صاحب بھی شاعر ہیں؟ انہوں نے کہا کہ آخر استاد نواب آصف الدولہ کے ہیں، کہا کہ خیر یہ ہے تو پونے تین سہی۔‘‘
لیکن جس وقت ہم میر کا نکات الشعرا اٹھا کر دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نہ وہ خواجہ میر درد کو آدھا شاعر سمجھتے تھے نہ میر سوز کو پون، بلکہ وہ ان دونوں کو پور اپورا شاعر جانتے تھے۔ دردؔ کا ذکر تو انہوں نے اس احترام و ادب سے کیا ہے کہ شاید ہی کوئی خادم اس سے زیادہ اراد ت مندی کا اظہار کر سکے اورجتنا اقتباس ان کے کلام کا پیش کیا ہے کسی اور شاعر کا کیا ہی نہیں۔ میر کے الفاظ عقیدت واردات ملاحظہ ہوں، جوش بہار گلستان سخن، عندلیب خوش خوان چمن ایں فن، در چمن شعرش لفظ رنگیں چمن چمن، گلچیں خیال اور اگل معنی دامن دامن۔ شاعر زور آور ریختہ، در کمال علاقگی وارستہ، فقیر را بخدمت او بندگی خاص است۔‘‘ یہ ہیں خیالات میر کے ا س شاعر کے متعلق جو بقول آزاد ان کے نزدیک نصف شاعر تھا۔ اب پون شاعر کے متعلق بھی ان کی رائے سن لیجئے کہ، ’’میر تخلص جو انے است بسیار اہل، خوش طبع۔‘‘
معلوم ہوتا ہے کہ میر نے نکات الشعرا اس وقت مرتب کیا تھا جب سوز اپنا تخلص میرؔ کرتے تھے۔ آزاد کے بیان سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جب میر نے ان کا تخلص چھین لیا تو انہوں نے سوز تخلص اختیار کیا۔ درآں حالیکہ نکات الشعرا کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تخلص خود سوز نے میر کے تتبع میں اختیار کیا تھا۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ، ’’میر سوزؔ مرحوم کی زبان عجیب میٹھی زبان ہے اور حقیقت میں غزل کی جان ہے، چنانچہ غزلیں خود ہی کہے دیتی ہیں۔ ان کی انشا پردازی کا حسن، تکلف اور صنائع مصنوعی سے بالکل پاک ہے۔ اس خوش نمائی کی ایسی مثال ہے جیسے ایک گلاب کا پھول ہری بھری ٹہنی پر کٹورا سا دھرا ہے۔ او رسبز سبز پتیوں میں اپنا اصلی جوبن دکھا رہا ہے۔ مجالس رنگین کی بعض مجلسوں سے اور ہمارے عہد سے پہلے کے تذکروں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا کلام صفائی محاورہ اور لطف زبان کے باب میں ہمیشہ سے ضرب المثل ہے۔ ان کے شعر ایسے معلوم ہوتے ہیں جیسے کوئی چاہنے والے اپنے چہیتے عزیز سے بیٹھا باتیں کر رہا ہے۔ میر تقی میر کہیں کہیں ان کے قریب آ جاتے ہیں، پھر بھی بہت فرق ہے۔‘‘
میر حسن نے تذکرہ شعرا اردو میں ان کی شاعری کے متعلق جو خیالات ظاہر کئے ہیں، یہ ہیں، ’’شاعر شیریں بیاں و سخن سنج زبان داں، گلدستہ نثرش چوں گلشن حسن دلبراں تازہ، و گلہائے نظمش در کثرت چوں سپاہ ِغم بے اندازہ۔‘‘ گلشن ہند میں میر زا علی لطف نے لکھا ہے کہ، ’’فن سخنوری میں استاد، طرز ادا بندی کے بادشاہ، کلام ان کا سر سے پاؤں تک سوز و ساز ہے اورپاؤں سے سر تک ناز و نیاز۔‘‘
بعد کے تذکرہ نویسوں نے بھی سوز کو اپنے عہد کا استادکامل اور غزل گوئی میں ماہر بے بدل تسلیم کیا ہے، لیکن افسوس ہے کہ نہ آج ان کا دیوان ہمارے سامنے ہے اور نہ عہد حاضر کے نقاد ان سخن نے ان کے کمال پر کوئی روشنی ڈالی۔ آپ کا نام سید محمد میرؔ تھا اور میر ضیا الدین کے بیٹے تھے۔ ان کا سلسلہ نسب قطب عالم گجراتی سے ملتا ہے اور تصوف و درویشی ان کا آبائی ذوق تھا۔ چنانچہ اسی بنا پر میر حسن نے انہیں ’’فقیہ بے مثال اور درویش باکمال‘‘ بھی ظاہر کیا ہے۔
تذکرہ بزم سخن میں ’’دہلوی مولد بخاری موطن مقیم لکھنو لکھا ہے۔ ان کا خاندان بخارا سے ہندوستان کس زمانہ میں آیا، اس کا پتہ چلانا دشوار ہے اور نہ اس کی چنداں ضرورت، کیونکہ بہرحال سوز دہلی ہی میں پیدا ہوئے، یہیں نشو و نما پائی، اور اسی جگہ ایک استاد کامل کی حیثیت سے وہ مشاعروں میں شریک ہوتے رہے۔ ان کا زمانہ متعین کرنے کے لئے ان کے سنہ ولادت کی جب جستجوکی جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ کسی تذکرہ نویس نے اس تحقیق کی زحمت گوارا نہیں کی، لیکن اگر یہ صحیح ہے کہ ان کا انتقال 1213ھ میں ہوا جبکہ ان کی عمر 70 سال کی تھی 1 تو اس طرح ا ن کا سن ولادت 1143ھ ماننا پڑےگا اور اگر 1212ھ ان کا سنہ وفات تسلیم کیا جائے 2 (جو غالباً درست نہیں) تو سنہ ولادت 1142ھ متعین کیا جائےگا۔ بہر حال اس حساب سے میر سوز1140ھ اور 1145ھ کے درمیان کسی سال میں پیدا ہوئے ہوں گے۔
اب اسی کے ساتھ سودا، دردؔ اور میر کے سنین ولادت و وفات کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا کہ سوداؔ 1125ھ میں پیدا ہوئے اور 1195ھ میں انتقال کیا۔ دردؔ 1038ھ کے قریب پیدا ہوئے 3 اور 1199ھ میں وفات ہوئی 4 میر 1125ھ میں پیدا ہوئے 5 اور 1225 ھ میں انتقال کیا۔ اس طرح گویا ولادت کے حساب سے میر و سودا دونوں ایک ساتھ نظر آتے ہیں، اس کے بعد دردؔ اور پھر میر سوزؔ لیکن وفات کے لحاظ سے ترتیب یوں ہوتی ہے، سوداؔ، دردؔ، سوزؔ، میرؔ۔ سب سے کم عمر دردؔ نے پائی یعنی صرف61 سال جئے۔ اس کے بعد سودا اور سوز کا نمبر ہے جو ستر ستر سال جیے اور پھر میر کا جو باوجو د’غم عشق و غم روزگار‘ دونوں طرح کے صدمات اٹھانے کے پوری ایک صدی تک زندہ رہے۔
اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ 20 سال کی عمر میں سوز کی مشق سخن کافی ہو گئی ہوگی تو اس وقت سودا اور میرؔ کی عمر 38، 38 سال کی رہی ہوگی اور درد کی 24 سال کی، گویا دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ان چاروں نے چند سال کے فرق سے ایک ہی ساتھ شاعری کا آغاز کیا، اور اس کا شباب بھی ساتھ ہی ساتھ رہا، یہی سبب ہے کہ جب اس دور کے اساتذہ کا ذکر ہوتا ہے تو میر، سودا اور درد کے ساتھ سوز کا نام بھی لیا جاتا ہے اور جس طرح اول الذکر تین استادوں کے متبعین پیدا ہو گئے تھے، اسی طرح سوز کے رنگ کا تبتع کرنے والے بھی اس وقت پائے جاتے تھے۔ چنانچہ میر شمس الدین ہوش، میرزا حسین رضا عیش، میرزا رضا قلی خاں آشفتہ ان کے ممتاز شاگردوں میں تھے، اور متبعین میں خلیل شاہ سائل، حیات اللہ اور انشا کا نام لیا جاتا ہے لیکن بقول صاحب شعر اءلہند یہ بالکل صحیح ہے کہ ’زمانہ دوسرا میر، دوسرا سودا، ؔ دوسرا دردؔ اور دوسرا سوز پیدا نہ کر سکا۔‘
سوز علاوہ شاعر ہونے کے خطاطی کے بھی ماہر تھے اور فنون سپہ گری میں بھی کمال رکھتے تھے، خصوصاً تیراندازی اور شہسواری میں خاص ملکہ حاصل تھا اور جسمانی طاقت بھی غیر معمولی رکھتے تھے۔ آزاد نے لکھا ہے کہ ’’1191ھ میں لباس فقر اختیار کیا اور لکھنؤ چلے گئے۔‘‘ لیکن دوسرے تذکروں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سوز دہلی چھوڑ کر پہلے فرخ آباد آئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب محمد شاہ رنگیلے کے بعد شاہ عالم کے دور میں دہلی پر تباہی آ چکی تھی اور ایک ایک کرکے تمام اکابر فن اودھ کی طرف منتقل ہو رہے تھے۔ شاہ زادگان میں سے مرزا محمد سلیمان شکوہ اور مرزا جہاں دار شاہ بھی اس طرف چلے آئے تھے اور ان کے دربار شعرا کے مرجع بنے ہوئے تھے۔ چنانچہ مصحفیؔ و انشاؔ اول اول سلیمان شکوہ ہی کے دربارسے وابستہ ہوئے اور بعد کو جرات بھی یہیں آ گئے۔ اسی طرح مرزا جہاں دار شاہ کے دربار سے شکوہ میر درد کے شاگرد مرزا محمد اسماعیل تپش اور مرزا جعفر علی حسرت وابستہ تھے۔
فرخ آباد میں نواب احمد خاں بنگش کا دیوان، مہربان خاں رند شعرا کا بڑا قدر دان تھا اور نواب محمد یار خاں امیر کا دربار تو قدر افزائی کے لئے بہت مشہور ہو چکا تھا۔ چنانچہ قائم چاند پوری اسی دربار کے مشاہرہ یاب تھے اورمصحفی، شاہ حاتم اور مولوی قدرت اللہ بھی اسی امیر کے خوان کرم کے زالہ ربا تھے۔ مرشد آباد میں مہاراجہ شتاب رائے، نواب غلام حسین خاں، نواب اعظم خاں، نواب سعید احمد خاں، صولت جنگ، نواب شوکت جنگ، نواب علاء الدولہ اور سر فراز خاں کے دربار وں نے اس میں کافی شہرت پائی اور لکھنؤ میں خود آصف الدولہ، نواب سعادت علی خاں اور نواب احمد خاں (نواب حافظ رحمت خاں روہیلہ کے چھوٹے بیٹے) شعروسخن کے بڑے قدر شناس تھے۔
الغرض سوز بھی ترک وطن کے بعد سب سے پہلے فرخ آباد گئے اور مہربان خاں رند کے دربار میں پہنچے تھے اور اسی امیر کی شاعر نوازی سے مستفید ہوئے تھے۔ فرخ آباد میں کچھ زمانہ بسر کرنے کے بعد مرشد آباد پہنچے اور اس کے بعد لکھنؤ آئے۔ ان کے لکھنؤ آنے کا زمانہ 1212ھ بتایا جاتا ہے، جب نواب آصف الدولہ حکمراں تھا یعنی 23 سال فرخ آباد اور مرشد آباد میں بسر کرنے کے بعد لکھنؤ پہنچے اور آصف الدولہ نے ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا لیکن اس کے ایک ہی سال بعد 1213 میں انتقال ہو گیا اور لکھنؤ میں دفن کئے گئے۔ صاحب تذکرہ ٔ گلزار ابراہیمی نے لکھا ہے کہ 1196 ھ میں وہ لکھنؤ میں تھے۔ اس لئے غالباًیہ بیان صحیح نہیں کہ وہ 1212ھ میں لکھنؤ آئے۔ یقیناً وہ اس سے بہت پہلے آ چکے ہوں گے اور نواب آصف الدولہ نے اگر ان سے اصلاح لی تو کافی مدت تک یہ سلسلہ جاری رہا ہوگا۔
اول اول جب دہلی میں تھے تو میر تخلص کرتے تھے لیکن دہلی چھوڑتے ہی اس کو بھی چھوڑ دیا اور سوز تخلص اختیار کیا۔ چنانچہ ان کا مشہور شعر ہے،
کہتے تھے پہلے میر میر تب نہ ہوئے ہزار حیف
اب جو کہے ہیں سوز سوز یعنی سدا جلا کر و
ان کے شعر پڑھنے کا رنگ بالکل نرالا تھا۔ چنانچہ آزاد نے لکھا ہے کہ آواز دردناک تھی، شعر نہایت نرمی اورسوزوگداز سے پڑھتے تھے، شعر کو اس طرح ادا کرتے تھے کہ خود مضمون کی صورت بن جاتے تھے۔ چنانچہ ایک بار جب انہوں نے اپنا قطعہ پڑھا۔
گئے گھر سے جو ہم اپنے سویرے
سلام اللہ خاں صاحب کے ڈیرے
وہاں دیکھے کئی طفل پری رو
ارے رے رے، ارے رے رے، ارے رے رے
تو چوتھا مصرعہ پڑھتے پڑھتے وہیں زمین پر گر پڑے۔ آب حیات میں لکھا ہے کہ کسی غزل کا ایک قطعہ اس انداز سے سنایا کہ مشاعرہ کے سب لوگ گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ قطعہ یہ تھا۔
او مار سیاہ زلف سچ کہہ
بتلا دے دل جہاں چھپا ہو
کنڈلی تلے دیکھیو نہ ہووے
کاٹا نہ ہفی (6) ترا برا ہو
’’پہلے مصرعہ پر ڈرتے ڈرتے بچ کر جھکے، گویا کنڈلی تلے دیکھنے کو جھکے ہیں اور جس وقت کہا ’’کاٹا نہ ہفی‘‘ بس دفعتاً ہاتھ کو چھاتی تلے مسوس کر ایسے بے اختیار لوٹ گئے کہ لوگ گھبرا کر سنبھالنے کو کھڑے ہو گئے۔‘‘ (آب حیات)
جس زمانہ میں سوز کی شاعری کا آغاز ہوا ہے، اسے عہد وسطیٰ کا دور اول کہنا چاہئے۔ جب زبان کی صحت وصفائی کی طرف شعرا کو خاص توجہ ہو چلی تھی اور ولی دکنی اور ان کے ہم عصر شعرا کے محاورات و طرز ادا میں نمایاں تبدیلیاں کی جا رہی تھیں۔ چنانچہ اسی دور کا مشہور شاعر قائم کہتا ہے،
قائم میں غزل طور کیا ریختہ، ورنہ
ایک چیز لچر سی بزبان دکنی تھی
یوں تو غزل میں جذبات محبت کو بغیر کسی استعارہ و تشبیہ کے ظاہر کر دینا شعراء متقدمین کی بھی خصوصیت تھی۔ کہیں ہندی و فارسی الفاظ کی آمیزش، ترکیب کی تعقید اور غیرمانوس قدیم محاورات نے اس میں وہ سلاست و روانی پیدا نہ ہونے دی جو محبت کی زبان کے لئے ضروری ہے۔ جس دور میں سوز پیدا ہوئے، اس کی خصوصیت یہی تھی کہ اس نے زبان کی صحت و صفائی کی طرف خاص توجہ کی اور خصوصیت کے ساتھ سودا کو چھوڑ کر میر ؔ، دردؔ، سوز اور قائم نے توتغزل کی ایسی داغ بیل ڈالی کہ آج تک اس سے ہٹ کر کوئی دوسرا صحیح معیار قائم نہ ہو سکا۔
جس حد تک صرف غزل گوئی کا تعلق ہے اس میں کلام نہیں کہ میر تقی میر کا مرتبہ بہت بلند نظر آتا ہے، جس کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ انہوں نے سب سے زیادہ طویل عمر پائی اور اپنے بعد کلام کا بڑا ذخیرہ چھوڑ گئے۔ لیکن اگراس سے قطع نظر کر کے درد اور سوز کا مطالعہ کیا جائے تو تسلیم کرنا پڑےگا کہ زبان کی روانی، بیان کی سلاست، طرز ادا کے بے ساختہ پن میں ان دونوں کا پہلو بھی کسی طرح میر سے دبتا ہوا نظر نہیں ا ٓتا ۔ بلکہ ایہام و لفظی رعایت کے ساتھ رکیک خیالات میر کے یہاں تو نظر بھی آ جاتے ہیں لیکن درد و سوز کا کلام اس عیب سے بالکل پاک ہے۔ البتہ ان تینوں شاعروں کے سوزوگداز میں ضرور فرق ہے۔
دردؔ کی شاعری کا نصب العین یا سر چشمہ چونکہ صرف روحانی یا ذہنی محبت ہے، اس لئے ان کے اشعار پڑھنے کے بعد ایک شخص اپنے اندر وہ عامیانہ جذبات پیدا ہوتے ہوئے محسوس نہیں کرتا جو گوشت وخون سے متعلق ہونے والی محبت سے وابستہ ہوتے ہیں۔ میر کے یہاں جذبات عشق کا منبع یقیناً درد کا سا عمیق و پاکیزہ نہیں ہے، لیکن چونکہ ان کی محبت ناکام تھی اس لئے ان کے سوزوگداز میں وہ عامیانہ رنگ پیدا نہیں ہواجو عشق کامیاب کا نتیجہ ہوا کرتا ہے۔ سوز کے واردات محبت، ان دونوں کے مقابلہ میں زیادہ سطحی ہیں اور اس لئے جو کچھ وہ کہتے ہیں بالکل اسی دنیا کی باتیں ہیں اور روز کی عاشقانہ زندگی میں جو کیفیات ہجر و وصال پیدا ہوتی ہیں، وہ انہیں سے بحث کرتے ہیں۔ وہ جذبات کا اظہار ہمیشہ صاف صاف الفاظ میں کرتے ہیں اور ان میں کسی قسم کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شخص کھڑا باتیں کر رہا ہے، لیکن کبھی کبھی ایسی لطیف و نازک تعبیرات کر جاتے ہیں کہ میر و درد کی دنیا سامنے آ جاتی ہے۔ ان کا ایک شعر ہے۔
ایکباری دھک سے ہو کر دل کی پھر نکلی نہ سانس
کس شکار انداز کا یہ تیر بےآواز ہے
تیر بے آواز کے اثرات کو اس طرح ظاہر کرنا، ’’پھر نکلی سانس‘‘ اتنی پاکیزہ تعبیر ہے جو لفظاً و معناًدونوں حیثیت سے بہت بلند مرتبہ رکھتی ہے۔ اس سے بہتر اور اتنا بہتر شعر کہ شاید ہی اس کی دوسری مثال کہیں اور مل سکے، یہ ہے،
مجھ کو دھوکا دیا کہا کہ شراب
اے ان آنکھوں کا ہوئے خانہ خراب
خالص میر کے رنگ کے اشعار ملاحظہ ہوں۔
دو دن کی یہ زیست سوز صاحب
جس طرح نبھے تم اب نباہو
رسوا ہوا، خراب ہوا، مبتلا ہوا
وہ کون سی گھڑی تھی کہ تجھ سے جدا ہوا
میں کاش اس وقت آنکھیں موند لیتا
یہ میرا دیکھنا مجھ کو بلاتھا
ہے شوخ مزاج سوز واللہ
چھیڑےگا اسے برا کرےگا
جس کا تو آشنا ہوا ہوگا
ا س نے کیا کیا ستم سہا ہوگا
لوگ کہتے ہیں مجھے یہ شخص عاشق ہے کہیں
عاشقی معلوم لیکن دل تو بے آرام ہے
فارسی ترکیبیں وہ بالکل استعمال نہیں کرتے اوران کے سارے کلام میں صرف ایک غزل ایسی ہے جس میں غالباً قافیہ سے مجبور ہو کر انہوں نے فارسی الفاظ استعمال کئے ہیں، لیکن اصلی رنگ ہاتھ سے نہیں گیا، ملاحظہ ہو،
برق تپیدہ یا شررِ بر جہیدہ ہوں
جس رنگ میں ہوں میں غرض از خود رمیدہ ہوں
اے آہ و نالہ مجھ سے نہ آگے بڑھو کہ میں
بچھڑا ہوں کا رواں سے مسافر جریدہ ہوں
اے اہل دہر میں بھی مرقع میں دہر کے
تصویر ہوں ولے لب حسرت گزیدہ ہوں
منت کش خزاں ہوں، نہ حسر ت کشِ بہار
جوں سرو باغ دہر میں دامن کشیدہ ہوں
سوز کا اصلی رنگ جس میں وہ میر و درد سے بالکل علیحدہ نظر آتے ہیں، حسب ذیل مسلسل اشعار کی غزل سے واضح ہوگا۔
مرا جان جاتا ہے یار وبچا لو
کلیجہ میں کانٹا گڑا ہے نکالو
نہ بھائی مجھے زندگانی نہ بھائی
مجھے مار ڈالو، مجھے مار ڈالو
خدا کے لئے اے مرے ہم نشینو
وہ بانکا جو جاتا ہے اس کو بلا لو
اگر وہ خفا ہوکے کچھ گالیاں دے
تو دم کھار ہو، کچھ نہ بولو نہ چالو
نہ آوے اگر وہ تمہارے کہے سے
تو منت کرو گھیر ے گھارے منا لو
کہو ایک بندہ تمہارا مرے ہے
اسے جان کندن سے چل کر بچا لو
جلوں کی بری آہ ہوتی ہے پیارے
تم اس سوز کی اپنے حق میں دعا لو
الغرض سادگی اور انتہا سے زیادہ سادگی ان کی خصوصیت تھی اور اسی لئے ان کے بعض اشعار اب بھی عوام میں زبان زد ہیں۔ مثلاً،
کی فرشتوں کی راہ ابر نے بند
جو گنہ کیجئے ثواب ہے آج
ایک آفت سے تو مر مر کے ہوا تھا جینا
پڑ گئی اور یہ کیسی مرے اللہ نئی
آب حیات میں لکھا ہے کہ، 12 سطر کے صفحہ سے 300 صفحہ کا کل دیوان ہے۔ اس میں 288 صفحہ غزلیات، 12 صفحہ میں مثنوی، رباعی، مخمس ہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ اس وقت ان کا دیوان کہیں نہیں ملتا۔ تذکروں میں ان کا کلام جتنا نظر آتا ہے وہ بہت کم ہے۔ اتفاق سے کتب خانہ آصفیہ (حیدر آباد دکن) میں ان کا ایک قلمی دیوان نگاہ سے گزرا، جو ہرچند بہت مختصر ہے لیکن نہ اتنا کہ اس کو نظر انداز کر دیا جاتا۔ چنانچہ اسی کو دیکھ کر اس مضمون کے لکھنے کی تحریک پیدا ہوئی اور جی نہ چاہا کہ ناظرین نگار کو اس دیوان کے انتخاب سے محروم رکھوں۔
انتخاب
سردیوان پر اپنے جو بسم اللہ میں لکھتا
بجائے مدِ بسم اللہ مدِ آہ میں لکھتا
اگر میں مرتبہ حسنین کا لکھتا تو کیا لکھتا
بہ سوز سینہ زہر ا فقط اک آہ میں لکھتا
اہل ایمان سوز کو کہتے ہیں کافر ہو گیا
آہ یار ب رازِ دل ان پر بھی ظاہر ہو گیا
کیا مسیحائی ہے تیرے لعل لب میں اے صنم
بات کے کہتے ہی دیکھو سوز شاعر ہو گیا
تڑپتی کیوں ہے اے بلبل کمال اتنا توپیدا کر
کہ تیرا اشک جس جا گر پڑے گلزار ہو پیدا
مسیحائی ہے تیری تیغ میں کیا سوز کو غم ہے
جو سو سو بار ہووے قتل سو سو بار ہو پیدا
بلبل کہیں نہ جائیو زنہار دیکھنا
اپنے ہی من میں پھول کے گلزار دیکھنا
سر اوپر شام آئی اب تلک منزل نہیں پاتا
کہاں بستر بچھاؤں یاں کسی کا دل نہیں پاتا
رسوا ہوا، خراب ہوا، مبتلا ہوا
وہ کون سی گھڑی تھی کہ اس سے جدا ہوا
عاشق ہوا، اسیر ہوا، مبتلا ہوا
کیا جانئے کہ دیکھتے ہی دل کوکیا ہوا
میں کاش اس وقت آنکھیں موند لیتا
یہ میرا یکھنا مجھ کو بلا تھا
تجھ پہ قربان مری جان دل و دیں میرا
ایک باری تو سن افسانہ رنگیں میرا
ایک دل تھا جان من اس کی بساط
تونے لوٹا سوز لوٹے ہے پڑا
تو منع گریہ نہ کر مجھ کونا صحا بے درد
نہیں ہے اب تو مرے اختیار میں رونا
تو روز وصل میں اے سوز اپنے آنسو پوچھ
ابھی بہت ہے تجھے ہجر یار میں رونا
بھلا میاں سوز ہم سے راست بولو عشق خوباں میں
بجز رنج و الم پھر اور تم نے کیا مزا دیکھا
جب تک کہ میرے تن میں اے جان دم رہےگا
تیرا اسی طرح سے مجھ پر ستم رہےگا
رو دےگا عشق مجھ کوسر خاک ڈال اپنے
مرنے کامیرے تجھ کوکا ہے کو غم رہےگا
ہے شوخ مزاج سوز واللہ
چھیڑےگا اسے برا کرےگا
بات کہتے ہی بگڑکر تو چلا
دل تو میرا پھینک جا، ظالم بھلا
عجب چیز تھا سوز کس سے کہیں ہم
ولے اس کو ان غافلوں نے نہ پایا
سوز تھا جو پڑا سسکتا تھا
کیوں مرے نوجوان دیکھ لیا
کیوں سوز ہماری بات مانی
آپ ہی ملا تجھ سے آن دیکھا
جس کاتو آشنا ہوا ہوگا
اس نے کیا کیا ستم سہا ہوگا
تھر تھراتا ہے اب تلک خورشید
سامنے تیرے آ گیا ہوگا
مجھ کو تنہا چھوڑ کراے شوخ بے پروا نہ جا
جان میری ساتھ جائےگی ابھی سستا نہ جا
شوخ ہی آئےگا خود داری بھی لازم ہے تجھے
سوز یہ کیا طور ہے اتنا بھی تو گھبرا نہ جا
جا جا مرے پاس سے تو جا جا
توبہ، جو کہوں تجھے میں آ جا
میں کہتا نہ تھا سوزؔ تو مت ہو عاشق
یہ تیرا کیا تیرے آگے ہی آیا
خنجر سے منہ نہ موڑا، تیغ سے دم نہ مارا
اس سوز نے بھی کی ہیں تجھ سے وفائیں کیا کیا
دیکھ دل کو چھیڑ مت ظالم کہیں دکھ جائےگا
ہاں بغیر از قطرۂ خوں اور کیا تو پائےگا
قتل کی نیت توکر آیا ہے تو کیا دیر ہے
پر مجھے تومار کر ظالم بہت پچھتائے گا
دنیا میں یہی دوستی ہوتی ہے مری جاں
جب تک نہ لیا دل تجھے آرام نہ آیا
کعبہ ہی کا اب قصد یہ گمراہ کرےگا
جو تم سے بتاں ہوگا سو اللہ کرےگا
اے سوز عزم کوچہ قاتل نہ کر عبث
توایک بھی بتا دے کہ واں جا کے آ سکا
ایک دن اک شخص نے اس سے کہا
تونے تو یہ ذکر سنا ہو ئے گا
یعنی کہ عاشق ہے ترا جی سے سوز
ہو متبسم یہ کہا ہوئےگا
ہوا دل کو میں کہتا کہتا دِوانا
پر اس بےخبر نے کہا کچھ نہ مانا
جن کو نت دیکھتے تھے اب ان کا
دیکھنا ہی خیال و خواب ہوا
سوزؔ بے ہوش ہو گیا جب سے
تیری صحبت میں بار یاب ہوا
آج اس راہ دل ربا گزرا
جی پہ کیا جانئے کہ کیا گذرا
آہ ظالم نے کچھ نہ مانی بات
میں تو اپنا سا جی چلا گذرا
رات کو نیند ہے نہ دن کوچین
ایسے جینے سے اے خدا گزرا
کہتا نہ تھا میں اے دل اس کام سے تو باز آ
دیکھا مزا نہ تونے نادان عاشقی کا
میں کس کے ہاتھ لکھ بھیجوں میاں صاحب سلام اپنا
مجھے تو بھول جاتا ہے تیرے دھڑکے سے نام اپنا
مجھ سے مت جی کو لگاؤ کہ نہیں رہنے کا
میں مسافر ہوں کوئی دن کو چلا جاؤں گا
مجھ کو دھوکا دیا کہا کہ شراب
اے ان آنکھوں کا ہوئے خانہ خراب
کوئی دن کو چلا جاؤں گا آپ ہی
مسافر سوز کو رہنے دو یک چند
ہو گیا غم سے جاں سوز گداز
پر نہ آیا تو اپنی ضد سے باز
چین کب آئے جو دیکھیں دل کی یہ بیتابیاں
نیند بھی جاتی رہی سن سن تری بد خوابیاں
دے بھلا عشق میری شوکت و شان
بھائی میرے تو اڑ گئے اوسان
تو جو کہتا ہے گلہ میرا کیا جس تس کنیں
کب کیا کس جا کیا کس وقت کس دم کس کنیں
بلبل کدھر تو پھرتی ہے غافل خبر لے جلد
گل نے لگائی آگ ترے آشیانہ میں
ایک ڈر تھا کہ جی بچے نہ بچے
دوسرے غم نے کھائی میری جاں
ظاہر میں گرچہ بیٹھا لوگوں کے درمیاں ہوں
پر یہ خبر نہیں ہے میں کون ہوں کہاں ہوں
اس پاس پھر گیا دل گمراہ کیا کروں
دم مارنے کی بات نہیں آہ کیا کروں
دل بنجر پڑا ہے خدا جانے کیا ہوا
اس حال میں سوز کو آگاہ کیا کروں
ایک دن ایک شخص نے پوچھا
میر صاحب تمہارا یار کہاں
میں نے اس سے یہ سن کہا بھائی
اب مجھے اس تلک ہے بار کہاں
گاہ گاہے سلام ہوتا ہے
پر وہ باتیں کہاں وہ پیارکہاں
بلبل کہیں، پتنگ کہیں اور ہم کہیں
اکٹھے یہ دل جلے نہ ہوئے ایک دم کہیں
کیا خفا کر دیا جوانی کو
کوسوں کس منہ سے ناتوانی کو
کیوں ہیں ہم بد نظر بھلا صاحب
آفریں تیری بد گمانی کو
سوزؔ اب بھی رہا ہے کچھ باقی
چھوڑ دے اب سرائے فانی کو
دو دن کی یہ زیست سوز صاحب
جس طرح نبھے تم اب نباہو
جنازے والو نہ چپکے قدم بڑھائے چلو
اسی کا کوچہ ہے ٹک کرتے ہائے ہائے چلو
او چلے جانے والے بے پرواہ
کچھ فقیروں کے حال پر بھی نگاہ
غم ہے یا انتظار ہے کیا ہے
دل جو اب بےقرار ہے کیا ہے
یہ ہو سکے کہ اپنے تئیں سوز بھول جائے
پر میری جان کہہ تجھے کیونکر بھلا سکے
سرو قد لاکھوں پھرے ہیں تجھ کو کیا
آہ میرا سر و بالا اور ہے
مکرجانے کا قاتل نے نرالا ڈھنگ نکالا ہے
سبھوں سے پوچھتا ہے اس کو کس نے مار ڈالا ہے
آج جی اس طرح نکلتا ہے
جس نے دیکھا سو ہاتھ ملتا ہے
دریا دلی نے مجھ کو ڈبویا
ہے موج اپنی زنجیر اپنی
اشک خوں آنکھوں میں آ کر جم گئے
درد کے بھی دیکھنے سے ہم گئے
مثل نے ہر استخواں میں درد کی آواز ہے
کچھ نہیں معلوم یار ب سوز ہے یا ساز ہے
ایک باری دھک سے ہو کر دل کی پھر نکلی نہ سانس
کس شکار انداز کا یہ تیر بے آواز ہے
لوگ کہتے ہیں مجھے یہ شخص عاشق ہے کہیں
عاشقی معلوم لیکن دل تو بے آرام ہے
رونا بھی تھم گیا ترے غصہ کے خوف سے
تھی چشم ڈبڈبائی پر آنسو نہ ڈھل سکے
سرزانو پہ ہو اس کے اور جان نکل جائے
مرنا تو مسلم ہے، ارمان نکل جائے
حاشیہ
(1) تذکرۂ گل رعنا
(2) تذکرۂ گلشن ہند
(3) ان کا سنہ ولادت کسی تذکرہ میں نظر نہیں آیا لیکن چونکہ ان کا سنہ وفات آ ب حیات، گل رعنا میں 1199ھ لکھا ہے اور وقت وفات 61 سال کی عمر بتائی جاتی ہے اس لئے ولادت 1038ھ میں ہوئی ہوگی۔
(4) گلشن ہند میں سنہ وفات 1202ھ لکھا ہے۔
(5) میر کاسنہ ولادت بھی ان کے سنہ وفات سے متعین کیا گیا ہے کیونکہ ان کی عمر0 10 سال کی بتائی جاتی ہے اور وفات 1225ھ میں ہوئی ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.