Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شام کی چہل پہل

شاہد احمد دہلوی

شام کی چہل پہل

شاہد احمد دہلوی

MORE BYشاہد احمد دہلوی

    جامع مسجد کے جنوبی رخ کی سیڑھیوں پر کوئی بازار نہیں تھا۔ اکثر فقیر اور کنگلے ان پر پڑے رہتے تھے۔ ایک مجذوب ہیں مادر زاد ننگے، نابینا ہیں، حافظ جی کہلاتے ہیں۔ خاک میں لوٹتے رہتے ہیں۔ ہم نے جب سے ہوش سنبھالا حافظ جی کو ایک ساہی دیکھا۔ انھیں دلی والے بڑا جلالی بتاتے تھے۔ طرح طرح کی روایتیں ان کے بارے میں مشہور ہیں۔ پولیس نے انھیں کئی بار جیل میں بند کیا مگر سنا ہے کہ وہ باہر نکل آتے ہیں۔ ابھی کلکتہ میں موجود اور ابھی دلی میں آ گئے۔ منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑایا کرتے ہیں۔ ضرورت مند اور عقیدت مند انھیں گھیرے رہتے ہیں۔ کوئی دودھ کا افورا ہاتھ میں لئے انھیں پلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ کوئی دونے میں مٹھائی لئے حاضر ہے مگر حافظ جی نہ تو کچھ کھاتے ہیں اور نہ پیتے ہیں۔ سب کو دھتکارتے ہی رہتے ہیں۔

    شہر کے بعض رئیس بھی ان کے معتقد ہیں۔ جو بات ان کے منہ سے نکلتی ہے ہو کر رہتی ہے۔ جواری اور سٹے باز انھیں گھیرے رہتے ہیں۔ ان کی بڑ سے ہی اپنے مطلب کی بات نکال لیتے ہیں۔ لگ گیا تو تیر ورنہ تکا۔ دو کہار انہیں ڈولی میں ڈال کر مقررہ گھر پر لے جاتے ہیں اور صاحب خانہ کہاروں کو دو دو روپے دیتے ہیں۔ حافظ جی کے آنے کو یہ لوگ باعث برکت سمجھتے ہیں۔ ہم نے ان کی کوئی کرامت تو دیکھی نہیں البتہ یہ ضرور دیکھا ہے کہ دلی کی بربادی سے پہلے حافظ جی خاک بہت اڑانے لگے تھے۔ مٹھیاں بھر بھر کے خاک اڑایا کرتے تھے۔ لوگ پوچھتے، ’’حافظ جی، یہ کیا کر رہے ہو؟‘‘ وہ کہتے، ’’اب تو خاک ہی اڑےگی۔‘‘ اور ۴۷ء میں جیسی خاک اڑی وہ ہم نے بھی دیکھی اور آپ نے بھی۔ دلی کو لوکا ہی لگ گیا۔

    ان سیڑھیوں کے مغربی پہلو میں تہہ بازاری ہے۔ سامنے ٹرام کا ٹکٹ گھر ہے۔ سارے شہر کی ٹرامیں یہاں آکر دم لیتی ہیں۔ ایک بوڑھا نابینا فقیر خواجہ میر دردؔ کی غزل،

    جس لئے آئے تھے سو ہم کر چلے

    تہمتِ چند اپنے ذمے دھر چلے

    بڑی دردناک دھن میں سناتا رہتا تھا۔ اس کی آواز دور ہی سے سنائی دینے لگتی ہے۔ اس نے مطلع میں خاصی تحریف کر لی ہے۔ مگر اس تصرف میں مزہ آ گیا،

    کس لئے آئے تھے ہم کیا کر چلے

    تہمتیں چند اپنے ذمے دھر چلے

    خواجہ میر دردؔ کے جانشین خواجہ ناصر نذیر فراقؔ دہلوی اس فقیر کو ایک روپیہ دے کر یہ غزل سنا کرتے تھے۔ مؤدب بیٹھ جاتے اور ہر شعر پر جھومتے رہتے۔ جب وہ یہ شعر پڑھتا،

    ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ

    جب تلک بس چل سکے ساغر چلے

    تو ان کی ایک آنکھ ساون اور ایک بھادوں بن جاتی۔ عجب کیف کا عالم ان پر طاری ہو جاتا۔ فراقؔ مرحوم نے اس مطلع کی تحریف پر نابینا کو کبھی متوجہ نہیں کیا۔ اس کی صدا سنتے اور آنکھیں چھلکنے لگتیں۔

    ’’کباب آہو!‘‘

    چوک کے شور کو چیرتی ہوئی ایک آواز گونجی۔ اس آواز میں کوہ ندا کی سی کشش ہے۔ دیکھئے یہ صاحب جو بجلی کے ہنڈے کے نیچے اپنا خوانچہ لئے بیٹھے ہیں یہ آواز انہی کی ہے۔

    ’’کیوں بھئی تم کیا بیچتے ہو؟‘‘

    ’’حضور، کباب آہو۔‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے جو منہ اوپر کو اٹھایا تو ان کی کوڑیوں جیسی آنکھیں ہنڈے کی روشنی میں چمکیں۔

    ’’ارے یہ بیچارا تو اندھا ہے۔‘‘

    خوانچے والے نے سن لیا۔ بولا، ’’بچپن میں سیتلا نکلی تھی، آنکھیں جاتی رہیں۔‘‘

    ’’اچھا تو تم ہی کباب بناتے ہو۔‘‘

    ’’جی نہیں حضور۔ سودا سلف بازار سے لے آتا ہوں۔ گھر والی کباب تیار کر دیتی ہے۔ ہم بس دو ہی دم ہیں۔ اللہ کی مہربانی سے گزارہ ہو جاتا ہے۔‘‘

    ’’بھئی تم بڑے ہمت والے غیرت مند آدمی ہو۔ کوئی کم ہمتا ہوتا تو بھیک مانگنے لگتا۔‘‘

    ’’جی حضور، چلتے ہاتھ پاؤں کسی کے آگے ہاتھ پسارنا اچھا نہ لگا۔‘‘

    ’’اچھا، اپنے کباب تو کھلاؤ۔‘‘

    اندھے نے دو طشتریوں میں دو دو شامی کباب رکھ ایک طرف چٹنی کی لگدی رکھ دی۔ اوپر سے پیاز کا لچھا ڈال گاہکوں کے حوالے کیا۔ بولا، ’’حضور، آج واقعی میں ہرن ہی کے کباب ہیں۔‘‘

    ’’اچھا! ہرن کا گوشت تم کہاں سے لائے؟‘‘

    ’’جی ہمارے پڑوس میں ایک شکاری رہتے ہیں۔ ان سے مجھے ہرن کا گوشت مل جاتا ہے۔‘‘

    ’’اور جب نہیں ملتا تو؟‘‘

    ’’تو حضور، بازار سے بکری کا گوشت لے لیتا ہوں اور شامی کباب کی آواز لگاتا ہوں۔‘‘

    ’’بھئی تم ایماندار آدمی ہو۔ یہ لو۔‘‘

    گاہکوں نے ایک روپیہ دیا اور چلنے کو ہوئے تو اندھے نے کہا، ’’بابوجی تھمئے۔‘‘ اور خوانچے میں سے ٹٹول کر بارہ آنے انہیں واپس دے دیے۔

    ’’نہیں نہیں، تم یہ بارہ آنے بھی اپنے پاس رکھو۔‘‘

    ’’نہیں حضور، یہ نہیں ہو سکتا۔ چار کبابوں کے چار آنے ہی ہوتے ہیں۔‘‘

    ’’مگر ہم تو خوشی سے تمہیں ایک روپیہ دے رہے ہیں۔‘‘

    ’’اللہ آپ کو خوش رکھے۔ یہ مجھ سے نہ ہوگا۔‘‘

    بہتر کہا مگر اندھا نہ مانا۔ ہار کر بارہ آنے اس سے واپس لینے پڑے۔ بھئی یہ دلی ہے۔ یہاں بڑا بڑا ٹڑھ مغزا پڑا ہے۔ بھلا وہ کسی کی خیرات زکوٰۃ کیوں لینے لگا؟ چلو اپنی راہ چلو۔

    جہاں ہم اب کھڑے ہیں وہ ایک چھوٹا سا چوراہا ہے۔ جامع مسجد کے جنوبی رخ ہماری پشت ہے۔ دائیں ہاتھ کو ایک راستہ سنگھاڑے سے لگا لگا چاؤڑی بازار کو چلا جاتا ہے۔ یہ وہی چاؤڑی ہے جس کے بارے میں راسخؔ نے کہا ہے،

    چاؤڑی قاف ہے یا خلد بریں ہے راسخؔ

    جمگھٹے حوروں کے، پریوں کے پرے رہتے ہیں

    تیس پینتیس سال پہلے تک چاؤڑی کے سارے بالاخانے آباد تھے اور تیسرے پہر ہی سے سجنے شروع ہو جاتے تھے۔ ادھر شام کا جھٹ پٹا ہوا اور ادھر اندر کا اکھاڑ اچاؤڑی میں اترا۔ پیشہ ور عورتیں بن سنور کر بالاخانوں کے برآمدوں میں آبیٹھتیں۔ یہ عموماً باہر والیاں ہوتی تھیں، پاتریں کہلاتی تھیں۔ خاندانی یا ڈیرے دار طوائفیں سر بازار نہیں بیٹھتی تھیں۔ ان کے علیحدہ کمرے ہوتے تھے یا مکان ہوتے تھے۔ ان کے ہاں ایرے غیرے نتھو خیرے جا بھی نہیں سکتے تھے۔ یہ پیسہ بھی نہیں کماتی تھیں۔ کسی ایک رئیس کی پابند ہوتی تھیں۔، البتہ جانے پہچانے شرفا ان کے ہاں جایا کرتے تھے۔ گھنٹہ دو گھنٹے بیٹھتے، شائستہ گفتگو ہوتی۔ شعر و شاعری، بولی ٹھولی، ہنسی مذاق کی باتیں ہوتیں، گانے کی محفل ہوتی، خیال، ٹھمری، دادرا، غزل گائی جاتی۔ ڈیرہ دارنیوں میں شرفا کے گھروں کا ماحول ہوتا تھا۔ کوئی بیہودگی، کوئی بدتمیزی روا نہیں رکھی جاتی تھی، جبھی تو دلی کے اگلے شرفا اپنے بچوں کو تمیز و شائستگی سیکھنے کے لئے ان کے ہاں بھیجا کرتے تھے۔

    غروب آفتاب کے بعد چاؤڑی کے بالاخانے بقعۂ نور بن جاتے۔ طبلے کھڑکنے لگتے، تانیں اڑنے لگتیں، تھئی ناچ ہوتا۔ شوقین مزاج منچلے کمروں پر جاکر گانا سنتے، ناچ دیکھتے اور حسب توفیق پان کی تھالی میں روپے رکھ کر چلے آتے۔ یہ گانے ناچنے والیاں اچھے استادوں سے فن سیکھتی تھیں۔ گھر گھر ان کے مجرے ہوتے تھے۔ کئی کئی سو کی پشوازیں پہن کر ناچتی تھیں۔ ان کی کسی محفل کا حال بھی ہم کبھی آپ کو سنائیں گے۔ یہ بازار چونکہ جامع مسجد کے مغربی رخ پر تھا، اس لئے دیندار مسلمانوں کو اس پر اعتراض تھا۔ برسوں اسے یہاں سے اٹھوانے کی کوشش کی گئی مگر اس بازار میں جائداد ہندوؤں کی زیادہ تھی، اور میونسپل کمیٹی میں بھی ہندو ممبروں کی تعداد زیادہ تھی، اس لئے یہ بازار مدتوں تک یہیں جما رہا مگر جب لاہوری دروازے سے اجمیری دروازے تک دونوں طرف کے پہلوؤں کی زمین نیلام ہو گئی اور ایک نیا بازار بن گیا تو اسے آباد کرنے کے لئے کرایہ داروں کی ضرورت پیش آئی۔ اب جو مسلمانوں نے چاؤڑی سے رنڈیوں کو ہٹانے کا مطالبہ پیش کیا تو ہندوؤں نے بھی ایک یہ نئی تحریک چلائی کہ شہر کے وسط میں رنڈیوں کا رہنا خطرے سے خالی نہیں ہے، لہٰذا انہیں اٹھا دینا چاہئے۔

    یہاں سے اٹھا کر انہیں کہاں جگہ دی جائے؟

    نئے بازار میں۔

    لو صاحب، چاؤڑی خالی ہو گئی اور نیا بازار آباد ہو گیا۔ اس کا نام نئی چاؤڑی پڑ گیا تھا۔ سڑک کا نام برن بسچین روڈ تھا۔ اس لئے آگے چل کر یہ نیا رنڈی بازار صرف ’’روڈ‘‘ کہلانے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے جنگل میں منگل ہو گیا۔ سارے کرشمے پیسے کے ہیں۔

    جامع مسجد کے جنوبی چوراہے کے سامنے والا راستہ مٹیا محل کا بازار ہے۔ بائیں ہاتھ کو مچھلی والوں کا بازار ہے۔ اس میں پہلے صرف انڈا، مرغی، مچھلی اور گوشت کی دکانیں تھیں۔ کوئی چالیس سال سے اس میں کتابوں کی دکانیں کھلنی شروع ہو گئی تھیں۔ رفتہ رفتہ اس بازار میں کتابوں کی دکانوں کی کثرت ہو گئی۔ خواجہ حسن نظامی مرحوم نے بھی اسی بازار میں ایک بہت بڑا کتب خانہ ’’دی حسن نظامی ایسٹرن لٹریچر کمپنی‘‘ کے نام سے قائم کیا تھا۔ خواجہ صاحب کی سرکردگی میں تمام کتب فروشوں نے کوشش کر کے اس بازار کا نام پلٹوا کر ’’اردو بازار‘‘ رکھوایا۔ شاہی زمانے میں اسی کے قریب ایک اردو بازار تھا بھی، جو خانم کے بازار وغیرہ کے ساتھ کھد گیا اور ان بڑے بڑے بازاروں کی جگہ پریڈ کا میدان بن گیا۔

    اردو بازار کی بڑی بڑی دکانوں میں کتابوں کی ایک بڑی دکان ’’کتب خانہ علم وادب‘‘ کہلاتی تھی۔ ۴۷ء میں دلی کے اجڑنے تک مغرب اور مغرب کے بعد اس کتب خانے پر شہر کے اکثر شاعر اور ادیب جمع ہوتے تھے۔ کتب خانےکے مالک سید وصی اشرف صاحب ادیب دوست اور متواضع آدمی تھے۔ شام کو اپنا کاروبار چھوڑ کر اہل علم و ادب کی خاطر تواضع میں لگ جاتے تھے۔ شاہ جہانی دیگ کی کھرچن بھی شام کو یہیں مل سکتی تھی۔

    وہ دیکھئے استاد بیخود اپنی ہزارہ تسبیح دونوں ہاتھوں میں گھماتے خراماں خراماں چلے آتے ہیں۔ مٹیا محل سے یادگار تک ٹہلنے جاتے ہیں۔ واپسی میں کتب خانے پر ٹھیکی ضرور لیتے ہیں۔ انہیں روزانہ ایک ناول پڑھنے کے لئے چاہئے ہوتا ہے۔ کتب خانے سےان کی یہ ضرورت پوری ہوتی رہتی ہے۔ ٹکسالی زبان اور ٹنٹالی محاورے بولتے ہیں، خاص دلی والوں کے لہجے میں۔ ان کی گالیوں میں بھی ایک چٹخارہ ہوتا ہے۔

    نواب سراج الدین احمد خاں سائل دہلوی بھی روزانہ جامع مسجد اور اردو بازار کا پھیرا کرتےہیں۔ عجب شاندار بزرگ ہیں۔ چوگوشیہ، انگرکھا، آڑا پاجامہ اور پاؤں میں انگوری بیل کی سلیم شاہی، سائل صاحب کو دیکھ کر منہ سے بے اختیار سبحان اللہ نکل جاتا ہے۔ آخر عمر میں کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔ چلنے پھرنے سے اینڈ ہو گئے ہیں مگر شام کو اردو بازار میں اپنی رکشا میں بیٹھ کر ضرور آتے ہیں۔ بیخود صاحب اسّی سے اوپر ہو گئے ہیں اور سائل بھی اسّی ہی کے پیٹے میں ہیں۔ یہ دونوں بزرگ استاد داغؔ کی یادگار ہیں۔ دلی کی شاعری کا وقار ان ہی دونوں کے دم قدم سے قائم ہے۔

    ایک اور اسّی سال کے بزرگ میر ناصر علی ’’صلائے عام‘‘ والے ہیں۔ فراش خانے سے روزانہ چوک تک پیدل آتے ہیں اور پرانی چیزیں دیکھ بھال کر چلے جاتے ہیں۔ پیدل چلنا ان کی وضع داری میں داخل ہے۔ پیچھے پیچھے ایک ملازم حاضر رہتا ہے۔ کچھ خریدتے ہیں تو اس کے حوالے کرتے ہیں۔

    ان بزرگوں سے کم عمر والوں میں علامہ راشد الخیری ہیں، قاری سرفراز حسین ہیں، واحدی صاحب ہیں اور عارف ہسوی ہیں۔ ان کا جی چاہتا ہے تو کبھی چوک پر بھی آ جاتے ہیں ورنہ ان کی نشست شام کو یادگار میں رہتی ہے۔ خواجہ حسن نظامی بستی نظام الدین میں رہتے ہیں مگر روزانہ شہر ضرور آتے ہیں اور اردو بازار میں سے ضرور گزرتے ہیں۔ ان کی لٹریچر کمپنی تو کبھی کو ختم ہو چکی مگر ایک چھوٹی سی دکان میر قربان علی بسملؔ کی ہے۔ میر صاحب خواجہ صاحب سے کچھ بڑے ہی ہیں، صرف خواجہ صاحب کی کتابیں بیچتے ہیں۔ کبھی ایک رسالہ دلی سے ’’اردوئے معلی‘‘ نکالتے تھے۔ خواجہ صاحب نے ان کی دوستی کو آخر تک نبھایا۔ خواجہ صاحب کا ایک بہت اچھا مکان اردو بازار کے پرلے سرے پر ہے جس کا نام انہوں نے ’’اردو منزل‘‘ رکھا ہے۔ اس مکان کے لئے انہوں نے اپنے ٹائل الگ بنوائے ہیں جن پر ’’ہر گھر اردو‘‘ اور ’’گھر گھر اردو‘‘ لکھوایا ہے۔ دلی کی آخری بہار انہی بزرگوں کے دم سے تھی۔ ان کا مفصل حال بھی انشاء اللہ آپ کو کبھی سنائیں گے۔

    لیجئے وہ مغرب کی اذان ہو رہی ہے۔ نمازی جامع مسجد میں داخل ہونے لگے۔ چوک کی رونق چھٹنے لگی۔ خوانچے والوں نے دو شاخے روشن کر لئے۔ تہہ بازاری میں بجلی کے قمقمے روشن ہو گئے۔ سیلانی جیوڑے تو ابھی کہیں اور ہوا کھائیں گے۔ اڈے پر سے تانگے کریں گے، دلی دروازے کی سڑک پر دوڑ لگائیں گے، فراٹے کی ہوا کھائیں گے۔ چٹورپن سے پیٹ تو بھرا ہوا ہے ہی، رات گئے گھر آئیں گے۔ جنھیں جلدی گھر پہنچنے کی عادت ہے، انھوں نے گھر کا رخ کیا۔

    مٹیا محل کے بازار کے نکڑ پر پہونچتے ہی خوشبو کا بھبکا آیا۔ سامنے پھول والوں کی دکانیں ہیں۔ بڑی بڑی چھبڑیوں اور چنگیروں میں لال لال گیلا قند بچھا ہوا ہے۔ اس پر چنبیلی کا ڈھیر پڑا مسکرا رہا ہے۔ ایک طرف گجراتی موتیا کی لپٹیں آ رہی ہیں۔ چھبڑی میں مکھانے سے پھیلے ہوئے ہیں۔ جوہی کی بالیاں قرینے سے بھری رکھی ہیں۔ مولسری کی لڑیاں ہیں۔ منہ بند کلیوں کی چمپا کلیاں ہیں۔ پھولوں اور مقیش کے جھومر ہیں۔ کلیوں اور بادلے کی سراسریاں ہیں، کرن پھول ہیں، ٹیکے ہیں، مانگ پٹیاں ہیں، سیس جال ہیں، طرّے ہیں، بدھیاں ہیں، کنگن ہیں، کلیوں کی چوہے دتیاں ہیں، پہونچیاں ہیں، آرسیاں ہیں، ہار ہیں، گجرے ہیں، چمپا کی گڈیاں ہیں۔

    ایک ٹوکرے میں گلاب اور گیندے کے پھول بھرے ہیں۔ بیلا، موگرا اور زرد چنبیلی کی کچھ اور ہی بہار ہے۔ ہرے ہرے ڈھاک کے پتوں کے دونوں میں تول تول کر پھول ڈالے جا رہے ہیں۔ پھولوں کے گہنے اُکواں بکتے ہیں۔ دلی والے تیل پھلیل اور پھولوں کے عاشق ہیں۔ منوں کے مول پھول تلتا اور بکتا ہے۔ منڈیوں اور دکانوں کے علاوہ پھیری والے چھیبے بھرے محلے محلے اور گھر گھر پھول بیچتے پھرتے ہیں اور سب پھول بک جاتے ہیں۔

    پھول لے کر آگے بڑھے کہ حلوائیوں کی دکانیں شروع ہو گئیں۔ سجی سجائی دکانوں میں بیسیوں طرح کی مٹھائیاں تھالوں میں چنی ہوئی ہیں۔ حلوائی کے ہاں سے دو ایک ٹوکریاں بندھوائیں اور لدے پھندے گھر پہونچے۔ بچے دوڑ کر لپٹ گئے۔ بیوی کی باچھیں کھل گئیں۔ سچ ہے ’’ہنستے ہی گھر بستے ہیں۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے