Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شب خون، شمس الرحمٰن فاروقی اور میں

سید ارشاد حیدر

شب خون، شمس الرحمٰن فاروقی اور میں

سید ارشاد حیدر

MORE BYسید ارشاد حیدر

    جب شمس الرحمن فاروقی کو ملازمت کی مجبوریوں کے باعث الہ آباد چھوڑنا پڑا تو محبوب الرحمن فاروقی، رئیس فراز اور پھر قمر احسن کو یکے بعد دیگرے ’’شب خون‘‘ کی ذمہ داری تفویض ہوئی۔ ان کے بعد فرخ جعفری اور پھر میں ’’شب خون‘‘ کا کام دیکھتے رہے۔ یہ سب حضرات بالکل اعزازی کام کرتے تھے حتی کہ دفتر آنے جانے کے لیے اور دوسری دوڑ دھوپ کے لیے بھی وہ ’’شب خون‘‘ سے کچھ لیتے نہ تھے۔ کچھ عرصے بعد فرخ جعفری چند گھریلو پریشانیوں میں مبتلا ہوگئے اور ان کی ملاقات فاروقی صاحب سے زیادہ نہ ہوپاتی تھی۔ ’’شب خون‘‘ کا سارا کام تو ہو رہا تھا لیکن فاروقی صاحب کو علم نہ تھا کہ میں بھی پرچہ کا کام دیکھ رہا ہوں، وہ یہ سمجھے کہ فرخ جعفری اپنی مصروفیت اور الجھنوں کی بنا پر ’’شب خون‘‘ کے لیے پورا وقت نکالنے سے عاری ہیں۔

    اسی وقت انہیں کسی ایسے شخص کی تلاش ہوئی جو پرچے کے لیے وقت نکال سکے اسی درمیان غالباً کسی نے ان سے میرے بارے میں بتایا تو انہوں نے مجھے خط لکھ کر بلوایا اور ’’شب خون‘‘ کا سارا کام میرے حوالے کردیا۔ اس روز انہوں نے مجھ سے صرف اتنا کہا کہ ’’شب خون‘‘ پر اب تک میں نے بہت رقم لگائی ہے کچھ ایسا کرو کہ آئندہ گھر سے روپے نہ لینے پڑیں کچھ عرصہ بعد ایسا انتظام ہوگیا کہ میں گھر سے روپے لیے بغیر ’’شب خون‘‘ نکال لیا کرتا تھا لیکن پرچہ کی اشاعت میں تاخیر بہت ہوتی تھی کیونکہ پرچہ پوسٹ کرنے کے ایک ماہ بعد روپے موصول ہوتے تھے اور تب اگلے شمارے کا کام شروع ہوتا تھا۔ کتابت اور پریس میں مزید ڈیڑھ ماہ لگ جاتا تھا اور نیا شمارہ دو ڈھائی ماہ بعد ہی چھپ پاتا تھا۔ اس طرح تقریباً پندرہ سال تک میں نے کسی کی مدد کے بغیر تنہا ’’شب خون‘‘ کا کام انجام دیا۔

    فاروقی صاحب سے ملاقات سے قبل مجھے ایسا لگتا تھا کہ وہ بہت سخت اور بے حد مغرور قسم کے انسان ہیں۔ ایسا ہی غالباً دوسرے لوگ بھی سمجھتے تھے لیکن جب میری ملاقاتیں ہونے لگیں تو معلوم ہوا کہ وہ بے حد نرم، محبتی اور مروت کے ساتھ پیش آنے والے انسان ہیں۔ مہینے دو مہینے یا تین مہینے میں وہ جب بھی الہ آباد آتے اپنے پاس آئی ہوئی چیزیں میرے حوالے کردیتے اور ’’شب خون‘‘ کے لیے ہدایات دے جاتے تھے۔ اگر کسی وجہ سے ان کا الہ آباد آنا نہ ہوتا تو ڈاک کے ذریعے مسودے بھجوادیتے۔ پرچے کی ترتیب یا تو خود بھیج دیتے یا جب ان کا الہ آباد آنا ہوتا تو مجھے بلواکر دے دیتے تھے۔ تخلیقات کا انتخاب فاروقی صاحب عام طور پر خود کرتے تھے، اس کام میں ان کا کوئی شریک نہ تھا۔ کسی شمارے میں مضامین، افسانے، نظمیں اور غزلیں کس کس مصنف کی شائع ہونی ہیں اور کتنے کتنے صفحات مضامین، افسانے، نظموں اور غزلوں کے لیے رکھنا ہے اس کی فہرست البتہ میں خود تیار کرتا تھا ترتیب بھی فارقی صاحب خود بناتے تھے۔

    پندرہ سال کے عرصے میں کبھی بھی مجھ سے فاروقی صاحب نے نہیں کہا کہ اس بار پرچہ کمزور ہے یا غیرمتوازن ہوگیا ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوا کہ وہ بیرون ملک چلے گئے اور مجھے پرچہ نکالنا تھا۔ ایسی صورت میں ترتیب بھی ان کے باہر جانے سے قبل اجازت لے کر میں خود ہی بنالیتا تھا۔ ’’اخبار و اذکار‘‘ ’’اس بزم میں‘‘ کے لیے وہ کبھی ہدایت بھیج دیتے تھے کہ فلاں فلاں کا ذکر اس طرح کردینا اور کبھی خود ہی لکھ کر بھیج دیتے تھے۔ ہدایات کی عدم موجودگی میں یہ دونوں کالم میں خود ہی لکھ لیتا تھا اور پہلی فرصت میں ان کو دکھالیتا تھا۔ وہ بعض اوقات اصلاح تو کردیتے لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ فاروقی صاحب نے مجھ سے کہا ہو کہ تم نے ’’اخبار و اذکار‘‘ یا ’’اس بزم میں‘‘ کا کالم ٹھیک نہیں لکھا، بلکہ خوش ہوتے تھے کہ اچھا لکھا ہے۔

    ’’شب خون‘‘ کے پتہ پر جو ڈاک آتی تھی ان میں سے جن تخلیقات پر میں کوئی فیصلہ نہیں کرپاتا تھا یا تھوڑی سی ترمیم سے جو تخلیقات ’’شب خون‘‘ میں شائع ہونے کے لائق ہوتی تھی انہیں فاروقی صاحب کو ان کے الہ آباد آنے پر دکھا دیتا تھا۔

    ایک مرتبہ احسان عبدالقدوس کے مصری افسانے ’’ارجوک خذنی من ھذا البریل‘‘ کا اردوترجمہ ’’مجھے نکالو، اس سمندر سے‘‘ قمر عالم قاسمی نے مجھے جدہ سے بھیجا تھا۔ یہ افسانہ میں نے اشاعت کے لیے رکھ لیا تھا۔ افسانہ بہت طویل تھا اس لیے اس کی اشاعت میں خاصا وقت لگ گیا۔ جب شمارہ ۱۵۵ کے لیے میں نے اس کی کتابت کرائی اور ترتیب کے لیے فاروقی صاحب کو فہرست بھیجی تو انہوں نے مجھے لکھا کہ یہ قمر عالم قاسمی کون ہیں، ان کا ترجمہ میں نے نہیں دیکھا اور اتنا طویل افسانہ کہ اگر کمزور ہوا تو پورا پرچہ کمزور ہوجائے گا۔ تب تک اسے میں پریس بھجواچکا تھا۔ ملاقات ہونے پر فاروقی صاحب نے پھر مجھے ٹوکا۔ ’’یہ افسانہ کیسا ہے میں نے تو دیکھا نہیں تھا تم اب اسے پریس بھی بھجواچکے ہو۔‘‘ جب تک پرچہ چھپ کر منظر عام پر نہیں آگیا فاروقی صاحب کو تشویس تھی۔ لیکن جب یہ پرچہ شائع ہوا تو تمام قارئین نے اس افسانے کی بے حد تعریف کی اور فاروقی صاحب بھی خوش ہوئے کہ افسانہ تو بہت اچھا تھا۔

    ایک بار مختلف زبانوں کے ترجمے اکٹھا ہوگئے تھے۔ میں نے فاروقی صاحب سے کہا کہ ایک شمارہ پورا ترجمہ سے متعلق ہوسکتا ہے، تخلیقات کی کتابت ہوچکی ہے لیکن ایک مضمون کی کمی ہے۔ فاروقی صاحب نے صرف اتنا پوچھا کہ کتنے صفحات کم پڑ رہے ہیں۔ میں نے چودہ صفحات بتائے۔ انہوں نے ڈی۔ ایچ۔ لارنس کی ایک نظم کا ترجمہ اور ترجمے سے متعلق مضمون لکھ کر فوراً بھیج د یا۔ یہ شمارہ (۱۵۴) قارئین شب خون نے بے حد پسند کیا اور اس سلسلے کے خطوط مجھے عرصے تک موصول ہوتے رہے۔

    اس طرح کی زود نویسی اور ہمہ گیری فاروقی صاحب کا خاصہ ہمیشہ رہی ہے اور آج بھی اس میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ ابھی انہوں نے صابر زاہد کی دو تجرباتی غزلیں منظور کرلیں کہ ایک نوٹ کے ساتھ شائع کریں گے۔ پھر انہوں نے تقریباً قلم برداشتہ ایک لمبا مضمون لکھ ڈالا جس میں علمی اور ادبی بحثیں بالکل نئے ڈھنگ کی ہیں۔ صابر زاہد کی غزلوں کو بھی انہوں نے خوب سے خوب تر بنادیا۔ ’’شب خون‘‘ میں شائع ہونے والی تخلیقات میں ترمیم و تصحیح وہ فی البدیہہ کرتے ہیں اور بہت خوب کرتے ہیں۔

    بعض لوگوں نے فاروقی صاحب پر یہ الزام بھی لگایا ہے کہ وہ ا یک مخصوص گروپ کے لوگوں کی تخلیقات ہی شائع کرتے ہیں لیکن دراصل یہ وہ لوگ ہیں جو ’’شب خون‘‘ کا برابر مطالعہ نہیں کرتے۔ ابتدا سے لے کر آج تک تقریباً ہر شمارے میں دو ا یک نئے لکھنے والوں کی تخلیق ضرور شائع کی جاتی ہے۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ ’’شب خون‘‘ میں جدیدیت مخالف یا خود فاروقی صاحب کے مخالف لوگوں کی بھی معیاری تخلیقات خوب چھپتی ہیں۔ فاروقی صاحب نے تخلیقات کے انتخاب میں کبھی دوستی دشمنی کا خیال نہیں کیا وہ کبھی کسی کو خود برا نہیں کہتے اور نہ کہنے د یتے ہیں۔ اگر میں نے کسی کی بے جا حرکت کا ذکر کیا اور کہا کہ جن لوگوں کا آپ کام کرتے ہیں وہ لوگ ضرورت کے وقت آپ کے پاس آتے ہیں۔ کام نکل جانے کے بعد شکریہ تو دور برا بھلا ضرور کہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا کام آپ کیوں کرتے ہیں۔ اس بات پر ہمیشہ وہ ہنس دیتے تھے اور کہتے تھے لکھنے دو، مجھ پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔

    کچھ عرصے سے یہ فیشن چل پڑا ہے کہ فاروقی صاحب کے معاصرین، یہاں تک کہ چھٹ بھیے بھی ان کے خلاف دوچار سطریں لکھ کر خوش ہو لیتے ہیں کہ اردو کی سب سے بڑی شخصیت کو انہوں نے گرا لیا۔ کم ہی ایسے رسائل ہوں گے جن میں ایسی دوچار سطریں سستی شہرت کے لیے نہ شائع ہوئی ہوں۔ یہ تمام وہ لوگ ہیں جن کو ’’شب خون‘‘ اور شمس الرحمن فاروقی نے ہی آگے بڑھایا اور اس مقام پر پہنچایا کہ اردو کے قارئین نے بھی انہیں سراہا۔ فاروقی صاحب ان کی حرکتیں دیکھتے ہیں لیکن کبھی ناراض نہیں ہوتے اور نہ رنجیدہ ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ محسود ہونا اللہ کی بڑی نعمت ہے۔

    فاروقی صاحب نئے لوگوں سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور اب بھی ان کا یہی حال ہے۔ ایک شاعر جو تقریباً صف اول کے شعرا تک پہنچ چکے تھے الہ آباد آئے، فاروقی صاحب انہیں اسٹیشن تک چھوڑنے گئے اور جو محبت میں نے اس وقت دیکھی اس سے مجھے رشک ہونے لگا تھا۔ وہی صاحب کسی یونیورسٹی میں لکچرر بننا چاہتے تھے۔ فاروقی صاحب نے کوشش کی۔ بدقسمتی سے وہ تھرڈ ڈویزنر تھے۔ یو۔ جی۔ سی۔ کے اصولوں کے مطابق ان کا تقرر نہ ہوسکا۔ وہ حضرت اس بناپر ترقی پسندوں کے ساتھ جاملے کہ فاروقی صاحب نے ان کا تقرر کیوں نہ کرا دیا۔ اس کے برخلاف میں خود کئی ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جن کو لکچر شپ اور ریڈر شپ فاروقی صاحب کی سفارش پر ہی ملی لیکن کام نکل جانے کے بعد جیسے ان کا فاروقی صاحب سے کوئی تعلق ہی نہ رہا ہو، نہ فاروقی صاحب ہی نے اپنے احسانات کا ذکر کبھی کیا۔ اکثر کو تو وہ واقعی بھول جاتے ہیں۔

    جب بھی کوئی فاروقی صاحب کے خلاف کچھ لکھتا وہ ’’بلٹز‘‘ ہو یا ’’ہماری زبان‘‘ ’’کتاب نما‘‘ ’’جواز‘‘ یا ’’سوغات‘‘ یا کوئی معمولی پرچہ ہو، فاروقی صاحب مجھے منع کردیتے تھے کہ خبردار کچھ لکھنا نہیں۔ لکھنے کے دوران لوگوں کو ان لوگوں کا دل ہلکا ہوتا ہے میرا کیا جاتا ہے؟

    وارث علوی نے فاروقی صاحب کی کتاب ’’افسانے کی حمایت میں‘‘ پر اتنا طویل تبصرہ لکھا کہ اس کی طوالت اصل کتاب کے صفحات سے بھی زیادہ تھی۔ لیکن اس مضمون نما تبصرہ میں سوا ان کی پھلجھڑیوں کے اور کچھ نہیں تھا جسے وارث علوی جیسے پڑھے لکھے تنقید نگار کا مضمون کہا جاسکے۔ یہ مضمون ماہنامہ ’’جواز‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ سید عارف صاحب نے ’’جواز‘‘ کے اس خاص نمبر پر مجھ سے ’’شب خون‘‘ میں تبصرہ لکھنے کی فرمایش کی۔ میں نے تبصرہ لکھا تو فاروقی صاحب کو دیکھنے کے لیے بھیج دیا۔ انہوں نے جو خط مجھے لکھا اس کا اقتباس ملاحظہ ہو،

    ’’عزیزم سلمہ۔ تمہارا خط کل ملا۔ میرا خیال ہے ’’جواز‘‘ پر تبصرہ مختصر ہی رکھو۔ وارث علوی کے مضمون کا تفصیلی ذکر کروگے تو لوگوں کو گمان گزرے گا کہ میں ’’شب خون‘‘ کے صفحات کا فائدہ اٹھا کر وارث علوی سے بدلہ لے رہا ہوں۔ لہٰذا تم اپنے تبصرہ میں صرف ایک دو جملے لکھو۔ میں تو وارث علوی کے مضمون کا کوئی Notice لینا پسند نہیں کرتا، لیکن اگر تم کو لکھنے پر اصرار ہی ہے تو ’’جواز‘‘ میں اشاعت کے لیے خط لکھو۔ تبصرہ کو ہرگز اس کے لیے استعمال نہ کرو اور خط بھی نہ لکھو تو بہتر ہے۔‘‘

    ابھی حال ہی میں پرفیسر گوپی چند نارنگ نے ’’سوغات‘‘ میں فاروقی صاحب کے خلاف خط لکھا تو میری ضد کے باوجود فاروقی صاحب نے مجھے منع کیا کہ کچھ نہ لکھو۔ ’’شب خون‘‘ کا کام دیکھنے اور فاروقی صاحب کے ساتھ رہنے کی وجہ سے خود کو اتنا مجبور پاتا ہوں کہ لوگوں کی بے سروپا باتوں کا جواب بھی نہیں لکھ سکتا۔ جو خط میں نے ’’سوغات‘‘ کو لکھا اس میں فاروقی صاحب کی مرضی شامل نہ تھی۔

    ’’شب خون‘‘ کے تبصرے برصغیر کے اردو رسائل کے تبصروں سے بالکل مختلف ہوتے ہیں، بالکل پرکار کی نوک کی طرح، مختصر اور جامع۔ میں نے ’’شب خون‘‘ کا کام سنبھالا تو تبصروں کا کالم بند پڑا تھا۔ میں نے بہت ہمت کرکے تین چار تبصرے لکھے اور فاروقی صاحب کو دکھائے تو وہ بے حد خوش ہوئے اور بغیر کسی ترمیم و اضافہ کے انہیں شائع کرنے کو کہا۔ تب سے میں برابر تبصرے کرنے لگا۔ کچھ ہی دنوں میں فاروقی صاحب نے مجھے بتایا کہ وحید اختر سمجھتے ہیں کہ میں تمہارے نام سے تبصرہ لکھتا ہوں۔ میں ہنسنے لگا۔ ’’کیا پروفیسر وحید اختر جیسے پڑھے لکھے شاعر اور تنقید نگار کو آپ کی اور میری زبان میں فرق نظر نہیں آیا؟‘‘ فاروقی صاحب بھی ہنس دیے اور کہا ’’اب کیا کہا جائے۔‘‘

    فاروقی صاحب مجھ سے بے حد محبت کرتے ہیں، میرے ہر کام سے خوش ہوتے ہیں لیکن انہیں ہمیشہ مندرجہ ذیل شکایتیں رہیں جو اب بھی قائم ہیں،

    (۱)پرچہ تاخیر سے شائع ہوتا ہے۔

    (۲)کتابت کی بے شمار غلطیاں رہتی ہیں۔

    (۳)کتابت اور طباعت بے حد خراب ہوتی ہے۔

    (۴)میں فاروقی صاحب کو خط لکھنے اور ان سے ملاقات کرنے میں کوتاہی کرتا ہوں۔ جو وقت ملنے کا معین ہوتا ہے اس وقت نہیں پہنچتا ہوں یا بالکل غائب ہوجاتا ہوں۔

    (۵)جب سے ’’شب خون‘‘ کا کام سنبھالا میں نے شعر کہنا بند کردیا ہے۔

    اس سلسلے میں فاوقی صاحب کے چند خطوط سے اقتباسات ملاحظہ ہوں،

    ’’نیا سال مبارک ہو۔ شمارہ ۱۳۴ مل گیا ہے۔ کتابت کی غلطیاں اس قدر ہیں کہ دل خون ہوگیا۔ شب خون کی کتابت اور طباعت پر مزید توجہ کی ضرورت ہے۔ اگلا پرچہ کب تک آرہا ہے۔‘‘ (جنوری۸۵)

    ’’تمہارا خط انتظار کی حالت میں ملا۔ خدا کرے پرچہ جلد چھپ جائے اور شمارہ ۱۳۷ فوراً آجائے۔‘‘ (مئی ۸۵)

    ’’کتابت اور طباعت اب بھی تکلیف دہ حد تک خراب ہے کسی اور کاتب کا انتظام کرو۔ طباعت تو اس قدر تکلیف دہ ہے کہ بس سرورق اس بار تم نے بہت خوبصورت بنایا۔ (۳۰ اکتوبر ۸۵)

    ’’اتنے دن ہوگئے پرچہ کی خبر نہیں کیا معاملہ ہے؟ آخر پرچہ کب آرہا ہے؟‘‘ (۱۷دسمبر۸۵)

    ’’اگلے شمارے کا کیا حال ہے۔ کاتب بدلنا اب بہت ضروری ہوگیا ہے۔ اس بار کتابت کے اغلاط بے شمار ہیں۔ چھپائی بھی نہایت لغو ہے۔ موجودہ کاتب اور پریس کو ہر حال میں بدلنا ہے۔ اگر یہ ممکن نہ ہوا تو میں پرچہ بند کردوں گا۔‘‘ (۳/اپریل ۸۶)

    ’’تم کو کتنے خط لکھے کتنی ہی بار گھر آنے کو کہلایا لیکن تم خدا جانے کہاں گم ہوگئے ہو۔ پرچہ کی کوئی خبر نہیں۔ تمہاری کوئی خبر نہیں۔ اب تو الیکشن اور محرم دونوں ختم ہوگئے۔ اب تمہیں روپوشی سے برآمد ہونا چاہیے۔ تم کو کہلایا تھا کہ کاغذات لے کر چند دنوں کے لیے دلی آجاؤ تو ’’شب خون‘‘ کا کام بھی ہوجائے اور تم بھی وہاں مخالفوں کے نرغے سے نکل سکو لیکن تمہارا کوئی نام ونشان نہیں ملتا۔ بہرحال حالات سے جلد مطلع کرو اور لکھو کہ کب تک آرہے ہو۔ ’’شب خون‘‘ کا کیا حال ہے۔‘‘ (۱۸/اگست۸۹)

    ’’معلوم ہوا ’’شب خون‘‘ چھپ گیا ہے۔ مبارک ہو۔ میں تو بالکل ناامید ہوگیا تھا اب اگلے پرچہ کو پریس بھیج دو۔ جس طرح ہو باقاعدگی لانا ضروری ہے۔ تمہارا کوئی خط نہیں آیا۔ ممکن ہے تم کو اپنی پریشانیوں اور پھر محرم کے باعث فرصت نہ ملی ہو۔ بہرحال اب تفصیلی خط لکھو اور اگلے شمارے کے بارے میں فوری لکھو کیا صورت حال ہے۔‘‘ (۳/اگست۹۰)

    ’’کل تمہارا خط ملا لیکن بہت مختصر۔ بھئی تم ہر ہفتے ایک خط ضرور لکھا کرو۔ اتوار کو میں صبح ہی پٹنہ چلا گیا تھا۔ تم سے ملنے کا اچھا موقع ہاتھ سے جاتا رہا۔ پرچہ وہاں دیکھ لیا تھا۔ بہت اچھا ہے لیکن طباعت کتابت اسی رنگ کی ہے۔ پرچہ میں دیر بہت ہوئی، خدا معلوم کیا بات ہوگئی ہے کہ اس کو راہ پر لانے کی کوئی کشش کامیاب نہیں ہوتی۔‘‘ (۱۷نومبر۹۰)

    ’’میں ۶ اور ۷ کو تمہارے انتظار میں رہا لیکن شاید تم آنہ سکے۔ تم زیر بار تو ہوگئے ہو لیکن یہ بہت اچھا ہوا کہ تم نے پرچہ نکال دیا۔ سب لوگ کہہ رہے ہیں کہ پرچہ اب بہت باقاعدہ ہوتا جارہا ہے۔ ایسے ہی چند شماروں پر ہم زور لگادیں تو پرچہ بالکل Up to date ہو جائے۔ تازہ شمارہ مشمولات کے لحاظ سے بہت خوب ہے لیکن کتابت اور طباعت کے لحاظ سے گھٹیا ہے۔‘‘ (۲۰/جون۹۱)

    ’’بہت دن سے تمہارے پرچہ کی اور تمہاری خبر نہ ملی۔ توقع ہے کہ اب محرم کی مصروفیات سے فارغ ہوچکے ہوگے، امید ہے کہ پرچہ بھی جلد ہی آسکے گا۔‘‘ (۱۶/اگست۹۱)

    ’’تمہارا خط انتظار کی حالت میں ملا۔ پرچہ اب تک نہیں آیا۔ اس کا بہت افسوس ہے۔ ہزار کوشش کے باوجود پرچہ میں باقاعدگی نہیں آرہی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں۔‘‘ (۴/اکتوبر۹۱)

    ’’تمہارا خط نہیں آیا لیکن امید ہے سب خیریت ہوگی۔ میں کل دلی جارہا ہوں۔ تفصیلی معائنے کے بعد طے ہوگا کہ آپریشن ہونا ہے یا نہیں، اگر آپریشن ہوا تو دیر تک رکنا ہوگا ورنہ امید ہے کہ دس دن میں واپس آجاؤں گا۔ ’’شب خون‘‘ کی کیا خبر ہے؟‘‘ (۲۰دسمبر۹۱)

    ’’کئی مہینوں سے تمہارے خط کا انتظار تھا اور کئی ہفتوں سے ’’شب خون‘‘ کا۔ آج خدا خدا کرکے ’’شب خون‘‘ ملا۔ پرچہ اچھا ہے لیکن اس کی اشاعت اب اتنی تاخیر سے ہونے لگی ہے کہ اس کو نکالتے رہنا فضول ہے۔‘‘ (۱۷/اگست۹۲)

    ’’تازہ پرچہ کا کچھ احوال نہ معلوم ہوا۔ میں ۱۱/اکتوبر کو الہ آباد میں رہوں گا۔ تم اگر گیارہ بجے صبح کو آجاؤ تو ملاقات ہوجائے۔‘‘ (۵/اکتوبر۹۲)

    ’’شاید تم سمجھ سکتے ہو کہ اس بیماری کے عالم میں ’’شب خون‘‘ کا اتنا خراب چھپنا، اتنی دیر میں چھپنا اور اس کی کتابت طباعت کے معیار کا اتنا پست ہونا میرے لیے سوہان روح ہے۔ لوگ میرے منھ پر ہنستے ہیں۔ کوئی بہت سنجیدگی سے پوچھتا ہے ’’افسوس ہے شب خون بند ہوگیا کیا؟ بہت دن سے دیکھنا نہیں۔‘‘ تم سمجھ سکتے ہو میری ذہنی حالت کیا ہوگی۔

    میں نے اس بار بہت سوچ کر فیصلہ کیا تھا کہ اب اسے بند ہی کرنے میں عافیت ہے لیکن پھر تمہارے کہنے سے اور اپنے دل سے مجبور ہوگیا۔ اب یہ آخری داؤ ہے اگر جنوری ۹۴تک تین شمارے نہ آسکے تو میں پرچہ بند کردوں گا۔‘‘ (۲۳/ستمبر۹۳)

    فاروقی صاحب ’’شب خون‘‘ کو اولاد کی طرح عزیز رکھتے ہیں، اس کا اندازہ مندرجہ بالا خطوط سے لگایا جاسکتا ہے۔ مجھے بے حد افسوس ہے کہ ’’شب خون‘‘ کے سلسلے میں فاروقی صاحب کو جو شکایتیں تھیں انہیں میں اب تک دور نہیں کرسکا۔ اس شہر میں اب اچھے کاتب نہیں رہے اردو کے پریس بھی دو ہی ہیں۔ یوپی کے علاوہ دیگر صوبوں کا کام بھی ان کے پاس رہتا ہے ان کی توجہ بڑے کاموں پر زیادہ رہتی ہے اس لیے کتابت اور طباعت میں ’’شب خون‘‘ بہت پست ہوگیا تھا۔ کتابت کی غلطیاں اس قدر رہتی تھیں کہ بار بار درست کرنے کے بعد بھی رہ جاتی تھیں۔ مالی دشواریوں کی بناپر اس کی اشاعت میں تاخیر ہوتی تھی۔ گزشتہ دنوں بفضلہ ’’شب خون‘‘ بہت بہتر ہوگیا ہے۔

    اب جب کہ فاروقی صاحب ملازمت سے سبک دوش ہوکر کل وقتی طور پر ’’شب خون‘‘ کا کام دیکھ رہے ہیں اور اب چوہدری ابن النصیر بھی میرے ساتھ ہوئے ہیں۔ توقع ہے کہ ’’شب خون‘‘ اب پھر اپنی گزشہ آب و تاب سے نکلے گا۔ فاروقی صاحب کے ساتھ ’’شب خون‘‘ میں کام کرنا تعلیم، تجربہ، ادب شناسی ار ادب پرستی سب کا لطف ایک ساتھ مہیا کردیتا ہے۔ وہ کتابت، طباعت، سرورق کا آرٹ، ان سب کی باریکیوں سے خوب واقف ہیں اورعلم و ادب کی دنیا میں تو ان کی دسترس کا پوچھنا ہی کیا ہے۔ ان کے ساتھ کام کرنے کو میں اپنی زندگی کے اہم ترین واقعات میں شمار کرتاہوں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے