اشعار کے پانچ چھوٹے چھوٹے مجموعوں کی اس ایک کتاب کا نام شہریار نے ’’حاصل سیرجہاں‘‘ رکھاہے۔ اپنے آپ میں یہ نام ایک بلیغ استعارہ، ایک شعر ی بیان بھی ہے۔ مطلب یہ کہ چاروں سمتوں میں چاہے جہاں تک ہو آؤ، لوٹ کر اخیر میں اپنی ہی ہستی کے مرکز پر آنا ہوگا۔ بہ قول سورداس، ’’جیسے اڑجہاج کا پنچھی پھر جہاج پر آئے۔‘‘ بہت دنوں پہلے سوامی رام کرشن پرم ہنس کی وچن مالا میں ایک کہانی پڑھی تھی جس کے واسطے سے سوامی جی نے اپنے شردھالوؤں کویہی بتایا تھا کہ پورب پچھم اتر دکھن، تمام دشاؤں میں بھٹکنے کے بعد بالآخر ہم اپنی ہی طرف واپس آتے ہیں۔ میر صاحب کے مطابق،
غلط تھا آپ سے غافل گزرنا
نہ سمجھے ہم کہ اس قالب میں تو تھا
تو عرض یہ کرنا ہے کہ روایتی تصوف سے الگ، نئی شاعری کے محرک اور میلان میں ایک نئی مذہبیت کا تصور بھی چھپا ہوا ہے جس کا خمیر ایک طرح کی غیر رسمی وجودی فکر پر مبنی حسیت سے اٹھا ہے۔ شہریار کے اشعار کی پہلی کتاب ’اسم اعظم‘۱۹۶۵ میں شائع ہوئی تھی۔ ان دنوں اس میلان کی لوتیز ہونے لگی تھی، کچھ تو ترقی پسندی کے اجتماعی مزاج کے ردعمل کی شکل میں اور کچھ ایک گہرے اندوہ پرور احساس شکست کے نتیجے میں۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد کا مجموعی ماحول، انسان کے Irrationality (عدم تعقل) اور ازلی و ابدی تنہائی کا احساس، ترقی یافتہ یورپ سے پسماندہ ہندوستان تک ایک راہ نجات کی تلاش میں تھا۔ اس وقت کی صورت حال کا کچھ اندازہ ۱۹۶۵ء کے آس پاس رونما ہونے والی تخلیقی سرگرمیوں اور نئی حسیت کو فکری اساس مہیا کرنے والی بعض کتابوں کے عنوان سے لگایا جا سکتا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ خلیل الرحمن اعظمی کا دوسرا شعری مجموعہ ’نیا عہد نامہ‘ چھپا تو راہی معصوم رضا نے ایک مضمون میں اس بات کا بہت مذاق اڑایا کہ نئے شاعر پر اب نئے عہد نامے وارد ہوتے ہیں اور اسے ایک نئے اسم اعظم کی تلاش ہے لیکن نئی حسیت سے اختلاف اور ایک نیا شعری محاورہ وضع کرنے والے شاعروں کی صلاحیت سے انکار کے باوجود ادبی منظرنامہ تو بہرحال تبدیل ہو رہا تھا۔ ہندوستان کی مختلف علاقائی زبانوں کے ساتھ ساتھ ہمارے نئے شعرا کا مکالمہ مغرب سے بھی جاری تھا۔ تھیوریز کی باتیں کم ہوتی تھیں۔ نیا شعر اور نیا فکشن پڑھنے اور اسے اپنے احساسات میں جذب کرنے کا میلان زیادہ تھا۔ ہندوستان میں رسالہ ’شب خون‘ کی اشاعت بھی انہی دنوں شروع ہوئی۔ گِنس برگ نے ہندوستان کا سفر کیا۔ گریگری کورسو، جارج میکبتھ، فرلنگ ہٹی کی کتابیں ہمارے یہاں بھی چھپنے لگیں۔ گنس برگ کی طویل نظم Howl کے بعد اردو اور دوسری ہندوستانی زبانوں میں طویل نظم کے چلن نے زور پکڑا۔ مَلے رائے چودھری کی نظم ’زخم‘ اور عمیق حنفی کی ’سندباد‘ کو ایک نئے ادبی منشور کے طور پر بھی دیکھا گیا۔
خلیل الرحمن اعظمی، وحید اختر، باقرمہدی، عمیق حنفی، شمس الرحمن فاروقی، بلراج کومل کے مضامین ’شب خون‘ (الہ آباد)، صبا (حیدرآباد)، ’کتاب‘ (لکھنؤ)، ’آئینہ‘ (بمبئی)، کے مباحث اور مذاکروں میں جن میں سجاد ظہیر، سردار جعفری، سید احتشام حسین سے لے کر نئے لکھنے والوں تک ایک سی سرگرمی کے ساتھ شریک ہوتے تھے، بیسویں صدی کی ساتوں دہائی کے مزاج اور ماحول کا صاف پتہ دیتے ہیں۔ نسیم ایزیکیل بمبئی سے Poetry India نکالتے تھے جس میں شمال اور جنوب کی مختلف زبانوں کے ساتھ اردو کے نئے شاعروں کا کلام بھی چھپتا تھا اور اس سے یہ اندازہ بھی ہوتا تھا کہ تمام زبانوں کے نئے شعرا کے ساتھ اردو کا نیا شاعر بھی ایک نئی سطح پر اپنے آپ سے اور اپنے زمانے سے ہم کلام ہے۔
یاد کیجئے کہ بنگال میں اس دہائی کو The Burning Seventies کا نام دیا گیا تھا اور بھوکی پیڑھی کے شاعر جن میں سے بعضوں نے آگے چل کر بہت نام کمایا، ان کے علاوہ اڑیسہ کے دگمبر کویوں کی ایک پرجوش نسل، اسی پس منظر سے نمودار ہوئی۔ کس قیامت کی تخلیقی چہل پہل تھی اوراختلاف و انکار کے اظہار میں نئے پرانے سب دیانت دار دکھائی دیتے تھے۔ انتظار حسین نے انہی دنوں لکھا کہ ادیب جب اصولوں کے لئے نہیں لڑتے تو کرسی اور منصب اور انعام کی دوڑ شروع ہو جاتی ہے۔ افسوس کہ اس وقت یہی ہو رہا ہے۔
شہریار کے تذکرے میں یہ باتیں اس لئے یاد آگئیں کہ اس دور کے غالب شعری اسلوب اور عام و مقبول آہنگ سے الگ، شہریار نے اپنی ایک الگ دنیا بنائی تھی۔ ان کی شاعری اور شخصیت دونوں غیر متنازع رہے، اپنی نرم آثاری اور دھیمے پن کی وجہ سے۔ بہت سے پرجوش لکھنے والے جلد ہی پچک گئے۔ بہ قول محمود ایاز، ان میں تھکے ہوئے گھوڑوں کی ایک پوری صف بھی شامل تھی۔ چنانچہ دس پانچ چونکانے والی نظموں کے بعدان کا دامن خالی دکھائی دیا۔ اب ان کا خیال آتا ہے تو ان کی پرانی کمائی کے باعث۔ نت نئے ستاروں کے ابھرنے اور ڈوبنے کا یہ منظر ایک طرف، دوسری گنتی کے لکھنے والے ایسے بھی تھے جن کی دنیا بہت پرشور، بھری ہوئی اور پھیلی ہوئی نہ سہی، مگر ان میں اپنے کو سنبھالے رکھنے کی صلاحیت غیر معمولی تھی۔ ایسے لکھنے والوں میں ’شہریار‘ کئی وجہوں سے منفرد اور ممتاز کہے جا سکتے ہیں۔
شہریار کی شاعری نے جس ماحول میں آنکھیں کھولیں وہ اپنی نفسیاتی کڑواہٹ، اپنی معاشرتی ابتری اور آدرشوں کی شکست کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔ یہ صورت حال شہریار کے ہم عصروں میں بالعموم دیکھی جا سکتی ہے۔ شہریار کی شاعری کا آہنگ بھی سریلا اور ذائقہ میٹھا تو نہیں ہے، لیکن ضبط کی ایک اندرونی کیفیت نے انہیں گوارا بنا دیا ہے۔ شہریار اپنے شخصی اور اجتماعی آشوب کا تذکرہ بھی ہمیشہ سنبھل کر کرتے ہیں۔ اپنی آواز دھیمی رکھتے ہیں، لہجہ متوازن۔ اسی لئے اپنی غم آلودگی اور سوز کے باوجود ان کی شاعری میں دنیا سے بیزاری اور اپنے آپ سے دوری کا رنگ نہیں ابھرتا۔ ’اسم اعظم‘ کی ایک نظم ہے۔۔۔ موت،
ابھی نہیں، ابھی زنجیر خواب برہم ہے
ابھی نہیں، ابھی دامن کے چاک کا غم ہے
ابھی نہیں ابھی درباز ہے امیدوں کا
ابھی نہیں ابھی سینے کا داغ جلتا ہے
ابھی نہیں ابھی پلکوں پہ خوں مچلتا ہے
ابھی نہیں ابھی کم بخت دل دھڑکتا ہے
ایک بے ڈھنگے، بدہیئت معاشرتی ماحول کے ادراک سے جنم لینے والی یہ خوبصورت نظم، اس عہد کے فیشن زدہ رویوں سے حیران کن حد تک آزاد ہے۔ شہریار کی غزلوں میں طرز احساس کے نئے پن کے باوجود، خاصا رچا ہوا کلاسیکی شعور ملتا ہے اورغزل کی روایت کے استحکام اور جبر کے پیش نظر یہ بات ان ہونی نہیں کہی جا سکتی لیکن شہریار کی نظموں میں جو تہذیب ذات اور تناسب کا انداز موجود ہے، اسے معمولی نہیں کہا جا سکتا۔ ایک دبا دبا سا انسانی سوز، دردمندی کی ایک مستقل کیفیت، وضع احتیاط کی ایک خودکار کوشش، شہریار کی شاعری کو اپنے ماحول سے مشروط رکھتے ہوئے بھی اسے ایک آزاد، قائم بالذات اور ہر زمانے کے معنی خیز مظہر کی شکل دیتی ہے۔
شہریار کا سب سے بڑا کمال ان کی لسانی کفایت شعاری اور جذباتی خودمختاری میں مضمر ہے۔ وہ اپنی آواز کو، اپنے تجربے کو، اپنے شدیدترین ردعمل کو اور ان سب کا احاطہ کرنے والے بےحد شفاف اور شخصی اسلوب کو پل بھر کے لئے بھی بے حجاب نہیں ہونے دیتے۔ خواب اور حقیقت کے ایک ازلی اور ابدی dialectics ایک گہرے باطنی تصادم اور پیکار کی حصاربندی میں اپنی حسیات کی تمام ترشمولیت کے ساتھ بھی شہریار اپنے تجربے کا وقار قائم رکھتے ہیں۔ اسے کبھی بے قابو نہیں ہونے دیتے۔ ایک سوچی سمجھی سطح سے اوپر نہیں جانے دیتے۔ جذبے کا اسراف اور لفظوں کا اسراف جو شہریار کے بیشتر معاصرین کے ساتھ پرچھائیں کی طرح لگا ہوا ہے، شہریار کی شاعری میں اس کی گنجائش کبھی نہیں ملتی۔ رسمی لفظوں میں کہا جائے توان کی شاعری نئے تجربوں کابیان ہے، بیان کا تجربہ نہیں ہے۔ جہاں تہاں سے کچھ مثالیں دیکھتے ہیں،
وہ جو آسماں پہ ستارہ ہے
اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لو
اسے اپنے ہونٹوں سے چوم لو
اسے اپنے ہاتھوں سے توڑ لو
کہ اس پہ حملہ ہے رات کا
(تنبیہ۔۔۔ ساتواں در)
پھول پتیاں شاخیں
ہونٹ، ہاتھ اور آنکھیں
موج خوں، صدائے دل
ماہتاب اور سورج
منجمد ہیں سب کے سب
وقت کی کماں میں اب
تیر ہی نہیں کوئی
(اسٹل لائف۔۔۔ ساتواں در)
یہ بستر تنہائی
جی میں ہے لپیٹوں میں
اے رات، وجود اپنا
کہہ دے تو سمیٹوں میں
اس آدھے بدن والی
پرچھائیں کو دکھلا دے
میں آگ میں جلتا ہوں
تو اوس میں نہلادے
(اے رات۔۔۔ خواب کا دربند ہے)
زرد پتے نحیف شاخوں پر
رات کے آخر کنارے سے
آنے والی مہیب آندھی کا
دیکھ لو، انتظار کرتے ہیں
لوگ سب اس عجیب منظر کو
بے ضرر کیوں شمار کرتے ہیں
(رات کے آخری کنارے سے۔۔۔ نیند کی کرچیں)
اخیر میں دو اور چھوٹی چھوٹی نظمیں جن کا جمالیاتی ذائقہ اب تک پڑھی جانے والی مثالوں سے بہت الگ ہے۔ ان میں کسی طرح کی رومانی افسردگی کے بجائے طنز اور دہشت کا عنصر حاوی ہے۔ گزشتہ نظمیں آبی رنگوں سے بنی ہوئی ملائم اور مدھم تصویروں سے مماثل تھیں۔ اس کے برعکس اب جو نظمیں آپ سنیں گے، ان کی سطح پر سکون ہوتے ہوئے بھی اندر ہی اندر ایک دیرپا عذاب اور دہشت کا احساس ہوتا ہے۔ شہریار نے پہلی نظم میں طنز کا زاویہ اختیار کرنے کے باوجود اپنے لہجے میں کسی طرح کی تلخی یا شکایت پیدا نہیں ہونے دی۔ ملاحظہ ہو،
انہیں زندہ رہنے کی تھی ہوس
جو دکھائی دیتے تھے ہم نفس
کبھی روشنی کے حصار میں
کبھی چیونٹیوں کی قطار میں
(ہندوستانی دانش وروں کے نام۔۔۔ نیندکی کرچیں)
دوسری نظم اس طرح ہے،
شب کی ساری صراحیاں خالی
ہو چکیں جب توصبح کا سورج
میرے ہونٹوں کے پاس آیا، کہا
رات کو قطرہ قطرہ پینے سے
پیاس بجھتی نہیں ہے بڑھتی ہے
ثبت کر ہونٹ میرے ہونٹوں پر
اور اس پیاس سے رہائی پا
(پیاس سے رہائی۔۔۔ نیند کی کرچیں)
ان نظموں کی تشریح کرکے میں اس لطف کو غارت نہیں کرنا چاہتا، جس کا مجھے احساس ان نظموں کو پڑھتے وقت ہوا تھا۔ شہریار اپنے تجربے کو پھیلانے سے زیادہ اسے سمیٹنے پردھیان دیتے ہیں۔ جذبے میں شدت پیدا ہونے لگتی ہے تو چپ چاپ ایک علاقہ سکوت (silence zone) میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اسی لئے ان نظموں میں جتنا کچھ کہا گیا ہے اس سے کہیں زیادہ چھپا لیا گیا ہے۔ ناموس عشق کی طرح شاعری کے ناموس کا پاس رکھنا بھی ہر کس وناکس کے حصے میں نہیں آتا۔ یوں بھی شہریار کی شاعری کا بہت بڑا حصہ ان کی جذباتی، ذہنی، اعصابی واردات کے بیان کے بجائے اس کے اخفا کی ایک مسلسل کوشش کا نتیجہ ہے۔ بہ قول ناصر کاظمی، نالہ آفریں کے دل پر جوبھی گزرا ہو، نالہ اگر نغمہ نہیں بنتا تو محض چیخ پکار ہے۔
شہریار کی شاعری رقت خیزی، خود ترجمی، خود تزئینی (Self-glorification) تشدد اور مبالغے کے عناصر سے یکسر پاک ہے۔ نئے معاشرے کا ’’تنہا آدمی‘‘ جو ساتویں دہائی میں بڑی ہائے واویلا کے ساتھ نمودار ہوا اور اپنی تنہائی، بے حصولی، احساس شکست اور ابتری کے احساس سے بوجھل، بہت جلد مضحکہ خیز بن گیا، تو اسی لئے کہ اس کے پاس کہنے کے لئے باتیں کم تھیں اور سوچنے کی اسے عادت نہیں تھی۔ صرف جذبے کا تندوتیز لاوا کہاں تک جا سکتا تھا۔ شہریار اپنے تجربے کی آنچ اور تجربے کے بے محابا اظہار کی اذیت سے پڑھنے والوں کو بالعموم بچائے رکھتے ہیں۔ بے شک، اس سودے میں ’’اک جان کا زیاں ہے سو ایسا زیاں نہیں۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ شہریار کے یہاں جذبہ ایک داخلی تنظیم کے باعث ایک طرح کی جاں گداز سوچ میں، ایک احساس میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ان کی نظموں میں کبھی ہم اس جذبے کے تنبیہ still life کے طور پر دیکھتے ہیں، کبھی تجربے کی ایک حرکی (kinetic) اور اندر ہی اندر تپتی ہوئی، کھد بداتی ہوئی حقیقت کے طور پر۔
یہی خوب صورتی شہریار کی غزلوں میں بھی نمایاں ہے۔ اپنے تخلیقی ضبط کی وجہ سے یہ غزلیں نئی حسیت کے شور شرابے اورنئی غزل کی بھیڑ بھاڑ میں الگ سے پہچانی جاتی ہیں۔ ان میں ایک زمانے کے عام چلن کے مطابق نہ تو میر صاحب کے تتبع کی کوشش کی گئی ہے، نہ کلاسیکی اساتذہ میں کسی اور کا رنگ جھلکتا ہے۔ ایک چھوٹا سا شب چراغ ہے، اپنی ہستی اور اپنے احساس کا، جس کی روشنی میں شہریار دھیرے دھیرے چلتے ہوئے، جلتے پگھلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ تفصیل میں جانے سے بہتر یہ ہوگا کہ یہاں ایک نمائندہ غزل کے کچھ شعر نقل کرکے بات ختم کر دی جائے۔ تویہ شعر سنئے،
زندگی جیسی توقع تھی نہیں، کچھ کم ہے
ہر گھڑی ہوتا ہے احساس کہیں کچھ کم ہے
گھر کی تعمیر تصور ہی میں ہو سکتی ہے
اپنے نقشے کے مطابق یہ زمیں کچھ کم ہے
بچھڑے لوگوں سے ملاقات کبھی پھر ہوگی
دل میں امید توکافی ہے یقیں کچھ کم ہے
اب جدھر دیکھئے لگتا ہے کہ اس دنیا میں
کہیں کچھ چیز زیادہ ہے کہیں کچھ کم ہے
آج بھی ہے تری دوری ہی اداسی کا سبب
یہ الگ بات کہ پہلی سی نہیں، کچھ کم ہے
شہریار اس طرح کی نظمیں غزلیں کہنے میں اپنے زیادہ تر ہم عصروں کے برعکس، ابھی بہت سرگرم ہیں۔ پھر کلیات کے نام سے اس کتاب کی اشاعت قبل از وقت ہی کہی جانی چاہئے۔ لہذا مجھے تو 'حاصل سیرجہاں‘ کو اس حیثیت سے قبول کرنا منظور نہیں ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.