Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شمیم بھائی (شمیم حنفی) کچھ یادیں کچھ باتیں

سید خالد قادری

شمیم بھائی (شمیم حنفی) کچھ یادیں کچھ باتیں

سید خالد قادری

MORE BYسید خالد قادری

    اردو رسالوں کی ورق گردانی کرتے ہوئے کتنی ہی ادبی شخصیتوں کے نام ذہن میں ابھر کر غائب ہوجاتے ہیں مگر ’شمیم حنفی‘ میرے لیے ایک ایسا نام ہے جو اگر کسی پرچے میں نظر آجائے تو وہ مجھے ماضی کے دھندلکوں میں دور تک اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ وقت پیچھے کی طرف لوٹنے لگتا ہے اور میں شمیم بھائی کے بارے میں سوچتے سوچتے ’شمی‘ تک پہنچ جاتا ہوں۔ ’شمی۔۔۔ یہ وہ نام تھا جس سے شمیم بھائی کی والدہ انہیں پکارا کرتی تھیں۔

    ویسے تو ان کے بھائی، بہن اور والد بھی انہیں اسی نام سے پکارتے تھے، ’’شمی بھائی کیا کر رہے ہیں؟ میاں جان کھانے کے لیے بلارہے ہیں۔‘‘ ان کی بہن بانو انہیں پکارتیں، ’’اماں شمی کہاں ہو!دیکھو قادری صاحب آئے ہیں۔‘‘ ان کے والد شیخ محمد یاسین صاحب کی مشفقانہ آواز سنائی دیتی۔۔۔ مگر یہی نام ان کی اماں کی زبان سے کچھ اس طرح ادا ہوتا تھا کہ سننے والا اس کے پیچھے چھپی مامتا کی غیر معمولی مٹھاس محسوس کیے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔ شاید یہی وجہ ہوگی کہ شمیم بھائی کا رسمی اور قلمی نام ’شمیم حنفی‘جس سے وہ اب کافی معروف ہوچکے ہیں، مجھے آج بھی ’شمی‘ کی یاد دلاجاتا ہے اور میں سوچنے لگتا ہوں کہ آج جب کہ انہیں اس نام سے پکارنے والے تقریباً تمام اپنے زیر زمین ابدی نیند سو رہے ہیں اور خود شمیم بھائی بھی ’شمی‘ کو زندگی کے ویرانوں میں کہیں بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں کیا انہیں تنہائی میں کبھی اس نام کی بازگشت سنائی دیتی ہے؟

    یہ ان دنوں کی بات ہے جب زمانہ اتنا پرآشوب نہ تھا۔ ہم لوگ گومتی ندی کے کنارے آباد مشرقی یوپی کے ایک پرسکون شہر سلطان پور میں رہا کرتے تھے۔ یہ وہی سلطان پور ہے جسے آج لوگ مجروح کے نام سے جانتے ہیں۔۔۔ گنگیوہاؤس کے وہ درودیوار جہاں کبھی مجروح کا ترنم گونجا کرتا تھا اور جو بزرگوں کے بہ قول بعد میں ان کی جوانی کی ہلکی پھلکی لغزشوں کے گواہ بھی بنے۔۔۔ انہی کے سایے میں سلطان پور کے ابھرتے ہوئے وکلا اور اس وقت کے کانگریس اور مسلم لیگ کی ہنگامہ خیز سیاست کے ترجمان سید تفضل حسین، شیخ محمد یاسین اور سید ممتاز وغیرہ کی شام کی محفلیں برپا ہوا کرتی تھیں۔۔۔ برصغیر کی تاریخ کا یہ ایک انتہائی اہم اور نازک موڑ تھا۔۔۔ اور شمیم بھائی کا زمانۂ طفلی۔۔۔ تاریخ اور سیاست کی اس عظیم اتھل پتھل سے یکسر بے نیاز۔۔۔ آپ اپنی دنیا کی دریافت میں منہمک۔۔۔

    غالباً چالیس کے دہے میں جب میرے والد سید معین احمد قادری بہ سلسلۂ ملازمت سلطان پور وارد ہوئے تو قریبی عزیزوں کے علاوہ اس شہر کے جن چند لوگوں کی شخصیت اور خلوص نے انہیں متاثر کیا، ان میں شمیم بھائی کے والد شیخ محمد یاسین صاحب کا نام نمایاں ہے۔ پیشے سے مختلف ہونے کے باوجود ان حضرات کی ملاقات جلد ہی قربت میں بدل گئی جو تاعمر قائم رہی۔

    ہم لوگوں کے آپس میں گھریلو تعلقات تھے۔ شمیم بھائی میرے گھر میرے والد سے پڑھنے آیا کرتے تھے۔ اُن دنوں بہ قول میری بڑی بہن فاطمہ، وہ پڑھنے میں کم اور تعلیمی تاش کھیلنے میں زیادہ دل چسپی لیتے تھے۔ میری ماں جنہیں وہ ’میّاں کہتے تھے، ان سے بڑی شفقت رکھتی تھیں۔ پڑھائی ختم ہونے کے بعد کبھی کبھی وہ ان سے باتیں کرنے آجاتے تھے۔۔۔ ہمارے پرانے مکان کے باورچی خانے میں بان کی پیڑھیوں یا میری ماں کی پلنگ کے پائنتی میرے پھوپی زاد بھائی اور اپنے کلاس فیلو غیاث الدین عثمانی کے ساتھ بیٹھ کر گاؤں سے آئے ہوئے باجرے کی روٹی اور سرسوں کا ساگ کھاتے ہوئے شمیم بھائی کی تصویر آج بھی کسی بھولی ہوئی فلم کے منظر کی طرح میرے ذہن کے پردے میں ابھر آتی ہے۔

    شمیم بھائی کے بچپن یا اسکول اور کالج کی زندگی کے بارے میں میری معلومات کچھ زیادہ نہیں۔ عمر میں کافی چھوٹا ہونے کے باعث اُن دنوں مجھے ان کی شفقت یقیناً حاصل تھی مگر صحبت نہیں۔ پھر بھی ایامِ گزشتہ کے کئی نقوش ذہن میں ابھرتے ہیں۔ ان کے اس دور کے دوستوں میں میرے کزن غیاث الدین عثمانی کے علاوہ رشید (مرحوم) بدرالہدیٰ، ظفر، محمود علی اور ابرار احمد وغیرہ ہوا کرتے تھے۔ یہ لوگ ان کے ہم مکتب بھی تھے۔

    ان میں ابرار احمد ہی ایک ایسے دوست تھے جن میں کسی قدر ادبی اور تخلیقی صلاحیتیں پائی جاتی تھیں۔ ہرچندکہ ناسازگار حالات کے بہ موجب وہ مستقبل میں ابھر کر سامنے نہ آسکیں۔ انہیں اقبال، جوش اور فراق کے سیکڑوں اشعار یاد تھے جنہیں وہ اپنے مخصوص انداز میں مزے لے لے کر سنایا کرتے تھے۔ خاص طور پر فراق کی ’روپ‘ کی رباعیاں اور اس دور کی انہی کی ایک اور مشہور نظم ’آدھی رات کے بعد۔ وہ ان دنوں شمیم بھائی کو میدانِ ادب میں اپنا حریف نہیں سمجھتے تھے۔ بعد میں انہوں نے اپنی تمام ذہنی اور تخلیقی صلاحیتیں کرکٹ کے کھیل کے نذر کردیں۔

    اپنے اس ہم مکتب سے وہ آج بھی ربط رکھتے ہیں۔ اس کا ثبوت مجھے اس وقت ملا جب چند مہینوں پہلے سلطان پور میں ابرار احمد صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انتہائی روبہ زوال صحت اور ناتوانی کے باوجود شمیم بھائی کا ذکر آنے پر ان کی پژمردہ آنکھوں میں ایک عجیب قسم کی چمک پیدا ہوگئی۔ وہ Nostalgic ہوتے ہوئے ماضی کی ان یادوں میں گم ہوگئے جب وہ، شمیم بھائی اور محمود علی بیت بازی کے مقابلوں میں حصہ لیا کرتے تھے یا پھر وہ رات جب اختر حسن صاحب کے مکان پر ان دونوں نے مجروح سلطان پوری کا کلام صبح کی اولین ساعتوں تک سنا تھا۔ اس سلسلے میں الٰہ آباد کے مچھلی کے تاجر اور کالج کے نوجوانوں میں بے حد مقبول ایک مخصوص قسم کے شاعر چنگیزی کا بھی ذکر آیا جس کی شاعری پر شمیم بھائی کو اتھارٹی مانا جاتا تھا۔ ابرار صاحب نے اس حالیہ ملاقات میں قیصر بنارسی کی بہ یک وقت اردو اور فارسی میں لکھی گئی اس مثنوی کا نایاب قلمی نسخہ بھی مجھے دکھایا جو گو کہ بالغوں کے لیے تصنیف کیاگیا ہے مگر جسے زمانۂ طالب علمی میں یہ دونوں جویاے علم انتہائی انہماک سے پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔

    نسبتاً چھوٹا اور الگ تھلگ سا شہر ہونے کے باوجود سلطان پور میں باذوق لوگوں کی کمی نہ تھی۔ شہر کے شرفا کی ایک قابلِ لحاظ تعداد شعر و ادب میں دل چسپی رکھتی تھی جس میں سے بیشتر شمیم بھائی کے والد سے ملنے والوں میں سے تھے۔ یدوراج بلی عیش، عبدالحئی خاں اور سکسینہ اور سہائے فیملی کے بزرگ حضرات۔ انہی میں سے ایک معمر اور پرانے طرز کے شاعر نے کچھ سال پہلے شمیم بھائی سے اپنے مجموعۂ کلام کا دیباچہ لکھنے پر اصرار کرکے انہیں ایک قسم کی اخلاقی کشمکش سے دوچار کردیا تھا۔ لگی بندھی روایتی شاعری سے متنفر ہونے کے باوجود والد کے رفیق اور اپنے بزرگ کے حکم کی تعمیل انہیں بہرحال کرنا تھی۔

    ابتدائی زمانے میں شمیم بھائی کی ذہنی تربیت میں جن لوگوں کا ہاتھ رہا ہوگا ان میں سے زیادہ تر ان کے اسکول اور کالج کے استاد تھے۔ ان دنوں سلطان پور میں اردو اور فارسی شعر و ادب کا ستھرا ذوق رکھنے والے کئی حضرات اکٹھا ہوگئے تھے۔۔۔ اقبال عظیم صاحب، مولوی عزیز الدین سالک، محی الدین شوقی اور راقم الحروف کے والد سید معین الدین احمد قادری وغیرہ، جن میں سے آخر الذکر کو چھوڑ کر سبھی شعر و سخن کے میدان میں باقاعدہ مشق آزمائی کیا کرتے تھے۔ اس دور کے طلبہ کا جو گروہ ان کے زیر اثر تھا ان میں شمیم بھائی بھی تھے۔ یہ اور بات ہے کہ ان تمام حضرات کی بہ نسبت بہ حیثیت شاگرد میرے والد سے شمیم بھائی کا رشتہ سب سے زیادہ دیرپا ثابت ہوا۔

    کالج کے دنوں کے اردو کے استاد نیر سلطان پوری سے بھی انہیں بے حد لگاؤ تھا۔ ان کی ادارت میں شائع ہونے والے رسالے ’شمعِ ادب‘ میں دل چسپی لینے کے علاوہ وہ شخصی طور پر بھی اپنے استاد کی ہر خدمت بجالانے کے لیے تیار رہتے تھے۔ ان کے بعد کے اساتذہ پروفیسر اعجاز حسین، پروفیسر احتشام حسین اور پروفیسر آل احمد سرور کے ساتھ بھی ان کا رویہ کم و بیش ایسا ہی نیاز مندانہ رہا۔ مجھے یقین ہے کہ ان تمام حضرات کے نزدیک وہ ایک نہایت ذہین اور فرماں بردار شاگرد رہے ہوں گے۔

    شمیم بھائی کے والد کو شعر و ادب میں کچھ زیادہ لگاؤ نہ تھا۔ وہ اس زمانے کے دوسرے وکلا کی طرح سیاست میں دل چسپی رکھتے تھے۔ چناں چہ بڑا بیٹا ہونے کے ناتے وہ شمیم بھائی کو بھی منصف یا کلکٹر یا پھر کم سے کم وکیل بنانا چاہتے تھے، مگر یہاں تو سر میں کوئی دوسرا ہی سودا سما چکا تھا۔ ان دنوں جب بھی میں شمیم بھائی کو انگلیوں میں سگریٹ دباکر کوئی اسکیچ یا تصویر بناتا ہوا دیکھتا تو میرے ذہن میں یہ خیال پختہ ہوجاتا کہ یہ آدمی کسی نہ کسی درجے میں اس لطیف دیوانگی (Fine Madness) کا ضرور شکار ہے، جو صرف فن کاروں کا حصہ ہوتی ہے۔ Capstan کے پاؤچ تمباکو سے باریک کاغذ کو رول کرکے بنائی ہوئی سگریٹ پیتے ہوئے کمرے میں شمیم بھائی کو Hope کے عنوان سے امید کی دیوی کی تصویر بنانے میں منہمک میں آج بھی تصور کی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہوں۔

    یہ وہ زمانہ تھا جب الٰہ آباد کی آرٹس فیکلٹی کے طلبہ عموماً ایم اے کرنے کے بعد یا تو لکچرر بننے کے خواہش مند ہوتے تھے یا پھر آئی اے ایس اور پی سی ایس کے امتحانات کی تیاری کرتے تھے، جیسے کہ شمیم بھائی کے مسلم بورڈنگ ہاؤس کے ساتھی سولنکی اور محمود الرحمن (موجودہ وائس چانسلر علی گڑھ یونیورسٹی) وغیرہ۔ مگر شمیم بھائی کے تعلیمی کیریر میں اس وقت ایک اہم موڑ آیا جب ایم اے تاریخ کے امتحان میں وہ اچھے نمبرات نہ حاصل کرسکے۔ اس بات سے ان کے والد اتنے دل برداشتہ اور برہم ہوئے کہ انہوں نے شمیم بھائی کی مزید تعلیم کی ذمے داری لینے سے انکار کردیا۔ دراصل اس وقت تک ان کے سرپرستوں میں سے کسی کو بھی ان کے ذہنی رجحانات کا صحیح اندازہ نہ تھا۔

    شمیم بھائی کے لیے ایک نوجوان طالب علم کی حیثیت سے یہ ایک قسم کے جذباتی انتشار اور آزمائش کا دور تھا مگر ایک مضبوط قوتِ ارادی اور اپنی ذہنی صلاحیتوں پر اعتماد نے اس مشکل مرحلے سے گزرنے میں ان کی مدد کی۔ وہ مسلم بورڈنگ ہاؤس میں مقیم رہے اور ساتھ ہی والد کی مرضی کے خلاف اردو ا یم اے میں داخلہ لے لیا۔ ان دنوں انہوں نے لکھنے پڑھنے سے متعلق مختلف کام کیے جن میں اسرار کریمی پریس الٰہ آباد کے لیے ’جاسوسی دنیا‘ اور ’نکہت‘ وغیرہ کے مسودے لکھنا بھی شامل تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ سبھی کام کسی تخلیقی محرک کے تحت نہ ہوکر ایک قسم کی مجبوری یا مالی منفعت کے لیے کیے گئے تھے۔ شاید یہی وجہ ہوگی کہ شمیم بھائی نے اسرار کریمی پریس کے ایک اور مستقل قلم کار (Scribe) مجن بھائی (مجاور حسین رضوی) کی طرح کسی دوسرے شہر جاکر خود کے ’ہزار ناولوں کا مصنف‘ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ وقت گزرنے پر اردو شعر و ادب کے میدان میں شمیم بھائی کی صلاحیتوں کا وافر ثبوت مل جانے کے بعد نہ صرف یہ کہ انہیں اپنے والد کی شفقت دوبارہ حاصل ہوگئی بلکہ وہ ان کے لیے فخر کا باعث بھی بنے۔

    شمیم بھائی کی علمی اور ادبی شخصیت کے ارتقا میں پروفیسر اعجاز حسین اور پروفیسر احتشام حسین کی قربت کے علاوہ ان تجربات کا بھی خاصا حصہ ہے جو انہیں ان دنوں حاصل ہوئے جب وہ ہاسٹل چھوڑ کر فراق صاحب کے ساتھ ان کے نیورسٹی کوارٹر میں رہنے لگے تھے۔ اس وقت وہ فراق صاحب کی ازلی تنہائی میں ان کے رفیق بننے کے ساتھ ساتھ کئی سالوں تک ان کے لٹریری سکریٹری کا بظاہر مشکل رول بھی نبھاتے رہے تھے۔ ان کے ادبی اور شعری ذوق کے نکھرنے اور دنیاے ادب میں ان کا مستقل اور باقاعدہ مقام بننے میں فراق صاحب کی محبت کی کچھ نہ کچھ برکتیں ضرور شامل ہوں گی۔

    شمیم بھائی کی اہلیہ میری بڑی بہن کی کلاس فیلو اور دوست تھیں اور اس ناتے کبھی کبھی ہمارے گھر آیا کرتی تھیں۔ ان دنوں میں انہیں ایک سیدھی سادی خوش شکل گھریلو لڑکی کے طور پر جانتا تھا۔ بعد میں شمیم بھائی سے ان کی شادی کے کسی قدر افسانوی انداز نے مجھے اور میری بہن دونوں کو تھورا بہت ضرور چونکایا تھا۔ آج اتنا عرصہ گزرجانے کے بعد ان میں کیا ذہنی تبدیلیاں آچکی ہیں میں نہیں جانتا۔ پتا نہیں وہ آرٹ اور ادب پر گفتگو کے دوران اپنے شوہر کے لیے ایک اچھی سامع ثابت ہوتی ہیں یا نہیں۔ البتہ عزیزوں اور دوستوں کے لیے ان کے ایک اچھی ہوسٹ ہونے کی خبریں مجھے اکثر ملتی رہتی ہیں۔

    شمیم بھائی کی شریک حیات کا نام صبا اور بیٹی کا نام غزل بھی کچھ کم معنی خیز نہیں۔ یہ ان لوگوں کے لیے محض اتفاق نہیں جو کلاسیکی اردو غزل کی روایت میں شمیم اور صبا کے باہم رشتے سے واقفیت رکھتے ہیں۔

    شمیم بھائی کے بارے میں سوچتے ہوئے جب کبھی ان دنوں کو یاد کرتا ہوں جب میں حیدرآباد نیا نیا آیا تھا اور شمیم بھائی بھی اپنی ملازمت کے ابتدائی ادوار میں اندور اور علی گڑھ میں ہوتے تھے اور ہم چھٹیوں میں سلطان پور میں ملا کرتے تھے تو گرمیوں کی ان شاموں کا خیال آجاتا ہے جب ہم گومتی ندی کے کنارے کنارے ٹہلتے ہوئے پل کے اس پار دور نکل جاتے تھے۔۔۔ ریت کے ان ٹیلوں کے پرے تاریخ کے دھندلکوں سے ابھرتے پرانے سلطان پور کے کھنڈرات اور ان کے نشیب میں ایک قدیم مسجد کا ٹوٹا ہوا مینار۔۔۔ گردشِ افلاک کے شاکی اور ناپائیداری دنیا کے خاموش گواہ۔ ان دنوں ایسے پراثر مناظر شمیم بھائی کی گفتگو کو کچھ اور فلسفیانہ بنادیا کرتے تھے۔

    ’’زندگی کی حقیقت، موت کی صداقت، زمان و مکاں یا پھر تصور وقت یہ سبھی موضوعات فلسفیانہ ادراک کے متقاضی ہیں، انہیں منطقی یا عقلی دلائل کی مدد سے سمجھ پانا دشوار ہے۔‘‘ وہ سوچ میں ڈوب کر کہتے۔

    ’’لیکن پھر ایک عام آدمی جو فلسفیانہ ادراک کا حامل نہیں ہوتا ان مسائل کو کیوں کر سمجھ سکتا ہے؟کیا اس کا مقصد ہمیشہ ہی اندھیروں میں بھٹکنا ہے؟‘‘ بات کو آگے بڑھانے کے لیے میرا اگلا سوال ہوتا۔ ظاہر ہے کہ یہ باتیں کبھی نہ ختم ہونے والی ہوتیں، اس لیے تھوڑی دیر بعد تھک کرہم کسی دوسرے موضوع پر آجاتے۔ شوپنہار، پال ویلری، پشکن، ملارمے، بادلیر، پکاسو، رومی، اقبال، میراجی، سارتر اور کامیو کو انگلیوں کی پوروں سے چھوتے ہوئے جب ہم شام کی سیر ختم کرکے واپس گھر پہنچتے تو چائے کی گرم پیالی کے ساتھ ہماری گفتگو کا موضوع نسبتاً ہلکا پھلکا ہوچکا ہوتا۔ میں اپنے حیدرآباد کے نئے نئے دوست شاذ کی شاعری کی تعریف کر رہاہوتا، شمیم بھائی اسے میرے تنقیدی شعور کی ناپختگی سے تعبیر کرتے ہوئے محض شخصی قربت کانتیجہ سمجھتے۔

    ’’اماں خالد!شاذ تمہارے دوست ہوں گے مگر مجھے تو ان کی شاعری زیادہ تر رومانی اور روایتی معلوم ہوتی ہے۔ جدید حسیت تو اس میں مجھے کہیں نظر نہیں آتی۔ ہاں اکا دکا اشعار کہیں ادھر ادھرمل جائیں گے۔۔۔ تمہیں نئی شاعری کا اندازہ کرنا ہے تو عمیق حنفی کو پڑھو۔ میں یہ اس لیے نہیں کہہ رہا ہوں کہ وہ میرے دوست ہیں۔ ویسے اور لوگ بھی ہیں کمار پاشی، محمود علی، بانی، بلراج کومل وغیرہ، یا پھر پاکستان میں ناصر کاظمی، منیر نیازی اور شکیب جلالی ہیں۔ فکشن میں بھی عبداللہ حسین، انتظار حسین، سریندر پرکاش اور خالدہ اصغر جیسے اہم لکھنے والے ہیں۔ تمہیں ان لوگوں کو پڑھنا چاہیے۔‘‘

    ’’ہمارے حیدرآباد میں ایک اور دوست عوض سعید بھی ہیں۔‘‘ میں عوض صاحب کے بارے میں ان کی رائے جاننے کی کوشش کرتا۔

    ’’عوض سعید کو تو میں نے زیادہ پڑھا نہیں، ہاں پرچوں میں یہ نام اکثر دکھائی دیتا ہے۔ کافی زمانے سے لکھ رہے ہیں۔ مگر اب پرانے لکھنے والوں کو ادب میں اپنی جگہ باقی رکھنی ہے تو کچھ نہ کچھ بدلنا اور Evolve کرنا ہوگا۔ تم اپنے مغنی صاحب کو ہی دیکھو۔ ’شعر و حکمت‘ ایک اہم ادبی پرچہ نکالتے ہیں۔ تنقید میں بھی خاصے جانے جاتے ہیں، مگر ادھر کچھ دنوں سے جہاں ملاقات ہوتی ہے لسانی اور اسلوبیاتی تنقید کے نام پر وہی فاعلاتن فاعلاتن قسم کی کوئی چیز ساتھ لے آتے ہیں۔ ویسے آدمی ملنسار اور مخلص ہیں۔ اب آج کل کی ادبی سیاست میں ہر کوئی گروہ بندی کا شکار ہے اس کا کیا کیا جائے۔۔۔‘‘

    ’’مجھے حیدر آباد میں جو سب سے زیادہ پڑھا لکھا آدمی دکھائی دیا وہ عالم خوند میری ہیں۔ ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘ میں پوچھتا۔

    ’’واہ بھئی! کیا نام یاد دلایا ہے۔ حیدرآباد کے ذکر پر میں یہی نام یاد کرنے کی کوشش کر رہاتھا۔ عالم صاحب واقعی قابل آدمی ہیں، میری ان سے ایک ہی ملاقات ہوسکی مگر اس مختصر ملاقات میں بھی انہوں نے مجھے بے انتہا متاثر کیا۔ ایسے لوگوں سے بار بار ملنے کو جی چاہتا ہے۔‘‘ شمیم بھائی خوش ہوکر کہتے۔ نیرد چودھری کی The Continent of Circe سرویشور دیال سکسینہ کی شاعری، شوپنہار اور کیرک گارد کا فلسفہ، گوتم بدھ کی روحانی شخصیت کاطلسم، وجودیت کا نظریہ، Surrealist Art اور French Symbolists کاادبی طریقۂ کار ان کی دل چسپی کے مختلف موضوعات میں سے چند ایک تھے۔ میں بھی حسب استطاعت ان موضوعات پران سے گفتگو کرنے کی کوشش کیا کرتا تھا۔ شاید ایسی ہی کوششوں کانتیجہ تھا کہ جب وہ اپنی پی ایچ ڈی کا مقالہ ’’جدید اردو شاعری کی فلسفیانہ اساس‘‘ مکمل کرکے سلطان پور لائے تھے تو انہوں نے اسے مجھے بھی دوچار دن کے لیے گھر لے جاکر دیکھنے کے لیے دیا تھا۔

    یہ ان کاحسنِ ظن تھا یا پھر انہوں نے ایسا ازراہِ خلوص کیا تھا، میں نہیں کہہ سکتا مگر میں چوں کہ اپنے آپ کو اس کے تجزیاتی مطالعے کا اہل نہ سمجھتا تھا، اس لیے میں نے اسے ایک دو دن بعد ہی انہیں یہ کہہ کر واپس دے دیا کہ میں نے اسے دیکھ لیا، اس میں کسی قسم کی کمی ہونے کا سوال ہی نہیں اٹھتا، جب کہ ان کے جیسے ذہین آدمی نے اس کے پیچھے اس قدر عرق ریزی کی ہے۔ درحقیقت اتنے ضخیم اور اس قدر بھاری بھرکم مقالے کا باقاعدہ مطالعہ کرنا میرے لیے یوں بھی کارِدشوار تھا۔ یہ وہی مقالہ ہے جس کے کتابی شکل میں شائع ہونے پر وارث علوی نے اس کی خامیاں تلاش کرنے میں اپنی کافی توانائی بلاوجہ ضائع کی۔

    شمیم بھائی نے شروع میں تھوڑی بہت شاعری بھی کی جو اچھی خاصی تھی۔ اردو کے استاد تو وہ ہیں ہی، تجزیاتی اور تاثراتی تنقید کے میدان میں ان کا اپنا مقام ہے جس سے انکار ممکن نہیں مگر بہ حیثیت تخلیقی فن کار، ادب کی جس صنف میں وہ غیر معمولی طور پر کامیاب رہے وہ ڈرامے کی ہے۔ انہیں بہ حیثیت ڈرامہ نگار جاننے والوں میں ایک قابل لحاظ تعداد ان کے مداحوں کی ہوگی۔۔۔ خود مجھے ان کی جس چیز نے متاثر کیا وہ ان کا فن کارانہ تخیل اور ذہانت تھی۔

    آج ہم گزرے ہوئے زمانے کو بہت پیچھے چھوڑآئے ہیں، اپنے قدیم وطن سلطان پور سے بھی ہم دونوں ہی کا رشتہ قریب قریب منقطع ہوچکا ہے۔ ہمیں باہم جوڑنے والی کڑی میرے والد کی ذات بھی اب مادی اعتبار سے ہمارے درمیان نہیں رہی۔ ایسے میں کسی دوست، ادیب یا شاعر یا کسی ادبی پرچے کے ذریعے ہی کبھی کبھی شمیم بھائی کے بارے میں کوئی خبر مل جاتی ہے۔

    شمیم بھائی جامعہ کی آرٹس فیکلٹی کے ڈین ہوگئے ہیں۔ ان کی بیٹی سیمیں کی شادی ہے۔ ان کی آنکھ کا آپریشن ہوا ہے۔ وہ عمرہ کے لیے جدہ گئے ہیں یا پھر کسی ادبی جلسے یا سمینار میں وہ بھی شریک تھے۔ اس دور پر آشوب میں جب کہ رخش عمر اس قدر تیزی سے بھاگ رہا ہو او رکسی کو کسی کی خبر نہ ہو، شمیم بھائی کے بارے میں اتنا جان پانا بھی میرے لیے غنیمت ہے۔

    عرصہ ہوا شمیم بھائی نے میرے والد سید معین الدین احمد قادری کے بارے میں ’چراغِ رہ گزر‘ یا پھر شاید ’مٹی کا دیا‘ کے عنوان سے ’جامعہ‘ میں ایک مضمون شائع کیا تھا۔ شاید ان کے لیے وہ ’استاد‘سے اپنی عقیدت کے اظہار کا ذریعہ رہا ہوگا، مگر میرے نزدیک اس کاایک ایک لفظ اس سعادت مندی اور خلوص کاشاہد ہے جس کے لیے میرے والد انہیں عزیز رکھتے تھے۔ آج ان کے بارے میں میری یہ تحریر نہ تو اس پایے کی ہے نہ ایسے کسی جذبے کا ثبوت فراہم کرتی ہے مگر پھر بھی میرے لیے اس طمانیت کا باعث ضرور ہے کہ فراموشی کے اندھیروں میں کہیں گم ہوجانے سے پہلے میں نے ماضی سے وابستہ شمیم بھائی کی یادوں کے کچھ نقوش ان اوراق پر ابھارلیے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے