شمیم حنفی: اردو تنقید کا آؤٹ سائڈر
ادب انسانی تجربے کے مکمل علم و آگہی کا نام ہے۔ نسل انسانی نے دکھ، کرب اور مصائب کا جو طوفان جھیلا ہے، ادب اسی کی ترجمانی کرتا ہے۔ ادب کسی بھی حال میں اقدار سے خالی نہیں ہوسکتا۔ ہرسچی ادبی تحریر ایک پراسرار روحانی تجربے کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ عکاسی اپنے وسیع تر مفہوم میں ہی ممکن ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس تجربے کی زیادہ سے زیادہ عکاسی کی بات کی جارہی ہو، وہی تو دراصل سب سے زیادہ تاریک، دبیز اور پراسرار تھا۔ ایسی صورت میں ادب پارے کی تفہیم و تعبیر کا کام صرف چند نکات کی طرف نشان دہی کردینے سے ہی ممکن نہیں ہوجاتا۔ ادب میں ’تنقید‘ کا مطلب یقیناً ادب کو جاننے اور سمجھنے کا ہوتا ہے مگر یہ جاننا مخصوص معروضی ہی نہیں، موضوعی بھی ہونا چاہیے۔ یہاں ’جان لینے‘ کا مطلب ’ہوجانا‘ ہے۔ اس طرح یہ Being-Becoming کا سفر ہوتا ہے۔ تب تخلیق وہ ہوجاتی ہے جو ’ہم‘ تھے اور ہم وہ جو کہ ’تخلیق‘ ہے۔
ہمارے زمانے میں جو تنقید کو ایک دوسرے درجے کی سرگرمی مان لیا گیا ہے تو اس کی ایک وجہ چند مکتبی نقادوں کی عامیانہ آرا ہیں، ورنہ تنقید اور تخلیق کا رشتہ ایک ایسا فطری عمل ہے جس کے بارے میں بہت سے بے تکے اور بے معنی سوالات تو قائم ہی نہیں کیے جاسکتے۔ تخلیق ردعمل کے طور پر اپنی تنقید کو پیدا کرتی ہے۔ تخلیق کی تعمیر ہی میں تنقید کی صورت مضمر ہوتی ہے۔ بے خبر تخلیق کے بطن سے باخبر تنقید کا برآمد ہونا ایک قسم کی بامعنی اور اخلاقی ہلاکت خیزی ہے۔ یہ ایک دوسری تخلیق کا جنم لینا ہے، جس کے لیے گزشتہ تخلیق کے خلیوں کے ہلاکت خیزی کے باعث خون کے چیتھڑوں کابکھرنا لازمی ہے۔ ہر قسم کی عضویاتی اکائی کے مقدر میں یہی لکھا ہے جس کے لیے اسے شرمندہ ہونے کی نہیں بلکہ احساسِ فخر اور طمانیت کی دولت سے مالامال ہونے کے احساس کی ضرورت ہے۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ تاریخ اور تہذیب کا عمل جاری و ساری رہنے کی وجہ سے نسل انسانی نے بڑے مصائب بھی اٹھائے ہیں اور بڑی سرشاریاں بھی حاصل کی ہیں۔ ادب کی دنیا نے جذبات اور بصیرتوں کو اپنے گوناگوں تجربات کے ذریعے خود میں جذب کیا ہے۔ اس صورتِ حال میں کسی بھی قسم کی سہل پسندی بڑے بڑے مغالطوں کو وجود میں لاسکتی ہے۔ یہ مغالطے صرف مغالطے ہی نہیں رہتے، یہ معاشرے میں ایک بھیانک تخلیقی بانجھ پن بھی پیدا کرتے ہیں۔ معاشرے میں یہ تخلیقی بانجھ پن پیدا ہی اس وقت ہوتا ہے جب ہم کسی جامد اور اکہرے حصار میں قید ہوکر خود اپنی ہی نظریے کی فرسودگی کے شکار ہو جاتے ہیں۔ ’’ادب برائے ادب‘‘ اور’’ادب برائے زندگی‘‘ جیسے فرسودہ عنوانات سے ہی اب جی گھبراتا ہے۔ یہ ایک طرح سے ایک جامد کھمبے کی طرح کھڑے رہنا جیسا ہے، جس کے سامنے سے ہزاروں ریل گاڑیاں گزرتی رہتی ہیں۔ ریاضی کا ایک معمولی طالب علم بھی جانتا ہے کہ ایک چلتی ہوئی ریل گاڑی کواس کھمبے کی طرح نہیں ہونا چاہیے۔ تنقید اور ادبی تخلیق دونوں کو مل کر ایک نئی اور وسیع تر دنیا کی تشکیل کرنا چاہیے۔
مگر کیا ہمارے یہاں ایسی تنقید کا ارتقا ہوسکتا ہے؟ شمیم حنفی کی تنقید کے بارے میں کوئی بات کرنے کے لیے یہی ایک بنیادی سوال ہے جو میرے لیے اس تحریر کے لکھنے کا محرک بن جاتا ہے۔
دراصل وجودی طرزِ احساس اور فکر نے شمیم حنفی کی تنقید کو جس طرح متاثر کیا اس کی دوسری مثال اردو میں نہیں پائی جاتی۔ یہ تنقید بجائے خود ایک آؤٹ سائڈر کی تنقید ہے، آؤٹ سائڈر ہمیشہ ہی نابغۂ روزگار ہوتا ہے۔ وہ اپنے سے قبل چلی آرہی عمومی صورتِ حال کو درہم برہم کردیتا ہے۔ ادب، فن، تنقید اور علم کے میدان میں آؤٹ سائڈر کا ایک کارنامہ یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ جس صنف سے تعلق رکھتا ہے اس کے بعد اس کے ارتقا کی راہیں ایک طرح سے روایتی خطوط پر آگے بڑھنے کے لیے مسدود ہوجاتی ہیں۔ اردو میں ادبی تنقید کو شمیم حنفی نے جس بلندی پر پہنچادیا ہے اسے دیکھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس سے بہتر اور اعلیٰ تنقیدی کارنامے کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی۔ دراصل یہ کارنامہ اس لیے وقوع پذیر ہوا کہ شمیم حنفی اردو کے وہ واحد نقاد ہیں جو دراصل خود بھی وجودی طرزِ احساس کے مالک ہیں، اس لیے ان کی تنقیدی نگارشات پر وجودی احساسات اور کیفیات کی جو چھوٹ پڑی ہے وہ اس صداقت پرمبنی ہے جس کا خمیر انسانی وجود ہے۔ ادب پارے کی تفہیم و تشریح سائنسی انداز میں نہیں کی جاسکتی۔ ہر بڑا ادب پارہ اپنے آپ میں ایک مابعد الطبیعیات کو دریافت کرے۔
مگرمابعد الطبیعیات کو دریافت کرنے کا عمل بجائے خود ایک گہرے وجودی احساس سے تعبیر ہے۔ اسے دریافت کرنے کا مطلب اس احساس میں کھوجانا یا اس سے ہم آہنگ ہوجانا ہے جسے دریافت کیاگیا ہے۔ دریافت کے معنی نقاد کے لیے نہ تو ٹوپی سے خرگوش نکالنا ہے اور نہ یہ اعلان کردینا کہ چاند پر پانی نہیں پایا جاتا۔
شمیم حنفی کی تنقید فن پارے کی مابعد الطبیعیات کو دریافت کرتی ہے، پھر وہ سب کچھ، جو دریافت ہوا ہے، قاری کو نظرآنے لگتا ہے، وہ دکھائی د یتا ہے، ایک زندہ احساس کی طرح شمیم حنفی کی تنقید ایک معجزے سے کم نہیں، کیوں کہ یہ کچھ کہنے اور بتانے سے زیادہ دکھاتی ہے، یعنی Display کرتی ہے۔
یہاں یہ سوال فطری طور پر پیدا ہوتا ہے کہ Display کرنے کا یہ عمل تنقید میں کس طرح رونما ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کارنامہ شمیم حنفی کی زبان نے انجام دیا ہے۔ ان کی تنقید کی زبان مروجہ تنقیدی اسالیب میں سے کسی بھی ایک سے تعلق نہیں رکھتی، اس لیے اسے آؤٹ سائڈر کہا گیا ہے۔ عسکری صاحب سے بے حد متاثر ہونے کے باوجود ان کی تنقید کا ایک چھوٹے سے چھوٹا جملہ بھی اس بات کی غمازی نہیں کرتا کہ وہ عسکری صاحب کے تنقیدی اسلوب کی بھی تقلید کر رہے ہیں۔ دراصل عسکری صاحب کے مزاج میں جو عجلت پسندی تھی اور زیریں سطح پر ادب کے تئیں جو غیر سنجیدگی تھی، شمیم حنفی کو اس سے دور کا بھی علاقہ نہیں ہے۔ عسکری صاحب باتوں باتوں میں بڑے بصیرت آموز نکات کا انکشاف کردیا کرتے تھے مگر یہ بھی ہے کہ عسکری صاحب کی تحریروں کو ترقی پسند نقادوں کی سکہ بند تحریروں کے ردعمل کے طور پر ہی زیادہ دل چسپی کے ساتھ پڑھا جاسکتا ہے۔ شمیم حنفی، عسکری صاحب سے ہی نہیں بلکہ اردو کے تمام نقادوں سے قطعی طور پر مختلف ہیں۔
دراصل تنقید کے تقریباً تمام اسالیب فن پارے کی جس قسم کی تشریح یا تفہیم کرنے کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں، اس کے لیے ان کے پاس زبان کے سوا دوسرا کوئی آلہ نہیں ہوتا۔ وہ زبان کو ’جاننے‘ کا ایک آلۂ کار سمجھتے ہوئے اس کا استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح ان کے یہاں ’موضوع‘ اور ’معروض‘ ہمیشہ ایک دوری پر اپنی اپنی جگہ قائم رہتے ہیں۔ عام طور سے تنقید کا منصب یہی مانا بھی جاتا ہے اور اس قسم کی تنقید ہمیشہ صاف شفاف اور منظم ہوتی ہے مگر ایسی تنقید اپنے وسیع معنی میں صرف ایک آلۂ کار بن کر رہ جاتی ہے۔ وہ تخلیق کے مقابلے میں ہمیشہ اس لیے دوسرے درجے کی شے ہوتی ہے کیوں کہ اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لیے اسے تخلیق کے معیار اور اس کی اقدار کا تعین کرنا پڑتا ہے۔
مگر شمیم حنفی کی تنقید اس زمرے میں نہیں رکھی جاسکتی۔ وہ ’تخلیق‘ کے ساتھ شرکت کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سفر پر چل کھڑی ہوتی ہے۔ ہر فن پارہ اپنے پیچھے خون کی کچھ بوندیں چھوڑجاتا ہے۔ شمیم حنفی کی تنقید خون کی ان بوندوں کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ یہ تخلیقی تجربے کے ساتھ ساتھ سر لگانے جیسا ہے۔ ایسی تنقید کبھی ’غیرتخلیق‘ کے لیے وجود میں نہیں آسکتی، وہ کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہوسکتی۔ وہ کسی غیرتخلیقی تجربے کا نوٹس نہیں لے سکتی۔ شمیم حنفی کی تنقید میں موضوع اور معروض میکانکی انداز میں بے جان پتلے بن کر کھڑے نہیں رہ جاتے، وہ چلنا شروع کردیتے ہیں۔ ایک دوسرے کی تلاش میں، کبھی ایک دوسرے کی طرف اور کبھی ایک دوسرے کے مخالف بھی۔ ظاہر ہے کہ شمیم حنفی کی زبان نے ہی یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ وہ زبان کے ذریعے دکھاتے ہیں۔ زبان کو انہوں نے اپنے ’ہونے‘ کی زبان بنایا ہے نہ کہ کچھ ’جان لینے‘ یا ’بتانے‘ کی زبان۔ یہ خالص وجودی طرزِاحساس ہے۔
تنقید میں معروضیت پر بہت زیادہ زور دیا جانا منطقی اعتبار سے غلط ہے۔ ادب میں معروضیت نہیں ہوسکتی۔ ادب میں معروضیت میں موضوعیت شامل ہوتی ہے۔ سماجی علوم میں بھی صرف نصف فیصد ہی معروضیت ہوتی ہے۔ ادب میں تنقید بہرحال ایک دانشورانہ سرگرمی ہے مگر یہ دانشورانہ سرگرمی اپنی عقل کو اس طرح بروے کار نہیں لاتی جس طرح مثال کے طو رپر ایک ڈاکٹر، انجینئر یا ٹیکنیشین اپنی عقل کو بروے کارلاتے ہوئے کسی خاص مقصد کو پورا کرنے میں لگا رہتا ہے۔ یہ خاص مقصد عام طور پر دنیاوی اور افادی نوعیت کا ہوتا ہے مگر ایک دانشور کا مقصد اس سے قطعاً مختلف ہے۔ یہاں عقل و دانش کی مرکزی اہمیت ہوتے ہوئے بھی اس کا مقصد کوئی دنیاوی کارنامہ انجام دینا نہیں ہوتا ہے۔ یہاں تو عقل یا دانش خود اپنی فطرت سے ہی ہم آہنگ رہتی ہے، یعنی خیال و فکر۔
کسی بھی موضوع پر سوچنے کے ساتھ ساتھ اس کی حقیقت یا ’سچ‘ کا ادراک حاصل کرنا۔ اس ’سچ‘ کا ادراک حاصل کرنے کے لیے معروضیت کوئی اولین یا حتمی شرط نہیں ہے۔ جب ہم اقدار کی بات کرتے ہیں تو ایک اخلاقی جہت تو خود بخودہماری دانشورانہ سرگرمی کے ساتھ منسلک ہوجاتی ہے۔ یہ اخلاقی جہت ایک قسم کے تنقیدی احساس (Critical Consciousness) کو پروان چڑھانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ کیا ادبی تنقید اقدار اور اخلاق سے یکسر خالی ہوکر عقلِ محض کاپتلا بن کر خالص سائنس کی طرح فن پارے کو ٹھونک بجاکر دیکھتے رہنے کا نام ہوسکتی ہے؟ ادب کا کوئی بھی معروضی مطالعہ بغیر موضوعیت کو شامل کیے مکمل نہیں ہوسکتا۔
دوسرے نقادوں کی زبان اور شمیم حنفی کی زبان میں یہی فرق ہے کہ دوسرے نقاد دراصل سائنس دان کے منصب پر فائز ہیں۔ وہ فن پارے سے تقریباً لاتعلق ہوکر اس کی سرجری کرتے ہیں۔ ایسے نقاد بعدمیں اپنی کامیاب ’سرجری‘ کے نشے میں ہی گم رہتے ہیں۔ زخمی کٹے پھٹے فن پارے کو ان سے الگ اور دور رہ کر بھی بہت دن جینا پڑتا ہے۔
مگر شمیم حنفی کا مطالعہ ان کی روحانی واردات کا ہی دوسرا نام ہے۔ ان کی زبان وجودی تجربے سے روشنی اخذ کرتی ہے۔ اس روشنی میں وہ سب کچھ Display ہوجاتا ہے جو کہا نہیں جاسکتا۔ یہ روشنی ان کی تمام نگارشات کے ساتھ ساتھ رینگتی ہے، مگر یہ اتنی تیز نہیں کہ آنکھیں چندھیا جائیں۔ کبھی کبھی تو یہ صرف ایک چمکیلے غبار یا دھند کی شکل میں ہوتی ہے جس میں اشیا اپنی تمام پوشیدہ جہات کو بھی پرچھائیوں کی شکل میں Display کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔
اس لیے شمیم حنفی کے مطالعے کا مرکز بھی صرف وہ تخلیقات ہی ہوتی ہیں جن سے ان کا کوئی ذہنی رشتہ قائم ہوتا ہے، اس لیے فن پارے سے وہ بے تعلق رہ ہی نہیں سکتے۔ شمیم حنفی کی تنقید میں یہ کرشمہ اس طرح نمودار ہوا ہے کہ فن پارے کے متن میں پوشیدہ وجودی تجربے اور تنقید کی زبان کے درمیان ایک موجودی طرزِاحساس کی ہم آہنگی قائم ہوجاتی ہے۔ اس طرح فن پارہ اپنی خالی جگہوں کو بھرتا ہے۔ تخلیق ایسی تنقید کی محتاج ہوتی ہے جو اسے مکمل کردے۔ شمیم حنفی کی تنقید ایسی ہے جو فن پارے کو مکمل کرنے کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ اسے مکمل کرنے میں ہی تشریح و تفہیم کا وہ مقصد بھی پورا ہوجاتا ہے جس کی تکمیل کے لیے تنقید وجود میں آتی ہے۔
یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ شمیم حنفی کی تنقید تخلیق کے مقابلے میں دوم درجے کی شے نہیں ہے۔ وہ اپنے وجود کے لیے اسی طور پر کسی ’تخلیق‘ کی محتاج نہیں ہے۔ زمانی یا تاریخی اعتبار سے بھلے ہی وہ فن پارے کے وجود میں آنے کے بعد مکمل ہوگئی ہو مگر دراصل ایسی تنقید تخلیق کے تاروپود میں ہمیشہ شامل رہتی ہے، کیوں کہ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ خود تخلیق کو بھی اپنی تکمیل کے لیے ایسی تنقید کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ جدید تنقید کا ارتقا ایک قسم کے تہذیبی بحران کی پیداوار ہے۔ صنعتی انقلاب کے بعد ایک ایسا سماج سامنے آیا ہے جسے ہم Mass Society کہہ سکتے ہیں۔ یہ وہ سماج ہے جو انسانوں نے اپنے باہمی رشتوں کے ذریعے تشکیل نہیں کیا ہے بلکہ یہ الگ الگ افراد کا ایک فرقہ ہے جسے حکومت کے اپنی ذاتی اغراض و مقاصد کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے، اس لیے آج لکھنے والا یقیناً اور بھی زیادہ اکیلا ہوگیا ہے۔ قدیم زمانے میں تنقید کا کوئی بہت خاص رول اس لیے نہیں تھا کہ ادیب اور سماج کے درمیان کوئی خلیج نہیں تھی۔ گزشتہ دوتین سو سالوں میں یہ صورتِ حال بدل گئی ہے، کیوں کہ سماج میں فرد ابھر کر آگیا ہے۔ آج جسے ہم ترسیل کا المیہ کہتے ہیں وہ ادیب اورقاری (سماج)کے درمیان کسی مکالمے کی غیرموجودگی کا ہی دوسرا نام ہے۔ یوں دیکھا جائے تو یہ سماج کے بکھر جانے کا ہی نتیجہ ہے۔ جدید تنقید نہ صرف اس تہذیبی بحران کی پیداوار ہے بلکہ اس سے ابھر کر باہر آنے کی ایک بیباک اخلاقی کوشش بھی ہے۔
شمیم حنفی کی تنقید نے صحیح معنی میں ’جدید تنقید‘ کی یہ ذمے داری اپنے سرلینے کی کوشش کی ہے۔ روایتی اور رسمی قسم کی تنقید کے بس کا یہ روگ نہیں کہ وہ اس تہذیبی بحران سے باہر آنے کی اولین شرط بھی پوری کرسکے، یعنی وہ اس اخلاقیات کا بوجھ اپنے سرپر نہیں لے سکتی، کیوں کہ اس نے معروضیت کو انتہا پسند کی حد تک اپنا راہ نما بنالیا ہے، اگرچہ یہاں بھی وہ غلط فہمی اور مغالطے کا ہی شکار ہے۔ صداقت اور معروضیت میں صرف سہل پسندی سے کام لیتے ہوئے ہی کوئی رشتہ قائم کیا جاسکتا ہے ورنہ ان میں کوئی منطقی ربط نہیں۔
شمیم حنفی کی تنقیدی زبان بے حد شائستہ اور پروقار ہے، مگر اس زبان کے انوکھے پن کا اسرار اس لہجے اور لے میں پوشیدہ ہے جو بہت ملال انگیز ہے۔ ملال اور افسردگی کی یہ کیفیت آخر تنقید کی زبان میں کہاں سے چلی آتی ہے؟
(1) ’’تنقید نہ تو قانون سازی ہے نہ کسی سیدھی سادی لسانی تربیت کی مجرد ترتیب۔ تخلیقی لفظ کے واسطے ہم جتنا کچھ دیکھ پاتے ہیں اس سے بہت زیادہ ہماری نگاہ سے اوجھل رہ جاتا ہے۔ تخلیقی لفظ کے مفہوم کی کائنات بے حساب ہوتی ہے اور لامحدود۔ اس سلسلے میں قطعیت کا رویہ اختیار کرنا اپنے آپ کو فریب دینا ہے۔ وہ علم جو مجرد اصولوں، خیالوں اور رشتوں کی آگہی فراہم کرتا ہے، بقول سارتر کھوکھلا علم ہے۔‘‘ (قاری سے مکالمہ، شمیم حنفی)
(2) ’’ہر انسانی شعوراور آگہی اپنا بامعنی اظہار ایک وسیع او رپرپیچ انسانی مظہر کے واسطے سے کرتی ہے۔ یہ مظہر تجربہ گاہوں کی چھوٹی سی دنیاکے دائرے میں نہیں سماسکتا۔ ہمارا عہد تخلیقی لفظ کے مفہوم، مطالعے اور تفہیم کے سابقہ تصورات سے انقلابی انحراف کا عہد ہے۔ نئی تنقید اس اعتراف کے بغیر اپنے قیام اور استحکام کی کوششوں میں ناکام رہے گی۔‘‘ (قاری سے مکالمہ، شمیم حنفی)
(3) ’’انسان بجائے خود ایک بھید ہے، اس لیے شاعری بھی کبھی کبھی بھول بھلیاں بن جاتی ہے۔ تخلیقی عمل کے بھید کو پانے کے لیے قاری کو ذہنی، لسانی اور وجدانی سطح پر شعری اظہار اور اپنے مابین دوریوں کو مٹاناپڑے گا۔ بہ صورتِ دیگر زندگی کا ایک اصول بہت واضح اور ابہام سے خالی ہے کہ دنیا کی ہر بات ہر شخص کے لیے نہیں ہوتی۔‘‘ (قاری سے مکالمہ، شمیم حنفی)
(4)’’مارسل پراؤست نے جو ایک بات کہی تھی کہ کائنات ہر بڑے فنکار کے ساتھ ایک بار پھر سے بنتی ہے تو منٹو کی کہانی کے ساتھ اصل معاملہ یہی ہے۔ وہ کائنات کی ہر شے کو اور ہر شخص کو اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے اور اپنی فنکارانہ ضرورت اور طلب کے مطابق اسے ہمارے سامنے لاتا ہے۔ چناں چہ اپنی کہانی سے خود کو غائب کردینے کے بعد بھی وہ ہماری آنکھ سے اوجھل نہیں ہوتا۔ منٹو کے معاصرین میں اور اس کے بعد بھی کسی دوسرے کہانی کار نے اپنی ہستی اور کہانی میں ایسا انوکھا تال میل پیدا نہیں کیا۔‘‘ (منٹو: حقیقت سے افسانے تک، شمیم حنفی)
(5)’’یہ سب کچھ ایک گہرے تخلیقی درد کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ بیدی کی سجاوٹ سے عاری زبان، زمین سے لگ کر چلتا ہوا اسلوب، انہوں نے واقعات اور انجانی واردات سے خالی سیدھی سادی کہانی، ان کہانیوں سے جھانکتی ہوئی زندگی کے مانوس رنگ اور منظر، دھیمے سروں میں اس تخلیقی درد کا اظہار کرتے ہیں جس کی ڈور میں بصیرت اور ان کے کردار ایک ساتھ الجھے ہوئے ہیں۔ ایک پائدار لیکن خاموش حزن بیدی کی کہانیوں اور کرداروں کی کھردری سطح کو بڑی ملائمت اور نرمی سے ہمکنار کرتا ہے۔ کہی اور ان کہی دونوں ساتھ ساتھ نمایاں ہوتے ہیں۔ دوسرے کی سرگرمی میں دخل انداز نہیں ہوتے۔ یہ کردار نہ تو Types ہوتے ہیں، نہ اپنے مسئلے کے حل کی خاطر کسی بیرونی سہارے کے منتظر رہتے ہیں۔ ان کی ساری کشمکش ان کی اپنی ہستی کے حوالے سے ابھرتی ہے۔‘‘ (بیدی کے کردار، شمیم حنفی)
(6) ’’بنیادی شرط تجربے کی صداقت اور اس کا ذاتی تاثر ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تجربے کی صداقت اور ذاتی تاثر کے اظہار کی مثالیں متقدمین سے تاحال ہر اس شاعر کے کلام میں بھی دیکھی جاسکتی ہیں جس نے صرف اوڑھی ہوئی زمینوں کو اپنی بصیرت کی جولان گاہ نہ بنایا ہو، چناں چہ کسی نہ کسی پروجودی فکر کا عمل دخل میر و غالب کے یہاں بھی مل جائے گا۔ متقدمین سے قطع نظر، ترقی پسند شعرا کے یہاں بھی ایک نوع کی وجودیت کا سراغ ملتا ہے، بلکہ ہر برٹ ریڈ کے خیال میں تو (پہلے میں بھی اس کی طرف اشارہ کیا جاچکا ہے ) مارکس کے پیروؤں سے زیادہ وجودی کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘ (نئی شعری روایت، شمیم حنفی)
مندرجہ بالا مثالیں بغیر کسی شعوری کاوش اور تلاش کے شمیم حنفی کے مضامین سے اخذ کی گئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے بے شمار مضامین میں سے کہیں سے بھی اس قسم کی سیکڑوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کسی فن پارے کا مطالعہ کرتے وقت ان کے بنیادی سروکار ’’انسان‘‘ سے ہی وابستہ ہیں۔ افسردگی اور ملال کی اس کیفیت کا ایک سبب تو یہ انسانی سروکار ہی ہوسکتے ہیں جس کی وجہ سے وجودی طرزِ احساس کی ایک بامعنی اداس دھندلی سی روشنی ان کی تمام نگارشات پر پھیلی رہتی ہے۔ شمیم حنفی کی تنقید پر اگر کچھ لوگوں کو تخلیقی ادب کا شائبہ ہوتا ہے تو اس کی وجہ ان کی یہ افسردہ زبان ہی ہے۔ یہ زبان دراصل ایک زندہ وجودی تجربے کی بامعنی اداسی ہے، اس لیے یہ تخلیقی افسردگی نہ صرف اپنے آپ میں معتبر ہے بلکہ یہ فن پارے کو بھی اس وجودی وحدت کی جہت عطا کرکے اس کی تشریح اور تفہیم کا وہ بھاری اور بظاہر ناممکن فریضہ بھی انجام دیتی ہے جو دوسری تنقیدی زبانوں یا تنقیدی اسالیب کے ذریعے انجام نہیں دیا جاسکتا۔ آصف فرخی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں شمیم حنفی نے کہا تھا،
’’میں اس لمحے میں اپنے حشر سے بہت ڈرتا ہوں جب مجھے نقاد سمجھا جائے۔ مجھے اس بات سے بہت خوف آتا ہے کہ قیامت کے دن مجھے نقادوں میں اٹھایا جائے گا، کیوں کہ میرا معاملہ تو یہ ہے کہ میں کوئی تحریر پڑھتا ہوں تو اس سے ایک تاثر میرے ذہن میں پیدا ہوتا ہے۔ کبھی وہ تاثر دھندلا ہوتا ہے، کبھی روشن، کبھی میرا جی چاہتا ہے کہ اسے قلم بند کردوں، کبھی جی چاہتا ہے کہ نہ کروں۔ جب قلم بند کرتا ہوں تو یہ سوچتا ہوں کہ شاید کوئی دوسرا ابھی اس تجربے میں شریک ہوسکے۔ اس لحاظ سے میں کبھی کبھی ایسی چیزیں لکھتا ہوں جنہیں مضامین کہا جاسکتا ہے۔‘‘
شمیم حنفی کے اس بیان سے اگر ان کی تنقید کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے تو دوسری طرف ہماری سہل پسندی ہمیں مغالطے میں بھی ڈال سکتی ہے۔ نہیں، وہ اس طرح کی تاثراتی مکتبی تنقید نہیں ہے، جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ یہ تنقید تو عسکری صاحب سے بھی اپنی سمت کی رہنمائی نہیں مانگتی۔ قائل تو شمیم حنفی، نہ صرف عسکری صاحب بلکہ فراق صاحب کے بھی ہیں۔ سلیم احمد کے بھی وہ معترف ہیں، مظفر علی سید کے بھی قائل ہیں، مگر ان کی تنقید ان سب سے قطعاً مختلف نوعیت کی ہے۔ وہ صرف ادب کی تشریح کا فریضہ ہی انجام نہیں دیتی وہ قاری کو بدل بھی دیتی ہے۔ جس طرح فن پارہ ہمیں تھوڑا تھورا بدل دیتا ہے۔ یہ تنقید ہمیں تاریکی میں چلنا سکھاتی ہے۔ تقریباً بیس سال پہلے میں نے ان کی صرف ایک کتاب ’’کہانی کے پانچ رنگ‘‘ پڑھی تھی اور عبداللہ حسین کی کہانیوں کے مجموعے پر ان کا ایک چھوٹا سا فلیپ، اگر میں نے انہیں نہ پڑھا ہوتا تو آج میں کہیں اور ہوتا۔ ان دو تحریروں نے میری زندگی بدل کر رکھ دی، مگر وہ ایک الگ داستان ہے۔
ادب کا تجربہ دراصل وجودی تجربہ ہے۔ وجودی تجربہ ہر کس وناکس کو حاصل نہیں ہوتا۔ اس کے لیے ایک معتبر وجود کا ہونا بھی شرط ہے۔ معتبر وجود کی پہلی شرط بامعنی افسردگی اور بامعنی مایوسی بھی ہے۔ یہ قنوطیت نہیں ہے، یہ وسعت ہے۔ انسان اگر شے نہیں تو پھر اسے اداس ہونا پڑے گا۔ ادیب کو سب سے زیادہ، کیوں کہ وجود کے کرب کو برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ اسے تو لکھنا بھی پڑتا ہے۔ شمیم حنفی کی تنقید اس لیے منفرد ہے کہ وہ بجائے خود ایک وجودی تجربہ ہے۔ مگر اس زبان کی افسردگی کا ایک سبب اور بھی ہے۔
ایڈورڈ سعید نے ایک جگہ لکھا تھا، ’’ہرادبی چیز کو سیاسی رنگ مت دیجیے ورنہ آخر میں احتجاج کرنے کے لیے کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔ بہتر تو یہ ہوگا کہ ادب کو سیاست کے اوپر دائر ایک مقدمے کی طرح لکھا جائے اور سمجھا جائے۔‘‘
شمیم حنفی کی تنقید کے بیشتر حصے کو ہم سیاست کے اوپر چلائے جانے والے ایک مقدمے کے بطور بھی پڑھ سکتے ہیں۔ ’’جدیدیت کی فلسفیانہ اساس‘‘ اور ’’نئی شعری روایت‘‘ میں تو ان کی تنقید کا واضح رجحان ہی یہ ہے۔ ان کی یہ اعلیٰ تصنیف اردو ادب کا ایک عہد ساز کارنامہ قرار دیے جانے کے قابل ہے۔ اس کی سب سے بڑی اور نمایاں خوبی یہ ہے کہ وہ محض فلسفے کے مجرد تصورات اور ادبی تھیوری سے ہی بحث نہیں کرتی بلکہ اس کی ایک مخصوص سیاسی جہت بھی ہے اور جس کی طرف کم توجہ کی گئی ہے۔ میرے خیال میں جدیدیت کا فلسفیانہ اساس کے سروکار اتنے مابعد الطبیعیاتی یا خالص ادبی نوعیت کے نہیں ہیں جتنے کہ سیاسی۔
(1) ’’نئی حسیت بنیادی طور پر حنفی(صنفی؟) معاشرے اور موجودہ سیاسی، سماجی اور اقتصادی نظام کے خلاف احتجاج سے عبارت ہے۔ احتجاج، برہمی اور غم و غصے کا اظہار بھی نئی شاعری اور جدیدیت کے ایک عنصر کی ترجمانی کرتا ہے، لیکن اس اظہار کی نوعیت متعین نہیں ہے۔ اگر انفرادی آزادی کے تحفظ کو صرف سیاسی احتجاج کا تابع سمجھ لیا جائے تو مسئلہ الجھ جائے گا۔ ہر سیاسی احتجاج پایان کار ایک اجتماعی نتیجے اور نصب العین پر مختتم ہوتا ہے، اس لیے ہر جدوجہد سیاسی ہونے کے ساتھ ہی اجتماعی جدوجہد بن جاتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ جدیدیت ہر جبر کی طرح سیاست کے جبر کو بھی تسلیم نہیں کرتی۔ کبھی انیسویں صدی کے انحطاطی شعرا کی طرح جدیدیت سیاسی سوقیانہ پن سے بیزار ہوکر اسے یکسر نظرانداز کردیتی ہے، کبھی علامتوں اور استعاروں کے پردے میں اس پر طنز اور برہمی کا اظہار بن جاتی ہے، کبھی معاصر نظام سے ناآسودگی، گہری اداسی اور بے زاری کے احساس کی شکل میں سیاسی اور اقتصادی حالات کے خلاف ایک بلاواسطہ اور خاموش احتجاج بن جاتی ہے۔ احتجاج کی سطحیں اور ہیئتیں اتنی مختلف النوع اور پیچیدہ ہیں کہ ان پر کوئی قطعی حکم لگانا مشکل ہے۔‘‘ (جدیدیت کی فلسفیانہ اساس، شمیم حنفی)
(2) ’’روایت کی نفی کا مسئلہ جمالیات کے باب میں اس وقت سامنے آتا ہے جہاں معاصر عہد کی یکسانیت، بے رنگی اور دہشت کی فضا اپنے انعکاس کے لیے اظہار کے ایسے سانچوں کی تلاش پر اکساتی ہے جو اس ابتری اور بدنظمی یا اکتاہٹ کے احساس کو لسانی حرمتوں کی شکست کے ذریعے واضح کرسکیں۔ اس وقت سلیس اور رواں دواں، ترشی ہوئی اور سڈول زبان نیز آراستہ اور خوب صورت صیغۂ اظہار کی جگہ ایک ایسا کھردرا، غیرمتوقع جارحانہ اور متشدد اسلوب جنم لیتا ہے جس کی صوتی اور لسانی ترکیب میں پرانے وقت کی آسودہ خاطری، غنائیت اور توازن و تناسب کے بجائے نئی تہذیب کے شور شرابے، خوف اور داخلی انتشار کی گونج شامل ہوتی ہے۔ یہ اسلوب نئے انسان کے ذوقِ جمال کے مسلسل انحطاط، اس کی پریشاں نظری اور فکری اعتبار سے اس کی بے سروسامانی کی نشان دہی کرتا ہے۔‘‘ (نئی شعری روایت، شمیم حنفی)
(3)’’لکھنے والے کی شخصیت بڑی ہو یا چھوٹی، اس کے وجود کی سچائی نہیں ہوتی۔ جس وقت ہم زندگی کے کسی مظہر کو دیکھ رہے ہوتے ہیں، وہ مظہر بھی ہمیں دیکھ رہا ہوتا ہے اور ہماری ہستی ایک ساتھ دیکھنے اور دیکھے جانے کے تجربے سے گزر رہی ہوتی ہے۔ بلاشبہ آج کی دنیا میں اپنے ملک، معاشرے، بستی، خاندان میں رہتے ہوئے بطورِ فرد ہم اپنے ماحول کے درجۂ حرارت کو نظرانداز نہیں کرسکتے مگر اس درجۂ حرارت تک اپنے ماحول کو پہنچانے میں کوئی نہ کوئی حصہ ہمارا بھی تو ہوسکتا ہے۔‘‘ (ناول، تاریخ اور تخلیقی تجربہ، شمیم حنفی)
تو اس زبان کی افسردگی کا دوسرا سبب کیا ہے؟دراصل یہ افسردگی وہ ایمانداری بھی ہے جس کے بغیر کوئی ادیب اپنے عہد کے مصائب کا چشم دید گواہ بننے کا دعوی نہیں کرسکتا۔
یوں تو کافی زمانہ بعد جدیدیت کے تحت پوسٹ کلونیلزم، فیمینزم، نیٹو ادب، صارفیت اور گلوبل ویلج یا انفارمیشن ایکسپلوژن وغیرہ کا تنقید میں بہت چرچا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اردو میں لکھی جانے والی بیشتر ادبی تنقید بے حد تصنع آمیز اور آلودگی سے بھری ہوئی ہے۔ یہ تنقید سوائے تخلیقی تجربے کے اور ہر شے کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ اس تنقید نے تخلیقی تجربے کو جلاوطن کردیا ہے اس لیے یا تو یہ ایک نئے قسم کی مکتبی تنقید سے تعبیر کی جاسکتی ہے یا پھر سماجی علوم میں سے کسی قطعاً نئی شاخ سے، مگر ایسی شاخ جو نقلی ہے اور بے ایمانی اور عیش پرستی بلکہ لذت کوشی کا دوسرا نام ہے۔
اس لیے میرے خیال میں شمیم حنفی کی تنقید کا کوئی سانچہ اردو میں نہ تو پہلے تھا اور نہ ہی آج اس کاموازنہ اردو میں لکھی جارہی دوسری تنقیدی تحریروں سے کیا جاسکتا ہے۔
پولینڈ کے شاعر می ووش نے کہا ہے کہ ’’ممکن ہے کہ ادب یا شاعری ہمارے عہد میں ضمیر کی ایک آواز ہو، مگر پھر بھی اس پر ہمیشہ شک کیا جانا چاہیے اور اس کی عظمت کے قصیدے سے انکار۔‘‘
شمیم حنفی کی کوئی بھی تحریر محض ادبی تنقید نہیں ہے۔ میرے خیال میں اسے ہم اپنے اجتماعی ضمیر کی آواز پر کیے گئے شک اور اس کی اخلاقی عظمت سے انکار کے ایک اعلان نامے کے بطور بھی پڑھ سکتے ہیں۔ اس تنقید کے بنیادی سروکار صرف انسانی ضمیر سے ہی وابستہ ہیں۔ ان کی زبان میں افسردگی اور ملال کی جس لے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، وہ بڑی معتبر اور قابل احترام ہے۔ اس کا راز اس نکتے میں پوشیدہ ہے کہ وہ فن پارے کے باطن میں چھپے ہوئے لگاؤ اور درد کی تلاش میں سرجری کرنے کے لیے نہیں اترے ہیں، اسی لیے اس تنقید کے ہاتھوں میں دستانے نہیں ہیں اور اسی لیے یہ ایک آؤٹ سائڈر کی تنقید ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.