شمس الرحمٰن فاروقی بحیثیت فکشن نگار
(سوار اور دوسرے افسانے کے حوالے سے)
جیسا کہ گزشتہ صفحات میں ذکر ہوچکا ہے کہ شمس الرحمٰن فاروقی نے اپنی اوائل زندگی میں ’’گلستان‘‘ کے نام سے ایک قلمی رسالے کی ترتیب شروع کی۔ ان میں زیادہ تر انہیں کے قلم سے لکھے ہوئے مضامین اور افسانے ہوتے تھے۔ دسویں جماعت کا طالب علم بننے کے بعد انہوں نے گلستان بند کردیا اور دیگر اخباروں اور رسالوں کے لیے مضامین اور افسانے لکھنے لگے۔ ۱۹۴۸ء یا ۱۹۴۹ء میں ان کا پہلا افسانہ چھپا تھا جس کا اب کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ گیارہویں جماعت میں پہنچتے پہنچتے فاروقی کا اٹھنا بیٹھنا جماعت اسلامی کے ادبی حلقوں میں ہوگیا۔ جماعت کے آرگن ’’معیار‘‘ میرٹھ میں ان کا طویل افسانہ یا ناولٹ ’’دلدل کے باہر‘‘ چار قسطوں میں چھپا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے سوویت روس میں مذہب پر استبداد کو دیکھتے ہوئے ایک افسانہ ’’سرخ آندھی‘‘ لکھا جس کو پڑھنے کے بعد ان کے اردو کے استاد شمس الآفاق شمس گورکھپوری نے کہا تھا کہ تمہارے افسانے میں ایسی پختگی ہے جیسے بڑے افسانہ نگاروں کے یہاں ہوتی ہے۔ اس افسانے کو بعد میں فاروقی کے محبوب استاد پروفیسر مہروترا نے انگریزی میں ترجمہ کروا کر الہ آباد یونی ورسٹی میگزین میں شائع کروایا۔
شمس الرحمٰن فاروقی کے تحریر کردہ پانچ طویل و مختصر افسانوں کا خوبصورت مجموعہ ’’سوار اور دوسرے افسانے‘‘ کے عنوان سے آج کی کتابیں نامی اشاعتی ادارہ کراچی پاکستان سے ۲۰۰۱ ء میں شائع کیا تھا۔ مجموعے میں شامل پانچوں افسانوں کی ترتیب ہوں ہے:
(۱) غالب افسانہ
(۲) سوار
(۳) ان صحبتوں میں آخر
(۴) آفتاب زمیں
(۵) لاہور کا ایک واقعہ
یہاں فاروقی کی فکشن نگاری کا جائزہ لینے سے پہلے کسی قدر اختصار کے ساتھ ان کے افسانوں کا خلاصہ پیش کیا جائے گا تاکہ ان کے افسانوں کے تمام تر فنی لوازمات سے بخوبی واقفیت ہو سکے۔
(۱) غالب افسانہ
جیسا کہ افسانے کے عنوان سے ظاہر ہے کہ اس افسانے کا موضوع اردو فارسی کے مشہور شاعر، مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ عرف میرزا نوشہ استاد تاجدار ہند شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کے حالات و کردار اور ان کے عہد کی زبان و تہذیب کا تذکرہ ہے۔ افسانہ کا خیالی کردار، بینی مادھو رسوا اس افسانے کا راوی ہے جو از اول تا آخر صیغۂ واحد متکلم میں کہانی بیان کرتا ہے۔
افسانے کے آغاز میں رسواؔ اپنا اور اپنے آباواجداد کا تعارف پیش کرتا ہے۔ رسواؔ اپنے راجپوت والدین کی اکلوتی اولاد ہے۔ اس کے دادا بھوانی سنگھ اسلحہ باز تھے باپ کا زمانہ آتے آتے ان کا پیشہ اسلحہ بازی کے بجائے اسلحہ سازی ہوگیا۔ رسوا کی پیدائش ۱۸۴۰ء میں ہوئی اور دس برس کی عمر میں اعظم گڑھ کے ویزلی اسکول میں انگریزی پڑھنے لگا لیکن اسکول کے ایک کرسچین ماسٹر بار بار یہ کہتے کہ ہندی ہندوؤں کی زبان ہے اور اردو مسلمانوں کی زبان ہے اور اسے ریختہ بھی کہتے ہیں۔ عیسائیوں کی اس بدعنوانی کو دیکھ کر رسوا کے والد نے اسے اسکول جانا بند کرادیا۔
رسواؔ کو شاعر بننے کی دھن تھی۔ ایک دن کچھ شعر گنگنارہا تھا کہ اس کے والد نے سن لیا اور ناراض ہوکر اس کے دادا بھوانی سنگھ سے شکایت کردی۔ بھوانی سنگھ نے مسکراکر کہا ’’تو کیا ہوا؟ شرفا کے کاموں میں سے ایک کام یہ بھی ہے اسے کچھ نہ کہو۔ ہماری ایک ہی تو اولاد ہے۔‘‘ ایک دن بھوانی سنگھ کو معلوم ہوا کہ تفضل حسین خاں کے دادا استاد ملا محمد عمر سابق بنارسی کے ایک پوتے مولوی خادم حسین ناظم ہمارے تحصیل کے صدر مقام محمد آباد میں منصف ہوکر آئے ہیں۔ دادا نے کہا کہ استاد کے بغیر شاعری ممکن نہیں چلو پوتے کو انہیں کا شاگرد بنوادوں۔ ناظمؔ صاحب نے نہ صرف اپنا شاگرد ہی بنایا بلکہ رسواؔ تخلص بھی تجویز کیا۔
۱۸۵۶ء کا سال رسوا کے خاندان پر کچھ عجیب گزرا۔ دادا جان ۸۶برس کی عمر میں چل بسے۔ ۱۸۵۷ء کی بغاوت سراٹھانے لگی تھی۔ حالات کو بگڑتا دیکھ کر رسواؔ کو اس کے ماموں کے پاس شاہ جہاں پور بھیج دیا گیا لیکن رسواؔ وہاں سے بھاگ کر اعظم گڑھ پہنچا تو خبر ملی کہ اس کے والد قتل کردیے گئے اور والدہ کنویں میں کود گئیں۔ اس کس مپرسی کے عالم میں رسواؔ کے بچپن کا کمہار دوست اس کے بہت کام آیا اور اپنے گھر میں پناہ بھی دی اور روٹی بھی۔ اسی زمانے میں رسواؔ نے کا نپور میں انگریزوں کے توپ اور بندوق بنانے کے کارخانے میں فورمین کی ملازمت کرلی اور یہیں پر کرایے کے مکان میں رہنے لگا۔ اسے میرزا اسداللہ خاں غالبؔ سے ملنے کی تمنا تھی۔
مئی ۱۸۶۲ء میں رسواؔ کو نظامی پریس کانپور کے مالک مولوی عبدالرحمٰن صاحب مل گئے۔ انہوں نے یہ خوش خبری دی کہ میں نے تمہارے مرزا کا مکمل کلام ریختہ چھاپ دیا ہے۔ یہ کہہ کر انہوں نے رسواؔ کے سامنے ایک پتلی سی کتاب رکھ دی۔ کتاب خریدنے کے بعد رسواؔ میرزا نوشہ سے ملنے کے منصوبے بنانے لگا۔ ایک دن پریڈ محلہ میں رسواؔ نے دیکھا کہ ایک عیسائی پادری کی لکھی ہوئی کتاب پر لوگ آ آکر اس سے دستخط کرواتے ہیں اور اپنی محبت و عقیدت کا ثبوت دیتے ہیں۔ رسواؔ نے بھی چمن گنج میں واقع نظامی پریس جاکر فی کاپی آٹھ آنے کے حساب سے پچیس نسخے مرزا صاحب کے کلام کے خریدے ان پر جلد چڑھوائی۔ نومبر ۱۸۶۲ء کو دلی پہنچا۔ ایک سرا میں اترا۔ دوسرے دن ڈھونڈتا ڈھونڈتا کالے صاحب کی حویلی پہنچ کر مرزا صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہاں مرزا کے عزیز شاگرد نیر درخشاں اور منشی شیونرائن آرام موجود تھے۔ مرزا غالب رسوا سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ بڑی خاطر مدارت کی۔ دوسرے دن رسوا نے پھر حاضری دی اور میرزا صاحب کی کتابوں پر ان کے دستخط لینے میں کامیاب ہوگیا۔ جتنے دن بھی رسوا دہلی میں رہا قبلہ مرزا صاحب کی خدمت میں حاضریاں دیتا رہا اور ان سے زبان و بیان علی الخصوص فارسی کی اہمیت پر خوب خوب سوالات کرکے استفادہ کرتا رہا۔ بالآخر چونکہ کانپور میں رسوا کی ملازمت تھی لہٰذا بادلِ ناخواہ مرزا صاحب سے اجازت لے کر رخصت ہوگیا۔ پہلی فروری ۱۸۶۹ء کو رسواؔ نے اودھ اخبار میں پڑھا کہ بلبلِ ہند، نجم الدولہ دبیر الملک میرزا اسداللہ خاں غالبؔ مالک حقیقی سے جاملے۔ رسواؔ نے سرد آہ بھری اور چپ ہوگیا۔
(۲) سوار
’’سوار‘‘ شمس الرحمٰن فاروقی کا تحریر کردہ ایک ایسا افسانہ ہے جو شروع سے آخر تک پراسرار واقعات، روحانیت اور عقیدت کا مرقع ہے۔ اس کا آغاز ایک دینی مکتب سے ہوتا ہے جہاں کہانی کا مرکزی کردار مولوی خیرالدین زیر تعلیم ہے۔ خیرالدین ایک نوخیز مگر سنجیدہ، ذمہ دار اور بالغ النظر انسان ہے۔ وہ دہلی شہر کا باشندہ ہے۔ ہر ہفتہ وہ اپنی ضعیف ماں اور بھولی بھالی کم سن بہن ستی بیگم سے ملاقات کے لیے گھر جاتا ہے۔ ایک دن گھر پہنچا تو اسے بہن نے ایک عجیب و غریب بات بتائی کہ کل کوئی خنگ سوار ہمارے محلے کے راستے سے گزریں گے۔ کہتے ہیں کہ وہ کوئی پہنچے ہوئے بزرگ ہیں۔ اگر کوئی ان کا راستہ روک لے اور ان سے کوئی سوال کرے تو وہ اسے منھ مانگی مراد بخش دیتے ہیں۔ سوار کا ذکر سن کر مولوی خیرالدین کو یاد آیا کہ حالانکہ میں شاعر نہیں ہوں لیکن نجانے کیوں مدرسہ میں میرے ذہن میں یہ مصرعہ کہاں سے آیا تھا۔
سوار دولت جاوید بر گذار آمد
خیرالدین چھوٹی بہن کی باتوں کو ہنسی مذاق میں ٹال دیتا ہے لیکن اس کے ضد کرنے پر کہتا ہے کہ اچھا میں تجھے کل بقاء اللہ کی حویلی تک لے چلوں گا تاکہ تو خنگ سوار کی زیارت کرسکے۔ اس گفتگو کے دوران خیرالدین کا مصرعہ شعر میں ڈھل گیا،
سوار دولت جاوید برگذار آمد
عنان اور نگر فتند از گذار برفت
دوسرے دن وہ پراسرار سوار ان کے محلے سے گزرا۔ لوگ ساکت و صامت ہوگئے سوار گزرگیا۔ ستی بیگم کو وہ نقاب پوش خاتون نظرآیا۔ خیرالدین نے اسے مرد کے روپ میں دیکھا۔ نجانے سوار کی برکت تھی یا اللہ کی خاص عنایت کہ بقاء اللہ ابن مولوی صفی اللہ کی طرف سے ستی بیگم کی شادی کا پیغام آیا۔ مکتب میں دستار بندی کے بعد خیرالدین کو مدرسۂ غازی الدین فیروز جنگ میں ۵/اکتوبر ۱۷۶۴ء کو مدرسی مل گئی اور ستی بیگم کا بقاء اللہ سے عقد بھی ہوگیا۔ بقاء اللہ، رمل اور جفر میں مہارت رکھتا تھا۔ خیرالدین ایک دن دیوان غنی کا شمیری کی تلاش میں جامع مسجد پہنچا۔ وہاں اس کی ملاقات ایک وجیہ و شکیل نوجوان بدھ سنگھ قلندر سے ہوئی جس نے مولوی خیر الدین سے کچھ پہلے ہی دیوانِ غنی کاشمیری کا واحد نسخہ منہ مانگے داموں میں خریدلیا تھا۔ کتب فروش نے دونوں میں معرفی کروادی۔ تب پتہ چلا کہ قلندر، مرزا مظہر جانِ جاناں کا شاگرد ہے۔ قلندر شاعری کے علاوہ تصوف اور جوگ کی طرف بھی مائل تھا۔ دونوں دربارِ مظہری کی طرف چلے۔ قلندر نے کہا کہ آپ میری طرف سے یہ نسخہ دیوانِ غنی بطور نذرانہ پیش فرمادیجیے گا۔ مجھے تھوڑی عربی پڑھا دیجیے، حساب برابر۔ دونوں مظہر جانِ جاناں کے یہاں پہنچے اور وہاں کے واقعات کا مشاہدہ کیا۔ واپسی کے بعد ہر جمعہ کو قلندر، عربی پڑھنے مولوی خیرالدین کے پاس آتے رہے۔ ایک دن قلندر غائب ہوگئے۔ مولوی خیرالدین ایک کوٹھے والی عورت عصمت جہاں پر مرمٹے لیکن پھر اس کا خیال چھوڑ دیا اور اپنا تخلص عصمت رکھ کر شاعری شروع کردی۔ والدہ کے انتقال کے بعد بھی شادی نہیں کی۔ اس طرح خیرالدین کی زندگی تباہ ہوگئی۔
(۳) ان صحبتوں میں آخر
غالباً اس افسانے کا موضوع فاروقی کو خداے سخن میرتقی میرؔ کے اس شعر سے سوجھا ہو گا جو انہوں نے سرنامے پر نقل کیا ہے،
ان صحبتوں میں آخر، جانیں ہی جاتیاں ہیں
نَے عشق کو ہے صرفہ، نَے حسن کو محابا
اس قصہ میں مرکزی حیثیت لبیبہ خانم، زہرہ مصری، بایزید شوقی، نورالسعادہ، رائے کشن چند اخلاص، اعتماد الدولہ اور میر تقی میر کی ہے۔ لبیبہ کے آباواجداد یہودی النسل تھے اور ان کا وطن بلقان تھا۔ وہ عربی، فارسی، عبرانی، ترکی، چرکسی اور بوسینیائی زبانیں جانتے اور بولتے تھے، کئی گھرانے سے اپنا رشتۂ نسب ذئب بن صالح سے باندھتے تھے۔ اب وہ خود کو عرب یا ایرانی سمجھنے لگے تھے۔ لبیبہ خانم کے اجداد کی شکلوں پر ایرانی صباحت کے تیکھے پن کی بھی جلوہ ریزی تھی۔ زندگی کے سرد و گرم اور پے درپے زلزلوں نے اس خاندان کو لگ بھگ مٹاکر رکھ د یا تھا۔ اب سارے گھرانے میں صرف لبیبہ کا باپ عمانوئیل بن افراہیم، اس کی ایک دور کی بہن نعومیہ اور لبیبہ کے سوا کوئی نہ رہ گیا تھا۔
لبیبہ کوئی چاربرس کی تھی۔ نعومیہ گونگی اور بہری تھی۔ عمانوئیل افیونی بن گیا وہ کسی کام کاج کے قابل ہی نہ رہا۔ آخر کار عمانوئیل اور نعومیہ بھوک اور سردی سے اکڑ کر مرگئے۔ عمانویئل نے جو زیور اور مکان گروی رکھا تھا ان پر قرض خواہوں نے قبضہ کرلیا۔ ایک شخص نے جس کا زر نقد نکلتا تھا پانچ برس کی لبیبہ کو ایک رقاصہ زہرہ مصری کے ہاتھوں فروخت کرکے حساب برابر کرلیا۔ نائکہ زہرہ مصری کے اشاروں کے باوجود لبیبہ خانم کسی مرد کو گھاس نہ ڈالتی تھی پھر بھی اس کی بدولت زہرہ مصری کے گھر میں ہن برسنے لگا۔
لبیبہ خانم کے پروانوں میں ایک اضافہ اور ہوا۔ وہ ایک نیم ایرانی، نیم چرکسی نوجوان شاعر اور مطرب تھا جو ایک سمرقندی طائفے کے ساتھ شہر شہر گھومتا اور حافظ یا مولانا روم کی غزلیں گایا کرتا تھا۔ رسیلی آواز والے اس نوجوان کا نام بایزید شوقی تھا۔ کافی دنوں تک شوقی، لبیبہ خانم کے شہر ننخوان میں رہا۔ ایک دن دونوں نے چپکے سے نکاح کرلیا اور زہرہ مصری کے گھر سے بھاگ نکلے۔ بہ ہزار خرابی وہ دونوں تبریز پہنچے۔ اگرچہ لبیبہ خانم کے پاس کافی نقدی اور زیور تھا لیکن شوقی نے چند امیرزادوں کی اتالیقی اختیار کرلی۔ ۱۰/جنوری ۱۷۳۱ء کو لبیبہ خانم کے یہاں ایک بچی پیدا ہوئی جس کا نام نورالسعادۃ رکھا گیا۔ شوقی نے بڑے دکھ کے ساتھ لبیبہ کو یہ خبر سنائی کہ اسے دق کی بیماری ہے۔ آخرکار شوقی کا انتقال ہوگیا۔ نورالسعادۃ بھی باپ کے اثر سے آئے دن نزلہ زکام میں مبتلا ہوجاتی تھی۔ تبریز کے سرد موسم سے بچنے کے لیے ستمبر ۱۷۳۲ء میں لبیبہ خانم بچی کو لے کر اصفہان چلی گئی۔ اب لبیبہ خانم کی زندگی میں ایک نیاموڑ آگیا۔ وہاں بھی اس کے چاہنے والوں کا ایک گروہ پیدا ہوگیا۔ نورالسعادۃ کی صحت سنبھلنے لگی اور اس کی طبیعت کے جوہر کھلنے لگے۔
ایک دن لبیبہ خانم کو یہ خبر ملی کہ اعتماد الدولہ نواب قمرالدین خاں بہادر نصرت جنگ وزیر شہنشاہ ہند کا ایلچی دہلی سے آیا ہے اور وہ کل بہ وقت شام آداب اور نامۂ وزیر پیش کرنے کے لیے حاضر ہونا چاہتا ہے۔ دوسرے دن رائے کشن چند اخلاصؔ وقت مقررہ پر حاضر ہوئے اور لبیبہ خانم کے شاہانہ کروفر دیکھ کر دنگ رہ گئے۔
سفر دہلی کے دوران نورالسعادۃ نے میرتقی میر کے کلام کی خوب تعریف کی اور ان سے ملاقات کا دلی اشتیاق ظاہر کیا۔ دہلی میں لبیبہ خانم کا نام، خانم بزرگ اور نورالسعادۃ کا نام نور خانم رکھ دیا گیا۔ اسی دوران اعتماد الدولہ کے محافظ نے میرتقی میر کو پہچان لیا۔ محافظ کا نام علیم اللہ خان تھا۔ علیم اللہ خاں نے وعدہ کیا کہ وہ میر کو نواب رعایت خاں کی مدد سے مناسب ملازمت دلا دے گا۔ ملازمت مل گئی۔ اعتماد الدولہ کی بیٹی کی بارات میں میرتقی میر کی نگاہ نور خانم پر پڑگئی اور وہ ہزار جان اس پر فدا ہوگئے۔ میر تقی میر اور کشن چند اخلاص میں کسی قدر آویزش ہوگئی۔ میر نورالسعادۃ کا دم بھرنے لگے اور اخلاص لبیبہ خانم پر مرمٹے۔ ادھر نواب اعتماد الدولہ نے ماں بیٹی کو آزاد کردیا کہ جہاں چاہیں رہیں، جس سے چاہیں ملیں۔ رومانی مناظر کے بعد ماں بیٹی تبریز کی طرف مراجعت کرتی ہیں۔ راستے میں نورالسعادۃ کا انتقال ہوجاتا ہے اور لبیبہ خانم لاپتہ ہوجاتی ہے۔
(۴) آفتاب زمیں
اس افسانے کا عنوان مصنف نے اردو کے مشہور استاد شاعر غلام ہمدانی مصحفی کے مندرجہ ذیل شعر کی بنیاد پر قائم کیا ہے،
آفتاب زمیں ہوں میں، لیکن
مجھ سے روشن ہے آسمان سخن
(دیوان نہم)
آفتاب زمیں کا خلاصہ یہ ہے کہ کہانی کے راوی درباری مل وفا کے والد آنجہانی لالہ کانجی لال مل صبا (جو لکھنؤ میں چاندی والے کے نام سے مشہور تھے) شیخ غلام ہمدانی مصحفی کے بہت عزیز شاگرد تھے۔ صبا کی خاتون خانہ یعنی وفا کی ماں، اپنے آپ کو مصحفی کی بیٹی مانتی تھی۔ صبا ایک حادثے کے شکار ہوجانے کے نتیجے میں چل بسے۔ وفا اس وقت بہت چھوٹے تھے۔ و فا کے ایک منھ بولے ماموں لالہ اجے چند جن کا قیام دہلی میں تھا۔ پُرسے کے لیے وہ بھی لکھنؤ آئے صبا اور اجے چند میں بڑی گہری عقیدت تھی۔ صبا کی بیوہ نے تمام مال و کاروبار اجے چند کے سپرد کیا اور وفا کو ساتھ لے کر اپنے میکے عظیم آباد چلی گئیں۔ کچھ دنوں تک زندگی گزار کر وہ بھی چل بسیں۔ اب وفا جوان ہوچکے تھے۔ اپنی سورگ واسی ماں کی زبانی وفا نے سنا تھا کہ ان کے والد صاحب شیخ غلام ہمدانی مصحفی کے شاگرد تھے۔ مصحفی بھی اللہ کو پیارے ہوچکے تھے لیکن وفا کے دل میں ان کے لیے بڑی عقیدت تھی۔
وفا کا جی چاہا کہ لکھنؤ جاکر پڑھے لکھے اور شاعری میں خواجہ حیدرعلی آتش کا شاگرد بن جائے۔ انہوں نے اپنے ماموں لالہ اجے چند کو خط لکھا۔ جواب آیا کہ تم فوراً لکھنؤ آجاؤ۔ یہ تمہارا گھر ہے۔ وفا لکھنؤ پہنچے تو ماموں نے امید سے زیادہ خاطر مدارت کی اور سارا کاروبار وفا کو لوٹا دیا۔ اس خوش نصیبی پر وفا کو بڑی حیرت ہوئی۔
لکھنؤ میں مستقل قیام کے بعد وفا نے سوچا کہ وہ مصحفی کی بیوہ سے ملے چنانچہ کافی تحفے تحائف لے کر وہ مصحفی کی قدیم قیام گاہ تک پہنچا۔ وہاں ایک مخبوط الحواس بوڑھے نے بڑی بدزبانی کی اور یہ کہتے ہوئے وفا کو دھتکار دیا کہ میں نے مصحفی کی نام نہاد گھروالی کو (جو دراصل ایک کوٹھے پر بیٹھنے والی عورت تھی) اس کے گھر سے نکال دیا اب تم بھی جاؤ، پھر کبھی نہ آنا۔ وہاں سے لوٹ کر وفا دوسرے محفلوں کی طرف چل پڑا۔ آخرکار ایک شخص کی رہنمائی سے وہ اصل مکان تک پہنچ سکا۔ استاد مصحفی کی بیوہ، حیات النسا عرف بھورا بیگم سے ملاقات ہوئی۔ وفا کی مہذب اور محبت بھری باتوں نے بھورا بیگم کا دل جیت لیا۔ اس کے بعد کئی مرتبہ وفا ان کے گھر گیا اور استاد مصحفی کے بارے میں کافی مواد فراہم کیا۔ ایک روز ایسا ہوا کہ مصحفی کی حسن پرستی کا ذکر نکل آیا۔ گستاخی سمجھتے ہوئے وفا نے اس موضوع پر گفتگو نہ کی بلکہ استانی صاحبہ (بھورابیگم) کی زبانی اس قصے کو سنا۔
یوں ہوا کہ ایک مرتبہ مصحفی نے شہر دلی مشہور مغنیہ اور ادا فروش عصمت جہاں کو دیکھ لیا اور وہ اس پر عاشق ہوگئے۔ عصمت جہاں نے ان کی گفتگو اور اشعار سن کر ان پر لطف و کرم کی بارش کردی۔ مصحفی چاہتے تھے کہ عصمت جہاں کے جملہ حقوق صرف انہیں کے نام محفوظ رہیں جب کہ وہ دولت مندوں کا کھلونا تھی۔ اس بات پر بگڑ کر مصحفی نے ایک ہجویہ رباعی کہی جسے پڑھ کر عصمت جہاں آگ بگولہ ہوگئی اور مصحفی سے صاف صاف کہہ دیا کہ اب وہ اس سے ملنے کی کوشش نہ کریں۔ مصحفی اس بے عزتی کو برداشت نہ کرسکے۔ پھر انہوں نے عصمت جہاں کو مختلف طریقوں سے منانے کی کوشش کی لیکن اس کی بے نیازی اپنی جگہ پر قائم رہی۔
ایک دن وفا نے استانی سے پوچھا کہ استاد مصحفی اور سید انشا میں کس قسم کے تعلقات تھے؟ موصوفہ نے حسب استطاعت جواب دیے۔ انہیں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مصحفی انگریزوں سے دلی نفرت کرتے تھے۔ لکھنؤ میں دو بار ہیضہ کی وبا پھیلی۔ پہلی بار بھورا بیگم شکار ہوئیں اور دوسری بار درباری مل وفا کا انتقال ہوگیا جس نے بھورا بیگم کے دیے ہوئے صندوقچہ کو سینے سے لگا رکھا تھا۔
(۵) لاہور کا ایک واقعہ
اس افسانے میں مصنف کا نام عمر شیخ مرزا ہے جو کہانی کا راوی بھی ہے۔ کہانی واحد متکلم کے طرز پر لکھی گئی ہے۔
اس قصے میں راوی اپنا بیان ۱۹۳۷ء سے شروع کرتا ہے جب وہ لاہور شہر میں رہتا تھا۔ پیشے سے وہ ایک کامیاب ریلوے انجینئر تھا اور مشہور شاعر علامہ اقبال سے ملاقات کرنے کے لیے کوشاں تھا۔ راوی کا بیان ہے کہ میرے پاس اس زمانے میں ہلکے بادامی رنگ کی Ambassador Car تھی۔ میں کار ڈرائیور کرتا ہوا میکلوڈ روڈ پہنچ گیا جہاں علامہ کا بنگلہ تھا۔ ان کے بنگلے کی طرف جانے والی سڑک کافی گرد آلود تھی۔ میں نے گاڑی سڑک کے کنارے لگادی۔ فٹ پاتھ پر پان فروشوں کی گمٹھیاں تھیں جہاں نوجوانوں اور بے فکروں کا مجمع تھا۔ ابھی میں گاڑی میں تالا لگا ہی رہا تھا کہ اچانک سڑک پار کرکے پانچ سات نوعمر لڑکے میری طرف لپکے جیسے وہ بھیک منگے ہوں۔ ان کے ساتھ ایک دبلا پتلا منحوس صورت شخص بھی تھا جو شاید ان لڑکوں کا استاد تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ وہ لڑکے بھیک منگے نہیں بلکہ کسی قسم کے پیشہ ور تھے۔ ان سے دامن چھڑاتا ہوا میں علامہ کے بنگلے کے پھاٹک میں داخل ہوگیا۔ گھنٹی بجانے پر ایک بڑے میاں باہر نکلے اور مجھے ایک گول ملاقاتی کمرے میں لے جاکر بٹھا دیا۔ ملاقات ہونے پر علامہ بڑی شفقت سے پیش آئے۔ ملاقات کرکے باہر آیا تو میں نے دیکھا کہ Drive Way میں سرمئی رنگ کی ایک پرانی سی Austin A-40 کھڑی تھی۔ میں نے سنا تھا کہ ان دنو ں علامہ اقبال کے پاس ایک بڑی سی Ford تھی۔ خیر کوئی ملنے آیا ہوگا، میں نے سوچا۔ باہر آکر دیکھا تو کئی آوارہ لڑکے موجود تھے اور میری کار کو ڈھکیل کر اس کا رخ مخالف سمت میں کردیا تھا اور یہ آوارہ لڑکے مجھ سے چمٹ گئے۔ ایک لمبا دبلا شخص جو خاکی مائل ملگجے پیلے رنگ کی لمبی قمیض او راسی رنگ کی شلوار پہنے تھا مجھ پر جھپٹا۔ میں نے اسے ٹھوکر لگائی اور وہ فٹ پاتھ کے نیچے گہری نالی میں جاگرا۔ میں نے جھٹ سے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر اسے اسٹارٹ کیا۔ گاڑی آگے نہ بڑھی۔ پیچھے سے لونڈے اسے کھینچ رہے تھے۔ مجھے کبیر داس کا مصرعہ یاد آیا ’خالی شہر ڈراؤنا کھڑا تھا چاروں اُور‘۔
گاڑی روک کر میں اترا اور تیزی سے ایک کوٹھی میں داخل ہوگیا ایک نیم وا کمرہ تھا جس میں گھس کر میں نے دروازہ بند کرلیا اور کنڈی چڑھالی۔ روشنی جلائی تو وہ باتھ روم تھا۔ پیشاب کرنے کی کوشش کی تو کوئی دروازہ پیٹنے لگا۔ ایک دروازہ اور تھا اسے کھول کر میں دوسری طرح نکل گیا جو قدرے محفوظ تھا۔ اب ایک اور کمرے میں پہنچ گیا جہاں کئی خواتین تھیں۔ میں نے ایک ادھیڑ خاتون کو دیکھا اور سلام کیا۔ اس نے مجھے حیرت سے دیکھا پھر ڈانٹ کر بھگانے کی کوشش کی۔ دروازہ کھلا تھا اچانک پیلی ملگجی قمیض والا شخص اندر داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں پستول تھی۔ پچھلے دروازے سے ایک سیاہ رنگ کی چیز باہر نکلی اور آنگن میں گردباد کی طرح قائم ہوگئی خواتن مع اس پستول والے کے بے ہوش ہوگئے۔ موقع کو غنیمت جان کر میں پھرتی سے کوٹھی کے باہر نکل آیا، دی کھا تو میری کار غائب تھی۔ میں گھبراکر ایک تانگے میں سوار ہوگیا اور مغل پورہ ریلوے اسٹیشن جاپہنچا۔ ٹکٹ خرید کر پٹھان کوٹ ا یکسپریس میں سوار ہوگیا۔ حالاں کہ پٹھان کوٹ میں میرا کوئی شناسا نہ تھا۔ اب نہ وہ ملگجی قمیض والا تھا اور نہ وہ گردباد۔
اوپر میں نے جو کچھ لکھا ہے اسے میرے ایک دوست نے پڑھ کر کہا،
(۱) تم نے کہا تھا کہ اپنی خودنوشت میں کچھ جھوٹ نہیں لکھوں گا لیکن تمہارے بیانات سراسر جھوٹ ہیں۔
(۲) تم کہتے ہو کہ اس زمانے میں تمہارے پاس امبیسڈر کار تھی لیکن میاں یہ کار تقسیم ہند کے بعد ۱۹۷۵ء میں Birla نے پہلے پہل بنائی تھی۔
(۳) ۱۹۳۷ء میں علامہ میکلوڈ روڈ پر کہاں رہتے تھے۔ ۱۹۳۶ء کے اکتوبر میں میوروڈ پر جاوید منزل میں منتقل ہوگئے تھے۔
(۴) اس وقت علامہ کی آواز بالکل بیٹھ گئی تھی۔
(۵) واقعہ کے معنی خواب اور موت بھی ہیں۔
(۶) جو مصرعہ کبیر داس کے نام سے نقل کیا ہے وہ دراصل منیر نیازی کا ہے۔ 1
چلو اچھا ہوا تم نے اپنی خودنوشت میں ایک افسانہ بھی ڈال دیا ہے۔
سب افسانے سچے ہوتے ہیں۔ سب افسانے سچے ہوتے ہیں۔ میں چیخ کر بولا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
جن پانچ افسانوں کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے وہ کم و بیش اپنے اپنے موضوع کے اعتبار سے اچھے، نئے اور متاثرکن ہیں اور ہماری حقیقی زندگی سے بہت قریب ہیں۔ مرزا اسد اللہ خاں غالب، مرزا مظہر جانِ جاناں، بدھ سنگھ قلندر، رائے کشن چند اخلاصؔ، نواب قمرالدین خاں اعتماد الدولہ نصرت جنگ بہادر، مرزا عبدالقادر، سراج الدین خاں آرزوؔ، میرتقی میر، شیخ غلام ہمدانی مصحفی، آتشؔ اور اقبالؔ وغیرہ سبھی ہمارے جانے مانے کردار ہیں۔ البتہ ان کے اردگرد کچھ غیرمعروف اور گمنام کرداروں سے بھی کام لیا گیا ہے۔
ایک بات اور ہے وہ یہ کہ افسانے کا کوئی بندھا ٹکا موضوع نہیں ہوتا۔ دنیا اور انسانی زندگی سے متعلق کوئی بھی واقعہ، جذبہ، احساس، تجربہ اور مشاہدہ افسانے کا موضوع بن سکتا ہے جیسا کہ ہم نے فاروقی کے مذکورہ افسانوں کو پڑھتے وقت محسوس کیا مثلاً بینی مادھو رسوا کا غالبؔ کے انتخاب کلام کے نسخوں پر خود ان کے دستخط لینا، یا مولوی خیرالدین کا شاعر نہ ہونے کے باوجود ایک مصرع کہہ دینا اور بعد میں اس مصرع کا حقیقت بن جانا۔ میر تقی میرؔ کا نورالسعادۃ نامی خانہ بدوش سے عشق۔ مصحفی کی منکوحہ بھورا بیگم کے سوانحی حالات اور علامہ اقبال کی کوٹھی کے واقعات۔ یہ سب بیانات افسانوی ہوکر بھی موضوع افسانہ بن جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر افسانے کا موضوع بڑی چابک دستی سے ماضی کو حال اور مستقبل میں بدلنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ شاید اسی لیے ’’موضوع‘‘ کو افسانے کی روح کہا جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ افسانہ نویس یا فکشن نگار جب ہاتھ میں قلم لیتا ہے تو بڑی احتیاط کا مظاہرہ کرتا ہے۔ وہ اس راز سے بخوبی واقف ہوتا ہے کہ افسانے کا موضوع کردار، پلاٹ، زمان و مکاں، وحدت تاثر اور دیگر تمام فنی اجزا کے باعث ہی روشن ہو پاتا ہے اور یہ تمام فنی اجزا افسانہ کو آپس میں مربوط اور متاثر کرتے ہیں۔
صنف افسانہ میں موضوع کے انتخاب کے بعد جو چیز اہمیت رکھتی ہے وہ پلاٹ یعنی کہانی کا ڈھانچہ ہے جس میں کہانی کار اپنی سوجھ بوجھ اور مرضی کے مطابق رنگ بھرتا ہے۔ پلاٹ بجائے خود مکمل کہانی بننے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ دراصل افسانے کے موضوع یا Theme کی پھیلی ہوئی شکل کو پلاٹ کا نام دیا جاسکتا ہے۔ پلاٹ کو وجود میں لانے کا مقصد صرف یہی ہے کہ کسی واقعے کے بیان میں مصنوعی طریقوں پر کسی قدر چاشنی پیدا کی جاسکے۔ فن کے لیے مبالغہ ضروری امر ہے لہٰذا کسی معمولی واقعے کو قدرے پھیلا کر بیان کیے بغیر افسانہ، افسانہ نہیں بنتا بلکہ وہ محض واقعہ نگاری کے ذیل میں آتا ہے۔ بیانیہ میں کسی قدر کش مکش نہ پیدا کی جائے اور مکھی پر مکھی نہ بٹھا دی جائے تو افسانہ کامیاب افسانہ نہیں بن پاتا۔
مثال کے طور پر دیکھیے کہ بینی مادھو رسوا پہلی بار مرزا غالب سے ملاقات کے لیے گئے تو ان کی خدمت میں بطور نذر دو ریشمی لنگیاں اور دو ریشمی پگڑیاں پیش کیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مرزا غالب اظہار تشکر کرتے اور چپ ہوجاتے لیکن انہوں نے فرمایا،
’’بہت خوب، بہت خوب! مجھے عمامے میں سرخ رنگ بالکل پسند نہیں۔ اچھا ہوا کہ ان عماموں میں کوئی بھی سرخ دھاگہ نہیں ہے۔ میں نے جھک کر تسلیم کی۔‘‘ 2
پلاٹ کی مدد سے ہم واقعاتی افسانے بھی لکھ سکتے ہیں اس قول کی صداقت کا علم ہمیں ایک دینی مدرسہ کے سنجیدہ طالب علم مولوی خیرالدین اور ایک صوفی شاعر بدھ سنگھ قلندر کی پہلی ملاقات سے ہوسکتا ہے جو دہلی کے قدیم اردو بازار میں ہوئی تھی،
’’ایک دوکان پر کھڑا وہ (قلندر) کوئی کتاب دیکھ رہا تھا۔ میں نے نزدیک جاکر دیکھا، غنی کاشمیری کے دیوان کا مطلاّ نسخہ تھا۔ اجنبی چابک سوار نے دیوان غنی کی منہ مانگی قیمت شاید ساڑھے آٹھ روپے دے دی اور رخصت ہونے کے لیے مڑا۔ میراشناسا کتاب فروش اس کی طرف اشارہ کرکے بولا مولوی صاحب آپ انہیں نہیں جانتے اس نے کہا بندگی عرض کرتا ہوں خاکسار کو بدھ سنگھ قلندر کہتے ہیں۔‘‘ 3
بعض افسانہ نگاروں میں شدت احساس کی فراوانی ہوتی ہے اور وہ اس شدت احساس کو اپنی خداداد لیاقت سے رنگینی تخیل اور بلند پروازی کے سانچے میں ڈھال سکتے ہیں اور کبھی کبھی افسانے میں پلاٹ کی کارفرمائی یوں بھی ہوتی ہے کہ افسانہ نگار ایک ذہنی خیال، انوکھے تصور یا شاعرانہ جذبے کو مادی شکل میں پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ افسانے کا یہ اقتباس دیکھیے،
’’نورالسعادۃ نے اپنی نظریں میرؔ کے چہرے پر گاڑدیں اور کہنے لگی ’’مجھے رسوا ہونا ہے۔ میں تنہائی کی موت مروں گی۔ اور میری ماں۔۔۔ میری ماں مجھ سے آزردہ رہیں گی۔ میر نے کہا، تمہارے آسمان ناز پر رسوائی کے خفیف ترین بادل کا سایہ بھی نہ آنے پائے گا کہ میں تمہاری دنیا سے نکل جاؤں گا۔‘‘ میرؔ نے بالآخر سنبھل سنبھل کر کہنا شروع کیا۔ ’’اور تنہا تو تم کبھی ہو ہی نہیں سکتیں نور خانم! تم تو اپنے آپ میں خود مکمل ہو۔ تنہا نہ ہونے کے معنی یہ نہیں کہ عاشقوں کا ہجوم ہو۔ تنہا نہ ہونے کے معنی ہیں نفس مطمئنہ حاصل ہونا۔ اور وہ تمہیں شروع سے حاصل ہے اور ہمیشہ رہے گا۔‘‘ 4
فکشن کے ناقدین نے ایک اچھے پلاٹ کی پانچ خصوصیات بیان کی ہیں،
۱۔ سادگی، ۲۔ تھوڑا بہت تصنع، ۳۔ واقعات میں جدت، ۴۔ منتہا کی تیزی، ۵۔ دلچسپی۔ جب کسی افسانے میں نہایت ہنرمندی کے ساتھ مذکورہ خصوصیات کا لحاظ رکھا جاتا ہے اور انہیں بخوبی برتا جاتا ہے تو وحدت تاثر کی کیفیت پیدا ہوتی ہے جو بہرحال افسانے کی کامیابی کی ضامن ہوتی ہے۔
فاروقی کے تخلیق کردہ سبھی افسانوں میں شعوری اور لاشعوری طور پر پلاٹ اور اس کی پانچوں خصوصیات کا التزام ملتا ہے۔ مثلاً غالب افسانہ کا راوی، بینی مادھو سنگھ رسوا پہلے اپنا تعارف پیش کرتا ہے پھر اپنی تعلیم و تربیت اور زبان فارسی و ریختہ سے گہرے لگاؤ کی باتیں کرتا ہے۔ پھر اپنی شاعری اور گھر کی بربادی کا دکھ بھرا افسانہ سناکر کانپور ہوتے ہوئے دہلی جانے کا ذکر کرتا ہے تب کہیں غالب سے تعارف کی نوبت آتی ہے۔
واقعات میں جدت جو ایک اچھے پلاٹ کا بنیادی جزواعظم ہے جو فاروقی کے افسانوں میں بے انتہا پائی جاتی ہے۔ مثلاً ان کے افسانہ سوار میں جب مولوی خیرالدین ایک ہفتہ اپنے مدرسہ میں پڑھنے کے بعد گھر واپس آتے ہیں تو ان کی چھوٹی بہن ستی بیگم یہ خوش خبری سناتی ہے کل ایک خنگ سوار دہی کی مختلف سڑکوں سے گزریں گے۔ ان میں اتنی روحانیت ہے کہ جو کچھ مانگو وہ دے دیتے ہیں۔ خیرالدین پہلے تو بہن کی ضعیف الاعتقادی کا مذاق اڑاتے ہیں لیکن دوسرے دن خود بھی بہ صد اشتیاق استاد خیراللہ مہندس کی حویلی پہنچ گئے تو دیکھا،
’’دفعتاً ترکمان دروازے کی طرف سے ہلکا سا، عجیب سا شور اٹھا اور پھر خاموشی۔ میرے پاس کھڑے کچھ لوگوں نے زیرلب درود شریف پڑھنا شروع کردیا۔ وہ مدھم سا شور پھر اٹھا اور اس بار کچھ دیر تک رہا۔ بعض لوگ گردن بڑھا بڑھا کر ترکمان دروازے والے راستے کو دیکھنے کی کوشش کرتے۔۔۔ یہ شور کیسا تھا؟ کیا سب لوگ وہاں پر بلند آوازوں میں درود یا کوئی دعا پڑھ رہے تھے؟ کوئی نمودار ہوا بھی تھا کہ نہیں؟‘‘ 5
فن افسانہ نگاری میں پلاٹ کا ایک لازمی جزولاینفک اس کا اختتامیہ، منتہا یا (Climax) بھی ہوتا ہے۔ قاری کی دلچسپی اور تجسس کو قائم رکھنے کے لیے، افسانہ نگار ایک ایسا پلاٹ مرتب کرتا ہے کہ کہانی میں آغاز بھی ہو اور سوچا سمجھا انجام بھی۔ لیکن ضروری نہیں کہ ہر افسانے میں پلاٹ کے سبھی اجزائے ترکیبی منظم اور بالترتیب ہی ہوں۔ کچھ پلاٹ ایسے بھی ہماری نگاہوں سے گزرتے ہیں جن کے واقعات منفرد ہوتے ہوئے بھی قصے کو بااثر اور مکمل منتہا تک پہنچنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ ایسی مثالیں ہمیں اکثر طویل کہانیوں میں مل جاتی ہیں۔
’’ان صحبتوں میں آخر‘‘ فاروقی کا لکھا ہوا ایک ایسا ہی طویل افسانہ ہے جس میں ایک سے زیادہ مرکزی کردار ہیں۔ سب سے پہلے لبیبہ خانم اور اس کی مالکن رقاصہ زہرہ مصری، پھر لبیبہ خانم اور اس کا شوہر بایزید شوقی، پھر لبیبہ خانم اور اس کی اکلوتی بیٹی نورالسعادۃ، پھر اعتماد الدولہ نواب قمرالدین خاں بہادر نصرت جنگ وزیر الملک شہنشاہ ہند اور لبیبہ خانم اور پھر اعتماد الدولہ کے ایلچی رائے کشن چند اخلاص۔ ان سب کے وجود نے اپنے اپنے کردار کو انفرادی طور پر نباہا اور قصہ کے ارتقا میں حصہ لیا لیکن آخر آخر میں ہمیں خدائے سخن میرتقی میر، نورالسعادۃ عرف نور خانم سے بے پناہ عشق کرتے نظرآتے ہیں۔ قصے کی دلچسپی میں جہاں ایک طرف چبھتے ہوئے مکالمے ہیں وہیں فارسی اور اردو کے برجستہ اشعار بھی ہیں۔ خصوصیت کے ساتھ میر کے اشعار اور مثنویوں کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سبھی اشعار واقعاتی ہیں اور نورخانم کو مخاطب کرنے کے لیے ہیں۔ غور کیجیے تو یہ میر کے اشعار کی نئی اور بالکل نرالی توجیہ و تشریح ہے۔
بہرنوع ’’ان صحبتوں میں آخر‘‘ کا منتہا یوں ہے کہ لبیبہ خانم نے بغیر نائکہ زہرہ مصری کو مطلع کیے اس کا گھر چھوڑ دیا۔ بایزید شوقی نے لبیبہ خانم سے شادی کی جس سے نورالسعادۃ کی ولادت ہوئی۔ بایزید شوقی کے انتقال کے بعد لبیبہ خانم اور نورالسعادۃ، اخلاصؔ کی معیت میں دہلی پہنچ گئیں۔ اب ان کے نام خانم بزرگ اور نور خانم ہوگئے، رقص و سرود ان کا پیشہ ہوگیا۔ اعتماد الدولہ نے دونوں کو اپنے یہاں ملازم رکھنے کے بعد آزاد کردیا۔ اخلاص لبیبہ خانم کے عاشق بن گئے۔ میرتقی میر اخلاص کے بے تکلف دوست تھے وہ نورالسعادۃ پر مرمٹے۔ ماں بیٹی، دلی چھوڑ کر ایران واپس چلی گئیں۔ راستے میں بیمار ہوکر نورالسعادۃ کا انتقال ہوگیا اور لبیبہ خانم لاپتہ ہوگئی۔
اس طرح افسانہ اپنے منتہا تک پہنچتا ہے۔ قاری از اول تا آخر کہانی کی طرف متوجہ رہتا ہے اور قصہ کے اتار چڑھاؤ سے متاثر ہوتا ہے۔ میرے خیال میں یہی مصنف کا مقصد تھا جو آخرکار حاصل ہوکر رہا۔
افسانہ لکھتے وقت اس کی مناسب سرخی قائم کرنا بھی افسانہ نگار کا ایک اہم فریضہ ہے۔ سرخی کو ایک قسم کا اشتہار سمجھنا چاہیے جو قاری کو افسانہ خوانی پر مائل کرتا ہے۔ یہ اشتہار عموماً پڑھنے والے کی توقعات پر پورا اترتا ہے لیکن اکثر نہیں بھی اترتا۔ دراصل سرخی کو افسانے کی روح یا اس کے مرکزی خیال اور مقصد کی طرف اشارہ کرنے والا ہونا چاہیے۔ سرخی ایسی دورازکار بھی نہ ہو جس کو قاری نے کبھی نہ سنا ہو نہ پڑھا ہو۔ افسانے کی سرخی ایسی ہونی چاہیے کہ قاری کو سوچنے پر بھی مجبور کردے۔ اچھی سرخی کا کمال یہ ہے کہ جب ہم افسانے کو ختم کریں تو محسوس ہو کہ موجودہ سرخی بڑی حدتک افسانے کے لیے موزوں ترین سرخی ہے۔
مثال کے طور پر جب ہم شمس الرحمٰن فاروقی کے تخلیق کردہ افسانوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان افسانوں کی سرخی کے تعلق سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کے یہاں سرخیوں کا نظام عام روش سے مختلف ہے جیسے ان کے افسانوی مجموعے کا پہلا افسانہ ’’غالب افسانہ‘‘ ایک ایسا افسانہ ہے جسے ہم آسانی سے ’’رازآشکار‘‘ (Open Secret) کہہ سکتے ہیں۔ افسانے کی سرخی بذات خود آواز دیتی ہے کہ میرا بیانیہ تمام تر مرزا اسداللہ خاں غالب کی زندگی کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ یہ اور بات کہ فاروقی نے اپنے مطالعہ، فنی تجزیے اور زبان و بیان سے کام لیتے ہوئے واقعات میں رنگ آمیزی کی ہے اور حقیقت کو افسانہ بنادیا ہے۔
مجموعے کا دوسرا افسانہ ’’سوار‘‘ اگرچہ بنیادی اہمیت کا حامل اور مصنف کا شاید سب سے زیادہ پسندیدہ افسانہ ہے لیکن اس کی سرخی اور افسانے کے متن میں بظاہر کچھ زیادہ تال میل نظر نہیں آتا۔ بہت ممکن ہے کہ یہ میرے شعور قرأت و معاملہ فہمی کی نارسائی ہو۔ سوار کی کہانی قدیم دلی کے ایک دینی مکتب سے شروع ہوتی ہے جہاں قرآن و حدیث، تفسیر و منطق اور علم کلام کے علاوہ طب یونانی کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ یہ ایک اقامتی ادارہ ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ اس مکتب کے ایک طالب علم مولوی خیرالدین ہفتے کی چھٹی پر اپنے گھر پہنچے، جہاں ان کی چھوٹی بہن ستی بیگم اور والدہ ان کی آمد کی منتظر تھیں۔ ستی بیگم نے اپنے بھائی کو یہ خوش خبری دی کہ کل ادھر سے ایک نقاب پوش (خنگ سوار) گزریں گے۔ ان میں اتنی روحانیت ہے کہ ان کا راستہ روک کر جو بھی اپنا مدعا بیان کرے، وہ عطا کرتے ہیں۔ خیرالدین نے بہن کی باتوں پر توجہ نہیں کی البتہ دوسرے دن بہن کی ضد پر نقاب پوش سوار کی زیارت ضرور کی۔
اس تذکرہ کے بعد سوار کا کہیں حوالہ ہی نہیں ملتا بلکہ صوفی شاعر بدھ سنگھ قلندر اور اس کے پیر و مرشد مظہرجانِ جاناں کی تفصیلات ملتی ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر ان دو کہانیوں کو ملاکر فاروقی نے افسانے کا عنوان ’’سوار‘‘ کیوں قرار د یا؟ ممکن ہے کہ وہ قارئین کو حیرت و استعجاب (Suspense) میں مبتلا کرکے ان کی آتش اشتیاق کو بڑھانا چاہتے ہوں لیکن بہرحال اس سرخی کو ہم اچھی سرخی نہیں مان سکتے۔
مجموعے کے تیسرے افسانے کی سرخی ’’ان صحبتوں میں آخر‘‘ بڑی معنی خیز اور افسانے کے متن سے بڑی حدتک مطابقت رکھتی نظر آتی ہے۔ پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ اس کا عنوان میرتقی میر کے حسب ذیل شعر سے ماخوذ ہے جو ان کے دیوان اول میں موجود ہے،
ان صحبتوں میں آخر، جانیں ہی جاتیاں ہیں
نَے عشق کو ہے صرفہ، نَے حسن کو محابا
اس افسانے کا منتہا میرتقی میر اور نورخانم کا عشق ہے۔ اس لحاظ سے اس کی سرخی کا میر کے شعر سے اخذ کیا جانا اپنے طور پر بے حد مناسب اور دلچسپ ہے۔ شرط یہ ہے کہ افسانے کو ازاول تا آخر پوری دلچسپی اور یکسوئی سے پڑھا جائے۔ فاروقی کے افسانے محض لطف بیان اور وقت گزاری کے لیے نہیں پڑھے جاتے۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے۔
چوتھے افسانے کی سرخی ’’آفتاب زمیں‘‘ کی بنیاد بھی اردو کے دور قدیم کے شاعر استاد شیخ غلام ہمدانی مصحفی امروہوی کے شعر کی یاددلاتی ہے جو ان کے دیوانِ نہم میں ہے،
آفتاب زمیں ہوں میں، لیکن
مجھ سے روشن ہے، آسمان سخن
اس افسانے کی حیثیت بڑی حد تک سوانحی ہے البتہ یہ افسانہ بیک وقت تین راویوں کی زبانی بیان کیا گیا ہے یعنی لالہ کانجی مل صبا کا لائق فرزند درباری مل وفا مصحفی کی بیوہ حیات النسا اور خود حضرت مصحفی۔ استاد مصحفی کا رول یہ تھا کہ موقع بہ موقع اشعار سناتے تھے جن کی مدد سے کہانی دلچسپ ہوگئی اور مربوط بھی۔ گویا افسانہ اور اس کی سرخی ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم قرار پائے۔
رہ گیا پانچواں افسانہ ’’لاہور کا ایک واقعہ‘‘ اگرچہ یہ مختصر ہے اور مصنف کے ایک خواب پریشاں پر مبنی ہے لیکن خیالی باتوں کے باوجود فکشن کا ایک کامیاب نمونہ ہے۔ سرخی پر نظرپڑتے ہی قاری پر جیسے جادو سا ہوجاتا ہے۔ ہر جملے کے بعد پھر سوچتا ہے کہ کیا ہوا؟ اور یہی تحرک، افسانہ نگار کی کامیابی کی ضمانت بن جاتا ہے۔ اس مختصر سے افسانے میں فنی وحدتوں کی عدم موجودگی کے باوجود کہانی پن ختم نہیں ہوتا۔
کردار نگاری کا افسانے کی کامیابی میں بڑا ہاتھ ہے اگرچہ بعض افسانے بغیر کرداروں کے لکھے گئے ہیں لیکن کرداروں کی اہمیت کو سبھی مستند ناقدین نے مانا ہے،
’’مختصر افسانے میں پلاٹ سے زیادہ کردار کی اہمیت ہے۔ کردار جو حقیقی اور زندہ ہوتے ہیں وہ پڑھنے والے کے حافظے میں داخل ہوکر وہیں ٹھہرجاتے ہیں۔‘‘ 6
دراصل کردار نگاری کا عمل ڈرامہ نگاری کا بھی ایک لازمی جز ہے اسی لیے کرداروں کے عمل اور مکالمے کی مدد سے افسانوں کو زیادہ بااثر اور نتیجہ خیز بنایا جاسکتا ہے۔ یہ کہنا صریحاً غلط ہے کہ افسانے میں کردار کی حیثیت ثانوی ہے اور وہ محض کسی وقوعہ کے وجود میں آنے کا سبب بنتا ہے۔ فاروقی کے افسانوں پر عمیق نظر ڈالیے تو آپ کو بخوبی اندازہ ہوگا کہ ان میں مرکزی اور ثانوی ہر قسم کے کردار پائے جاتے ہیں لیکن ان میں ایک بھی کردار ایسا نہیں جسے قصہ سے باہر نکالا جائے یا اس کی شکل تبدیل کی جاسکے۔
مثال کے طور پر اگر بینی مادھو سنگھ رسوا کا کردار نہ ہوتا تو غالب افسانہ کی کہانی ہمیں کون سناتا۔ رسوا صرف ایک خاندانی راجپوت ہی نہیں بلکہ وہ ایک ہوش مند، مستقل مزاج اور مہذب نوجوان ہے۔ اس نے اپنی مہذب اور عاقلانہ گفتگو سے مرزا غالب کا دل جیت لیا۔ ان کے شغل مے نوشی اور حقہ کشی میں بھی شریک ہوا اور باتوں باتوں میں فن شعر گوئی، فارسی دانی اور غالب کے ذاتی واقعات بھی سن لیے۔ اسی طرح افسانہ ’’سوار‘‘ کے سبھی کردار اپنی الگ الگ شان رکھتے ہیں۔ ’’ان صحبتوں میں آخر‘‘ ایک ایسا افسانہ ہے جس میں شاندار کرداروں کی گویا ایک کہکشاں ہے جس میں ہر کردار ایک مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔
افسانہ ’’آفتاب زمیں‘‘ جس کا محور استاد الشعرا شیخ غلام ہمدانی مصحفی کی ذات ہے۔ حد تو یہ ہے کہ فاروقی کے آخری افسانہ ’’لاہور کا ایک واقعہ‘‘ محض واحد متکلم کے گرد گھومنے کے باوجود کئی گمنام کرداروں کا مرقع بھی ہے جس میں ہر ایک رنگ و بو ایک دوسرے سے جداگانہ ہے مگر ’’انتشار میں اتحاد‘‘ کی ایک بہترین اور نایاب مثال ہے۔ اس میں سبھی نمایاں اور مجہول کردار موٹر کار، ریوالور، پیشاب خانہ، تانگہ، ریلوے اسٹیشن اور ایک بے تکلف دوست سبھی کردارسپاٹ اور گول ہوتے ہوئے بھی قابل توجہ ہیں۔
فاروقی کی افسانہ نگاری کی ایک اور قابل ذکر اور لائق تعریف خصوصیت ان کی تاریخ دانی ہے جس کا مظاہرہ قریب قریب ان کے ہر افسانے میں ملتا ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ سرسری تاریخی شعور بہت زیادہ دور تک انسان کے کام نہیں آسکتا اس میں قدم قدم پر بڑے نازک مقام آتے ہیں اور یہ خطرہ رہتا ہے کہ کوئی ہم پر بے جا الزام تراشی، مبالغہ آرائی، تعصب، جانب داری اور کذب و افترا کی تہمت نہ لگادے۔ فاروقی کے افسانے بڑی حدتک ان غلطیوں سے پاک ہیں۔ کہانی بہرحال کہانی ہے اگر خداناخواستہ اس میں سب کچھ ہو اور ’’قصہ پن‘‘ نہ ہو تو اسے کوئی بھلا کیوں پڑھے یا سنے؟ غور کیجیے تو ہمارا قدیم داستانی ادب تو کم و بیش طول طویل باتوں، محیرالعقول قصوں اور دیوپری، جادوٹونے، ہیروپرستی سے بھرا پڑا ہے۔ یہاں تک کہ نام نہاد ’’تاریخی ناول‘‘ کا لیبل لگے ہوئے قصے بھی ’’ایجاد بندہ‘‘ کے الزام سے یکسر نہیں بچ سکے۔ ایسی کہانیوں کا مقصد اصلاح معاشرہ بھی ہوسکتا ہے، درس اخلاق بھی اور تبلیغ عقیدہ بھی لیکن ہر صورت میں افسانے کی چاشنی لازمی ہوتی ہے۔
فاروقی کے افسانوں میں جو تاریخی حوالے یا اشارے ملتے ہیں وہ کافی صحت مند اور قرینِ قیاس کہے جاسکتے ہیں۔ مثلاً ’’غالب افسانہ‘‘ میں مرزا غالب کا کردار قریب قریب وہی ہے جو ان کے تذکرہ نگاروں، سوانح نویسوں ان کے خطوط اور اشعار میں بکھرا پڑا ہے۔ لہٰذا ان تمام مواد سے کام لیتے ہوئے فاروقی نے ایک تاریخی افسانہ نہایت کامیابی سے تحریر کردیا۔ اس میں ایک نمایاں خصصیت یہ ہے کہ محتاط محقق، ادیب و غالب شناس مالک رام نے واحد متکلم بن کر افسانۂ غالب بیان کیا جب کہ فاروقی نے ایک کردار بینی مادھو سنگھ رسوا کی زبان سے پوری کہانی سنائی جو یقیناً ان کا قابل تحسین اقدام ہے۔
دراصل فاروقی کی افسانہ نگاری کے حوالے سے اس مختصر سے جائزے کا جواز یہ ہے کہ فکشن نگاری کے ضمن میں ان کے تخلیقی رویوں کا کچھ اندازہ لگایا جاسکے۔ انہوں نے مذکورہ بالا افسانوں میں واقعات کو ادبی تاریخ کے تناظر میں پیش کیا ہے۔ اس ضمن میں اُن کی مشہور تحقیقی کتاب ’’اردو کا ابتدائی زمانہ، ادبی تہذیب و تاریخ کے پہلو‘‘ کا ذکر بھی دلچسپی کا حامل ہے۔ غالباً اس نوع کے فکشن لکھنے کی ترغیب فارقی کو اسی کتاب کے تحقیق کے دوران ملی ہوگی۔ سوار کو چھوڑ کر باقی تمام افسانے اردو کے نامور شعرا کی حیات سے کسی نہ کسی طور متعلق ہیں بلکہ سوار میں بھی اردو کی ادبی تاریخ کی کئی نامور شخصیات سے ملاقات ہوتی ہے۔
ناول ’’کئی چاند تھے سرآسماں‘‘ بھی اردو زبان و ادب کے معروف شاعر داغ دہلوی کی والدہ وزیر خانم کی زندگی پر مبنی ہے۔ گوکہ ناول میں مرکزی کردار مخصوص اللہ، وزیر خانم، مارسٹن بلیک، ولیم فریزر، شمس الدین احمد خاں اور آغا مرزا تراب علی رفاعیؔ اہم ہیں لیکن ضمنی طور پر اردو زبان و ادب کی کئی ممتاز شخصیات ناول کا حصہ بنتی ہیں۔ اس ناول کا متن بھی مذکورہ بالا افسانوں کے متون کی طرح ادبی تاریخ کے حوالے سے قائم کیا گیا ہے تاہم ایسا نہیں ہے کہ ناول مذکورہ افسانوں کی محض توسیع ہے۔ فاروقی نے اس ناول کو بالکل ہی الگ شان سے لکھا ہے۔ آئندہ مقالے میں اس ناول پر سیر حاصل گفتگو کی کوشش کی گئی ہے۔
حاشیے
(۱) مجموعہ، دشمنوں کے درمیان شام۔ مطبوعہ ۱۹۶۸ء ص۲۵
(۲) غالب افسانہ، ص ۴۶
(۳) سوار اور دوسرا فسانے۔ پہلی اشاعت ۲۰۰۱، ص ۸۴
(۴) ان صحبتوں میں آخر، ص ۱۹۵
(۵) افسانہ سوار، ص ۷۶
(۶) پروفیسر سید احتشام حسین، تنقید اور عملی تنقید، ص ۵۴
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.