۶۶۔ ۱۹۶۵ کی بات ہے۔ میری منہ بولی بہن عفت بانو زیبا صاحبہ الہ آباد گئی ہو ئی تھیں۔ ڈاکٹر مسیح الزماں نے ان کے اعزاز میں شعبۂ اردو الہ آبادیونیورسٹی میں ایک ادبی نشست کا اہتمام کیا۔ معلوم ہوا کہ نشست میں زیبا صاحبہ کے علاوہ ایک مقامی شاعر شمس الرحمٰن فاروقی صاحب بھی کلام سنائیں گے۔ وہاں فاروقی صاحب کو دیکھا۔ ان کی شفاف آواز اور آنکھوں میں ذہانت کی چمک نے متاثر کیا۔ کلام بھی کچھ نئے انداز کا تھا۔ ایک نظم تھی۔
غنچہ جب مہرِ لب کھولنے کا ادارہ کرے
اور غزل کا یہ مصرعہ یاد ہے،
یوں بھی ہم ابنِ آدم نذرِ خطارہے ہیں
معلوم ہوا کہ الٰہ آباد کے ادبی حلقوں میں معروف ہیں اور اعجاز صاحب، احتشام صاحب، مسیح الزماں صاحب وغیرہ کی بڑی قدر کرتے ہیں۔
پھر مسیح الزماں صاحب کا خط آیا کہ شمس الرحمٰن صاحب الٰہ آباد سے ایک رسالہ نکال رہے ہیں۔ رسالہ نکلا۔ شروع کے ایڈیٹر غالباً اعجاز صاحب، جعفر رضا صاحب وغیرہ تھے۔ رسالہ بہت اچھا چھپا تھا، لیکن نام ’’شب خون‘‘ ! جلد ہی رسالے کی پالیسی سامنے آگئی۔ اردو میں جدیدیت کا فروغ۔ اس کے تین مستقل کالم تھے۔ ایک ’’مرضیاتِ جنسی کی تشخیص‘‘ ، دوسرا ’’بھیانک افسانہ‘‘ ، تیسرا ’’تبصرۂ کتب‘‘۔ یہ تینوں کالم فاروقی کے ذمے تھے اور شب خون کو جمانے میں ان کالموں کا بڑا ہاتھ تھا۔ خطوں کے کالم میں بھی زوردار بحثیں چھڑتی تھیں۔ افسانے، نظمیں، تنقیدی مضامین وغیرہ نئے انداز کے اور زیادہ تر ترقی پسند نظریات کے خلاف تھوڑے ہی دن میں شب خون کا ہر طرف چرچا ہوگیا اور ادبی فضا جاگ اٹھی۔
فاروقی کا تبادلہ لکھنؤ ہوگیا اور کچھ دن کے لیے لکھنؤ جدید ادب کا مرکز بن گیا۔ رام لعل نے ایک سمینار کا بھی انتظام کرلیا۔ اور بھی کئی چھوٹے بڑے سمینار ہوئے جن میں شرکت کے لیے باہر کے اہل قلم لکھنؤ آتے اور فاروقی کے یہاں ٹھہرتے تھے۔ زبردست گفتگوئیں اور بحث مباحثے ہوتے تھے۔ باتوں باتوں میں یہ بھی طے ہوگیا کہ جن لوگوں کی عمریں چالیس سال سے زیادہ ہوگئی ہیں وہ جدید نہیں ہوسکتے۔
اس زمانے میں فاروقی سے ہر دوسرے تیسرے دن ملاقات ہوتی تھی۔ فاروقی کے ساتھ ان کے چھوٹے بہنوئی نفیس بھائی لگے رہتے تھے۔ انہیں ادب سے سروکار نہیں تھا لیکن ادبی گفتگوئیں بڑے انہماک سے سنتے تھے۔ ان کے بڑے بڑے بال اور گھنی مونچھیں تھیں جو ایک بار سگریٹ سلگانے میں آگ پکڑ چکی تھیں۔ میرے گھر پر اک دن عابد سہیل اور فاروقی میں فنِ افسانہ پر بحث چھڑگئی جو دو بجے رات تک چلتی رہی۔ نفیس بھائی بڑے غور سے سن رہے تھے۔ فاروقی نے عابد سہیل کو قائل کرنے کے لیے کوئی بہت دقیق نکتہ نکالا۔ نفیس بھائی کھلکھلاکر ہنس پڑے۔ فاروقی کو غصہ آگیا،
’’اے گھاگھس، اس میں ہنسی کی کون سی بات ہے۔‘‘
پھر عابد سہیل نے فاروقی کو قائل کرنے کے لیے فلسفے کا سہارا لیا اور کئی فلسفیوں کے اقوال پیش کیے۔ نفیس بھائی بولے،
’’آپ تو پڑھے لکھے آدمی معلوم ہوتے ہیں۔ کچھ لکھتے کیوں نہیں؟‘‘
کبھی گفتگوؤں میں دیر ہوجاتی تو فاروقی میرے ہی گھر پر سوجاتے۔ اس وقت ان کی مسکینی دیکھنے والی ہوتی۔ کسی چھوٹی چوکی کی طرف اشارہ کرکے کہتے،
’’بس اسی پر پڑا رہوں گا۔ کوئی چادر اوڑھنے کو دے دیجیے گا۔‘‘
اپنے یہاں وہ خاصے ٹھاٹھ باٹ سے رہتے تھے۔ کم سے کم ایک نوکر اپنے ذاتی کام کے لیے رکھتے تھے۔ کبھی کبھی بیگم جمیلہ فاروقی کچھ دن کے لیے لکھنؤ آجاتیں اور گھر کا انتظام درست کردیتی تھیں، ورنہ زیادہ تر فاروقی ملازموں کی چیرہ دستیوں کا شکار رہتے تھے۔ ملازم بھی ان کو عجیب و غریب ملے۔ ایک بار گھر میں عمدہ چاولوں کا اسٹاک ختم ہوا۔ ملازم نے بچے ہوئے چاول پکاکر خود نوش کرلیے اور فاروقی کے سامنے موٹے چاول پکاکر رکھ دیے۔ ایک صاحب کو جب فاروقی کسی بات پر ڈانٹتے تھے تو وہ غصے میں آکر ’صاحب‘ کو ایک وقت کا فاقہ دینے کا فیصلہ کرلیتے اور اس دن دفتر میں ان کا لنچ نہیں پہنچاتے تھے۔
فاروقی کی ایک عجیب عادت تھی جو میں نے اور کسی میں نہیں دیکھی، کڑکڑاتے جاڑوں میں سویرے جاگتے اور آنکھیں بند کیے نوکروں کو آواز دیتے۔ وہ چائے کی ٹرالی لاتا۔ فاروقی لحاف میں بیٹھے بیٹھے تین چار پیالیاں پیتے، پھر لحاف پھینک کر اٹھ کھڑے ہوتے اور سیدھے حمام میں جاکر رات کے رکھے ہوئے ٹھنڈے برف پانی سے نہالیتے۔ وہاں سے صرف تولیہ لپیٹے ہوئے برآمد ہوتے۔ شیو کرتے، کپڑے پہنتے، اتنے میں نوکر ناشتہ لگادیتا۔ ناشتہ کرتے اور کمال یہ تھا کہ نہانے کے بعد ناشتے میں چائے نہیں پیتے تھے۔ ان کا دائمی نزلہ غالباً اسی معمول کا نتیجہ تھا۔
یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہوگی کہ فاروقی ایک زمانے میں ہکلانے لگے تھے (بلکہ ان کا کہنا ہے کہ اب بھی کبھی کبھی ہکلاتے ہیں)۔ ہکلاہٹ کا سبب ان کے والد کی سخت گیری تھی۔ ان سے گفتگو کرتے وقت فاروقی پر کچھ ایسی جھجھک طاری ہوتی تھی کہ الفاظ ان کے منہ میں اٹکنے لگتے تھے۔ ایک بار گھر میں فاروقی کے لیے جو چائے آئی اس کا برتن کچھ اچھا نہیں تھا۔ فاروقی نے اس پر ناک بھوں چڑھائی۔ والد نے دیکھ لی ا اور ’بچے میاں ‘ پر برس پڑے (یہ فاروقی کا گھر کا نام تھا)۔
’’بس میں وہاں سے اٹھ کر چلا آیا۔‘‘
ان کے والد بڑے پابندِ شرع اور بااصول بزرگ تھے۔ انہیں فاروقی کی آزادیاں پسند نہیں تھیں اور ان کا گمان یہ تھا کہ فاروقی ناکارہ زندگی گزاریں گے۔ لیکن بعد میں انہیں اپنے بیٹے پر فخر ہونے لگا اس لیے کہ فاروقی نے دنیاوی ترقی بھی بہت کی اور ادبی دنیا میں بھی نام کمایا۔
ایک بار کہنے لگے،
’’بھئی رفیع احمد خاں کا مستند کلام ملنا چاہیے۔‘‘
میں نے بتایا کہ سنتے ہیں صباح الدین عمر صاحب کے پاس ان کا دیوان موجود ہے لیکن وہ قبولتے نہیں۔ صباح الدین صاحب رفیع احمد خاں کے بے تکلف ملاقاتیوں میں تھے اور ان کے پاس دیوان ہونے کی بات لکھنؤ میں مشہور تھی۔ فاروقی نے معلوم نہیں کس طرح انہیں شیشے میں اتارلیا اور مخصوص احباب کو اطلاع دی کہ فلاں دن صباح الدین صاحب کے یہاں چلنا ہے۔ دن کا کھانا وہیں ہوگا اور اسی دن صباح الدین صاحب دیوانِ رفیع پڑھ کر سنائیں گے جسے ریکارڈ کرلیا جائے گا۔ مقررہ دن سب وہاں پہنچے۔ کھانا ہوا۔ اس کے بعد صباح الدین صاحب نے دیوان نکالا۔ ٹیپ ریکارڈ آن کیا گیا اور فیع احمد خاں کی غزلوں پر غزلیں کیسٹ پر اترنے لگیں۔ آخر کی کچھ غزلیں پڑھنے سے پہلے صباح الدین صاحب نے کہا کہ ابھی تک جو کلام پڑھا گیا وہ سوفیصد رفیع احمد خاں کا تھا۔ اب جو کلام پڑھ رہا ہوں اس میں کچھ الحاقی کلام شوکت تھانوی وغیرہ کا بھی ہے۔ وہ کلام بھی ریکارڈ کرلیا گیا۔
اس طرح وہ پورا دیوان ریکارڈ ہوگیا۔ پھر باتوں کا سلسلہ چلا۔ صباح الدین نے رفیع احمد خاں کے بہت سے واقعات اور ان کی وفات کا پورا حال سنایا۔ اسی وقت یہ بھی طے ہوگیا کہ محدود تعداد میں دیوان چھپوالیا جائے گا۔ اس میں دو مقدمے ہوں گے۔ ایک میں صباح الدین صاحب رفیع احمد کے حالات اور دوسرے میں فاروقی ان کے کلام پر تبصرہ کریں گے۔ دیوان کاغد پر اتار بھی لیا گیا لیکن اس کے چھپنے کی نوبت نہیں آئی۔ اب وہ معلوم نہیں کہاں ہے۔ صباح الدین صاحب نے ممانعت کردی تھی کہ ریکارڈنگ کو عام نہ کیا جائے اس لیے کہ وہ اپنی زبان سے مسلسل اس قسم کے کلام کا سنایا جانا پسند نہیں کریں گے۔ پھر صباح الدین صاحب کی وفات ہوگئی۔ ریکارڈنگ محفوظ ہے جس میں ہر شعر پر سامعین کی داد کا شور اٹھتا ہے اور اس میں سب سے بلند آواز فاروقی ہی کی ہوتی ہے۔
اب ظاہر ہے فحشیات کا وہ شوق بھی نہیں رہا۔ لیکن ابھی کچھ دن ہوئے (اکتوبر ۲۰۰۲ء) فاروقی کا فون بہت دن کے بعد آیا، کہنے لگے،
’’آپ کا فون مل نہیں رہا تھا میں نے کئی بار ملایا لیکن بات نہیں ہوسکی۔ ادھر معلوم نہیں کیا موڈ آیا کہ میں نے پچاس ساٹھ فحش اشعار موزوں کرڈالے۔ کچھ غالب کے شعروں میں تحریف کی گئی تھی۔ باقی طبع زاد تھے۔ آپ کو سنانا چاہتا تھا مگر فون نہیں ملا۔ پھر معلوم نہیں کیوں موڈ بدل گیا اور میں نے وہ سب شعر مٹادیے۔‘‘ لیکن کچھ شعر ان کو ضرور یاد ہوں گے۔‘‘
سردار حسین ہمارے بہت اچے دوست تھے۔ ’’شب خون‘‘ میں بھیانک افسانے کا سلسلہ رک گیا تھا۔ سردار حسین سے بھیانک افسانوں کے ترجمے کراکے چھاپے گئے۔ افسانوں کا انتخاب زیادہ تر فاروقی کرتے اور سردار حسین ان کا ترجمہ کرتے، پھر فاروقی ترجمے کی غلطیوں کی تصحیح کرتے تھے۔ بعض غلطیاں افسانوں ہی کی طرح بھیانک ہوتی تھیں جن پر سردار حسین کی خوب ہنسی اڑائی جاتی تھی۔ ایک افسانے کا ایک پیراگراف اتنا ٹیڑھا تھا کہ فاروقی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس کا ترجمہ کس طرح کیا جاسکتا ہے۔ وہ بیٹھے اسی پر غور کر رہے تھے کہ سردار حسین اپنا ترجمہ لیے ہوے آپہنچے۔ فاروقی نے اصل انگریزی افسانہ سامنے رکھا اور سردار حسین کا ترجمہ پڑھنا شروع کیا۔ وہ پیراگراف قریب آیا تو فاروقی ہنسنے پر تیار ہوگئے۔ لیکن جب سردار نے اپنا ترجمہ پڑھا تو وہ اتنا صحیح اور رواں تھا کہ فاروقی ہکا بکا رہ گئے۔ سردار سے پوچھا،
’’ارے ظالم، اس کا ترجمہ تونے کس طرح کرلیا؟‘‘
سردار نے الٹا پوچھا،
’’کیوں، کیا اس کا ترجمہ مشکل تھا؟‘‘
’’مشکل نہیں، ناممکن۔‘‘
سردار کہنے لگے،
’’مجھے پتا بھی نہیں چلا بس ترجمہ کرتا چلا گیا۔‘‘
یہ ترجمے کتابی صورت میں چھپ گئے ہیں اور بھیانک افسانوں کے بہترین مجموعوں میں شامل ہونے کے لائق ہیں۔ سردار حسین (اب مرحوم) عجب باغ و بہار آدمی تھے۔ ان کے پاس لطائف اور نقلوں کا ز بردست ذخیرہ تھا۔ جب وہ گل افشانیِ گفتار پر آتے تو ہماری محفل قہقہوں سے گونجنے لگتی اور فاروقی کا تو یہ حال ہوتا تھا کہ ہنستے ہنستے پلنگ پر سے گر گر پڑتے تھے۔
ایک دن ہم لوگ ایک دوست کے یہاں سے واپس آرہے تھے۔ سڑک قریب سنسان تھی۔ راستے میں ایک بھینس ہم لوگوں کو دیکھ کر عجیب آواز میں ڈکرائی اور کنارے ہوگئی۔ فاروقی کے منہ سے ایک گالی نکلی اور انہوں نے گاڑی کی رفتار بڑھادی۔ کچھ دور چل کر اس کے ڈکرانے کی آواز پھر بہت قریب سے سنائی دی حالانکہ ہم اسے بہت پیچھے چھوڑ آئے تے۔ فاروقی نے پھر گالی دی اور گاڑی کی رفتار اور تیز کردی۔ لیکن کچھ دیر بعد پھر گاڑی کے قریب سے ڈکرانے کی آواز آئی۔ میں نے کہا،
’’شاید اس بھینس کا آسیب ہمارے پیچھے لگ گیا ہے۔‘‘
اور واقعی آواز ایسی ہی تھی جیسی بھوت پریت کی آواز ہونا چاہیے۔ فاروقی نے پھر گالی دی اور بتایا،
’’بھائی، ہماری گاڑی کا ہارن خراب ہوگیا ہے۔ مرمت کو دیا ہے۔ میکنک نے عارضی طور پر یہ کریہہ الصوت ہارن فٹ کردیا ہے۔ چاہتا ہوں کہ نہ بجاؤں مگر کوئی نہ کوئی راستے میں آجاتا ہے تو بجانا پڑتا ہے۔‘‘
ان کے منہ سے پھر گالی نکلی، کیوں کہ راستے میں ایک اور سائیکل سوار آگیا تھا۔
جس زمانے میں فاروقی کان پور میں تعینات تھے، ایک دن لکھنؤ آئے۔ کسی سخت الجھن میں مبتلا تھے۔ بہت دیر تک بالکل خاموش بیٹھے رہے، پھر بولے،
’’میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ملازمت سے استعفیٰ دے دوں۔‘‘
ان سے جب اس فیصلے کا سبب پوچھا تو بتایا کہ ان کے پی۔ ایم۔ جی صاحب ان کے پیچھے پڑگئے ہیں۔ انہیں یہ خیال ہونے لگا ہے کہ فاروقی محکمے میں مسلمانوں کو زیادہ بھرتی کر رہے ہیں۔ میں نے پوچھا،
’’کیا یہ حقیقت ہے؟‘‘
’’ہاں، کسی حدتک‘‘ انہوں نے جواب دیا۔ ’’دوسرے مسلمان افسر احتیاط کے مارے اہل مسلم امیدواروں کو بھی کاٹ دیتے ہیں۔ میں ایسا نہیں کرتا۔ پی۔ ایم۔ جی صاحب کھل کر یہ بات نہیں کہتے‘‘ لیکن (فاروقی پی۔ ایم۔ جی کا ذکر اس طرح باادب انداز میں کررہے تھے) ’’میرے کاموں میں طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالتے ہیں۔ بالکل مجھ سے کلرکوں والا برتاؤں کرتے ہیں۔‘‘
دیر تک دل کا بخار نکال کر واپس گئے۔ اگلی بار آئے تو بہت خوش تھے۔ کہنے لگے،
’’اس نے مجھے کلرک سمجھ لیا تھا تو میں نے بھی کلرکوں والی حرکتیں شروع کردیں۔ اس کے ہر آرڈر میں طرح طرح کی قانونی قباحتیں نکال دیتا اور بار بار آرڈر میں تبدیلیاں کراتا تھا۔ عاجز آکر اس نے کہہ دیا مسٹر فاروقی آپ جو مناسب سمجھیے وہ کیجیے۔‘‘
فاروقی کے پاس عقلِ دنیا کی کمی نہیں ہے لیکن بعض اپنے نجی معاملات میں ان کی قوتِ فیصلہ جواب دے جاتی ہے۔ ایک بار انہوں نے مجھے بلاکر اپنے ایک ادیب دوست کے کچھ خط میرے سامنے رکھ دیے اور کہا،
’’یہ شخص کچھ دن سے میرے پیچھے پڑ گیا ہے۔ اس کے خط ملاحظہ کیجیے۔‘‘
خطوں میں سیدھی سیدھی دھمکی تھی کہ آپ کے کچھ خط میرے پاس ہیں جن سے آپ کے محکمے کو خاص طور پر دلچسپی ہوگی۔ سوچتا ہوں کہ ان لوگوں کو یہ خط بھیج دیے جائیں۔ آپ کا کیا خال ہے؟ یہ بلیک میلنگ کا لہجہ تھا۔ فاروقی نے بتایا کہ انہوں نے ایک زمانے میں کچھ دوستوں کو خط لکھے تھے جن میں ’’شب خون‘‘ کے مالی حالات کا تذکرہ تھا اور ان سے یہ بھی مترشح ہوتا تھا کہ رسالے کے مالک دراصل شمس الرحمٰن فاروقی ہیں۔
’’اگر میرے محکمے کو یہ خط دکھائے گئے تو مجھ پر سرکاری ملازمت میں ہوتے ہوئے ذاتی کاروبار کرنے کا سنگین الزام لگ سکتا ہے۔ خیرالزام تو میں دفع کردوں گا لیکن اس سے پہلے خاصی پریشانی اور اس سے زیادہ بدنامی کا سامنا کرنا ہوگا۔‘‘
ان ادیب نے ابھی یہ نہیں لکھا تھا کہ محکمے کو خط نہ دکھانے کی قیمت وہ کیا چاہتے ہیں۔ فاروقی کی سمجھ میں آرہا تھا کہ ان کو خط کا جواب براہِ راست دیں یا فلاں اور فلاں کو بیچ میں ڈالیں۔ آخر یہ طے پایا کہ متوسط بنایا جائے نہ خط کا جواب دیا جائے۔ اس کے بعد ان کے غالباً دو خط اور آئے کہ وہ جواب کا انتظار کر رہے ہیں۔ لیکن فاروقی چپ سادھے رہے۔ آخر وہ بھی خاموش ہوکر بیٹھ گئے۔
دوسروں کو ان کے معاملات میں فاروقی بہت مناسب مشورے دیتے ہیں۔ فروری ۱۹۷۵ء میں میرے بہنوئی ڈاکٹر مسیح الزماں کی دل کے دورے میں وفات ہوگئی۔ میری بہن موت سے اور خاص کر مردے سے بہت ڈرتی تھیں۔ دل کی مریض بھی تھیں۔ مسیح الزماں صاحب کی لاش اسپتال سے لائی جانے کے پہلے ہی بہن کو احتیاطاً فاروقی کے یہاں پہنچادیا گیا تھا۔ میں نے فاروقی سے کہا کہ شوہر کی میت اٹھتے وقت بیوی کا شہر میں ہوتے ہوئے گھر میں موجود نہ ہونا غیر مناسب بات معلوم ہوتی ہے۔ فاروقی بولے،
’’غیرمناسب کیا، نہایت معیوب بات ہے۔ ان کو بالکل موجود رہنا چاہیے۔‘‘
بہن کے معالج تحمید عثمانی صاحب اس تجویز کی مخالفت کر رہے تھے۔ فاروقی نے ان سے دیر تک حجت کی تو وہ جھلاکر بولے،
’’صاحب، ان کو گھر میں لایا گیا تو وہ مرجائیں گی۔‘‘
فاروقی بولے،
’’اس سے بہتر کیا ہوسکتا ہے کہ عورت شوہر کے ساتھ ہی مرجائے۔‘‘
اس کے بعد عثمانی صاحب کچھ نہیں کہہ سکے۔ فاروقی نے بہن کو گھر پہنچادیا اور میت ان کی موجودگی میں اٹھی۔ ان کی حالت واقعی خراب ہوگئی تھی لیکن یہ صدمہ وہ جھیل لے گئیں اور شوہر کی وفات کے انیس سال بعد ۱۹۹۴ء تک زندہ رہیں۔
ڈاکٹر کیسری کشور ہمارے باغ و بہار دوست تھے۔ ادبی ذوق اعلیٰ درجے کا تھا۔ شاعر بھی بہت اچھے تھے۔ ایک بار فاروقی کو ڈاک سے ایک لفافہ ملا۔ ان کی شان میں ایک نظم تھی، کچھ مدحیہ، کچھ ہجویہ۔ بعض شعر یہ ہیں،
سخن کے شہر میں تنہا کھڑا ہے فاروقی
بھڑا ہے بھیڑ سے اَڑ پر اَڑا ہے فاروقی
فرو ہوئے پہ کھلے گا کہ کیا ہے فاروقی
ابھی تو فتنے کی صورت بپا ہے فاروقی
کبھی منیر کی مرغی کبھی ہے زاغِ ظفر
طیور خانے میں کیا بولتا ہے فاروقی
اسی سے ممکن ہے اب صفائے باغِ سخن
جدید خس کے لیے کہربا ہے فاروقی
ادب سرا میں کوئی دوسر ا نہیں ایسا
برا ہے فاروقی(۱) یا بھلا ہے فاروقی
لکھو لکھو کہ بڑی لکھ رہا ہے تحریریں
کہو کہو کہ غلط کہہ رہا ہے فاروقی
زبانِ او نہ گرفتی وہرچہ خواست بگفت
پس از دردغ نہ گوئی بگوکہ راست بگفت
(۱) کہا جاتا ہے کہ فاروقی صاحب ’’تسکین اوسط‘‘ سے شغف رکھتے ہیں۔ اسی رعایت سے شاعر نے یہاں ’فاروقی‘ کے ساتھ تسکین کا استعمال کرتے ہوئے اسے فاروقی نظم کیا ہے۔ (ایڈیٹر)
خط ملتے ہی فاروقی نے فون کیا،
’’کیوں صاحب، یہ کیا حرکت ہے؟‘‘
پھر انہوں نے یہ نظم پڑھ کر سنائی اور کہا کہ یہ آپ ہی لوگوں کی کارستانی ہے۔ ادھر سے انکار کیا گیا تو کہنے لگے،
’’ڈاکٹر کے سوا منیر نیازی اور ظفر اقبال کا حوالہ اس طرح اور کون دے سکتا ہے۔ اور ’براہے فاروقی‘ میں جس بے تکلفی سے تسکین اوسط۔۔۔‘‘
انہیں بہت سمجھایا گیا لیکن وہ ماننے پر تیار نہیں ہوئے۔ اس کے بعد اسی انداز کی کئی اور نظمیں خودکسیری کشور، ولی الحق انصاری، عمر انصاری، زیب غوری کو وصول ہوئیں اور ان کی تصنیف میں فاروقی بھی شامل تھے۔
مارچ ۱۹۹۱ء میں رام لعل کے زیر اہتمام اور فاروقی کے زیر سرپرستی خواتین افسانہ نگاروں کی ایک محفل منعقد کی گئی جس میں اور لوگ مدعو ہوئے لیکن مجھے اور عرفان صدیقی کو یاد نہیں کیا گیا۔ عرفان صدیقی نے احتجاجاً اور انتقاماً اس پر یہ نظم کہی جو ہنوز غیرمطبوعہ ہے،
رمیدہ خو تھے بہت شہر جاں میں فاروقی
ہوئے اسیر کمنِد بتاں میں فاروقی
ازل سے رشتہ ہے سورج کا مہتابوں سے
چمک رہے ہیں قمر چہرگاں میں فاروقی
اسی کشش پہ بنائے نظامِ شمسی ہے
گھرے ہیں انجمنِ دلبراں میں فاروقی
سنانے آئے ہیں خوباں انہیں فسانۂ دل
سو کیسے محو ہیں لطفِ زباں میں فاروقی
ادھر فرازِ تمنا اُدھر نشیب طلب
رُکے ہوئے ہیں کہیں درمیاں میں فاروقی
یہ ’چار سمت کا دریا‘ ہے کس طرف بہہ جائے
پڑے ہوئے ہیں عجب امتحاں میں فاروقی
یہ ’گنج سوختہ‘ کے بیچ ’سبز اندرسبز‘
یہ رام لعل، یہ ان کے مکاں میں فاروقی
ہم ایسے تشنہ لبوں کی پہنچ سے باہر ہیں
چھپے ہیں محرمِ آبِ رواں میں فاروقی
’یہاں‘ سے ہجر ہے مطلب ’وہاں‘ سے وصل مراد
’یہاں‘ میں ہم فقرا ہیں ’وہاں ‘ میں فاروقی
زیب غوری کو فاروقی بہت پریشان کرتے تھے۔ ان کی غزلوں کے کئی کئی شعر محض اس لیے کٹوادیتے تھے کہ ان کی وجہ سے غزل لمبی ہوئی جاتی تھی۔ یہ زیب ہی کا حوصلہ تھا کہ وہ اچھے بھلے شعروں کو حذف کرنے پر تیار ہوجاتے تھے۔ لیکن ایک بار انہوں نے بحث شروع کردی اس لیے کہ فاروقی ان کی پندرہ سولہ شعر کی ایک غزل کے پانچ شعر کٹوائے دے رہے تھے۔ یہ شعر زیب کو بہت پسند تھے۔ آخرفیصلہ ہوا کہ کسی تیسرے آدمی کی بھی رائے لی جائے۔ نظرِ انتخاب مجھ پر پڑی۔ دونوں حضرات میرے یہاں آئے۔ زیب نے غزل مجھے دی اور کہا کہ اس میں سے پانچ شعر کم کردیجیے۔ اتفاق کی بات کہ میں نے بھی وہی پانچ شعر نکال دیے۔ زیب ٹھنڈی سانس بھر کر بولے،
’’عجب ظالموں سے واسطہ پڑا ہے۔‘‘
اور پانچوں شعر قلم زد کردیے۔
زیب کی بڑی تمنا تھی کہ فاروقی ان کی شاعری پر مضمون لکھیں، لیکن فاروقی کو کوئی جلدی نہیں تھی اس لیے کہ زیب کا فن روز بروز نکھرتا جارہا تھا۔ یہ خبر نہیں تھی کہ ان کا وقت قریب آتا جارہا ہے۔ ایک دن زیب اچانک ختم ہوگئے۔ کان پور میں ان کی یاد میں جلسہ ہوا۔ فاروقی نے زیب کی شاعری پر مضمون پڑھا اور یہ کہہ کر روئے بھی کہ یہ مضمون زیب کی زندگی میں بھی لکھا جاسکتا تھا۔
اس وقت فاروقی زیادہ تر جدید ادب اور ادیبوں کے بارے میں لکھتے تھے۔ تفریح کے نام پر تاش کھیل لیتے تھے یا غزلوں کے رکارڈ سنتے یا کسی مشہور مقرر کی تقریر میں چلے جاتے اور اپنی بچیوں کو اردو پڑھاتے تھے۔ غالب شروع ہی سے ان کے محبوب شاعر تھے، اگرچہ عام خیال یہی تھا کہ ان کو کلاسیکی ادب میں زیادہ دخل نہیں ہے اور وہ مغربی نقادوں اور ادیبوں سے زیادہ متاثر ہیں لیکن درحقیقت ان کا کلاسیک کا مطالعہ بھی بہت تھا۔ اردو فارسی شاعروں کا بہت سا کلام ان کو حفظ تھا۔ رفتہ رفتہ ان کی دلچسپی ہمارے کلاسیکی ادب اور مشرقی تنقید میں بڑھنے لگی جس کا سب سے اہم مظہر شعر شور انگیز کی شکل میں سامنے آیا۔
میرؔ کی تشریح کے سلسلے میں انہوں نے مشرقی شعریات اور اردو کے ان کلاسیکی شاعروں کا منظم مطالعہ کیا جن کو ہماری تنقید نے زیادہ قابل اعتنا نہیں سمجھا تھا۔ انہوں نے لفظی صنائع خصوصاً ایہام کا مطالعہ کیا اور اس معتوب صنعت کی حمایت کی جس پر ان کو تنقید کا نشانہ بننا پڑا۔ دہلی کے ایک سمینار میں انہوں نے میرانیس کا یہ مصرعہ پڑھا،
ہم وہ ہیں غم کریں گے ملک جن کے واسطے
اور للکار کر کہا کہ یہ ایہام کامعجزہ ہے۔
ایک دن فاروقی کا فون آیا،
’’آپ کو ایک خبر دینا ہے۔ اس سے پہلے کہ آپ کو کسی دوسرے ذریعہ سے اطلاع ملے میں نے سوچا میں ہی بتادوں۔‘‘
میں نے خیال کیا کہ شاید انہیں کوئی بڑا ادبی انعام ملا ہے۔ خبر سننے کے لیے ہمہ تن گوش ہوگیا۔ لیکن انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹری معائنہ سے معلوم ہوا ہے کہ وہ دل کی سنگین بیماری میں مبتلا ہیں۔ کچھ عرصے بعد بائی پاس سرجری ہوئی اور کا میاب ہوئی، لیکن ان کے معمولات میں فرق آگیا، سگریٹ بہت پیتے تھے، پھر کسی کے کہنے پر سگریٹ چھوڑ کر پائپ شروع کردیا تھا۔ اب اسے بھی چھوڑا۔ پڑھنے لکھنے کا سلسلہ بھی کچھ دن کے لیے تھم گیا۔ لیکن اس کے بعد پھر ان کے ادبی مشاغل اسی زور شور کے ساتھ شروع ہوگئے۔ انہوں نے اردو داستانوں کا مطالعہ کرکے ان پر کام شروع کیا جس کی ایک جلد آچکی ہے۔ ’اردو کا ابتدائی زمانہ‘ ان کی ایک اور اہم تصنیف ہے جس پر انہوں نے بڑی محنت کی ہے۔ ان کے علاوہ بھی انگریزی اردو میں کئی کتابیں آچکی ہیں اور کئی تیاری کے مرحلے میں ہیں۔
اسی زمانے میں فاروقی نے ایک اور بہت اہم کام یہ کیا ہے کہ ہمارے کلاسیکی شاعروں کو بنیاد بناکر افسانے لکھے جن کا مجموعہ ’سوار‘ کے نام سے شائع ہوا۔ یہ افسانے خاص اس مقصد سے لکھے گئے ہیں کہ ہماری ادبی اور تہذیبی روایت کے مختلف عناصر اس حیلے سے محفوظ ہوجائیں۔ اس وقت بھی یہ افسانے دستاویزی اہمیت رکھتے ہیں، وقت گزرنے کے ساتھ ان کی قدروقیمت بڑھتی جائے گی۔
فاروقی کے ساتھ میری بڑی دلچسپ صحبتیں رہی ہیں۔ ڈاکٹر کیسری کشور، زیب غوری، عرفان صدیقی وغیرہ ان صحبتوں میں اور جان ڈالتے رہے ہیں۔ لیکن اب فاروقی الہ آباد میں رہتے ہیں۔ لکھنؤ سال دوسال میں ایک دو دن کے لیے آجاتے ہیں۔ میرا الہ آباد جانا اور بھی کم ہوگیا ہے۔ اب گاہ گاہ ان سے فون پر بات ہوجاتی ہے۔ الہ آباد اور لکھنؤ کے درمیان سفر لمبا نہیں ہے، لیکن مسافر تھک گئے ہیں اور بہ قول فراقؔ،
یاروں نے کتنی دور بسائی ہے بستیاں
یا بہ قول مصحفیؔ،
یاران رفتہ آہ بڑی دور جابسے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.