میں ابتدا ہی میں واضح کردوں اس مقالے میں میرا نقطۂ نظر تمام تر ایک عام آدمی کا نقطہ نظر ہوگا۔ ایک ایسے قاری کانقطہ نظر جوشاعری کو فن کی بجائے انسانیت اور انسان دوستی کے نقطہ نظر سے جانچتا ہے۔
ہماری شاعری کچھ عرصہ پہلے تک زیادہ تر غزل کی شاعری تھی۔ میں جوش کی طرح غزلیہ شاعری کو ’’غیرانسانی شاعری‘‘ نہیں سمجھتا۔ میرے لیے شاعری کا معیار ادب کی مخصوص بنیادی قدریں ہیں۔ بنیادی اقدار سے میری مراد ایک معاشرے کااجتماعی انداز نگاہ ہے۔ ہر فنکار زندگی اور اس کے مظاہر کو ایک ہی نقطے سے نہیں دیکھتا۔ اس کے باوجود مشترکہ طور پر تمام ادب کا (اور اس کی علیحدہ علیحدہ صنفوں کا) ایک غیرشخصی زاویہ نظر ہوتا ہے۔ جسے منفرد اور متضاد انفرادی نقطے ایک دوسرے پر اثرانداز ہوکر ترتیب دیتے ہیں۔ فلائبیر نے اسی کوانجمادِ نگاہ کہا ہے۔ مگر اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ اقدار کے لیے ’غیرکش دار‘ ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح ضروری نہیں کہ قدریں صالح ہی ہوں۔ غزل میں محدود صنف سخن ہونے کے باوجود وسیع امکانات ہیں۔ مگر ابتدا ہی سے ہماری زبان کی نشو ونما کچھ اس ڈھب سے ہوئی کہ وہ اپنے ماخذ سے دور تر ہوتی گئی۔ اور ایک غیرفطری عمل سے اس تمام تمدنی پس منظر سے محروم ہوگئی جس کی وہ جائز طور پر وارث ہوسکتی تھی۔ اس کے بعد ہماری شاعری اجنبی راہوں میں سرگرداں ہوگئی۔ اسپین کے PICARO کی مانند، بہمنی سلطنت کے شاعروں میں تہذیبی عناصر کی جھلکیاں جابجاملتی ہیں۔ مگر ان کی زبان اردو سے بہت کچھ مختلف تھی۔ ممکن ہے ان کو اردو کے شاعر کہنے ہی میں تامل ہو۔ اردو شاعری صحیح معنی میں سوداؔ، دردؔ، میرؔ اور مظہر جانجاناں کی نغمہ سرائیوں سے شروع ہوتی ہے۔ اب تک پارس کی مئے گلگوں کے لیے دردکشوں نے اپنے سفال نہیں توڑے تھے۔ انہیں خانہ ساز بھی اتنی ہی مرغوب تھی۔ ان بزرگوں نے جامِ سفالین کو چکناچور کردیا اور بلورین ساغر اٹھا لیے وہ یہ نہ سمجھے،
جامِ جم سے تو مرا جام سفال اچھا ہے
فارسی ترکیبیں محاورات، اصطلاحیں، ادق الفاظ زبان میں بکثرت داخل ہوگئے اور اردو شاعری ایران کی بولی بولنے لگی۔ کسی حد تک ان بدیشی چیزوں کا استعمال غلط بھی نہ تھا۔ مگر یہ ریلا کچھ اس طرح آیا کہ اردو شاعری تمدنی وراثت سے محروم ہوگئی۔ یہ عمل آیندہ اور بھی شدید ہوتا گیا۔ غالب گویا اس کی معراج تھے۔ اس تمام عہد میں باکمال شعراء کی کمی نہیں۔ کمالِ فن اور تہذیب و برکت ضروری نہیں ایک ہی جگہ مجتمع ہوں۔ مصحفی کم اور نظیر اکبرآبادی بیش تر ہندوستانی تمدنی روایتوں سے متاثر ہوئے۔ مہادیو اور پاروتی کا بیاہ، نظیر اکبر آبادی کی بیانیہ نظموں کاکمال ہے۔ یہ نظم ہندی دیومالاسے بہرمند ہونے کے علاوہ روح اور غطہار میں بھی خالص ہندوستانی ہے۔
حالیؔ۔ آزادؔ اوراکبرؔ کی شاعری دورِ اصلاح کی شاعری ہے۔ سیاسی کرب، بے چینی اور مغربی تہذیب کے زبردست اثر نے اس بنتے ہوئے کلچر کی بنیادوں پر ضرب کاری لگائی جو دو قوموں کے اشتراکِ مفاد سے پیدا ہو رہا تھا۔ ہمارے شاعروں نے شعوری اور غیرشعوری طور پر حاکم قوم کی تہذیبی تقلید کرنا چاہی مگر اس کوشش میں وہ مخصوص اور فیض کے ان سرچشموں سے بھی ہاتھ دھوبیٹھے جو ان کا قدرتی حق تھا۔ اس عہد کے شاعر یوں محسوس ہوتاہے گویا خلا میں ہاتھ پاؤں مار رہے ہوں۔ اکبر کی قدامت پسندی محض قدامت پسندی تھی۔ جس میں مذہبی عنصر پیش پیش تھا۔ حالیؔ نے بھی مذہب کے امن میں آسودگی ڈھونڈنی چاہی۔ مسرور جہاں آبادی اور چکبست۱، نے سطحی وطن پرستی اور ہنگامی سیاست کوآسرابنایا۔ کلچر کی گہری بنیادیں ان کے ہاں مفقود تھیں۔ حسرت اور فانی نے ملکی جذبات کی ترجمانی کی۔ مگر اس کے باوجود ان کے شعروں میں خیر اور شفا کے وہ عنصر نہیں جو دنیا کی بڑی شاعری کالازم ہیں۔ اقبال وطنیت۲، کے کے قائل نہیں تھے۔ اس لیے انہوں نے کبھی ملکی تمد ن کو اپنانے کی کوشش نہیں کی۔ ان کی شاعری کی سب سے بڑی کمی یہی ہے کہ وہ مافوق البشر کی شاعری ہے۔ اس کے مابعد الطبیعاتی عناصر نے خیر و برکت کے عناصر کو بہت حدتک دبادیا ہے۔ اقبال اسلام اور اسلامیات کے ترجمان تھے۔ انہوں نے اپنے فرائض کو بطوراحسن ادا کیا۔ مگر ان میں ہمیں آفاقی اور دیرپا شاعری کی کمی شدت سے محسوس ہوگی۔
۱، اس زمانے میں کانگریس کی سیاسی سرگرمیوں کے زیر اثر سوراج کا نیا نیا اور ناپختہ شعور پیدا ہوا تھا۔ اور مسرور جہاں آبادی خاص طو رپر چکبست نے جو کچھ کہا وہ عام ملکی فضا سے ہم آہنگ تھا۔ مکمل آزادی کاتصور ایک دم تو پیدا نہیں ہوسکتا تھا۔ آج ہمارے ذہن میں آزادی سے جومفہوم وابستہ ہے وہ کئی تدریجی مراحل سے گزر کر اس سماجی شعور تک پہنچا ہے۔ اس لیے ان کی شاعری کو سطحی نہیں کہا جاسکتا۔ (ایڈیٹر)
۲، اقبال کی شاعری کا اولین دور تو وطنیت میں ڈوبا ہوا ہے۔
یہ امر ناگوار تو ضرور ہے، مگر اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر بھی نہیں رہا جاسکتا۔ اردو شاعری میں آج تک ایک بھی ایسا فن پارہ نہیں جسے لازوال اور آفاقی کہاجاسکے۔ اس کلیے میں نئے شعراء کا کلام بھی شامل ہے۔ فراق کی شاعری میں البتہ ایسے عناصر ہیں۔ جن کی فنی ترکیب سے ’بڑی شاعری‘ پیدا ہوتی ہے۔ ان کی شاعری کا سا رچاؤ اور نکھار (یہ ان کے اپنے الفاظ ہیں) مجھے اردو شاعری میں کم نظر آیا ہے۔ کئی جگہ فراقؔ یہ خوبیاں سطحی طور پر بھی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے موقع پر وجدان ان کا ساتھ نہیں دیتا اور بناوٹ اور تصنع اچھی شاعری کی راہ میں حائل ہوجاتے ہیں۔ ان کی اکثر رباعیاں اپنے نرم لہجے کے باوجود ان کی کامیاب شاعری کانمونہ نہیں۔ میں اب بھی ان کی غزلیہ شاعری کو ان کی اچھی شاعری کا نمائندہ سمجھتا ہوں۔ فراقؔ کی شاعری کا مستقبل بڑا امید افزا ہے۔ فیضؔ اور مجازؔ کی نظمیں۔ رومانی یاسیت کی ترجمان ہیں۔ ان کا زاویہ نگاہ محدود نہیں۔ ان کی ہمدردی کسی خول میں مقید نہیں۔ مگر اس کے باوجود وسیع انسانی ہمدردی کا تصور ان کی شاعری میں جڑ نہیں پکڑتا۔ ان کی نظموں میں تذبذب اور انتشار وہ انجماد نگاہ پیدا نہیں ہونے دیتے جس کا میں نے اوپر ذکر کیاہے۔ راشدؔ اور میراؔجی کی شاعری محدود اور ناقص جنسیت کی پیداوار ہے۔ جوشؔ اپنے چمکتے ہوئے الفاظ اور ادعائے انسان پرستی کے باوصف Skating کے اس کھلاڑی کی طرح ہیں جو برف کی شفاف سطح پر رقص کر رہا ہو۔ جو یخ کے سینے کی وسعتوں سے بے خبر ہو۔ ان کی شاعری ہمیں مرعوب کرسکتی ہے۔ ہمارے دلوں کے تاروں کو چھیڑ نہیں سکتی۔ ان کا اندازِ اظہار سرراہ کھڑے ہوئے ان نیم حکیموں کاسا ہے۔ چلا چلا کر اپنی مجرب دوائی کے فوائد بتاتے ہیں اور اسے تمام دردوں کا درماں ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
میں یہاں دوبارہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میری مراد قطعی طور پر یہ نہیں کہ یہ اصحاب کسی طرح کم مایہ شاعر ہیں۔ میں نے ابتدا ہی میں اپنے اندازِ نظرکو واضح کرنے کی کوشش کی تھی۔ میں شاعری کو انسانیت اور انسان دوستی کے نقطہ نظر سے جانچنا چاہتا ہوں۔ اس عام انسان کی طرح جو فن کی پیچیدگیوں سے آشنا نہیں ہوتا۔ جو شاعری کو اپنی آسوں اور آدرشوں کا ترجمان خیال کرتا ہے۔
ہمارے ادب میں شاعری کایہ پہلو ابھی تک کبھی نمایاں نہیں ہوا۔ اس کی ایک وجہ تو وہی ہے جو میں اوپر بیان کرچکا ہوں۔ دوسری اور اتنی ہی اہم وجہ ہمارا سیاسی نظام ہے۔ جس کا ذکر میں ابھی کروں گا۔ انسانیت کی شاعری کے لیے سب سے پہلے نقطہ نظر کے متعین کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بعض ایسی بنیادی قدروں کواخذ کرنا ہوتا ہے جو آفاقی اور عالمگیر ہوں۔ مناسب معاشرتی اور سیاسی حالات میں ایسی اقدار کی ترتیب اور تدوین شعوری اور غیرشعوری طو رپر ہوتی رہتی ہے۔ ماحول غیر شعوری طور پر آہستہ آہستہ اثرانداز ہوتا رہتا ہے اور اسے ترتیب و تدوین میں مدد دیتا رہتا ہے۔ شعور بھی ماحول سے بے تعلق نہیں بلکہ اس کا دوسرا پہلو ہے۔ شعور اور غیرشعور میں مراتب کا فرق ہے۔ رخ و جواب کا نہیں۔
تفہیم ملک ہماری تمدنی ناکامی کا تیسرا نقطہ تھی۔ تقسیم ملک سے پہلے مغربی اثرات کی ابتدائی کو رانہ تقلید زائل ہوچکی تھی۔ اچھے اثرات ملک کی معاشرت میں مدغم ہو رہے تھے۔ اور ناقابل تقلید اثرات کو ترک کیا جارہا تھا۔ مذہبی مناقشات کے باوجود آہستہ آہستہ تہذیب و تمدن کا ایک مشترک سرمایہ پیداہو رہاتھاجو آگے چل کر ہمارے ادب کا بنیادی عنصر بن سکتا۔ تقسیم کے ساتھ اور بہت سی چیزوں کی طرح ہم تہذیب اور تمدن سے بھی تہی دست ہوگئے۔ میں مذہبی ثقافت کا ذکر درمیان میں نہیں لانا چاہتا۔ میرے خیال میں تمدن کی طبقاتی تقسیم ناگزیر ہے۔ بات کے لیے وطن ضروری ہو یا نہ ہو تمدن کے لیے بے حد ضروری ہے۔ مگر یہ طبقاتی حدبندیاں وسیع تر انسانی ہمدردی کومحدود اور مسدود نہیں کرتیں۔ بعض اسے خاص راہوں پر ڈال دیتی ہیں۔ اس تباہ کن سیلاب کی طرح جو اگر کناروں کا پابند کیا جاسکے تو کتنے صحراؤں کو گلزار بنادے گا۔ پاکستان میں ہمیں اور تمام چیزیں کی طرح تہذیب اور تمدن کی نیو بھی ڈالنی ہے۔ ممکن ہے بعض اصحاب کو یہ عجیب سا معلوم ہو جاسکے تو کتنے صحراؤں کو گلزار بنادیگا۔ پاکستان میں ہمیں اور تمام چیزوں کی طرح تہذیب اور تمدن کی نیو بھی ڈالنی ہے۔ ممکن ہے بعض اصحاب کو یہ عجیب سا معلوم ہو۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.