Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شعر شور انگیز پر ایک نظر

نثار احمد فاروقی

شعر شور انگیز پر ایک نظر

نثار احمد فاروقی

MORE BYنثار احمد فاروقی

    شمس الرحمن فاروقی ہمارے عہد کے سب سے ممتاز ناقد ہیں۔ ان کی تنقید اصطلاحوں کی اسیر نہیں وہ مشرقی اصول نقد اورشعریات سے بھی عالمانہ واقفیت رکھتے ہیں اور مغربی ادب، خصوصاً مغرب کے جدید ترین رجحانات سے بھی باخبر رہتے ہیں۔ ان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہمارے کلاسیکی سرمائے کے صحت مند حصے کے بھی قدردان ہیں اور جدید ادب کی تفہیم اور ہمت افزائی میں بھی انہوں نے قائدانہ رول ادا کیا ہے۔ انگریزی ادب کا مطالعہ بعض دوسرے ناقدوں نے بھی کیا ہے۔ مگر ان کا عربی و فارسی کے سرمائے سے اتنا گہرا رابطہ نہیں رہا جتنا شمس الرحمن فاروقی کی تحریروں سے ظاہر ہے۔

    کلاسیکی سرمائے سے ذہنی ربط ہی نے انہیں عروض، بدیع و بیان، شعریات اور آہنگ کے مطالعے پر آمادہ کیا، اور نظری سطح سے ہٹ کر تطبیقی سطح پر انہوں نے غالب اور میر کے شعری اسلوب، افکار اور خصائص کے تجزیہ و تحلیل کی کوشش کی۔

    ان کا جدید ترین کارنامہ ’’شعرشورانگیز‘‘ ہے۔ یہ خداے سخن میرتقی میر کے چھپے دواوین کا انتخاب اور شرح و تفسیر ہے۔ اس کتاب کو چار جلدوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور اس وقت میرے سامنے اس کی تین جلدیں موجود ہیں۔

    فاروقی کی تنقید کا وصف ان کی اجتہادی شان بھی ہے مگر کبھی ان کے فیصلے اتنے دوٹوک ہوتے ہیں کہ صرف اس قطعیت کی وجہ سے ان سے اختلاف کرنے کو جی چاہتا ہے۔

    بعض باتیں ایسی جاگزیں ہوجاتی ہیں کہ ان کا اثر مٹائے نہیں مٹتا، اس کی سیکڑوں مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ غالب کا کلام مشکل ہے اور شرح و تفسیر کا محتاج ہے، اس کے مقابلے میں میر کا کلام سہل ممتنع ہے۔ اسی لیے غالب کی ۳۶ مکمل شرحیں اور اتنی ہی جزوی شرحیں لکھی جاچکی ہیں مگر کلام میر کی ایک شرح کی ضرورت بھی نہیں سمجھی گئی۔ حالانکہ یہ محض واہمہ ہے۔ میر بھی خوب جی بھر کر صنائع لفظی و بدائع معنوی کا استعمال کرتا ہے۔ زبان کی نزاکتوں پر میر کی نظر غالب سے زیادہ گہری ہے۔ اس زمانے کی معاشرت اور تہذیب کی جھلکیاں بھی ان کے کلام میں ایسی ملتی ہیں کہ جو شخص آخر عہد مغلیہ کی تہذیب اور کاروبار زندگی سے اچھی واقفیت نہ رکھتا ہو وہ میر کے اشعار سے پورا لطف اور لذت حاصل نہیں کرسکتا۔ مثلاً میر کاایک شعر ہے،

    لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

    آفاق کی اس کار گہ شیشہ گری کا

    بظاہر سیدھا سادا شعر ہے مگر اس کا صحیح مفہوم وہ سمجھ سکتا ہے جسے معلوم ہو کہ پہلے زمانے میں کانچ کے برتن اس طرح بنائے جاتے تھے کہ شیشے کو ایک کڑھاؤ میں پکایا جاتا تھا، وہ گاڑھا سیال مادہ بن جاتا تھا۔ پھر ایک لمبی نلکی کا ایک سرا کڑھاؤ میں ڈال کر دوسرے سرے کو منہ میں لے کر سانس اوپر کھینچتے تھے تو وہ سیال اس سانچے میں منتقل ہوجاتا تھا اور ٹھنڈا ہوکر برتن کی شکل میں نکلتا تھا، یہ سب کاریگری سانس کی تھی اگر کڑھاؤ سے شیشہ لیتے وقت سانس ذرا زور سے کھینچ لیں تو کاریگر مرسکتا تھا اور سانچے میں چھوڑتے وقت سانس کا دباؤ زیادہ ہوجائے تو برتن بے ہنگم بن جاتا تھا۔ میر نے دنیا کو کارگہ شیشہ گری سے تشبیہہ دی ہے اور نہایت حزم و احتیاط کے ساتھ زندگی گزارنے کی تلقین ایک نہایت خوبصورت تمثیل کے ذریعے کی ہے۔ اسے تصوف کی طرف محمول کریں تو یہی ’’پاس انفاس‘‘ اور ’’ہوش دردم‘‘ کا عمل ہے۔ ایسی تفصیلات جانے بغیر میر کا کلام بھی سر کے اوپر سے گزر جائے گا۔

    شمس الرحمن فاروقی نے کلام میر کی یہ شرح روایتی شرح سے ہٹ کر بھی لکھی ہے۔ یہ صرف ایسی شرح نہیں ہے جس میں مشکل الفاظ کے معنی بتاکر شارح سبک دوش ہوجاتا ہے۔ یہ کلام میر کا غائر ناقدانہ مطالعہ بھی ہے اور اس میں جدید و قدیم افکار سے اس کا موازنہ اور تقابلی مطالعہ بھی کیا گیا ہے۔ معانی و بیان کی خوبیوں پر بھی پوری تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے اور اسے پڑھ کر یہ تاثر ہوتا ہے کہ شاید یہ اردو کی سب سے اچھی شرح ہے جو آج تک کسی شاعر کے کلام کی لکھی گئی ہے۔ یہ وہ شرح نہیں ہے جسے دیکھ کر میر کہتے کہ ’’شعر مرا بمدرسہ کہ برد‘‘ (میرے شعر مدرسے میں کون لے گیا؟) اسے انہوں نے ’’شرح‘‘ کہا بھی نہیں ہے۔ ان کے لفظوں میں یہ ’’غزلیات میر کا انتخاب اور مفصل مطالعہ‘‘ ہے۔

    فاروقی صاحب نے یہ کوشش کی ہے کہ وہ اپنے معیار و مذاق کے مطابق غزلیات میر سے اشعار کا انتخاب کریں اور ایسے منتخب اشعار کا گہرا ناقدانہ مطالعہ مشرقی شعریات اور اصول بلاغت کی روشنی میں پیش کرسکیں اور افکار کا موازنہ مغربی اصول نقد سے استفادہ کرتے ہوئے کریں۔ یہ صرف اشعار کا لفظی مفہوم بیان کرنا بھی نہیں ہے جیسا کہ بیشتر ناقدین و شارحین کرتے آئے ہیں بلکہ ان کا تقابلی مطالعہ، معنوی تجزیہ اور شاعر کے افکار کے سرچشموں کی کھوج بھی ہے۔

    مجھے جلد اول میں فاروقی صاحب کی پیش کی ہوئی بعض تعبیروں سے اختلاف بھی ہے اور یہ بالکل فطری بات ہے۔ دوسروں کو بھی کہیں کہیں اختلاف ہوسکتا ہے۔ دراصل فاروقی صاحب نے اشعار کی جہات (DIMENSIONS) کے تعین کی کوشش کی ہے اور اس میں وہ کبھی زیادہ دور تک نکل گئے ہیں۔ مثلاً انہوں نے ایک شعر یوں لکھا ہے،

    شرم آتی ہے پونچتے اودھر

    خط ہوا شوق سے تر سل سا

    (ص۷۲)

    کلیات میر میں ’’پہنچتے‘‘ لکھا ہے لیکن مفہوم کا تقاضا ہے کہ یہ لفظ ’’بھیجتے‘‘ ہونا چاہیے۔ فاروقی صاحب کہتے ہیں کہ ’’ترسل‘‘ کے معنی عام لغات میں نہیں ملتے۔ یہ مدارس کی اصطلاح ہے۔ میر نے یہ لفظ ’’ذکر میر‘‘ اور ’’فیض میر‘‘ میں بھی استعمال کیا ہے۔ اس کا مفہوم ہے۔ ’حرف منفصل، حرفے کہ برائے اطفال نوشتہ دہند برائے خواندن‘‘ (یعنی الگ الگ لگے ہوئے مفرد حروف جو بچوں کو لکھ کر پڑھنے کے لیے دیے جاتے ہیں۔) میر نے ترسل اس لیے استعمال کیا کہ یہ ’’رسالہ‘‘ کے خاندان سے ہے اور رسالہ خط کو کہتے ہیں۔ ترسل فن مکتوب نگاری (EPISTOLARY) کو بھی کہتے ہیں (جیسے انشاے مادھورام، رقعات عنایت علی وغیرہ) اور اس کا باب افعال میں اشقاق ’’ارسال‘‘ ہے جو بھیجنے ہی کے معنوں میں ہے۔ میر کو ایسے الفاظ استعمال کرنے کا بہت شوق ہے جن میں تجنیس ہو، تلازمہ ہو یا ایک ہی خاندان سے ہوں اور معنوی یا لفظی مناسبت بھی رکھتے ہوں۔ مذکورہ شعر کا مطلب یہ ہوگا کہ و فور شوق نے خط کو بچکانہ اور بے ربط بنادیا، جیسے رسمی اور بے ربط الفاظ نومشق لکھتے ہیں اس لیے یہ خط محبوب کو بھیجتیے ہوئے شرم آرہی ہے۔ یہ ایک شعر میں نے بطور مثال لکھ دیا ہے۔

    فاروقی صاحب نے بعض اشعار کی ایسی نفیس تشریح کی ہے کہ اس پر قطعاً کوئی اضافہ ممکن نہیں۔

    ’’شعر شور انگیز‘‘ کی دوسری جلد ۵۱۸صفحات کو محیط ہے، اس میں دوواوین میر کی ردیف ب سے ردیف میم تک غزلیات کے اشعار کاانتخاب کیا گیا ہے۔ یہ حصہ ۱۹۹۱ء میں شائع ہوا حصہ اول کی طرح اس حصہ دوم میں بھی دیباچے کے مباحث شمس الرحمن فاروقی کے وسیع مطالعے اور برسوں کے غور و فکر کا حاصل ہیں۔ جلد دوم میں ’’معنی کے معانی‘‘ سے نہایت دلچسپ بحث کی گئی ہے۔ اسی سے مربوط مسئلہ ’’منشاء مصنف‘‘ کا ہے۔ یہ تخلیق، تنقید تحقیق اور تدوین ہر مرحلے میں ایک اہم سوال ہے کہ مقصود مصنف کا تعین کیسے ہو؟ کیا کسی فن پارے میں صرف ایک ہی معنوی جہت ہوتی ہے یا متعدد جہات ہوتی ہیں؟ کیا فن پارے میں ایسا مفہوم بھی ہوسکتا ہے جس کی خود مصنف کو خبر نہ ہو، کیا معنی پر اجارہ مصنف کا ہے یا مصنف صرف الفاظ پیش کردیتا ہے اور معنی اس میں قاری کا ذہن اور ذوق ڈالتے ہیں؟ یہ اور ایسے بہت سے بنیادی اور فروعی سوالات مشرقی و مغربی اصول بلاغت کی روشنی میں فاروقی نے حل کیے ہیں۔ ان کے بعض نتائج سے اختلاف ممکن ہے مگر اس میں شک نہیں کہ یہ مباحث پوری وضاحت اور سنجیدگی کے ساتھ فاروقی نے پہلی بار اردو میں پیش کیے ہیں۔ ان سے برسوں تک استفادہ کیا جائے گا۔

    شمس الرحمٰن فاروقی کا خیال ہے کہ ’’متن کو مراد مصنف کے خلاف بھی استعمال کیا جائے تو یہ فلسفہ معنی کی رو سے غلط نہ ہوگا۔‘‘ (ص۲/ ۷۷)

    پھول اس چمن کے دیکھتے کیا کیا جھڑے ہیں ہائے

    سیل بہار آنکھوں سے میری رواں ہے اب

    ۲۔ ۱۰۳)

    اس شعر کی تفسیر میں ذرا سی کسر رہ گئی۔ دیکھتے کا مفہوم ’’دیکھتے دیکھتے‘‘ نہیں ہے۔ چمن کا نظارہ کرنے میں ہی پھول کمھلاگئے، اب اس بہار کی یاد میں آنکھوں سے سیل خوں رواں ہے گویا وہ بہار گزشتہ آنکھوں کی راہ سے بہہ رہی ہے۔

    چشم دلِ کھول اس بھی عالم پر

    یاں کی اوقات خواب کی سی ہے

    (۲۔ ۱۰۷)

    فاروقی کہتے ہیں۔ ’’یہ مضمون کہ یہ دنیا کوئی خواب ہے جسے کوئی دیکھ رہا ہے، بہت ہی نادر ہے۔ میر کے دوسو برس بعد BORGES نے اپنے افسانے The Circular Ruins میں اس مضمون کو دریافت کیا۔ افسانے کا مرکزی کردار حقیقت کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ ایک وقت وہ بھی آتا ہے جب اسے محسوس ہوتا ہے کہ کائنات محض خواب ہے۔ پھر آخر آخر اسے ایسا لگتا ہے کہ وہ خود ایک خواب ہے جسے کوئی اور ہستی دیکھ رہی ہے۔‘‘

    (۲۔ ۱۰۷)

    اس میں BORGES کی کیا خصوصیت ہے؟ زندگی اور کائنات کے خواب و خیال ہونے کا فلسفیانہ نظریہ بہت قدیم ہے۔ حضرت علی کا قول ہے۔ الناس نیام اذاماتوا فانتبہوا (لوگ عالم خواب میں ہیں جب مریں گے تو بیدار ہوں گے) غالب نے بھی یہی کہا ہے،

    تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ

    جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا نہ سود تھا

    یا

    ہے غیب غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود

    ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں

    خواجہ میر درد بھی کہتے ہیں،

    وائے نادای کہ بعد از مرگ یہ ثابت ہوا

    خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا

    اب رہا اس نظریے کا دوسرا رخ کہ یہ خواب کوئی اور دیکھ رہا ہے، اس میں بھی BORGES کی خصوصیت نہیں، ویدانت کے تصور ’’مایا‘‘ میں یہ خیال بھی موجود ہے۔

    میر کے شعر،

    اس بحر حسن کے تئیں دیکھا ہے آپ میں کیا

    جاتا ہے صدقے اپنے جو لحظہ لحظہ گرداب

    کی تشریح میں فاروقی صاحب نے مثنوی مولانا روم کی ایک حکایت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’اغلب ہے کہ بنیادی مضمون جو صوفیہ کے یہاں کئی مختلف انداز سے ملتا ہے، میرنے مولانا روم سے ہی لیا ہوگا۔‘‘ (۲۔ ۱۱۲)

    میر کی نظم و نثر میں کہیں کوئی اشارہ نہیں ملتا جس سے ظاہر ہو کہ انہوں نے مثنوی مولانا روم کا مطالعہ کیا تھا۔ کسی (بزرگ) شخصیت کے گرد طواف کرنے کے حوالے بہت ملتے ہیں مگر اس شعر کا CONTEXT بالکل مختلف ہے۔ یہاں تو خود ا پنے وجود پر واری صدقے ہونے کا ذکرہے۔

    چور اچکے سکھ مرہٹے شاہ و گدا زر خواہاں ہیں

    چین سے ہیں جو کچھ نہیں رکھتے فقر بھی اک دولت ہے اب

    فاروقی صاحب کہتے ہیں کہ ’’کوئی ضروری نہیں کہ اس شعر میں کوئی اصلی تاریخی واقعہ یا صورت حال نظم کی گئی ہو۔۔۔ یہ شعر اس لیے اہم نہیں کہ اس میں کوئی تاریخی ’’سچائی‘‘ ہے بلکہ ممکن ہے کوئی واقعی سچائی اس میں ہو بھی نہیں۔ دیوان پنجم کا زمانہ تحریر ۱۷۹۸ سے ۱۸۰۳ تک کہا جاتا ہے۔ اس زمانے میں میر لکھنؤ میں آباد ہوچکے تھے اور وہاں سکھوں اور مرہٹوں کا کوئی عمل دخل نہ تھا۔‘‘ (۲۔ ۱۳۱)

    یہ تجزیہ حیرت انگیز ہے۔ آخر عہد مغلیہ کی تاریخ پر نظر رکھنے والا اس شعر کو پوری طرح واقعاتی اور تاریخی حقیقت کا اظہار کہے گا۔ یہ کہنا کہ اودھ میں سکھوں اور مرہٹوں کا عمل دخل نہ تھا آدھی سچائی ہے۔ مرہٹے برابر نوابان اودھ کو پریشان کرتے رہے اسی طرح اودھ سے ملحق بنگش خاندان کے علاقے میں اور نواب رحمت خاں کی ریاست میں اودھم مچاتے رہے۔ اس کی تفصیل میں جانے کا یہ محل نہیں۔ شعر پوری طرح واقعاتی ہے۔ البتہ اسے دوسرے مصرعہ نے ہر زمانے کے لیے ایک صداقت بنادیا ہے۔

    تن راکھ سے ملا سب آنکھیں دیے سی جلتی

    ٹھہری نظر نہ جوگی میر اس فتیلہ مو پر

    (۲۔ ۱۵۶)

    میرا خیال ہے کہ دوسرے مصرعہ کی صحیح قرات یوں ہے،

    ٹھہری نظر نہ جو کی میر اس فتیلہ موپر

    میر نہ ایسا ہو وے کہیں پردے ہی پر وہ مار مرے

    ڈر لگتا ہے اس سے ہم کو ہے وہ ظاہر دار بہت

    (۲۔ ۱۵۷)

    پہلے مصرعے میں ’’پردے ہی پر وہ‘‘ نہیں ’’پردہ ہی پردے‘‘ زیادہ صحیح ہوگا۔ ظاہر دار یعنی اندر کچھ بھی کیفیت گزر رہی ہو وہ خود کو COMPOSE کیے رکھتا ہے۔ اندیشہ یہ ہے کہ اندر ہی اندر (پردے ہی پردے) گھل کر مر نہ جائے۔ فاروقی صاحب کی تشریح دورازکار ہے۔

    طالب آئلی کے شعر،

    مردم ز رشک چند بہ بینم کہ جام مے

    لب برلبش گداز د و قالب تہی کند

    فاروقی کہتے ہیں کہ دوسرے مصرعہ میں ’’قالب تہی کند‘‘ Erotic اشارہ ہے۔ انہوں نے اس کا ترجمہ بھی ’’اپنا بدن خالی کردیتا ہے‘‘ کیاہے۔ مگر فارسی میں قالب تہی کردن کے معنی جان دینا، مرجانا ہیں۔

    شہرسے یار سوار ہوا جو سواد میں خوب غبار ہے آج

    دشتی وحش وطیر اس کے سر تیزی ہی میں شکار ہے آج

    (۲۔ ۱۸۷)

    فاضل شارح نے سر تیزی کے معنی نہیں لکھے اور سواد کا مفہوم لکھا ہے ’’عمارتوں یا لوگوں کا مجمع، مثلاً سواداعظم یعنی بڑا شہر (مجازاً مکہ معظمہ) یا قوم کی اکثریت۔‘‘ لیکن یہ سب دور افتادہ مفہوم ہیں سواد کا مطلب OUT SKIRT یا PERIPHERY زیادہ صحیح ہے اور وہی یہاں مراد ہے۔

    سر تیر، سر تیز اور سر تیزی تینوں کے معانی الگ ہیں۔ دوسرا مصرعہ یوں ہوگا

    دشتی وحش وطیر اس کی سر تیزی ہی میں شکار ہیں آج

    تو مطلب یہ نکلے گا کہ آؔج سب اس کے ایک جھپا کے میں شکار ہوجائیں گے اور اسے ’’سر تیری‘‘ (رائے معجمہ) سے پڑھیں (جو دورازکار ہے) تو مفہوم یہ نکلے گا کہ دشت کے کنارے پر ہی شکار ہوجائیں گے۔ نوک مژگاں کا مفہوم درواز کار ہے۔

    چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر

    منھ نظر آتا ہے دیواروں کی بیچ

    (۲/ ۱۹۷)

    یہ میر کے بہترین اشعارمیں سے ایک ہے اور اس کا مفہوم بہت گہرا اور وسیع ہے مگر فاضل شارح اسے دوسری جہات میں لے گئے اور الفاظ سے فوری طور پر متبادر معنی پر غور نہیں کیا۔ گچ یا مٹی کی دیواروں میں قلعی یا اوپر کے پلاسٹر اکھڑ جانے پر جگہ جگہ کچھ نشان رہ جاتے ہیں اور ان پر غور کریں تو کبھی کسی شخص کی کبھی کسی جانور کی، یا کسی شے کی، تصویر صاف نظر آتی ہے۔ دوبارہ کبھی اسی جگہ پر نگاہ جمائیں تو وہ تصویر جو پہلے نظر آئی تھی، غائب ہوتی ہے اور اس کی جگہ کوئی اور شکل ابھر آتی ہے۔ یہ آئے دن کا مشاہدہ ہے۔ میر نے اس امیجری سے کام لے کر نہایت لطیف اور بلیغ مضمون پیدا کیا ہے۔ صورت یا تصویر تو شفاف سطح میں نظرآتی ہے جیسے آئینے میں۔ مگر جو اہل نظر ہیں، حقیقت کے جویا ہیں، غور و فکر کرتے ہیں۔ یا جن کے باطن کی آنکھیں کھلی ہوتی ہیں وہ کھردری اور غیرشفاف سطح میں بھی دیکھ لیتے ہیں جیسے شیخ سعدی نے کہا ہے،

    برگ درختان سبز در نظر ہوشیار

    ہر ورقے دفتر لیست معرفت کردگار

    اسی طرح میر کا یہ شعر بھی بہت پہلودار ہے اور ایک نہایت دقیق مضمون کو ایسے انداز سے پیش کیا ہے جو ایک قادر الکلام شاعر ہی کہہ سکتا تھا جس کی نظر فلسفہ وحدت الوجود پر بھی رہی ہو،

    ہم ہیں قلندر آکر اگر دل سے دم بھریں

    عالم کا آئینہ ہے سیہ ایک ھو کے بیچ

    (۲۔ ۲۱۰)

    قلندر وہ ہے جو ترک دنیا اور ترک لباس کرچکا ہے۔ دم بھرنے سے ذکر قلبی مراد ہے۔ اس میں ایک منزل وہ آتی ہے جب زبان ساکت ہوتی ہے دل ذاکر ہوجاتا ہے۔ پھر ذکر بھی فنا ہوجاتا ہے اور مذکور رہ جاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جب ذات بحت ھو کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ صوفیہ کہتے ہیں کہ ذات بحت کے مشاہدے میں تاریکی ہی تاریکی ہے۔ یعنی مظاہر سب فنا ہوجاتے ہیں۔ وہ ذات جو نورالسموت والارض ہے، رہ جاتی ہے اور نور کے وفور کو سائنس بھی سیاہ کہتی ہے۔ فاروقی صاحب شعر کے اس پہلو سے ذرا بچ کر نکل گئے۔

    مر رہ کہیں بھی میر جا سر گشتہ پھرنا تا کجا

    ظالم کس کا سن کہا کوئی گھڑی آرام کر

    (۲۔ ۲۵۰)

    فاروقی کہتے ہیں، پہلے مصرعہ میں مر رہنے کی تلقین ہے۔۔۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مصرعہ اولی کا متکلم کوئی اور شخص (مثلاً بیدرد ناصح) ہو‘‘ ۔ مر رہنا یہاں لغوی معنوں میں نہیں۔ یہ روز مرہ ہے ایک طرح سے محبت اور ہمدردی کے ساتھ جھڑکنا۔ اور مصرعہ اولیٰ میں تخاطب کسی ناصح مشفق کا ہے ناصح بیدرد کا نہیں۔

    وے لوگ تم نے ایک ہی شوخی میں کھودیے

    پیدا کیے تھے چرخ نے جو خاک چھان کر

    (۲۔ ۲۵۶)

    اس میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ سونا یا ہیرے جیسی بیش قیمت چیزیں خاک چھان کر ہی ملتی ہیں۔

    اس بستر افسردہ کے گل خوشبو ہیں مرجھائے ہنوز

    اس نکہت سے موسم گل میں پھول نہیں یاں آئے ہنوز

    (۲۔ ۲۸۴)

    اس شعر کی تشریح میں مصنف نے جو کچھ لکھا ہے وہ قابل قبول نہیں۔ ’’بستر افسردہ‘‘ کے معنی کو واضح کرنا ضروری تھا کیونکہ شعر کا مفہوم اسی میں گرہ ہے۔ ’’مرجھائے ہنوز‘‘ کا مطلب ہے مرجھانے پر بھی۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ محبوب بعد وصل رخصت ہوا ہے تو بستر افسردہ نظر آرہا ہے مگر پھولوں میں مرجھانے پر بھی خوشبو باقی ہے اور یہ محبوب کے بدن کی خوشبو ہے ورنہ ابھی تک کسی موسم بہار میں ایسے پھول نہیں آئے جو مرجھانے پر بھی خوشبو دیتے ہوں۔

    کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق

    جان کا روگ ہے بلا ہے عشق

    (۲۔ ۳۳۶)

    فاضل شارح نے اس شعر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے، ’’دیوان چہارم و پنجم میں عشق کی ردیف کے اشعار سب سے زیادہ شاندار ہیں۔ ممکن ہے ماہرین نفسیات کی نظر میں اس تدریج کی کوئی خاص اہمیت ہو، میں تو یہی کہہ سکتا ہوں کہ ان دواوین کی ترتیب کے وقت میر کی عمر بالترتیب بہتر اور چھہتر سال تھی اور اس عمر میں عشق کے مضمون کا یہ ولولہ اور جوش کسی روحانی انکشاف کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔‘‘

    ’’روحانی انکشاف‘‘ کا تو کوئی اکتشاف نہیں ہوتا البتہ بعض مصادر سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ بڑھاپے میں بھی میر کی یہ ہوس باقی تھی جو ممکن ہے جنسی ناآسود گی کا ثمرہ ہو۔ سعادت خاں ناصر کا بیان ہے کہ انہوں نے بڑھاپے میں شادی بھی کی تھی، یہ نہ بھی ہو تو سلیمان شکوہ کے ایک شعر میں اس ہوس کا واضح اشارہ موجود ہے،

    دربار میں کرے ہے بیاں اپنے عشق کا

    دیکھو تو اس بڑھاپے میں تم میر کی ہوس

    (دیوان سلیمان شکوہ ص۹۶)

    مہر قیامت، چاہت آفت، فتنہ، فساد، بلا ہے عشق

    عشق اللہ، صیاد انہیں کہیو جن لوگوں نے کیا ہے عشق

    مہر سورج کو بھی کہتے ہیں محبت کو بھی۔ قیامت کے ساتھ سورج کے سوا نیزے پر آنے کا تصور بھی وابستہ ہے۔ میر پہلے مصرعہ میں محبت کو قیامت، چاہت کو آفت اور عشق کو فتنہ، فساد، بلا سے تعبیر کرتا ہے دوسرے مصرعے میں ’’عشق اللہ‘‘ معترضہ بھی ہوسکتا ہے۔ جیسے اردو میں الہی، یا اللہ وغیرہ عربی میں اللہم۔ وہ لوگ صیاد کہے جانے کے قابل ہیں جنہوں نے اتنی آفتوں کو قابو میں کرلیا۔ فاروقی صاحب کا یہ قول بہت دور ازکار ہے کہ ’’عشق منادی ہو اور مراد یہ ہو کہ اے عشق جن لوگوں نے عشق کیا ہے انہیں ’’اللہ صیاد‘‘ (یعنی یزداں شکار) کہنا۔‘‘ (۲/ ۳۵۳)

    میر گم کردہ چمن زمزمہ پرداز ہے ایک

    جس کی لے دام سے تا گوش گل آواز ہے ایک

    اس شعر کی تفسیر میں مصرعہ ثانی ’’جس کی لے‘‘ کو فاروقی لے (بہ معنی آواز، سر) مان رہے ہیں ’’اس کی لے ایسی ہے کہ دام سے لے کر گوش گل تک ایک آواز پھیلی ہوئی ہے۔‘‘ (۲/ ۳۶۸)

    حالانکہ یہاں واضح طور پر ’’دام سے لے کر گوش گل تک‘‘ کا مفہوم ہے۔

    اب کی ہزار رنگ گلستاں میں آئے گل

    پر اس بغیر اپنے تو جی کو نہ بھائے گل

    بالکل صاف اور سادہ شعر ہے مگر شارح نے ایک اور نکتہ پیدا کیا ہے کہ ’’مصرعہ میں گل بمعنی داغ بھی ہوسکتا ہے یعنی معشوق کے بغیر جو داغ کھائے وہ کچھ اچھے نہیں لگے۔‘‘ (۲/ ۴۴۷) وہ ’’گل‘‘ جو معنی داغ ہے وصل میں ہوتا ہے ہجر سے اس کا علاقہ نہیں۔ ’’گل چھلے‘‘ اڑانا اسی جانب اشارہ کرتا ہے۔ یہاں تو بس اتنا ہی ہے کہ ہزار رنگ کے پھول لے کر بہار آئی ہے مگر محبوب کے بغیر ہمارے جی کو کچھ نہیں بھاتا۔

    قدر و قیمت اس سے زیادہ میر تمہاری کیا ہوگی

    جس کے خواہاں دونوں جہاں ہیں اس کے ہاتھ بکاؤ تم

    (۲/ ۴۹۳)

    فاروقی صاحب کہتے ہیں، ’’اے میر تم خود کو اس کے ہاتھ فروخت کردو جس کا دوجہاں خریدار ہے۔‘‘ شعر کی نحوی ترکیب کا تقاضا ہے کہ یہاں بکاؤ (واؤ معروف سے) ہے بمعنی فروخت شدہ یا فروخت شدنی۔ بکاؤ بمعنی بیچو (واؤ مجہول سے) نہیں ہے۔ خریدنا خریدار کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے یہ اشارہ قرآنی آیت ان اللہ اشتری من المومنین انفسہم الخ (التوبہ ۱۱۱) کی طرف ہو۔

    تیسری جلد کی تمہید میں جناب شمس الرحمن فاروقی نے مشرقی شعریات پر بہت مفید اور مفصل بحث کی ہے جو تقریباً سوا سو صفحات کو محیط ہے۔ اس پر تبصرہ کرنا تو دشوار ہے، مگر اتنا اشارہ کردوں کہ ایہام کے بارے میں فاروقی نے کچھ نئی باتیں کہیں ہیں جو غور و فکر کا مطالبہ کرتی ہیں انہوں نے اس مفروضے پر بھی شبہ کا اظہار کیا ہے کہ شاہ سعداللہ گلشن نے ولی کو فارسی مضامین پر ہاتھ صاف کرنے کا مشورہ دیا۔ ’’شاہ گلشن ایک متدین اور ثقہ شخص تھے یہ بات قرین قیاس نہیں کہ انہوں نے ایسی غیر اخلاقی بات کہی ہو کہ فارسی والوں کے مضامین اردو میں لکھو، تمہیں پکڑنے والا کون ہے؟‘‘ (۳/ ۹۲) میں نہیں سمجھتا کہ اس میں ’’غیر اخلاقی‘‘ بات کیا ہے؟ فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں شعر کہنے والوں کی جو فہرست فاروقی صاحب نے دی ہے اس میں ٹیک چند بہار، سیالکوٹی مل وارستہ اور آنند رام مخلص بھی شامل ہیں جنہوں نے شاید کبھی ایک آدھ شعر ہی اردو میں کہا ہو۔

    فاروقی صاحب نے ایہام اور رعایت کو ہم معنی سمجھ لیا ہے، اس سے بھی بعض نتائج کے نکالنے میں اختلاف کی گنجایش پیدا ہوئی ہے۔ ایہام کے بارے میں سودا کے شعر

    یک رنگ ہوں آتی نہیں خوش مجھ کو دورنگی

    منکر سخن و شعر میں ایہام کا ہوں میں

    کی جو تشریح کی ہے وہ بھی کسی حد تک اصل سے دور جاپڑی ہے۔ درد نے جو کہا ہے،

    از بسکہ ہم نے نام دوئی کا مٹادیا

    اے درد ہمارے وقت میں ایہام رہ گیا

    اس کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ دوئی بس ایہام میں رہ گئی ہے کہ اس میں ایک لفظ کے دو معنوں کا احتمال ہوتا ہے، مگر دوسرا مفہوم یہ بھی ہے کہ ’’رہ گیا‘‘ بمعنی ختم ہوگیا سمجھا جائے۔

    پنجہ ہے مرا پنجہ خورشید میں ہر صبح

    میں شانہ صفت سایہ رو زلف بتاں ہوں

    (۳/ ۲۰۳)

    اس شعر کی فاروقی صاحب نے لاجواب تشریح کی ہے۔ ایسے اشعار بڑی تعداد میں ہیں جن کے معانی کی پرتیں فاروقی نے بڑی دیدہ وری سے کھولی ہیں

    کوئی بجلی کا ٹکڑا اب تلک بھی

    پڑا ہوگا ہمارے آشیاں میں

    (۳/ ۲۶۸)

    اس کی تفسیر کرتے ہوئے شارح کا ذہن اس طرف شاید منتقل نہیں ہوا کہ بجلی گرتی ہے تو کبھی اس کا ایک ٹکڑا سرد ہوکر معدنی شکل میں زمین پر ہی رہ جاتا ہے، واپس نہیں جاتا۔

    بے تہی دریاے ہستی کی نہ پوچھ

    یاں سے واں تک سو جگہ ساحل ہے میاں

    (۲/ ۳۱۷)

    اس شعر میں ’’بے تہی سے بہت زیادہ گہرائی، تھاہ کا نہ ہونا‘‘ مراد نہیں لیا جاسکتا۔ سفلگی اور بے وقعت ہونا ہی مراد ہے۔

    دل جہاں کھویا گیا کھویا گیا پھر دیکھیے

    کون جیتا ہے، جیے ہے کون ناپیدا ہو میاں

    (۳/ ۳۲۱)

    فاروقی کہتے ہیں، اس کی ’’نثریوں ہوگی: کون جیتا ہے، کون جیے ہے، کون ناپیدا ہو میاں۔‘‘ یہ محل نظر ہے۔ شعر صاف ہے، مطلب یہ ہے کہ دل گیا تو گیا اس کے بعد زندگی کا کیا مزہ؟ دل کھو کر کون جیا ہے اور کون جیے ہے؟ گویا دل والا ہی ناپیدا ہوگیا۔ بھلا کوئی ناپیدا بھی جی سکتا ہے؟

    میرا ذوق یہ کہتا ہے کہ دوسرا مصرعہ یوں ہوگا، ’’کون جیتا ہے، جیے ہے کون ناپیدا ہو میاں‘‘ یعنی جب تک وہ کھویا ہوا دل ملے اس وقت تک زندہ رہنے کی امید کس کو ہے؟

    فاضل شارح نے متعدد بار میر کی ’’بددماغی‘‘ کا حوالہ دیا ہے، مگر میر ہمیشہ لفظ ’’بے دماغی‘‘ استعمال کرتا ہے۔ بددماغی تو کج خلقی، اکھڑپن اور بدتمیزی ہے، بے دماغی طبیعت کا حاضر نہ ہونا، کسی بات یا منظر سے محظوظ ہونے کا ولولہ نہ ہونا ہے۔

    فاروقی صاحب بعض حوالے اس طرح بے تکلف دیتے ہیں جن کی تصدیق کرنا مشکل ہے مثلاً یہ کہنا کہ یہ خیال میر نے مولانا روم سے لیا ہے، یا فلاں مضمون شاہ عبدالرزاق جھنجھانوی کے ایک خط سے ماخوذ ہے (۳/ ۳۵۶) حالانکہ ثابت یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ میر شاہ عبدالرزاق کے نام سے بھی واقف رہے ہوں، ان کے مکتوبات بھی ہمیشہ ایک نہایت محدود حلقے کی دلچسپی رہے ہیں۔

    کیا پری خواں ہے جو راتوں کو جگاوے ہے میر

    شام سے دل، جگر و جان جلاتا ہے میاں

    (۳/ ۳۵۵)

    اس میں جلانے کا فاعل دل ہے، جگر و جان مفعول ہیں، پری خواں دل کے لیے استعارہ ہے۔

    پر تو گزرا قفس ہی میں دیکھیں

    اب کی کیسا یہ سال آتا ہے

    (۳/ ۳۴۶)

    یہاں ’’پر‘‘ پچھلے برس کے معنوں ہی میں ہے۔ کھڑی بولی کے علاقے میں آج بھی پارسال، پرسال پر کے اور صرف پر زمانہ گزشتہ کے لیے بولا جاتا ہے۔

    مجھ کو دماغِ وصف گل و یاسمن نہیں

    میں جوں نسیم باد فروش چمن نہیں

    (۳/ ۳۷۱)

    اس کی تشریح میں فاوقی صاحب کو یہ دھیان نہیں آیا کہ جاگیرداری کے ماحول میں ایک طبقہ بھاٹ یا بھانڈ بھی تھا۔ اسے باد فروش کہتے ہیں اس کا کام یہ تھا کہ شہر کے کسی رئیس یا نمایاں شخص کے اوصاف دوسری محفلوں میں بہت مبالغے سے بیان کرتا تھا۔ مثلاً ’’فلاں بڑے سخی ہیں ان کے دربار سے میں گھوڑے ملے، جوڑے ملے، توڑے ملے‘‘ وغیرہ یا ان کا شجرہ نسب بیان کرکے خاندانی نجابت کا اعلان کرتا تھا اور اس کا صلہ ممدوح سے پاتا تھا۔ باقی تلازمے میر کے شعر میں ظاہر ہیں۔

    اے بے گرسنہ چشم ہیں مردم نہ ان سے مل

    دیکھیں ہیں ہم نے پھوٹتے پتھر نظر سے یاں

    (۳/ ۳۷۴)

    اس کی تشریح دورازکار ہے۔ مراد شاعر صرف یہ ہے کہ لوگ ندیدے ہیں، ان کی مجھے نظر لگ جائے گی۔ یہ مشہور کہاوت ہے کہ نظر پتھر کو بھی توڑ دیتی ہے۔

    چرخ کو کب یہ سلیقہ ہے ستمگاری میں

    کوئی معشوق ہے اس پردہ زنگاری میں

    (۳/ ۳۸۱)

    یہ شعر جواہرسنگھ جوہر کا بتایا ہے مگر دراصل منولال صفا شاگرد غلام ہمدانی مصحفی کا شعر ہے

    صبح ہوئی گلزار کے طائر دل کو اپنے ٹٹولیں ہیں

    یاد میں اس خود رو گل تر کی کیسے کیسے بولیں ہیں

    (۳/ ۳۸۳)

    میرا خیال ہے مصرعہ اولیٰ میں ’’صبح ہوئے‘‘ پڑھنا زیادہ موزوں ہوگا۔ شارح نے خود رو کو بروزن خوشبو بتایا ہے۔ روئیدن مصدر کا مضارع روید اور فعل امررو (بروزن گو) ہونا چاہیے۔ اس میں ’’خود رو گل تر‘‘ سے خداے لم یلد ولم یولد مراد ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ صبح کو طائران خوش الحان ذکر الٰہی، تسبیح و تمہید کرتے ہیں۔

    محسن تاثیر کا شعر ہے،

    گرچہ یک سرو بہ رعنائی آں قامت نیست

    چوں کہ تقطیع کند مصرعہ موزوں گردد

    (۳/ ۳۸۷)

    اس کا مفہوم یوں لکھا ہے ’’سروچونکہ تقطیع کرتا ہے اس لیے وہ بھی مصرعہ موزوں ہوجاتا ہے۔‘‘ حالانکہ شاعر کی مراد یہ ہے کہ اس کی کاٹ چھانٹ کی جاتی ہے تو مصرعہ موزوں کی شکل بنتی ہے۔

    لڑنا کاواکی سے فلک کا پیش پا افتادہ ہے

    میر طلسم غبار جو یہ ہے کچھ اس کی بنیاد نہیں

    (۳/ ۴۰۶)

    کاواک بہ معنی چالاک بھی روزمرہ ہے یعنی کوئی ہو کچھ نہیں مگر مکاری سے خود کو وہ ظاہر ہے جو وہ نہیں ہے۔

    تب تھے سپاہی اب ہیں جوگی، آہ جوانی یوں کاٹی

    ایسی تھوڑی رات میں ہم نے کیا کیا سوانگ بنائے ہیں

    (۳/ ۴۲۶)

    تب یعنی جوانی میں، اب یعنی جوانی کے بعد۔ سوانگ یہ کہ نہ اس کی کچھ اہمیت تھی نہ اس کی کچھ حقیقت ہے۔ جوگی اور سپاہی کے اعمال کا فرق ظاہر ہے۔

    نہ سوئے نیند بھر اس تنگ نا میں تانہ موئے

    کہ آہ حانہ تھی پا کے دراز کرنے کو

    (۳/ ۴۷۰)

    پاؤں پھیلانا اظہار فراغت و اطمینان کے لیے بھی آتا ہے۔

    ہو شرم آنکھ میں تو بھاری جہاز سی ہے

    مت کرکے شوخ چشمی آشوب سا اٹھاؤ

    (۳/ ۴۷۷)

    شارح کہتے ہیں، ’’آشوب سا میں لفظ‘‘ بھرتی کا ضرور ہے۔‘‘ مجھے اس سے اتفاق نہیں ’’سا‘‘ میں کلام کیوں ہے؟ وہ آشوب حقیقی تو ہے نہیں، جو شوخ چشمی سے پیدا ہو وہ ’’آشوب سا‘‘ ہی ہوگا۔

    میر کے اشعار کی طرح یہ شرح بھی شور انگیز ہے۔ اتنے کثیر اشعار کی اتنی مفصل اور عالمانہ شرح کسی میر شناس نے نہیں لکھی تھی۔ کلام میر کی بلاغت اور معنوی لطافتوں کی طرف نواب جعفر علی خاں اثر لکھنوی مرحوم نے مقدمہ ’’مزامیر‘‘ کے علاوہ اپنے بعض مضامین میں بھی بڑی پتے کی باتیں لکھی تھیں، اگر اثر لکھنوی کی زندگی میں یہ کتاب چھپی ہوتی تو وہ اس کی سب سے زیادہ قدر بھی کرتے، اور یہ بھی خیال ہوتا ہے کہ بعض شرحوں سے وہ اختلاف بھی ضرور کرتے۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے میر شناسی کے لیے ایک اور دروازہ کھول دیا ہے۔ ’’شعر شور انگیز‘‘ سے ہر زمانے میں استفادہ کیا جائے گا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے