Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

صلہ ہے تیری ریاضت کا صبح آزادی

سید عابد حسین

صلہ ہے تیری ریاضت کا صبح آزادی

سید عابد حسین

MORE BYسید عابد حسین

    اے بھارت کی امر آتما، اے ہند کی لا و فانی روح! جو سدا دکھ سہہ کر پنپتی، آگ میں تپ کر دہکتی رہی جو محبت کے جادو سے غیروں کو اپناتی، دشمنوں کو دوست بناتی رہی، جو ہر حال میں حق کو ڈھونڈتی اور ہر رنگ میں پاتی رہی، جو اسی کی دھن میں جی جی کے مرتی اور مر مر کر جیتی رہی۔

    اے مہاتما گاندھی!

    آج 26 جنوری 1950ء کے دن جبکہ ہندوستان پابندی کے آخری بندھنوں کو توڑ کر فخر و ناز، ذوق و شوق اور عجز و انکسار کے ساتھ دنیا کی آزاد جمہوریتوں کی صف میں کھڑا ہو رہا ہے، ہم بے اختیار تجھ کو یاد کرتے ہیں اور تیرے سامنے نیاز و عقیدت کا ہدیہ پیش کرتے ہیں۔ یہ دن جس کے لیے ہم برسوں سے تڑپ رہے تھے، ہمیں صرف تیری بدولت حاصل ہوا ہے۔ یہ بات ہم بے سمجھے بوجھے جذبات کے جوش اور خیالات کی رو میں نہیں کہہ رہے ہیں، اس لیے کہ تو نے ہمیں جذبات کو ضبط کرنا، خیالات کو جانچنا اور پرکھنا اور لفظوں کو تولنا سکھا دیا ہے۔ ہم سنجیدگی سے یہ سمجھتے ہیں اور ذمہ داری کے ساتھ کہتے ہیں کہ اگر آج سے 30 برس پہلے تو نے ہندوستان کی سیاست کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں نہ لی ہوتی تو ہمیں ایک مدت تک غلامی کی ذلت سے چھٹکارا نہ ملتا۔ ہم غریب تھے، جاہل تھے، ہم میں آپس میں پھوٹ تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہماری ہمتیں پست تھیں اور ہمیں اپنے اوپر بھروسہ نا تھا۔ ہم میں سے کچھ من چلے سیاسی انجمنوں میں گرمی محفل کے لیے تقریریں کرتے تھے اور کچھ بگڑے دل حکومت کو چھیڑنے کے لیے چھوٹی موٹی شورشیں اٹھاتے تھے۔ جو کھوٹے تھے وہ آخر میں اپنی پوری قیمت پانے کے بعد حکومت کے ہاتھ بک جاتے تھے اور جو کھرے تھے وہ قید فرنگ میں گھٹ کر مر جاتے تھے اور ہمارے کان پر جوں تک نہ رینگتی تھی۔ یہ تھی ہماری سیاسی تحریک کی حقیقت۔ در اصل آزادی کا تو نام بھی ہماری زبان پر بہت کم آتا تھا اور آتا بھی تھا تو ذہن میں اس کا کوئی واضح تصور نہیں ہوتا تھا۔

    یہ خیال کہ انگریز ہندوستان سے چلے جائیں اور ہم اپنے اوپر آپ حکومت کریں کبھی ہمارے خواب میں بھی نہ آیا تھا۔ ہمیں نہ صرف آزادی کے عملی امکان میں بلکہ اس کے اخلاقی جواز میں بھی شبہہ تھا۔ ہمارے دل میں یہ خیال بیٹھا ہوا تھا کہ انگریز کی حکومت سے سرتابی قانون اخلاق بلکہ قانون قدرت سے سرتابی ہے۔ ہم پر ایک بے پایاں ہمہ گیر خوف مسلط تھا، برطانوی حکام کی قوت اور قدرت کا خوف، اپنے ماضی اپنے حال اور اپنے روندی ہوئی شخصیتوں کا خوف۔ تونے اپنی تعلیم سے اور اس سے کہیں زیاد ہ اپنی مثال سے ہمیں یہ سکھایا کہ اپنے نفس سے غلامانہ احساس کمتری کو اور بزدلانہ نفرت و کدورت اور تعصب کو دور کریں تاکہ ہمیں اپنے آپ سے خوف اور وحشت نہ رہے اور ہمارے اندر خود داری اور خود اعتمادی پیدا ہو۔ جن لوگوں نے تیرے فیض نظر سے مجاہدۂ نفس کی یہ منزل طے کر لی وہ ہر طرح کے خوف سے بھی آزاد ہو گئے۔ وہ تیرے جھنڈے کے نیچے جمع ہو کر تاریخ اور تقدیر سے، زمانے اور ماحول سے خود اپنے دیس کی مخالف قوتوں سے اور برطانوی سامراج کی بے پناہ طاقت سے نپٹنے کو تیار ہو گئے۔ ان کا ہتھیار اہنسا تھا جو صبر اور ضبط، ایثار اور قربانی، دل سوزی اور محبت کے امتزاج سے بنا تھا۔ اس سے لڑنے میں یہ لطف تھا کہ فتح تو فتح شکست میں بھی جیت تھی۔ تو نے اہنسا کی کئی لڑائیاں لڑیں اور باہر سے دیکھنے والوں کو یہی معلوم ہوا کہ تو سب میں ہار گیا اس لیے کہ بظاہر بدیسی حکومت کی قوت اور قدرت، حشمت اور جلال میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ لیکن ہر مرتبہ تیری اور تیرے ساتھیوں کی مظلومیاں اور قربانیاں جن پر صبر اور ضبط نے غضب کی دھار رکھ دی تھی، دیسی اور بدیسی دشمنوں کے دل میں اترتی چلی گئیں۔ ہندوستان میں کم اور انگلستان میں زیادہ، فریب کا وہ طلسم جو انگریزوں نے باندھ رکھا تھا کہ وہ ہندوستان یوں پر ان کی مرضی سے اور ان کی بھلائی کی خاطر راج کرتے ہیں، دھواں بن کر اڑنے لگا۔ ادھر حریف کا اخلاقی مورچہ ٹوٹ رہا تھا اور ادھر آزادی کے نہتے سپاہیوں کے دلوں میں یہ جاں بخش اور جاں فزاخیال مستحکم ہوتا جاتا تھا کہ وہ حق پر ہیں اور حق کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اس اخلاقی جنگ کا وہی نتیجہ ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ انگریز اپنی ساری طاقت کے باوجود ہندوستان چھوڑنے پر مجبور ہو گئے اور ہندوستان ی اپنی ساری کمزوریوں کے باوجود اپنی قسمت کے معمار بن کر آج ایک آزاد با اقتدار جمہوریت کا سنگ بنیاد رکھ رہے ہیں۔

    اے خدا کے حق شناس، حق کا سنگ بنیاد رکھ رہے ہیں۔

    سچائی کی لگن جو تو نے ہمارے دل کو لگادی ہے ہمیں اس اعتراف پر مجبور کرتی ہے کہ مجموعی طور پر ہم آج بھی آزادی کے شایان اور جمہوریت کے قابل نہیں ہیں۔ ہم میں سے اکثر میں وہ ساری خرابیاں جہالت، تاریک خیالی، کاہلی، خود غرضی، بددیانتی، تنگ نظری، فرقہ پرستی، صوبہ پرستی۔۔۔ جنھوں نے ہمیں غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا تھا، آج بھی موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا نظم و نسق ڈھیلا ہے، ہماری معاشی حالت پست ہے اور ہماری سیاسی زندگی ابتر ہے۔ ہماری شدت احساس یہ بھیانک تصویر دکھاتی ہے، تو ہمارے دل پر مایوسی اور آنکھوں میں تاریکی چھا جاتی ہے، لیکن جب ہم تیری تعلیم کے مطابق جذبات سے الگ ہو کر بے لاگ نظر سے صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں تو اس مایوسی میں امید کی، اس تاریکی میں روشنی کی جھلک دکھائی دیتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر چہ تو ہماری سب برائیوں کو دور نہیں کر سکا لیکن تونے ہمیں اچھائی اور برائی میں فرق کرنا سکھا دیا ہے۔ تو نے ہماری نظر میں صحیح اور اونچے معیار قائم کردیے ہیں جن پر ہم اپنے ارباب حکومت و انتظار ارباب علم و سیاست اور ارباب صنعت و تجارت کو پرکھتے ہیں۔ اگر اسی کے ساتھ ہم میں سے ہر ایک اپنے آپ کو بھی ان ہی کڑی کسوٹیوں پر کسنے لگے تو ہماری موجودہ بے چینی بڑی مبارک، بڑی مقدس بے چینی ثابت ہو گی، کیونکہ اس کی خلش اس پر مجبور کرے گی کہ خود اپنے اندر بھی اور ملک کی عمومی زندگی میں بھی ان برائیوں کے خلاف جہاد کریں اور انہیں جڑ سے اکھاڑ کر رہیں۔

    اس جہاد میں خدا کی توفیق، تیری یاد اور تیری مثال ہماری رہنمائی کرے گی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے