Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سر سید اور علی گڑھ تحریک کے موافق اور مخالف

فرخ جلالی

سر سید اور علی گڑھ تحریک کے موافق اور مخالف

فرخ جلالی

MORE BYفرخ جلالی

     

    ہر انقلابی کی ایک بڑی مشکل یہ ہوتی ہے کہ اس کو مصلح بھی بننا پڑتا ہے۔ سر سیدذہن اور ذوق دونوں کے مفکر تھے۔ ان کی بصیرت اور ذہانت نے علمی افق کی وہ تابانی دیکھ لی تھی جس کا تعلق کائنات کے وسیع مطالعے اور ادراک سے ہوتا ہے۔ ۱۸۵۷ء کے بعد جب ہندوستان کی تاریخ کا ایک اہم فیصلہ ہو گیا، یہ ایشیا کے سلسلے کا ایک خونی سانحہ تھا جو اب واقعہ بن چکا تھا، اس کو سیاسی اور معاشی اصطلاح میں غلامی اور غفلت کہا گیا۔ لیکن یہ حالات کا منطقی نتیجہ اور عام زبان میں تقدیر کا لکھا سمجھا گیا۔ زندگی کی اس کٹھنائی کو حیات کی رعنائی میں بدلنا سر سید کا بڑا کارنامہ بلکہ صوفیانہ اصطلاح میں کرامات میں شامل ہونے کے قابل ہے۔

    ناکامیابی کے اسباب اور وجوہات کو سمجھنا مشکل ہوتا ہے لیکن بصیرت اور وجدان کے لیے یہ مشکل رحمت بن کر آتی ہے۔ اس آئندہ آنے والی کامیابی کو ہر ایک رہبر ہی سمجھ سکتا ہے۔ ۱۸۵۷ ء کے بعد جب مقامی افراد ہندوستان میں سماجی اصلاح کے کاموں میں مشغول اور منہمک ہو گئے، اس وقت سر سید کی نظر علوم کی توانائی پر پڑی۔ اب سر سید نے ہندوستان اور مسلمانوں کی تقدیر سنوارنے اور بدلنے کا ایک علمی اور عملی فیصلہ کیا۔ اس میں سائنس کی قوت اور تحقیق اور تعلیم اور تدریس کی روشنی اہمیت کے حامل تھے۔ سر سید نے یہ فیصلہ عمل کی آتشیں کٹھالی میں ڈال دیا۔ حکومت اور خواص اس آگ کی انقلاب آفریں گرمی اور شکل کو برداشت نہیں کر سکے۔ اس انقلابی قدم کو کچھ لوگوں نے سمجھا اور سر سید کا ساتھ دیا۔ وقت کی ضرورت کا احساس کیا لیکن ایک طبقے نے حکومت کے اشارے اور شہ پر اپنی محدود سمجھ کی بناء پر سر سید کی علمی اور تعلیمی تحریکوں کی مخالفت شروع کر دی۔ اس تلخ اور شیریں داستاں کو سمجھنا اور دہرانا آج کے جائزے کا مقصد اور منتہی ہے۔

    ہم آج انداہ نہیں کر سکتے کہ اپنے مشن اور مقصد کی تشکیل اور تکمیل کے لیے سر سید کو کن محاذوں پر کیسی کیسی لڑائیاں لڑنی پڑیں اور ان راستوں کو تلاش کیا جو منزل تک جلد جاتے ہوں یا دیر میں منزل پر پہنچتے ہوں۔ اس کے سامانِ سفر الگ تھے۔ ۱۸۵۷ء کے چھ برس بعد سر سید نے سائنٹفک سوسائٹی کی بنیاد ڈالی۔ یہ وہ وقت تھا کہ صنعتی ہندوستان زراعتی ہندوستان میں تبدیل ہو چکا تھا۔ زائد معاشی حالت خوشحالی کی نشانی ہوتی ہے۔ اس سائنٹفک سوسائٹی میں ایک خاص طبقے کے انگریز حاکم، حاکموں کے وفادار اور مشتبہ وفادار زمیندار، چھوٹے درجے کے سرکاری عہدیدار اور ایک آزاد پیشے کے نمائندہ وکیل شریک ہوئے۔ یہاں مختلف پیشے کے لوگ جمع تھے۔ مذہب اور مسلک کی قید نہیں تھی۔ عیسائی، اعلی ذات کے ہندو اور مسلمان ایک چھت کے نیچے ایک نئی جہت کی طرف رواں تھے۔ مسئلہ اور منظر واضح اور صاف تھا۔ وسعت اور وجوہ اس بات کا تقاضا کر رہے تھے کہ ہر قسم کا سیکولر عمل روا رکھا جائے۔

    سائنٹفک سوسائٹی کے مقاصد یہ تھے،
    (۱) ان علوم اور فنون کی کتابوں کا جن کو انگریزی زبان میں یا یورپ کی کسی اور زبان میں ہونے کے سبب ہندوستانی نہیں سمجھ سکتے، ایسی زبانوں میں ترجمہ کرنا جو ہندوستان کے عام استعمال میں ہوں۔
    (۲) سوسائٹی کو کسی مذہبی کتاب سے سروکار نہ ہوگا۔
    (۳) وقتا فوقتا اپنے اجلاس میں علمی اور مفید مضمونوں پر لکچر دلوانا اور لکچر میں جس ہنر اور فن کا بیان ہو اس کو بشرط امکان علمی آلات کے ذریعہ تجربہ کرکے دکھانا۔
    (۴) جب کبھی سوسائٹی مناسب سمجھے تو کوئی ایسا اخبار یا گزٹ یا روزنامچہ یا میگزین وغیرہ چھاپ کر مشتہر کرنا جس سے ہندوستانیوں کی فہم اور فراست کی ترقی متصور ہو۔
    (۵) ایشیا کے قدیم مصنفوں کی کمیاب اور نفیس کتابوں کو تلاش کر کر کے بہم پہنچانا اور چھاپنا۔

    ان مقاصد میں محض انگریزی کا ذکر نہیں بلکہ یورپ کی زبانوں سے استفادے کا تذکرہ ہے۔ اردو کے بجائے ہندوستانیوں کے عام استعمال کی زبانوں پر زور ہے جس میں اردو کو ذریعہ اظہار رکھا گیا۔ مذہبی کتاب سے سروکار نہ ہوگا۔ عملی سائنس پر توجہ ہے۔ ہندوستانیوں کی فہم و فراست کی ترقی کی بات ہو رہی ہے۔ یہ کس صدی میں کس دور کے خواب دیکھے جا رہے ہیں۔ ہمارے زمانے میں تو یہ سب ابھی تک سوچنا بھی خواب ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب خود سر سید مذہبی تصانیف اور تالیفات میں بھی مشغول ہیں۔ اب آئیں ان لوگوں کی فہرست پر نظر ڈالیں جو اس کام میں شریک کیے گیے ہیں۔

    (۱) شاہ اسد علی وکیل، غازی پور
    (۲) امجد علی وکیل، آگرہ
    (۳) شیخ اکبر علی وکیل، کانپور
    (۴) مولوی حیدر حسین وکیل، آگرہ
    (۵) مرزا محمد رحمت اللہ بیگ وکیل، بنارس (سر سید کے خاص دوست)
    (۶) سمیع اللہ خاں وکیل، دہلی
    (۷) سید طہور حسین وکیل، آگرہ
    (۸) سید فرید الدین احمد وکیل، الہ آباد (سر سید کے دوست)
    (۹) سید فضل حق وکیل، علی گڑھ
    (۱۰) قاضی محمد لطافت حسین وکیل، علی گڑھ
    (۱۱) حفیظ الدین حیدر وکیل، مرزا پور (بعد کو الگ ہو گیے) 

    مقامی رؤسا
    (۱۲) نواب محمد امین اللہ خاں رئیس، دہلی (الور والے) 
    (۱۳) امجد علی خاں رئیس، امروہہ (مشہور حامد علی خاں کے والد)
    (۱۴) محمد امداد علی خاں، رئیس، پہاسو
    (۱۵) محمد ارشاد علی خاں، رئیس، سعد آباد
    (۱۶) محمد الطاف علی خاں، رئیس، بریلی
    (۱۷) محمد احمد علی خاں، رئیس، بوڈہانسی
    (۱۸) ابو القاسم عبد الحکیم، رئیس، کلکتہ
    (۱۹) نور محمد اکبر علی خاں، رئیس، دہلی
    (۲۰) سید باسط علی، رئیس، جلالی
    (۲۱) راجہ سید باقر علی خاں پنڈراول اور کوٹایا
    (۲۲) تقی علی خاں، رئیس دریا باد، الہ آباد
    (۲۳) نواب محمد حسن خاں، رئیس سنوانی، بنارس (علی گڑھ تحریک کے خاص)
    (۲۴) نواب حمزہ علی خاں، رئیس شیخوپورہ، میرٹھ
    (۲۵) سید علی خاں، رئیس بنارس۔
    (۲۶) شیخ شرف الدین، رئیس شیخوپورہ، بدایوں (سر سید کے خاص دوست)
    (۲۷) صفات احمد خاں، رئیس، غازی پور
    (۲۸) نواب ضیاء الدین احمد، رئیس، لوہارو، دہلی (سر سید کے خاص دوست)
    (۲۹) قاضی محمد ظہور الحق، رئیس، غازی پور
    (۳۰) عبد اللطیف خاں بہادر، رئیس، کلکتہ
    (۳۱) عبد الاحد، رئیس، غازی پور
    (۳۲) قاضی عزیز الحق، رئیس، غازی پور
    (۳۳) شیخ عبد الحمید، رئیس، غازی پور
    (۳۴) عبد العلی خاں، رئیس، بنارس
    (۳۵) مرزا عباس بیگ، رئیس، اودھ
    (۳۶) قاضی محمد عباس، رئیس، مراد آباد
    (۳۷) محمد عنایت اللہ خاں، رئیس، بھیکم پور، علی گڑھ (سر سید کے خاص دوست)
    (۳۸) محمد عبد الشکور خاں، رئیس بھیکم پور، علی گڑھ
    (۳۹) شاہ فرید عالم، رئیس، غازی پور
    (۴۰) شیخ محمد قطب الدین، رئیس، بریلی
    (۴۱) نواب لطف علی خاں، رئیس، چھتاری
    (۴۲) شیخ محمد جان، رئیس، غازی پور
    (۴۳) محمد مدد علی خان، رئیس، غازی پور
    (۴۴) محمد مروان علی خاں رعنا، رئیس، مراد آباد۔ (راجستھان میں ریاستوں کے وزیر اعلی)
    (۴۵) کنور محمد معشوق علی خاں، رئیس، چکا پھل
    (۴۶) کنور معشوق علی خاں، رئیس، دانپور
    (۴۷) نواب محمد مہدی علی خاں، رئیس، رامپور اور بریلی
    (۴۸) میر محمد حسن، رئیس، (سادات بارہ] سنبھل ہیڑہ مظفر نگر
    (۴۹) نجم الدین حیدر، رئیس شیخوپور، بدایوں
    (۵۰) محمد نصرت خاں، رئیس، سمیرہ
    (۵۱) کنور وزیر علی خاں، رئیس (ڈپٹی کلکٹر مجسٹریٹ غالب کے مخالف)
    (۵۲) محمد یوسف حسین خاں، رئیس پٹنہ، عظیم آباد
    (۵۳) نواب علی رضا خاں قزلباش، رئیس، لاہور
    (۵۴) محمد عمر رئیس، زمانیہ
    (۵۵) سید کرامت علی متولی، ہوگلی (الگ ہو گئے تھے) 
    (۵۶) صاحبزادہ احمد علی خان (خاندان ٹیپو سلطان) کلکتہ
    (۵۷) محمد مجیب اللہ خاں صدر الصدور (جج) مرزا پور
    (۵۸) مولوی خورشید علی خاں، صدر الصدور، الہ آباد
    (۵۹) قاضی عنایت اللہ حسین، صدر الصدور، فرخ آباد
    (۶۰) محمد بخش، صدر الصدور، بدایوں (الگ ہو گئے تھے، علی بخش کے بھائی جو سر سید کے بڑے مخالف تھے) 
    (۶۱) محمد حسن خاں عثمانی، صدر الصدور، بریلی، بدایوں
    (۶۲) محمد مومن علی خان، صدر الصدور شاہجہاں پور
    (۶۳) احمد حسین، تحصیلدار، باندہ
    (۶۴) حامد علی خاں، تحصیل دار، باندہ
    (۶۵) سید حسن رضا رضوی، تحصیل دار کانپور
    (۶۶) شیخ سراج الدین احمد، تحصیل دار، چائل الہ آباد
    (۶۷) شیخ صلاح الدین، تحصیل دار، بھوپال
    (۶۸) سید ضامن علی، تحصیل دار، کانپور
    (۶۹) سید علی حسن خاں، تحصیلدار، بنارس
    (۷۰) فضل احمد، تحصیل دار، فرخ آباد
    (۷۱) مرزا فخر الدین بیگ، تحصیل دار، باندہ
    (۷۲) سید قادر علی، تحصیل دار، نگینہ
    (۷۳) سید قربان علی، تحصیلدار، الہ آباد
    (۷۴) سید محمد کمال الدین حسین، تحصیلدار دلیل نگر
    (۷۵) محمد صدیق تحصیلدار، بلند شہر
    (۷۶) مہدی علی خاں، تحصیل دار، اٹاوہ (سر سید کے دوست محسن الملک) 
    (۷۷) حکیم نصیر الدین، تحصیلدار، جون پور
    (۷۸) نور علی تحصیلدار، مرزا پور
    (۷۹) سید امداد العلی، ڈپٹی کلکٹر، آگرہ
    (۸۰) سید تراب علی، ڈپٹی کلٹر، بدایوں
    (۸۱) دلیل الدین احمد خان ڈپٹی مجسٹریٹ، کلکتہ
    (۸۲) محمد سلطان خاں، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ، نہر گنگ
    (۸۳) سید محمد مبین خاں، ڈپٹی کلکٹر، فرخ آباد
    (۸۴) محمد کریم، ڈپٹی کلکٹر بدایوں، اعظم گڑھ (ایم۔ اے۔ او کالج کے پہلے جلسے کے صدر)
    (۸۵) سید ناصر علی ذو القدر، ڈپٹی کلکٹر، الہ آباد
    (۸۶) شیخ الہی بخش، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ، نہرجمنا، دہلی
    (۸۷) شیخ برکت علی، منصف، گورکھپور
    (۸۸) سید ذاکر حسین، منصف الہ آباد
    (۸۹) محمد عبد القیوم، منصف، الہ آباد
    (۹۰) محمد زین العابدین، منصف مچھلی شہر۔ (سر سید کے بے تکلف دوست)
    (۹۱) مولانا سلطان حسن عثمانی، منصف بریلی
    (۹۲) مرزا عابد علی بیگ، (سر سیدکے خاص ساتھی) مراد آباد
    (۹۳) محمد کرامت اللہ، منصف، شاہجہاں پور
    (۹۴) حفیظ الدین احمد، منصف، علی گڑھ

    اس کے علاوہ مندرجہ ذیل مختلف عہدیدار اور دوسر ے اشخاص بھی ممبر تھے۔
    (۱) الطاف حسین میرٹھ
    (۲) مولانا امانت اللہ، غازی پور
    (۳) محمد آغا جان، دہرادون
    (۴) سید اولاد حسین، ناگپور
    (۵) مولوی سراج احمد، جسٹس کرامت حسین کے والد، گنتور
    (۶) منشی ثناء اللہ
    (۷) منشی بخش علی، غازی پور
    (۸) دلیل الدین احمد، غازی پور
    (۹) سعادت علی خاں، غازی پور
    (۱۰) سید سردار علی، راولپنڈی
    (۱۱) صفدر حسین خاں
    (۱۲) عبید اللہ عبیدی، کلکتہ کے مشہور دانش مند، کلکتہ
    (۱۳) عبد الکریم منصوری
    (۱۴) عبد العلی، بھوپال
    (۱۵) غلام حیدر خاں، علی گڑھ
    (۱۶) شیخ غلام حسین (تاولی میں ملازم)
    (۱۷) محمد مظہر اللہ، (سر سید کے خاص دوست) بچھرایوں
    (۱۸) مولوی محمد حسن، بجنور
    (۱۹) محمد نظام علی خاں، علی گڑھ

    اپنے زمانے کے مشہور رئیس ہندوؤں نے اس تحریک کی حمایت کی۔ منتخب فہرست دی جاتی ہے،
    (۱) پنڈت من پھول (محمد حسین آزاد کے سر پرست) بعد کو الگ ہو گئے۔
    (۲) دکھنا رجن، سکریٹری انجمن اودھ (الگ ہو گئے) 
    (۳) چنی لال رئیس بنارس (الگ ہو گئے) 
    (۴) اجودھیا پرشاد
    (۵) رائے بختاور سنگھ، بدایوں
    (۶) بابو لال رئیس، کانپور
    (۷) مہا راجہ ایشر پرشاد کاشی نریش (سر سید کے خاص سر پرست)
    (۸) لالہ امرت لال، ہاتھرس
    (۹) رائے بلدیو بخش
    (۱۰) لالہ بنارسی داس، لکھنو
    (۱۱) شاہ بدری داس، کانپور
    (۱۲) کنور بکرماں سنگھ (سکھ) کپور تھلہ
    (۱۳) بہاری لال، رئیس، کانپور
    (۱۴) پیارے موہن بنرجی، بنارس
    (۱۵) مہاراجہ مہر بخش سنگھ، ڈمراوں شاہ آباد
    (۱۶) مادھو لال رئیس، بنارس
    (۱۷) رائے مان رائے، وکیل سرکار، آگرہ
    (۱۸) چوبے موہن لال، تحصیلدار، ہاتھرس
    (۱۹) راجہ مادھو سنگھ، رئیس، امیٹھی سلطان پور
    (۲۰) مہیش چندر گھوش، کانپور
    (۲۱) سردار نہال سنگھ، لاہور
    (۲۲) دیوان نہال چند وکیل مہاراجہ جموں (کشمیر) لاہور
    (۲۳) نول کشور لکھنو، علی گڑھ
    (۲۴) راو ہندو پت، جاگیردار، علی پورہ
    (۲۵) ہنومان پرشاد، وکیل، آگرہ
    (۲۶) ہیم چندر سنگھ، رئیس، کانپور

    ان ناموں سے تھوڑا سا اندازہ ہو سکتا ہے کہ نئے ہندوستان کو جگانے میں سر سید نے کیا حصہ لیا،
    (۱) رگھناتھ سہائے تیواری، الہ اباد
    (۲) سالگ رام تحصیلدار، ہوشیارپور
    (۳) شیو بالک سنگھ، رئیس، غازی پور
    (۴) رائے شنکر داس، مراد آباد
    (۵) شیام سندر، رئیس، مراد آباد
    (۶) طالع مند پرساد، تحصیلدار، غازی پور
    (۷) کالی پرستو سنگھ رئیس، کلکتہ
    (۸) کالکا پرشاد، بدایوں
    (۹) راو کرن سنگھ برولی علی گڑھ (آئندہ سر سید کی مدد کی)
    (۱۰) کشن سہائے میرٹھ
    (۱۱) لالہ کلو مل، رئیس، کانپور
    (۱۲) لالہ گلاب سنگھ، وکیل سرکار، مراد آباد
    (۱۳) گردھاری لال چوبے، رئیس مراد آباد
    (۱۴) لکھمی نرائن سین، رئیس، غازی پور
    (۱۵) لالہ لکھمن شنکر، رئیس علی گڑھ
    (۱۶) لوک من داس، وکیل علی گڑھ (کالج میں سر سیدکے مددگار)
    (۱۷) راجہ پرتاپ سنگھ
    (۱۸) راو پرومن کش، مراد آباد
    (۱۹) راجہ پرتھی سنگھ، آرہ
    (۲۰) راجہ تیج پال سنگھ، الہ آباد
    (۲۱) راجہ ٹیگم سنگھ، مرساں علی گڑھ
    (۲۲) راجہ جے کشن داس، مراد آباد (سر سید کے دوست)
    (۲۳) پنڈت جوالا پرشاد، فرخ آباد
    (۲۴) چندر شیکھر، بدایوں
    (۲۵) راجہ دیو نرائن سنگھ، بنارس
    (۲۶) چوبے دین پت رائے، آگرہ
    (۲۷) درگا پرشاد، علی گڑھ
    (۲۸) راجہ دیبی سنگھ، دہلی
    (۲۹) دیوان دیا شنکر، ہوشیار پور
    (۳۰) دیبی پرشاد، علی گڑھ
    (۳۱) مہاراجہ دگوجے سنگھ، بلرامپور
    (۳۲) رام غلام سنگھ، تحصیلدار، غازی پور
    (۳۳) روپ چندر گھوش، غازی پور
    (۳۴) رام نرائن، رئیس، کانپور

    سر سید نے سائنٹفک سوسائٹی میں زراعت کے جدید ترین تجربے کرائے۔ قانون پر لکچر دلوائے گئے۔ جدید سائنس پر کتابیں لکھواکر چھاپی گئیں۔ لیکن انگریزی حکومت کے دباؤ میں اس عظیم الشان تجربہ کو بھی ایک تجربہ سمجھنا پڑا۔ ۱۸۶۹-۷۰ میں وہ لندن گئے، وہاں انہوں نے اس وقت کے یوپی کے گورنر ولیم میور کی کتاب لائف آف محمد کا دنداں شکن جواب لکھا۔ سر سید اپنے دونوں بیٹوں سید حامد اور سید محمود کی تعلیم کے لیے گئے۔ سرسید جب ۱۸۷۰ء میں لندن سے لوٹے تو محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کا منصوبہ اور تہذیب الاخلاق جیسا عہد آفریں رسالہ لے کر آئے۔ سر سید نے لندن جانے سے پہلے ایک بڑی غلطی کی جس سے حکومت کے ارباب ناراض ہو گئے۔ یعنی ۱۸۶۶ ء میں انہوں نے ایک اخبار سائینٹفیک سوسائٹی جاری کر دیا۔ سر سید اس اخبار کی پالیسی کے نگراں تھے۔ پہلے ہی سال میں حکومت نے اخبار کی پالیسی اور لب و لہجے کا سخت نوٹس لیا اور اس کے ایڈیٹر نور محمد کو الگ کرنا پڑا۔ حکومت نے اس رجحان کو باغیانہ بتایا۔ (۱)

    انگریزی حکومت سر سید کے رویّے کو تبدیل نہیں کر سکی اور آئندہ ۳۲ برس (۱۸۹۸ء) تک سر سید کا یہ اخبار اسی طنطنے اور مزاج سے نکلا۔ مداح پیدا کرتا رہا، مخالفت ہوتی رہی۔ حیات جاوید میں یہ تلخ کہانی نہیں ہے۔

    سرسید نے لندن میں دیکھا کہ وہاں کے اخبار اور رسالے تبدیلی اور تفکر کے بہت بڑے علمبردار ہوتے ہیں۔ اسی لیے انہوں نے رسالہ تہذیب الاخلاق کا منصوبہ تیار کیا۔ یہ رسالہ ہندوستان میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کی تحریک کا ترجمان، دینی فکر میں تجدد اور تحقیق کی آواز اور سماجی اقدار کی نئی تشکیل کا ذریعہ بن کر ظاہر ہوا۔ حکومت پسند اور قدامت پسند طبقے نے اس کو پسند نہیں کیا۔ حکومت اعلی مغربی تعلیم کے رواج کو پسند نہیں کرتی تھی۔ اسی دوران میں ۱۸۷۲ء میں انڈمان نکوبار میں پہلی مرتبہ انگریز وائسرائے لارڈ میسو کا غلطی سے قتل ہو گیا، قاتل شیر علی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ وائسرائے کا قتل کر رہا ہے۔ نئے وائسرائے لارڈ نارتھ بروک نے کالج کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ سر سید کے بڑے مخالف علی بخش بدایونی سید امداد العلی حکومت کے خطاب یافتہ اور ملازم تھے۔ ان کی مخالفت سرکاری اشارے پر تھی۔

    ۱۸۷۲ء میں سر سید نے بنارس سے ایک کتاب شائع کی جس میں ان لوگوں کی رائے کا خلاصہ پیش کیا تھا جو کالج کے تعلیمی منصوبے کو ایک خاص شکل میں دیکھنا چاہتے تھے۔ ان میں مشہور مفکر مسیح الدین کاکوروی جو لندن میں رہ چکے تھے اور جن کا خاندان پچھلے ستر برس سے انگریزی حکومت کے اعلی عہدوں پر متمکن تھا۔ اس میں مسیح الدین کاکوروی کا رسالہ شامل تھا۔ سخاوت علی مدہوش اور سید مہدی علی کے رسائل شامل تھے۔ حالی کا یہ بیان غلط ہے کہ سر سید ڈسپاٹک (خود رائے) طبیعت کے مالک تھے۔ سر سید نے ہر مرحلے پر مشورے کو اہمیت دی لیکن اپنی رائے اور عمل کو اختلاف میں الجھایانہیں بلکہ سلجھایا اور آخر ۲۴ مئی ۱۸۷۵ ء کو علی گڑھ میں محمد کریم کی صدارت میں ایم۔ اے۔ او کالج کی بنیاد ڈالی۔ اور یہاں سے وہ قافلہ شروع ہوا جس نے ہندوستان کے بدلنے میں بہت بڑا رول ادا کیا۔

     اس کالج نے صرف مسلمانوں کو فائدہ نہیں پہنچایا بلکہ ہندو بھی اس کے فائدے سے دور نہیں رہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ مسلمانوں نے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج سے اتنا فائدہ نہیں اٹھایا جتنا اعلی ذات کے ہندوؤں نے اٹھایا۔ اسٹاف اور طالب علم دونوں میں وہ ضرورت سے زیادہ نمائندگی رکھتے تھے۔ یہ علم و تدریس کا انوکھا تجربہ تھا جہاں مقصد اور محور مسلمان تھے لیکن ہندو زیادہ فیض یاب ہوئے۔ اس کی بڑی وجہ انگریزوں کی ظاہری اور در پردہ مخالفت تھی۔ یہاں یہ بات کہنا ضروری ہے کہ کالج اور سر سید کے خلاف یہ مشہور کیا گیا کہ سر سید نے کالج زمینداروں کے لیے قائم کیا۔ اودھ کے اضلاع سے نہ ہونے کے برابر طالب علم آئے۔ وہاں انگریزی حکومت کی گرفت زیادہ تھی۔ اگر پنجاب سے مسلمان نہ آتے تو شاید کالج بند ہو جاتا۔ رنجیت سنگھ کے زمانے میں پنجاب کے مسلمان تباہ ہو گئے۔ پٹیالہ کی ریاست مسلمانوں کی سر پرست تھی۔ خلیفہ سید محمد حسین وزیر اعظم پٹیالہ کی کوشش سے پہلی بڑی امداد مہا راجہ پٹیالہ نے دی۔ کالج کی مخالفت میں انگریزوں کے ہمنوا زمیندار اور دوسرے درجے کے مولوی آگے آگے تھے۔ اور یہ وہ لوگ تھے جن کے مقاصد قلیل، جن کی نظر محدود تھی اور جن کا حوصلہ مسدود تھا۔

     یہ عجیب اتفاق ہے کہ کالج کے اورینٹل سیکشن جہاں قدیم درس ِ نظامی اور جدید علوم کی تدریس جاری تھی، اس شعبے کو طالب علم نہیں مل رہے تھے۔ اس شعبے میں مولانا اکبر ابن مولانا نور الحسن کاندھلوی موجود تھے۔ بعد میں شبلی نعمانی اس شعبے میں استاذ ہوکر آئے۔ آخر میں درس نظامی کی تعلیم کا یہ شعبہ ۱۸۸۵ء میں بند ہو گیا۔ مگر سید محمود اس شعبے کو زندہ رکھنا چاہتے تھے۔

    سر سید نے ۱۸۸۲ ء کے ہنٹر تعلیمی کمیشن کے سامنے صاف صاف بتایا کہ انگریز حکام ہندوستان میں مسلمانوں اور ہندوؤ ں کے درمیان اعلی مغربی تعلیم کا رواج نہیں چاہتے ہیں۔ سر سید نے کہا کہ تعلیم ہمارے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔ سر سید کی یہ آواز جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بار بار دہرائی گئی۔ سر سید نہایت پامردی سے لڑتے رہے مگر یہ واقعات داستان بن کر بھی حیات جاوید کے صفحات سے غیر حاضر رہی۔ اوریہی وجہ ہے کہ سر سید کو کالج کی ترقی اور تعمیر کے لیے روپیے نہیں مل رہے تھے اور طالب علم بھی نہیں مل رہے تھے۔ مسلمان استاد نہیں مل رہے تھے۔ ٹیچر ڈپٹی کلکٹر بن رہے تھے۔ سر سید کی تعلیمی جد و جہد کی کہانی مصیبتوں اور مشکلوں کے کانٹوں کی راہ ہے۔ یہاں بغیر آبلوں کے پاؤں زخمی ہیں۔ یہ مخالفت روز بروز بڑھتی گئی، یہاں تک کہ سر سید نے کالج کی تحریک کو ایک تعلیمی تحریک میں تبدیل کر دیا اور ۱۸۸۶ ء میں محمڈن ایجوکیشنل کانگریس کی بنیاد ڈال دی۔

     اب انہوں نے مختلف جگہ جلسے کیے اور مسلمانوں کو تعلیم کے لیے جگا نا چاہا۔ اس میں ان کو کچھ موافق بھی ملے۔ سر سید کے سامنے اس کانفرنس کے گیارہ جلسے ہوئے۔ جن لوگوں نے ان جلسوں کی صدارت کی ان میں حشمت اللہ، عماد الملک سید حسین، جسٹس شاہ دین وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اس کانفرنس کے بنانے کے تین برس بعد سر سید کو دسمبر ۱۸۸۹ ء مین محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کے لیے قانون ٹرسٹیاں بنانا پڑا، کیوں کہ گورمنٹ کالج کو ایک عربی فارسی کا کالج بنانا چاہتی تھی۔ الہ آباد یونیورسٹی کو سر سید نے ایک لاہور کے طرز کی اورینٹل یونیورسٹی نہیں بننے دیا۔ اس قانون ٹرسٹی میں سید محمود کے آیندہ سکریٹری ہونے کا ذکر تھا۔

    اب سر سید کے پرانے ساتھی سمیع اللہ خاں اور خواجہ محمد یوسف بھی سر سید کے مخالف ہو گئے۔ علی گڑھ اور بلند شہر کے رئیس انگریزی حکومت کے اشارے پر سخت مخالف ہو گئے۔ نواب لطف علی خاں چھتاری جن کے والد نواب محمود علی خاں سر سید کے پہلے سے مخالف تھے، سرکاری ملازمین کا ایک طبقہ اور مقامی رئیسوں کا ایک حصہ نہ صرف اختلاف رکھتا تھا بلکہ سر سید اور ان کی تعلیمی تحریک کا دشمن تھا۔ یہاں تک کہ سر سید کی جان بھی خطرے میں پڑ گئی۔ سر سید کے انگریز سوانح نگار گراہم جو سپرنٹنڈنٹ پولس بھی تھے اور حالی نے حیات جاوید میں اس کی گواہی دی ہے کہ مخالفین کا جوش بہت بڑھ گیا تھا۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ حالی سر سید کے مخالفین کے گروہ سے ہمدردی رکھتے تھے جس کا اقرار حیات جاوید میں موجود ہے۔ سر سید نے حالی سے اپنی سوانح نگاری لکھنے کو منع کیا تھا اور کاپی خالی لوٹا دی تھی۔ وہ حضرات جو پہلے سر سید کے ساتھ تھے اور بعد میں ۱۸۸۹ء میں مخالف ہو گئے ان میں سے چند کے نام یہ ہیں،

    (۱) سمیع اللہ خاں
    (۲) حمید اللہ خان (مولوی سمیع اللہ کے بیٹے) 
    (۳) محمد رفیق ابن الہی بخش، دہلی
    (۴) محمد مظفر حسین
    (۵) سر سید اور علی گڑھ تحریک کے موافق اور مخالف منشی صفدر حسین
    (۶) محمد کریم
    (۷) خواجہ فضل احمد
    (۸) کنور محمد عبد الغفور
    (۹) محمد مسعود علی خاں
    (۱۰) خواجہ محمد یوسف
    (۱۱) کنور محمد لطف علی خاں
    (۱۲) خواجہ محمد اسماعیل

    ان سب مخالفین کے بارے میں سر سید نے مجبورا لکھا، ’’جو کہ مخالفین نے جو تعداد میں معدودے چند ہیں اور صر ف پارٹی فیلنگ سے اور صرف نفسانیت سے مخالف پارٹی قائم کرکے ایک دوسرے کی رائے نقل کی تھی اور یہ خطوط بھی اسی طرح ایک دوسرے کی نقل یا خلاصہ ہیں اور بجز مخالف پارٹی بنانے کے قومی ہمدردی یا کالج کے فائدے کا کچھ خیال نہ تھا۔‘‘ 
    سر سید احمد خاں
    ۲۸ دسمبر ۱۸۸۹ء

    قانون ٹرسٹیاں کی حمایت میں نذیر احمد، ذکاء اللہ، عماد الملک، ان کے بھائی سید حسن، سید علی بلگرامی، محمد حیات خاں رئیس واہ نواب مزمل اللہ خاں اور ان کے بھائی احمد سعید خاں نے سر سید کا ساتھ دیا۔ جن مقتدر حضرات نے سر سید کا ساتھ دیا، ان کی فہرست یہ ہے،

    (۱) اسماعیل خاں رئیس تاولی۔ (سر سید کا ان کے گھر پر انتقال ہوا]
    (۲) مولانا عنایت رسول چریا کوٹ اعظم گڑھ
    (۳) نواب محمد علی خاں ابن مصطفی خاں شیفتہ
    (۴) سید محمد میر، دہلی، میرٹھ
    (۵) سید محمد علی
    (۶) ہادی یار خاں، دادوں علی گڑھ
    (۷) میر عاشق علی، جلالی علی گڑھ
    (۸) محمد موسا خاں تاولی
    (۹) سید محمد احمد خاں (سر سید احمد کے بھتیجے) سیتاپور
    (۱۰) سید امجد علی (پروفیسر) صادق پور الہ آباد
    (۱۱) ذکاء اللہ، دہلی
    (۱۲) محمد برکت اللہ خاں، لاہور
    (۱۳) چراغ علی اعظم یار جنگ، حیدر آباد
    (۱۴) شمش العلماء عبد الروؤف، پٹنہ
    (۱۵) محمد اکرام اللہ خاں، دہلی
    (۱۶) وقار الملک مشتاق حسین، امروہہ
    (۱۷) سید محمد حامد، دہلی
    (۱۸) فتح نواز جنگ، حیدر آباد
    (۱۹) محمد امتیاز علی، وزیر اعظم، بھوپال کاکوری
    (۲۰) صاحبزادہ عبید اللہ خاں، ٹونک
    (۲۱) خلیفہ سید محمد حسین، پٹیالہ
    (۲۲) خلیفہ سید محمد حسن، پٹیالہ
    (۲۳) سید اقبال علی، حیدر آباد
    (۲۴) نواب مزمل اللہ خاں، علی گڑھ
    (۲۵) سردار محمد حیات خاں، واہ، کشمیر
    (۲۶) نظام الدین حسن، حیدر آباد
    (۲۷) محمد حشمت اللہ خاں، فتح پور
    (۲۸) عبد المجید خاں، جون پور
    (۲۹) عبد الشکور خاں شروانی، علی گڑھ
    (۳۰) مرزا عابد علی بیگ، مراد آباد
    (۳۱) سید فرید الدین، الہ اباد
    (۳۲) رحمت اللہ بیگ (سر سید کے خاص رفیق) بنارس
    (۳۳) سید محمود، علی گڑھ
    (۳۴) میر تراب علی، آگرہ
    (۳۵) محمد موسی خاں تاولی
    (۳۶) الطاف حسین حالی۔ ۱۸۸۹ء مین مخالف رہے ۱۸۹۲ء میں ممبر ہوئے، پانی پت
    (۳۷) محمد شاہ دین، لاہور
    (۳۸) سید اشرف الدین، کلکتہ
    (۳۹) نواب امیر حسن خاں، کلکتہ
    (۴۰) آفتاب احمد خاں، علی گڑھ
    (۴۱) علاء الحسن ابن مولانا محمد اکبر، کاندھلہ
    (۴۲) محمد بدر الحسن، کاندھلہ
    (۴۳) مرزا احمد وحید خاں طالب، دہلی
    (۴۴) نواب امیر الدین احمد خاں، لوہارو
    (۴۵) سید محمد حسن ذوالقدر، جونپور

    مخالفت اور موافقت کے سیلاب اور بہاو نے طے کر دیا کہ سر سید کا راستہ ٹھیک تھا اور آئندہ صدی شاید سر سید کی تحریک کو سراہے اور سمجھے۔

     

    حاشیہ

    ملاحظہ ہو نارتھ ویسٹ پروانسی کی رپورٹ۔

     

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے