Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سر سید، اسلام اور مسلمان

جواہر لعل نہرو

سر سید، اسلام اور مسلمان

جواہر لعل نہرو

MORE BYجواہر لعل نہرو

    جب لوگ رفتہ رفتہ غدر کی ہولناک تباہی سے سنبھلے تو ان کے ذہنوں میں ایک خلا تھا۔ اور انہیں کسی ایسی چیز کی تلاش تھی جو اس خلاء کو پر کردے۔ برطانوی حکومت کو تو چار و ناچار قبول کرنا ہی پڑا مگر ماضی سے قطع تعلق کا نتیجہ صرف یہ نہیں ہوا کہ حکومت بدل گئی بلکہ دونوں کے دلوں میں تردد اورانتشار پیدا ہو گیا اور انہیں اپنے آپ پر بھروسہ نہیں رہا۔ در اصل یہ قطع تعلق اندر سے بہت پہلے ہو چکا تھا اور اسی کی وجہ سے بنگا ل وغیرہ میں وہ تحریکیں شروع ہوئی تھیں جن کا ذکر ہم پہلے کر چکے ہیں لیکن مسلمان اس زمانے میں عام طور پر ہندوؤں سے کہیں زیادہ خلوت پسند تھے۔ وہ مغربی تعلیم سے بھاگتے تھے اور پرانے نظام کو دوبارہ قائم کرنے کا خواب دیکھا کرتے تھے۔

    اب وہ خواب باطل ہو چکا تھا۔ مگر پھر بھی انہیں کسی ایسی چیز کی ضرورت تھی جس کا سہارا لے سکیں۔ جدید تعلیم سے وہ اب بھی دور رہنا چاہتے تھے۔ بہت کچھ بحث مباحثے کے بعد بڑی مشکل سے سر سید احمد خاں نے رفتہ رفتہ ان کے ذہن کو انگریزی تعلیم کی طرف مائل کیا اور علی گڑھ کالج کی بنا ڈالی۔ سرکاری ملازمت کی یہی ایک راہ تھی اور اس ملازمت کی کشش پرانے تعصبات اور بیزاری پر غالب آگئی۔ یہ دلیل کہ ہندو تعلیم اور ملازمت میں بہت آگے بڑھ گئے ہیں، مؤثر ثابت ہوئی اور مسلمان اس معاملے میں ان کی ریس کرنے لگے۔ پارسی اور ہندو صنعت اور کاروبار میں ترقی کر رہے تھے لیکن مسلمانوں کی ساری توجہ سرکاری ملازمت پر مرکوز تھی۔

    لیکن ان کی یہ سرگرمیاں بھی، جو در حقیقت ایک چھوٹے سے حلقے تک محدود تھیں، ان کے ذہن کے انتشار اور تردد کو دور نہ کر سکیں۔ ہندووں نے اس مشکل کو حل کرنے کے لیے ماضی کے آغوش میں پناہ لی تھی۔ قدیم فلسفے اور ادب، آرٹ اور تاریخ کا مطالعہ ان کے لیے باعث تسکین ثابت ہوا تھا۔ رام موہن رائے، دیانند، وویکانند اور دوسرے حضرات نے نئی ذہنی تحریکیں شروع کی تھیں۔ ایک طرف وہ انگریزی ادب کے چشمہ فیض سے سیراب ہو رہے تھے اور دوسری طرف ان کے ذہن ہندوستان کے قدیم رشیوں اور سورماؤں کے افکار اور اعمال کی یاد سے اور ان اساطیر اور روایات سے معمور تھے جو وہ بچپن سے سنتے آئے تھے۔

    ان میں سے بہت سی چیزوں میں مسلم عوام بھی ہندوؤں کے ساتھ شریک تھے اس لیے کہ وہ ان قدیم روایات سے بخوبی آشنا تھے۔ لیکن اب مسلمان خصوصاً اونچے طبقے کے لوگ یہ محسوس کرنے لگے کہ ان کے لیے ان نیم مذہبی روایات سے تعلق رکھنا مناسب نہیں اور ان کا مسلمانوں میں رواج پانا اسلام کے منافی ہے۔ انہوں نے اپنی قومیت کی بنیادیں دوسری جگہ تلاش کیں۔ ایک حد تک یہ بنیادیں تاریخ ہند کے افغان اور مغل دور میں ملیں۔ مگر اس سے وہ خلاء جو ان کے ذہن میں تھا پر نہ ہو سکا۔

    یہ دونوں دور ہندوؤں مسلمانوں میں مشترک رہے تھے اور ہندوؤں کے دل سے یہ احساس دور ہو چکا تھا کہ مسلمان حکمرانوں کی حکومت بدیسی حکومت تھی۔ مغل بادشاہ ہندوستان کے قومی بادشاہ تصور کیے جاتے تھے، اگر چہ اورنگ زیب کے معاملے میں کچھ اختلاف رائے تھا۔ یہ بات معنی خیز ہے کہ اکبر کو جسے ہندو خاص طور پر پسند کرتے ہیں مسلمان پچھلے چند سال سے ناپسند کرنے لگے ہیں۔ پچھلے برس ہندوستان میں اکبر کی چہار صد سالہ سال گرہ منائی گئی۔ ہر طبقے کے لوگ، جن میں بہت سے مسلمان بھی تھے اس میں شریک ہوئے مگر مسلم لیگ اس سے بالکل الگ رہی اس لیے کہ اکبر کی ذات ہندوستان کے اتحاد کی علامت تھی۔

    ان تہذیبی بنیادوں کی تلاش میں ہندوستانی مسلمانوں (یعنی اوسط طبقے کے لوگوں نے) اسلامی تاریخ کے ان دوروں کی طرف توجہ کی جب اسلامی تہذیب بغداد، اسپین، قسطنطنیہ، وسطی ایشیا اور دوسرے علاقوں میں ایک تخلیقی او رفاتحانہ قوت تھی۔ پہلے سے بھی ہندوستانی مسلمانوں کو تاریخ اسلام سے کچھ نہ کچھ دلچسپی تھی اور ہمسایہ اسلامی ملکوں سے ان کے تھوڑے بہت تعلقات تھے۔ اس کے علاوہ حج کے موقع پر مختلف ملکوں کے مسلمان مکہ معظمہ میں جمع ہوا کرتے تھے۔ لیکن یہ سارے تعلقات محدود اور سطحی تھے اور ان کا ہندوستان کے مسلمانوں کے دائرہ نظر پر، جو صرف ہندوستان تک محدود تھا کوئی اثر نہیں پڑتا تھا۔

    دہلی کے افغان بادشاہ (خصوصا ًمحمد تغلق) قاہرہ کے عباسی خلیفہ کی قیادت کو تسلیم کرتے تھے۔ قسطنطنیہ کے سلاطین عثمانی خلیفہ بن گئے تھے۔ مگر ہندوستان میں ان کی خلافت کبھی تسلیم نہیں کی گئی۔ مغل شہنشاہ اکبر کسی شخص کو خلیفہ یا مذہبی پیشوا نہیں مانتے تھے۔ یہ تو انیسویں صدی کے آغاز کی بات ہے کہ مغل سلطنت کے زوال کے بعد ہندوستان کی مساجد میں خطبے میں سلطان ترکی کا نام لیا جانے لگا۔ غدر کے بعد یہ دستور عام ہو گیا۔

    اس طرح ہندوستانی مسلمانوں کو اسلام کی گذشتہ عظمت کی یاد سے اور اس خیال سے کہ کم سے کم ترکی میں ایک آزاد مسلم ریاست باقی ہے، کچھ نفسیاتی تسکین حاصل ہوئی۔ یہ احساس ہندوستاتی قومیت کے خلاف اور اس سے متصادم نہ تھا۔ بہت سے ہندو بھی اسلامی تاریخ سے آشنا اور اس کے معترف تھے۔ انہیں ترکی سے ہمدردی تھی کیوں کہ ترک بھی ان کی طرح ایشیائی تھے اور یورپ کی جارحانہ پالیسی کے شکار تھے مگر ظاہر ہے کہ ہندوؤں کی ہمدردی اتنی گہری نہیں تھی اور ان کی کسی نفسیاتی ضرورت کو پورا نہیں کرتی تھی۔

    غدر کے بعد ہندوستانی مسلمان اس حیص بیص میں تھے کہ کون سی راہ اختیار کریں۔ حکومت برطانیہ نے جان بوجھ کر ان پر ہندوؤں کی بہ نسبت بہت زیادہ تشدد کیا تھا اور اس تشدد سے مسلمانوں کے وہ طبقے خاص طور پر متاثر ہوئے تھے جن سے نئے بورژوا طبقے کے پیدا ہونے کا امکان تھا۔ وہ اپنے آپ کو بے بس اور بے کس محسوس کرنے لگے۔ سخت انگریز دشمن اور قدامت پرست ہو گئے۔ برطانوی حکومت نے ان کے متعلق جو پالیسی اختیار کر رکھی تھی ۱۸۷۰ء اور ۱۸۸۰ء کے درمیان رفتہ رفتہ بدل گئی اور ان کے موافق ہوگئی۔ یہ تبدیلی اسی توازن قوت کے اصول پر مبنی تھی جسے انہوں نے ہمیشہ پیش نظر رکھا تھا۔ مگر اس میں سر سید احمد خاں کا بھی بہت بڑا حصہ تھا۔ ان کو یقین تھا کہ مسلمانوں کی ترقی صرف اسی طرح ممکن ہے کہ وہ برطانوی حکام کے ساتھ اشتراک عمل کریں۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان انگریزی تعلیم کو قبول کرلیں، اس طرح قدامت پرستی کے تنگ دائرے سے باہر نکلیں۔ سر سید نے یورپی تہذیب کے جو مظاہر دیکھے تھے ان سے وہ بہت زیادہ متاثر تھے۔ ان کے چند خطوط جو انہوں نے یورپ سے لکھے تھے، یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان کی نظر مغرب کی چمک دمک وغیرہ سے خیرہ ہو گئی تھی اور وہ اپنا ذہنی توازن قائم نہیں رکھ سکتے تھے۔

    سر سید احمد خاں ایک پر جوش مصلح تھے اور وہ اسلام اور جدید سائینٹفک فکر میں مطابقت پیدا کرنا چاہتے تھے۔ انہیں اسلام کے بنیادی عقائد پر حملہ کرنا مقصود نہ تھا، بلکہ صرف کلام پاک کی عقلی تفسیر کرنا۔ انہوں نے نصرانیت اور اسلام کی بنیادی مشابہت کی طرف توجہ دلائی۔ وہ پردے کے مخالف تھے اور ترکوں کی خلافت کے قائل نہ تھے۔ مگر سب سے زیادہ شغف انہیں جدید تعلیم کو رواج دینے سے تھا۔ قومی تحریک کے شروع ہونے سے وہ بہت کھٹکے کیونکہ ان کو یہ اندیشہ تھا کہ اگر برطانوی حکام کی ذرا سی بھی مخالفت کی گئی تو وہ اپنے تعلیمی پروگرام میں ان کی مدد سے محروم ہو جائیں گے۔ وہ اس مدد کو بہت ضروری سمجھتے تھے، اس لیے انہوں نے مسلمانوں میں برطانیہ کی مخالفت کو دھیما کرنے کی کوشش کی اور ان کو نیشنل کانگریس سے، جو اس وقت تشکیل پا رہی تھی دور رکھا۔ ان کے قائم کیے ہوئے علی گڑھ کالج نے جن مقاصد کا اعلان کیا ان میں سے ایک مقصد ’’ہندوستانی مسلمانوں کو تاج برطانیہ کی اچھی اور مفید رعایا بنانا‘‘ بھی تھا۔

    وہ نیشنل کانگریس کے اس بناء پر مخالف نہ تھے کہ وہ اس کو ایک ہندو جماعت تصور کرتے تھے بلکہ اس وجہ سے کہ ان کے خیال میں یہ سیاسی حیثیت سے شدت پسند تھی (حالانکہ اس زمانے میں اس کی پالیسی بہت نرم تھی) اور ان کو برطانیہ کی مدد اور اشتراک عمل کی ضرورت تھی۔ انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ غدر میں مسلمانوں نے بحیثیت مجموعی بغاوت نہیں کی اور ان میں سے بہت سے برطانوی حکومت کے وفادار رہے۔ وہ ہرگز ہندوؤں کے مخالف یا تفریق پسند نہ تھے۔ انہوں نے بار بار اس بات پر زور دیا ہے کہ مذہبی اختلافات کی کوئی سیاسی یا قومی اہمیت نہیں ہونی چاہیے۔ ایک جگہ کہتے ہیں، ’’کیا آپ ایک ہی ملک کے باشندے نہیں ہیں۔ یاد رکھیے کہ ہندو اور مسلمان کے لفظ محض مذہبی امتیاز کے لیے استعمال ہوتے ہیں وگرنہ سب لوگ، خواہ ہندو ہوں یا مسلمان اور وہ عیسائی بھی جو اس ملک میں رہتے ہیں، سب کے سب اس لحاظ سے ایک قوم ہیں۔‘‘

    سر سید احمد خاں کا اثر مسلمانوں کے کچھ اونچے طبقے کے کچھ لوگوں پر ہوا۔ انہوں نے شہری یا دیہاتی عوام سے کوئی واسطہ نہیں رکھا۔ یہ عوام اپنے اونچے طبقوں سے تقریباً بے تعلق تھے اور ان کے مقابلے میں ہندو عوام سے بہت قریب تھے۔ مسلمان امراء میں سے کچھ لوگ مغلیہ عہد کے حکمراں خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے مگر عوام ان روایات کے حامل نہ تھے۔ ان میں سے اکثر ہندو سماج کے پست ترین طبقوں سے تبدیل مذہب کے ذریعہ مسلمانوں میں شامل ہوئے تھے۔ ان کی حالت بہت افسوسناک تھی۔ وہ انتہائی افلاس میں مبتلا اور استحصال کا شکار تھے۔

    سر سید کے رفقائے کار میں کئی قابل اور مشہور افراد تھے۔ مذہب کی عقلی تعبیر میں سید چراغ علی اور نواب محسن الملک ان کے دست و بازو تھے۔ تعلیمی سرگرمیوں میں منشی کرامت علی، منشی ذکاء اللہ دہلوی، ڈاکٹر نذیر احمد، مولانا شبلی نعمانی اور اردو کے جید شاعر حالی نے ان کا ساتھ دیا۔ جہاں تک مسلمانوں میں انگریزی تعلیم کے شروع کرنے اور انہیں سیاسی تحریک سے الگ رکھنے کا تعلق ہے، سر سید احمد اپنی کوششوں میں کامیاب رہے۔ انہوں نے ایک مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی بنیاد ڈالی او رنئے متوسط طبقے کے مسلمانوں نے جو سرکاری ملازمت اور آزاد پیشوں میں تھے اس میں بہت شوق سے حصہ لیا۔

    جب اتحاد اسلامی کی تحریک سلطان عبد الحمید کی سر پر ستی میں شروع ہوئی تو ہندوستانی مسلمانوں کے اونچے طبقے کے کچھ لوگ اس سے متاثر ہوئے۔ حالانکہ سر سید احمد خاں نے اس کی مخالفت کی تھی اور اپنی تحریروں میں اس پر زور دیا کہ ہندوستانیوں کو سلطنت ترکی کے معاملات میں دلچسپی نہیں لینی چاہیے۔ نوجوان ترک تحریک کے بارے میں ہندوستانی مسلمانوں کے تاثرات مختلف تھے۔ شروع شروع میں ہندوستان کے اکثر مسلمان اس کو مشتبہ نظروں سے دیکھتے تھے اور عام طور پر لوگوں کی ہمدردی سلطان کے ساتھ تھی جس کے متعلق ان کا خیال تھا کہ وہ ترکی میں یورپی طاقتوں کی سازشوں کے خلاف سد سکندری کا کام دیتا ہے۔

    لیکن کچھ لوگوں نے، جن میں ابو الکلام آزاد بھی تھے، نوجوان ترکوں کا اور ان کے آئینی اور سماجی اصلاح کے پروگرام کا خیر مقدم کیا۔ ۱۹۱۱ء کی جنگ طرابلس میں جب اٹلی نے دفعتا ًترکی پر حملہ کر دیا اور اس کے بعد ۱۹۱۲ء اور ۱۹۱۳ء کی جنگ بلقان کے دوران میں ہندوستانی مسلمانوں میں ترکوں ساتھ ہمدردی کی ایسی زبردست لہر اٹھی جسے دیکھ کر حیرت ہوتی تھی۔ یوں تو سبھی ہندوستانیوں کو اس سے تعلق خاطر اور ہمدردی تھی مگر مسلمانوں کے دلوں میں یہ جذبہ اس قدر شدید تھا جیسے ان کا اپنا معاملہ ہو۔

    آخری اسلامی سلطنت صفحہ ہستی سے مٹ رہی تھی۔ مسلمانوں کی آیندہ امیدوں کا مرکز تباہ ہو رہا تھا۔ ڈاکٹر مختار احمد انصاری ترکی میں ایک طبی مشن لے کر گئے اور اس کے لیے غرباء تک نے چندہ دیا۔ روپیہ اس قدر تیزی سے اکٹھا ہوا کہ خود ہندوستانی مسلموں کے کسی کام کے لیے آج تک نہیں ہوا تھا۔ پہلی عالم گیر جنگ مسلموں کے لیے سخت آزمائش تھی کیونکہ ترکی برطانیہ کے خلاف تھا۔ وہ بے بسی کی حالت میں کچھ نہ کر سکے۔ جب جنگ ختم ہوئی تو ان کے دبے ہوئے جذبات، خلافت کی تحریک میں ابل پڑے۔

    (تلاش ہند حصہ دوم، دسمبر ۴۶ء)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے