سر سید کا کردار
سر سید کے اخلاق و عادات پر حالی نے حیات جاوید میں جو بسیط ’شاید ضرورت سے زیادہ بسیط‘ تبصرہ کیا ہے، اس کے بعد اس موضوع پر طویل اظہار خیال بظاہر غیر ضروری معلوم ہوتا ہے، لیکن چونکہ اس کتاب کی اشاعت کے بعد طریقے طریقے سے سرسید کے متعلق ناخوشگوار شوشے چھوڑے گئے ہیں اور بعض با اثر حلقوں میں ان کے متعلق غلط فہمیاں عام ہو گئی ہیں، ا س لیے شاید اس موضوع پر تفصیلی تبصرہ بے محل نہ سمجھا جائے۔ مولانا شبلی نے سرسید کی سیاسی پالیسی کی نسبت الہلال میں ایک قطعہ لکھا تھا،
کوئی پوچھےگا تو کہہ دوں گا ہزاروں میں یہ بات
روش سید مرحوم خوشامد تو نہ تھی
ہاں مگر یہ ہے کہ تحریک سیاسی کے خلاف
ان کی جو بات تھی، آورد تھی، آمد تو نہ تھی
شبلی کی نظمیں کتابی صورت میں یکجا شائع ہوئیں تو اس قطعے پر شبلی کے جانشین سلیمان ندوی نے ذیل کی حاشیہ آرائی کی، ’’سر سید مرحوم کے یہ خیالات ذاتی نہ تھے بلکہ انگریز ان کے منہ سے زبردستی کہلواتے تھے اورسر سید کالج کی محبت میں یہ سب کچھ گوارا کر لیتے تھے۔‘‘
جس وقت ہم نے ابھی مولانا سلیمان کی افتاد طبع کا صحیح اندازہ نہ کیا تھا، اس وقت اس عجیب و غریب حاشیہ آرائی کو پڑھ کر ہم اکثر سو چا کرتے تھے کہ مولوی صاحب ’’سادہ ’’ہیں یا ’’پرکار’’ یعنی ان کی اپنی آنکھ میں تنکا ہے یا وہ دیدہ و دانستہ دوسروں کی آنکھ میں دھول جھونکنا چاہتے ہیں۔ شبلی کے اشعار کا جو مطلب مولانا نے لیا ہے وہ یقیناً شبلی کا نہیں اور شبلی کے الفاظ اور مولانا کی شرح میں بعد المشرقین ہے۔ شبلی نے سرسید کے سیاسی خیالات کی نسبت صرف اتنا کہا ہے کہ یہ خیالات انہیں خود بخود بغیر کسی کوشش اور تردد کے نہیں سوجھے۔ ان میں آورد ہے آمد نہیں۔ اس اظہار سے اتنا بھی واضح نہیں ہوتا کہ شبلی کی رائے میں یہ خیالات سرسید کو کسی اور نے سجھائے تھے۔ لیکن اگر ان کی یہ ترجمانی بھی مان لی جائے تب بھی مولانا سلیمان کی شرح اور اس خیال میں بنیادی فرق ہے۔ ایک شخص کو ایک بات خود بخود نہیں سوجھتی، دوسرا اس کا خیال دلاتا ہے، لیکن ہو سکتا ہے کہ اس بات کے اس طرح سجھانے پر اس پر عمل کرنے والا اس کا قائل ہو جائے، لیکن مولانا کہتے ہیں کہ سر سید تو دل سے اس بات کے قائل نہ تھے، صرف انگریزوں کی خوشنودی کے لیے قوم کو گمراہ کر رہے تھے۔
شبلی کا اظہار خیال بالکل ایک ناقابل اعتراض رائے کا اظہار خیال ہے، مولانا کی شرح سرسید کے کردار، ان کے اخلاص اور ان کی دیانتداری پر حملہ ہے اور صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو یا تو سرسید کے واقعات زندگی اور ان کی افتاد طبع سے بے خبر ہے، یا سرسید کو فریق مخالف سمجھ کر دیدہ دانستہ ان کی نسبت لوگوں کو گمراہ کرنا چاہتا ہے۔
اسی طرح لوگ صاف صاف تو نہیں لیکن طریقے طریقے سے کہتے ہیں کہ سرسید کی سیاسی پالیسی میں ان کی اپنی خود غرضیاں پنہاں تھیں۔ ہمیں سرسید کی سیاسی پالیسی سے کوئی دلچسپی نہیں، ممکن ہے وہ صحیح ہو یا غلط، لیکن اسے کسی اخلاقی کمزوری پر مبنی قرار دینا بڑی بے انصافی اور بے دردی ہے۔ یہ قابل ذکر حقیقت ہے کہ سرسید کی زندگی میں ان پر کسی نے یہ الزام نہیں لگایا بلکہ ان کے بعد بھی ان کے کسی جاننے والے نے ان خیالات کا اظہار نہیں کیا۔ شبلی نے اخیر عمر میں سرسید پر سختی سے نکتہ چینی کی۔ الہلال کی نظموں اور نجی خطوط میں ان پر طرح طرح کے الزام لگائے۔ ایک خط میں انہیں مسلمانوں کی ترقی کا مانع اور قومی زوال کا باعث قرار دیا۔ لیکن جہاں تک ان کے کردار کا تعلق تھا ایک حرف بھی اس کے خلاف نہیں کہا۔ بلکہ ایک ایسے سلسلہ مضامین میں بھی جو سرسید کی پالیسی کے خلاف لوگوں کو اکسانے کے لیے لکھا گیا تھا، سر سید کے بے عیب اور بہادرانہ شخصی کردار کو خراج تحسین پیش کیا،
’’وہ پر زور دست و قلم جس نے اسباب بغاوت ہند لکھا تھا اور اس وقت لکھا تھا جب کورٹ مارشل کے ہیبت ناک شعلے بلند تھے۔ وہ بہادر جس نے پنجاب یونیورسٹی کی مخالفت میں لارڈ لٹن کی اسپیچوں کی دھجیاں اڑا دی تھیں اور جو کچھ اس نے ان تین آرٹیکلوں میں لکھا، کانگریس کا لٹریچر حقوق طلبی کے متعلق اس سے زیادہ پرزور لٹریچر نہیں پیدا کر سکتا۔ وہ جانباز جو آگرہ کے دربار سے اس لیے برہم ہو کر چلا آیا تھا کہ دربارمیں ہندوستانیوں اور انگریزوں کی کرسیاں برابر درجے پر نہ تھیں۔ وہ انصاف پرست جس نے۔۔۔‘‘
اپنے الہلالی دورمیں مولانا ابوالکلام آزاد جس طرح علی گڑھ تحریک اور اس کے بانیوں کے مخالف رہے ہیں، اس کا ذکر آگے آئےگا۔ لیکن انہیں بھی اعتراف کرنا پڑا کہ اگر کونسلوں کی تمام تاریخ میں کسی مسلمان نے ہمسایہ قوم کے بعض معزز افراد کی طرح آزاد بیانی اور حق پرستی کا نمونہ پیش کیا تو وہ سرسید تھے، مولانا ۱۱ جون ۱۹۱۳ ء کے الہلال میں کونسلوں کے مسلمان نمائندوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ’’ہندوستان میں مجلس وضع قوانین کی ابتدا کو ایک قرن سے زیادہ زمانہ گذر گیا اور فارم پر بھی کونسل کا ایک پورا عہد انتخاب گذر چکا ہے لیکن اس تمام عرصے کی پوری تاریخ پڑھ ڈالیے، یہ کیسی شرم کی بات ہے کہ وہ تمام تر صرف ہندوؤں کی قابلیت، آزاد بیانی، حق پرستی اور ادائے فرض کے صدہا کارنامہ ہائے جلیلہ و عظیمہ کی گذاشت ہے اور سوائے ایک واقعہ کے مسلمانوں کے لیے کوئی تذکرہ نمایاں اپنے اندر نہیں رکھتی۔‘‘ ایک واقعہ سے مرادسید صاحب مرحوم ہیں جو کونسل کے ابتدائی عہد میں دو بار شامل کیے گیے اور جنہوں نے مشہور البرٹ بل کے مباحثے میں یادگار حصہ لیا تھا۔
آج جو لوگ سرسید کو بز دل یا خوشامدی کہتے ہیں وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ سر سید نے جو ایک زمانے میں انڈین نیشنل کانگریس کی مخالفت کی، وہ حکام کی خوشنودی کے لیے تھی۔ یہ بزرگ آج کی کانگریس کے متعلق اپنی رائے قائم کرتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ جس زمانے میں سر سید نے کانگریس کی مخالفت کی، اس وقت کانگریس ایسی نہ تھی کہ اس کی مخالفت سے حکام خوش ہوتے۔ انڈین نیشنل کانگریس کی ابتدائی تاریخ کے متعلق ہمیں یہ امر فراموش نہ کرنا چاہیے کہ اس کا آغاز لارڈ ڈفرن وائسرائے ہند کے ایماء اور اجازت سے ہوا۔ اس کی تاسیس میں سب سے زیادہ کوشش حکومت ہند کے ایک سابق سکریٹری مسٹر ایلن ہیوم نے کی ’جو کانگریس کے متعلق سر سید کے خیالات کو ایک قسم کا جنون کہتا تھا‘ اور جب سر سید نے کانگریس کے خلاف تقریر کی، اس وقت کانگریس کے کھلے اجلاس میں منتخبہ نمائندوں کے علاوہ کانگریس کے بہی خواہ سرکاری افسروں کی بھی ایک بڑی جماعت شریک ہوا کرتی تھی۔
سرسید کے سیاسی خیالات سے ہمیں کوئی بحث نہیں اور نہ ہمارا دعوی ہے کہ سر سید خطا و نسیاں سے مبرا تھے۔ ان سے کئی غلطیاں ہوئیں اور بڑوں سے غلطیاں بھی بڑی ہوتی ہیں لیکن ان میں ریاکاری، خوشامد اور خود غرضی کا شائبہ تک نہ تھا اور جو لوگ ان سے یہ باتیں منسوب کرتے ہیں، وہ ان کے حالات زندگی سے بے خبر ہیں اور واقعات کے نشیب و فراز کو نہیں سمجھے۔ سخن شناس نہ دلبرا خطا ایں جا نیست۔
سرسید کے حالات زندگی میں جس قدر کرید کی جائے اور ان کی تحریروں اور معاصرانہ بیانات کو جس قدر غور سے پڑھا جائے، یہی نظر آتا ہے کہ سر سید پرلے درجے کے کھرے انسان تھے اور ان کی اکثر مشکلات بلکہ ان کے بہت سے نقائص کا راز بھی ان کی دیانتداری، اخلاص اور صاف گوئی میں چھپا ہے۔ ہم فرقہ اہل حدیث کا ذکر کرتے ہوئے سر سید کے اس بیان کو نقل کر چکے ہیں کہ میں ’’نیم چڑھا وہابی‘‘ ہوں اور میرے نزدیک کسی خیال سے بھی خواہ وہ کیسا ہی کیوں نہ ہو، حق بات کو ظاہر نہ کرنا معیوب ہے۔ وہ لکھتے ہیں، ’’ہمارا دشمن شیطان دینداری کے پردے میں ہم کو زیادہ دھوکے میں ڈالتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نیک کام کر رہے ہیں اور لوگوں کو نیک راہ بتا رہے ہیں۔ اگر فلاں کلمۃ الحق کہیں سب بدک جائیں گے اور جو نیکی ہم پھیلا رہے ہیں، اس کو نقصان پہنچے گا، یہ دینداری کے پردے میں شیطان کا دھوکہ دینا ہے۔‘‘
مذہبی معاملات میں سرسید کی جو تحریریں تھیں، ظاہر ہے ان سے سر سید کے تعلیمی مشن کو نقصان پہنچا اور غیر ضروری مخالفت کا سامنا ہوا۔ کوئی مصلحت اندیش شخص ہوتا تو اپنی مقبولیت کے خیال سے نہ سہی، بلکہ اپنے اصل مقصد کی کامیابی ہی کے لیے ان سے باز رہتا لیکن سر سید کا جو دستور العمل تھا وہ ہم اوپر نقل کر چکے ہیں۔ وہ ایک بات کو حق اور قوم کے لیے مفید جانتے ہوئے کس طرح اس کی تکمیل سے باز رہتے۔ انہیں کو ئی اس قسم کا مشورہ دیتا تو وہ اسے شیطان کی آواز سمجھتے، جو دینداری کے پردے میں ہمیں دیتا ہے۔ ’’حق بات کو چھپانا یا باز رکھنا اور اس سے نیکی پھیلانے کی توقع رکھنا ایسا ہی ہے جیسے جو بونا اور گیہوں ہونے کی توقع رکھنا۔‘‘
سرسید کو خدا تعالی نے بڑی فہم و فراست دی تھی۔ بقول ڈاکٹر عابد حسین، ’’انہیں اس تدبر اور حکمت عملی کا بچا کھچا سرمایہ ملا تھا جس کی بدولت مسلمانوں نے سات آٹھ سو برس ہندوستان پر حکومت کی۔‘‘ ان کی رائے بالعموم صائب تھی اور وہ عام طور ایک نظر میں کھرے اور کھوٹے کو پہچان لیتے تھے اور صاف صاف اپنے خیال کا اظہار کر دیتے تھے، لیکن چونکہ وہ خود بے حد کھرے اور نیک نیت تھے اس لیے دوسروں کو بسا اوقات اپنی طرح سمجھ لیتے تھے اور ان لوگوں پر کلی اعتماد کر بیٹھتے تھے جو فی الواقع اس اعتماد کے مستحق نہ تھے۔ شیام بہاری لال پر انہوں نے جس طرح اعتماد کیا اور اس نے انہیں جس طرح دھوکہ دیا وہ علی گڑھ کی تاریخ کا ایک افسوسناک باب ہے۔ اسی طرح ممکن ہے کہ علی گڑھ میں بعض ایسے اشخاص ہوں جنہوں نے سرسید کے اعتماد کا نا جائز فائدہ اٹھایا ہو لیکن اس سے ان کی اپنی دیانتداری اور خلوص و نیک نیتی پر کوئی حرف نہیں آتا۔
سرسید کی ایک خصوصیت جس نے اخیر عمر میں بڑی غیر معتدل صورت اختیار کر لی تھی، اس کی تہہ میں بھی سرسید کا جذبہ راست بازی ہی کام کر رہا تھا۔ حالی، جس نے حیات جاوید میں مشرقی خوش اخلاقی کو نفاست سے نباہا ہے اور سرسید کی خامیوں کا ذکر اعتدال سے کیا ہے، ایک جگہ لکھتا ہے، ’’بایں ہمہ اس بات سے انکار نہیں ہو سکتا کہ آخری عمر میں سرسید کی خود رائی یا جو وثوق کہ ان کو اپنی رایوں پر تھا، وہ حد اعتدال سے متجاوز ہوگیا تھا، بعض آیات قرآنی کے وہ ایسے معنی بیان کرتے تھے جن کو سن کر تعجب ہوتا تھا کہ کیونکر ایسا عالی دماغ آدمی ان کمزور اور بودی تاویلوں کو صحیح سمجھتا ہے؟ ہر چند کہ ان کے دوست ان تاویلوں پر ہنستے تھے مگر وہ کسی طرح اپنی رائے سے رجوع نہ کرتے تھے۔ کالج کے متعلق بھی اخیر زمانے میں ان سے بعض امور ایسے سر زد ہوئے جن کو لوگ تعجب سے دیکھتے تھے۔‘‘
ٹرسٹی بل کے معاملے میں جس طرح سرسید اپنی ضد پر اڑے رہے، وہ اسی شخص سے ہو سکتا تھا جو یا تو پرلے درجے کا کمینہ اور خود غرض ہو، یا جسے اپنی دیانتداری اور راست بازی پر اس قدر بھروسہ ہو کہ وہ عام اور قدرتی غلط فہمیوں کی پرواہ نہ کرے۔ اور جس بات کو کالج کے لیے ٹھیک سمجھتا ہو اس پر قائم رہے۔ سر سید کو صاف نطر آتا تھا کہ ان کے مخالف سید محمود کے جوائنٹ سکریٹری بنائے جانے کو سرسید کی خود غرضی پر محمول کریں گے اور مولوی سمیع اللہ خاں کے کالج پر جو حقوق تھے وہ بھی ظاہر تھے۔ لیکن مولوی صاحب کے یورپین اسٹاف سے تعلقات خراب تھے۔ (وہ اس زمانے کی ایک یاد داشت میں لکھتے ہیں کہ کون ممبر ہوگا جو اس بات کو پسند کرے گا کہ بورڈنگ ہاوس ایک عیسائی کے ہاتھ میں رہے) اور کفایت شعاری کے خیال سے بھی کہتے تھے کہ کالج میں ’’بڑی تنخواہ کے یورپین پروفیسر زیادہ تعداد میں نہ رکھے جائیں ’’ لیکن سرسید نے یورپین اساتذہ کو نہ صرف اپنی تعلیمی اسکیم بلکہ اصلاح معاشرت اور حکومت اور مسلمانوں کے درمیان تعلقات استوار کرنے کا کام سونپ رکھا تھا۔
وہ سمجھتے تھے کہ انہیں مولوی صاحب سے جو خطرات ہیں ان کا سد باب لازم ہے اور اس مقصد کے لیے یورپین اسٹاف نے جو طریقہ تجویز کیا، سرسید اس پر مخالفتوں اور غلط فہمیوں کے باوجود سختی سے عامل رہے، وہ مخالفتوں کی طعن و تشنیع سے واقف تھے، لیکن ان کا دل جانتا تھا کہ وہ سید محمود کے جوائنٹ سکریٹری شپ کی حمایت سید محمود کی عزت یا نیک نامی کے لیے نہیں، بلکہ کالج کے فائدے کے لیے کر رہے ہیں۔ اس لیے انہوں نے اس طعن و تشنیع کی ذرا پروا نہ کی۔ وہ نواب وقار جنگ کو ایک خط میں لکھتے ہیں، ’’پس اگر آپ کو میری دیانتداری پر جو یہ لفظ جامع جمیع الفاظ ہے طمانیت ہوتی تو آپ یقین کرتے کہ مشکل مرحلے کے اختیار کرنے کے لیے کوئی ایسا امر در پیش 1 ہے جس کے سبب یہ طریقہ اختیار کیا ہے۔‘‘
ٹرسٹی بل کے متعلق آج بھی سرسید کے مخالف ناواقفوں کو گمراہ کر سکتے ہیں، لیکن جن لوگوں نے نواب محسن الملک اور نواب وقار الملک کے زمانہ قیادت میں اس کش مکش کا مطالعہ کیا ہے جو یورپین اسٹاف کی وجہ سے کالج میں پیدا ہوئی اور اس نقصان کا اندازہ بھی کرتے ہیں جو یورپین اسٹاف کی علیحدگی سے علی گڑھ کالج کے تعلیمی معیار کو پہنچا، وہ سر سید کے خدشات کو بالخصوص اس زمانے میں جب کالج ابھی چند دنوں کا پودا تھا، اور کسی گورنر یا وائسرائے کی نگہ کرم سے مرجھا سکتا تھا، بے بنیاد خیال نہ کریں گے۔ اور بہرکیف جو شخص سرسید کی مکمل قومی اسکیم سے ناواقف ہے وہ اس اسکیم سے اختلاف کرے تو کرے لیکن اسے اعتراف کرنا پڑےگا کہ اس اسکیم کے پیشِ نظر یورپین اسٹاف کے خدشوں کا مداوا نا گزیر تھا بلکہ سرسید ان کا سد باب نہ کرتے تو اس پر حیرت ہوتی۔
اس کے علاوہ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اگرچہ سید محمود کی جوائنٹ سکریٹری شپ پر نکتہ چینی کا بڑا موقع تھا، لیکن سرسید کے کسی ذمہ دار مخالف نے ان پر خود غرضی کا الزام نہیں لگایا۔ مولوی سمیع اللہ نے بل کی اس دفعہ کی سخت مخالفت کی اور اس کش مکش نے بڑی تلخ صورت اختیار کر لی تھی کہ سرسید نے مولوی صاحب کو فرانس میں جاکر ڈوئل لڑنے کا چیلنج دیا۔ لیکن مولوی سمیع اللہ نے پھر بھی یہ نہیں کہا کہ سر سید اپنے بیٹے کی محبت میں سرشار ہوکر اسے جوائنٹ سکریٹری بنا رہے ہیں۔ بلکہ اصولی سوال اور یورپین اسٹاف کے اختیار کے مسئلے پر اپنی مخالفت کی بنیاد رکھی۔
حال میں مولوی اقبال احمد سہیل نے سیرت شبلی کے ان اجزاء میں جو رسالہ الاصلاح میں شائع ہوئے تھے، سر سید کے متعلق اس معاملے میں بد ظنی پیدا کرنی چاہی ہے اور ٹرسٹی بل کو شبلی اور سید کے درمیان وجہ اختلاف بتایا ہے، لیکن اگر وہ خوش اعتقادی کی پٹی اتار کر کلیات شبلی کو ہی دیکھتے تو انہیں نظر آ جاتا کہ شبلی سید محمود کی جا نشینی کے شدت سے حامی تھے۔ اس معاملے میں یہ امر بھی غور طلب ہے کہ مولوی سمیع اللہ کے سوانح نگار نے (باوجود یہ کہ اس نے سر سید بلکہ حالی کی ایک آدھ جگہ شکایت کی ہے) ٹرسٹی بل کے متعلق شکایت کا ایک حرف نہیں لکھا اور یہ کہیں نہیں کہا کہ سرسید کسی اصول یا قومی مصلحت کی بناء پر نہیں بلکہ خاندانی مصلحتوں کی بناء پر سید محمود کی جوائنٹ سکریٹری شپ کے حامی تھے۔
اگر سرسید کی ’’اکل کھری‘‘ طبیعت کا اندازہ لگانا ہو تو ان کے خطوط کا مطالعہ کرنا چاہیے، جن میں نہایت بے تکلفی سے اور بعض اوقات بڑے کڑوے طریقے سے اس ’’نیم چڑھے وہابی‘‘ نے اپنے ما فی الضمیر کا اظہار کیا ہے۔ ایک جگہ نواب وقار الملک کو لکھتے ہیں، ’’آپ کی عادت ہمیشہ بے فائدہ طول نویسی کی ہے۔‘‘ پھر انہیں کو کہتے ہیں، ’’میں اس بات کو ہر گز دل میں نہیں رکھنا چاہتا کہ بے شک آپ نے نہایت نا مناسب طریقہ اختیار کیا۔ (چاہے) اس کا کوئی سبب ہو۔‘‘ نواب وقار الملک ہی کو لکھتے ہیں، ’’جن امور کو آپ تصور کرتے ہیں کہ قومی کالج کے لیے مبارک فال نہیں، ہم انہی امور کو قومی کالج کے لیے مبارک فال سمجھتے ہیں۔ پس اس کا کوئی علاج نہیں اور یہ یقین کرنا چاہیے کہ خدا کو جو منظور ہوگا، وہ ہوگا۔‘‘ ایک خط میں نواب محسن الملک کی نسبت لکھا ہے، ’’ان کا ایک خط میرے پاس بھی آیا ہے، جن میں لفظ ہیں مگر ان میں اثر نہیں۔‘‘
سرسید صرف خطوط ہی میں اپنے ما فی الضمیر کا صاف صاف اظہار نہ کرتے بلکہ ان کا کلیہ قاعدہ تھا کہ جس طرف سے انہیں رنج پہنچتا وہ اس کے ساتھ ظاہر داری کا برتاو بھی نہ کرتے۔ حالی لکھتے ہیں، ’’جن یورپین افسروں نے ابتدا میں مدرسۃ العلوم کی مخالفت کی تھی یا اس کے لیے سرکاری زمین ملنے میں مزاحم ہوئے تھے، سرسید نے ان سے پرائیویٹ طور پر ملنا ترک کر دیا تھا اور کبھی ان کے ساتھ ظاہر داری کا برتاو نہیں کیا۔‘‘ یہی طریق کار ان کا اپنے ہندوستانی دوستوں سے تھا۔ ان کے تین بے تکلف دوستوں نے ٹرسٹی بل کے موقع پر نہ صرف سرسید سے اختلاف کیا بلکہ ایک مخالف پارٹی بنائی، جس کی طرف سے سر سید اور ان کے طریق کا ر پر نا گوار ذاتی حملے ہوئے۔ ان میں سے ایک کی نسبت سرسید لکھتے ہیں، ’’جب وہ مجھ سے ملنے آئے تو میں نے ان سے کہا کہ خاں صاحب! میری عادت کسی سے منافقانہ ملنے کی نہیں۔ آپ رئیس ہیں جب کہیں ملاقات ہوگی میں آپ کی تعظیم کروں گا۔ آپ ممبر کمیٹی کے ہیں۔ جب اجلاس میں آپ تشریف لاویں گے آپ کا ادب کروں گا لیکن آپ سے دوستانہ جو ملاقات تھی، وہ راہ و رسم میں رکھنی نہیں چاہتا۔‘‘
اسلام اور بانی ِاسلام کی محبت، انتہائی راست بازی اور صاف گوئی کے علاوہ سرسید کی دوسری قابل ذکر خصوصیت مذہبی حمیت ہے۔ ان کے بعض عقائد اور خیالات سے اختلاف کرنا آسان ہے، لیکن انہیں مذہب اسلام اور بانیِ اسلام سے جو محبت تھی اس کا اعتراف نہ کرنا بھی بے انصافی ہے۔ سرسید کی مذہبی تصانیف کا ہم آئندہ اوراق میں ذکر کریں گے۔ عقائد و تفسیر کے کئی مسئلوں میں انہوں نے جس طرح علماء سے اختلاف کیا وہ سب پر روشن ہے، لیکن ارکان اسلام میں سرسید کا جو حال تھا اور افسروں کے ساتھ وہ جس طرح کا برتاو چاہتے تھے اس کا اندازہ ان کے ایک خط سے ہوتا ہے۔ ایک زمانے میں نواب وقار الملک کا کسی ایسے افسر کے ساتھ سابقہ پڑا جو کچہری کے اوقات میں نماز پڑھنے سے تعارض کرتا تھا۔ سر سید کو بھی اس کی اطلاع ملی۔ انہیں ایک خط میں لکھتے ہیں،
’’نماز جو خدا کا فرض ہے اس کو ہم اپنی شامت اعمال سے جس طرح خرابی سے ہو ادا کریں یا قضا کریں۔ لیکن اگر کوئی شخص یہ کہے کہ تم نماز نہ پڑھو، اس کا صبر ایک لمحہ کے لیے نہیں ہو سکتا۔ یہ بات سنی بھی نہیں جا سکتی۔ میری سمجھ میں نماز نہ پڑھنا صرف گناہ ہے جس کے بخشے جانے کی توقع ہے اور کسی شخص کے منع کرنے سے نہ پڑھنا یا سستی میں ڈالنا میری سمجھ میں کفر ہے جو کبھی بخشا نہ جائےگا۔ تم کو یا تو پہلے ہی خود اپنی شامتِ اعمال سے ایسا طریقہ اختیار کرنا تھا جو کبھی اس قسم کی بحث نہ آتی اور جب ایسا طریقہ اختیار نہیں کیا تھا تو پھر لجلجانا اور گڑگڑانا اور ’’حضور رخصت ہی دیں۔ تنخواہ کاٹ لیں‘‘ کہنا واہیات تھا، تڑاق سے استعفی دے دینا تھا اور صاف کہہ دینا تھا کہ میں اپنے خدائے عظیم الشان قادرِ مطلق کے حکم کی اطاعت کروں گا نہ آپ کی۔ کیا ہوتا؟ نوکری نہ میسر ہوتی۔ فاقے سے مر جاتے۔ نہایت اچھا ہوتا۔ والسلام۔‘‘
سر سید شاعر بھی تھے۔ ایک غزل کے چند اشعار سے ان کامذ ہبی جوش وولولہ ظاہر ہوگا،
فلاطون طفل کے باشد بہ یونانے کہ من دارم
مسیحا رشک مے آروز درمانے کہ من دارم
خدا دارم ولے بریاں ز عشق مصطفی دارم
ندارد ہیچ کافر ساز و سامانے کہ من دارم
ز جبریلی امین قرآں بہ پیغامے نمے خواہم
ہمہ گفتارے معشوق است قرآنے کہ من دارم
فلک یک مطلع خورشید دارد با ہمہ شوکت
ہزاراں ایں چنیں دارد گریبانے کہ من دارم
ز برہان تا بہ ایماں سنگ ہا دارد رہ واعظ
ندارد ہیچ واعظ ہمچو برہانے کہ من دارم
اسی طرح ان کا ایک خط ہے جس سے اس کمالِ محبت و عقیدت کا اندازہ ہوتا ہے جو اس سید زادے کو رسول اکرم سے تھی۔ لندن سے ایک خط میں نواب محسن الملک کو لکھتے ہیں اور دیکھیے درد دل کو سیدھے سادے الفاظ میں کس مؤثر طریقے سے بیان کرتے ہیں، ’’ان دنوں ذرا میرے دل کو سوزش ہے۔ ولیم میور صاحب نے جو کتاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات میں لکھی ہے، اس کو میں دیکھ رہا ہوں۔ اس نے دل کو جلا دیا۔ اس کی ناانصافیاں اور تعصبات دیکھ کر دل کباب ہوگیا اور مصمم ارادہ کیا کہ آنحضرت صلعم کی سیرت میں جیسے کہ پہلے بھی ارادہ تھا کتاب لکھ دی جائے۔ اگر تمام روپیہ خرچ اور میں فقیر بھیک مانگنے کے لائق ہو جاؤں تو بلا سے۔ قیامت میں تو یہ کہہ کر پکارا جاؤں گا کہ اس فقیر، مسکین احمد کو جو اپنے دادا محمد صلعم کے نام پر فقیر ہو کر مر گیا، حاضر کرو۔ مارا ہمیں تمغہ شہنشاہی بس است۔‘‘
قلندری، راست بازی اور مذہبی حمیت کے علاوہ سرسید کے کیریکٹر کا تیسرا بڑا عنصر قلندری اور آزاد روی ہے۔ ان کی زندگی بڑے بڑے حکام اور اہل ثروت کے درمیان گذری اور اللہ تعالی نے ان سے اتنے بڑے عظیم الشان دنیاوی کام لیے کہ کسی کو خیال نہیں آسکتا کہ سرسید کا دل ایک آزاد رو، ہوسِ دنیوی سے پاک اور بے غرض قلندر کا تھا۔
اگر قلندری کا منشاء دنیا اور اہل دنیا کو بالکل ترک کر دینا ہے تو ظاہر ہے کہ سر سید قلندر نہیں کہلا سکتے۔ اور سچے معنوں میں اس معیار پر کون پورا اترے گا۔ کیونکہ دنیا سے کچھ نہ کچھ تعلق تو ہر ذی حیات کے لیے نا گزیر ہے، لیکن اگر طریقہء نقشبندیہ کی تعلیم کے مطابق ’’باہمہ‘‘ اور ’’بے ہمہ‘‘ ہونا ہی اصل درویشی ہے تو سرسید اس معیار پر پورے اترتے ہیں۔ وہ ایک دوست کو لکھتے ہیں، ’’سب سے بڑا کام انسان کے لیے دنیا میں یہ ہے کہ دنیا کو برتے اور دل کو اس سے تعلق نہ ہو۔‘‘ ان کے نزدیک تمام تصوف کا خلاصہ یہ تھا اور اسی پر ان کا عمل تھا۔
سرسید نے جو جاہ و اقتدار قوم اور حکام کی نظر وں میں حاصل کیا، اس کی ہندوستانی مسلمانوں میں نظیر نہیں مل سکتی۔ اگر وہ اپنے اثر کو حصول جاہ کے لیے صرف کرتے تو ان کے لیے بے حد مال و متاع جمع کرنا بلکہ کسی مستقل ریاست کی بنیاد ڈالنا مشکل نہ تھا۔ لیکن اپنی قدر و منزلت کا فائدہ اٹھانا تو ایک طرف وہ اپنا تمام تن، من، دھن قوم پر قربان کر گئے اور پھر بھی یہ حسرت رہی کہ کچھ اور بھی ہوتا تو وہ بھی اپنے محبوب کے لیے اسی طرح لٹا دیتے۔
خنک آں قمار بازے کہ بباخت ہر چہ بودش
بہ برش نہ ماند الاّ ہوسِ قمارِ دیگر
جب یہ قلندر مرض الموت میں مبتلا ہوا تو بقول مسٹر آرنلڈ، ’’نہ اس کے پاس رہنے کو گھر تھا، نہ مرنے کو۔ اور جب وہ مرا تو اس کی تجہیز و تکفین کے لیے گھر سے کچھ نہ نکلا۔‘‘ کیا اس سے زیادہ کوئی صوفی کوئی درویش دنیا سے بے تعلق ہو سکتا ہے؟
جمع اموال کی نسبت سر سید کا جو نقطہ نظر تھا، اس کا اظہار ایک خط میں ہے، جس میں وہ اپنے ایک دوست کو قومی کاموں کی عملی مدد کی تلقین کرتے ہیں،
’’ایسے ضروری کاموں کے لیے تنگی اخراجات کا عذر، میں اپنے خیال کے مطابق مہمل سمجھتا ہوں۔ پس تم پر کیسی ہی تنگی ہو اور آمدنی اخراجات کو کافی نہ ہو اور ہر مہینے قرض ہوتا جاوے۔ ایسے امور میں میں ان باتوں کی کچھ وقعت نہیں سمجھتا۔ دنیا کا کارخانہ اسی طرح لشتم پشتم چلا جاتا ہے بجز ان لوگوں کے جو اپنی زندگی کا مقصود گنجِ قاروں جمع کرنا سمجھتے ہیں اور جس قدر جمع ہوجاوے بس نہیں کرتے اور زیادہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ خدا مجھ کو اور تم کو ایسا نہ کرے۔‘‘
سرسید کی مذہبی تصانیف پر اعتراض کرنا آسان ہے۔ ان کے تعلیمی نظریوں اور سیاسی پالیسی سے بھی اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ ان کی مرتب کردہ تاریخی کتب میں اتنی غلطیاں رہ گئی ہیں کہ انہیں زبردست محقق یا بے عیب اسکالر نہیں کہا جا سکتا۔ ان کے طرزِ تحریر میں بھی بعض نقص ہیں۔ لیکن ان کے پاک اور بلند شخصی کیریکٹر پر حرف وہی کرے گا جو حقیقت سے چشم پوشی کرے۔ ان کے واقعاتِ زندگی دیکھیں تو خیال آتا ہے کہ یہ مومنانہ سیرت، یہ بے ریائی، بے حرصی اور جرات اسی خوش نصیب شخص کو میسر ہو سکتی تھی جو نقشبندإ وقت شاہ غلام علی کی گود میں کھیلا کودا تھا، جس نے شاہ ولی اللہ کے پوتوں اور فرزندان ارجمند سے فیض حاصل کیا تھا، جو فقط ایک وزیرِ سلطنت کا نواسہ اور ہماری انتظامی اور سیاسی روایات کا وارث نہ تھا بلکہ جس نے مدتوں ہمارے بہترین روحانی سر چشموں سے اپنی پیاس بجھائی تھی،
گرچہ خوردیم نسبتِ است بزرگ
ذرہ آفتاب تا با نیم
حاشیہ
(۱) عجب نہیں کہ اس میں گورنر کے اصرار کو بھی دخل ہو۔ بعد میں گورنر یوپی نے یورپین اسٹاف کے متعلق کش مکش میں علانیہ حصہ لیا۔ اور یہ امر خلاف قیاس ہے کہ ابتدا میں جب یہ معلوم نہ تھا کہ کالج کن اصولوں پر چلتا ہے، انہوں نے اس معاملے میں دلچسپی نہ لی ہو۔ حالی نے گورنمنٹ کا بالصراحت ذکر نہیں کیا، لیکن یہ کہا ہے کہ یہ تجویز یورپین اسٹاف اور ’’بعض اور یورپین افسروں‘‘ کی تھی۔ اور سرسید نے اپنی مرضی کے خلاف اور سید محمود کی سخت نا پسندیدگی کے باوجود اسے اختیار کیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.