سر سید کا اسلوب
سر سید کے ذہنی سفر اور اس کی نوعیت کو سمجھنے کے لیے ان کے اسلوب کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ جس طرح سر سید کی شخصیت کسی ایک معیّن دائرے کی پابند نہیں، اسی طرح ان کا اسلوب بھی کسی بندھے ٹکے انداز سے مشروط نہیں ہے۔ سر سید اپنی مختلف تحریروں میں اپنے موضوعات کی مناسبت سے اسلوب کا اور لہجے کا، یہاں تک کہ ذخیرہ الفاظ کا انتخاب کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ سر سید کی تاریخی کتابوں، ادبی مضامین، انشائیوں، سماجی موضوعات پر لکھے جانے والے مقالات کا رنگ جدا جدا ہے۔ سر سید کے اسلوب کا تعین در اصل ان کے مو ضوعات کرتے ہیں۔ ہندی وشوکوش میں اسلوب کے معنی چال، ڈھب، ڈھنگ، طریق، رواج، رسم، روایت، ضابطہ، طرز، فقرے کی تشکیل کے نوع، سختی، کرختگی، ٹھوس، بت، مجسّمہ، پتھر کی مورتی وغیرہ۔ اس لفظ کے اور بھی مطلب ہیں۔ لکھنے کا طریق کار، لکھنے کا قلم، تیز چلنے والا قلم یا لکھنے کا کوئی نوکیلا آلہ کار وغیرہ۔ ان لغوی تعریفوں کو قلم، طرز تحریر یا طریق تحریر اور مصنف کی ذاتیات سے منسلک کیا جا سکتا ہے۔
سر سید کی تحریریں ہمیں بتاتی ہیں کہ اسلوب ہمیشہ خیال اور الفاظ سے باہم مربوط ہوتا ہے۔ خیال میں اختصار و ایجاز، سلاست، صفائی اور سادگی آ جاتی ہے اور الفاظ سے زور بیان اور موسیقیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اسلوب اور ادب کا ایک دوسرے سے بہت گہرا رشتہ ہے۔ اور شاید اسی وجہ سے کچھ لوگ آج بھی اسلوب سے ادبی زبان مراد لیتے ہیں اور اسلوب کو اچھی، مؤثر اور خوبصورت تحریر کی خصوصیت سمجھتے ہیں۔ مگراسلوب کا مطالعہ ایک ایسا میدان ہے جہاں زبان ادب اور زندگی ایک دوسرے کے بہت قریب آ جاتے ہیں۔ آل احمد سرور نے اسلوب کی تعریف یہ مقرر کی ہے، ’’واضح خیال کا موزوں الفاظ میں اظہار ہے۔‘‘ (نثر کا اسٹائل از آل احمد سرور، ص ۴۸)
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر ادیب کا اپنا مخصوص اور منفرد انداز ہوتا ہے جو اسے دوسروں سے ممتاز اور ممیز کرتا ہے۔ ادبی تنقید میں اچھے اور برے اسلوب کی تخصیص بھی پائی جاتی ہے۔ کامیاب اور ناکام اسلوب کی اصطلاحیں بھی مروج ہیں۔ مثلا سادہ، بے تکلف، موزوں، خوش آہنگ، شگفتہ، خوبصورت یا مرصع اسلوب۔ موضوع کی بناء پر کسی شاعر یا ادیب کی انفرادیت کا اندازہ لگانا خاصا مشکل ہے۔ کیونکہ موضوع خواہ کیسا ہی ہو یہ کسی ایک شخص کی ملکیت نہیں ہوتا۔ اسلوب میں موضوع، خیال اور زبان اہم حیثیت رکھتے ہیں۔ اس طرح اسلوب کو ہم کسی لکھنے والے کا شناس نامہ بھی کہہ سکتے ہیں۔
ہر بڑے لکھنے والے کی طرح سر سید کا شناس نامہ بھی یہ ہے کہ انہوں نے ایک ساتھ کئی اسالیب اختیار کیے۔ اسلوب کو مقصود بالذات نہیں سمجھا نہ ہی کسی ایک رنگ پر قانع ہوئے۔ وہ ادیب محض نہیں تھے اور ان کی ذہنی ذمے داریاں کثیر تھیں۔ قوم کی تعمیر و تشکیل کا کام ان کے اصلاحی تصورات میں سب سے اہم تھا۔ سر سید نے جس طرح زندگی کو ایک ترقی پسند زاویہ نظر سے دیکھا اسی طرح وہ ادب کو بھی نئے تقاضوں کا ترجمان بنانا چاہتے تھے۔
سر سید کا عام اسلوب بیان سادہ ہے۔ انہوں نے محدود ادبی مقاصد یا آرائش پر قطعاً زور نہیں دیا ہے۔ ایک طرح کے عوامی رنگ کی پاسداری کی ہے۔ مشکل پسندی سے گریز کیا۔ زبان عام فہم استعمال کی ہے۔ سیدھے سادے فقرے وضع کیے ہیں، ہر بات کو وضاحت اور قطعیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ طول کلامی سے بچے ہیں۔ لہجہ اس قدر آسان کہ عام آدمی بھی سمجھ لے۔ نیچرل چیزوں سے لگاؤ اور بناوٹ سے گریز ان کے یہاں نمایاں ہے۔
سر سید کا سب بڑا کارنامہ ان کی علمی نثر ہے جس کی بنیاد انہوں نے تعقل پسندی اور منطقی استدلال کے اصول پر رکھی۔ سر سید سے پہلے شاعری کو چھوڑ کر اردو ادبیات کا دائرہ مذہب، تصوف اور تذکرہ نویسی تک محدود تھا۔ علوم طبعی کا مذاق کم تھا۔ ریاضیات اور فنون کی جانب بھی توجہ نہ ہونے کے برابر تھی۔ مذہب کے منقولی اور روایتی اقدار پر زور دیا جاتا تھاجو کہ زندگی کو اثباتی اور مادّی پہلوؤں سے دور لے جانے والی تھیں۔
اردو کی ادبی نثر اپنی ارتقائی منزلیں طے کر رہی تھی۔ رنگین، مقفی اور مسجع عبارت آرائی کا چلن تھا۔ اس پیرائے میں کوئی ڈھنگ کی بات کہنا آسان نہیں تھا۔ اردو نثر کا سرمایہ افتخار میر امن کی باغ و بہار تھی یا پھر غالب کے خطوط، انہیں ہم جدید نثر کا عقبی پردہ کہہ سکتے ہیں۔ بے شک مرزا غالب نے خطوط میں سلاست اور سادگی اختیار کی تھی۔ فورٹ ولیم کالج کی روز مرہ سے قریب نثر، دہلی کالج کی علمی نثر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا مگر ان سب کا دائرہ اثر محدود اور دامن تنگ تھا۔
سر سید نے ایک مخصوص زمانی عرصے میں اپنے پورے ادبی سرمائے پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس کی۔ انہوں نے مضمون اور موضوع میں تنوع پیدا کیا۔ اور فکر و ادب میں روایت کی تقلید سے ہٹ کر آزادی ِ رائے اور آزاد خیالی کی رسم کو ترقی دی۔ ایک ایسے مکتب کی بنیاد رکھی جس کی ترجیحات میں عقل، نیچر، تہذیب اور مادی ترقی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ مادیت، عقلیت، اجتماعیت اور حقائق نگاری ان کے اسلوب کی بنیادی خصوصیات ہیں۔ سر سید اپنے عام اسلوب کے بارے میں کہتے ہیں،
جہاں تک ہم سے ہو سکا ہم نے اردو زبان کے علم و ادب کی ترقی میں اپنے ناچیز پرچوں (یعنی تہذیب الاخلاق) کے ذریعے کوشش کی۔ مضمون کی ادا کا ایک صاف اور سیدھا طریقہ کار اختیار کیا۔ جہاں تک ہم کج مج نے یاری دی، الفاظ کی درستی اور بول چال کی صفائی پر کوشش کی۔ رنگینی ِ عبارت سے (جو تشبیہات واستعارات خیال سے بھری ہوتی ہیں، اور جس کی شوکت صرف لفظوں ہی لفظوں میں رہتی ہے اور دل پر کوئی اثر نہیں ہوتا) پرہیز کیا۔ تک بندی سے جو اس زمانے میں مقفی عبارت کہلاتی تھی، ہاتھ اٹھایا، جہاں تک ہو سکا سادگی عبارت پر توجہ کی۔ اس میں کوشش کی کہ جو کچھ لطف ہو وہ صرف مضمون کی ادا میں ہو، جو دل میں ہو وہی دوسرے کے دل میں پڑے تاکہ دل سے نکلے اور دل میں بیٹھے۔‘‘ (اسلوبیاتی تنقید از طارق سعید، ص ۸۰)
سر سید کے اسلوب میں یہ تمام خصوصیات جن کا ذکر اس اقتباس میں آیا ہے بدرجہ اتم موجود ہیں۔ ان کی تحریریں دور ازکار تشبیہات و استعارات سے پاک ہیں۔ دقیق مضمون کو بھی وہ نہایت سلیس زبان میں ادا کرتے ہیں۔ منظر اور موقع کی تصویر کشی مناسب الفاظ میں نہایت خوبی کے ساتھ کرتے ہیں۔ سر سید نے متفرق مضامین بھی خاصی تعداد میں لکھے۔ مناظرانہ انداز نے ا ن کی سطح بلند نہیں ہونے دی۔ ایسے مضامین میں مباحثے اور مجادلے کی فضا قائم ہے۔ ان کا مقصد حقائق حق کی تائید اور باطل کی تردید تھا۔ ابوالکلام قاسمی لکھتے ہیں، ’’سر سید کے مضامین کے اسلوب تحریر میں تجزیاتی طریق کار اور استدلالی طرز اظہار کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور اسی تجزیاتی اور استدلالی رویے کی بناء پر سر سید کی نثر بوجود دقیق علمی مسائل کو زیرِ بحث لانے کے، قابل ِ فہم بھی رہتی ہے اور دلچسپی کے عنصر کو بھی اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔‘‘ (سہ ماہی فکر ونظر، جلد ۲۹، ۱۹۸۹ء، ص۳۱)
’’امید کی خوشی‘‘ مضمون سر سید کا ایک معرکۃ الآراء مضمون ہے، جس میں انہوں نے امید کو آسمانوں کی روشنی، دلوں کی تسلی بتایا ہے۔ اس مضمون کو تمثیل نگاری کی اعلی مثال قرار دیا جا سکتا ہے۔ مجرد خیالات یہاں مجسم ہو گئے ہیں اور ہم اس مضمون کی مدد سے انسانی فکر کو مختلف صورتوں میں منتقل ہوتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ ایک اقتباس دیکھیے،
’’اے آسمان کی روشنی، اے نا امید دلوں کی تسلی امید، تیرے ہی شاداب اور سر سبز باغ سے ہر ایک محنت کاپھل پاتا ہے۔ تیرے ہی پاس ہر درد کی دوا ہے۔ تجھی سے ہر رنگ میں آسودگی ہے، عقل کے ویران جنگلوں میں بھٹکتے بھٹکتے تھکا ہوا مسافر تیرے ہی گھنے باغ کے سر سبز درختوں کے سائے کو ڈھونڈتا ہے۔ وہاں کی ٹھنڈی ہوا، خوش الحان جانوروں کے راگ، بہتی نہروں کی لہریں، اس کے دل کو راحت دیتی ہیں، اس کے مرے ہوئے خیالات کو پھر زندہ کرتی ہیں۔ تمام فکریں دل سے دور ہوتی ہیں اور دور دراز زمانہ کی خیالی خوشیاں سب موجود ہوتی ہیں۔‘‘ (سہ ماہی فکر و نظر، جلد ۲۹، ۱۲۸۹ء، ص۲۵ تا ۲۶)
سر سید کی نثر خطابیاتی شعور کا ایک اعلی نمونہ ہے۔ متکلم، مخاطب، موضوع اور مدعا سب ایک دوسرے سے باہم مربوط ہیں اور ایک دوسرے پر اثر انداز بھی ہوتے ہیں۔ سر سید بات سے زیادہ مخاطب پر توجہ دیتے یں۔ ایک اور مضمون جس کا عنوان 'ہمدردی' ہے، اس میں بھی اسی اسلوب کو برتا گیا ہے اور وہی فنی حکمت عملی اختیار کی گئی ہے جس کا نمونہ ہم امید کی خوشی میں دیکھ چکے ہیں۔ ایک اقتباس دیکھیے، ’’کیا دھوکے کی چیز ہے ؛ کیا بھلاوے میں پڑے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ دوسروں کی مصیبت میں مدد کرنا، ہمدردی کرنا ہے۔ کیا قدرت کا کوئی کام بے فائدہ ہے ؛ نہیں، گویا ہم بہتوں کے سمجھنے سے عاجز ہیں کیا ہم اس فائدے میں شریک نہیں۔ پھر دوسروں کی مدد کرنا کہاں رہا، بلکہ اپنی آسائش کے کسی وسیلے سے اپنی مدد آپ کرنا ہوا۔‘‘ (ہمدردی، منتخب مضامین سر سید، ص ۵۱)
سر سید کا ایک پسندیدہ موضوع مذہب ہے۔ اس موضوع پر ان کی متعدد کتابیں تفسیر القرآن اور تبیین الکلام لکھی گئیں۔ علاوہ ازیں تہذیب الاخلاق کے دینی موضوعات پر لکھے گئے مضامین بھی ہیں جن کے پیش نظر سر سید کو اپنے دور کا بہت بڑا مذہبی مفکر تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ ان کی مذہبی فکر میں اجتہاد کا پہلو نمایاں ہے۔ سر سید نے اپنی تفسیر میں علماء اور فضلاء کو مخاطب کیا ہے۔ طرز تخاطب کا جادو ملاحظہ فرمائیے،
’’فرض کرو کہ ایک صندوقچہ تھا اور اس میں گلاب کا نہایت خوشبودار ایک پھول رکھا تھا۔ بہت سے لوگ کہتے تھے کہ اس میں گلاب کا پھول ہے۔ اس کی خوشبو سے اور نشانیوں سے سمجھاتے تھے۔ ایک شخص آیا اور اس نے وہ صندوقچہ کھول کر سب کو وہ پھول دکھا دیا۔ سب بول اٹھے کہ اب تو حد ہو گئی، یعنی یہ بات ختم ہوگئی۔ اب اس کے کیا معنی ہیں؟ کیا یہ معنی ہیں کہ کوئی دوسرا شخص اس صندوقچے کو نہیں کھولنے کا اور وہ پھول کسی کو نہیں دکھانے کا؟ یہ مطلب سمجھنا تو محض بے وقوفی کی بات ہے۔ بلکہ مطلب ہے اس امر کا ثابت کرنا کہ اس صندوقچے میں پھول ہی ختم ہو گیا یا انتہا کو پہنچ گیا۔ اب اس سے زیادہ کوئی نہیں کر سکتا۔ پس یہی معنی ختم رسالت کے ہیں۔‘‘ (تہذیب الاخلاق، ص ۱۷، ۱۲۹۲ ھ)
سر سید نے اس مضمون میں ختم رسالت کے مسئلے کو تمثیلی انداز میں بیان کیاہے۔ اس میں وضاحت ہر بات کی گئی ہے۔ سر سید کی خطابیات کے لحاظ سے یہ ایک کامیاب تمثیل ہے۔ ان کے تمام مضامین کا خطاب عوام الناس سے ہے یعنی کہ وہ طبقہ جس کے دل و دماغ تربیت یافتہ نہیں ہیں۔ سر سید ان مضامین میں ایک مصلح کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔ خطبات اور تفسیر میں سر سید تاریخی، لسانی، منطقی اور نفسیاتی دلائل سے کام لیتے ہیں۔ انہوں نے یہاں تمثیل کا استعمال صرف تزئینی اور عمومی حیثیت سے نہیں کیا ہے بلکہ ایک متکلم نے ایک خاص مخاطب کے لیے، خاص موضوع پر ایک مقصد کے تحت خطابیاتی حربے کو استعمال کیا ہے۔
سر سید کی نثر منطقی اور استدلالی نوعیت کی ہے۔ ان کے اسلوب پر ان کی شخصیت کی گہری چھاپ ہے۔ ان کا اسلوب غیر شخصی ہے، تقلیدی نہیں ہے۔ سلاست، سادگی، روانی اور برجستگی ان کی تحریروں کے نمایاں اوصاف ہیں۔ سر سید کے ان مضامین کا عام انداز ایسا ہے کہ جیسے وہ اپنے سامع سے باہم صلاح ومشورہ کر رہے ہوں۔ یہ مضامین پڑھے جانے کے بجائے سنے جانے کے لہجے میں مرتب کیے گئے ہیں۔ ایک اعتماد کی فضا ان پر حاوی ہے اورانہیں پڑھنے والا ان کی باتوں سے یوں اثر لیتا ہے جیسے کہ یہ باتیں صرف اسی کے لیے ہوں۔
سر سید نے تاریخی اور تحقیقی کتابیں بھی لکھیں۔ انہوں نے جدید اثرات کے تحت افراد سے زیادہ اجتماع اور اس کے مسائل پر غور و فکر کیا۔ قومی ترقی سر سید کی تحریک کااصول اولین تھا، جس کی وجہ سے اس وقت کا سارا ادب مقصدی اور منفعتی بن کر اجتماعی مقاصد کا آلہ کار بنا رہا۔ انہوں نے بتایا ادب بے کاروں کا مسئلہ نہیں بلکہ عین زندگی ہے۔ نہ صرف لفظوں کی بازی گری ہے بلکہ دل اور دلی خیالات کی مصوری ہے۔ ادب کی ساخت کے سلسلے میں اور تخلیق میں دل کی اہمیت پر یہ اصرار ادب کی تقدیس کی پہلی بلند آواز تھی جو اردو ادب میں سر سید نے اٹھائی۔
سر سید کی عبارت کبھی کبھی بے لطف و ناہموار بھی ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے جوش اصلاح اور اظہار خیال میں اتنے آزاد تھے کہ قواعد کی پابندی اپنے لیے زیادہ ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ جو لفظ انہیں ان کا مفہوم پورا کرتا ہوا دکھائی دیتا تھا اس کو فورا ًاستعمال کر جاتے تھے۔ محاوروں کا استعمال بھی جگہ جگہ پر مناسب اور موزوں ڈھنگ سے کیا ہے۔
سر سید کی دوسری تصانیف مثلا ًخطبات احمدیہ، آثار الصنادید، تاریخ سرکشی بجنور وغیرہ بھی ہیں۔ پڑھنے والوں پر سب سے زیادہ اثر ان کے رسالے تہذیب الاخلاق کا پڑا۔ اس رسالے میں مذہبی چھیڑ چھاڑ شروع ہوئی تو جواب دینے والوں نے بھی وہی طرز بیان اختیار کرنے کی کوشش کی جو خود سر سید کا تھا۔ لہذا ایک اچھا خاصا ذخیرہ سلیس عام فہم اردو زبان کا تیار ہوگیا۔ رفتہ رفتہ بہت سے لوگ اسی رنگ میں لکھنے لگے۔ بقول فیض،
ہم نے جو طرز سخن کی ہے چمن میں ایجاد
فیض گلشن میں وہی سب کی زباں ٹھہری ہے
سر سید نے اپنی تصانیف کے ذریعے اپنے دور کے مصنفوں اور ادیبوں کو بہت سے خیالات دیے۔ ان کے خیالات سے ان کا دور خاصا متاثر ہوا۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ادب میں جو کہنگی، فرسودگی، جمود، تعطل اور اور یک رخا پن آ گیا تھا اس کو سر سید نے دور کیا۔ انہوں نے ادب میں ایک نیا پن، ایک ہمہ گیری، ایک مقصد، ایک سنجیدگی اور ایک خاص نوع کی معقولیت پیدا کی۔ ادب اور زندگی کے علاوہ ادب اور ادب کے درمیان مضبوط رشتہ قائم کیا۔ ادیبانہ ذہن و فکر کی کاوشوں کو جمہور کی خدمت پر مامور کر دیا۔ انہوں نے اپنے عمل سے یہ ثابت کر دیا کہ ادب صرف دل کی سچی آواز ہی نہیں بلکہ جمہور اور قوم کے دل کی سچی آواز بھی ہے۔ جس کا کام صرف دل کاغبار نکالنا ہی نہیں ہے بلکہ جمہور کی اصلاح و ترقی اور تکمیل بھی ہے۔ اسی لیے اس دور میں اردو ادب اور عام زندگی کو کسی نے اتنا متاثر نہیں کیا جنتا کہ تنہا سر سید نے کیا۔ نذیر احمد کے لفظوں میں سر سید نے اس اسلوب کو چمکا دیا جس کی بنیاد میر امّن نے رکھی تھی اور جسے ان کے متبعین نے ادبی چاشنی بخشی تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.