سر سید کے تعلیمی تصورات
سر سید خاں ایک منفرد شخصیت کے مالک تھے۔ وہ حالات کو اپنی نظر سے دیکھنے اور اپنے نتائج خود اخذ کرنے کے خوگر تھے۔ تحقیق شروع ہی سے ان کے مزاج کا جزو تھی۔ دلی کی تاریخی عمارتوں کا مطالعہ کرتے وقت رسیوں سے بندھے ہوئے جھولے میں بیٹھ کر قطب مینار پر کندہ کی گئی تحریر کو پڑھنے والا شخص پر شوق بھی تھا اور باریک بیں بھی۔ یہ مزاج ایک بہترین محقق ہی کا ہو سکتا ہے۔ پھر کیا عجب کہ اس شخص نے غدر کے حالات سے گذر کر جو نتائج نکالے وہ دوسروں سے مختلف تھے۔ ان کا خیال تھا کہ انگریز اب ہندوستان کے فرماں بردار رہیں گے، اور بہتر یہی ہوگا کہ مسلمان جو پہلے ہی انگریز کی نظر میں دشمن کی حیثیت رکھتے ہیں، اس فاتح قوم سے مل جل کر رہیں۔ یہی بات ان کی تعلیمی پالیسی میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔
انہوں نے انگریزی تہذیب اور تعلیم کا بڑے شعوری انداز میں قریب سے مطالعہ کیا، خود انگلستان گئے اور وہاں کے سترہ ماہ کے قیام میں تعلیمی ادارے جیسے کیمبرج یونیورسٹی دیکھے اور انگریزی معاشرت، انگریزی کردار اور انگریزی تہذیب کے مختلف پہلوؤں کا غائر مطالعہ کیا۔ انگریز من حیث القوم بات کے سچے، وعدے کے پابند، محنتی، جفاکش اور باحمیت لگے۔ یہ خوبیاں نہ صرف طبقہ اعلی کے افراد میں تھیں بلکہ گھر میں کام کرنے والی خادمہ میں بھی تھیں جو قیام انگلستان کے دوران ان کے گھر میں کام کرتی تھی۔ یہی خوبیاں انگریزوں کی کامیابی کی ضامن تھیں۔
اس کے برخلاف مسلمان قوم کے افراد میں ایک زوال پذیر قوم کی بہت سی برائیاں جمع ہو گئی تھیں۔ وہ نہ جانے کتنے ایسے کاموں میں لگے رہتے جن کے کرنے میں سوائے وقت کے زیاں کے اور کچھ حاصل نہ ہوتا۔ جیسے کنکوے اڑانا، مرغ، بٹیر اور مینڈھے لڑانا۔ چنانچہ ان کی تعلیمی فکر کی اساسی چیزوں میں زور اس بات پر تھا کہ مسلمان قوم میں خصوصا ًاور ہندوستانیوں میں عموماً ایسی انسانی خوبیاں پیدا ہوں جن سے وہ بہتر اقوام عالم اور انگریز ایسی ہی ایک قوم تھے، میں شمار ہو سکیں۔
علی گڑھ میں محمڈن اورینٹل کالج کا افتتاح ۱۸۷۷ء میں ہوا۔ اس سے دو سال پہلے اسکول کا افتتاح ہو چکا تھا۔ علی گڑھ کالج ان کے خیالات کا عملی اظہار تھا۔ کسی خیال کو جب عمل میں لایا جاتا ہے تو عملی شکل عموماً خیال پر سولہ آنے پوری نہیں اترتی۔ یہی علی گڑھ کے معاملے میں ہوا اور علی گڑھ میں مشرقی علوم دلّی کالج کے برخلاف مغربی علوم سے مات سی کھا گئے۔ یہ بات سر سید کے خیالات سے میل نہیں کھاتی۔ دلّی کالج کے شعبہ مشرقی علوم نے ڈپٹی نذیر احمد، الطاف حسین حالی، ذکاء اللہ جیسے لوگ پیدا کیے۔ دلی کالج کے انگریز پرنسپل صاحبان خود بھی مشرقی علوم کے حامی تھے۔ علی گڑھ کالج میں ایک وقت میں آرنالڈ اور مولانا شبلی کے ساتھ رہنے سے فکری سطح پر جو لین دین ہوا وہ سر سید کے خیالات کے عین مطابق تھا۔
اس لیے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مشرقی علوم کو وہ مرتبہ حاصل نہ ہونے پر جو دلّی کالج میں حاصل تھا، سر سید کو کس قدر تکلیف ہوئی ہوگی۔ یہ تو ایک اہم بات ہے جو سر سید کی تعلیمی فکر کا حصہ تھی۔ لیکن ان کے تعلیمی خیالات کو جاننے کے لیے ۱۸۸۲ء میں قائم کیے جانے والے تعلیمی کمیشن کے سامنے دیے گیے ان کے بیانات بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب علی گڑھ کالج کو قائم ہوئے پانچ سال ہو چکے تھے، اور سر سید ان دشواریوں سے خوب واقف ہو چکے تھے جو خیال اور عمل کے مابین رہتی ہیں۔
سر سید شروع میں اس خیال کے حامی تھے کہ ابتدائی، ثانوی اور اعلی تعلیم مقامی زبانوں میں ہونا چاہیے۔ غیر ملکی یا انگریزی زبان میں نہیں ہونی چاہیے۔ کیونکہ جو باتیں اپنی زبان میں سمجھی جا سکتی ہیں وہ اتنی آسانی سے کسی غیر ملکی زبان میں نہیں سمجھی جا سکتیں۔ لیکن علی گڑھ کالج کے قیام کے پانچ سال کے اندر ان کے خیال میں تبدیلی آ گئی اور ۱۸۸۲ء کے ایجوکیشن کمیشن کے سامنے بیان دیتے وقت انہوں نے کہا، ’’ ان ورنیکلر و انگریزی پرائمری اور مڈل اسکولوں میں جن کا مقصد طالب علموں کو اعلی درجے کی تعلیم کے واسطے تیار کرنے کا نہیں ہے، مغربی علوم کا جہاں تک کہ وہ پڑھائے جاتے ہیں ورنیکلرزبان میں پڑھایا جانا بے شک ملک کے حق میں بہتر ہوگا، مگر انگریزی ابتدائی اسکولوں میں، جو اس غرض سے قائم کیے گئے ہیں کہ اعلی تعلیم کے واسطے بطور ایک زینے کے کام دیں ورنیکل زبان کے ذریعے سے یوروپین علوم کو پڑھانا تعلیم کو برباد کرنا ہے۔‘‘ (حیات جاوید۔ صفحہ ۲۳۴)
سائینٹفک سوسائٹی غازی پور میں ۱۸۶۲ ء میں اس خیال سے قائم کی گئی تھی کہ علوم جدیدہ کی اشاعت اور ان کی پسندیدگی کا ذریعہ یہ ہو سکتا ہے کہ انگریزی کی علمی اور تاریخی کتابوں کا ترجمہ اردو میں کیا جائے۔ اول اول اس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ اعلی تعلیم کے لیے انگریزی کتابوں کا ترجمہ اردو میں کیا جائے۔ لیکن اگر سر سید اس تجربے سے مطمئن ہو جاتے تو شاید سائینٹفک سوسائٹی کا مقصد بدل کر اعلی تعلیم کے لیے انگریزی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرنا ہو جاتا۔ لیکن ۱۸۶۲ء میں شروع کیے گیے اس تجربے نے جس کے بعد علی گڑھ کالج کا قیام بھی عمل میں آیا، انہیں اس کی بابت اپنے خیال بدل کر وہ کہنے پر مجبور کیا جس کا حوالہ اوپر دیا گیا ہے۔ آج آزاد ہندوستان میں بھی جب اس سلسلہ میں نہ کوئی جبر ہو رہا ہے، نہ حاکم وقت کی خوشنودی مطلوب ہے، اعلی تعلیم کی زبان انگریزی ہی ہے۔
سر سید اس خیال کے حامی تھے کہ علم کو تکمیل کی حد تک حاصل کرنا چاہیے۔ ان کی رائے میں، ’’ قوائے عقلیہ کو چیزوں کے کامل طور پر سیکھنے سے بہ نسبت اس کے کہ بہت سی باتیں بالائی طور پر سیکھی جائیں زیادہ تر عمدہ طور پر تربیت ہوتی ہے۔‘‘ (حیات جاوید۔ صفحہ ۲۳۶) انہوں نے اس سلسلے میں ہندوستانی یونیورسٹی کی اس پالیسی پر تنقید کی جو اس نے لندن یونیورسٹی کی نامکمل تقلید کرکے ایک ایسا کورس وضع کیا جس کو پڑھ کر طلبا کسی مضمون کا کامل علم حاصل نہیں کر پاتے۔
سر سید چاہتے تھے کہ تعلیم کا اہتمام خود لوگوں کے ذمے ہونا چاہیے سرکار کے ذمے نہیں۔ اور تعلیم کو دست اندازی سرکار سے بھی علیحدہ ہونا چاہیے۔ لا محالہ ایسی تعلیم کا خرچ بھی لوگوں کو خود ہی اٹھانا چاہیے۔ ان کے انگریز سوانح نگار گراہم نے ان سے یہ قول منسوب کیا ہے کہ ایک زندہ قوم اپنی تعلیم کا انتظام خود کرتی ہے۔ لیکن انہیں اس بات کا اعتراف تھا کہ یورپین اور ہندوستانی مالدار لوگ تعلیم کا خرچ اٹھانے کے لیے ذہنی طور سے تیار نہیں تھے۔ لہذا ایسی کوششیں ناکامی کا شکار ہو جائیں گی۔ خود انہیں علی گڑھ کالج کو قائم کرنے اور اسے جاری رکھنے میں خاصی مشکلات سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ مذاق لگتا ہے کہ ہر لحاظ سے بھاری بھرکم اس شخص نے ڈراموں کے ذریعہ کالج کے لیے رقم فراہم کی۔ دعوت کھانے کے بجائے اس کے خرچے کا تخمینہ لگواکر رقم کالج فنڈ میں جمع کرلی۔
۱۸۵۴ء میں ووڈس ڈسپیچ میں سفارش کی گئی تھی کہ انگلستان کے انداز پر ہندوستان میں بھی گرانٹ ان ایڈ سسٹم قائم کیا جائے تاکہ نجی تنظیمیں تعلیم کا انتظام سنبھالنے کی ذمہ داری لے لیں، اسکول قائم کریں، ان شرائط کو پورا کریں جو گرانٹ حاصل کرنے کے لیے اور تعلیم کو معیاری رکھنے کے لیے ضروری ہوں۔ سرکار ایسے اداروں کو ان کے سالانہ اخراجات کا بہت بڑا حصہ دیا کرے۔ اس سسٹم کا شروع شروع میں تو مشنری تنظیموں نے خوب فائدہ اٹھایا پھر دیسی تنظیموں نے بھی آگے بڑھنا شروع کیا۔ سر سید کا خیال اس سلسلے میں یہ تھا کہ مشنری اسکولوں کی موجودگی دوسری تنظیموں کو اپنے اسکول کھولنے میں رکاوٹ نہیں بننی چاہیے۔ دوسرے یہ کہ اچھا معیار قائم کرنے کے لیے یورپین ہیڈ ماسٹر کے علاوہ گریجویٹ اساتذہ اور عربی، فارسی، سنسکرت اساتذہ کا ہونا ضروری قرار دیا جائے۔ اسکول کا خرچہ طلبا کی تعداد پر نہیں، بہتر معیار کی بنا پر لگانا چاہیے۔ ان کی نظر میں ’’محدود لڑکوں کو ایک عمدہ تعلیم دینا اس سے بدرجہا بہتر ہے کہ بہت سے لڑکوں کو ناقص تعلیم دی جائے۔‘‘ (حیات جاوید، صفحہ ۲۳۸)
وہ غریب طلبا کو اسکالر شپ دینے کے حق میں تھے، اور یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے کہ اسکالر شپ دے کر پڑھانا گویا تعلیم کے لیے رشوت دینا ہے لیکن وہ چاہتے تھے کہ اسکالر شپ پانے والے طلبہ کی تشہیر نہ ہوتا کہ ان کے ہم سبق ان کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھیں۔۔ انہوں نے اس سلسلے میں انگلستان کا مقابلہ خود اپنے کالج سے کیا اور کہا کہ انگلستان میں نہ صرف ایسے طلبا کے نام سب کو معلوم ہو جاتے ہیں بلکہ انہیں ’’سیزر‘‘ کے لقب سے پکارا بھی جاتا ہے۔ جب کہ علی گڑھ میں اسکالر شپ پانے والے طلبہ اپنے ہم سبقوں میں اس حقارت آمیز رویے کا شکار نہیں ہوتے۔ لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں ان کے خیالات ذرا مختلف تھے۔ وہ اس زمانے کے نسواں اسکولوں کو شرفاء کی بیٹیوں کی تعلیم کے لیے موزوں نہیں سمجھتے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ پہلے مردوں کی تعلیم مکمل ہو جائے پھر تعلیم نسواں کے لیے سعی کی جائے۔ غالبا ’’تقسیم کار‘‘ کے اصول کے تحت وہ عورتوں کو امور خانہ داری کی ذمّے داری کے لیے کافی سمجھتے تھے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.