سریندر پرکاش کا افسانہ ’’رونے کی آواز‘‘
’’رونے کی آواز‘‘ سریندر پرکاش کا ایک نمائندہ افسانہ ہے۔ جس زمانے میں یہ افسانہ لکھا گیا تھا وہ جدیدیت کے شباب کا زمانہ تھا۔ اس دورمیں ادیب سماج کی بجائے فرد اور خارجی مسائل کی جگہ داخلی مسائل پر زور دیتے تھے۔ ذات کوکئی حصوں میں تقسیم کرنے کا رویہ عام تھا۔ جدید افسانہ نگار اپنے افسانوں میں فرد کی ذہنی اور داخلی کیفیات کو تمثیلیں بناکر پیش کر رہے تھے اور سماجی یاسیاسی انتشار کی بجائے فرد کی ذات کا کرب جدید افسانوں کا موضوع بن رہا تھا، حالانکہ بیشتر افسانہ نگار ذات کے اس کرب کا سبب سماج یا سیاسی نظام میں ہی تلاش کرتے تھے۔ بالخصوص سریندر پرکاش کے افسانوں میں اپنے دور کے نظام سے بیزاری صاف طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ ’’بجوکا‘‘ اور’’باز گوئی‘‘ اس کی واضح مثالیں ہیں۔
’’رونے کی آواز‘‘ میں مصنف نے ایک فرد کی منقسم ذات اور اس کی داخلی کیفیات کی تمثیلوں کے ذریعے آزاد ہندوستان کے معاشرے کی عکاسی کی ہے۔ افسانے کا پہلا جملہ انگریزی گیت کا ایک ٹکڑا ہے، ’’فلاور انڈرٹری ازفری۔‘‘ یعنی پھول درخت کے سائے تلے آزاد ہے۔
یہ گیت مرکزی کردار کے گھر آنے والا ایک شخص جو غالباً مرکزی کردار کی ذات کا ہی ایک حصہ ہے، سامنے کرسی پر بیٹھا گا رہا ہوتا ہے۔ کہانی کا آغاز یوں ہوتا ہے،
’’سامنے والی کرسی پر بیٹھا ابھی ابھی وہ گا رہا تھا۔ مگر اب کرسی کی سیٹ پر اس کے جسم کے دباؤ کا نشان ہی باقی ہے۔ کتنا اچھا گاتا ہے وہ۔ مجھے مغربی موسیقی اور شاعری سے کچھ ایسی دل چسپی تو نہیں ہے مگر وہ کم بخت گاتا ہی کچھ اس طرح ہے کہ میں کھو سا جاتا ہوں۔ وہ گاتا رہا اور میں سوچتا رہا، کیا پھول درخت کے سائے تلے واقعی آزاد ہے؟‘‘
یہیں سے ایک سوال جنم لیتا ہے، پھر اس سوال کے بطن سے مختلف سوالات پیدا ہونے لگتے ہیں اور مصنف افسانے کے مرکزی کردار کے حوالے سے خود اپنی ذات کے ہر پہلو کو کھنگالنا شروع کر دیتا ہے۔ افسانے کی نیم تاریک فضا قاری کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور وہ بھی اس عمل میں برابر کا شریک ہو جاتا ہے۔ پھول کے آزاد ہونے کا اشارہ تو کچھ کچھ سمجھ میں آتا ہے مگر گھنا اور پیچیدہ درخت قاری کے ذہن میں مزید تناور ہونے لگتا ہے اور اس کا سایہ بہت دور تک پھیلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ کبھی وہ ہندوستانی معاشرے کی شکل اختیار کر لیتا ہے تو کبھی اس سیاسی نظام کی جس کی بنیاد انگریزی طرز پر رکھی گئی ہے اور یہ سیاسی نظام انگریزوں کے جانے کے بعد بھی ان کی موجود گی کا احساس دلاتا رہتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے مغربی دھن پر انگریزی گیت گانے والے شخص کے چلے جانے کے بعد بھی کرسی کی سیٹ پر اس کے جسم کے دباؤ کا نشان باقی تھا۔ اپنے افسانے’’بجوکا‘‘ میں بھی سریندر پرکاش نے بجوکا کو موجودہ سیاسی یا جمہوری نظام کی علامت بناکر جو ہیئت عطا کی ہے، اس سے ان کا نقطۂ نظر واضح ہو جاتا ہے۔
’’ارے تم کو میں نے کھیت کی نگرانی کے لیے بنایا تھا۔ بانس کی پھانکوں سے اور تم کو اس انگریز شکاری کے کپڑے پہنائے تھے جس کے شکار میں میرا باپ ہانکا لگاتا تھا اور وہ جاتے ہوئے خوش ہوکر اپنے پھٹے ہوئے خاکی کپڑے میرے باپ کو دے گیا تھا۔ تیرا چہرہ میرے گھر کی بےکار ہانڈی سے بنا تھا اور اس پر اسی انگریز شکاری کا ٹوپا رکھ دیا تھا۔ ارے تو بےجان پتلا میری فصل کاٹ رہا ہے۔‘‘
بجو کا کسان کے ہاتھوں بنایا گیا ایک بےجان ڈھانچا ہے، جسے وہ اپنے کھیت کی نگرانی کے لیے تیار کرتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے موجودہ جمہوری نظام میں عوام حکومت اپنے ہاتھوں سے بناتے ہیں اور حکومت عوام کے تحفظ کے لیے ہوتی ہے۔ ہمارے موجودہ جمہوری نظام کی تشکیل کس طرح ہوئی ہے، اس کا علامتی اظہار سریندر پرکاش نے اس افسانے میں بڑی خوبی سے کیا ہے۔ افسانہ نگار اس نظام کے Symbol یعنی بجو کا کو انگریزوں کا اتارا ہوا لباس پہنا دیتا ہے اور اپنے گھر کی ہانڈی سے بنے ہوئے سر پر انگریز شکاری کا ٹوپا رکھ دیتا ہے۔ شکاری سے مراد انگریز حاکم ہے۔ ظاہر ہے انگریز حاکموں کا رویہ شکاریوں جیسا ہی تھا اور کچھ ہندوستانی اس کے شکار میں ہانکا لگانے پر مامور تھے۔
ایسا لگتا ہے ’’رونے کی آواز‘‘ میں بھی سریندر پرکاش نے درخت اور اس کے سائے تلے آزاد پھول کو اسی نقطۂ نظر سے دیکھا ہے۔ آگے چل کر افسانہ نگار درخت کے معنی کھولتا ہے اور وہ اسے سماج یا سیاسی نظام کہنے کی بجائے تہذیب کی علامت بتاتا ہے۔ وہ لکھتا ہے،
’’اگر درخت تہذیب کی علامت ہے تو ہم اس کے سائے میں روتے ہوئے آزاد پھول ہیں۔‘‘ یہاں لفظ ’’تہذیب‘‘ شاید اس لیے استعمال ہوا ہے کہ اس کا دائرہ سماج یاسیاسی نظام کے مقابلے میں وسیع ہے اور اس طرح مصنف وضاحتی اسلوب سے بچ کر اتنا ابہام قائم رکھنے میں کامیاب ہو گیا ہے جتنا افسانے کے حسن کے لیے ضروری تھا۔
سریندر پرکاش کا یہ افسانہ بھی ان کے تخلیقی مزاج کے عین مطابق ہے۔ یہ سیدھے راستے پر نہیں چلتا اور نہ ہی اس کے واقعات ایک دھاگے میں پروئے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ اس افسانے میں ایک ہی کردارکے حوالے سے ایسے بےشمار مسائل اور متعدد واقعات پیش کیے گئے ہیں جو ہمارے معاشرے میں الگ الگ کرداروں کی زندگی میں آئے ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان واقعات کی کڑیاں ملانا قاری کے لیے ناممکن ہو جاتا ہے۔ سریندر پرکاش کا یہ انداز ’’تلقارمس‘‘ میں زیادہ پیچیدہ، مبہم اور تجریدی شکل میں موجود ہے۔ ’’تلقارمس‘‘ سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو،
’’ستمبر کے مہینے میں آنسو گیس کا استعمال ٹھیک نہیں ان دنوں کسان شہر سے راشن کارڈ کا بیج لینے آیا ہوتا ہے وہ بڑے مہمان نواز قسم کے لوگ تھے انھوں نے انڈوں کی جگہ اپنے بچوں کے سرا بال کر اور روٹیوں کی جگہ عورتوں کے پستان کاٹ کر پیش کر دیے مگر آخری وقت جب میں نزع کے عالم میں تھا وہ میرا راشن کارڈ چرانے کی ترکیبیں سوچ رہے تھے انھوں نے اپنے خوانچے اونچی اونچی دیواروں پر لگا رکھے تھے اور نیچے وادی میں جھونپڑیاں جل رہی تھیں جھونپڑیاں جلنے تک گاڑی پلیٹ فارم پر آجا تی ہے اور سب لوگ آگے بڑھ کر اپنی اپنی لاش پہچان لیتے ہیں پھر وہ گرم کباب کی ہانک لگاتے کوئی نہ پوچھتا کہ کس عزیز کے گوشت کے کباب ہیں۔‘‘
اس اقتباس میں بہت سے مسائل اور مختصر ترین واقعات استعاروں کی شکل میں یکجا کرکے ایک دوسرے میں گڈمڈ کر دیے گئے ہیں، اگران کو الگ الگ کرکے علامتی معنی پہنائے جائیں تو مندرجہ ذیل نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں،
(الف) ستمبر کے مہینے میں کسان ربیع کی فصل بونے کی تیاری کرتے ہیں اور شہرمیں بیج لینے کے لیے آتے ہیں۔ اگر شہر میں دنگے فساد ہوں اور پولیس کو اشک آور گیس چھوڑنی پڑے تو اس سے نہ صرف یہ کہ شہر کے لوگ ہی متاثر ہوں گے بلکہ دیہات کی آبادی بھی متاثر ہوئے بغیرنہ رہ سکےگی۔
(ب) وہ لوگ یعنی کسان (یہاں بھی کسان سے مراد ہندوستانی عوام ہے) بڑے مہمان نواز تھے، جو غیر ملکی آئے ان کے لیے انھوں نے اپنے بچوں اور عورتوں کی قربانیاں دینے سے بھی دریغ نہ کیا، مگر ایک وقت ایسا آیا کہ وہ یعنی غیر ملکی راشن کارڈ چرانے کی ترکیبیں سوچنے لگے یعنی ہندوستانی عوام کے بھوکوں مرنے کی نوبت آ گئی۔
(ج) تقسیم ہند کے وقت لوگوں نے اپنے خیالوں اور خوابوں کے خوانچے اونچی اونچی دیواروں پر لگا رکھے تھے، مگر فساد کی آگ ملک بھر کی جھونپڑیوں کو جلاکر خاکستر کر رہی تھی۔ ٹرینوں میں کٹے پٹے انسان لاشوں کی شکل میں آتے اور پلیٹ فارم پر کھڑے ہوئے لوگ اپنی اپنی لاش یعنی اپنی جیسی اپنے عزیزوں کی لاشیں پہچاننے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
ان نتائج کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سریندر پرکاش بیشتر افسانوں میں کرداروں کے نیم شعوری اور لاشعوری خیالات کے امتزاج سے معاشرے کی جھلکیاں دکھاتے ہیں اور ان کے افسانے کا مرکزی کردار اکثر دوسرے اشخاص سے خود کو Identify کرتا ہوا نظر آتا ہے اور اس طرح ان کا افسانہ فرد کی محدود ذات سے نکل کر سماج کا افسانہ بن جاتا ہے۔ ’’رونے کی آواز‘‘ میں بھی مرکزی کردارکی شخصیت کے مختلف پہلو دراصل ہمارے سماج کے متعدد کرداروں کی زندگی کو پیش کر رہے ہیں اور اس طرح یہ افسانہ اپنے دورکے مکمل معاشرے کا افسانہ بن گیا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ مختلف پہلو کیا ہیں جو افسانے میں واقعات کی شکل میں ابھرے ہیں اورکس طرح ان میں ربط قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ افسانہ جس شخص کے گیت کی ایک لائن سے شروع ہوتا ہے، اس کردار کا تعارف ہم سے اس طرح کرایا جاتا ہے،
’’شام، جب وہ مجھ سے ملا نشے میں تھا۔۔۔ اس نے مجھے سارے دن کا قصہ سنایا اور پھر کہنے لگا، گھر سے جب نکلا تھا تو میرے ذہن میں یہ فتور تھا کہ ساری دنیا پیدل گھوم کر اپنا ہم شکل تلاش کروں گا۔ آٹھ برس ہونے کوآئے مجھے دوسروں کے ہم شکل تو ملتے رہے مگر اپنا ہم شکل اب تک نہیں ملا۔ کیا تمہیں کوئی میر اہم شکل ملا؟‘‘ میں نے مسکراکر پوچھا۔
’’ہاں Scandinavia میں!‘‘ اس نے میری طرف دیکھے بغیر اور اپنے ذہن پر زور دیے بغیر جواب دیا۔
’’رات گئے تک ہم سڑکوں پر مارے مارے پھرتے رہے۔ جب تھک گئے تو گھر کا رخ کیا۔ وہ کمرے میں داخل ہوا، کرسی پر بیٹھا، دو ایک منٹ ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہا پھر اس نے ایک دم اپنا مخصوص گیت گانا شروع کر دیا۔‘‘
اس اقتباس میں ہم نے دیکھا کہ گفتگو کے دوران دوسرا آدمی کہتا تو یہ ہے کہ’’مجھے دوسروں کے ہم شکل تو ملتے رہے مگر اپنا ہم شکل اب تک نہیں ملا۔‘‘ مگر مرکزی کردار کے ساتھ اس کی Intimacy کو دیکھ کر قاری کو احساس ہونے لگتا ہے کہ یہ شخص کوئی اور نہیں اسی کی ذات کا ایک حصہ ہے۔ اسی لیے مرکزی کردار کے پوچھے جانے پر کہ’’کیا تمہیں کوئی میرا ہم شکل ملا؟‘‘ جب وہ جواب دیتا ہے کہ’’ہا Scandinavia میں!‘‘ تو اس کے لہجے میں بےپناہ اعتما دہوتا ہے اور وہ مرکزی کردار کی طرف نہ تو دیکھتا ہے اورنہ ہی ذہن پر زور دیتا ہے۔ اسی اسلوب کا پورے افسانے میں اہتمام کیا گیا ہے۔ افسانے کا مرکزی کردار جو تنہائی کی زندگی گزار رہا ہے، جب سوچتا ہے کہ اسے شادی کر لینا چاہیے، تو سریندر پرکاش اس کی سوچ کو تجسیم عطا کرکے علاحدہ کردار کی شکل میں پیش کرتے ہیں اور لکھتے ہیں،
’’کرسی پر سے اٹھتے ہوئے اس نے کمرے کی بے ترتیبی کا جائزہ لیا اور پھر اچانک بول اٹھا، تم شادی کیوں نہیں کر لیتے اچھے خاصے معمولی آدمی ہو۔‘‘
یہ دوسرا شخص کوئی گوشت پوست کا انسان نہیں بلکہ اس کے دل میں جنم لینے والا ایک خیال ہے، یہ بات افسانے کے اگلے پیراگراف میں واضح ہو جاتی ہے۔
’’اس نے میرے چہرے کی طرف غور سے دیکھا، اس کی آنکھوں کے سرخ ڈورے اس کے چہرے کو خوفناک بنا رہے تھے۔ پھر اس نے ایک دم گد نائٹ کہا اور تیزی سے سیڑھیاں اتر گیا۔ اپنی اسی طرح کی حرکتوں اور باتوں کی وجہ سے وہ کبھی کبھی مجھے گوشت پوست کے آدمی کی بجائے کوئی خیال لگتا ہے جو سمندر پار سے یہاں آ گیا ہو۔‘‘
ایک شخصیت کو دو حصوں میں بانٹنے کی یہ تکنیک اب کتنی ہی فرسودہ کیوں نہ معلوم ہو، اس زمانے میں بڑی فنکاری سمجھی جاتی تھی۔ یہی بات استعاروں کے استعمال کے ضمن میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ جدید دور میں مادیت پرستی کا غلبہ ہے اور علم ودانش یافنونِ لطیفہ کی قدر نہیں، سریندر پرکاش نے لکشی اور سرسوتی کے استعارے استعمال کیے ہیں، جوکہ اب بہت سامنے کے استعارے معلوم ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے اردو افسانے میں تیس چالیس سال قبل اس طرح کے اشارے فنی کمالات کے زمرے میں آتے ہوں۔ سریندر پرکاش لکھتے ہیں،
’’ہماری بلڈنگ کے اوپر والی منزل میں ایک وشنو بابو رہتے ہیں۔ وہ اس بلڈنگ کے مالک بھی ہیں۔۔۔ بہت سال پہلے جب وہ بالکل معمولی آدمی تھے تو انھوں نے ایک لڑکی سے شادی کر لی تھی جس کا نام’’سرسوتی‘‘ ہے۔ پھر اچانک وشنو بابو ایک مال دار عورت لکشمی سے ٹکرا گئے۔ تب انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انھوں نے لکشمی سے اپنا دوسرا بیاہ رچا لیا۔ اب لکشمی اور وشنو دونوں آرام سے زندگی بسر کرتے ہیں اور بےچاری’’سرسوتی‘‘ رات رات بھر سیڑھیوں میں بیٹھی روتی رہتی ہے۔ اسی ہنگامے کی وجہ سے میں بھی ابھی تک فیصلہ نہیں کر پایا کہ مجھے کسی سرسوتی سے شادی کرنی چاہیے یا کسی لکشمی سے۔‘‘
اس کے بعد مصنف نے مرکزی کردار کی زندگی کے کچھ اور واقعات بیان کیے ہیں۔ اس کی شخصیت سرکس میں للی پٹ والوں کے درمیان Gulliver کی اداکاری کرنے والے ایک کردار کی سی ہے۔ وہ روزانہ ایک عمارت میں جاتا ہے، جو غالباً اس کا دفتر ہے۔ مگر سیڑھیاں چڑھنے سے پہلے وہ اپنی ذات کو اس الماری کے لاکر میں ہی چھوڑ جاتا ہے جہاں لوگ اپنی ذاتی چیزیں رکھ کر اوپر جاتے تھے اور پھر ایک دن یوں ہوا کہ وہ اپنی ذات کو اسی لاکر میں بھول آیا۔ اس کی شخصیت کایہ قصہ جسے وہ اپنی ذات سمجھ کر زندگی کے لیے ناگزیر سمجھتا اس وقت غیر اہم ہو گیا جب اس نے دیکھا کہ اس کے بغیر بھی وہ اپنا رول اداکرنے میں کامیاب ہے۔ اسی لیے تب سے اس نے اپنی ذات کو اس لاکر میں پڑا رہنے دیا ہے۔ اپنی ذات کے حصار سے نکلنے کے بعد اب اس کے اندر دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہونے کا جذبہ بیدار ہو گیا ہے اور وہ ہر رات سرسوتی کے رونے کی آواز سنتا ہے اور سوچتا ہے کہ،
’’ایک اچھے پڑوسی کے ناطے میرا فرض ہے کہ ان کے سکھ دکھ میں حصہ بٹاؤں کیونکہ ہم سب ایک ہی درخت کے سائے تلے کھلے ہوئے آزاد پھول ہیں۔‘‘
پھر اسے ایک بچے کے رونے کی آواز آتی ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ بچہ اچانک بھوک کی وجہ سے رونے لگ گیا ہوگا اوراس کی ماں بدستور نیند میں بےخبر سو رہی ہوگی یا پھر شاید ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ مر گئی ہو اور بچہ بلک بلک کر رو رہا ہو۔ آواز آہستہ آہستہ قریب ہوکر واضح ہوتی جا رہی ہے۔ اب اسے لگتا ہے کہ بچہ اسی کے پہلو میں پڑا رو رہا ہے۔ اس کے بعد بچے کی کرب ناک آواز میں ایک اور آدمی کی آواز بھی شامل ہو جاتی ہے۔ شاید بچے کا باپ بھی جاگ گیا ہے اور وہ اپنی بیوی کی لاش اور بلکتے ہوئے بچے کو دیکھ کر ضبط نہیں کر سکا ہے اور رونے لگا ہے۔
افسانے کا مرکزی کردار واحد متکلم اپنی ذات کو جسم سے نکال کر یعنی خود غرضی کی قید سے نجات پاکر دوسروں کی مصیبتوں اور غموں میں خود کو اتنا شریک پاتا ہے کہ ان کے دکھوں کو، بھوک تنہائی اور زندگی کی بے معنویت جیسے اپنے ذاتی دکھوں کے آئینے میں دیکھتا ہے اور ان کے کمروں میں جاکر ان کے رونے کی وجہ دریافت کرنے کا ارادہ کرتا ہے۔ جوں ہی دروازے کی چٹخنی کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے، باہر دستک ہوتی ہے اور وہ جھٹ سے دروازہ کھول دیتا ہے۔ جگہ جگہ Sequence ٹوٹتا ہے۔ سلسلہ منقطع ہوتا ہے۔ قاری اس خلا کو خود پر کرتا ہے اور قصہ آگے پیچھے ہچکولے کھاتا ہوا اختتام کی جانب بڑھتا رہتا ہے۔ مصنف نے افسانے کے آخری منظر کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے،
’’سیڑھیوں میں بیٹھ کر رونے والی سرسوتی، بلک بلک کر رونے والا بچہ، مری ہوئی عورت اور اس کا مجبور خاوند باہر کھڑے تھے۔ چاروں نے بہ یک زبان مجھ سے پوچھا، کیا بات ہے آپ اتنی دیر سے رورہے ہیں؟ ایک اچھے پڑوسی کے ناطے ہم نے اپنا فرض سمجھا کہ۔۔۔!‘‘
افسانہ یہیں ختم ہو جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ اس کے اختتام سے کوئی واحد تاثر قائم نہیں ہوتا لیکن قاری کے ذہن پر کئی تاثرات مرتب ہونے لگتے ہیں۔ کبھی محسوس ہوتا ہے کہ سرسوتی، بچہ، ماں، بچے کا باپ اور افسانے کے مرکزی کردار سے مل کر ایک شخصیت کی تعمیر ہو رہی ہے اور وہ ہے جدید دور کے مسائل سے الجھتے، پریشان ہوتے، روتے بلکتے انسان کی شخصیت۔ ایسی شخصیت جو تنہائی اجنبیت اور خوف و ہراس کے کرب سے دوچار ہے، تو کبھی محسوس ہوتا ہے کہ شایدا فسانہ نگار کہنا چاہتا ہے کہ اگر ہم اپنی خودغرض ذات کے دائرے سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو جائیں تو دوسروں کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھ کر شدت سے محسوس کر سکتے ہیں اور ایسی صورت میں یہ عمل دونوں طرف سے ایک ساتھ ہوتا ہے۔
یا پھر افسانے کا انجام اس طرف بھی اشارہ کرتاہ ے کہ جدید دور کے انسان کا المیہ یہ ہے کہ تاریکی، اداسی اور مایوسی نے اسے اپنے جال میں اس طرح جکڑ رکھا ہے کہ اس پرخود اپنی ذات منکشف نہیں ہوتی۔ وہ اپنے دکھوں سے واقف نہیں ہے، ا سے یہ بھی احساس نہیں ہوتا کہ وہ رو رہا ہے، جبکہ اس دور میں ہر شخص ایک جیسے مسائل سے دوچار ہے، ہر جانب آہ و زاریاں ہیں اور ہر گوشے سے رونے کی آوازیں آ رہی ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.