صوبہ جموں میں اردو افسانہ
یہ بات مصدقہ ہے کہ صوبہ کشمیر میں اردو افسانے کا باقاعدہ آغاز پریم ناتھ پردیسی کے ہاتھوں ہوا۔لیکن یہ امر تحقیق طلب ہے کہ صوبہ جموں کا پہلا افسانہ نگار کون ہے ؟ تاریخی شواہد سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مولوی محمدالدین فوق کا تعلق صوبہ جموں کے ایک ضلع پونچھ سے رہا ہے ۔جنھوں نے ً تاریخ اقوام پونچھ ً لکھی ہے۔ فوق ایک ہمہ جہت ادبی شخصیت رہے ہیں ۔وہ محقق۔ نقاد۔تاریخ نویس ہونے کے علاوہ ناول نگار اور افسانہ نگار بھی تھے۔فوق کے بعد قدرت اللہ شہاب ہیں جنھوں نے اپنی ادبی زندگی کا بیشتر عرصہ جمموں میں گزارا۔وہ ناول نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے افسانہ نگار بھی تھے۔انکے افسانوں میں ً ماں ًچندراوتیً تنخواہً شلوار ًجسونت سنگھ ًدورنگا ًاور ایک ڈسپیچ ً انکی افسانہ نگاری کے عمدہ نمونے ہیں۔ صوبہ جموں میں اردو افسانہ نگاری کے تعلق سےٹھاکر پونچھی ایک بڑا نام ہے۔انھوں نے ناول نگاری میں ہی اپنے ادبی جوہر نہیں دکھاے بلکہ افسانہ نگاری کے میدان میں بھی ایک بلند مقام ومرتبہ حاصل کیا ًزندگی کی دوڑ ًاور چناروں کے چاند ًانکے افسانوں کے مجموعے ہیں۔کرشن چندر جیسے عظیم فکشن نگار کا تعلق بھی پونچھ سے رہا ہے جنکے سینکڑوں افسانے پونچھ اورکشمیر کے فطری مناظر اور سماجی صورت حال کو فوکس کرتے ہیں۔ٹھاکر پونچھی کا مطالعہ نہایت وسیع اور مشاہدہ بہت گہرا تھا ۔وہ سماجی برائیوں اور انسانی نفسیات کی باریکیوں پر گہری نظر رکھتے تھے۔بقول نور شاہ=
ٹھاکر پونچھی انسانی نفسیات اور سیاسی و سماجی
باریکیوں پر گہری نظر رکھتے تھے ۔مدھم سروں میں انسانی
فطرت کا فنکارانہ چابکدستی سے عکاسی کرتے تھے۔انداز
نگارش کی دلکشی دلآویزی اور فنی بلندیوں کا امتزاج
ٹھاکر پونچھی کے فن کی خوبی رہی ہے ً
(جممو کشمیر کے اردو افسانہ نگار ص 48)
مندروں کے شہر جمموں سے جس افسانہ نگار نے اپنی جاندار کہانیوں سے افسانہ نگاری میں اضافہ کیا وہ موہن یاور ہیں ۔انھوں نے ڈرامے بھی لکھے اور افسانے بھی ًوہسکی کی بوتل ًسیاہ تاج محل ًاور ً تیسری آنکھ ًانکے افسانوں کے مجموعے ہیں ۔سماجی نا برابری۔معاشی استحصال اورجنسی کجروی کو انھوں نے بطور خاص اپنے افسانوں کا موضوع بنایاہے۔
ویدراہی کا تعلق بھی جموں شہر سے رہا ہے وہ باباے صحافت آنجہانی ملک راج صراف کے بیٹے ہیں۔ ویدراہی کے گھر کا ماحول اردو کا تھا۔اس لیے وہ ایک طویل عرصے تک اردوہی میں لکھتے رہے لیکن بعد میں جب وہ فلمی دنیا سے وابستہ ہوگئے تو ہندی اور ڈوگری میں اپنی ادبی وتخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کرنے لگے۔ ًکب لوٹیں گے لوگ ًویدراہی کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔
مالک رام آنند بنیادی طور پر پونچھ کے رہنے والے تھے لیکن بعد میں جموں منتقل ہوئے اور اپنی زندگی کا بیشتر زمانہ جموں ہی میں گزارا۔اردو ادب میں انکی حیثیت ناول نگار۔افسانہ نگار اور شاعر کی رہی ہے ًشہر کی خشبو ًاور تصویر کے پھول ًانکے دو افسانوں کے مجموعے ہیں۔انکے افسانوں میں رومانیت اورحقیقت نگاری کا عنصر موجود ہے۔متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد انکی کہانیوں کے کردار ہیں۔انکے افسانوں میں انسان دوستی اور اخلاقی اقدار کا ذکر ملتا ہے۔وجے سوری اور رام کمار ابرول جموں کے باشندے تھے ًآخری سودا ًوجے سوری کے افسانوں کا مجموعہ انکی یاد گار ہے۔جبکہ ًانسان جیت گیا ًاور ًجے بنگلہ دیش ً رام کمار ابرول کے افسانوں کے مجموعے ہیں۔ان دونوں افسانہ نگاروں نے اپنی کہانیوں میں مشترکہ قومی تہزیبی اقدار اور حب وطن کے جزبات کو فنکارانہ طور پر پیش کیا ہے۔یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ قدرت اللہ شہاب۔ٹھاکر پونچھی۔موہن یاور۔ویدراہی۔اور مالک رام آنند یہ تمام افسانہ نگار رومانیت اور ترقی پسند ادب سے متاثر تھے۔انکی تخلیقات میں متوسط طبقے کی محرومیاں۔شخصی حکمرانوں کے ظلم وستم۔کسانو کی بے بسی بھونڈی رسمیں اور بیہودہ رواجوں کے علاوہ سرمایہ داروں اور جاگرداروں کے ہاتھوں مزدورں کا استحصال اور ظلم وجبر ایسے موضوعات ہیں جن پہ انھوں نے خصوصی توجہ دی ہے ۔
پروفیسر ظہورالدین ایک بلند پایہ محقق ۔نقاد۔مفکر۔شاعر اور افسانہ نگار کی حیثیت سے اپنی قابلیت کا لوہا منوا چکے ہیں۔ وہ ضلع ادھم پور کی ایک تحصیل رام نگر کے کوہستانی علاقہ جکھیڈ میں پیدا ہوئے تھے لیکن ملازمت کے سلسلے میں جموں آے اور یہیں کے ہوکر رہ گئے۔پروفیسر ظہرالدین نے نہ صرف ترقی پسند اردو افسانہ کی عظمت کا خیال رکھا بلکہ جدیدیت کے روشن اور مثبت پہلووں کا بھی خیر مقدم کیا۔چناں چہ انکا پہلا افسانوں کا مجموعہ ًتلافیً اور دوسرا افسانوں کا مجموعہ ًکینی بلز ًمیں شامل زیادہ تر افسانے علامتی نوعیت کے ہیں ۔انھوں نے جدیدیت کی اندھی تقلید سے احترازکیا قاری کی ذہنی بالیدگی اورتخلیقی ادراک کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایسے افسانے لکھے جوزندگی۔سماج اور انسانی نفسیات سے انکی گہری واقفیت کوآشکار کرتے ہیں۔
1960کے آس پاس ادب میں جدید رجحانات ومیلانات کے زیر اثر جہاں شعروادب کی تقریباًتمام اصناف میں خارجیت کے بدلے داخلیت پر زور دیا جانے لگا تو وہیں اردو افسانہ بھی جدید تر رجحانات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہا۔فرد کی تنہائی۔احساس شکستگی۔زندگی کی بے معنویت کا احساس۔سائنسی وتکنیکی ترقی کی یلغار میں انسانی اقداروروایات کی شکست وریخت اور بدلتا عالمی منظر نامہ ایسے موضوعات ہیں جنکی پیشکش کے لیے علامتی استعاراتی انداز بیان اپنایا گیا۔ اس حوالے سے صوبہ جموں میں آنند لہر کا پہلا افسانوں کا مجموعہ ًنروان ًاور دوسرا ًانحراف ًموضوعاتی اورہیئتی اعتبار سے جدید افسانے کی نمائندگی کرتے ہیں۔آنند لہر تو پونچھ میں پیدا ہوئے لیکن وکالت نے انھیں جموں شہر کا مستقل باشندہ بنادیا ہے ۔اردو ادب میں وہ ایک ناول نگار۔ڈراما نویس اور افسانہ نگار کی حیثیت سے معروف ہیں۔تقسیم ہند کاالمیہ اور اس بٹوارے سے پیدا شدہ حالات وواقعات اور مسائل آنند لہرکے خاص موضوعات ہیں۔نروان۔انحراف۔سرحد کے اس پار۔کوٹ مارشل ۔
اور ًسریشٹا نے بھی یہی لکھا ہے ً آنند لہر کے افسانوں کے مجموعے ہیں۔
خالد حسین اگرچہ پنجابی کے افسانہ نگار ہیں مگر اردو زبان وتہزیب کے دلدادہ ہونے کی وجہ سے اردو میں بھی انکی کہانیوں نے خاصی مقبولیت حاصل کی ہے۔ٹھنڈی کانگڑی کا دھواں۔اشتہاروں والی حویلی۔اور ًستی سر کا سورج ًانکے افسانوں کے مجموعے ہیں۔خالد حسین کے بیشتر افسانوں میں ہندوستان اورپاکستان کی سرحدوں پر تعینات فوجیوں کے ہاتھوں معصوم لوگوں کا قتل۔انسان کی عیاری و مکاری۔خود غرضی اور مرد وزن کے بے میل رشتوں کے باعث جنسی بے راہ روی یا جنسی الجھنوں کا فنکارانہ بیان موجود ہے ۔
اوم پرکاش شاکر صوبہ جموں کی ایک مردم خیز تحصیل اکھنور میں پیدا ہوئے ۔وہ شاعر بھی ہیں اور افسانہ نگار بھی۔اسٹیج ڈرامے سے بھی کافی دلچسپی رکھتے ہیں۔شاکر کے افسانوں کا مجموعہ ًجیتا ہوں میں ً2005 میں شائع ہوا۔ اس سے قبل انکے دو ناولٹ اور تین افسانوں پہ مشتمل کتاب ًموسم سرما کی پہلی بارش ًکے نام سے شائع ہوئی وہ راست بیانیہ انداز میں کہانی لکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔جیتا ہوں میں۔ میں شامل اوم پرکاش شاکر کے افسانے انسانی اقدار کی شکست و ریخت۔بے ہودہ رسم ورواج۔سیاسی اورسماجی پسماندگی۔موجودہ دور کے انسان کا ذہنی وروحانی خلفشار اور تیز رفتار سائنسی وتکنیکی دور کی ترقی میں اخلاقی قدروں کی پامالی اور فرقہ وارانہ فسادات کو موضوع بنایا گیا ہے۔شاکر ایک سچے انسان ہیں اسلیے وہ اخلاقی ضابطوں ۔انسانی رشتوں اور قدروں کی بحالی پر زور دیتے ہیں۔انکے افسانوں میں زیادہ تر دیہات کی زندگی کے حالات وواقعات اور وہاں کے مناظر وکیفیات کو کسی حد تک خوش اسلوبی سے جگہ ملی ہے۔
جسونت منہاس بھدرواہ کے رہنے والے ہیں انکے تا حال چار افسانوں کے جمموعے ًتوجہ ًمسکراتے ناسور ًیادیں ًاور ًکم ظرف ًشائع ہوچکے ہیں۔ کہانی مزاج ہونے کی وجہ سے انکے افسانے کافی طویل ہوتےہیں۔ جسونت منہاس کے افسانوں کا مطالعہ کرنے دوران اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ انھیں کہانی بننے کا فن آتا ہے ۔انھوں نے اپنے افسانوں میں جن موضوعات کو برتا ہے ان میں معاشی اور اقتصادی انتشار۔ فرد کی تنہائی۔اخلاقی قدروں کی پامالی۔خود کشی۔جنسی استحصال انسان کی محرومیاں۔رشوت۔سود خوری۔فرقہ پرستی کی آگ کے شکار نوجوان۔بوڑھے۔مرد۔عورتیں۔معاشرے میں جہیز کا رستا ناسور۔خود غرضی اور دہشت گردی کا نہ ختم ہونے والا عزاب ایسے تلخ موضوعات ہیں جو معاصر افسانہ نگاروں کے بھی پیش نظر رہے ہیں۔
بلراج بخشی کا تعلق بھی آنند لہر کی طرح پونچھ ہی سے رہا ہے۔1947کے بعد انکے والدین ادھم پور چلے آے اور یہیں آکے بس گئے۔بلراج بخشی شاعر بھی ہیں ۔نقاد بھی اور افسانہ نگاربھی۔انکے طویل افسانوں میں کہانی پن برقرار رہتا ہے۔فنی لوازمات کا پاس ولحاظ رکھتے ہیں ۔سائنٹیفک نظریے کے تحت وہ ہرچیز اور ہر مسلے کو سائنسی نقطئہ نظر سے آنکتے اورجانچتے ہیں۔انکے افسانوں کا پہلا مجموعہ ًایک بوند زندگیً2014 میں منظر عام پرآکر اردو کے ادبی حلقوں میں مقبول ہورہا ہے۔جہاں تک انکے افسانوں کا تعلق ہے۔انھوں نے اپنے مخصوص طنزیہ لہجے میں ان عناصر وعوامل کی نشاندہی کی ہے جو ہمارے ملک و قوم کی سالمیت اور ترقی کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔جنسی مسائل کو بھی انھوں نے اپنے اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔
نصیراحمد قریشی المعروف امین بنجارا نےاپنی اردو دوستی۔ادب نوازی۔عالمانہ بصیرت اور فنکارانہ چابکدستی کے بل بوتے پر ایک اہم مقام حاصل کیا ہے۔وہ محقق نقاد۔مبصر اور ایک اچھے افسانہ نگار بھی ہیں۔انکے افسانوں کا مجموعہ ًالاو ً1995میں شائع ہوا۔انکے افسانوں میں حب الوطنی۔انسانی کی عظمت اور معاشرتی و سیاسی برائیوں کا تزکرہ پایا جاتا ہے۔
پرویز مانوس اپنے نام کے ساتھ پونچھی نہیں لکھتے لیکن وہ پونچھ میں پیدا ہوے ۔وہیں پلے بڑھے۔ ادبی جراثیم چونکہ انکے رگ وریشے میں فطری طور پر موجود تھے۔چناں چہ شاعری اور افسانہ نگاری کو اپنا ادبی مشغلہ بنایا۔انکے دو افسانوں کے مجموعے ًشکارے کی موت ً اور ًمٹھی بھر چھاوں ً
چھپ چکے ہیں۔غربت۔تعصب۔سیاسی بازی گری۔پسماندہ طبقے کی مفلوک الحال صورت گری انکے افسانوں کے اہم موضوعات ہیں۔انھوں نے کشمیر اور جموں کے کسانوں کے مسائل اور مصائب کو بھی اپنے افسانوں میں جگہ دی ہے۔انھوں نے پہاڑی زبان میں اردو اور کشمیری کے ادب پاروں کا ترجمہ کیا ہے۔اس لحاظ سے انکی ایک حیثیت مترجم کی بھی ہے۔پرویز مانوس اگرچہ اب کشمیر میں سکونت پزیر ہیں لیکن انکا ادبی سفر پونچھ سے شروع ہوا اور اسی ذرخیز دھرتی پہ انھوں نے اپنی ادبی شناخت قائم کی ہے۔
شیخ خالد کرار ریاستی معاصر اردو شاعری اور افسانے کا ایک ایسا دستخط ہے۔جنھوں نے کم عمری میں ہی طویل عمری والا کام کر دکھایا ہے۔وہ 1976 میں پونچھ میں پیدا ہوے۔صحافت۔ڈئزائنگ۔کمپیوٹر میں مہارت کے علاوہ تین شعری مجموعے ًآنگن پت جھڑ ًسوا نیزے پر سورج ًاور ًورودً
ادبی حلقوں میں خاصی مقبولیت حاصل کرچکے ہیں۔ان شعری مجموعوں کے علاوہ خالد کرار کےافسانوں کا ایک مجموعہ ًآخری دن سے پہلے ً1997 میں شائع ہوا ہے ۔وہ اپنے افسانوں میں بیان کی شگفتگی ۔علامتوں استعارں اور تشبیہات کے برمحل استعمال ادبی لطافت پیدا کرتے ہیں۔انکے افسانے پڑھتے ہوئے انکے ذاتی دردو کرب کا احساس بھی جھلکتا ہے۔
راقم الحروف کی ادبی زندگی کا آغاز1989 میں ہوا۔پہلا افسانہ ً تڑپتے پنچھی ً کے نام سے ماہنامہ۔بھیانک جرائم۔ میں شائع ہوا۔2001 میں افسانوں کا پہلا مجموعہ ً ہزاروں غم ًشائع ہوا اور 2008 میں دوسرا مجموعہ ًمیٹھا زہر ً کے نام سے چھپا۔ تیسرا افسانوں کا مجموعہ ًاندر کی باتیں ًزیر ترتیب ہے۔اس مجموعے میں کل بارہ افسانے شامل کیے گئے ہیں۔پروفیسر قدوس جاوید زیر ترتیب افسانوں کے مجموعہ
ًاندر کی باتیں ًکے حوالے سے ایک جگہ رقمطراز ہیں -
ًمعاصر اردو ادب میں مشتاق وانی ایک مانوس
قلمکار کا نام ہے۔ تخلیق۔تحقیق اور تنقید کو یکساں
طور پر ایک معیار کے ساتھ برتنا آسان نہیں لیکن
مشتاق وانی ایسا کر گزرتے ہیں۔اس سے انکی ہمہ
جہت ادبی شخصیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
تانیثیت کے حوالےسے انکی مفصل تصنیف انکے وسیع
و عمیق مبلغ علم کا تازہ ثبوت ہے۔فکشن کی تنقید
انکی تنقیدی سرگرمیوں کا نمایاں پہلو تو ہے ہی
لیکن ساتھ ہی ایک منفرد فکشن نگارکی حیثیت سے
بھی مشتاق وانی خصوصی توجہ کے مستحق ہیں
انکے کئی افسانے ہیں جو انھیں معاصر افسانہ نگاروں
کی صف میں جگہ دلوانے کی ضمانت ہیں۔لیکن انکا
افسانہ ًاندر کی باتیں ًکئی اعتبار سے ایک عمدہ مابعد
جدید افسانہ کہلانے کا سزاوار ثابت ہوتا ہےً
راقم الحروف نے اپنے افسانوں میں جہاں اخلاقی وروحانی اقدار کی شکست وریخت۔سماجی برائیوں۔زندگی کی تلخ حقیقتوں اور نفسیاتی وجنسی مسائل جیسے تلخ موضوعات کو جگہ دی ہے تو وہیں انسان دوستی۔امن وسلامتی اور رواداری کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔
وزیر محمد جو ادھم پور میں سکونت پزیر ہیں ًچنگاریاں ًکے نام سےاپنا مجموعہ شائع کرواچکے ہیں ۔
بھدرواہ کی سرزمین تعلیمی اور ادبی اعتبار سے نہایت زرخیز رہی ہے ۔اس سرزمین نے کئی نابغئہ روزگار ہستیوں کو جنم دیا۔جو علم وادب کے آسمان پہ آفتاب وماہتاب بن کر چمکیں۔افسانہ نگاری سے زیادہ یہاں شعروشاعری کرنے والوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔طالب حسین رند کا تعلق بھدرواہ سے ہے۔وہ شاعری بھی کرتے ہیں اور افسانے بھی لکھتے ہیں۔انکے افسانوں کا مجموعہ ًسرابوں کا سفر ًبہت پہلے چھپ چکا ہے۔ غریب اور نادار لوگوں کے دکھ درد کو انھوں نے اپنے افسانوں میں جگہ دی ہے۔ انکے افسانے زیادہ تر داخلی خود کلامی سے تعلق رکھتے ہیں۔
ضلع راجوری سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون جس نے اردو افسانہ نگاری میں ایک منفرد مقام حاصل کیا ہے۔اسے زنفر کھوکھر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انکے تین افسانوں کے مجموعے ًًخوابوں کے اس پارًکانچ کی سلاخ ًاور ًعبرت ً تاحال شائع ہوچکے ہیں۔زنفر کھوکھر نے اپنے افسانوں میں عصری سماج کی بد اعمالیوں اور بداطواریوں کو موضوع بنایا ہے۔انکے افسانے سیدھے سادے اور دلچسپ لب ولہجے میں آغاز سے انجام کو پہنچتے ہیں۔وہ تانیثی فکر وشعور کے تحت عورتوں کے مسائل کو ابھارتی ہیں۔
سیدہ نکہت فاروق نظر بنیادی طور پر کشمیر کی رہنے والی ہیں لیکن انھوں نے اپنی ملازمت اور دوسری گھریلو ذمہ داریوں کی انجام دہی کے سلسلے میں ایک طویل عرصہ جموں میں گزارا۔اور یہاں سے ہی انکی ادبی زندگی کی شروعات بھی ہوئی۔نکہت فاروق نظر شاعری کےساتھ ساتھ افسانے بھی لکھتی ہیں۔ انکے افسانوں کا مجموعہ ًقہر نیلے آسماں کا ًشائع ہوچکا ہے۔انکے اکثر افسانوں میں کشمیر کے بحرانی حالات و واقعات کا ذکر آیا ہے۔
صوبہ جموں سے تعلق رکھنے والے یہ وہ افسانہ نگار ہیں جنھوں نے اپنے افسانوں کو کتابی صورت میں شائع کروایا ہے۔انکے علاوہ کچھ افسانہ نگار ایسے بھی ہیں جنکے مجموعے تو نہیں چھپے لیکن وہ مسلسل طور پر افسانے لکھ رہے ہیں ۔ان افسانہ نگاروں میں رازمناوری۔ڈاکٹر عبدلمجید بھدرواہی۔نثار راہی۔شہباز راجوری۔سوتنتر دیوکوتوال۔شام طالب۔عبداسلام بہار کے ڈی مینی۔اسلم مرزا۔اقبال نازش۔اقبال شال۔مہر طلعت۔چاند نرائن چاند ۔شاہ محمد خان۔ایوب شبنم۔شیخ آزاد احمد ۔امتیاز جانی۔الطاف کشتواڑی ۔نواب دین کسانہ۔نصرت چودھری اور ضیاالدین شامل ہیں۔ میرے خیال میں یہاں یہ بہتر رہے گا کہ صوبہ جموں کے چند اہم افسانہ نگاروں کے تازہ افسانوں سےماخوذ اقتباسات کو بھی بطور حوالہ پیش کیا جائے تاکہ ہر افسانہ نگار کا اسلوب نگارش اور زبان و بیان کے علاوہ فنی تکنیک کا بھی پتا چلے ۔اس سلسلے میں خالد حسین۔آنند لہر۔بلراج بخشی۔امین بنجارا۔مشتاق احمد وانی۔پرویز مانوس اور زنفر کھو کھر کے افسانوں سے ماخوذ اقتباسات ملاحظہ کیجیے=
ً تم بہت خوبصورت ہو۔ہونہار ہوِ ۔قابل ہو۔ ہر
موضوع پر کھل کر بات کرسکتی ہو۔تمہارا مطالعہ
وسیع ہے۔آج کی نوجوان نسل میں اس چیز کی
بہت کمی ہے خاص کر لڑکیوں میں۔ بی اے ۔ایم اے
اور پی ایچ ڈی کی ڈگری ہوتے ہوئے بھی موجودہ
نسل صحیح ڈھنگ سے گفتگو نہیں کرسکتی۔کسی
بھی موضوع پر بات کریں آپ نوجوان لڑکوں اور
لڑکیوں کو کورا ہی پائیں گے۔......ایسے ماحول میں
تم جیسی لڑکی کو دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے۔
یہ تمہاری قابلیت کا نتیجہ ہے کہ اعلا سرکاری عہدہ
پر براجمان ہو ً
(خالد حسین۔افسانہ ًپس دیوار ً )
ً ان دونوں کو دادی نے بڑی چاہ کے ساتھ پالا تھا
کیونکہ انکا والد جب دوسری بیوی کے ساتھ چلا
گیا ایک وہی انکا سہارا تھی۔وہ انکے کپڑے دھوتی
نہلاتی۔کھانا پکاتی اور اسکول بھیجتی۔دادی انھیں
دنیا کی سب سے مضبوط ترین چیزلگتی اورحقیقت
میں وہ مضبوط ثابت ہوئی تھی۔رات کو انھیں بستر
پہ سلا دینا اور خود فرش پر سونا۔انھیں گرم کپڑے
پہنانا اور خود سردی میں ٹھٹھرنا۔انھیں تازہ کھانا دینا
اور خود بچاکھچا کھانا یہ سب اس عورت کی مضبوطی
کی علامتیں تھیں ً
(آنند لہر۔افسانہ ًدادی اماں ً )
ً شاہراہ سے ایک ذیلی سڑک میں مڑ کر آٹو رکشا
ایک گلی میں داخل ہوا اور کچھ دور چل کر ایک
گھرکے عین صدر دروازے پر رکا۔میناکشی نے آٹو
سے باہر نکل کر کپڑے درست کیے اور پھر اندر سے
اپنے نو سالہ بیٹے اروند کی باہنہ پکڑ کر اسے نیچ
اترنے میں مدد کی۔پھر آٹو میں سے میناکشی کی
ساس سروج اتری۔میناکشی نے آٹو ڈرائیور کو
پیسے دے کر اور اروند کا بازو پکڑ کر دروازے
کی طرف دو قدم بڑھاکر اطلاعی گھنٹی کے پش
بٹن پر انگلی دبا دیً
)بلراج بخشی۔افسانہ ًمکتی ً(
ًاب میں جنگ نہیں ہونے دوں گی۔اب کیپٹن بیگ
نہیں مرے گا۔عباس کے سینے میں خنجر نہیں
ہوگا ًوہ چلائی ًاماں ً
مایئں چھاتیاں نہیں پیٹیں گی۔سہاگنیں بیوہ
نہیں ہونگی۔بچے یتیم نہیں ہونگے۔دھواں نہیں
اٹھے گا ً
(امین بنجارا۔افسانہ ً امن کے لیے ً )
ً نریش رانا نے استدلالی انداز میں کمل کانت
کو سمجھایا ًکمل کانت جب دکاندار اپنےگاہک
کو ماچس کی ڈبیا یا صابن کی ٹکیا مفت میں
نہیں دیتا ہے تو تجھے کیا اتنی بڑی اسسٹنٹ
پروفیسری محض تیری ذہانت اور قابلیت کی
بنیاد پہ مل جاتی۔تجھے پتا ہونا چاہئیے دو لاکھ
روپے سے یہ سودا شروع ہوا تھا اور پانچ لاکھ
پہ ختم ہواہے ۔اچھا یہ بتا کہ دارالعلوم کاسر
پرست اعلیٰ بھی تجھے تیرا حق نہیں دلا سکا؟
کہتے کہ دارالعلوم کے سرپرست اعلیٰ کی حیثیت
ایک بادشاہ کی سی ہوتی ہے ً
کمل کانت نے جواب دیا
رانا صاحب اس میں کوئی شک نہیں کہ دارالعلوم
کے سرپرست اعلیٰ کی حیثیت ایک بادشاہ کی سی
ہوتی ہے۔وہ چاہے تو چھوٹے ملازموں سے لےکر بڑے
ملازموں تک سب سے رات بھر کھڑے کھڑے کام لے
سکتاہے اور چاہے تو دن کو انھیں آرام کرواسکتا ہے۔
دارالعلوم کے کسی انٹرویو میں اگر وہ اڑ جاے تو
مستحق امیدوار کو حق دلاے بغیر نہیں رہتا۔اس
صورت میں منتری سے لے کر پردھان منتری تک
کی تمام سفارشیں دارالعلوم کےسرپرست اعلیٰ
کی رہائش گاہ کی دیواروں سے سر ٹکراتی ہوئی
اسکے کوڑے دان میں منہ کے بل گر جاتی ہیں ۔
لیکن اس بار اسکی حیثیت ایک ڈراما بیں سے
زیادہ اورکچھ نہیں تھی۔یوں معلوم ہورہا تھا کہ
جیسے چترنجن باسو نے اسے پہلے ہی گدگدی
کرکے ہنسا لیا ہو ً
(مشتاق احمد وانی۔افسانہ ًاندر کی باتیں ً )
ً خودکو بیوہ اور بے سہارا بتلاکر اس نے مدد
کیلیے ہاتھ پھیلا دیے۔وہ شکل و صورت سے
تو جنت کی حور تھی مگر حالات سے بد حال
ً کہاں کی رہنے والی ہو۔؟ کیونکر اورکب سے
بیوہ اور بے سہارا ہو ً؟ ایسے سوالوں کے جواب
میں اسکی زبان گنگ اور آنکھیں دور دور تک
ویران اور خشک تھیں۔آخر بے حد اسرار کے بعد
وہ تھکی تھکی سی آواز میں یوں گویا ہوئی
ًمیں ہوں رہنے والی اس سلطنت کی جس میں
اکثریت ہے بیواوں اور یتیم بچوں کی جسکے
حاکم ہیں دو ایک کی حکومت چلتی ہے دن
کے اجالے میں اور دوسرے کی رات کے انھیرے
میں ً
(زنفر کھو کھر۔افسانہ ًدو حکمران ً )
گذشتہ دو روز سے برفباری ہورہی تھی۔جہاں
تک نظر جاتی تھی سارا علاقہ جیسے پشمینے
کے سفید شال میں لپٹا ہوا نظر آتا تھا۔درختوں
کی شاخیں برف کے بار سے ایسے سرنگوں تھیں
جیسے زمین کو سلام بجا لارہی ہوں۔مکانوں کی
چھتوں پر جمع ہوئی برف کو دیکھ کر ایسا لگ
رہا تھا جیسے کسی نے دھنی ہوئی روئی کے ڈھیر
لگا دیے ہوں۔رسوئی کی بخاری سے نکلنے والے
دھوئیں کی موٹی لکیر خلا میں تحلیل ہورہی
تھی۔اس سے مکان کےچھجے پر جمی ہوئی برف
اسکے سر کا تاج لگ رہی تھی ً
(پرویز مانوس۔افسانہ ًگھونسلے ً )
مندرجہ بالا افسانوی اقتباسات میں قرأتِ متن سے قاری کے ذہن پہ مختلف منظری۔احساساتی۔واقعاتی اور سماجی بد عنوانی کا ہی عکس نہیں ابھرتا ہے بلکہ افسانہ نگاروں کی تفکراتی ذہنیت کا بھی بخوبی پتا چلتا ہے۔یہاں کے افسانہ نگاروں نے کہانی میں کہانی پن کا خیال رکھا ہے۔زبان وبیان کے لحاظ سے بھی خاصی وسعت پیدا کی ہے۔جس طرح شاعری کی زبان اپنی پہچان رکھتی ہے اسی طرح افسانوی زبان کابھی خیال رکھنا لازمی ہوتا ہے۔ مابعد جدید عہد میں اب افسانہ نگار نئی اصطلاحات۔نئی اشیأ بلکہ نئے ثقافتی تہزیبی اور سماجی صورتحال پر مکالمہ کرنے کیلیے ہندی۔انگریزی اور علاقائی زبانوں کے الفاظ وتراکیب اور محاورات سے بھی کام لینے لگا ہے۔اب طویل کہانیاں پڑھنے اور لکھنے کا رواج گونا گوں مصروفیات کی وجہ سے کم ہورہا ہے۔یہاں کے کچھ افسانہ نگار اب افسانے کے بدلے افسانچے لکھنے لگے ہیں۔میرے خیال میں کہانی موضوع کے مطابق یا تو طویل ہوتی ہے یا پھر مختصر یعنی موضوع ہی کسی کہانی کو طویل یا مختصر بناتا ہے۔میں کہانی کے مختصر یا طویل ہونے کےچکر میں نہیں پڑتا ہوں۔میرے نزدیک کہانی میں فنی لوازمات کا التزام زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔بہرحال صوبہ کے حوالے سے جتنے بھی افسانہ نگاروں کاذکر کیا گیا وہ تمام افسانہ نگار اپنی اپنی جگہ پہ قابل ستائش اور خوش آئند مستقبل کے ضامن ہیں*
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.