تاریخیت اور نئی تاریخیت: ادبی تھیوری کا ایک اہم مسئلہ
اگر پوچھا جائے کہ کیا ادب بے تعلق تاریخ ہے؟ تو ہر شخص کہےگا نہیں، ادب تاریخ سے باہر تھوڑے ہی ہے۔ لیکن اگر یہ صحیح ہے کہ ادب تاریخ سے باہر نہیں تو بالعموم ہم یہ کیسے مان لیتے ہیں کہ ادب ’’خود مختار‘‘ اور ’’خود کفیل‘‘ ہے۔ ان دونوں باتوں میں شدید تضاد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مسئلہ اتنا سدھا سادا نہیں جتنا بظاہر نظر آتا ہے۔
دیکھا جائے تو ایک معنی میں ادب اور تاریخ کا رشتہ سامنے کی چیز ہے اور صدیوں سے ادب کو انسانی تاریخ کے حصے کے طور پر دیکھا اور پڑھا جاتا رہا ہے، یعنی جیسے سیاسی اور سماجی تاریخ انسانی تاریخ کا حصہ ہے، اسی طرح ادب بھی انسانی تاریخ کا حصہ ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود ادب میں تاریخ کا آئینہ ہوتا ہے اور نہیں بھی ہوتا، ادب میں تاریخ کی نبض چلتی دکھائی دیتی بھی ہے اور نہیں بھی۔ ادب اور تاریخ کا رشتہ بعضوں کے نزدیک سیدھا سادا، براہ راست اور دو اور دو چار کا ہے، اور بعضوں کے نزدیک اتنا پیچیدہ اور گہرا کہ ادب تاریخ کا ترجمان نظر آتا بھی ہے اور نظر نہیں بھی آتا، یا ادب روح عصر کی نمائندگی کرتا بھی ہے اور نہیں بھی کرتا۔ چنانچہ ادب اور تاریخ کے رشتے کے بارے میں صدیوں سے دو تنقیدی رویے چلے آتے ہیں جو متخالف بھی ہیں اور متضاد بھی۔
اول یہ کہ ادب تاریخ کا زائیدہ ہے اور ادب کا وہی مطالعہ صحیح اور مناسب ہے جو تاریخی اور سماجی تناظر کے ساتھ کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ ادبی متن ایک نامیاتی کل ہے، یہ آزاد اور خود محتار ہے اور ادبی مطالعہ ادبی اصولوں کی مدد سے آزادا نہ کرنا چاہیے نہ کہ خارجی یعنی تاریخی (سماجی وسیاسی) اصولوں کی مدد سے۔ پہلا رویہ جو ادب کو تاریخ (حقیقت) کی نقالی سمجھتا ہے، Mimesis یعنی نظریۂ نقل کہلاتا ہے۔ یہ افلاطون کے زمانے سے چلا آتا ہے اور دوسرا جو ادب کے داخلی نظام پر زور دیتا ہے، ارسطو کے زمانے سے چلا آتا ہے۔ ریلزم یا حقیقت نگاری کے تمام دبستانوں کا تعلق پہلے اصول نقد سے اور فارملزم یاہیئت پسندی کے تمام دبستانوں کا تعلق دوسرے اصول نقد سے ہے۔ ہیگل اور پھر مارکس کے اثرات کے بعد تاریخیت مطالعۂ ادب میں لازمیت کا درجہ حاصل کر گئی لیکن اس کے برعکس ہیئت پسندی نے تاریخیت کو اتنا ہی نظر انداز کیا ہے۔
اردو میں یہ تفریق ترقی پسندی اور جدیدیت کے درمیان واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ترقی پسندوں نے ادبی مطالعے میں تاریخ کے جس تصور پر زور دیا وہ سرسری، سطحی اور اکہرا تھا، جو ادبی کتابوں میں ’’تاریخی و سماجی پس منظر‘‘ کے الگ ابواب قائم کر دینے اور سامنے کے عمومی تاریخی واقعات کو سلسلہ وار گنوا دینے کو بالعموم تاریخیت کا حق ادا کرنے کے مترادف سمجھتا تھا۔ تاریخیت کا یہ تصور چونکہ سطحی اور ناقص تھا، ادبی مطالعات میں اس کی حیثیت زیادہ تر آرائشی رہی اور اس سے خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا۔ دوسری طرف اردو میں جدیدیت چونکہ مارکسزم کے رد میں امریکی نیوکریٹسزم کی نقل میں قائم ہوئی تھی، اس میں سرے سے تاریخیت، سماجیت یا ثقافت کے لیے کوئی جگہ ہی نہ تھی، چنانچہ ادب اپنے ثقافتی سماجی سکورس سے کٹ کر زندگی کی حرارت سے عاری اور ابہام، رعایت لفظی اور عروض وقافیے کے مباحث تک سمٹ کر رہ گیا۔
ظاہر ہے کہ تاریخیت کا یکسر اخراج بھی ایک نوع کی انتہاپسندی تھی جس سے اتنا فائدہ نہیں ہوا جتنا نقصان ہوا۔ مزے کی بات ہے کہ اردو ناول سے تاریخیت کا اخراج ممکن نہیں ہو سکا، جس کی بڑی وجہ قرۃ العین حیدر اور انتظار حسین کی شخصیت تھیں جن کا تخلیقی عمل ہی تاریخیت میں گندھا ہوا تھا۔ لیکن افسانہ نگار ی، شاعری اور تنقید میں تاریخیت کا اخراج بڑی حد تک مکمل تھا، اور ’’خالص ادب‘‘ کی ’’خالص‘‘ ادبی اقدار پر زیادہ زور دیا گیا جو صحت مندانہ رویہ نہ تھا۔
لطف کی بات یہ ہے کہ بیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں جب اردو میں امریکی نیوکریٹسزم کی بنیاد پر جدیدیت کا آغاز ہو رہا تھا، مغرب میں جدیدیت کا زوال ہو رہا تھا اور نیوکریٹسزم کو چیلنج کیا جا رہا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو میں جن لوگوں نے جدیدیت کو نظر یاتی بنیادوں پر استوار کیا تھا، ان سے یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اردو والوں کو یہ بتانے کی زحمت کیوں گوارا نہیں کی کہ مغرب میں جدیدیت اور نیوکریٹسزم کی بنیادیں متزلزل ہو چکی ہیں اور خالص فارملزم جس پر اردو میں زور دیا جا رہا تھا، اس کا نظری دفاع تقریباً ناممکن ثابت ہو چکا ہے۔ بہرحال ترقی پسندی کی ضد میں ان حقائق کو یا تو دبا دیا گیا یا نظرانداز کر دیا گیا۔
ساٹھ کی دہائی میں ساختیات اور اس کے بعد پس ساختیات کا نظریاتی وار نیوکریٹسزم پر ہی تھا جس کی بنیاد یں بورژ وا انفرادیت پرستی پر قائم تھیں۔ ساختیاتی اور پس ساختیاتی فکر نے ادب کی معنی خیز ی کے عمل میں ثقافت کے تفاعل کی راہ تو کھول دی لیکن چونکہ نوعیت کے اعتبار سے یہ مطالعات Diachronic نہ ہوکر Synschronic یعنی یک زمانی تھے، اور رد تشکیل (Deconstruction) کا انحصار فقط متنیت پر تھا۔ چنانچہ نیوکریٹسزم اور رد تشکیل سمیت ان تمام رویوں کے خلاف جو فقط زبان یا فقط لسانیت یا فقط متنیت پر زور دیتے ہیں، رفتہ رفتہ ایک بغاوت رونما ہوئی اور نتیجتاً ادبی مطالعہ کا جو نیا طور سامنے آیا، اس کو نئی ’’تاریخیت‘‘ (New Historicism) کے نام سے جانا جاتا ہے۔
(۲)
اس تبدیلی کو پوری طرح سمجھنے کے لیے اس کو وسیع تر تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ وہ یوں کہ ادبی تاریخ کا ایک پہلے سے چلا آ رہا معمہ معروضیت (Objectivity) کا سوال بھی ہے۔ یعنی کیا ایک عہد کے ادب کا مطالعہ دوسرے عہد میں معروضی طور پر کیا جا سکتا ہے یانہیں، کیونکہ ہر عہد عبارت ہے مخصوص ذہنی رویوں، طور طریقوں اور سوچنے کے زاویوں سے جو اس عہد کی موضوعیت کو قائم کرتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ رویے اور زاویے بدلتے رہتے ہیں۔ چنانچہ کسی دوسرے زمانے میں بدلے ہوئے رویوں اور بدلتی ہوئی موضوعیت کے ساتھ کسی سابقہ عہد کا معروضی مطالعہ کیونکر ممکن ہے۔ بالعموم مؤرخین اور نقادوں کو اس امر کا احساس نہیں ہوتا کہ وہ اپنے سے پہلے کے عہد کا مطالعہ کرتے ہوئے خود اپنے زمانے کے کلچر اور اپنے مفروضات کو غیرشعوری طور پر سابقہ زمانوں پر مسلط کر دیتے ہیں جو معروضیت کے تقاضوں کے خلاف ہے۔
ادب او ر تاریخ کے رشتے سے جڑا ہوا دوسرا بڑا مسئلہ ’’اور یجنلٹی‘‘ کا تصور ہے کہ ادب کلچر (یا تاریخ) کا زائیدہ نہیں ہے بلکہ یہ ادیب یا شاعر کے ذہن کا زائیدہ ہے۔ بالخصوص ہماری مشرقی روایت میں ’’اوریجنلٹی‘‘ کا تصور بہت اہمیت رکھتا ہے کیونکہ مشرقی روایت میں ادیب یا شاعر کی حیثیت ”تخلیق “کرنے والے کی ہے اور ’’تخلیق کار‘‘ کا پہلے سے چلا آ رہا رومانی تصور کہ وہ اپنے ذہن وشعور سے طبع زاد معنی خلق کرتا ہے، ہمارے مزاجوں میں رچا بسا ہوا ہے۔ اس تصور سے لازم آتا ہے کہ ادبی متن طبع زاد اور انفرادی تخلیق کا معاملہ ہے۔ چنانچہ ادب کا مطالعہ اس کے انفرادی خصائص کی بنا پر کرنا چاہیے۔ اس موقف سے اختلاف کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ادب میں ’’اور یجنلٹی‘‘ کے تصور کی نظریاتی بنیادیں خاصی کمزور ہیں کیونکہ شاعر کا ذہن وشعور مطلقاً آزاد نہیں، یعنی اس کی موضوعیت مطلق ہے ہی نہیں بلکہ ثقافت اور تاریخ کی متعین کردہ ہے۔ جو چیز ثقافت اور تاریخ میں کندھی ہوئی ہے وہ آزاد محض کیسے ہو سکتی ہے۔
اس بحث سے جڑی ہوئی بحث ادب کی Extrinsic اور Intrinsic اقدار کی بحث ہے۔ یعنی ادب چونکہ اوریجنل، ذاتی اور یکتا ہے، اس کا مطالعہ اس کی داخلی Intrinsic اقدار کی بنا پر ہی کیا جا سکتا ہے اور ادب کی بحث میں خارجی عناصر کو لانا غلط ہے۔ اس نقطۂ نظر کے مخالف وہ لوگ ہیں جو ادب کو تاریخ اور ثقافت کا زائیدہ اور متعینہ مانتے ہیں، چنانچہ ا ن کے نزدیک ادب کے مطالعہ میں Extrinsic اقدار سے مدد لینا بہت ضروری ہے، ہر چند کہ داخلی Intrinsic اقدار کی اہمیت ہے، لیکن ادب کا مطالعہ فقط Intrinsic اقدار کی بنا پر مکمل طور سے نہیں کیا جا سکتا۔
ادبی تنقید کے وہ تمام رویے جو ادب کی داخلی اقدار کی بات کرتے ہیں یا خالص ادبی اقدار کی بات کرتے ہیں وہ فارملزم (ہیئت پسندی) کے تحت آتے ہیں۔ ان میں روسی ہیئت پسندی کا ایک حصہ اور ساختیات کے کلاسیکی روپ بھی شامل ہیں۔ روسی ہیئت پسندی کی ایک توسیعی شکل پراگ لنگوسٹک سرکل تھی۔ فرانسیسی ساختیاتی رویوں کا فروغ ساٹھ کی دہائی سے شروع ہوا۔ امریکی اور برطانوی تنقید کا وہ دبستان جو نیوکریٹسزم کہلاتا ہے، تیس کی دہائی سے ساٹھ کی دہائی تک حاوی رہا۔ یہ تمام رویے اور نظریے فارملزم یعنی ہیئت پسندی ہی کی مختلف شکلوں کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
دوسری طرف امریکہ ہی میں History of ldeas دبستان کے مؤرخین امریکی نیوکریٹسزم کو برابر چیلنج کر رہے تھے، جن کا سربراہ Lovejoy تھا اور ان میں سے بیشتر جانز ہا پکنز یونیورسٹی میں جمع تھے۔ دوسرا مخالف گروہ جرمن رومانیت پسندوں کا تھا جن میں نمایاں نام Ernst Cassirer کا تھا جس کی Philosophy of Symbolic Forms خاصی بحث انگیز ثابت ہوئی۔ تیسرا اور سب سے اہم گروہ مارکسسٹوں کا تھا جو معاشی اور طبقاتی کش مکش کو بنیادی محرک قرار دیتے تھے اور ادب کی خود کفالت یا خود مختاری کے خلاف تھے اور اسے مغالطہ آمیز سمجھتے تھے۔
ہیئت پسندوں اور تاریخیت پسندوں کے درمیان نقطۂ نظر کے فرق کی یہ خلیج بڑھتی ہی گئی حتیٰ کہ۱۹۶۰ کے لگ بھگ ادبی مطالعات میں امریکی نیوکریٹسزم کا غلبہ ختم ہونے لگا۔ چنانچہ اس زمانے میں ہیئت پسندوں اور تاریخیت پسندوں کے متخالف موقف کے درمیان خلیج کو کم کرنے کی کوشش شروع ہو گئیں۔ ’’نئی تاریخیت‘‘ کو سامنے لانے کا بڑا مقصد یہی تھا کہ ادب اور تاریخ کے رشتے کی پیچیدگی پر از سر نو غور کیا جائے اور اس گتھی کو ادب کی خاص نوعیت کے پیش نظر سلجھایا جائے۔ دوسرے لفظوں میں ادب کی اور یجنلٹی اور داخلی اقدار کے تصور کو جہاں تک ممکن ہو سکے انگیز کیا جائے کیونکہ ادب جہاں ثقافت کاپیدا کردہ ہے وہاں ادب ثقافت کو پیدا بھی کرتا ہے۔ ادب کو اس طرح دیکھنے کا نیا طور نتیجہ تھا مختلف پس ساختیاتی رویوں اور بصیرتوں کا، جن کا اثرورسوخ ساٹھ سے اسّی تک کی دہائی میں بڑھتا رہا۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ساختیات ہرچند کہ بظاہر لسانیات کی طرح ایک زمانی تجزیے کی بنا پر ہیئت پسندی ہی کا ایک طور معلوم ہوتی ہے، لیکن اس میں ایک مضمر تاریخی عنصر کا بیج بھی چھپا ہوا تھا، وہ یوں کہ ساختیات زبان کو ثقافت کے ایک ’’طور‘‘ کی طرح دیکھتی ہے۔ یعنی زبان ثقافت کی رو سے ہے اور زبان ثقافت کے اندر ہے۔ ہر زبان کی ساخت اس کی اپنی ثقافت کی رو سے قائم ہوتی ہے، اور اسی ثقافت کے اندر ہی کارگر ہوتی ہے۔ مخصوص ثقافت کے باہر وہی ساخت نہ صرف بے معنی بلکہ کالعدم ہو جاتی ہے۔ یہ نکتہ تاریخیت کے گہرے بیج کا حامل ہے، کیونکہ جس طرح زبان نظام نشانات ہے، اسی طرح ادب بھی نظام نشانات ہے، چنانچہ جیسے زبان ثقافت کی متعین کردہ ہے ادب بھی ثقافت کا متعین کردہ ہے اور ثقافت تاریخ کے محور پر اور تاریخ کے اندر ہے، گویا ثقافت کا کوئی تصور تاریخ سے ہٹ کر ممکن ہی نہیں۔ پس ادب کا بھی کوئی تصور تاریخ سے ہٹ کر ممکن نہیں۔ چنانچہ ’’خالص‘‘ ہیئت پسندی نظری اعتبار سے اپنے آپ کالعدم ہو جاتی ہے۔
واضح رہے کہ ساختیات جن محدود مقاصد کے ساتھ ادب و فلسفے کے میدان میں اتری تھی، اس کے اثرات اس سے کہیں بڑھ کر ثابت ہوئے۔ سب سے بڑا اثر ادبی مطالعات پر یہ ہوا کہ تاریخیت کے اعتبار سے تین نئے رویے بتدریج سامنے آئے،
(۱) نشانیات یعنی Semiotics کا رویہ
(۲) قاری اساس تنقید، نیز ادب کی قبولیت کا نظریہ (Reception Theory)
(۳) نئی تاریخیت (New Historicism)
ان میں سے قاری اساس تنقید اور نظریۂ قبولیت (Reception Theory) سے ہم پہلے بحث کر چکے ہیں۔ جہاں تک نشانیات کا تعلق ہے، نشانیات ان تمام رموز وعلائم، طور طریقوں اور نظام ہائے نشانات کا مطالعہ کرتی ہے جو ان تمام اشیا اور شعائر کو محتوی ہیں جن کو بحیثیت مجموعی ثقافت کہا جاتا ہے۔ جس طرح زبان بین لسانی ساختوں کا مجموعہ ہوتی ہے اور ان ساختوں کو کوئی متکلم پیدا نہیں کرتا بلکہ یہ عمل تکلم سے پہلے موجود ہوتی ہیں، اسی طرح ثقافت بھی کسی خاص عامل کے ذریعے یا شعرا اور ادبا کے ذریعے یا رائج حاوی اثرات کے ذریعے پیدا نہیں ہوتی، بلکہ نشانات کے باہمی روابط کے نظام کے ذریعے قائم اور کارگر ہوتی ہے۔
ثقافت کے نشانیاتی تصور سے مراد ہے رموزوعلائم کا وہ نظام جس کو اس ثقافت سے متعلق تمام افراد سمجھتے ہیں اور جس کے ذریعے وہ سماجی طور پر عمل آرا ہوتے ہیں، ثقافتی ظواہر وشعائر کی تشکیل کرتے ہیں، نیز باہم دگر تعامل کرتے ہیں۔ چنانچہ ادب کے تناظر میں نشانیات اس اعتبار سے تاریخیت کی ہم نوا ہے کہ اس کی رو سے ادب ثقافت سے متعین ہوتا ہے۔ روایتی طور پر تاریخ غیرادبی دستاویزوں پر زور دیتی تھی جبکہ نشانیات ان رموز وعلائم کے نظام پر زور دیتی ہے جس کے تحت خود یہ دستاویزات، خواہ ادبی ہوں یا غیرادبی، وجود میں آتی ہیں۔ ادب کے نشانیاتی مطالعے پر آج تک سب سے عمدہ کام ان روسی ماہرین کا ہے جنہوں نے جے لوتمن کی سربراہی میں اس مسئلے پر غور کیا تھا۔ انہوں نے ادبی ساخت اور ثقافتی تناظر میں تطابق پیدا کرنے کی راہ نکالی جو فی الحقیقت مارکسیت کے معاشی متعینات سے ہٹ کر ہے۔
(۳)
آئیے اب دیکھیں کہ نئی تاریخیت کے مضمرات کیا ہیں۔ اس میں دو رائے نہیں کہ نئی تاریخیت کا باقاعدہ آغاز امریکہ میں کیلیفورنیا یونیورسٹی کے اسٹیفن گرین بلاٹ (Stephen Greenblatt) کی تحریروں سے ہوا اور برطانیہ میں ریمنڈولیمز کی تحریروں سے۔ برطانیہ میں نئی تاریخیت کے لیے ’’ثقافتی مطالعات‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ اس نئے رجحان کے پس پشت جو گہرے اثرات ایک مدت سے عمل آرا تھے اور جو نئی تاریخیت کے دبستان کی صورت میں متشکل ہوئے، دراصل وہ فوکو کے خیالات تھے۔ بعد کو برطانیہ میں فوکو کے ساتھ ساتھ آلتھیو سے اور باختن کے اثرات بھی شامل ہو گئے جن کی تفصیل آگے آئےگی۔
اسٹیفن گرین بلاٹ کی کتاب Renaissance Self-Fashioning شکاگو سے ۱۹۸۰ میں شائع ہوئی۔ ۱۹۸۲ میں اس نے رسالہ Genre کاخاص نمبر نشاۃ ثانیہ کے انگریزی ادب پر اس اعلان کے ساتھ مرتب کیا کہ اس شمار ے کے سب لکھنے والے تاریخ اور ادبی متن کے رشتے پر ازسرنو غور کریں گے۔ اصل جھگڑا جس کی طرف پہلے اشارہ کیا گیا، یہ تھا کہ کیا ادبی متن واقعی خود کفیل وخود مختار ہے، یعنی کیا یہ ہر طرح کے تاریخ اور سماجی اثر سے مطلقاً آزاد ہے یا کیا ادبی متن اپنے عہد کے کلچر سے متعین ہوتا ہے۔ گرین بلاٹ اور اس کے رفقا کو اس بات پر شدید اختلاف تھا کہ ادبی متن اپنے عہد کے کلچر سے متعین نہیں ہوتا۔ ان کا اصرار تھا کہ ادبی متن بھی دیگر ثقافتی ظواہر کی طرح ثقافت ہی کا متعینہ ہے، لیکن ان کو اس بات پر بھی اصرار تھا کہ ادب کوئی ایسا آئینہ محض بھی نہیں کہ اس میں تاریخ اور کلچر کی سیدھی سادی تصویر دیکھی جا سکے یا کسی وحدانی نظریۂ اقدار کی ترجمانی کی توقع کی جائے۔
گرین بلاٹ نے ان دونوں طرح کے رائج تصورات کو رد کیا کہ ادب نہ تو مطلقاً آزاد وخود مختار ہے اور نہ ہی تاریخ کا آئینہ داروعکاس محض۔ بلکہ ادب میں ہمیشہ متخالف و متضاد رویے نیز مضمر عناصر بھی ملتے ہیں۔ ادب کا معاملہ اپنے زمانے کے رائج ضابطوں اور طور طریقوں کے ساتھ خاصا پیچیدہ اور تہ در تہ ہوتا ہے، اور عمل درعمل کے یہ پیچیدہ رویے باہم دگر مل کر کسی عہد کی تصویر بناتے ہیں۔
گرین بلاٹ اور اس کے رفقا کے اس موقف کا ادبی نقد پر خاصا اثر ہوا اور اس نے جہاں طرح طرح کی مبالغہ آمیز توقعات پیدا کر دیں، وہاں طرح طرح کے نظری مطالبات بھی کیے جانے لگے۔ نئی تاریخیت چونکہ ایک تحریک یا دبستان کی شکل اختیار کرتی جا رہی تھی، اس لیے تقاضا کیا جانے لگا کہ اس کے لیے باقاعدہ تھیوری وضع ہونا چاہیے۔ گرین بلاٹ نے اس کی مخالفت کی۔ معترضین کے جواب میں ۱۹۷۸ میں گرین بلاٹ نے Towards a Poetics of Culture کے عنوان سے مدلل مضمون لکھا جواب تک نئی تاریخیت کی بنیاد چلا آتا ہے۔ اس میں گرین بلاٹ نے بالوضاحت بحث کی کہ’’نئی تاریخیت نہ تو کبھی تھیوری تھی اور نہ ہی اس کو تھیوری بنانا چاہیے۔‘‘
’’New Historicism never was and nebver should be a theoty‘‘
گرین بلاٹ نے ثابت کیا کہ جس طرح سرمایہ داری کی جمالیات کے متضاد کردار کو نہ صرف مارکسی اصولوں کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے، نہ فقط پس ساختیاتی اصولوں کی مدد سے، اسی طرح کسی بھی تاریخی عہد کے متخالف اور متضاد رویوں کو سمجھنے کے لیے بھی فقط کسی ایک تھیوری سے کام لینا مناسب نہیں۔ تفہیم کے ہر طور کو کھلا رکھنا ضروری ہے۔ چنانچہ تاریخیت دراصل قرأت کے اس عمل کانام ہے جس کے ذریعے یہ دیکھا جاتا ہے کہ کس طرح ادبی متون نہ صرف اپنے زمانے کے طور طریقوں اور اعتقادات کو ظاہر کرتے ہیں، بلکہ ان طور طریقوں اور اعتقادات کو بناتے اور متاثر بھی کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں جس طرح سماج وحدانی نہیں ہے، ادب بھی وحدانی نہیں۔
پہلے کے مؤرخین سکّے کے دوسرے رخ یا The Other سے خوف کھاکر رہ جاتے تھے۔ نئی تاریخیت تاریخی حقیقت کے دوسرے رخ کو بھی سامنے لاتی ہے۔ وہ ہیئت پسندوں اور نیو کریٹسزم کی اس سادہ لوحی کے خلاف ہے کہ ادب مطلقاً کوئی آزاد کائنات ہے۔ ادب نہ صرف ثقافتی طور پر پیدا ہوتا ہے بلکہ ثقافتی اطوار کو پیدا بھی کرتا ہے۔ سامنے کی بات ہے کہ شیکسپیئر برطانوی کلچر کی، کالی داس قدیم ہندوستانی کلچر کی، دانتے اطالوی کلچر کی، گوئٹے جرمن کلچر کی، حافظ ایرانی اور غالب مغل کلچر کی پہچان کیوں مانے جاتے ہیں۔ اس لیے کہ ان کا ذہن وشعور یا ان کی ’’تخلیقیت‘‘ ان کے اپنے کلچر کی زائیدہ وپروردہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں اگر کالی داس عرب میں یا غالب فرانس میں پیدا ہوئے ہوتے تو وہ کچھ اور تو ہو سکتے تھے، کالی داس یا غالب نہیں ہوتے۔
گرین بلاٹ کے رفقا میں Jonathan Goldberg ,Lisa Jardine,Louis Montrose, Stephen Orgel کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان کی مشترکہ مساعی نے ادب کے بارے میں اب اس عرفان کو عام کر دیا ہے کہ ادب کو اس وقت تک نہیں سمجھا جا سکتا جب تک اس کے زمانے کے مخصوص ثقافتی طریقوں اور متون، اور ان سے ادب کے پیچید ہ رشتوں کے عمل در عمل کو نظر میں نہ رکھا جائے۔
غرضیکہ پہلے کی تاریخیت او رنئی تاریخیت میں ایک فرق یہ ہے کہ نئی تاریخیت کی بنیاد اس تصور پر ہے کہ کلچر کوئی کلیت پسندانہ وحدانی نظام نہیں، بلکہ یہ حاصل ضرب ہے مختلف رویوں اور تصورات کا جو بجائے خود نتیجہ ہیں متون کے سلسلوں کا۔ دوسرے لفظوں میں ادب پارہ متشکل ہوتا ہے ثقافتی نظام کی رو سے اور ثقافتی نظام کے اندر۔ نیز یہ کہ ادب فقط اپنی تشکیل کی رو سے علاحدہ ہے، ورنہ یہی ثقافتی نظام ذہن وشعور کے دوسرے ظواہر میں بھی کارفرما رہتا ہے، اور وہ ظواہر بھی اپنی جگہ پر ثقافت کو پیدا کرتے ہیں۔ یہ دوہرا عمل ہے۔ ثقافت یا تاریخ کے اس دوہرے عمل کا تصور ساختیاتی فکر کی دین ہے۔
تاریخیت کے اس نئے تصور کا نتیجہ ایسی ادبی تنقید ہے جو ادب کامطالعہ سیاسی، سماجی، معاشی، مذہبی اور فنی رویوں اور طور طریقوں کے پیش نظر اس طرح کرتی ہے کہ یہ سب کے سب بھی تاریخی طور پر متنائے ہوتے ہیں یعنی متن اساس ہیں۔ فوکو کی تصانیف کے نتیجے کے طور پر ساختیاتی فکر زبان و معنی کے سروکار سے کہیں آگے بڑھ کر تاریخ اور ثقافت کے مسائل سے جڑ گئی اور تاریخ کے بارے میں سوچنے کا ریڈیکل نقطۂ نظر ہاتھ آیا۔ فوکو کایہ نکتہ ساختیاتی ہی ہے کہ تمام کلچر اصلاً متنایا ہوا ہے۔ فوکو کلچر کے تمام ظواہر اور آثار کو تاریخ کی ’’آرکیالوجی‘‘ کہتا ہے، اس میں وہ تمام لسانی اظہارات مع شعروادب و زبان ولسانیات ہر چیز کو شامل کرتا ہے، اور اس Episteme کو بھی جو کسی بھی تاریخی عہد کی فکر کو اپنے رنگ میں رنگ دیتی ہے۔
لیکن سابق کے ’’لو جوائے دبستان‘‘ سے فوکو اس اعتبار سے مختلف ہے کہ وہ فقط ملفوظی متن پر نہیں بلکہ اس کارفرما ڈسکورس پر زور دیتا ہے جس کے تفاعل نے ان متون کو پیدا کیا۔ فوکو کلاسیکی ساختیات اور نشانیات سے اس امر میں مختلف ہے کہ ڈسکورس کے یہ طور درحقیقت بے مرکز ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ڈسکورس کے یہ سلسلے جو متون کو پیدا کرتے ہیں، مسلسل واقعات کی لڑی نہیں ہوتے بلکہ ان میں غیر متوقع ٹوٹاؤ اور شگاف ہوتے ہیں۔ ان سب خیالات کا کل جمع اثر یہ ہوا کہ عام تاریخی مطالعات میں ادب اور کلچر میں جو خلیج حائل تھی اور دونوں میں جو قطبینیت چلی آ رہی تھی اس کی قلب ماہیت ہو گئی۔ اس معنی میں کلچر کچھ نہیں ماسوائے متون کے اور ڈسکورس کے ان طور طریقوں کے جو اپنے اپنے عہد میں متون سازی کرتے ہیں۔
یوں دیکھا جائے تو نہ صرف منشائے مصنف تحلیل ہو جاتا ہے بلکہ مصنف کی ’’اوریجنلٹی‘‘ کا قدیم تصور جو ادب کی خود کفالت کی بنیادوں پر استوار چلا آتا تھا، وہ بھی بڑی حد تک تحلیل ہو جاتا ہے۔ غرضیکہ وہ سر چشمہ یا مرکز جس کو مصنف کی ذات سمجھ لیا گیا تھا، وہ سرچشمہ دراصل ڈسکورس ہے اور وہ مراکز کلچر میں پیوست ہیں۔
برطانیہ میں نئی تاریخیت Cultural Materialism کے نام سے چلن میں آئی جس اصطلاح کو اصلاً Jonathan Dollimore نے ریمنڈ ولیمز کی کتابMarxism and Literature, 1977 سے مستعار لیا تھا۔ ان برطانوی رجحان سازوں میں ڈولی مورکے علاوہ Francis Barker, Catherine Belsey, Alan Sinfield اور کئی دوسرے شامل تھے۔ ہرچند کہ ان سب کا مقصد ادب اور تاریخ نیز ادب اور ثقافت کے پیچیدہ، گہرے اور مضمر رشتوں کاپتہ لگانا اور ادب کو انسانی تاریخ کی زندہ روکے طور پر سمجھنا اور سمجھانا تھا، لیکن انہوں نے سابقہ تاریخ دانوں کے سادہ اور اکہرے طور طریقوں اور ان کے اخذ کردہ وحدانی نتائج سے اختلاف کیا اور نئی تاریخیت کے ایک نئے اور ’’پرکار‘‘ طریق نقد کو رائج کرنے پر زور دیا۔
واضح رہے کہ نظریاتی اعتبار سے برطانوی نئی تاریخیت کے سب ہم نواؤں میں سب باتوں پر اتفاق نہیں، تاہم اتنی بات ظاہر ہے کہ نئی تاریخیت کے لیے پس ساختیاتی فکر نے فضا بڑی حد تک صاف کر دی تھی اوربہت سے تصورات فوکو اور دیگر مفکرین کی بنیادوں پر اٹھائے گئے۔ بہرحال جن باتوں پر اتفاق ہے اور جن نکات کی بنا پر نئی تاریخیت سابقہ تاریخی طور طریقوں سے الگ اصول مطالعہ قرار پاتی ہے، ان کو بقول پیٹر وڈوسن چار شقوں میں صاف صاف یوں بیان کر سکتے ہیں۔
(۱) لفظ تاریخ کے دومعنی ہیں: (ا) ماضی کے واقعات، (ب) ماضی کے واقعات کی روداد بیان کرنا۔ پس ساختیاتی فکر نے اس بات کو صاف کر دیا کہ تاریخ ہمیشہ ’’بیان‘‘ کی جاتی ہے۔ چنانچہ پہلا موقف (کہ تاریخ ماضی کے واقعات کا مجموعہ ہے ) بے معنی ہے۔ اس لیے کہ ماضی اپنی خالص صورت میں بعد کے آنے والوں کو ہرگز فراہم نہیں ہو سکتا، ماضی ہم تک ہمیشہ کسی نہ کسی’’بیان‘‘ کے ذریعے ہی پہنچتا ہے۔ چنانچہ اس مشہور قول میں خاصی سچائی ہے کہ ’’پس ساختیات کے بعد تاریخ متنائی جا چکی ہے۔‘‘
.After Poststructuralism History becomes textualised
دوسرے لفظوں میں تاریخ متن (بیان) ہے واقعہ نہیں۔
(۲) تاریخی ادوار وحدانی حقائق نہیں ہیں۔ کسی بھی زمانے کی کوئی ’’ایک تاریخ‘‘ نہیں ہے۔ جو کچھ ہمیں حاصل ہے وہ فقط غیرمربوط اور تضادات سے مملو بیان کی گئی تاریخیں ہیں۔ الزبیتھ عہد (یا مغل عہد) کا کوئی تصور کائنات نہیں ہے۔ یکساں مربوط اور ہم آہنگ کلچر کا تصور فقط ایک متھ ہے جو تاریخ پر مسلط کر دیا گیا ہے اور جس کو مقتدر طبقوں نے اپنے مفادات کے پیش نظر رائج کیا ہے۔
(۳) کوئی تاریخ داں یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس کا ماضی کا مطالعہ بے لوث اور سو فیصد معروضی ہے۔ لکھنے والا اپنی تاریخی صورت حال سے ہرگز ماورا نہیں ہو سکتا۔ ماضی کوئی ایسی ٹھوس شے نہیں ہے جو ہمارے سامنے ہو اور جسے ہم پا سکیں، بلکہ ہم خود اس کو بناتے ہیں اپنے تاریخی سروکار کی روشنی میں، ان متون کی مدد سے جو پہلے سے لکھے ہوئے ہیں۔
(۴) ادب اور تاریخ کے رشتے پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ ایسی کوئی متعینہ اور طے شدہ تاریخ میسر نہیں ہے جس کے ’’پس منظر‘‘ میں ادب کو ’’پیش منظرایا‘‘ جائے۔ ہر تاریخ بالذاتہ پیش منظر ہے۔ تاریخ اصلاً ہے ہی ماضی کے بیان کا ایک طور، جو دوسرے متون سے بین المتونیت قائم کرتا ہے۔ غیر ادبی متون بھی خواہ وہ مذہبی نوعیت کے ہوں، تفریحی نوعیت کے ہوں یا سائنسی یا قانونی، یہ سب تاریخ کا مواد ہیں۔ (ص۱۶۱۔ ۱۶۲)
جیسا کہ پہلے اشارہ کیا گیا نئی تاریخیت پر کلیدی اثرات دوپس ساختیاتی مفکرین مشل فوکو اور لوئی آلتھیو سے کے ہیں۔ دونوں کے افکار میں یہ مماثلت ہے کہ دونوں آئیڈیولوجیکل ڈسکور س پر زور دیتے ہیں جو سماجی اداروں کے زیر اثر طے پاتا اور پنپتا ہے۔ دونوں کا خیال ہے کہ تاریخ اپنا سفر آئیڈیولوجی کے بل پر طے کرتی ہے اور مقتدر طبقات آئیڈیولوجی کے غلبے سے سماجی نابرابریوں کو اپنے مفادات کے لیے زندہ رکھتے ہیں۔ آلتھیو سے کے بارے میں پہلے بتایا جا چکا ہے کہ وہ آئیڈیولو جی کے قدیم تصور کو رد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ آئیڈیولو جی فقط وہ نہیں جو صحیفوں اور کتابوں میں لکھی ہوئی محفوظ ہے۔ آلتھیو سے اسے آئیڈیولو جی کا ’’جھوٹا شعور‘‘ قرار دیتا ہے۔ آئیڈیولو جی کی عملی شکل ریاستی اور سماجی اداروں کے سیاسی، عدالتی، تعلیمی اور مذہبی نظام سے پنپتی اور عمل آرا ہوتی ہے۔ یوں آئیڈیولو جی ڈسکورس یعنی مدلل کلام کی وہ حاوی شکل ہے جو افراد کی موضوعی حیثیتوں کو وضع کرتی ہے۔
فوکو بھی اس بات پر زور دیتا ہے کہ معاشرتی ادارے ڈسکورس کو پیدا کرتے اور اسے طاقت بہم پہنچاتے ہیں۔ اس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ سیاسی اور سماجی طاقت ہمیشہ ڈسکورس کے ذریعے عمل آرا ہوتی ہے اور قائم رہتی ہے۔ دیوانگی، جرائم اور جنسی بے راہ روی کے تصورات پیدا ہوتے ہی عقل مندی، عدل وانصاف اور جنسی معقولیت کے ڈسکورس سے ہیں جو انہیں اپنے ’’غیر‘‘ کے طور پر دبا کر رکھتا ہے اور بے انصافی کا مرتکب ہوتا ہے۔ فوکو کا کہنا ہے کہ تہذیب، شرافت اور معقولیت کے تمام پیمانے طاقت کے ڈسکورس سے پیدا ہوتے اور قائم رکھے جاتے ہیں۔ طاقت علم کا بھی سب سے بڑا طور ہے۔ علم میں بھی صداقت اور عدم صداقت کا تعین طاقت کے ڈسکورس کی رو سے ہوتا ہے۔
فوکو کا مشہور قول ہے کہ ’’فقط سچائی کافی نہیں، سچائی کے اندر ہونا بھی ضروری ہے۔‘‘ نیز کون اور کیا سچائی کے اندر ہے کون باہر ہے، اس کو ڈسکورس طے کرتا ہے۔ اکثر و بیشتر ہمارے حق و انصاف کے تقاضے اور سماجی معیار اور طور طریقے صدیوں کے ڈسکورس سے قائم ہوتے ہیں اور افراد ان کے سامنے خود کو بےبس پاتے ہیں۔
فوکو اور آلتھیو سے کے ان خیالات کے زیر اثر اور ان اصولوں کی روشنی میں جن کا ذکر اوپر کیا گیا، الزبیتھ عہد کے انگریزی ادب کے مطالعات کی تقریباً کایا پلٹ ہو گئی۔ پرانے مفروضات کو رد کیا گیا اور نئے سوالات اٹھائے گئے۔ گرین بلاٹ اور ان کے ساتھیوں نے نشاۃ ثانیہ کے ادب پر از سر نو نظر ڈالی اور طاقت کے اس ڈسکورس کو بےنقاب کیا جس نے ٹیوڈر بادشاہت کے نظام میں بظاہر ضبط و ارتباط پیدا کر رکھا تھا۔ شیکسپیئر کے ڈراموں کی روشنی میں نئے اصول نقد کی مخالفت بھی کی گئی اور اسے ’’عملیت‘‘ کا شکار بھی بتایا گیا۔ لیکن اس میں کلام نہیں کہ نئی تاریخیت کے رویوں سے ادب اور تاریخ و ثقافت کے رشتوں کی نئی گرہیں کھل گئیں اور ادبی مطالعات کا ایک نیا طور ہاتھ آیا۔
غور سے دیکھا جائے تو وہی سوسیئری ساختیات جو اصولاً یک زمانی تھی یعنی زبان کی عمل آرا ساخت سے سروکار رکھتی تھی، اس میں یہ بصیرت بھی مضمر تھی کہ زبان کی ساخت ایک سماجی عمل ہے جو ثقافت کی رو سے اور ثقافت کے اندر وضع ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ نئی تاریخیت کا کلہ اسی بیج سے پھوٹا۔ یعنی جس طرح لسانی گرامر جملوں کو خلق کرتی ہے اور اس کے اصول و ضوابط زبان کے بولنے والوں اور سمجھنے والوں میں مشترک ہوتے ہیں، اسی طرح ادب کی شعریات کے اصول و ضوابط بھی ادب ’’خلق‘‘ کرنے والوں اور اس کے پڑھنے والوں (قارئین) میں مشترک ہوتے ہیں۔ گویا ادب پارہ ان ضابطوں (شعریاتی گرامر) کی آماجگاہ ہوتا ہے جو ثقافت کی رو سے اور ثقافت کے اندر پرورش پاتے ہیں اور ثقافت تاریخ کے محور پر تغیروتبدل کو جذب کرتی رہتی ہے۔
اس اعتبار سے ہیئت پسندوں کی قائم کردہ خارجی اور داخلی اقدار جنہیں Extrinsic اور Intrinsic کہا گیا تھا، دونوں کی دونوں ثقافت کی متعین کردہ ثابت ہوتی ہیں اور ان کا تضاد زائل ہو جاتا ہے۔ مزید یہ کہ نئی تاریخیت نے خارجی اور داخلی اقدار کی خلیج کو اس تصور کی رو سے بھی پاٹ دیا ہے کہ ہر منفرد متن بجائے خود حصہ ہے ہر دوسرے متن کے تناظر کا،
’’.Each individual text is part of the context of every other text‘‘
چنانچہ وہ خلیج جو متن اورتاریخی عوامل میں حائل چلی آتی تھی کہ متن منفرد اور یکتا ہے، وہ نظری اعتبار سے از خود کالعدم ہو جاتی ہے۔ چونکہ جو چلا آ رہا ڈسکورس ہے وہ متن بناتا ہے اور خود متن اپنی جگہ ڈسکورس کو پیدا کرتا ہے۔
جہاں تک برطانوی ثقافتی مطالعات کا تعلق ہے، آلتھیو سے اور باختن سے واضح اثر کی بدولت ان میں سے اکثر نے نہ صرف گرین بلاٹ کی ’’عملیت پسندی‘‘ سے گریز کیا ہے بلکہ نوعیت کے اعتبار سے یہ زیادہ ریڈیکل بھی ہیں۔ فوکو کی تعبیر میں برطانوی اہل نقد نے یہ نکتہ پیدا کیا ہے کہ فوکو طاقت کی جس ساخت پر زور دیتا ہے وہ غیرمعین ہے اور اس کی تاریخیت سے مقتدر آئیڈیولوجی کے خلاف احتجاج اور اس سے گریز کا پہلو بھی نکلتا ہے۔ ریمنڈ ولیمز نے کلچر کے تین اطوار کا ذکر کیا تھا، بچا کچھا (Residual)، حاوی (Dominant) اور نموپذیر (Emergent) اس تصور اور فوکو آلتھیو سے کے افکار سے مدد لے کر جونتھن ڈولی مور، کیتھرین بلسے اور دوسرے نے نشاۃ ثانیہ کے عہد کا تجزیہ کرتے ہوئے حاشیائی اور منحرف عناصر کی نشاندہی کی ہے اور نئی تاریخیت کو حرکیاتی بنیادوں پر استوار کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہر عہد جب اپنے افراد کی موضوعی تشکیل کرتا ہے یعنی اذہان کو حاوی آئیڈیولوجی کے سانچے میں ڈھالتا ہے تو اس میں احتجاج کی تاریخیت بھی مستور ہوتی ہے اور یہ احتجاج نہ صرف موضوعیت کا شناخت نامہ اور جواز ہوتا ہے بلکہ مضمر افتراقیت (Difference) کاہی لازمہ ہوتا ہے (دریدا)، جس کی بدولت طاقت کے کسی بھی کھیل میں تغیر پر ہمیشہ کے لیے دروازہ بند نہیں ہو سکتا۔ ڈولی مور کا ایک اور نکتہ جس کی نئی تاریخیت کے مؤیدین نے داددی ہے، یہ بھی ہے کہ نشاظ ثانیہ کے کلچر اور اس کے نشانات کی تعبیریں مخصوص حالات کے تحت بدلتی رہی ہیں، اپنے عہد میں ان کی تعبیر کچھ تھی بعد میں کچھ اور ہو گئی لیکن ان کا استعمال جاری رہا۔ ادبی متون کے معنی ہر زمانے کے لیے ایک سے نہیں ہوتے، کبھی ان کے ایک اور کبھی دوسرے پہلو پر زور دیا جاتا ہے اور ایسا اکثر سیاسی ثقافتی ترجیحات کی بنا پر ہوتا رہتا ہے۔
کیتھرین بلسے ثقافتی افترافیت اور تاریخی سچائی کی اضافیت پر اصرار کرتی ہے تاکہ متبادل موضوعی موقف کے لیے نظریاتی گنجائش نکالی جا سکے۔ بلسے کے خیالات کو آگے بڑھانے والوں میں Michel Pecheux نے آلتھیو سے کی مدد سے جو ماڈل وضع کیا ہے، اس میں وہ کہتا ہے کہ خدا کے ماننے والوں میں صاحب عقیدہ لوگوں یا دہریوں کے علاوہ ایک تیسرے عنصر کی بھی گنجائش ہے یعنی وہ لوگ جوکسی متبادل خدا کا تصور رکھتے ہیں۔ ہمارے یہاں تو مومن اور منکر کے ساتھ ساتھ کافر کی گنجائش ہمیشہ سے رہی ہے۔ اس کو آئیڈیولوجی کے اسکیل پر دیکھیے تو ایک وجود وہ ہے جس کو آئیڈیولوجی نے موضوعیت عطا کی ہے۔ دوسرا وجود وہ ہے جو آئیڈیولوجی کی دی ہوئی موضوعیت سے انکاری ہے اور تیسرا ایسا وجود بھی ممکن ہے جو دی ہوئی موضوعیت سے ہٹ کر کوئی متبادل موقف اختیار کرنے کا خواہاں ہو۔
یہاں امریکی نئی تاریخیت اور برطانوی نقطۂ نظر کا فرق صاف ظاہر ہے۔ گرین بلاٹ اور اس کے رفقا تاریخ میں طاقت کی ساخت میں فقط دو پہلوؤں کو دیکھتے ہیں، موافقت اور عدم موافقت۔ لیکن برطانوی نقطۂ نظر زیادہ جامع اور ریڈیکل ہے، اس لحاظ سے کہ اس میں دی ہوئی موضوعیت کو رد کرنے کے علاوہ نئے موقف کو وضع کرنے کی نظریاتی راہ کھلی ہوئی ہے۔
فوکو کی یاسیت سے بچنے کے لیے برطانوی ثقافتی مطالعات میں میخائل باختن کے خیالات کو بروئے کار لایا گیا ہے۔ باختن کی ادبی فکر میں کارنیوال کے تصور اور Diglossia کو جو اہمیت حاصل ہے، اس کا تذکرہ پہلے کیا جا چکا ہے۔ مشل برسٹل کی کتاب باختن کے خیالات کی بنا پر تاریخیت اور ثقافتی تغیر کی ایک اور وضع کو پیش کرتی ہے۔ برسٹل کا کہنا ہے کہ گرین بلاٹ ہو یاڈولی مور، دونوں الزبتھی عہدمیں عوامی کلچر کی طاقت اور اس کے عمل دخل کو نظر انداز کرتے ہیں۔ باختن کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ کارنیوال یا عوامی کلچر کو سرکاری یا اشرافیہ کلچر کے مقابلے میں متبادل کلچر قرار دیتا ہے، جو فقط عوام کے سہارے نہ صرف تمام عہد وسطیٰ میں کارگر رہا بلکہ جدید عہد میں بھی جاری و ساری ہے۔
کارنیوال نہ صرف مقتدر ساخت میں شگاف ڈالنے کے مترادف تھا بلکہ بے یقینی کی فضا ابھارنے کابھی جواز تھا جو عبارت تھی معنیاتی کھلے ڈلے پن سے، اور افراد کو چھوٹ دیتی تھی موضوعیت کو رد کرنے کی اور اس سے ستیزہ کار ہونے کی۔ فوکو کے حمایتی کہہ سکتے ہیں کہ کارنیوال کوئی آزادانہ ساخت نہیں تھی بلکہ سرکار و دربار کے نظم وضبط کے تحت کارگر ہونے والا ایسا ادارہ تھا جس میں مقتدرہ کا مضحکہ اڑانے کی فقط اس حد تک اجازت تھی جس حد تک رسمی طور پر اسے برداشت کیا جا سکتا تھا۔ گویا کارنیوال بھی اصلاً اُسی مقتدر طاقت کا حصہ اور اس کی توثیق تھا جس کا یہ مذاق اڑاتا تھا۔
غرضیکہ نئی تاریخیت کسی بندھے ٹکے رویے کا نام نہیں بلکہ تاریخ، ثقافت اور ادب کے پیچیدہ اور گہرے رشتوں کو سمجھنے سمجھانے کے ان طور طریقوں کے مجموعے کا نام ہے جن میں یہ نکتہ تسلیم شدہ ہے کہ ادب تاریخ اور کلچر میں اور تاریخ اور کلچر ادب میں سانس لیتے ہیں اور یہ رشتے جتنے ظاہر ہیں اس سے کہیں زیادہ مضمر، مستور اور تہہ در تہہ ہیں۔ جس طرح ادب ایک تشکیل ہے، تاریخ بھی ایک تشکیل ہے، ایک موضوعی بیان جو متن ہے اور دوسرے متون سے قائم ہوتا ہے۔ تاریخ واقعات محض کا نام ہے، نہ ہی اس کے تسلسل کی کوئی وحدانی تعریف ممکن ہے۔
غرض تاریخ کا معروضی مطالعہ بھی ایک متھ ہے۔ نئی تاریخیت کا ایک کام ادب اور تاریخ و کلچر کے رشتوں میں طاقت کے اس کھیل پر نگاہ رکھنا بھی ہے جو موضوعیت کو قائم کرتا ہے اور رائج ثقافتی رویوں کو معنی دیتا اور ان کو قابل قبول بناتا ہے، نیز ا ن دراڑوں اور خالی جگہوں پر بھی نظر رکھتا ہے جو موضوعیت میں شگاف ڈالتی ہیں اور شعروادب ہوں یا تاریخ و ثقافت، یہ درزیں اور خالی جگہیں تاریخ کے عمل میں نئی آوازوں اور تغیر و تبدل کی گنجائش پیدا کرتی ہیں، نتیجتاً جن سے طاقت کے منطقے بدلتے رہتے ہیں اور ارتقا کا کھیل جاری رہتا ہے۔
(۵)
ادھر نئی تاریخیت نے نسوانیت اور مابعد کولونیل تنقید کے ساتھ مل کر ادب کے پہلے سے چلے آ رہے یعنی تسلیم شدہ بنیادی متون Canon کے بارے میں بھی نئے سوال اٹھائے ہیں اور عورت کے حقوق، نیز تیسری دنیا کے ملکوں کے ادب یا انگریزی ادب میں نوآزاد شدہ ممالک کے ادیبوں کی نمائندگی یا ان کی صدیوں سے نظر انداز کی ہوئی ادبی اور ثقافتی روایتوں کی معنویت اور تفہیم اور قدر شناسی کی طرف سے مغربی ممالک یا نام نہاد پہلی دنیا کی بے اعتنائی اور نافرض شناسی کے بارے میں بھی نئے مباحث پیدا کیے ہیں۔ ادبی اور ثقافتی مطالعات میں یہ رجحان ’’پوسٹ کولونیل ازم‘‘ یا مابعد کولونیل تنقید کہلاتا ہے، اور جس طرح نسوانیت الگ سے ایک دبستان کی حیثیت رکھتی ہے اور بسیط مباحث پر محتوی ہے، اسی طرح مابعد کولونیل تنقید بھی اب الگ سے ایک دبستان کا درجہ حاصل کرتی جا رہی ہے جس نے اپنے بہت سے حربے نئی تاریخیت اور پس ساختیاتی فکر سے حاصل کیے ہیں۔
ایڈورڈ سعید کانام اس ضمن میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے، ادھر جن دوسرے اہل نظرنے اس ڈسکورس کو آگے بڑھایا ہے اور مغرب کے فکری نظام میں طاقت کے کھیل کو انہیں کی اصطلاحوں اور انہیں کی شرائط پر چیلنج کیا ہے اور یورو مرکزیت یا یورو امریکی مرکزیت کی فکر انگیز بحثیں اٹھائی ہیں، ان میں گایتری چکرورتی سپیواک، ہومی بھابھا، آشیش نندی اور اعجاز احمد قابل ذکر ہیں۔ ان کے کام اور ان کے فکری مقدمات کی تفصیل کا یہ موقع نہیں کیونکہ یہ ایک الگ موضوع ہے۔ البتہ ایڈورڈ سعید کی جامع کتاب Orientalism, 1978 جس کا ذکر پہلے بھی کیا جا چکا ہے، اس سلسلے کا کلیدی اور بنیاد گزار کارنامہ ثابت ہو چکی ہے۔
ایڈورڈ سعید نے خود کو فلسطین کے کاز کے لیے وقف کر دیا ہے، لیکن اس کایہ علمی کارنامہ غیرمعمولی ہے کہ ایک ایسے زمانے میں جب نئی تاریخیت یا مابعد کولونیل تنقید کا باقاعدہ آغاز بھی نہیں ہوا تھا، ایڈورڈ سعید نے فوکو کے اثرات سے کام لے کر مغرب اور مشرق کے چار ہزار برسوں کے رشتوں پر ایکسرے نگاہ ڈالی اور مغرب کے اس جعل کو بےنقاب کیا کہ مغرب ’’اورینٹ‘‘ یعنی مشرق کو ہمیشہ اپنا ’’دوسرا‘‘ قرار دے کر ایک طرف اپنی افضلیت کا سکّہ جماتا رہا ہے تو دوسری طرف مشرق کے دہانے، کچلنے اور نظرانداز کرنے کا جواز پیدا کرتا رہا ہے۔ مستشرقین کی علمی کاوشیں کتنی ہی قابل ستائش کیوں نہ ہوں، مغرب کا محرک ہمیشہ مشرقی السنہ اور علوم کو ہتھیانا اور اپنی اجارہ داری قائم کرنا رہا ہے، تاکہ مشرقی علوم کے استناد کاحق مغرب کو حاصل رہے۔
سیاسی اور معاشی استحصال کا کھیل سامنے کی بات ہے، ایڈورڈ سعید نے اس درپردہ ذہنیت کو بےنقاب کیا ہے جو تہہ نشیں ہے اور مشرق کے ادب وآرٹ اور کلچر پر اپنی پسند و ناپسندکی مہر لگا کر نہایت خطرناک کھیل کھلتی ہے اور جغرافیائی حدود سے ماورا جہاں تہاں اپنی افضلیت کی اجارہ داری قائم کرتی ہے۔
بہرحال نئی تاریخیت اپنے خصوصی میدان یعنی ادب، تاریخ اور ثقافت کے علاوہ دوسرے میدانوں بالخصوص نسوانیت اور مابعد کولونیل تنقید میں بھی کارگر ہے اور اس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ مغرب میں اب وہ رد تشکیل کے روبرو ہونے لگی ہے، اور ادھر کرسٹو فر نورس، جونتھن گولڈ برگ، جونتھن کلر اور دوسروں کے نئے کام میں یہ اصرار بڑھنے لگا ہے کہ ردتشکیل کو بھی چاہیے کہ فوکو اور آلتھیو سے کی فکر میں جس نئی تاریخیت کی گنجائش ہے، اس کے چیلنج کو قبول کرے۔
نئی تاریخیت کایہ اقدام لائق توجہ ہے کہ اس نے تاریخ کی پرتیں کھولتے ہوئے بین المتوفی تاریخی اصولِ نقد وضع کرکے ماضی کی تشکیل نو کی راہ دکھائی ہے یعنی کوئی فن پارہ (متن) خلا میں ’’تخلیق‘‘ نہیں ہوتا۔ ہر مصنف دوسرے مصنفین سے اثر قبول کرتا ہے یا سابقہ روایت یا اس کے کسی حصے کو رد کرتا ہے۔ کوئی فن پارہ اپنی ادبی تاریخ یا اپنے عصر سے یکسر بے تعلق نہیں ہوتا، ہو بھی نہیں سکتا۔ یہ اثرات شعوری بھی ہو سکتے ہیں اور بین السطور بھی یعنی غیرمحسوس طور پر بھی کارگر ہو سکتے ہیں جن کا فنکار یا نقاد کو سو فیصد احساس نہ ہو، لیکن کوئی بھی متن دوسرے متون سے یکسر بے تعلق ہو یہ ممکن ہی نہیں۔ جس کو ہم بالعموم ’’تخلیق‘‘ کہتے ہیں وہ بین المتوفی عناصر سے یکسر بے نیاز ہو ہی نہیں سکتی۔
مزید یہ کہ ثقافتی مطالعات کا یہ رخ بھی قابل قدر ہے کہ طاقت کے کھیل کوبے نقاب کرتے ہوے احتجاجی اور متخالف عناصر کو بھی نشان زد کیا جائے تاکہ تغیروتبدل اور ارتقا کے رازوں کو بہتر طریقے پر سمجھا اور سمجھایا جا سکے، اور ادب اور تاریخ، نیز ادب اور ثقافت کے رشتوں کی زیادہ جامع اور گہری جانکاری سے ادب کی افہام وتفہیم اور تحسین میں مدد لی جا سکے۔ اردو میں اس طرح توجہ کرنے کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ جدیدیت کی کوتاہیوں کو دور کرنے کی ایک اہم راہ نئی تاریخیت ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.