تحلیل نفسی اور فن
(الف)
یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ تحلیل نفسی ’’ان عوامل کو آشکار کر سکتی ہے جو ایک انسان کو فنی اعتبار سے موجد بناتے ہیں۔‘‘ اگر تحلیل نفسی کچھ نہ کرکے صرف یہی کرتی تو وہ ادبی تنقید اور انسانیت دونوں کی طرف سے قابل مبارکباد ہوتی۔ دنیا بہت دنوں سے اس حیرت انگیز انکشاف کا انتظار کر رہی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب وہ حیرت انگیز علم آشکار ہو گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فرائڈ، ایڈلر اورینگ نے یہ نیا علم ہمیں دیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک کی باتوں کو ہمیں الگ الگ سننا چاہیے ورنہ ان کے متضاد ارشادات ہمیں الجھن میں ڈال سکتے ہیں۔
ا۔ فرائڈ کا میلان طبع دور بین ہوتا ہے اور اسے عصباتی حریص ہونے میں بہت زیادہ دیر نہیں لگتی۔ یہ وہ شخص ہوتا ہے جو جبلی ضرورتوں سے متاثر ہوتا ہے جو بہت زیادہ ہنگامہ خیز ہوتی ہیں۔ وہ عزت، طاقت، دولت، شہرت اور عورت کی محبت حاصل کرنے کی تمنا رکھتا ہے لیکن اس تسکین کو حاصل کرنے کے ذرائع اس کے پاس نہیں ہوتے۔ اس لئے ایک عام غیرمطمئن شخص کی طرح حقیقت سے منہ موڑ کر اپنی ساری دلچسپی اور اپنی ساری شہوت بھی، اپنی خواہش کی تکمیل کے مطابق واہمہ کی دنیا میں لگا دیتا ہے، جس سے عصبی اختلال کی راہ کھلتی ہے۔ پھر فن کار کی شخصیت کی تشکیل وتعمیر تک پہنچنے سے روکنے والے بہت سارے ملے جلے اسباب ہو سکتے ہیں۔ یہ مشہور بات ہے کہ فنکار زیادہ تر اپنی صلاحیتوں کی جزوی رکاوٹ اور عصبی اختلال کا شکار رہتا ہے۔ ان کی طبیعت میں ارتقاء کی بھرپور صلاحیت اور ان انسداد میں، جن سے کشمکش پیدا ہوتی ہے قدرے نرمی پائی جاتی ہے۔ لیکن حقیقت کی راہ پر واپس آنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے تو اس طرح کہ، صرف فن کار ہی کی زندگی واہمہ کا شکار نہیں ہوتی بلکہ واہمہ کی اس درمیانی دنیا کو انسان رضا مندی کی سند ملی ہوئی ہے اور ہر تشنہ روح کے لئے یہ ایک تسکین اور اشک شوئی کام کام کرتی ہے، لیکن وہ لوگ جو فنکار ہیں ان کے لئے اس واہمہ کے آبشار سے تسکین محدود ہیں، ان کی بے رحمانہ انسداد تھوڑے بہت خیالی پلاؤ پکانے کے علاوہ جو شعور بن سکتے ہیں ان سب لطافتوں سے روک دیتے ہیں۔
مخلص فن کار کے ذمہ بہت کچھ رہتا ہے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ وہ جانتا ہے کہ اپنی خیالی دنیا کی وضاحت کس طرح کرے جس سے اس کی وہ ذاتی چھاپ ختم ہو جائے جس سے عام طور پر لوگوں میں چڑ چڑاہٹ پیدا ہوتی ہے اور جو دوسروں کے لئے باعثِ فرحت بن جائے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ ان میں معقول طریقہ سے کیسے تبدیلی لائی جائے جس سے ان کے ان ذرائع کا جو بنیاد ی طور پر ممنوع ہیں، ان کاپتہ نہ چل سکے۔ اس کے علاوہ اس میں وہ حیرت انگیز صلاحیت ہوتی ہے کہ جس سے وہ اپنے مخصوص مواد میں تغیر لائے اور وہ اس طور پر کہ اس کے خیالاتِ واہمہ بہتر طور پر ادا ہو سکیں اور پھر وہ یہ بھی جانتا ہے کہ واہمہ کی زندگی کی تخئیل میں وہ کس طرح زبردست طور پر خوشی کی رَو کو کچھ ہی دیر کے لئے اس طرح شامل کردے کہ اس سے احتباسات دور ہو جائیں اور خوف کا پہلو بھی ختم ہو جائے۔ جب وہ یہ تمام باتیں کر لیتا ہے تو پھر وہ دوسرے کے لئے نامعلوم فرحت کے ذرائع کی وساطت سے راحت اور تسکین کے راستے کھولتا ہے اور اس طرح اسے تعریف و توصیف اور ہر دل عزیزی ملتی ہے، اور اگر ایسا ہوگیا تو حقیقت میں اس نے اپنی قوت واہمہ کے ذریعہ سب کچھ حاصل کر لیا یعنی پہلے جو کچھ وہ صرف اپنے واہمہ کی دنیا میں حاصل کرتا تھا، عزت، طاقت اور عورتوں کی محبت۔‘‘ 1
آئیے، ہم لوگ اس حیرت انگیز انکشاف کی تحلیل اختصار کے ساتھ کریں اور کام کی باتوں پر غور کریں۔ کہا جاتا ہے کہ فنکار اُفتادِ طبع کے لحاظ سے عصباتی مریض ہوتا ہے۔ نفسیاتی تحقیقات کی یہ کلید ہے۔ مجھے پھر کہنے دیجئے کہ فن کار اُفتادِ طبع کے لحاظ سے عصباتی مریض ہوتا ہے اور اسے بھی دوسرے عصباتی مریضوں کی طرح غیر مطمئن تمنائیں ستاتی رہتی ہیں۔ تب، وہ حقیقت سے بھاگ کر واہمہ کی زندگی تخلیق کرتا ہے، ’’جہاں سے عصبی اختلال کا راستہ سیدھا اور آسان ہوتا ہے۔‘‘ لیکن وہ پورے طور پر عصباتی مریض اس لئے نہیں ہوتا کیونکہ اس میں غیرمعمولی قوتِ ارتفاع ہوتی ہے اور پھر وہ احتباسات جو کش مکش پیدا کرتے ہیں ان میں کچھ تبدیلی لانے کی بھی صلاحیت اور گنجائش رکھتا ہے۔ اس لئے وہ حقیقت تک لوٹنے کاراستہ ڈھونڈھ لیتا ہے۔ فن کار عام واہمہ کی دُنیا میں رہنے والے سے کچھ پہلوؤں سے مختلف ہوتا ہے اور ان پہلوؤں کا بیان کر دیا گیا ہے۔
فنکار اپنے خواب کی دنیا کی وضاحت کرنی جانتا ہے جس سے ان کی ذاتی چھاپ ختم ہو جاتی ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اس واہمہ کی دنیا کی ابتداء کو ایک سطحی طور پر مشاہدہ کرنے والے شخص سے کس طرح پوشیدہ رکھا جا سکتا ہے۔ اس کے پاس ایک پراسرار صلاحیت ہوتی ہے جو اسے اپنے قوت واہمہ کے خیالات کے اظہار کا اہل بناتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنی واہمہ کی زندگی کی رسوائی میں خوشی کی رَو کو بھی شامل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس طرح دوسرے عصباتی مریضوں کو نامعلوم خوشی کے ذرائع سے آرام و تسکین تک پہنچنے کا راستہ دکھاکر حقیقت تک لوٹنے کا اپناراستہ تلاش کر لیتا ہے۔ اور اس طرح اس کی عزت، طاقت اور عورتوں کی محبت کی تمنائیں پوری ہوجاتی ہیں۔ عام فن کاروں کے متعلق فرائڈ کا یہی کہنا ہے لیکن یہ نیا علم بہ مشکل ہی تسلی بخش ہے۔
ان میں سے کسی بھی بیان کی معقولیت پر اعتراض کئے بغیر، حالانکہ ان میں سے بعض کی معقولیت قابل اعتراض ہے، یہ دکھانا ممکن ہے کہ ان کو قطعی طور پر تسلیم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ فن کار اُفتادِ طبع کے لحاظ سے عصبی مریض ہوتا ہے۔ مستند انکشافات میں یہ پہلا انکشاف ہے۔ اس انکشاف کی معقولیت میں ہم یقین نہیں کرتے لیکن اسے جانے دیجئے۔ فنکار اُفتاد طبع کے لحاظ سے عصبی مریض ہوتا ہے اور یہ کہ وہ حقیقت سے منہ موڑ کر ایک عالم واہمہ کی تخلیق کرتا ہے۔ تو یہ بیانات قابل اعتراض ہیں۔ پھر بھی ان میں بعض چیزیں مثبت ہیں جنہیں ہم سمجھ سکتے ہیں۔ فرائڈ کو اس کی وضاحت کرنی ہے کہ کس طرح فنکار عصبی اختلال سے بچتا ہے، لیکن کسی باقاعدہ وضاحت کے بجائے (غالباً کوئی باقاعدہ وضاحت ممکن ہی نہیں) وہ صرف غیر استدلالی طور پر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ضرور کوئی ملے جلے عوامل ہوں گے جو فنکار کو اختلال عصبی سے بچالیتے ہیں۔ اُفتادِ طبع کے لحاظ سے فنکار شاید عصبی مریض نہیں ہوتا ہے۔ اس لئے اسے کسی حفاظت کی ضرورت نہیں۔ لیکن فرائڈ اس امکان پر اس نقطۂ نظر سے غور کرنے کو تیار نہیں ہے۔ وہ ہمیں یہ نہیں بتاتا کہ یہ عوامل کیا ہو سکتے ہیں اور نہ وہ صحیح اور صاف طور پر وہ وضاحت کرتا ہے کہ کس طرح یہ عوامل مل کر فنکار کو عصبی اختلال سے بچاتے ہیں۔
اس غیر استدلالی دعویٰ کے علاوہ فرائڈ کا دوسرا واحد مفید۔۔۔ یہ قیاس ہے کہ ’’شاید ان کی سرشت، کسی چیز کو تحلل کے ذریعہ دیکھنے کی قوی صلاحیت اور انسداد جذبات میں جو کش مکش کا باعث ہوتے ہیں قدرے لچک سے مزین ہوتے ہیں۔‘‘ لیکن ہمیں ان غیرمعمولی خوبیوں سے مزین ہونے کی کوئی اطمینان بخش سائنسی تشریح نہیں ملتی۔ کیا فنکار میں یہ غیر معمولی خوبی صرف اس لئے ہے کہ وہ فن کار ہے؟ یا تخیل کے ذریعہ دیکھنے کی یہ قوی صلاحیت فنکار کو ف کار بناتی ہے؟ فرائڈ ہمیں یہ نہیں بتاتا۔ اس کا غیر استدلال دعوی اور قیاس دونوں مل کر صرف اتنی ہی بات بتا پاتے ہیں کہ فنکار عصبی اختلال سے اس لئے بچ جاتا ہے کہ وہ فنکار ہوتا ہے۔ اس وضاحت سے ماہر تحلیل نفسیات کو بھلے ہی تسلی ہو جائے، لیکن اس سے کچھ بھی واضح نہیں ہوپاتا۔ بہتوں کے پاس جو فنکار نہیں ہیں ایسے عوامل کا اجتماع مل جاتا ہے جسے ’’تخیل کے ذریعہ دیکھنے کی قوی صلاحیت‘‘ یا ’’کش مکش پیدا کرنے والے انسداد جذبات کی لچک‘‘ کہا جاتا ہے، کیونکہ وہ عصبی مریض نہیں ہو جاتے۔ یہ صرف مقدر کی بات۔ اگر آپ مقدر والے ہیں تو آپ فنکار یا ویسا ہی کچھ بن جاتے ہیں۔ ورنہ آپ عصبی مریض بنتے ہیں۔ یہ ایسی حالت ہے جو بہت صحیح ہو سکتی ہے، لیکن اس سے ہماری الجھن دور نہیں ہوتی۔
جب فرائڈ اس کی وضاحت کرنے کی سعی کرتا ہے کہ فن کار کیسے حقیقت تک لوٹتا ہے تب بھی اس سے تسلی نہیں ہوتی۔ اس کے ذریعہ کی گئی وضاحت کی تفصیلی جانچ ضروری نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ سچا فنکار عام بیداری کا خواب دیکھنے والوں سے اس معنی میں مختلف ہے کہ وہ جانتا ہے کہ اپنے بیداری کے خواب کی وضاحت کیسے کی جائے، تاکہ ان کا انفرادی چھاپ مٹ جائے جو دوسروں کو ناگوار لگتا ہے۔ عام بیداری کے خواب ذاتی اور نجی ہوتے ہیں۔ ہمیں فرائڈ کی اصطلاحات سے کوئی بحث نہیں کیونکہ یہ ادبی تنقید کی اصطلاحات نہیں ہیں۔ فنکارانہ عمل کی وضاحت کے طور پر ہم اسے تسلیم نہیں کرتے۔ فنکار اپنے بیداری کے خواب کی وضاحت کس طرح کرتا ہے؟ اس جذبہ کا رجحان کیا ہے؟ جو بیداری کے خواب کی وضاحت کرنے کے لئے فن کار کو مجبور کرتا ہے اور وضاحت کا یہ عمل وہ اثر کیسے پیدا کرتا ہے جسے اس ذاتی چھاپ کا غائب ہو جانا کہتے ہیں، جو دوسروں کو ناگوار گزرتا ہے۔ ان اہم امور کے متعلق فرائڈ کچھ نہیں کہتا اور نہ شاید کچھ کہہ سکتا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ فنکارانہ عمل غیرواضح رہ جاتا ہے۔ راز راز ہی بنا رہتا ہے۔ وہ سائنسی نقطۂ نظر سے مستند امر نہیں بن پاتا اور فرائڈ کی قلعی کھل جاتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ فن کار میں اپنے حاص عوامل کو ڈھالنے کی پراسرار قابلیت ہوتی ہے۔ جو تب تک متحرک رہتی ہے۔ یہاں لفظ ’’پراسرار‘‘ فرائڈ کی قلعی کھول دیتا ہے۔ یقیناً یہاں کچھ ایسا ہے جسے فرائڈ خود نہیں سمجھتا، جو اسے پر اسرار معلوم ہوتا ہے اور اس طرح سائنسی آلہ ٹوٹ جاتا ہے۔ سائنسی طرز کلام (Phrascology) ناکافی معلوم ہونے لگتا ہے اور ہمیں روایتی طور پر متعجب ہونا پڑتا ہے جو ماہر تحلیل نفسیات کو بہت ہی غیر سائنسی اور غیرتسلی بخش معلوم ہوا۔
۲۔ ایڈلر۔ فرائڈ کے بعد ایڈلر کا مطالعہ نہایت ضروری ہے، اس لئے اب ہم ایڈلر کی طرف توجہ کریں جسے ریڈ بہت تسلی بخش مانتا ہے۔ ایڈلر لکھتا ہے کہ ’’ہر عصبی اختلال کو اپنے آپ کو احساسِ کمتری سے نجات پانے کی ایک کوشش سمجھنا چاہئے۔ 2 تاکہ احساس برتری حاصل ہو سکے۔ اس احساسِ کمتری کی ابتداء خاندانی ماحول میں ہوتی ہے۔ ’’اپنے بچپن میں غریبی، بے قاعدہ بینائی یاخلاف معمول سماعت جیسی کئی مشکلات سے دوچار ہوکر اور کسی خاص شکل میں بربادی کا شکار بن کر فنکار شدید احساسِ کمتری سے خود کو نجات دلانے کی کوشش کرتا ہے۔ غضبناک طور پر اولوالعزم بن کر وہ اپنی حقیقت سے جدوجہد کرتاہے، جسے اپنے لئے اور دوسروں کے لئے وہ توسیع کر سکے۔‘‘ 3 لیکن صرف فنکار ہی احساس برترقی سے ترغیب حاصل نہیں کرتا۔ ’’خواہ کوئی فرد فنکار یا اپنے پیشہ میں اول آنا یا کنبہ میں ظالم بننا چاہتا ہو، یا خدا سے مکالمہ کرنا چاہتا ہو، یا دوسروں کو کمتر دکھانا چاہتا ہو، یا اپنی مصیبت کو دنیا کی سب سے اہم شے مانتا ہو، یا تمام حدود اور اقدار (آدرشوں) کو توڑ کرلاحاصل مقاصد اور قدیم دیوتاؤں کے پیچھے دوڑ رہا ہو، وہ اپنے راستہ میں ہر ایک مقام پر عظمت کی خواہش، مدبرانہ خیالات اور اپنی خاص جادوئی طاقت میں یقین سے تحریک اور رہنمائی حاصل کرتا ہے۔ 4
عظمت کی یہ خواہش ہم میں بہتیرے کے اندر دبی رہتی ہے جسے شاعر میں تو ہر کوئی جانتا ہے۔ لیکن خاص طور سے یہ پراسرار تاریکی میں چھپی رہتی ہے اور مجنونانہ یا انبساط کی حالت میں ہی یقینی طور پر ابھر کر سامنے آتی ہے۔ 5 ایڈلر مزید کہتا ہے کہ ’’جو کوئی پاکی کا یہ راستہ سنجیدگی سے اختیار کرےگا، اسے جلد ہی حقیقی زندگی سے فرار ہونے کو اور ایک زندگی کے اندر ایک دوسری زندگی کی تلاش کرکے تصفیہ پر مجبور ہونا پڑےگا۔ اگر وہ خوش قسمت رہا تویہ فن میں ممکن ہوگا ورنہ پاکبازی عصبی اختلال یا جرم میں۔‘‘ 6
فنکار کے متعلق ایڈلر کا بہت بلند تصور ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ فنکار اور صاحب طبع (Genius) بلا شبہ انسانیت کے رہنما ہیں اور جو روشنی انہوں نے اپنے بچپن میں جلائی تھی اس میں چل کر انہیں اپنی ہمت کے لئے سزا بھگتنی پڑتی ہے۔ ’’میں نے مصائب جھیلے اس لئے میں شاعر ہوا۔‘‘ اپنی بہتر بصارت، رنگ کے ہر ادراک، شکل او رنشان کے صحیح علم کے لئے ہم مصوروں کی مقروض ہیں۔ ایسی خالص سماعت اور اپنے صوتی اعضاء کے عمدہ اُتار چڑھاؤ ہم نے موسیقاروں سے حاصل کیا ہے۔ شاعروں نے ہمیں بولنا، تجربہ کرنا اور سوچنا سکھایا ہے۔‘‘ 7 ہم فنکاروں، صاحب طبع، مفکروں، موجدوں، محققوں کی لافانی کامیابیوں پر دوسروں پر طفیلیوں کی طرح زندہ رہتے ہیں۔ وہ انسانیت کے سچے رہنما ہیں۔ دنیا کی تاریخ میں وہ حرکی قوت ہیں اور ہم لوگ محض تقسیم کار۔
حقیقی معنوں میں ایڈلر کے خیالات فرائڈ کی بہ نسبت زیادہ معاون نہیں ہیں۔ جن باتوں کی وضاحت فرائڈ سے نہیں کی گئی ہے، انہیں ایڈلر بھی واضح نہیں کر سکتا ہے۔ فنکار، فنکار ہے کیونکہ وہ عصباتی مریض ہے اور فنکار عصباتی مریض نہیں ہے کیونکہ فنکار ہے۔ یہ دونوں باتیں متضاد ہیں۔ جنہیں فرائڈ اور ایڈلر ہمیں بتاتے ہیں۔ بنیادی طور پر ایڈلر کا اصول فرائڈ کے اصول سے مختلف نہیں ہے۔ اس اصول کے مطابق بھی فن کار اُفتادِ طبع کے لحاظ سے عصباتی مریض ہوتا ہے۔
صرف عصبی اختلالی کی تشریح مختلف طریقے سے کی گئی ہے۔ اس کی تشریح اس طرح کی گئی ہے کہ اختلال عصبی اپنے آپ کو احساسِ کمتری سے نجات دلانے کی کوشش ہے تاکہ برتری کا احساس ہو سکے اور اس احساس برترقی کا اظہار واہمہ کے ذریعہ ہوتا ہے۔ حقیقت سے الگ ہوکر ہر فنکار زندگی کے اندر زندگی کی کھوج کرنا چاہتا ہے جو اس کے ذریعہ تخلیق کردہ واہمہ کی بدلی ہوئی شکل ہے۔ فرائڈ کے لئے فن تصعید ہے، ایڈلر کے لئے وہ نقصان کی تلافی کی شکل ہے، لیکن فن، ویسا فن جس کی کچھ اہمیت ہو، نہ تو تصعید ہے اور نہ نقصان کی تلافی ہے۔ جو بھی ہو فرائڈ اور ایڈلر میں یہ خاص فرق ہے۔ یہ تصفیہ یہ زندگی درزندگی مختلف صورتوں سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ ’’پاکبازی میں، اختلال عصبی میں یا جرم میں۔‘‘
صرف قسمت کی بات ہے کہ فنکار اپنی نجات فن میں حاصل کرتا ہے۔ وہ اسے جرائم اور پاکبازی میں بھی حاصل کر سکتا تھا۔ وہی قسمت والی بات جیسی فرائڈ میں ہے ویسے ہی ایڈلر کے اصول میں بھی۔ فنکار قسمت سے عام عصباتی اختلال کی کیفیت سے بچ جاتا ہے لیکن جیسا ہم نے دیکھا ہے، اُفتادِ طبع کے لحاظ سے وہ عصباتی مریض ہی رہتا ہے۔ ہاں، وہ جس واہمہ کی تخلیق کرتا ہے۔ وہ دوسروں کو ناگوار لگنے والے شخصی چھاپ سے آزاد ہوتی ہے۔ اسے فنکارانہ شکل اور تکمہ حاصل ہو جاتی ہے۔ جس کے سبب وہ اہم بن جاتی ہے۔ عصباتی مریض باقاعدہ واہمہ کی تخلیق نہیں کر سکتا اور اسی لئے وہ عصباتی مریض رہ جاتا ہے اور اس کی داخلی زندگی کچھ بے ترتیب۔
جیسا میں نے کہا ہے فرائڈ کی بہ نسبت ایڈلر کے خیالات زیادہ سے زیادہ معاون ثابت نہیں ہوتے۔ کم سے کم اس ضمن میں وہ فرائڈ کی ہی تقلید کرتا ہے۔ فن کارکے متعلق اس کے نتائج خاص طور سے وہی ہیں جو فرائڈ کے ہیں۔ وہ فن کار، مجرم، ظالم، برائی کے لئے خبط (Megalomaniac) صوفی اور اُولوالعزم طوائف کے درمیان کوئی تمیز نہیں کرتا۔ رام راج کا خواب دیکھنے والا اور اس کے لئے کوشش کرنے والاآدرش وادی (Idealist) اور عوام کا سب سے بڑا دشمن، دونوں اپنی عظمت کی خواہش اور اپنی پاکی کے خیال سے ہی ترغیب اور تحریک حاصل کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے لافانی شاعری اور پیٹنٹ (patent) دو ایک ہی درجہ کی چیزیں ہوں۔
ایڈلر جمالیاتی عمل کی وضاحت نہیں کرتا اور نہ ہمیں کسی فن کارکی جمالیاتی خاصیت کے متعلق کچھ بتاتا ہے۔ جس میں اس کی طاقت کے وسائل پوشیدہ رہتے ہیں۔ اس کی پہنچ یقینی طور پر غیر ماہر کی طرح ہے، جس میں حسن کا تو فقدان ہے ہی جو کبھی کبھی غیر مربوط بھی معلوم ہوتا ہے۔ وہ خامی اس میں ہی نہیں، فرائڈ اور دیگر ماہرین تحلیل نفسیات میں بھی موجود ہے۔ ان کے لئے ایک فن پارہ کسی نفسیاتی عمل کی ایک مثال ہے جس میں ان کی دلچسپی ہے۔ فنی اور انسانی اقدار میں ان کی کوئی دلچسپی نہیں۔ کسی فن پارے ہی کو فن پارے کی شکل میں سمجھنے اور اس کی تنقید کرنے کی کوئی صلاحیت نہیں۔ ان کے پاس نہ ضروری تربیت ہے نہ آلات۔ اس لئے اس سمت میں کوشش بھی اور غلطیوں سے پرے ہے۔ ایڈلر جس کے اس فقدان کی تلافی فنکاروں کے کھلے دل سے تعریف کرکے کر لیتا ہے۔ اس کے مطابق فنکار انسانیت کا رہنما ہے۔ اپنی جرأت کے لئے جو سزا وہ بھگتتا ہے اس سے وہ آگاہ ہے۔ اس کے ہم کتنے مرہون منت ہیں، اسے وہ جانتا ہے۔ وہ اس کی تعریف دل کھول کر کرتا ہے۔
’’ہم فنکاروں، صاحب طبع (Geniuses) مفکروں، موجدوں اور محققوں کی لافانی کامیابیوں پر طفیلی بن کر زندہ رہتے ہیں۔ وہ انسانیت کے حقیقی رہنما ہیں۔ تاریخ عالم میں وہ حرکی قوت ہیں اور ہم صرف تقسیم کنندہ۔‘‘ فن کار کا سب سے بڑا حامی بھی اس خراج تحسین میں کوئی خامی نہیں پا سکتا۔ کچھ تو ہے جس کی وجہ سے فنکار کی سطحی کاموں میں مشغول، فضول آدمی سمجھ کر ملامت نہیں کی جاتی ہے، لیکن اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے جس کے لئے ہمیں تحلیل نفسی یا انفرادی نفسیات کے فروغ کا انتظار کرنا ضروری تھا۔ شیلیؔ کے مشہور اشعار اس خیال کو اور زیادہ زور دار شکل میں ظاہر کرتے ہیں۔ شعر غیرمفہوم شاعرانہ وجدان کے ترجمان اور اس دیو قامت سائے کا عکس ہوتے ہیں جو مستقبل حال پر ڈالتا ہے، وہ الفاظ ہیں جو اس چیز کی ترجمانی کرتے ہیں جسے وہ سمجھ نہیں پاتے، وہ بگل ہیں جو جنگ میں بجاتے تو ہیں لیکن یہ نہیں محسوس کرتے کہ وہ کیا تاثیر پیدا کر رہے ہیں۔ وہ تاثیرجس پر خود کوئی اثر نہیں ہوتا لیکن دوسروں کے دلوں پر اپنا اثر ڈالتے ہیں۔ شعراء دنیا کے غیر تسلیم شدہ قانون ساز ہوتے ہیں۔‘‘ 8
ماہرین تحلیل نفسیات کے نئے انکشافات کو سنتے وقت اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم ان الفاظ کو پہلے بھی سن چکے ہیں۔ آواز صریحاً مختلف ہے۔ مجموعہ الفاظ اور اصطلاحات بھی غیرمانوس اور عجب لگتے ہیں، لیکن جب ہم تنقیدی نقطہ نظر سے اس کا جائزہ لیتے ہیں تو اجنبیت ختم ہو جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جو بازگشت (Echo) ہم سن رہے ہیں، اس نے حیرت انگیز طور پر اصل آواز کو بگاڑ دیا ہے اور یہ بگاڑ ہی اجنبیت کے پہلے تاثر کے لئے ذمہ دار ہے۔ ہم نہیں سمجھ پاتے کہ جدید یا قدیم ماہرین تحلیل نفسیات کے نام نہاد مٹے انکشافات ادبی نقاد کے لئے کسی شکل میں کیسے معاون ہو سکتے ہیں۔ بہر حال کوئی فیصلہ دینے سے قبل آئیے ہم اس کی حمایت میں ایڈلر کی تقریر غور سے سنتے چلیں۔
’’قابل توجہ ضروری بات یہ ہے کہ تحلیل نفسی یہ دکھاتا ہوا معلوم پڑتا ہے کہ فنکار سب سے پہلے افتادِ طبع کے لحاظ سے عصباتی مریض ہوتا ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ فن کار بن کر وہ افتاد طبع کی قطعی تباہی سے بچ جاتا ہے اور فن کے ذریعہ حقیقت تک پہنچنے کا راستہ پا لیتا ہے۔ میری سمجھ سے اب یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ نقاد کے لئے تحلیل نفسی کہاں تک معاون ہو سکتا ہے۔ یعنی کسی اختلال عصبی کے میلان کے ارتفاع کی حقیقت کی تصدیق میں ماہر تحلیل نفسی میں کسی بھی فنکارانہ یا نیم فنکارانہ، حقیقی اور عصبی خلل کے شکار کے درمیان صاف فرق دکھانے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ ادب میں بہت کچھ ایسا ہے جو حقیقت کی حد آخر پر ہے۔ اس حد آخر کی حقیقی شکل کو کسی سائنسی عمل کے ذریعہ تعین کر لینا نقاد کے لئے مفید ہوگا، لیکن میں پھر مشورہ دوں گا کہ ممکناً عام تنقیدی اصولوں کی مدد سے بھی نقاد اس حد آخر کا تعین کر سکتا ہے۔ لیکن اس تجربے کے لئے تحلیل نفسی کا یہ راستہ قدرے آسان ہوگا اور ہر حالت میں وہ کافی اطمینان بخش طریقے کا ثانوی ثبوت تو دے ہی دےگا۔‘‘ 9
یہ واضح ہے کہ ایڈلر قطعی اور اصول تنقید کے خلاف تحلیل نفسی کے اس نتیجہ کو تسلیم کرتا ہے کہ فنکار ابتداءً افتاد طبع کے لحاظ سے عصباتی مریض ہوتا ہے اور فن ایک نوع کا ارتفاع ہے۔ فی الحال ان نتائج کی مناسبت پر غور کرنا میرا مقصد نہیں ہے اور نہ اس ثبوت پر، جس پر یہ نتائج مبنی ہیں۔ لیکن یہ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ نہ تو فنکار ابتداءً افتاد طبع کے لحاظ سے عصباتی مریض ہوتا ہے اور نہ فن ایک ارتفاع کی کوئی قسم ہے۔ ’’ایڈلر جس چیز کی وکالت کر رہا ہے اس کی کمزوری سے غالباً واقف ہے۔‘‘ دکھاتا ہوا معلوم ہوتا ہے کہ اس میں خود اعتمادی کی کمی ہے۔ پوری عبارت میں تجسس کا رجحان موجود ہے جیسے میں سوچتا ہوں، ہونا چاہیے، مفید ہوگا، قدرے آسان راستہ ہو سکتا ہے، ’’ثانوی شہادت۔‘‘ ایڈلر کی واحد مثبت تجویز یہ ہے کہ جو واحد مثبت تجویز ملتی ہے وہ ہے وہ مدد جو نقاد کو ماہر تحلیل نفسی سے حقیقت کے حد آخر کے، صحیح راستے کے تعین میں مدد دے سکتی ہے۔
لیکن آگے چل کر وہ اپنی بات کی یہ کہہ کر خود ہی تردید کر دیتا ہے کہ ’’غالباً‘‘ عام تنقیدی اصول سے نقاد کو کسی طرح کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ اپنے موقف کو دوبارہ واضح کرتے ہوئے ایڈ مزید کہتا ہے کہ لیکن تحلیل نفسی اس تجربے کا مختصر راستہ ہو سکتا ہے۔ (کاش یہ حقیقتاً مختصر ہوتا!) اور ہر حالت میں وہ کافی تسلی بخش طریقہ کی ثانوی شہادت تو دے سکتا ہے۔ اس سے بات بہت واضح نہیں ہوتی۔ یہ ثانوی شہادت یقینی طور پر غیر زائد شے ہے۔ پھر بھی اسے خاطر خواہ سمجھا جاتا ہے۔ خاص کر ان کے لئے جنہیں اپنے موقف میں خود شبہ ہے اور جنہیں اپنے فیصلہ کی حمایت کے لئے کسی دیگر آزاد شہادت کی ضرورت ہے۔ نقاد کو ماہر تحلیل نفسیات کے پاس اپنے نتائج کی تصدیق کے مقصد سے جانے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ جس نقاد میں ضروری نئی تربیت اور آلات ہیں اسے ماہر تحلیل نفسیات کے پاس جانے کی ضرورت نہیں۔
۳۔ ینگ۔ ماہر تحلیل نفسیات کے کیمپ میں آپس میں ہی اختلاف ہے اور اس اختلاف کی ذمہ داری ینگ پر ہے۔ وہ فرائڈ اور ایڈلر سے متفق نہیں ہے اور کبھی کبھی واضح طور پر تردید کرتا ہے۔ وہ فنکار بحیثیت انسان اور انسان بحیثیت فن کار کے درمیان ضروری امتیاز برتتا ہے۔ فرائڈ اور ایڈلر کے تحقیقی نتائج ایک کے متعلق بحیثیت انسان اغلباً صحیح ہو سکتے ہیں۔ لیکن آدمی بحیثیت فنکار سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ینگ لکھتا ہے، ’’ہر ایک تخلیقی انسان متضاد طبعی میلان کا تشنہ یا امتزاج ہوتا ہے۔ ایک طرف وہ انسانی زندگی سے پر انسان ہے جبکہ دوسری طرف وہ غیر انفرادی تخلیقی عمل ہے چونکہ انسان کی شکل میں وہ صحت مند یا علیل ہو سکتا ہے۔ اس لئے اس کی شخصیت کے تعین کرنے والے عناصر کو ٹھیک سے جاننے کے لئے اس کی ذہنی تخلیق کو دیکھنا ہمارے لئے ضروری ہے۔ لیکن فنکار کی شکل میں اسے ہم اسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب ہم اس کی تخلیقی کامیابیوں کو دیکھیں۔‘‘ 10
وہ آگے رقم طراز ہے، ’’انسان کی حیثیت سے اس کے مزاج، خواہش اور ذاتی مقاصد ہو سکتے ہیں لیکن بحیثیت فن کار وہ اعلیٰ مضمون میں انسان ہے۔ وہ اجتماعی انسان ہے جو نسل انسانی کی لاشعوری فطری زندگی کو سر کرتا اور خاص شکل دیتا ہے۔ اس مشکل کار منصبی کے انجام دہی کے لئے بسا اوقات اس کے لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ عام نوع انسان کے لئے اپنی خوشی اور ان تمام چیزوں کو جو زندگی کو جینے کے لائق بناتی ہیں قربان کر دے۔‘‘ 11
ینگ، فنکار کی زندگی کی ناتسلی بخش فطرت سے واقف ہے اور وہ اس کی وضاحت اس طرح کرتا ہے، ’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا ہم میں سے سبھوں کی پیدائش کے وقت بعض خاص توانائی مزین کر دیا جاتا ہے۔ ہماری ساخت کی سب سے مضبوت قوت اسی توانائی کو اپنے تصرف میں لےگی اور اس پر اپنی اجارہ داری جمالےگی۔ جس سے اتنا کم بچ جائے گا کہ کوئی قابل قدر چیز پیدا نہ ہو سکےگی۔ اس طرح تخلیقی طاقت انسانی جذبہ کو اس حد تک کھوکھلا کر دےگی کہ انفرادی انا (Ego) سب طرح کی چالوں، بے رحمی، خود غرضی، غرور، حتی کہ ہر قسم کے گناہ کو پیدا کر دے جس سے زندگی میں رمق قائم رہ سکے اور ہمیشہ کے لئے محروم ہونے سے بچا لے۔ یہ اس کے فنکار ہونے کے تأسف انگیز نتیجہ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ ایسا انسان ہے جسے اپنی پیدائش سے ہی عام انسان کی بہ نسبت بڑے کام کرنے ہوتے ہیں۔ مخصوص صلاحیت کے معنی ہوئے کسی خاص سمت میں بھاری صرفہ اور زندگی کی کسی اور طرف مسلسل نکاس۔‘‘ 12
فنکار کی ثنویت ایسا تصور ہے جو زیادہ وسیع طور پر تسلیم کیا جائےگا۔ وہ فنکار کو عصباتی مرض کی آلودگی سے نجات دے دیتا ہے۔ اس فن کار کو نہیں جو بحیثیت انسان عصبی مریض ہوتا ہے اور فن سے تصعید کے کلنک کو بھی دور کر دیتا ہے۔ کوئی انسان فن کار اس لئے نہیں کہ وہ عصباتی مریض ہے۔ وہ عصباتی مریض اس لئے ہو جاتا ہے کہ اتفاق سے فنکار ہے کیونکہ خاص سمت میں اس کی توانائی کی کثرت صرف ہو رہی ہے جس کا نتیجہ زندگی کے کسی دوسرے پہلو سے مسلسل نکاس ہے۔ فرائڈ نے بتایا ہے کہ کس طرح اکثر فنکار خصوصاً اختلال عصبی سے اپنی صلاحیتوں کے جزوی رکاوٹ مبتلا رہتا ہے اور عصباتی اختلال کی اس حالت میں وہ اپنے اصول کی دلیل ڈھونڈ لیتا ہے کہ فنکار میلان کے لحاظ سے عصباتی مریض ہوتا ہے جبکہ ینگ کے مطابق عصباتی اختلال سبب نہیں بلکہ تخلیقی طاقت کا نتیجہ ہے جو انسانی جذبات کو اس حد تک خالی کر دیتا ہے کہ ذاتی انا سبھی طرح کی خامیوں کو فروغ دے سکے۔ ان دونوں میں ینگ کا اصول کہیں زیادہ معقول ہے۔ ضمناً یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ ادب کا نقاد ماہر تحلیل نفسی کی مدد کے بغیر بھی اس توضیح کو پیش کر سکتا تھا۔
ماہر تحلیل نفسی کا تعلق زیادہ تر عصباتی مریض سے ہے۔ یہ اس کا کام ہے کہ ہر ایک حالت میں عصباتی اختلال کو اس کے پیدا ہونے والے وسائل تک ڈھونڈے اور اس وسائل کو عصبی اختلال کے مریض کے سامنے پیش کرے۔ سبھی طرح کے عصباتی اختلال کے ساتھ یہ مسلسل مشغولیت ذہن ماہر تحلیل نفسی کی رویت کو محدود کر دیتی ہے اور اس میں جانبداری پیدا کر دیتی ہے۔ مثال کے طور پر جو لوگ پاگلوں کے ساتھ ہمیشہ رہتے ہیں، ان کی فطرت مشتبہ ہو جاتی ہے اور وہ ہمیشہ یہاں تک کہ اکثر سیدھی سادی حرکتوں میں بھی دیوانگی دیکھنے لگتے ہیں۔ جب کوئی کسی شے کے بہت زیادہ قریب میں رہتا ہے تو وہ اس کے لئے بے حدعظیم بن جاتا ہے اور مناسب سے زیادہ اہم دکھائی دینے لگتا ہے۔ یہ ناگزیر بھی معلوم ہو سکتا ہے۔ تحلیل نفسی کے نتائج خامیوں سے پر ہیں اور اتنے ناگزیر نہیں جتنے دکھائی دیتے ہیں۔
جب ینگ اجتماعی انسان کی بات کرنے لگتا ہے تو اسے سمجھنا یا اس کے اصول کو تسلیم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ’’فنکار بحیثیت انسان اپنی کیفیت، مزاج، خواہش اورذاتی مقاصد کا حامل ہو سکتا ہے، لیکن فن کار کی حیثیت سے وہ ایک اعلیٰ آدمی ہے، ایک اجتماعی شخص ہے جو بنی نوع انسان کی لاشعوری، دماغی زندگی کو سر کرتا ہے اور اسے خاص شکل دیتا ہے۔ اگر اس کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ فنکار اپنی تخلیق سے اس ذاتی چھاپ کو دور کر سکتاہ ے جو دوسروں کو ناگوار معلوم ہوتا ہے اور اسے دوسروں کے لئے پرلطف بنا سکتا ہے تو اس حد تک یہ بہت مناسب ہے۔‘‘ 13
لیکن ینگ کا یہ عقیدہ ہے کہ فنکار ’’اجتماعی انسان‘‘ ہوتا ہے، اس اجتماعی لاشعوری کے اصول کے ساتھ منسلک ہے اور یہ کافی متنازع اصول ہے جس کا تذکرہ کسی دوسری جگہ کیا جائےگا۔ زیر بحث مسئلہ کے ضمن میں ینگ کی سب سے اہم ’دین‘درحقیقت اس کی واحد ’دین‘ اجتماعی انسان کی شکل میں فنکار کو دیکھنے والا عقیدہ ہے جو کہ ایک دلچسپ تصور ہے۔ اگرچہ جانچ کے بعد یہ کمزوری کیوں نہ ثابت ہو یہ ظاہر ہو جائےگا کہ ماہر تحلیل نفسی کو ہمیں فنکار کے متعلق بنانے کے لئے بہت تھوڑی بات ہے۔ جو کچھ وہ ہمیں بتاتا ہے وہ نہ اتنا زیادہ ہے اور نہ اتنا قابل قدر اور اہم ہے جتنا کہ ہمیں امید دلائی جاتی ہے۔ فن کار اولاً اُفتادِ طبع کے لحاظ سے عصباتی مریض ہوتا ہے اور کسی طرح فن کے توسط سے وہ حقیقت تک لوٹنے کا راستہ ڈھونڈتا ہے۔ یہ امر سائنسی شہادت سے مصدقہ ہونے پر بھی ادبی تنقید میں کسی انقلاب کا موجب نہیں ہو سکتا۔ اگر اس سے کوئی فائدہ ہو بھی تو وہ منفیانہ ہوگا۔ فن کار کے پاس کسی مخصوص رومانی صورت میں یا بارعب احترام کے انداز میں جانا ممکن نہیں رہےگا۔ لیکن اس رومانی انداز کو تحلیل نفسی کی مدد کے بغیر بھی بآسانی کمزور بنایا جا سکتا ہے۔
یہ امر سائنسی ذہن والے انسان کو ایک طرح کا اطمینان دے سکتا ہے کہ فن کار کے متعلق وہ سب کچھ جانتا ہے۔ یہ غور کراکر کے فن کے اس مخصوص نمونے کی صحیح صحیح درجہ بندی، نامزدگی اور تعین ہوچکی اور بالآخر اسے دور کیا جا چکا ہے، یہ امر اوسط آدمی کو ایک دوسرے کی طرح کا اطمینان دے سکتا ہے۔ اسے یہ احساس دلاکر وہ فنکار کے مقابلہ میں خود کو عظیم سمجھے جو کہ بہر حال ایک عصباتی مریض ہوتا ہے نہ کہ اُلوہیت کا حامل ایک بہترین انسان۔ لیکن ایک عام آدمی سائنس دانوں کو اس امر کے متعلق نزاع میں دیکھ کر اور یہ دیکھ کر کہ ینگ نے ایک بالکل ہی مختلف توضیح پیش کی ہے، الجھن میں پڑ سکتا ہے۔
(ب)
ماہرین تحلیل نفسیات کا کہنا ہے کہ فن ایک قسم کی صورت وہمیہ ہے۔ فرائڈ کہتا ہے کہ واہمہ ’’عام انسانی رضامندی سے حاصل ہوتی ہے اور صبروسکون کے لئے ہر پیاسی روح کو اس کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘ انسانی زندگی میں اس کی نوعیت اور اس کے طریقۂ عمل کی اس طرح وضاحت کرتا ہے،
’’آپ جانتے ہیں کہ حقیقت کو سمجھنے اور حقیقت کے اصول کی تنقید کرنے کی خارجی ضرورت کے اثرات سے انسانی انا تربیت حاصل کرتا ہے اور ایسا کرنے میں اسے مسرت وانبساط کے، جس میں اس کی جنسی خواہش بھی شامل ہے، متفرق مقاصد کو مستقل یا غیرمستقل طور پر ترک کرنا ضروری ہوتا ہے، لیکن مسرت کو ترک کرنا انسان کے لئے ہمیشہ ہی مشکل رہا ہے۔ وہ بغیر کسی طرح کے عوض کے اسے ترک نہیں کر سکتا۔ چنانچہ اس نے اپنے لئے ایک دماغی سرگرمی پیدا کر رکھی ہے جس میں مسرت کے یہ تمام ترک کردہ وسائل اور انبساط کے معطل راستے کو اپنا وجود برقرار رکھنے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ ایسا وجود جس میں وہ حقیقت کے تقاضوں سے اور جسے ہم ’’آزمائشی حقیقت‘‘ کہتے ہیں اس کی مشق سے آزاد رہتے ہیں۔ ہر ایک تمنا فوراً تکمیل کے خیال میں بدل جاتی ہے۔ اس لئے واہمہ میں خواہش کی تکمیل سے بلا شبہ اطمینان ہوتا ہے۔ گرچہ اس کا بھی واضح علم رہتا ہے کہ یہ اصلیت نہیں ہے، اس لئے انسان واہمہ میں خارجی دنیا کے بندھن سے آزاد رہتا ہے جسے وہ اصلیت میں چھوڑ چکا ہوتا ہے۔ اس نے متبادل طریقے پر تعیش پرست حیوان اور اعتدال پسند ہستی بننے کی تدبیر نکالی ہے کیونکہ تھوڑی تسکین جو وہ حقیقت سے حاصل کر سکتا ہے اس کے لئے ناکافی ہوتی ہے۔‘‘ 14
زندگی کے معنی ہماری کئی تحریکات کی قربانی ہے۔ ہمارے حوصلوں کی خود غرض آرزوئیں (Egostic Cravings) ہماری طاقت کی پیاس، ہماری تمام نفسانی خواہشات کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔ خارجی ضروریات کے دباؤ میں، ہمیں ان کو ترک کرنا پڑتا ہے یعنی کہ زندگی کوئی شاندار ضیافت نہیں جس میں ہم خواہش کے مطابق خود کو مطمئن کرسکیں۔ خوشحالی کے درمیان ہمیں بھوکا رہنا پڑتا ہے۔ یہ جبری ترک ہمیں اطمینان نہیں دیتا، یہ ہمیں بہت سخت اور نامناسب معلوم ہوتا ہے۔ اس حقیقت سے ہٹ کر جو ہماری تحریکات اور خواہشات کی تکمیل میں مخل ہوتے ہیں۔ ہم اس اطمینان کو کہیں دوسری جگہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یعنی دماغی سرگرمی میں جس میں مسرت کے تمام ترک کردہ وسائل اور تسکین کے متروک راستے کو اپنا وجود برقرار رکھنے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔
یہ دماغی عمل واہمہ کہلاتا ہے اور یہی دماغی عمل ہے جو زندگی کو ہمارے لئے ناقابل برداشت بناتی ہے۔ ہمیں زندگی سے جو حاصل نہیں ہوتا وہ واہمہ سے حاصل ہو جاتا ہے۔ یہ واہمہ، یہی قریبی عفریت ہے جو ہماری تحریکات اور آرزوؤں کی ناکامی کی تلافی کرتا ہے۔ یہ تلافی بہت معقول نہیں ہوتی۔ یہ فریب کبھی حقیقتاً مکمل نہیں ہوتا۔ ہم ہمیشہ اس خود فریبی سے واقف رہتے ہیں۔ فریب فریب ہی رہتا ہے۔ یہ علم کہ یہ حقیقت نہیں ہے کبھی دھندلا نہیں ہوتا جو اطمینان ہمیں ملتا ہے ناکافی ہوتا ہے۔ تاہم ہماری متمنی روح اس پر مشتاقانہ طور پر گرتی ہے۔
اس تلافی کے بغیر، یا یوں کہیں کہ خواب بیداری کے بغیر زندگی بہت ناقابل برداشت اور غیردلکش ہو جائےگی۔ اپنے خواب بیداری میں ہم ایسے مناظر اور واقعات کو پیدا کر سکتے ہیں جو ہماری خود پسندانہ آرزوؤں اور شہوانی خواہشات کی تسکین کرتے ہیں۔ فرائڈ کے مطابق یہ خواب بیداری ہی ہے جو شاعرانہ تخلیق کے وسائل بنتے ہیں۔ کیونکہ مصنف انہیں ہی بدل کر، شکل میں تبدیلی لاکر یا پردہ ڈال کر ان خواب بیداری کے اندر سے ہی ان حالات کو پیدا کرتا ہے جنہیں اپنی کہانیوں، ناولوں اور ڈراموں میں شامل کرتا ہے۔ خواب بیداری کا ہیرو فاعل خود ہوتا ہے جس کا تصور یا تو براہ راست جزوی طور پر دیکھا جاتا ہے یا کسی دوسرے کی صاف مشابہت دیکھی جاتی ہے۔ فرائڈ کی نظر میں ہر فن پارہ خواب بیداری ہے۔ مناسب طور پر قلب ماہیت کیا ہوا، چھپایا ہوا یا قطع وبُرید کیا ہو لیکن بایں ہمہ ایک خواب بیداری ہی ہے۔ عام خواب بیداری سے یہ بہت ہی مختلف ہوسکتا ہے لیکن یہ فرق صرف ظاہری ہے حقیقی نہیں۔ 15
اس خواب بیداری کو ٹھوس شکل دے دی جاتی ہے۔ اس میں جمالیاتی خصوصیات شامل کر دئے جاتے ہیں اور یہ جمالیاتی خصوصیات ہی ظاہری فرق کے ذمہ دار ہیں۔ اس کی وضاحت اس طرح کی جاتی ہے کہ اس میں سے ’’وہ ذاتی چھاپ ختم ہو جاتا ہے جو دوسروں کو ناگوار گزرتا ہے۔‘‘ اور یہ دوسروں کے لئے پرلطف بن جاتا ہے۔ فن پارے میں خواب بیداری کو کافی حد تک معتدل بنایا جاتا ہے اور یہ اعتدال اس کی اصل کو اور حقیقی ماہئیت کو چھپا دیتا ہے لیکن وہ جو فنی تکمیل اور اعتدال کو بھانپ لیتے ہیں ان کے لئے ممنوعہ وسائل میں فن پارے کی نمود کافی حد تک ظاہر ہو جاتی ہے۔
واہمہ کی طرح فن بھی حقیقت کی آزمائش کے تقاضوں سے بری رہتا ہے۔ اس کا مقصد ہوتا ہے ان خواہشوں کو پورا کرنا جنہیں حقیقی زندگی میں حاصل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ فرائڈ رقم طراز ہیں کہ ’’انسان سکھ تلاش کرتا ہے، وہ سکھی ہونا اور رہنا چاہتا ہے۔ اس کوشش کے دو پہلو ہیں۔ ایک مثبت اور دوسرا منفی۔ ایک طرف اس کا مقصد ہوتا ہے دکھ اور تکلیف کو دور کرنا اور دوسری طرف مسرت کا شدید تجربہ کرنا۔‘‘ 16 فن ان دونوں اعتراضات کو پورا کرتا ہے جن کے لئے انسان کوشاں رہتا ہے۔ کم از کم عارضی طور پر ہی سہی، وہ دکھ اور تکلیف کو فراموش کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے، ساتھ ہی ساتھ وہ مستقل مسرت وانبساط کا سبب بھی ہے۔ فن پاروں کی نمود اور اس کے مصرف کو فرائڈ واہمہ کی خوشیوں سے آگے رکھتا ہے۔ جو خود فن کار نہیں ہیں، جو خود تخلیق نہیں کر سکتے وہ فن کار کی مدد سے واہمہ کی خوشیوں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ جن سے انہیں زندگی کی مشکلات سے عارضی پناہ ملتی ہے۔ فرائڈ لکھتا ہے کہ ’’جو فن کے اثر کے تئیں حساس ہیں وہ نہیں جانتا کہ اسے زندگی میں سکھ اور تسلی کے وسائل کی شکل میں کتنا بلند مقام دیا جائے۔‘‘ 17
اوسط آدمی کی طرح فنکار بھی زندگی میں سکھ اور تسلی چاہتا ہے اور وہ اس سکھ اور تسلی کو تخلیقی کام سے حاصل کرتا ہے۔ صرف فنکار ہی نہیں بلکہ ہر ایک آدمی جو دماغی اور ذہنی کاموں سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت کو فروغ دینے کی قابلیت رکھتا ہے، اس تسلی اور سکھ کو حاصل کر سکتا ہے۔ فرائڈ کا کہنا ہے ’’اس کے خلاف مقصد کا کوئی زور نہیں چلتا۔ اس طرح کی تسکین کی مثلاً تخلیقی کاموں میں فن کار کی خوشی، یا کسی مسئلے کو حل کرنے میں یا حقیقت کو پالینے میں سائنس داں کی خوشی کی ایک خاص خصوصیت ہوتی ہے۔ ہم ایک دن ما بعد النفسیات کی رو سے توضیح کر سکیں گے۔ تب تک ہم صرف مجازی طور پر اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں بلند اور نفیس معلوم ہوتی ہے۔‘‘ 18
فرائڈ ایک مجبوری کی نشاندہی کرتا ہے۔ فن عموماً عوام الناس کی پہنچ سے باہر ہوتا ہے۔ یہ تسکین چند مہذب افراد تک ہی محدود رہتی ہے۔ فرائڈ کہتا ہے کہ فن ’’سب سے پرانے ثقافتی ترک تعلق کی قائم مقام تسکین پیش کرتا ہے۔‘‘ 19 وہ مزید کہتا ہے کہ ’’تہذیب کی تخلیق، ابتدائی محرکات کی تسکین کی ایثار کے ذریعہ جہاد زندگی کے دباؤ میں ہوا ہے اور اس کی کافی حد تک ہمیشہ تجدید ہوتی رہتی ہے۔ جب ہر ایک شخص سماج کا عضو بن کر اجتماعی فائدے کے لئے اپنی جبلی مسرتوں کی بار بار قربانی کرتا ہے۔ اس طرح کے استعمال میں آنے والی جبلی طاقتوں میں جنسی قوت کا بے حد اہم مقام ہے۔ اس طرح ان کی تعقید ہوتی ہے۔ یعنی کہ جنسی مقاصد سے ہٹ کر ان کی توانائی دوسرے مقاصد کی طرف مڑ جاتی ہے جو جنسی نہیں رہتے اور سماجی نقطہ نظر سے بیش بہا ہوتے ہیں۔ فن اور دوسری ثقافتی سرگرمیاں ہماری جنسی اور دوسری غیر مہذب محرکات کے ایثار کے بدلے قائم مقام تسکین دیتے ہیں۔
یہ ایثار سماج کا ہر ایک رکن کرتا ہے لیکن اس کے عوض فن سے جو سکون حاصل ہوتا ہے وہ چند مہذب لوگوں کو ہی دستیاب ہوتا ہے۔ عوام الناس جو تھکا دینے والی مشقت میں مشغول رہتے ہیں اور جنہیں انفرادی تعلیم نہیں ملی ہے، اس قسم کے تسکین سے محفوظ نہیں ہو سکتے۔ تاہم فن اور ان لوگوں کی مصالحت جو واہمہ کی مسرتوں کی قدر پہچان سکتے ہیں ان کی ان قربانیوں سے کرا سکتی ہے جو انہوں نے ثقافت کے لئے دی ہے۔ مطابقت کے تاثر کو فروغ دیتے ہیں جس کی ضرورت ہر ایک مہذب گروپ کو ہوا کرتی ہے۔ کیونکہ اس سے بیش بہا جذباتی تجربات کی حصہ داری کا موقع ملتا ہے اور جب وہ کسی خاص کلچر کے حصول کی ترجمانی کرتا ہے، مؤثر انداز میں اسے اپنے نصب العین کی طرف لوٹاکر، تو اس سے وہ خود پرستانہ تسکین کا بھی ذریعہ ہوتے ہیں۔‘‘ 20
نتیجہ کے طور پر فن ہماری جنسی اور دیگر مہذب محرکات کی تعقید ہے۔ یہ ان محرکات کے ایثار کی قائم مقام تسکین فراہم کرتا ہے اور جب یہ کسی خاص کلچر کی کامیابیوں کی ترجمانی کرتا ہے تو وہ تسکین خود پرستانہ بن جاتی ہے۔ ان خیالات کی فوری تصدیق کرنا ابھی میرا مقصد نہیں ہے۔ یہ اگر قابل قبول نہیں ہے تو اس لئے کہ ان میں جھوٹ اور نیم صداقت موجود ہے۔ اس مرحلے پر ایک تبصرہ کیا جا سکتا ہے۔ فرائڈ جمالیاتی اقدار کے سوال سے غرض نہیں رکھتا جو ادبی نقاد کے لئے بہت اہم ہے باوجود اس کے ایڈ اس الزام کے خلاف فرائڈ کی حمایت کرتا ہے۔ ایڈ کے مطابق فرائڈ غفلت یا چوک کے اس گناہ کا مجرم نہیں ہے۔ فرائڈ جمالیاتی اقدار کے سوال کو نظر انداز نہیں کرتا اور نہ یہی کہتا ہے کہ واہمہ کی ہر ایک تعقید فن پارہ ہے۔
فنکار میں اپنی واہمہ کی معروضی شکل کو اس طرح ڈھالنے کی خاص صلاحیت (جسے فرائڈ’’پُراسرار‘‘ کہتا ہے) رہتی ہے کہ اس کا نتیجہ مثبت مسرت میں ہوتا ہے، جو مسرت واہمہ سے آزاد اپنے مادی تناسب، ساخت، صورت، مطابقت اور دیگر تمام خصوصی اور مثبت خاصیتوں کے سبب ہوتی ہے جنہیں ہم کسی فن پارے میں دیکھتے ہیں۔
کسی فن پارہ میں اس معروضی طاقت کی واحد تشریح جو وہ پیش کرسکتا ہے وہ یہ ہے کہ فن کار کی تکنیک کسی طرح سے انفرادی انا کے درمیان رکاوٹوں کو توڑ دینے کا ذریعہ ہے جو ان کو اجتماعی انا کی شکل میں متحد کئے رہتے ہیں۔ وہ بتاتا ہے کہ فن پارہ خالص شکل اور عناصر حسن مسرت کو بڑھاتا یا ابتدائی فریب کی تخلیق کرتا ہے اورجب وہ ایک بار ہمارے حسن کو متاثر کرتا ہے تو سنجیدہ سطحوں سے پیدا ہوے والے ثانوی اور اعلیٰ قسم کی مسرت کے نجات کا راستہ کھول دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے ’’میرا یقین ہے کہ تخلیق کرنے والے فن کار ہم میں جو جمالیاتی انبساط پیدا کرتا ہے، اس کی ایک ابتدائی خصوصیت ہوتی ہے اور کسی فن پارہ سے حقیقی مسرت اس وجہ سے ہوتی ہے کہ وہ ذہنی کش مکش سے ہمیں نجات دیتا ہے۔‘‘ 21
یہ صحیح ہے کہ فرائڈ یہ نہیں کہتا کہ واہمہ کی ہر ایک تصعید فن پارہ ہے، یہ بھی صحیح ہے کہ وہ فنکار میں رہنے والی کسی پُراسرار صلاحیت کا تذکرہ کرتا ہے جو اپنے واہمہ کی معروضی شکل اس طرح ڈھالتا ہے کہ اس کا نتیجہ مثبت مسرت ہوتا ہے۔ لیکن اتنا کافی نہیں ہے۔ وہ ہمیں یہ نہیں بتاتا کہ کسی فن پارہ کا محاسبہ کیسے کرنا چاہیے کہ مختلف فن پاروں کے نسبتی اقدار کا تعین کیسے کرنا چاہیے اور فنکار کی جس پُر اسرار صلاحیت کی بات وہ کہتا ہے، وہ اسرار اہی رہا جاتی ہے۔ کیونکہ فرائڈ اس کی توضیح نہیں کرتا ہے کہ وہ (صلاحیت) کس طرح سے کام کرتی ہے۔ فن پارہ کی معروضی طاقت کی توضیح بھی بہت واثق نہیں ہے۔ فرائڈ فن پارہ کی معروضی طاقت سے آگاہ ہے اور اس سے ہمیں جو مسرت اور سکون ملتا ہے اس سے بھی آگاہ ہے۔ وہ اپنے اس اصول کا پابند ہے کہ فن پارہ ایک طرح کی تصعید ہے، ایسی حالت میں اسے یہ توضیح کرنی چاہیے کہ کس طرح انفرادی اور نجی محرکات یا خواہش کی تصعید کیسے ’’بدی مسرت‘‘ بن سکتی ہے۔ فرائڈ کا کہنا ہے کہ اس کی وضاحت فنکار کی پراسرار طاقت میں نہاں ہے۔ لیکن یہ تو وضاحت ہوئی نہیں۔
(ج)
یہ کہا جاتا ہے کہ تمام فنون اپنی ابتداء میں کھیل کی ایک شکل ہوتے ہیں۔ جو شخص موسیقی کی صوتی تخلیق کرتا ہے اور جو موسیقی سنتا ہے دونوں ایک طرح کے کھیل میں مشغول ہیں۔ وہ اپنے جذبات سے کھیل رہے ہیں۔ 22 ہم ایک اداکار کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ ڈرامے کا ایک رول کھیل رہا ہے اور ایک موسیقار کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ موسیقی کھیل رہا ہے۔
یہاں لفظ ’’کھیل‘‘ کا استعمال یہ بتاتا ہے کہ جو کام کیا جا رہا ہے وہ مفید نہیں ہے۔ فنی عمل کے اس غیر فائدہ مند ہونے پر مختلف ادوار کے مفکر ادیب کا دھیان گیا ہے۔ پلیٹو کی بھی دلیل تھی کہ اداکار کو ہماری اخلاقیات کو فروغ دینا چاہیے اور انیسویں صدی میں بعض ادیبوں نے کہا ہے کہ ’’بلیوں کا کھیل چوہوں کو پکڑنے کے لئے مفید ہے۔‘‘ 23 فن پارے کی قدر اتنی واضح ہوتی ہے کہ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے اور یہ بھی اتنا صریح دکھائی دیتا ہے کہ اس سے روزمرہ کی زندگی کی حیاتیاتی یا کاروباری ضرورت پوری نہیں ہوتی اور یہ کہ یہ حیاتیاتی طور پر فضول چیز ہے۔ اس تناقص میں کیسے مصالحت ہو، یہ مسئلہ بہت سے مصنفوں کے لئے درد سر بنا رہا ہے۔
ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہمارے جذبات، صرف جذبات نہیں بلکہ کام کی ترغیب ہوتے ہیں۔ ان سے کچھ عملی نتائج برآمد ہوتے ہیں جو مفید بھی ہو سکتے ہیں اور نہیں بھی۔ جب کوئی عمل مفید ہوتا ہے تو اسے ’’کام‘‘ کہتے ہیں لیکن بعض اوقات یہ غیرمفید دکھائی دیتا ہے تو اسے کھیل کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر فٹ بال کا میچ کھیل ہے اور فصل کاٹنا کام ہے۔ ایک عمل بہت اشتعال انگیز اور پرجوش ہو سکتا ہے لیکن اسے مفید نہیں کہا جا سکتا اور ایک سود مند کام مطلق اشتعال انگیز اور پرجوش نہیں ہو سکتا۔ سنٹانا رقم طراز ہے، ’’ہم ہر اس چیز کو جو بے سود عمل ہے کھیل کہہ سکتے ہیں، مثلاً ورزش جو عضویاتی تحریک سے توانائی پیدا ہوتی ہے، جسے زندگی کی ناگہانی ضرورتیں طلب نہیں کرتیں۔ ایسی حالت میں وہی سب عمل کام ہوگا جو زندگی کے لئے ضروری یا سود مند ہے۔ ایک آدمی جو سُر کو ترتیب دیتا ہے وہ کسی ایسے عمل میں مشغول نہیں ہوتا جو زندگی کے لئے ضروری یا سود مند ہے۔ وہ محض کچھ توانائی کے اخراج میں مشغول ہے جن کی زندگی ناگہانی ضرورتوں کو مطلوب نہیں۔‘‘ 24
سیرل برٹ کے مطابق اسٹوڈیو کا فنکار اور تخلیق میں مصروف شاعر نرسری کے بچہ سے مختلف نہیں ہے۔ ان میں سے ہر ایک اپنے فنی نمونوں کی تخلیق میں ایک فضول جذبے کو ہوا دے رہا ہے جس کی حقیقت کی دنیا میں مناسب تسکین نہیں ہوتی۔ فنکار کے برتر دماغ کی مدد سے قارئین، سامعین، مشاہدین اور مداح اپنے لئے بھی تقریباً وہی کام کر رہے ہیں۔ 25
غرض کہ فن کار ایک فضول شخص ہے جو فضول کام میں مشغول ہے۔ فنی نمونہ کی تخلیق کام نہیں بلکہ کھیل ہے جو کہ غیر مفید کوشش ہے۔ فنکار نہیں جانتا کہ وہ اپنی تمام توانائی کو کیسے کام میں لائے۔ کچھ بے مقصد اور بے فائدہ عوامل ہیں۔ وہ اس کو برباد کرتا ہے جسے فن کہتے ہیں۔ اگر وہ اپنی تمام توانائی کو کام میں لاپاتا اور اگر اس کا جسم اور ذہن ماحول سے پوری طرح مطابقت رکھتے تو توانائی کی بربادی بالکل نہیں ہوتی۔ ایک بچہ جسمانی اور ذہنی طور پر اپنے ماحول سے نمٹنے کا اہل نہیں ہوتا اس لئے فطری طور پر اسے اپنی کچھ فاضل توانائی کو بے مقصد حرکتوں میں صرف کرنا پڑتا ہے جو کہ کھیل ہے، لیکن ایک بالغ آدمی بے مقصد اور حیاتیاتی نقطۂ نظر سے غیر مفید کام میں اپنی توانائی اور وقت برباد کرے، یہ تشویشناک صورت حال ہے اور انسانی فطرت کی ناپختگی کا ثبوت ہے۔
یہ نتیجہ ناگزیر معلوم ہوتا ہے اور ناگوار بھی۔ اس لئے اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے، کہا جاتا ہے کہ دوسرے تمام کھیلوں کی طرح فنکارانہ کھیل بھی ہمارے لئے بالواسطہ کام کے ہو سکتے ہیں۔ گھما پھراکر وہ ماضی سے پیدا ہوتا ہے اور مستقبل کے لئے مشتبہ خواہش کا اظہار کرتا ہے۔ خواہش کے باوجود جس چیز کو پانے میں ہم قاصر رہے ہیں، یہ اس کی تلافی ہے۔ وہ غیرتسکین شدہ جذبوں کے اخراج کی راہ ہموار کرتا ہے اور ساتھ ہی انہیں فرضی حالات میں استعمال میں لاکر انہیں دبا نے اور مرتب کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ اسے حق بجانب ثابت کرنے کی کوشش بہت پراثر نہیں ہے۔ اس کا سرد مہر لہجہ اور سطحی نقطہ نظر بالکل غیر تسلی بخش ہے۔ سنتیاناؔ نے زیادہ پُراثر اور قوی اور اس سے بہت زیادہ فصیح تائید کی کوشش کی ہے جو اپنی طوالت کے باوجود یہاں اقتباس کرنے کے لائق ہے۔
’’فطری اور دلچسپ پیشوں کی خدمت کرنا، چونکہ وہ تحفظ نفس کے لئے بے سود ہیں، زندگی کی اس کی عبارت کا لحاظ کئے بغیر غیر ناقدانہ بے قدری ظاہر کرتا ہے۔ ایسے نظام کے لئے دنیا کا معقول ترین کام دائمی حرکت قائم کرنا ہی ہو سکتا ہے۔ کسی کام کے خلاف، جو کہ مفروضہ فائدے کے لئے کیا جاتا ہے، غیر سود مندی ایک مہلک الزام ہے لیکن وہ کام جو کام کی خاطر کئے جاتے ہیں اپنی وجہ معقول خود ہوتے ہیں۔‘‘ 26
ساتھ ہی انسان کی شریفانہ اور تخیلی سرگرمیوں کو کھیل کہنا عمدہ حسن اسلوب ہے کیونکہ وہ طبعی ہوتے ہیں اور انہیں کسی خارجی ضرورت یا خطرے سے مجبور ہوکر نہیں کیا جاتا ہے۔ تحفظ نفس کے لئے ان کا افادہ بہت بالواسطہ اور اتفاقی ہو سکتا ہے لیکن اس واسطے وہ بیکار نہیں ہے۔ اس کے برعکس ہم اس خوشی اور شائستگی کے حد کی پیمائش کر سکتے ہیں۔ جو کوئی طبقہ تخیلی زندگی اور ثقافت کی آرائش کے لئے اپنی توانائی کے تناسب سے حاصل کرتا ہے، جو بے روک اور معقول کاموں کے لئے وقف رہتی ہے کیونکہ اپنی استعداد کی فطری حرکت وعمل سے انسان خود کو اور اپنی خوشیوں کو پاتا ہے۔ غلامی ہی وہ ذلت آمیز حالت ہے جس میں وہ گرفتار ہو سکتا ہے اور وہ زمین کی بخالت اور آسمان کی تیزی و تندی کا اتنا ہی غلام ہوتا ہے جتنا کہ کسی مالک یا کسی دستور یا ادارے کا۔ وہ ایک غلام بن جاتا ہے جب اس کی ساری توانائی تکلیف اور موت سے بچنے میں صرف ہوجاتی ہے۔ جب اس کا سارا کام باہر سے عائد ہوتا ہے اور آزادانہ لذت کے لئے اس میں دم یا طاقت باقی نہیں رہتی۔
یہاں پر کام اور کھیل کے معنی ہی بدل جاتے ہیں اور وہ غلامی اور آزادی کے مترادف ہو جاتے ہیں۔ یہ تبدیلی داخلی نقطۂ نظر کی وجہ سے ہوتی ہے جس سے ہم یہ امتیاز برتتے ہیں۔ کام سے ہمارا مطلب وہ نہیں ہے جو نفع بخش طور پر کیا جاتا ہے بلکہ وہ ہے جو اپنی مرضی کے خلاف اور بوقت ضرورت کیا جاتا ہے۔ کھیل سے اب ہم اس عمل کو موسوم نہیں کر رہے ہیں جو بیکار طور پر کیا جاتا ہے بلکہ وہ جو فطری طور پر صاف کام کے لئے کیا جاتا ہے چاہے اس کا کوئی درپردہ افادہ ہویا نہ ہو اس معنی میں کھیل ہمارا سب سے سود مند مشغلہ ہو سکتا ہے۔ اس کھیل کو فرسودہ بتانے سے اگر ماحول کے ساتھ تدریجی موزونیت ہو جاتی ہے۔ کیونکہ جبلتوں کے سارے تصادموں اور غلطیوں کے ختم ہو جانے سے جماعت فطری طور پر وہ سب کچھ کرے گی جو اس کی فلاح کے لئے استعمال کیا جائےگا اور ہم کسی خارجی محرک یا روک کے بغیر بحفاظت اور کامیابی کے ساتھ زندگی گزار سکیں گے۔ 27
دوسری دلیلوں کی طرح یہ بھی ایک فصیح دلیل ہے۔ کھیل اور کام کو سودمند اور بے سود عمل کی شکل میں ممیز کر دیا گیا ہے۔ عام طور سے کھیل کو ایک مداحانہ اصطلاح اور کام کو حقیر سمجھا جاتا ہے۔ سنٹیاناؔ نے بڑی چابک دستی سے ان دونوں الفاظ کے مفہوم میں تبدیلی کر دی ہے۔ کام اور کھیل مختلف معنی کے حامل ہو جاتے ہیں، وہ غلامی اور آزادی کے مترادف ہو جاتے ہیں۔ اب کھیل تحسین آمیز لفظ بن جاتا ہے اور کام مذمت کے قابل۔ یہ بہت ہی معقول ہے لیکن شعبدہ بازی معلوم ہوتی ہے جس میں چالاکی تو ہے حقیقت نہیں اور جب سنٹیاناؔ تسلیم کرتا ہے کہ سبھی شریفانہ اور تخلیقی سرگرمیوں کو کھیل کہنا مناسب ہے تو ہماری بے اطمینانی بڑھ جاتی ہے۔ فنی سرگرمیاں بلا مقصد ہوتی ہیں، کسی خارجی ضرورت یا خطرے کے دباؤ میں کی جاتی ہیں، اس لئے سنٹیاناؔ کے مطابق نہیں کھیل کہا جا سکتا ہے۔ دوسرے بھی اس اصطلاح کو بہت موزوں سمجھتے ہیں۔
ڈیویؔ رقم طراز ہے، ’’اس سے ذہنی شوخی اور سنجیدگی کی ہم آہنگی کا خیال پیدا ہوتا ہے جس سے فنی نصب العین کا اظہار ہوتا ہے۔ جب فن کار وسائل اور مواد کے ساتھ بہت زیادہ محو خیال ہوتا ہے تب وہ حیرت انگیز تکنیک پا لیتا ہے لیکن فنکارانہ مزاج نہیں حاصل کر پاتا۔ جب پرجوش خیال طرز کے مقابلے میں زیادہ ہو جاتا ہے تب جمالیاتی احساس کا اظہار ہو سکتا ہے، لیکن پیش کرنے کا فن اس احساس کے اظہار کے لئے حد سے زیادہ ناقص ہو جاتا ہے۔ جب مقصد کا خیال اتنا کافی ہو جاتا ہے کہ اپنی مادی شکل میں ظاہر کرنے والے وسائل میں ترجمانی پر یہ مجبور کرتا ہے یا جب وسائل کا خیال اس مقصد کی شناخت سے پیدا ہوتا ہے جس کی وہ تکمیل کرتا ہے تو ہمارا طرز مثالی فنکارانہ ہو جاتا ہے، ایسا طرز جس کی نمائش سبھی سرگرمیوں میں ہوتی ہے اگرچہ انہیں رسمی طور پر فن نہیں کہا جاتا۔‘‘ 28
سنٹیانا اور ڈیویؔ دونوں مختلف وجوہات سے لفظ کھیل کو بہت معقول سمجھتے ہیں لیکن لفظ کھیل کا عام طور پر حقیر معنی میں استعمال ہی اسے غیر معقول بنا دیتا ہے۔ سنٹیاناؔ کی نئی وضاحت بھی اسے کلی طور پر مستحسن لفظ نہیں بنا سکتی۔ فن نہ تو مذاقیہ ہے اور نہ ہی بے سود۔ وہ بہت سنجیدہ عمل ہے اور شاید سب سے زیادہ مفید عمل بھی۔ بچہ سے فن کار کی مشابہت صرف سطحی ہے اور ان دونوں کی نام نہاد مشابہت صرف سطحی ہی نہیں بلکہ یقینی طور پر گمراہ کن بھی ہے۔ ایک بات ہے، فن کا تخلیقی عمل لافانی بچوں میں پیدا ہوتا ہے جب کہ کھیل کے یہ نتائج تکان اور بہتر منظم حرکی نظام ہوتے ہیں۔‘‘ 29 کھیل ایک خود کفیل، بلا مقصد عمل ہے۔ فنکار جو کرتا ہے، وہ ایسی شے ہے جس کا خواب بھی بچہ نہیں دیکھ سکتا۔ کھیل بلاقصد اور بے مقصد عمل ہے۔ نہ تو اس کا کوئی مقصد ہوتا ہے اور نہ اسے صلہ کی چاہ ہوتی ہے۔ کھیل کی ضرورت اس سے پیدا ہونے والی مسرت واطمینان میں ہی ہے۔ فن بےمقصد نہیں بلکہ بامقصد ہے اور جیسا کہ سنٹیاناؔ کہتا ہے، اس کا مقصد صرف زندگی کی زیبائش نہیں ہے۔ لفظ زیبائش کا انتخاب بھی صرف زیبائش نہیں ہے۔ جیسا ہم آگے دیکھیں گے، یہ زندگی کا جوہر ہے۔
سنٹیاناؔ نے ایک اہم نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے، لیکن افسوس ہے کہ اس پر جتنا دھیان دینا چاہیے تھا وہ نہیں دیا جاسکا۔ وہ کہتا ہے، ’’سہل اور مسرت آمیز مشغلوں کی اس لئے مذمت کرنا کہ وہ بقائے نفس کے لئے غیر مفید ہیں، زندگی کے تئیں احمقانہ اعتماد کا اظہار کرنا ہے جس میں اس کے عوامل کی طرف سے آنکھیں موندلی گئی ہیں۔ افادیت کا سوال بقا اور زندگی کی آسودہ خاطری کے لئے بھی موزوں ہے اور ہم زندگی کی آسودہ خاطری کے مسئلہ کو اس کے تحفظ سے علاحدہ نہیں کر سکتے۔ انسان اس لئے جانوروں سے مختلف ہے کہ وہ صرف وجود سے مطمئن نہیں ہوتا۔ وہ زندگی کو جینے کے لائق بنانا چاہتا ہے۔ وجود کے مسئلہ کو وہ زندگی کی قدر کے حوالے کئے بغیر نہیں دیکھ سکتا اور زندگی کی قدر کا اس کے مقصد اور مقصود کو سمجھے بغیر اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ ظاہر ہے کہ اس مقصد کے لئے فلسفیانہ دلیل ضروری ہوگی اور اقدار کا سوال بھی اٹھےگا۔
زندگی کے تحفظ سے فن کا بہت کم تعلق ہو سکتا ہے۔ یہ عدم موزونیت شاید حقیقی سے زیادہ ظاہری ہے۔ لیکن زندگی کی آسودہ خاطری ساتھ اس کے قریبی تعلق سے کوئی انکار نہیں کرےگا۔ فن زندگی کو خوش حال بناتا ہے اور اس کے اقدار میں اضافہ کرتا ہے۔ یہ زندگی کو قابل تحفظ بناتا ہے۔ علم نفسیات کو جو انسانی اقدار کو نظرانداز کرتا ہے، فن کی افادیت یا غیر افادیت پر غور کرنے کا حق نہیں ہے۔ اس کے لئے جامع نظریہ کی ضرورت ہے۔
حاشیے
(1) Introductory Lectures on Psycho-Analysis
(2) “The practice and theory of individual Psychology
(3) Social Interes.
(4) “The Practice and theory of individual psychology”
(5) Ibid
(6) Ibid
(7) Social Inter.
(8) Defence of Poetry.
(9) Collected Essays
(10) “Modern Man in Search of Soul”
(11) Ibid
(12) Ibid
(13) Modern Man in Search of Soul
(14) Introductory Lectures on Psycho-Analysis
(15) Introductory Lectures on Psycho-Analysis.
(16) Civilization and its discontents.
(17) Ibid
(18) Ibid
(19) Introductory lectures on Psycho-Analysis
(20) The future of an Illusion
(21) Collected Essays
(22) Cy. Burt “How the Mind works”
(23) Burns Delisle-Horizons of Experiences
(24) The sense of beauty
(25) How the Mind Works.
(26) How the Mind Works.
(27) The Sense of beauty
(28) How we thinks
(29) Hirseh، Genfus and creative Intelligence”
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.