ترقی پسند مصنفین کی تنظیمی شکل و صورت اور کام کرنے کے طریقوں کے بارے میں ہمارے ذہنوں میں پہلے سے کوئی بنا بنایا خاکہ نہیں تھا۔ اس کے متعلق مختلف لوگ مختلف طریقوں سے سوچتے تھے۔
بعض لوگوں کا یہ خیال تھا کہ جگہ جگہ پر انجمن کی شاخیں بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ انجمن کا ایک کل ہند مرکز ہو یا زیادہ سے زیادہ صوبائی مرکز ہوں اور ادیب اور مصنف اس کے براہِ راست ممبر بنیں۔ ان لوگوں کے خیال میں انجمن کی طرف سے ہر جگہ پر جلسے کرنا یا کانفرنسیں منعقد کرنا غیر ضروری تھا۔ وہ کہتے تھے کہ یہ کام سنجیدہ ادیبوں کے شایانِ شان نہیں۔ جلسوں اور کانفرنسوں میں انہیں سیاسی ہیجان اور پراپیگنڈابازی کی بو آتی تھی اور وہ انجمن کو اس سے بچانا چاہتے تھے۔
پیشہ ور ریاکار لیڈروں اور نعرہ باز سیاسی کارکنوں سے لوگ اس وقت بھی تنگ آ چکے تھے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد ۱۹۱۹ء سے لے کر اس وقت تک (۱۹۳۵ء) ہمارے ملک میں بڑی بڑی سیاسی آندھیاں آئی تھیں۔ نان کو آپریشن اور خلافت کی تحریک، کانگرس کی دو سول نافرمانی کی تحریکیں، دہشت پسند نوجوانوں کی انقلابی تحریکیں، فرقہ پرست ہندوؤں اور مسلمانوں کی رجعتی زہر افشانیاں، اور ان سب کا نتیجہ کیا نکلا تھا؟ عام لوگوں کی نظروں میں یہ سب ناکامیاں تھیں۔ اس لیے کہ انگریزی سامراج پہلے کی طرح پوری فرعونیت کے ساتھ ہمارے سروں پر مسلط تھا۔
ظلم، بھوک اور جہالت کے سائے اب بھی ملک پر چھائے تھے۔ تقریر بازی کے لیے ایک اور نیا پلیٹ فارم بنانا، کہیں ٹھوس کام سے بچنے کا ایک بہانااور ترقی پسند ادب کے نئے نام پر خود کوسستی جذباتی تسکین دینے کا ایک ا چھوتا طریقہ تو نہیں تھا؟ اگر ادیبوں کا خاص کام ادب کی تخلیق، پڑھنا اور لکھنا ہے تو پھر انہیں جلسوں اور کانفرنسوں پر اپنا وقت ضائع نہ کرنا چاہئے۔ شروع شروع میں منشی پریم چند کا یہی خیال تھا اور غالباً مولوی عبدالحق صاحب بھی یوں ہی سوچتے تھے۔ لیکن حالات اور واقعات نے ہمیں ان خیالات میں ترمیم کرنے پر مجبور کر دیا۔
۳۶-۱۹۳۵ء کے قریب کا زمانہ ہمارے ملک کے نوجوانوں دانشوروں کے لیے بہت بڑی ذہنی چھان بین، کھوج، تبدیلیوں اور زندگی کی نئی راہیں دریافت کرنے کا زمانہ تھا۔ انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے شروع میں ہمارے ملک میں دانشوروں میں دو قسم کے نظریے پھیلے ہوئے تھے۔ ایک مذہبی اور تہذیبی احیائیت کے تصورات اور دوسرے مغربی، خاص طور پر انگریزی سرمایہ دارانہ جمہوریت کے خیالات۔ مدارج اور لہجے کے فرق کے باوجود ہمارے ملک کے اکثر مصلحین اس خیال کی ترویج کرتے تھے۔
اگر ہم اپنے ماضی پر نظر ڈالیں تو اس میں ہمیں ایسی اقدار ملیں گی جنہیں صحیح طریقے سے سمجھ کر قبول کر کے اور ان کے مطابق عمل کر کے ہم اپنی موجودہ قومی، سماجی اور انفرادی گراوٹ کو ختم کر سکتے ہیں اور دنیا میں دوبارہ سر بلند ہو سکتے ہیں۔ ان کے نزدیک ہمارے زوال اور مغربی سامراج کی کامیابی کا سبب یہ تھا کہ ہم نے، خاص طور پر ہمارے آخری دور کے حکمران بادشاہوں اور امراء نے قدیم اقدار کو بالکل بھلا دیا تھا۔ وہ عیش پرستی، آرام طلبی اور خود غرضی کا شکار ہو گئے تھے۔ اور یہ وبائیں عام ہو گئی تھیں۔
خدا ترسی، سادگی، انصاف، سچائی، اخوّت اور مساوات کی اقدار کو، جو ہمارے بزرگوں کی عظمت کا بنیادی سبب تھیں، دوبارہ زندہ کرنے اور پھیلانے کا طریقہ کیا تھا؟ اس سوال کا جواب دو طریقے سے دیا جاتا تھا۔ اصلاح اور تعلیم یعنی اوّل تو ہم اپنے مذہبی عقائد اور سماجی رسوم میں ایسی اصلاح کریں جو مغرب کے جدید خیالات کی روشنی میں دقیانوسی اور بعید از عقل معلوم نہ ہوں۔ ہمارے مصلحین نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ’’اصل‘‘ اور ’’حقیقی‘‘ مذہب وہ نہیں ہے جو عام لوگوں میں رائج ہو بلکہ کچھ اور ہے۔
جاگیری عہد کی زیادہ پیچیدہ اور مادّی اعتبار سے زیادہ بھری زندگی کے مقابلے میں انہوں نے قبائلی یا ان چھوٹے چھوٹے شہروں کی زندگی کا نقشہ پیش کیا جن میں تجارت، گلہ بانی، دست کاری اور چھوٹی زمینداریوں کی مادّی اعتبار سے قلانچ لیکن زیادہ مساوی زندگی کا رواج تھا۔ مسلمانوں میں اسلام تاریخ کے پہلے تیس چالیس سال کا زمانہ اور ہندوؤں میں آریہ قبائل کے ویدوں کا دور عہدِ زرّیں کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔
اگر ایک طرف اپنے عقائد اور اپنے ماضی کی تاریخ کو اس نئے طریقے سے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی جاتی تھی تو دوسری طرف اس بات پر بھی زور دیا جاتا تھا کہ ہم انگریزی اسکولوں اور کالجوں میں جدید تعلیم حاصل کریں۔ مذہبی احیاء پر زور دینے والے ساتھ ساتھ یہ بھی کہہ گزرتے تھے کہ مغربی قوموں کی ترقی کا سبب یہ ہے کہ ’’ان میں وہ تمام خصوصیات ہیں جو مسلمانوں میں ہونا چاہئیں۔ اسی لیے وہ سر بلند ہیں۔ اور مسلمانوں میں وہ خصلتیں آ گئی ہیں جو در اصل کافروں کی ہیں۔‘‘ (جمال الدین افغانی) سر سید احمد خاں نے اگر چہ یہ الفاظ استعمال نہیں کیے لیکن ان کی ساری تحریک کا منشا بالکل یہی ہے۔ ہندوستان کے ہر ایک حصے میں انیسویں صدی کا آخر اور بیسویں صدی کا شروع کم وبیش اسی نوع کی اصلاحی، احیائی اور تعلیمی تحریکوں کا زمانہ تھا۔
شمالی ہندوستان میں ہندوؤں میں آریہ سماج اور برہمو سماج کی تحریکیں، مسلمانوں میں علی گڑھ کی تحریک، مسلم ایجوکیشنل کانفرنس، انجمن حمایت اسلام (پنجاب) اور ان سے منسلک اردو اور ہندی کی تحریکیں (انجمن ترقی اردو، ناگری پرچارنی سبھا) انہی رجحانات کی ترجمانی کرتی تھیں۔ جدید اردو اور ہندی نثر اور نظم انہی اصلاحی، احیائی اور تعلیمی تحریکوں سے متاثر تھی اور ان کی پیداوار تھی۔ حالی کا مسدس، سرسید احمد خاں اور ان کے ساتھیوں کے تہذیب الاخلاق کے مضامین، نذیر احمد کے اور رتن ناتھ سرشار کے ناول، آزاد کی ’’نیچرل‘‘ شاعری اردو میں اور میتھلی شرن گپت کی بھارت بھارتی اور ہریش چندر بھارتیندو کے ڈرامے اور مضامین ہندی میں ایک ہی قسم کی ذہنیت کا نتیجہ ہیں۔
ان میں اس بات کی تلقین کی جاتی ہے کہ قدیم اور گم شدہ عہدِ زرّیں کو کسی نہ کسی طرح دوبارہ زندہ کرنا ضروری ہے۔ لیکن جب عملی طور سے اس پرانی دنیا کو موجودہ زمانے میں دوبارہ تعمیر کرنے کا سوال پیدا ہوتا تھا تو اس کے لیے جدید انگریزی وضع کے اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم اور انگریز حکمرانوں کی ’’خوبیوں‘‘ کو حاصل کرنا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ ہمارے مصلحین کو ان باتوں میں کوئی تضاد نظر نہیں آتا تھا۔ اکبر الہ آبادی انگریزی تعلیم یافتہ طبقے کی سطحیت اور چھچھورے پن اور ان کی جدید خیالات کا مذات اڑاتے تھے۔ اس بات کا رونا روتے تھے کہ نوجوان مذہبی عقاید اور رسوم کو چھوڑتے جاتے ہیں اور انگریزوں کی احمقانہ نقالی کرتے ہیں۔ وہ سید احمد خاں کی تعلیمی تحریک کو نقصان دہ سمجھتے تھے لیکن انہوں نے خود اپنے اکلوتے بیٹے عشرت حسین کو تعلیم کے لیے انگلستان بھیجنے سے درگزر نہیں کیا، حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ’’قعردریا‘‘ میں ’’تختہ بند‘‘ ہونے سے ’’تردامنی‘‘ لازمی ہے۔
ہوتی ہے تاکید لندن جاؤ انگریزی پڑھو
قومِ انگلش سے ملو، سیکھو وہی وضع وتراش
اس نظم کو اس شعر پر ختم کیا ہے۔
درمیانِ قعرِ دریا تختہ بندم کردہ ای
بازمی گوئی کہ دامن تر مکن ہشیار باش
بیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک میں سماجی اصلاح (سوشل ریفارم) کے علاوہ سیاسی اصلاح کا مطالبہ بھی واضح طور سے درمیانے طبقے کے دماغوں میں پیدا ہونا شروع ہو گیا تھا، نیز بنگال اور مہاراشٹر میں ہندو نوجوانوں کے چھوٹے چھوٹے گروہ بیرونی حکمرانوں کے خلاف دہشت انگیزی کے حربے استعمال کرنے لگے تھے۔ لیکن اعتدال پسند اور انتہا پسند دونوں نظریوں میں انہی دو تخیلوں کا میل تھا جو اس کے پہلے کی تحریکوں کی نمایاں خصوصیت تھی۔ یعنی ایک طرف احیا پرستی تو دوسری طرف مغربی جمہوری تخیل۔ بنگال اور مہاراشٹر کے ہندو نوجوانوں کے ذہنی سرغنہ آربندوگھوش اور بال گنگا دھر تلک تھے جو ہندو مذہبی خیالات کی بنا پر لوگوں میں قومی آزادی کے جذبے کو پیدا کرتے تھے۔
ادھر مسلمانوں میں شبلی، ابوالکلام آزاد، ظفر علی خاں وغیر ہ اسلامی تخیلات کی بنا پر مسلمانوں کو محض تعلیمی اور سماجی اصلاح کی منزل سے آگے بڑھا کر وطنی آزادی کی سامراج دشمن جدوجہد کی طرف لے جانا چاہتے تھے۔ لیکن آزادی کے نصب العین کو متعین کرنے کا جب سوال آتا تھا تو اصلاح پسند اور انتہا پسند گروہوں کے ذہنوں میں برطانوی پارلیمنٹری طرزِ حکومت اور مغربی سرمایہ دارانہ جمہوریت کا خاکہ سامنے آ جاتا تھا۔ یہ تہذیبی اور سیاسی نظریے دنیا اور خاص طور پر ایشیا کے ملکوں میں مغربی سامراجی ملکوں کے سیاسی غلبے اور معاشی استحصال اور اس سے پیدا ہونے والے حالات کا نتیجہ تھے۔ ان نظریوں اور خیالات کی مختلف شکل وصورت کا تعین ہر ملک یا گروہ کی تاریخی روایات نے کیا۔
جب تک ہمارے یہاں جاگیری نظام، بادشاہتیں، نوابیاں بلاشرکتِ غیرے قائم تھیں اور مغربی تاجروں نے ہماری سیاست اور معیشت کو اندر اندر سے کھوکھلا کرنا شروع نہیں کیا تھا، جب تک انگریزی سامراج کے غلبے سے ملک کی معیشت اور معاشرت میں بنیادی تبدیلیاں نہیں ہوئی تھیں، جب تک ملک میں نئے انگریزی تعلیم یافتہ گروہ، روشن خیال زمیندار، مغربی ملکوں کے ساتھ تجارت کرنے والے دیسی تاجر اور دیسی سرمایہ دار طبقوں کا وجود نہیں ہوا تھا اور نوابوں، راجاؤں، وغیرہ کے جاگیری طبقے کو فرنگی سامراجیوں کے ہاتھوں شکست نہیں ہوئی تھی، اس وقت تک کسی کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی اور کسی نے یہ نہیں کہا تھا کہ مطلق العنانی یا بادشاہت کوئی بری چیز ہے یا اس کے علاوہ بھی کوئی سیاسی یا معاشی نظام ممکن ہے۔
ان مادی تبدیلیوں کے بعد ہی درمیانہ طبقہ کے دانشوروں کی خلافتِ راشدہ یا ویدوں کے عہد میں جمہوریت کا جوہر دکھائی دینے لگا تھا۔ یکایک ان پر یہ انکشاف ہوا کہ مطلق العنانی بری چیز ہے اور ہماری صدیوں سال کی بادشاہتوں کی تاریخ دین اور دھرم کے ’’سچے‘‘ راستے سے ایک افسوسناک کجروی کی داستان ہے۔
خیالات، نظریے اور عقیدے انسانوں کے دماغ میں نہ خودرد ہوتے ہیں اور نہ آسمانوں سے نازل ہوتے ہیں۔ مادّی حالاتِ زندگی، یعنی وہ وسیلے اور طریقے، وہ آلات اور ذرائع پیداوار اور رسل ورسائل، جنہیں استعمال کر کے انسانوں کے گروہ اپنے کھانے پینے اور رہنے سہنے کے وسائل حاصل کرتے ہیں، انسانی معاشرے کی شکل وصورت متعین کرتے ہیں۔
انسانی معاشرہ یا سماج کیا ہے؟ مختلف طبقے اور ان کے باہمی رشتے۔ لیکن یہ طبقے اور رشتے خود مادی حالاتِ زندگی سے پیدا ہوتے اور مٹتے، بنتے، بگڑتے اور بدلتے رہتے ہیں۔ خیالات، نظریے، فلسفیانہ تصورات و عقائد، انسان کے ذہن میں اس کے مادّی حالاتِ زندگی اور اس کی بنیاد پر پیدا ہونے والے اجتماعی رشتوں اور مختلف قسم کے (سیاسی، مذہبی، تہذیبی وغیرہ) اجتماعی سماجی عمل اور ان سے پیدا ہونے والی زندگی کے عکس ہیں۔
ان خیالات اور نظریوں سے مدد لے کر انسان پھر اپنی معاشرت کو سمجھتے ہیں، اس کا علم حاصل کرتے ہیں، اسے استوار کرتے ہیں، اسے حسین یا قابلِ برداشت بناتے ہیں یا اس کا جواز پیش کرتے ہیں۔ جیسی کسی معاشرے یا سماج کی شکل ہوگی ویسے ہی اس کے خیالات، نظریے اور عقائد ہوں گے۔ جیسا رہن سہن ہوگا ویسی ہی سوچ ہوگی۔ قدیم قبائلی گروہوں کے عقاید اور غلامی کے دور کے نظریے، جاگیری دور کے نظریے، جدید سرمایہ دارانہ تصورات اور اشتراکی نظام کے تصورات، مختلف مادی حالاتِ زندگی، مختلف معاشروں کے تصورات ہونے کی وجہ سے مختلف ہیں۔ لیکن جب سماج میں تبدیلی آتی ہے یعنی نئے وسائل اور آلاتِ پیداوار اور ذرائع رسل ورسائل کی دریافت اور استعمال کی وجہ سے پیداواری طریقے بدلتے ہیں تو پھر نئے آلات، ذرائع ورسائل کے ساتھ ساتھ نئے طبقے وجود میں آتے ہیں۔ نئے آلات و وسائلِ پیداوار اور انہیں استعمال کرنے والے انسانوں کا تخلیقی ہنر دونوں مل کر سماج کی پیداواری قوتیں ہوتے ہیں۔
اِن نئی پیداواری قوتوں کی مطابقت سے سماجی رشتوں یا سماج کی شکل میں بھی تبدیلی آ جاتی ہے لیکن پیداواری قوتوں کے مطابق سماجی رشتوں کے قائم ہونے کا عمل یعنی نئے معاشرے یا سماج کی تشکیل نہیں ہوتی۔ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ سماج میں نئے پیداواری ذرائع اور طریقے رائج ہو جانے کے بعد بھی پرانے سماجی رشتے (جو پرانے پیداواری طریقوں سے مطابق تھے) اور ان کے تصورات کافی دیر تک برقرار رہتے ہیں۔ ایسی صورت میں سماج میں بحرانی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔
نئی پیداواری قوتیں متقاضی ہوتی ہیں کہ ان کی پوری ترقی اور نشونما کے لیے ایسے نئے سماجی رشتے قائم ہوں، جو ان کے مطابق ہوں، جن رشتوں کی مدد سے ان نئی قوتوں کو بڑھنے کا پورا موقع ملے۔ ایسی صورت میں پرانے سماج کے رشتوں سے جو دراصل اپنی طبیعی یا مفید زندگی کے دن پورے کر چکے ہیں، ان قوتوں کا تصادم ہوتا ہے جن کو پرانے سماج کے اندر ہی اندر نئے پیداواری ذرائع اور وسائل کے استعمال نے جنم دیا ہے۔ یہ تصادم صرف معاشی اور سیاسی میدان میں ہی نہیں ہوتا بلکہ خیالات، فلسفوں اور عقائد کی دنیا میں بھی ہوتا ہے۔
بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ مختلف خیالات اور نظریے انسان کے شعور میں اسی اختلاف اور تصادم کا اظہار کرتے ہیں۔ پرانے سماج کے تصورات اور عقائد ان طبقوں کی نمائندگی کرتے ہیں جو ان پرانے سماجی رشتوں کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں، جن کے قائم رہنے سے نئی مادی قوتوں کی ترقی رکتی ہے۔ اس لیے ایسے خیالات اور نظریے رجعت پرست کہے جا سکتے ہیں۔ اس کے برخلاف ترقی پسند نظریے اور خیالات وہ ہیں جو سماج کی اس نئی تشکیل کا اظہار کرتے ہیں جن کی نئی پیداواری قوتیں متقاضی ہیں، یعنی جو معاشرتی تشکیل انسانوں کو زیادہ سے زیادہ ممکن ترقی کا موقعہ دے۔
تاریخی عمل کو اس طرح دیکھنے اور سمجھنے سے بعض نہایت اہم نتائج اخذ ہوتے ہیں۔ اگر یہ صحیح ہے کہ انسانی معاشرہ کی شکل وصورت اور ہئیت میں تبدیلی کا بنیادی سبب آلات اور اوزار پیداوار (جن میں ذرائع رسل ورسائل و آمدورفت بھی شامل ہیں) میں تبدیلی ہے اور انسانوں نے قدیم اشتراکی، غلامی، جاگیرداری، سرمایہ داری اور جدید اشتراکی سماج، ان تبدیلیوں کی وجہ سے اور ان کے مطابق قائم کیا ہے، تو پھر یہ صاف ظاہر ہے کہ سماج میں تبدیلی کی اہم ترین قوت، وہ محنت کش انسان ہیں جن کے پیداواری تجربے اور ہنر اور نئے اور تبدیل شدہ آلات کو استعمال کرنے کی صلاحیت سے یہ تبدیلیاں عمل میں آئیں اور انسانوں کا بتدریج پستی سے بلندی کی طرف ارتقاء ہوا۔
اس لیے تاریخی ارتقافی الحقیقت، فوجی پیشواؤں و سرداروں، بادشاہوں، بڑے آدمیوں، مافوق الفطرت رہبروں کے کارناموں کی سرگذشت نہیں بلکہ محنت کش انسانوں کے اس اجتماعی عمل کی سرگذشت ہے جو وہ سماج کے لیے مادی اقدار پیدا کرنے کے سلسلہ میں کرتے ہیں۔ انسانوں کا یہی اجتماعی عمل، ہنر، فن اور تجربہ، انسانی دماغ اور ذہن کے ارتقاء کا بھی بنیادی سبب ہے۔ احساسات، تصورات، شعور، علم، انسانی ذہن میں سماج کی مادی زندگی اور اس سے پیدا ہونے والے سماجی رشتوں کے تجربوں اور عمل کا عکس اور نتیجہ ہیں۔
ظاہر ہے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ مادی پیداواری عمل اور اس کا تجربہ انسان کے علم کی بنیاد ہے تو اس کے یہ معنی نہیں کہ صرف پیداواری عمل کے ذریعے سے ہی انسانوں کو ہر قسم کا علم ہوتا ہے، ان کا شعور بیدار ہوتا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ پیداواری اجتماعی عمل کی بنیاد پر جو معاشرہ قائم ہوتا ہے اور اس طرح انسانوں کے جو مختلف طبقے وجود میں آتے ہیں اور ان میں جو باہمی رشتے اور تعلقات ہوتے ہیں (یعنی جو مختلف اقسام کے اجتماعی عمل اور تعلقات اس مادی بنیاد پر وجود میں آتے ہیں) ان تمام سے اجتماعی طور پر پھر انسان کے شعور اور علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ اجتماعی اور سماجی عمل انسانوں کی سیاست، ان کی طبقاتی جدوجہد، ان کے فنونِ لطیفہ اور سائنس یعنی کلچر کے مختلف مظاہر کی شکل میں ہوتا ہے۔
اس قسم کے سماجی عمل اور تعلقات کی بنیاد گو مادی ہے لیکن یہ خود مادی نہیں کہے جا سکتے۔ اس طرح انسانی علم اور شعور اِس تمام مادی اور غیر مادی اجتماعی عمل اور تجربے سے پیدا ہوتا ہے۔ نئے خیالات اور تصورات کے وجود میں آنے کا سبب یہ ہے کہ سماج کے مادی حالات اور ان سے پیدا ہونے والے رشتوں، تقاضوں اور تصادموں یعنی ارتقاء کے تقاضوں کو ان کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ان مادی خیالات سے پیدا ہونے کے بعد خیال، تصور، نظریہ، خود ایک بڑی قوت بن جاتا ہے۔
ترقی پسند نظریے انسانوں کے دماغوں میں جاگزیں ہو کر انہیں متحرک کرتے ہیں، منظم کرتے ہیں، آگے بڑھاتے ہیں۔ وہ نظریہ جو کہ ایک خاص زمانے اور جگہ میں انسانی سماج کے ممکن ارتقاء کا قریب قریب پوری طرح اظہار کرے یعنی جس کی بنیاد زندگی کے نئے مادی حالات سے پیدا ہونے والے ارتقائی تقاضوں کے شعور پر ہو، زیادہ سے زیادہ ترقی پسند یا انقلابی کہلائے جانے کا مستحق ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ انسان کے شعور اور علم میں رفتہ رفتہ اضافہ ہوا ہے۔ فطرت یا سماج کا علم ابتدائی، نا مکمل، یک طرفہ اور بہت سطحوں سے گزر کر زیادہ اونچی، زیادہ مکمل سطح پر پہنچا ہے۔ معاملوں کو مختلف سمت سے دیکھ کر زیادہ اچھی طرح سمجھنے کی صلاحیت ہم میں رفتہ رفتہ پیدا ہوئی ہے۔ جب پیداواری طریقے اور وسائل محدود اور چھوٹے پیمانے پر تھے، تب انسانوں کی سماجی زندگی اور ان کا علم بھی محدود تھا۔ مزید برآں استحصال کرنے والے بر سرِ اقتدار طبقے اور ان کے خوشہ چین ہمیشہ اپنے طبقاتی مقاصد کی خاطر فطرت اور سماج دونوں کے علم کو (جس قدر کہ وہ حاصل ہوا تھا یا ہو سکتا تھا) توڑتے مروڑتے اور مسخ کرتے رہتے تھے۔ طبقاتی سماج میں خیالات اور نظریوں کو ان کی طبقاتی نوعیت سے علیٰحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہر شخص کی زندگی اس کے طبقاتی مقام سے متعین ہوتی ہے اور اس کے خیالات پر عام طور سے اپنے طبقے کی چھاپ ہوتی ہے۔
ہمیں اپنے ملک ہندوستان میں بھی نئے خیالات، نئے تہذیبی اور ادبی رجحانات کے مآخذ ان تاریخی تبدیلیوں میں ڈھونڈھنا چاہئیں جو انیسویں صدی میں ہماری معاشرت میں ہوئے۔ انگریزوں کے معاشی اور سیاسی غلبے کی وجہ سے ہندوستانی سماج کی اس معیشت کا تار وپود بکھر گیا جس پر ہماری تہذیب کی بنیاد تھی۔ جاگیر داری، خود کفیل دیہاتوں اور دست کاری کی صنعتوں کی ساکن معیشت کی جگہ نو آبادیاتی یا سامراجی محکومیت کی معشیت نے لے لی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اول تو ہمارا ملک برطانیہ کے جدید بڑی مشینوں کے بنے ہوئے صنعتی مال کی منڈی بن گیا۔ دوسرے ہماری دست کاری کی صنعت انگریزی مشینی صنعت کے بنے ہوئے سستے مال کے مقابلے کی تاب نہ لاکر یا بالکل تباہ ہو گئی یازوال پذیر ہو گئی۔ تیسرے ہماری زرعی پیداوار کی قیمت گر گئی اور ہم برطانیہ کے کارخانوں کے لیے سستے داموں اپنی خام پیداوار بیچنے کے لیے مجبور ہو گئے۔
جدید عالمی سرمایہ داری کی منڈی بن جانے کی وجہ سے ہماری خام پیداوار (روئی، پت سن، چائے، کھال وغیرہ) کے دام بھی عالمی سرمایہ داری منڈی میں مقرر ہونے لگے۔ چوتھے ہمارے ملک کی مالیات (فنانس، بینکی سرمایہ وغیرہ) پر برطانوی فنانس (مالیاتی) سرمایہ پوری طرح سے حاوی ہو گیا۔ پانچویں ہمارے ملک میں برطانوی سرمایہ داروں نے جدید مشینی صنعتوں کا آغاز کیا۔ لیکن یہ جدید صنعتیں اس طرح اور اس پیمانے پر قائم نہیں ہوئیں جیسا کہ آزاد سرمایہ دار ملکوں میں (مثلاً برطانیہ، فرانس، جرمنی یا امریکہ) میں ہوا بلکہ مخصوص محکومانہ (نوآبادیاتی) معیشت کے طریقے پر ہوئیں۔
مثلاً سب سے پہلے ہمارے ملک میں انگریزی سرمایہ دار کمپنیوں نے ریلیں بنائیں جن سے بے حساب، غیرمعمولی نفع اندوزی کے علاوہ بیرونی مال کو دور دور کی منڈیوں تک پہنچانا اور بیچنا اور ہمارا کچا مال اٹھانا اور ملک کو محکوم رکھنے کے لیے تیز فوجی نقل وحرکت مقصود تھا۔ اس طرح انگریزی سرمایہ داروں نے جو پَٹ سن اور روئی کی ملیں قائم کی ان کا مقصد ہمارے مزدوروں کو کم از کم اجرت دے کر غیرمعمولی نفع کمانا تھا جو خود ان کے ملک میں ممکن نہ تھا۔ بنیادی بڑی صنعتیں (مشین سازی، کیمیائی، لوہے، فولاد اور انجینیرنگ کی صنعتیں) قائم نہیں کی گئیں یا بہت کم اور زیادہ تر سامراج کی جنگی ضرورتوں کے ماتحت قائم کی گئیں۔ فی الجملہ صنعتی ترقی روکی گئی اور ملک کو صنعتی اعتبار سے برطانیہ کا دست نگر رکھا گیا۔
دست کاری کی صنعت کی تباہی (جس میں کپڑے کی صنعت سب سے بڑی تھی) زراعت کی عام تباہی، جدید مشینی صنعت کی کمی اور اس کے علاوہ ملک کی عام مالی لوٹ کی وجہ سے (ٹیکسوں کی زیادتی، بیرونی سرمایہ دار کمپنیوں اور تجارتی اداروں کی غیرمعمولی نفع اندوزی) سامراج کے بین الاقوامی فوجی اخراجات کے بار وغیرہ سے ہمارے ملک میں عام مفلوک الحالی اور مفلسی پھیلی۔ جس کا اثر دیہات کے کسانوں، دست کاروں، شہر کے محنت کشوں، درمیانہ اور نچلے درمیانہ طبقوں، پڑھے لکھے ملازم پیشہ لوگوں، چھوٹے اور درمیانہ زمینداروں، تاجروں، سب کے اوپر برا پڑا۔
صرف دو طبقے تھے جن کی حالت سامراجی عہد میں نسبتاً اچھی رہی۔ ایک تو وہ نواب، جاگیر دار اور راجہ تھے جن کو یا تو انگریزوں نے خود دیہات کی آبادی پر مسلط کیا تھا، یا وہ شکست خوردہ مہاراجے، نواب اور ریاستی فرما نرواجن کے ہاتھ سے سیاسی اور انتظامی طاقت تو چھین لی گئی تھی لیکن جو انگریزی سرکار کے وفادار ہونے کی بنا پر سرکاری پشت پناہی کے لیے باقی رکھے گئے تھے اور جن کا کام اب محض دیہات کی محنت کش آبادی کو لوٹ کر مفت خوری کی زندگی بسر کرنا تھا۔
دوسرے نئے تاجروں کا وہ طبقہ تھا جو ایک طرح سے برطانوی سرمایہ داروں کے کمیشن ایجنٹ تھے۔ یعنی جو انگریز سرمایہ داری کی درآمد اور برآمد کی تجارت میں ان کے چھوٹے حصے دار تھے، جن کے وجود کا انحصار بیرونی سامراج کے استحصال پر تھا ا ور جو اس کے آلہ کار بن کر خود بھی سرمایہ دار بن رہے تھے۔ اِسی گروہ میں سے رفتہ رفتہ ہندوستانی صنعتی سرمایہ داروں کا طبقہ بھی پیدا ہوا جنہوں نے سوت اور جوٹ ملیں وغیرہ قائم کیں اور اس طرح ایک حد تک برطانوی سرمایہ داروں کے مدِ مقابل بننے لگے۔
ان طبقوں کے علاوہ ایک بالکل نیا طبقہ ہمارے ملک میں پیدا ہوا۔ یہ صنعتی مزدوروں کا طبقہ تھا جو کہ ان جدید مشینی صنعتوں میں کام کرتے تھے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ ریلوے اور ان کی ورکشاپوں کے مزدور، سوت اور جوٹ ملوں کے مزدور، ان کے علاوہ لوہے، فولاد کے کارخانوں، کوئلے کی کانوں، چائے کے باغات اور دوسرے مختلف کارخانوں کے مزدور۔ ریلوں اور کارخانوں میں کام کرنے والے یہ محنت کش بربادشدہ دست کاروں، دیہاتی مزدوروں، بے زمین کسانوں اور شہر کے ان غریب گروہوں سے تعلق رکھتے تھے جو سامراجی عہد میں ب کار اور پہلے سے بھی زیادہ مفلوک الحال ہو گئے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے پاس اب اپنی محنت کی طاقت کے علاوہ اور کوئی دوسری ملک نہیں تھی اور جسے سرمایہ داروں کے ساتھ بیچ کر ہی وہ اور ان کے بچے زندہ رہ سکتے تھے۔ اسی طبقے کو جدید اصطلاح میں پرولتاری کہتے ہیں۔
انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں کے شروع میں جب کہ ہمارے ملک کا معاشی نقشہ کچھ اسی طرح کا تھا، اگر ہم اپنے یہاں کے مختلف تہذیبی رجحانات پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ایک طرف تو وہ نظریے جنہیں انگریزی سامراج براہِ راست یہاں پر پھیلا رہا تھا یا جن کی وہ سرپرستی کرتا تھا۔ دوسری طرف وہ نظریے تھے جو یا تو واضح طور پر سامراج دشمن تھے یا ایسے نظریے تھے جو سامراج کے واضح طور پر مخالف نہ ہونے کے باوجود اور سماجی نظام کے حدوں کے اندر رہتے ہوئے ہندوستانی سماج کو اس کی پستی سے نکالنے کے دعوی دار تھے۔ ان کو ہم اصلاحی (ریفارمسٹ) نظریے کہہ سکتے ہیں۔
برطانوی سامراجی نظریوں کی خصوصیت کیا تھی؟ اول تو تمام ہندوستانیوں کے ذہنوں میں یہ خیال پیوست کرنا کہ انگریزی قوم ان سے ہر لحاظ سے بہتر ہے اور ہندوستان پر اس کی حکومت جائز اور مناسب ہے، بلکہ خدا کی طرف سے نازل کی ہوئی ایک نعمت ہے۔ انگریزوں اور ان کی حکومت کا وفادار رہنا ہر ہندوستانی کا سیاسی اور مذہبی فریضہ قرار دیا گیا۔ یہ نظریہ تمام سرکاری اور نیم سرکاری اسکولوں اور کالجوں، درسی کتابوں، نیم سرکاری اخباروں، عیسائی مشنریوں، زر خرید ملّاؤں اور پنڈتوں، سرکاری عہدے داروں، راجاؤں، نوابوں، بڑے زمینداروں اور دیگر تمام ایسے لوگوں کے ذریعہ پھیلایا جاتا تھا جن کی روزی انگریزی سرمایہ داروں یا ان کے حکومتی اداروں سے وابستہ تھی۔
اپنے وطن کی عظیم تہذیب اور تمدن کو گھٹیا خیال کرنا اور اس کی طرف بےتوجہی برتنا، مغرب کی ہر ایک چیز کو اس سے بہتر سمجھنا اور انگریزی فیشن اور آداب کی احمقانہ نقالی کرنا اس نظریے سے پیدا ہونے والی ’’تہذیب‘‘ کا ایک لازمی جزو تھا۔ اس نظریے کی ترویج کا مقصد ظاہر ہے، ہم میں احساسِ پستی پیدا کر کے ہم کو ذہنی طور پر انگریزی استعمار کا آلۂ کار اور مطیع بنانا۔ انگریز مورخین نے انیسویں یا بیسویں صدی میں ہمارے ملک کی جو تاریخی لکھیں ان میں یہی نظریہ پیش کیا گیا تھا۔
انگریزوں نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا۔ جس طرح انگریز سامراجیوں نے ہمارے ملک میں نوابوں، ریاستوں، جاگیرداروں کو ان کی سیاسی قوت سلب کر کے اپنے مقاصد کے لیے برقرار رکھااور بڑے پیمانے پر ان جگہوں پر بھی زمینداریاں قائم کیں جہاں پہلے سے وہ موجود نہ تھیں، اِسی طرح اور اس کے ساتھ ساتھ سامراجیوں نے تمام ان اداروں، روایات اور تصورات کو بھی ابھارنے اور برقرار رکھنے کی کوشش کی اور ان کی سرپرستی کی جن سے ملک کے مختلف مذہبی یا قومی گروہوں، ذاتوں اور فرقوں میں نااتفاقی اور دوری بڑھتی تھی یا جن کی مدد سے تو ہم پرستی، تقدیر پرستی، یاس اور لاچاری کے جذبات ابھرتے تھے، جو عقل اور نئی روشنی کے خلاف تھے اور جاگیری دور کے زوال کی خصوصیت تھے۔ جس طرح سامراجی معاشی نظام کی ایک نمایاں خصوصیت جاگیر داری اور بڑی زمینداریاں برقرار رکھنا تھا، اسی طرح جاگیری عہد کے زوال پذیر تصورات کو بھی سہارا دینا اس کی خصوصیت تھی۔
انگریزی اقتدار سے قبل صدیوں سے ہمارا ملک فی الجملہ ایک خوش حال، ترقی یافتہ زراعتی ملک تھا۔ اس میں راجاؤں اور فوجی امراء کی مطلق العنانی اور جاگیر داری درجہ بدرجہ قائم تھی۔ محنت کش طبقے، کسان، مزدوراور دست کار تمام سیاسی طاقت سے محروم تھے اور حکمراں گروہ ان کا شدید استحصال کرتے تھے۔ ہندو سماج میں ذات پات کے نظام نے محنت کشوں کو سماجی اور مذہبی اعتبار سے مستقل طور سے ایک پست درجہ دے دیا تھا۔
اِسی معاشی بنیاد پر جو مذہبی عقاید پیدا ہوئے تھے اور جو کہ اس مادّی زندگی کا عکس تھے، ان کی خصوصیت یہ تھی کہ ایک بڑے خدا یا پَرم آتما کے نیچے اور ماتحت بہت سے چھوٹے چھوٹے خدا اور دیوتا تھے۔
بڑا خدا مطلق العنان تھا (شہنشاہ یا مہاراج ادھیراج کا عکس) اور اس کے نیچے دوسرے خدا تھے۔ (ان امراء یاراجاؤں کا عکس جو مغلوب کیے جا چکے تھے اور شہنشاہ کے باجگذار تھے) یہ خدا جن میں فطرت کی تمام قوتیں اور مظاہر مدغم تھے، انسانوں کی زندگی کے مالک تھے۔ ان کو خوش رکھنے کے معنی نجات یا ثواب اور ان کو ناراض کرنے کے معنی گناہ اور دائمی عذاب کے تھے۔ قسمت یا کرما کے چکر سے نکلنا معمولی آدمی کے لیے ناممکن تھا۔ معمولی آدمیوں کے لیے نجات صرف اپنی ذات اور اس کی خواہشات کو فنا کر کے ہی حاصل ہو سکتی تھی۔
افغان، ترک اور مغل مسلمانوں نے جب اس ملک پر حملے کر کے اسے مغلوب کیا تو یہاں کی معیشت میں کوئی بنیادی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ اوپر کے استحصال کرنے والے باج خور طبقوں میں ایک اور نئے گروہ کا اضافہ ہو گیا۔ اسلام کا وحدانی اور انسانی مساوات کا نظریہ جو ایران اور وسطی الشیا میں پہنچ کر اس وقت تک کافی بدل چکا تھا اور جس میں اگر ایک طرف بادشاہت اور امارت تو دوسری طرف تصوف نے جگہ لے لی تھی، ہندوستان پہنچنے پر یہاں کے حالات سے متاثر ہوااور اس میں اور ہندی عقائد میں بہت گہری مشابہت پیدا ہو گئی۔
پیروں اور مشائخ نے اللہ کے دربار میں وہی درجہ اختیار کر لیا جو سلطنت کے امراء کا سلطان کے دربار میں تھا۔ اللہ اور سلطان کی مطلق العنانی کو تسلیم کرنا سب کے لیے ضروری تھا لیکن بادشاہ تک رسائی اگر وزیروں اور امراء کے توسل سے ہی ممکن تھی تو اللہ تک رسائی پیروں اور مشائخ کے توسل سے۔ معمولی انسانوں کا فرض بندگی اور اپنی جان ومال ان کے حضور میں پیش کر دینا تھا۔ ہندوستان آنے والے مسلمانوں کے یہ عقائد ایک زراعتی اور کافی پیچیدہ معاشرت کا عکس تھے جس میں طبقہ واری تفریق زیادہ بڑھ چکی تھی۔ وہ اس قدیم عربی قبائلی تصور سے کافی مختلف تھے جس میں اللہ کی مطلق العنانی تو تھی لیکن اس تک پہنچنے کے لیے جاگیری سماج کے امراء کی طرح درجہ بدرجہ قطب، ولی، اوتار، شیخ اور پیر کے وسیلے کی ضرورت نہ تھی اور جہاں اگر بندے کو اللہ کی عبدیت لازمی تھی تو اس کے ساتھ ساتھ انسانوں کے مابین مساوات کا تصور بھی تھا۔
مسلمان حملہ آوروں اور حکمرانوں کو یہاں کے لوگوں کو اپنا ہم مذہب بنانے کا کوئی خاص جوش نہیں تھا۔ اگر کبھی کبھی انہوں نے ہندوؤں کے معبدوں کو منہدم بھی کیا تو اس کا مقصد مذہبی کم اور مالی یا سیاسی زیادہ تھا۔ البتہ ہندو محنت کشوں کے بعض طبقوں میں غالباً ان مقامات پر جہاں حکمران اونچی ذاتوں کا ظلم ان پر زیادہ تھا (مثلاً مشرقی بنگال) بڑے پیمانے پر تبدیل مذہب ہوا۔ اسلام کا وحدت اور مساوات کا نظریہ جو کہ صوفی، مشائخ اور واعظین کے توسل سے ان تک پہنچا، ان کے لیے غالباً زیادہ مساوی اور منصفانہ زندگی کا پیامبر تھا اور مسلمان امیروں کی سیاسی حکمرانی غالباً ان کے لیے سماج میں کسی قدر بہتر حالت کی ترغیب کرتی تھی۔
لیکن ظاہر ہے اس تبدیلئ مذہب نے ان کے معاشی استحصال کو ختم نہیں کیا۔ اس لئے دوسرے غیر مسلم، مظلوم محنت کش عوام کی طرح تقدیر کے آگے سر جھکانا، اس زندگی کے مصائب کی کلفت کو کم کرنے کے لیے ایک اگلی خوش آئند زندگی کے خواب دیکھنا اور سماجی نظام کی اونچ نیچ کو اُلوہی درجہ دے کر اس کا مطیع رہنا ان کے عقائد میں داخل رہا۔ ’’قسمت‘‘ اور ’’کرم‘‘ ایک معنی میں استعمال ہونے لگے۔
یہ مذہبی عقائد اور توہمات ہمارے زراعتی مطلق العنان ایشیائی نظام معشیت کے لوازمات تھے۔ اِن عقائد سے استحصال کرنے والے امراء کو یہ فائدہ پہنچا کہ ان کی سماجی پوزیشن کو مذہبی اور الوہی جواز حاصل ہو جاتا تھا۔ ان سے بغاوت کے معنی خدا سے، دین سے، دھرم سے بغاوت کے تھے۔ ان عقائد کے ذریعہ امراء خود اپنے استحصال پر اخلاق کا پردہ ڈال کر اپنے ضمیر کو مطمئن کر سکتے تھے اور لوٹے جانے والے محنت کش طبقوں کے زخموں پر قسمت اور اُلوہی رحمت کا مرہم رکھ کر انھیں ذہنی اور روحانی طور پر اپنے مصائب کو ناگزیر سمجھ کر برداشت کر لینے کے قابل بنا دیتے تھے۔ 1
برطانوی سامراج نے جاگیری اور نیم جاگیری زمینی تعلقات کو ہمارے ملک میں اپنا ماتحت بنا کر اور اپنے مقاصد کے لیے برقرار رکھا۔ نیز انہوں نے اس نظام کے ثقافتی اور ذہنی آثار کو بھی زندہ رکھا جو لازم ملزوم کی حیثیت رکھتے تھے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے یہاں وہ عقائد اور تصورات اور ادارے جن کے ذریعہ سے عوام میں تو ہم پرستی، بت پرستی، تقدیر پرستی، پیر پرستی، قبر پرستی ایک خاص قسم کی دقیانوسی مذہبی عصبیت جو عقل اور سائنس کی قدم قدم پر مخالفت کے لیے کھڑی ہو جاتی تھی، ہمارے ملک میں برقرار رکھی گئی۔ انگریز حاکم، نواب، راجا، بڑے اُمراء، زرخرید دانشور، مولوی، پنڈت وغیرہ اس تمام دقیانوسیت کے سر پرست تھے۔
ان فرسودہ تصورات اور اداروں کی مدد سے حکمران انگریز اور ان کے حمایتی امراء ہر قسم کی سیاسی، سماجی اور تہذیبی آزادی، جمہوریت اور روشن خیالی کی مخالفت کرتے تھے، ملک کے مذہبی اور فرقہ وارانہ اختلافات کو بڑھاتے اور پھیلاتے تھے، عوام کو متحد ہونے اور اپنی حالت کو بہتر بنانے کے لیے جدوجہد کرنے سے روکتے تھے۔
انگریز حکمرانوں کو اس بات سے کوئی عار نہیں تھا، اگر ہندو تو ہم پرست گائے کو مقدس تصور کرتے اور گائے کوو ذبح کرنے والے انسان کو واجب القتل سمجھتے۔ وہ اطمینان سے اس خیال کے سرپرست مہاراجاؤں، مہنتوں اور پنڈتوں کو اسے پھیلانے دیتے اور اگر مسلمان اُمراء اور جاہل ملا اور واعظ تمام غیر مسلم ہندوستانیوں کو کافر اور اپنے سے پست درجے کا انسان سمجھ کر ان کے خلاف نفرت پھیلاتے تھے تو انہیں بھی اِس کی آزادی تھی۔ ایک طرف تو اس قسم کے عقائد کی سرپرستی کی گئی اور انہیں پھیلایا گیا، دوسری طرف عوام کو تعلیم اور نئی روشنی سے تقریباً پوری طرح محروم رکھ کر انہیں اس دقیانوسی رجعت پرستی کا شکار بنایا گیا۔
اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ملک میں سماجی اور تہذیبی رجعت پرستی کے سوتے در اصل سامراجی محکومی معاشرتی نظام میں پیوست تھے۔ اپنے سیاسی غلبے اور معاشی لوٹ کو برقرار رکھنے کے لیے برطانوی سامراجیوں کو فوج، پولیس، نوکرشاہی، عدالتوں اور قید خانوں کی ضروت تھی۔ سامراج کے لیے ضروری تھا کہ وہ نوابوں، رجواڑوں اور جاگیر داروں کو باقی رکھے۔ بالکل اسی طرح اس کے لیے ضروری تھا کہ ہماری قوم کو ذہنی اور روحانی طور پر مفلوج اور غیر متحد اور غلام رکھنے کے لیے وہ سامراجی اور زوال پذیر جاگیری نظریوں اور عقائد کی سرپرستی اور ترویج کرے۔
ظاہر ہے کہ انیسویں صدی کے اخیر اور بیسویں صدی کے شروع میں صرف وہی طبقے اور گروہ ان نظریوں اور خیالات کی مخالفت کر سکتے تھے جن کو سامراجی نظام سے چوٹ لگتی تھی جو اس میں بالکل مدغم نہیں ہو گئے تھے (رجواڑوں اور بڑے زمینداروں کی طرح) اور جو ذہنی اور دماغی تربیت کے اعتبار سے اپنی روحانی بے اطمینانی یا مخالفت کا اظہار کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اٹھارویں صدی کے اخیر اور انیسویں صدی کے پہلے نصف میں (۵۸-۱۸۵۷ تک) جب تک انگریزی غلبہ مکمل نہیں ہوا تھا، ہمارے ملک کے نوابوں اور راجاؤں کا ایک گروہ انگریزوں کے خلاف مسلسل جنگ کرتا رہا۔ اسی زمانے میں انگریزی نظام کے خلاف زبردست عوامی بغاوتیں بھی ہوئیں۔ جن میں ان کسانوں، دست کاروں اور دانشوروں اور فوجی سپاہیوں نے حصہ لیا، جن کو سامراجی لوٹ نے بالکل برباد کر دیا تھا۔
بنگال میں مولوی شریعت اللہ کی فرائضی تحریک، بہار میں وہابی علماء کی راہ نمائی میں فوجی بغاوت، سنیاسی تحریک، پنڈاری تحریک ان کی مثالیں ہیں۔ لیکن انگریزی سامراج انہیں کچل دینے میں کامیاب ہوا۔ ۱۸۵۷ء کی انقلابی تحریک ایک طرح سے ان تمام تحریکوں کے اتحاد کا مظاہرہ تھی۔ اس میں وہ اُمراء اور جاگیر دار بھی شامل تھے جن کو انگریزوں نے بے دخل کیا تھا۔ اس میں فوجی سپاہیوں اور دانشوروں کا وہ گروہ بھی تھا جس کو پرانی نوابیوں اور ریاستوں کے نظام کو ٹوٹنے نے بالکل بے کار کر دیا گیا تھا۔ اس میں وہ دست کار بھی شامل تھے جن صنعتیں برباد ہو گئی تھیں اور وہ کسان بھی تھے جن کی زمین چھینی گئی تھیں۔
مگر اس تحریک کی ناکامیابی نے ثابت کر دیا تھا کہ جاگیر دار امراء کا طبقہ قومی انتشار کو دور کر کے بیرونی سامراج کے خلاف مضبوط قومی محاذ بنانے اور اس کی راہ نمائی کرنے کی صلاحیت کھو چکا تھا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کسان، دست کار، دانشور اور فوجی سپاہی نہ تو جاگیرداروں کو اپنا راہ نما بنا کر کامیابی حاصل کر سکتے ہیں اور نہ خود ان میں نظریاتی اعتبار سے اپنی انتشار پسندی پر قابو پانے اور ساری قوم کو سامراج کے خلاف متحد کر کے لڑنے کی صلاحیت ہے۔
ان مسلسل ناکامیوں کے بعد سب سے پہلے جن لوگوں نے سامراجی اور جاگیری نظریوں اور عقائد کے خلاف تقریباً غیر شعوری، دبے لفظوں اور نامکمل طور پر اپنے خیالات کا اظہار کیا، وہ دانشور تھے۔ ان کا تعلق ان نوکری پیشہ گروہوں سے تھا جو خود مختار ریاستوں اور مغلیہ سلطنت کی شکست اور زوال کے بعد اب بےکار ہو گئے تھے اور جن کے کچھ افراد انگریزی نظامِ حکومت کے نیچے عہدوں پر فائز ہو گئے تھے۔ یہ لوگ طبقے کے اعتبار سے اکثر زمینداروں کے خاندانوں کے تھے یا پھر وہ نئے تجارتی طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان میں وہ بھی تھے جو نئے انگریزی اسکولوں اور کالجوں میں انگریزی پڑھ کر یورپ کے جمہوری خیالات اور ادب سے متاثر ہو رہے تھے، جن کو بڑی نوکریاں تو نہیں ملتی تھیں لیکن جو معمولی سرکاری عہدے دار ٹیچر، پروفیسر، وکیل، بیرسٹر وغیرہ بن رہے تھے۔
چنانچہ مذہبی اصلاح اور جدید تعلیم کی تحریک (مثلاً برہمو سماج، آریہ سماج، سر سید کی تحریک وغیرہ) جس کا ہم نے اس باب کے شروع میں ذکر کیا، انہیں گروہوں میں پیدا ہو رہی تھی۔ شعوری طور پر یہ لوگ انگریزی سرکار سے وفاداری کا پیہم دم بھرتے تھے لیکن اس کے باوجود ان کی کاوشیں ترقی پسندی کا پہلو لیے ہوئے تھیں۔ ان کی احیا پرستی اور مذہب کو نئے رنگ میں پیش کرنے کی کوشش، دراصل جمہوری تصورات اور عقل پسندی کو فروغ دینے کے لیے تھی۔ اگر انگریز حکمران اور ان کے مبلغ مسلسل اس کوشش میں تھے کہ ہم میں احساسِ پستی پیدا کریں، نسلی اور قومی اعتبار سے ہم کو سفید فام حکمرانوں سے کم تر اور گھٹیا ثابت کریں تو ہمارے اس دور کے احیا پرست اِس کوشش میں تھے کہ ہماری تاریخ اور تہذیبی کارناموں کو ہمارے سامنے اس طریقے سے پیش کریں کہ اس سے ہمارا قومی وقار قائم رہے۔
اگر انگریز حکمران براہِ راست اور بالواسطہ ملک میں جہالت، دقیانوسیت اور قدامت پرستی پھیلانے میں مدد دیتے تھے تو ہمارے یہ اصلاح پسند راہ نما انگریزی پڑھنے پر زور دے کر اور خود ہماری پرانی تاریخ سے مساوات اور عقل پسندی کی روایت کو اجاگر کر کے اس کا مقابلہ کرنا جانتے تھے۔ اگر وہ انگریز حکمرانوں کی تقلید پر بھی زور دیتے تھے تو اس کا مقصد یہی تھا کہ ہم گزشتہ عہد کی مذموم تو ہم پرستیوں، تقدیر کا رونا رونے کی عادت، سستی اور انتشار پسندی کو ترک کرکے جدید طریقے سے سوچنا اور کام کرنا سیکھیں اور جدید زمانے میں جدید انسان بنیں۔
تاہم ہمارے یہ اصلاح پسند، مذہبی احیا اور جدید انگریزی تعلیم کی تبلیغ کرنے والے ترقی پسند دانشور اپنے طبقاتی حصار کو عبور کرنے سے قاصر تھے۔ مذہبی احیا کی تحریک تاریخی حقیقت کا سچا اور مکمل اظہار نہیں کرتی۔ احیا کے پرستار تاریخ کی حرکت اور ارتقا کے صحیح اسباب بتانے سے قاصر ہیں۔
مثلاً اگر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ سچا اسلام وہی ہے جو عرب میں عہدِ نبوی اور اس کے بعد کے تیس سال تک رہا، تو پھر ہم جس چیز کو اسلامی کلچر کہہ کر فخر کرتے ہیں، وہ کن حالات کی پیداوار ہے؟ اگر قرن اولیٰ میں مدینے کی جھونپڑیاں اور مٹی کی مسجدیں ہی ہمارے لیے قابلِ فخر اور قابلِ تقلید ہیں تو پھر ہم الحمراء اور تاج محل اور موتی مسجد کو مسلمانوں کے ’’زوال‘‘ کی نشانیاں سمجھ کر ان سے نفرت کیوں نہیں کرتے؟ اگر ہم خلافتِ راشدہ کو اپنا نصب العین بنانا چاہتے ہیں تو پھر کیا موجودہ زمانے میں ہم غلامی کو جائز سمجھنے، چوروں کے ہاتھ کاٹنے، اور زانی اور زانیہ کو سنگسار کرنے کے قانون نافذ کرنے کے لیے تیار ہیں؟ ظاہر ہے کہ یہ ایسے تضادات ہیں جن سے احیا پرست مفر حاصل نہیں کر سکتے۔ ان کی پوزیشن کی یہی کمزوری ہے جو ان میں سے بعض کی نیک نیتی کے باوجود ان کی تحریک کے سروں کو رجعت پرستی سے ملا دیتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مذہبی احیاء کی تمام تحریکوں اور اصلاح شدہ نئے مذہبی فرقوں کے عقائد پر اس طبقے یا گروہ کی چھاپ ہوتی ہے جو ان کے محرک اور مبلغ ہوتے ہیں اور اگر مذہبی تقدس کے ان کہروں کے پیچھے دیکھا جائے جن سے کہ یہ تحریکیں ڈھکی ہوتی ہیں، تو ہمیں طبقہ واری مفاد کے نقوش صاف طور سے نظر آ جاتے ہیں۔ سید احمد خان، حالی، نذیر احمد وغیرہ کی تہذیبی تحریک شمالی ہند کے مسلم زمینداروں، تاجروں، نوکری پیشہ دانشوروں کی اس ذہنیت کا اظہار کرتی ہے جو انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں برطانوی سامراج کے مکمل غلبے کے بعد ان میں پیدا ہوئی تھی۔
وہ جاگیر دار طبقے کی شکست کا اعتراف اور اظہار کرتی ہے (انگریز حکمرانوں کو قرآن کی رو سے ’’اولی الامر‘‘ ثابت کرنا اور ان کے خلاف جہاد کو ناجائز قرار دینا) اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں اپنے اسلاف کے شاندار کارنامے کی یاد دلا کر اور جدید انگریزی تعلیم حاصل کرکے، تو ہم پرستی کی جگہ سائنس اور عقلیت کی تبلیغ کر کے، تقدیر کو کوسنے کے بجائے عمل اور جہد اور اصلاح کا پیغام دے کر ان میں خود اعتمادی اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی تلقین کرتی ہے۔
یہ ترقی تو ضرور تھی لیکن ایک مخصوص طبقے اور گروہ کے لیے اور نئے سامراجی نو آبادیاتی نظام کے حلقے کے اندر رہ کر اور اس کے وجود کو لازمی اور برحق تسلیم کر کے۔ اگر تھوڑی دیر کے لیے ملک کے عام غیرمسلم باشندوں کی اکثریت کو چھوڑ بھی دیا جائے اور صرف مسلمانوں کی عظیم اکثریت کو ہی لیا جائے جو دست کاروں اور کسانوں پر مشتمل تھی، تب بھی اس تحریک کی عوام سے بے تعلقی ظاہر ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے یہ مصلحین رسول اُمی کے نام لیوا ہونے کے باجود، جس نے کہا تھا ’’اللہم احینی مسکیناً وامیتنی مسکیناً واحشرنی فی زمرۃ المساکین۔‘‘ 2 (اے خدا تو مجھے مسکینی کی حالت میں رکھ، مسکینی کی حالت میں میری موت لا اور میرا حشر مسکینوں کے زمرے میں کر) اپنی قوم کی عظیم محنت کش اکثریت کے لیے ہمدردی اور بہشت کی بشارت کے علاوہ اور کوئی دوسری پیش کش نہیں رکھتے تھے۔
ہمارے یہاں احیائیت اور اصلاح کا دوسرا دور بیسویں صدی کے تقریباً ساتھ ساتھ شروع ہوا۔ شمالی ہند کے مسلمانوں کے راہ نما ابوالکلام آزاد، شبلی، ظفر علی خاں وغیرہ تھے۔ ادبی اور نظریاتی اعتبار سے گروہ میں سب سے عظیم ہستی اقبال کی ہے۔ اس زمانے میں ایشیائی اقوام میں سامراج دشمنی اور جمہوریت کی تحریکیں اٹھیں۔ روسی سامراجیوں کی جاپان کے ہاتھوں شکست، پہلا انقلابِ روس (۱۹۰۵ء) ایران میں سامراجیوں اور مطلق العنان بادشاہت کے خلاف آزادی اور مشروط (کانسٹی ٹیوشن) کی تحریک، مصر اور سوڈان میں انگریزوں کے خلاف بغاوتیں، ترکی کی سلطنت کے حصے بخرے کرنے کے لیے انگریز، فرانسیسی اور روسی سامراجیوں کی چھیڑی ہوئی جنگیں، ایشیائی عوام کے دلوں میں زبردست سامراج دشمن ہیجان پیدا کر رہی تھیں۔
ہندوستان میں قومی تحریک اعتدال پسندی کے دائرے سے نکل رہی تھی۔ سامراجیوں کے خلاف بم اور پستول استعمال ہونے لگے تھے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس دور کے نئے مسلم راہ نماؤں نے سید احمد خان اور ان کے پیروؤں کے انگریزی سرکار سے وفاداری کے نظریہ پر حملہ کرنا شروع کیا اور مسلمانوں کے سامنے مذہبی احیا کے ساتھ ساتھ قومی آزادی، قومی اِتحاداور اس کے لیے جدوجہد کرنے کا تصور پیش کیا۔ 3
اس دور کی احیائیت میں سامراج دشمنی کی جانب آگے بڑھنے کی تلقین تو تھی لیکن اس کے تضاد اور ذہنی دشواریاں پہلے کے مقابلہ میں کچھ کم نہ تھیں۔ مثلاً اگر اسلامی احیا کا مقصد تمام دنیا کے مسلمانوں کو آزاد کرکے متحد کرنا تھا اور تاشقند سے لے کر مراکش تک ایک اسلامی خلافت قائم کرنا تھا (جیسا کہ جمال الدین افغانی، تحریک خلافت کے مبلغ اور اقبال کبھی کبھی کہتے تھے) تو ہندوستان کے مسلمانوں کو جو دنیاکی چالیس کروڑ مسلم آبادی کا سب سے بڑا واحد گروہ تھے، آزادی کی کون سی راہ اختیار کرنی چاہئے؟
ہندوستان مسلمان ساری آبادی کا ایک چوتھائی حصہ تھے۔ اس لیے اس سارے ملک پر مسلم حکمرانی کے معنی ہندو اکثریت پر حکومت قائم کرنے کے ہوتے تھے۔ یعنی انگریزی کی سلطنت ختم کرنے کے بعد ہندو اکثریت پر اقلیت کی حکومت قائم کرنا۔ ظاہر ہے کہ یہ تصور وطن کی آزادی اور جمہوریت کے تصور کے متضاد تھا۔ وطن کی آزدی کی جدوجہد غیرمسلموں کے ساتھ مل کر انگریز سامراجیوں کے خلاف متحدہ محاذ بنانے کی متقاضی تھی۔ بین الاقوامی اسلامی اتحاد (پان اسلامزم) کا تصور اگر اسے منطقی حد تک لے جایا جائے تو قومی اتحاد کے تصور سے ٹکراتا تھا۔
بالکل یہی حال ہندو احیائیت کا بھی تھا۔ آزادی کے معنی ملک کے تمام غیر ہندو ’’مِلکشوں‘‘ کو اس دیش میں کالی دیوی، گئوماتا اور ہنومان جی کی پرستش اور قدیم ویدک دھرم کے مطابق زندگی بسر کرنے پر مجبور کرنا تھا۔ ذات پات کے نظام کو برقرار رکھنا تھا۔ (جیسا کہ بنگال اور مہاراشٹر کے ہندو قوم پرست کہتے تھے) تو ظاہر ہے کہ اس بنیاد پر ہمارے وطن میں جہاں غیر ہندو کروڑوں کی تعداد میں اور کل آبادی کا کافی بڑا حصہ تھے، قومی اتحاد نہیں ہو سکتا تھا۔ لیکن ہندو محبانِ وطن کی ایک بہت بڑی تعداد احیائیت کو اس منطقی حد تک لے جانے کے لیے تیار نہیں تھی۔ اس وجہ سے ان کے ساتھ غیر ہندو مل کر مشترکہ آزادی حاصل کرنے کے لیے آگے بڑھ سکتے تھے۔
ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ مذہبی عقائد میں اختلاف فی نفسہ نزاع کا باعث ہوتا ہے یا یہ کہ جب تک مختلف گروہوں کے لوگ جدید علوم کی روشنی حاصل کر کے اپنے عقائد کو بدلتے یا ترک نہیں کرتے، اس وقت تک اتحاد اور ترقی ممکن نہیں ہے۔ مشترکہ زندگی اور مشترکہ سماجی مقاصد، بعض عقائد کے اختلاف کے باوجود لوگوں کو متحد کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ مغل سلطنت کی بنیاد ترک، افغانی، ایرانی اور راجپوتی امراء کے اتحاد پرتھی۔ تصوف کا وحدت الوجود اور ویدانت کا بھگتی کا عقیدہ اس اتحاد کو ایک حد تک استوار کرتا تھا۔ عوام الناس میں ان عقیدوں نے عام انسانی اخوت اور رواداری کی شکل اختیار کی، جس کے نتیجے کے طور پر ہند کی جدید زبانوں کا اور ہمارے ازمنہ وسطی کے عظیم الشان ادب، موسیقی، مصوری، فنِ تعمیر وغیرہ کا ارتقا ہوا۔
ہمارا منشایہ ہے کہ احیاپرستی اپنے موجودہ دور میں رجعت پرست طاقتوں اور طبقوں کو اس کا موقعہ دیتی ہے کہ وہ اس ملک میں بسنے والی اقوام اور فرقوں کے عوام کو آزادی، جمہوریت کے لیے متحد ہو کر جدوجہد کرنے اور نئے حالات کے مطابق نئی تہذیب وتمدن کی تعمیر کرنے سے روکیں۔ ایسا کرنے کے لیے احیا پرستوں کو خود ہماری تاریخ اور روایات کو مسخ کرنا پڑتا ہے۔ رجعت پرست خود جب اسلامی طرزِ معاشرت یا ہندو سبھیتا کی تجدید کا دعویٰ کرتے ہیں تو ان کے یہ دعوے کھوکھلے ہوتے ہیں۔
وہ زبان سے اپنے قدیم مذاہب اور طرزِ معاشرت کا دم بھرتے ہیں اور عملی طور پر مغرب کی سب بڑی سرمایہ دار طاقت کی فرما نبرداری اور اس کے جنگ پرست جارحانہ نظریوں کو بخوشی قبول کرتے ہیں۔ وہ قدیم اسلامی یا ہندو جمہوریت کے نام سے وحشیانہ جاگیری استحصال کو برقرار رکھتے ہیں۔ موجودہ دور میں احیاپرستی نظریاتی ریاکاری اور فریب اور عملی طور پر اپنے وطن سے غداری اور استحصال کے ظالمانہ نظام کو برقرار رکھنے کا وسیلہ بن جاتی ہے۔
اس طرح ہمارے ملک میں ہندو اور مسلم احیا پرستی اپنے بعض ترقی پسند اور اصلاحی پہلوؤں کے باوجود اپنے اندر خرابیاں رکھتی تھی جو بالا خرا سے فرقہ پرستی کی دلدل میں پھنسا دیتی تھیں اور فرقہ پرستی ہی انگریز سامراجیوں اور ان کے حلیف ہندوستانی رجواڑوں اور بڑے سرمایہ داروں کا سب سے مؤثر اور خطرناک ہتھیار تھا، جس کے ذریعہ سے وہ قومی اتحاد کو روکتے تھے، لیکن جس اتحاد کے بغیر قومی آزادی ناممکن تھی۔
پہلی جنگِ عظیم کے بعد ہمارے ملک میں زبردست سیاسی ہلچل ہوئی۔ جنگ کے زمانے میں انگریز سامراجیوں نے ہمارے ملک کا شدید استحصال کیا تھا۔ جنگ کے بعد اقتصادی حالات اور بھی خراب ہوئے۔ انگریز سامراجیوں نے لڑائی میں جو چوٹ کھائی تھی اسے وہ ہندوستان کی دولت کو لوٹ کر اچھا کرنا چاہتے تھے۔ زرعی اور خام پیداوار کے دام یک بارگی گھٹ گئے، جس سے خام مال اور زرعی پیداوار کرنے والوں کی مالی حالت یک بارگی خراب ہو گئی۔ ادھر شہروں میں فیکٹریوں اور کارخانوں کے بند ہونے، فوجی دفتروں میں چھانٹی اور سپاہیوں کے ڈسچارج ہونے سے بےروزگاروں کی تعداد میں لاکھوں کا اضافہ ہوا۔ اکثر تاجروں اور صنعت کاروں کو بھی افراطِ زر (اِنفلے شَن) کی وجہ سے بحرانی حالات سے دو چار ہونا پڑا۔
دوسری طرف انقلابِ روس نے زار شاہی کا تختہ الٹ کر سارے ایشیا کی محکوم قوموں میں آزادی کی ایک نئی لہر دوڑا دی تھی۔ وسطی ایشیا کی قوموں نے روسی سامراجیوں کا جوا اتار پھینکا تھا۔ ایران اور ترکی روس کی انقلابی مزدور اور کسان حکومت کی مدد اور حمایت حاصل کرکے انگریز سامراجیوں کو اپنے اپنے ملکوں سے نکال رہے تھے۔ چین میں سامراجیوں کے اقتدار کے خلاف مسلح قومی جدوجہد جاری ہو گئی تھی۔ اس زمانے میں ہمارے یہاں قومی آزادی کی جو تحریک جاری ہوئی، اس کی راہ نمائی انہی اونچے طبقے اور گروہوں نے کی، جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔
نان کو آپریشن (ترکِ موالات) اور خلافت کی تحریکیں نظریاتی اعتبار سے ہندو اور مسلم احیا پرستی کا سنگم تھیں۔ تھوڑی مدت کے لیے یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ تضادات جو ان دونوں میں موجود تھے، مٹ گئے ہیں اور مہاتما گاندھی اور علی برادران کا اتحاد قومی اتحاد کی نشانی بن گیا ہے۔ لیکن جیسا بعد کے واقعات نے ثابت کیا یہ اتحاد دیر پا نہیں تھا۔ ہندو مسلم اور سکھ عوام سارے ملک میں متحد ہو کر انگریز حکمرانوں کے خلاف غصے اور نفرت کا اظہار کر رہے تھے۔ ان کا خون ایک ساتھ مل کر جلیاں والا باغ میں ہی نہیں بلکہ بنگال، یوپی، مالابار، بمبئی وغیرہ میں ہماری زمین کو لالہ گوں کر رہا تھا۔
مالا بار میں موپلا کسانوں نے انگریز حکمرانوں، ساہوکاروں اور زمینداروں کے خلاف مسلح بغاوت شروع کر دی تھی۔ یوپی میں کسان بڑے زمینداروں اور تعلقہ داروں کو دیہات سے بھگاکر زمین پر قبضہ کر رہے تھے۔ پولیس کے تھانوں پر حملے ہونے لگے تھے۔ بمبئی میں مزدور دوسرے طبقوں کے ساتھ مل کر سیاسی ہڑتالیں کر رہے تھے۔
تاہم صرف انگریز سامراجی ہی نہیں، کانگریس اور خلافت کمیٹی کے اکثر داہنے بازو کے لیڈر اس عوامی اتحاد اور عوامی جدوجہد کو، جو انقلاب کا رخ اختیار کر رہی تھی، خشمگیں اور خوف کی نگاہوں سے دیکھتے تھے۔ وہ قوم کو آزادی یا سوراج کے لیے لڑنے کو کہتے تھے لیکن سوراج کے معنی بتانے سے انکار کرتے تھے۔ عوامی جدوجہد کی آگ جیسے جیسے بھڑکتی تھی، بورژوالیڈروں کا انقلابی جوش ویسے ویسے ٹھنڈا ہوتا تھا۔
محنت کش عوام اور نچلے درمیانہ طبقے کے لوگ سامراجی نظامی پربراہِ راست حملہ کر کے اسے ختم کرنا چاہتے تھے لیکن وہ لیڈر جو درمیانہ طبقوں سے تعلق رکھتے تھے اور جن کے پیچھے ہندوستانی زمینداروں اور سرمایہ داروں کے مفاد تھے، عوام کے جوش وخروش کو احتجاج، جلسے اور جلوس، انگریزی مال کے بائیکاٹ وغیرہ کے اصلاحی راستوں پر لگا کر سامراج پر صرف اتنا دباؤ ڈالنا چاہتے تھے جس سے وہ مجبور ہو کر ان کے ساتھ سمجھوتہ کرے۔ ان کو معاشی اور سیاسی رعایتیں دے۔ وہ انقلاب اور آزادی کا نام لیتے تھے تاکہ عوام ان کی راہ نمائی کو آئیں۔
لیکن چونکہ عوامی انقلاب کے معنی جاگیرداروں اور بڑی زمینداریوں کے خاتمے کے تھے، چونکہ اس کے معنی سامراج کے معاشی نظام کے بالکل خاتمے کے تھے، اس لیے وہ ہر ایسا قدم اٹھانے سے گھبراتے تھے، جو جاگیری اور بیرونی سامراجی سرمایہ داری کا مکمل طور سے خاتم کر دے۔ بنیادی سبب یہ تھا کہ ہمارے درمیانہ طبقے اور سرمایہ دار اور زمیندار، ایک طرف جاگیر داری اور دوسری طرف بیرونی سرمایہ داری دونوں سے بندھے ہوئے تھے۔ الغرض تہذیب اور سیاست دونوں میدانوں میں اصلاحی تحریکیں ۱۹۳۰ء کے قریب ایسے مقام پر پہنچ گئی تھیں جہاں سے ان کی کمی اور ناکامی واضح ہونے لگی تھی۔ قومی آزادی کا نصب العین حاصل نہیں ہوا تھا۔ احیائیت اور اصلاح پسندی، کھلی رجعت پسندی میں تبدیل ہونے لگی تھی۔
مخلص اصلاح پسند دانشور، وہ سچے لوگ جو دراصل مذہبی یا اخلاقی احیایا تعلیمی اور سوشل اصلاح کے ذریعے قوم کو اوپر اٹھانا چاہتے تھے، بیشتر بددل اور مایوس ہو گئے تھے اور میدان ان لوگوں کے ہاتھ میں چلا گیا تھا جو اب فرقہ پرستی کو ہوا دے کر، مذہب کے نام پر عوام میں پھوٹ ڈال کر، سامراج کی پشت پناہی کرتے تھے۔ زبان اور کلچر کی ترقی کے مقدس نام پر، اردو اور ہندی کا نام لے کر، امیر جاہلوں اور ان کے زرخرید دانشوروں کا گروہ تعصب اور علم دشمنی پھیلاتا تھا۔ سیاست کے میدان میں فرقہ پرست ہندو اور مسلمان جماعتیں سامنے آنے لگی تھیں۔
یہ تصویر کا ایک رخ تھا۔ قومی حیات کے دوسرے سرے پر ایک دوسرا طبقہ اور ایک دوسرا نظریہ بھی ابھر رہا تھا۔ یہ طبقہ شہر کے صنعتی مزدوروں کا طبقہ تھااور یہ نظریہ سوشلزم یا مارکس ازم کا نظریہ تھا۔ بمبئی، کلکتہ، احمد آباد، کانپور کے جوٹ اور سوت ملوں کے مزدور، ریلوے ورکشاپوں کے مزدور، کوئلے کی کانوں اور لوہے فولاد کے کارخانوں کے مزدور متحد ہو کر اپنی یونین بنا رہے تھے۔ ہڑتالیں کر کے اپنے حقوق کے لیے اجتماعی جدوجہد کر رہے تھے اور ان کی تاریک بستیوں میں جگہ جگہ پر نچلے درمیانہ طبقے کے نوجوان دانشور، مزدوروں کے چھوٹے چھوٹے گروہوں کو قدرِ زائد، طبقاتی کش مکش، تاریخی مادیت، پرولتاری تنظیم، جدوجہ داور انقلاب کے مسائل سمجھانے لگے تھے۔
مزدوروں میں طبقاتی شعور بیدار ہونے لگا تھا۔ انہیں یہ خبر پہنچ گئی تھی کہ دنیا کے چھٹے حصے میں جاگیرداری اور سرمایہ داری کا خاتمہ ہو گیا ہے اور وہاں پر مزدوروں اور کسانوں کی حکمرانی ہے۔ ہندوستانی مزدوروں کی اپنی مستقل اور آزاد سیاست کا اظہار ہونے لگا تھا۔ ان کی اپنی طبقاتی پارٹی، کمیونسٹ پارٹی، غیرقانونی حالت میں بننے لگی تھی۔
۱۹۳۰ء کے بعد چند سال میں سوشلزم کا نظریہ درمیانہ طبقے کے دانشوروں میں عام طور سے پھیل گیا تھا۔ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کانگریس میں بائیں بازو کی سیاست واضح طور سے نمایاں ہونے لگی تھی۔ نہرو نے اپنی سوانح حیات اور اپنے مضامین میں سوشلزم کی کھلے لفظوں میں تائید کرنا شروع کی۔ کمیونسٹ پارٹی کے علاوہ کانگریس سوشلسٹ پارٹی بھی قائم ہوئی۔ نوجوان بھارت سبھا، یوتھ لیگوں نے بھی سوشلزم کو اپنایا۔ طلبا کی جو تنظیم اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے نام سے بنی، زیادہ تر بائیں بازو کے اثر میں تھی۔ اسی زمانے میں کسانوں کی بھی علیٰحدہ تنظیم کسان کمیٹیوں اور کسان سبھاؤں میں شروع ہوئی۔ یہ بھی سوشلسٹ اور کمیونسٹ کارکنوں نے قائم کی تھی۔
سوشلزم کے نظریہ کی سب سے بڑی اور نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ اس نے بنیادی، سیاسی اور تہذیبی اور سماجی تبدیلیوں کا محرک اور معمار محنت کش عوام کو قرار دیا۔ اس نظریہ کی مدد سے یہ حقیقت سمجھ میں آنے لگی کہ سماجی اور سیاسی نظام اور اس پر قائم ہونے والی کلچر، خیالات اور عقائد کی عمارت انسانوں کے ان آلات اور ہنر پر قائم ہوتی ہے جنہیں بروئے کار لاکر وہ اپنی زندگی کو برقرار اور جاری رکھتے ہیں اور مادی اقدار پیدا کرتے ہیں۔ اس لیے سماج میں بنیادی تبدیلی لانے کے لیے اس کی اقتصادی بنیادوں کو بدلنا ضروری ہے اور صرف وہی طبقے اور گروہ اس بنیادی تبدیلی کے پیدا کرنے میں حصہ لے سکتے ہیں جن کے مفاد اس تبدیلی سے وابستہ ہیں۔
اصلاح پسندی کا راستہ، احیائیت کا راستہ غلط ہے۔ اس لیے کہ وہ پرانے نظام کو بنیادی طور سے نہیں بدلتا۔ اصلاح صرف اس حالت میں پسندیدہ ہے اگر وہ ہمیں بنیادی انقلاب کی جانب بڑھنے میں مدد دے۔ گذشتہ تاریخ اور اسلاف کے کارناموں اور اپنے تہذیبی ورثے سے ہمیں ضرور سبق لینا چاہیئے اور ان کا پہلا سبق یہ ہے کہ قدیم اور گزرے ہوئے معاشی، سیاسی اور تہذیبی دور کو زندہ نہیں کیا جا سکتا۔
البتہ علم، فن، ہنر، آرٹ، ادب اور اخلاق کے وہ خزانے جو گزشتہ دوروں میں ہمارے اسلاف نے اپنی جسمانی، ذہنی اور روحانی کاوش سے جمع کیے ہیں اور ہمارا موجودہ تمدن جن کا نتیجہ ہے، وہ ہمارا سب سے بیش قیمت سرمایہ ہے۔ اس سرمایہ کی حفاظت اور اس کا دانش مندانہ استعمال ترقی پسندی کا لازمی عنصر ہے۔ تہذیب کی یہ اقدار ہمیں اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو سمجھنے اور اسے خوشگوار اور بہتر بنانے میں مدد دیتی ہیں۔ ان کے ہی وسیلے سے ہم اپنی موجودہ حیات عہدِ حاضر کے تقاضوں کو پورا کر کے نئی تہذیب کی تخلیق کر سکتے ہیں۔
یہ تھے وہ خیالات جو بیشتر نوجوان ترقی پسندوں کے ذہنوں میں ادب کی اس تحریک کے ابتدائی دور میں گردش کر رہے تھے۔ اس لیے جب ہم نے ترقی پسند ادبی تحریک کی تنظیم کی جانب قدم اٹھایا تو چند باتیں خصوصیت کے ساتھ ہمارے سامنے تھیں۔ پہلی تو یہ کہ ترقی پسند ادبی تحریک کا رخ ملک کے عوام کی جانب، مزدوروں، کسانوں اور درمیانہ طبقہ کی جانب ہونا چاہیئے۔ ان کو لوٹنے والوں اور ان پر ظلم کرنے والوں کی مخالفت کرنا، اپنی ادبی کاوش سے عوام میں شعور، حس وحرکت، جوشِ عمل اور اتحاد پیدا کرنا اور تمام ان آثار اور رجحانات کی مخالفت کرنا جو جمود، رجعت، پست ہمتی پیدا کرتے ہیں، ہمارا اولین فرض ٹھہرا۔
اسی سے پھر دوسری بات نکلتی تھی۔ اور وہ یہ تھی کہ یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن تھا جب ہم شعوری طور پر اپنے وطن کی آزادی کی جدوجہد اور وطن کے عوام کی اپنی حالت سدھارنے کی تحریکوں میں حصہ لیں۔ صرف دور کے تماشائی نہ ہوں بلکہ حتی المقدور اپنی صلاحیتوں کے مطابق آزادی کی فوج کے سپاہی بنیں۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ ادیب لازمی طور پر سیاسی کارکن بھی بنیں لیکن اس کے یہ معنی ضرور ہیں کہ وہ سیاست سے کنارہ کش بھی نہیں ہو سکتے۔ ترقی پسند ادیب کے دل میں نوعِ انسان سے انس اور گہری ہمدردی ضروری ہے۔ بغیر انسان دوستی، آزادی خواہی، اور جمہوریت پسندی کے ترقی پسند ادیب ہونا ممکن نہیں۔
اسی وجہ سے ہم علانیہ اور دانستہ طور پر ترقی پسند ادبی تحریک کا رشتہ ملک کی آزادی اور جمہوریت کی تحریکوں کے ساتھ جوڑنا چاہتے تھے۔ ہم چاہتے تھے کہ ترقی پسند دانشور مزدوروں اور کسانوں، غریب اور مظلوم عوام سے ملیں۔ ان کی سیاسی اور معاشرتی زندگی کا حصہ بنیں۔ ان کے جلسوں اور جلوسوں میں جائیں اور انہیں اپنے جلوسوں اور کانفرنسوں میں بلائیں۔ اسی لیے ہم اپنی تنظیم میں اس پر زور دینا چاہتے تھے کہ دانشوروں کے لیے ادبی تخلیق کے ساتھ ساتھ عوامی زندگی سے زیادہ سے زیادہ قرب ضروری ہے۔ بلکہ نیا ادب بغیر اس کے پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔
اسی لیے ہم چاہتے تھے کہ ہماری انجمن کی شاخیں گوشہ نشین علماء کی ٹولیاں نہ ہوں بلکہ ان میں حرکت بھی ہو۔ ادیبوں کے جلسوں میں دوسرے لوگ بھی آئیں۔ ادیبوں کی نگارشات پر کھلی بحثیں ہوں۔ ادیب اور شاعر عام لوگوں سے ملتے جلتے رہیں، ان میں پیوست رہیں۔ ان سے سیکھیں اور انہیں سکھائیں۔ ہماری انجمن ادیبوں کی انجمن ہوتے ہوئے اور ادبی تخلیق پر زیادہ سے زیادہ توجہ مبذول کرتے ہوئے بھی انجمن ترقی اردو یا ہندی ساہت سمیلن نہ بن جائے بلکہ ایسا متحرک اور جاندار ادبی ادارہ ہو جس کا عوام سے براہِ راست اور مستقل تعلق رہے۔ ہم نے انجمن کو اسی طرح منظم کرنے کی کوشش کی۔
حاشیے
(۱) اس موقع پر یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اس سماج میں طبقاتی نزاع ختم نہیں ہو گیا تھا۔ چنانچہ کسانوں اور دست کاروں کی بغاوتیں ایشیائی تاریخ کا ایک اہم جزوہیں۔ لیکن حکمراں طبقوں کی لکھی ہوئی تاریخوں میں ان کو یا تو اہمیت نہیں دی گئی ہے یا بہت برے الفاظ میں ان کا ذکر کیا گیا ہے۔ مظلوموں کی ان تحریکوں سے مطابقت رکھنے والے باغیانہ مذہبی اور سماج نظریے بھی تھے۔ ایران میں مزدَک کی تحریک ان میں سب سے زیادہ مشہور ہے جسے وحشیانہ سفا کی کے ساتھ کچلنے پر نوشیرواں کو حکمراں طبقوں نے ’’عدل‘‘ کا لقب دیا۔ تصوف اور بھگتی کی تحریکوں کے بعض پہلوؤں میں بھی ہمیں یہ عوامی عناصر ملتے ہیں۔
(۲) ایک دوسری حدیث میں کہا۔ اوتومنی احبائی فیقول الملائکہ من احبائک؟ فیقول اللہ فقراء المساکین۔ (روزِ قیامت خدا کہے گا مجھ سے میرے دوستو کا قریب کرو۔ ملائک پوچھیں گے تیرے دوست کون ہیں۔ اللہ کہےگا، ’’فقراء اور مساکین‘‘)
(۳) اعتدال پسند اور انگریزوں کے وفادار گروہ کی نمائندگی اس وقت مسلم لیگ کرتی تھی۔ جس کی تشکیل سر سید کے جانشینوں محسن الملک ووقار الملک وغیرہ اور سر آغا خاں، نواب ڈھاکہ وغیرہ نے انگریزی حکمرانوں کے اشارے پر ۱۹۰۶ء میں کی۔ مولانا آزاد کا الہلال (کلکتہ)، مولانا شبلی کا مسلم گزٹ، ظفر علی خاں کا زمیندار اور مولانا محمد علی کے کامریڈ سب مسلم لیگ کی انگریزپرستی کے مخالف تھے۔ اقبال نے جوابِ شکوہ میں لیگ پر حملہ کیا۔ لیگ والوں نے تراشا ہے بڑے نام کا بت۔ مولانا شبلی نے بھی لیگ کی مذمت میں کئی نظمیں لکھیں۔ ایک نظم کا شعر ہے۔
مختصر اس کے فضائل کوئی پوچھے تو ہیں
محسنِ قوم بھی ہے خادِم حکام بھی ہے
یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ اقبال کے کلام کے موجودہ ایڈیشنوں میں سے متذکرہ بالا مصرعہ حذف کر دیا گیا ہے لیکن پہلی اشاعتوں میں موجود ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.