تاج محل اردو شعراء کی نظر میں
تاج محل مغلیہ دور کا وہ حسین شاہکار ہے جسے دنیا کے عجائبات میں بہت ہی اہم مقام حاصل ہے۔یہ ایک طرف جہاں اسلامی ‘ فارسی‘ ترکی اور ہندوستانی فن تعمیر کا حسین امتزاج ہے وہیں ایک شہنشاہ کی اپنی شریک حیات سے بے پناہ محبت اور اسے اس کئے گئے وعدے کو وفا کرنے کی عمدہ مثال بھی ہے۔
مغل بادشاہ شاہجہاں کے اپنی بیگم ممتاز محل کی یاد میں بنائے گئے تاج محل نے اردو شاعری پر بھی اپنے گہرے اثرات مرتب کئے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ مختلف ادوار میں شعرا نے اسے اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہے اور مثبت اور منفی اندازمیں اپنے خیالات کا منظوم اظہار کیا ہے۔
چونکہ تاج محل حسن اور عشق دونوں کی علامت ((Symbol مانا جاتا ہے نیز اسکی تاریخی اور تعمیری حیثیت بھی بہت اہمیت رکھتی ہے اس لئے دیگر زبان کی طرح اردو شعراء نے بھی اپنے کلام کے ذریعے اس کی آفاقیت کی نشاندہی کی۔
اردو شاعری میں تاج محل کو جتنی اہمیت حاصل ہے شاید کسی تاریخی عمارت کو نہیں ہے ۔مختلف ادوار میں اردو شعراء نے الگ الگ پیرائے میں اس کی تعریف کی ہے۔یہاں ان شعراء میں سے چند کا ذکر کرنے کی کوشش کی گئی ہے جنہوں نے تاج محل کے بارے میں اپنے نظمیہ تاثرات بیان کئے ہیں۔
ویسے تو نظیرؔ اکبر آبادی کو عوامی شاعر کی حیثیت سے جانا جاتا ہے لیکن انہوں نے ’’تاج گنج کا روضہ ‘‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھی ۔اس نظم میں شہر آشوب اور مسدس کی جھلک کے ساتھ ساتھ بنیادی طور پر تاج محل کی دلکشی کو بیا ن کیا گیا ہے ۔اس کے دو بند درج ذیل ہیں ؎
روئے زمیں پہ یوں تو مکاںخوب ہے یہاں
پر اس مکاں کی خوبیاں کیا کیا کروں بیاں
سنگ سفید سے جو بنا ہے قمر نشاں
ایسا چمک رہا ہے تجلّی سے یہ مکاں
جن سے بلور کی بھی چمک شرمسار ہے
وہ تاجدار شاہ جہاں صاحب سریر
بنوایا انہوں نے لگا سیم وزر کثیر
جو دیکھا ہے اس کے یہ ہوتا ہے دل پذیر
تعریف اس مکاں کی میں کیا کیا کروں نظیرؔ
اس کی صفت تو مشتہر روزگار ہے
اس نظم کا حسن بیان نظیرؔ اکبر آبادی دیگر نظموں کی یاد دلاتا ہے۔اس کے علاوہ تاج محل کی خوبصورتی کو بیان کرنے کا اس سے اچھا انداز شاید ہی کسی شاعر نے اپنایا ہو ۔
سیمابؔ اکبر آبادی نے اپنی نظم ’’تاج محل‘‘ میں تاج کو حسن و رومان کے زاویہ نگاہ سے دیکھا ہے ۔ان کے قدرت بیان اور استادانہ مشّاقی نے ایک وقارو آہنگ بخشاہے۔اس نظم سے ان کے دور میں نظم کہنے کے انداز کا بھی پتہ چلتا ہے ۔یہ ان کی دیدہ وری ہے کہ انہیں تاج محل میں پورا ہندوستان دیکھائی دیتا ہے ؎
تکملہ صنعت کا ہے اس کا ہر اک نقش و نگار
آگیا ہے کھینچ کر اک نقطے میں ہندوستان دیکھ
پوری نظم مندرجہ بالا شعر کے ارد گرد گھومتی ہوئی دیکھائی دیتی ہے اور اسی نقطئہ نظر سے شاعر نے اس شاہکار کو دیکھا ہے ؎
فی الحقیقت تاج ہے آرام گاہ حسن و عشق
مشرق شوق و نیاز و جلوہ گاہ ناز ہے
ساحر ؔ لدھیانوی نے بھی تاج پر بڑی خوبصورت نظم کہی ہے ۔یہ نظم اتنی پر کشش ہے کہ قاری پر اپنا ایک تاثر چھوڑ جاتی ہے ۔لیکن ساحرؔ نے تاج محل کو ایک الگ زاویہ نظر سے دیکھا ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہ نظم آخر میں گہری کاری طنز کی شکل اختیار ر لیتا ہے۔اس کے چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎
تاج تیرے لئے اک مظہر الفت ہی سہی
تجھکو ا س وادئی رنگیں سے عقیدت ہی سہی
میر محبوب کہیں اور ملا کر مجھکو
بم شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی؟
ثبت جس راہ پہ ہوں سطوت شاہی کے نشاں
اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی
یہ چمن زار یہ جمنا کا کنار ہ یہ محل
یہ منقش درو دیوار یہ محراب یہ طاق
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے
صاحبزادہ میکش ؔ نے اپنی نظم ’’تاج محل‘‘ میں ساحرؔ کی طرح تاج محل کو نئے انداز میں دیکھا ہے۔انہوں نے تاج کو سماجی اور عوامی اندازمیں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔اس میں ان کے تیکھے تیور کی جھلک دیکھائی دیتی ہے۔میکش اسے ایک بے حس مقبرے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے ہیں ۔پھر ان کا دائرہ احساس ذات سے عوام اور سماج تک پھیل جاتا ہے۔چند اشعار درج ذیل ہیں ؎
ایک ملکہ وہ کہ جس کی آخری خواہش کا نام
جنبش ابرو کا یہ فرمان یعنی تاج ہے
لیکن اپنی پہلی خواہش بھی جو کہہ سکتیں نہیں
ایسی کتنی رانیوں کا جھونپڑوں میں راج ہے
اک محبت وہ کہ جس کو نوجوانی بخش کر
ایک نے پایا سکوں اور سینکڑوں نے اضطراب
اک محبت وہ کے جس میں عشرت غم بھی نہیں
آہ مفلس کی محبت آہ مفلس کا شباب
عرشؔ ملسیانی کی نظم ’’شاہ جہاں کے آخری جذبات ‘روضئہ تاج محل کو دیکھ ‘‘کا رنگ و آہنگ دوسرے شعرا ء کی تاج پر لکھی گئی نظموں سے با لکل جدا ہے۔اس نظم میں شاہ جہاں کے ان جذبات کی ترجمانی ہے جو ’تاج ‘ کو دیکھ کر اس کے دل میں اس وقت پیدا ہوئے تھے جب وہ مطلق العنان شاہ جہاں کا کھنڈر رہ گیا تھا۔عرشؔ صاحب نے تاج سے متعلق اظہار خیال کو ایک الگ پہلو سے پیش کیا ہے ؎
تاج اے میری شہنشاہی کے رنگیں شاہکار
اے میری ممتاز کے آرام گاہ پر وقار
اے میرے گزرے ہوئے اقبال و دولت کے نشان
اے مرے دور جہاں بانی کی ذرّیں یادگار
اے مری عظمت کے ضامن اے مری اّنکھوں کے نور
اے مرے اجڑے ہوئے دل کے گلستاںکی بہار
پہلوئے محبوب میں للہ بلا لے اب مجھے
کچھ بھی ہو آغوش میں اپنی سلالے اب مجھے
ظفرؔ ادیب نے اپنی نظم’’ نئی منزل نیا شہکار‘‘ میںتاج محل کے بہانے انسان کے مسلسل اور ازلی سفر کی نشاندہی فنکارانہ انداز میں کی ہے۔اس میں انہوں نے تا ج کو انسان کے مختلف ادوار میں ابھارے گئے اپنی عظمت کے نقوش میں سب سے عظیم بتایا ہے ؎
آج تک میں نے ابھارے ہیں جو عظمت کے نقوش
ان میں ہر اک سے ہے ‘ تاج عظیم اور جواں
میں ازل ہی سے ہوںمنزل کے لئے گرم سفر
چھوڑتا آیا ہوں ہر ایک جگہ کاہکشاں
اس کے علاوہ شاعر کو تاج جیسے شہکار کی تعمیرکا فخر بھی دامن گیر ہے جو نظم کے آخری بند تک دیکھائی دیتا ہے ؎
آج تک تو یہی ہے میرے جنوں کا شہکار
میری قامت کی بلندی میری عظمت کا نشان
ساحلؔ سلطان پوری نے اپنی نظم ’’تاج محل (ممتاز سے)‘‘ میںتاج کی حسن آرائیوں کو ممتاز کے حسن سے مماثل اور مشابہ بتایا ہے ۔ان کے مطابق ممتاز کے حسن کی وسعت اور اثر ہی تاج محل کے تعمیر کی وجہ بنا ؎
یہ تیرے حسن جہاں سوز کا کرشمہ تھا
کہ بادشاہ کو فنکار کی نظر بخشی
وہ جس کے نور سے روشن ہیں دل کے ویرانے
تری وفا نے زمانے کو وہ سحر بخشی
متذکرہ بالا شعراء کے علاوہ بھی متعدد شعراء حضرات ہیں جنہوں نے تاج محل کو موضوع سخن بنایا ہے ان شعراء میں چند کے نام جگن ناتھ آزادؔ ‘ احسانؔ دانش‘ سلامؔ مچھلی شہری‘ اخترؔ اورینوی‘ وارث کرمانی‘ مخمور سعیدی‘ کلیم بدایونی وغیرہ ہیں۔ان سبھوں کے علاوہ بھی دیگر شعراء نے اپنے اپنے انداز سے تاج محل کی خوبصورتی اور اس کی تاریخی حیثیت کو اپنے کلام میں پیش کیا ہے جو قابل مطالعہ ہے ۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.