Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تخلیق اور تخلیقیت

قاسم یعقوب

تخلیق اور تخلیقیت

قاسم یعقوب

MORE BYقاسم یعقوب

    ہیرلڈ پنٹر اپنے نوبل خطبہ ’’فن، صداقت اورسیاست‘‘ میں اپنی ہی ایک کوٹیشن سے آغاز کرتا ہے،

    147There are no hard distinctions between what is real and what is unreal, nor between what is true and what is false. A thing is not necessarily either true or false; it can be both true and false.148

    (حقیقت اور مجاز میں کوئی بہت بڑا امتیاز نہیں اور نہ ہی سچ اور جھوٹ میں کوئی خاص فرق ہے۔ کوئی چیز لازمی نہیں خواہ وہ سچ ہو یا جھوٹ، سچ اور جھوٹ دونوں ممکن ہیں۔)

    یہ ایک تناقضاتی صورتِ حال ہے کہ ایک دوسرے کے متضاد اشیا بھی ایک ہی وقت میں ایک ہی جگہ ممکن ہو سکیں۔ جی یہی وہ صورتِ حال ہے جسے جدید دور (Modernism) کے بعد کا زمانہ کہا گیا ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ ساری صورتِ حال ہمارے معاشرے میں بھی رونما ہوئی ہو مگر یہ لازمی امر ہے کہ اس صورتِ حال نے فکری سطح پر بہت گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ مذہبیات، ادبیات، صحافت، سائنسی فکریات، علومِ انسانیہ اور عقیدائی سماجیات کو بری طرح دھچکا لگا ہے۔ اس حقیقت کو جاننا بھی ضروری ہے کہ یہ ساری صورتِ حال کسی درآمد شدہ نظریے یا فکر کی صورت منتقل نہیں ہو رہی بلکہ اس صورتِ حال کے پھیلاؤ میں میڈیا (پرنٹ، الیکٹرانک) ، سوشل اورسائیڈ میڈیا، انٹرنیٹ کا سیلاب، جدید طرز کی جامعاتی سطح کی تعلیم، اظہار میں آزادی اورمقامی شہریوں کی ترقی یافتہ معاشروں میں منتقلی وغیرہ جیسے عناصر شامل ہیں۔ پاکستان جیسے روایتی معاشرت رکھنے والے ملک میں گذشتہ ڈیڑھ دو دہائیوں میں انھی عناصر نے سماجی سطح پر بے پناہ تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔ قدیم رسومات اور بند عقیدوں کو شدید دھچکا لگا ہے۔ تعلیم نے بہت کچھ بدل کے رکھ دیا ہے۔ تقلید و روایت کے پرانے ادارے اب اُس طرح کام نہیں کرسکتے جس طرح چند دہائیاں پہلے سرگرم تھے۔

    کیا یہ ساری صورتِ حال پاکستانی معاشرے میں موجود نہیں؟

    کیا ایک عام شہری کی ۱۵۰ ٹی وی چینلز تک رسائی محض بند آنکھوں کا تماشا ہے؟ اُن کا کوئی سماجی اثر نہیں ہو رہا؟ کیا ریڈیو پر درجنوں ایف ایم چینلز اور سوشل میڈیا پر اظہارِ رائے کی بے پناہ آزادی صرف دھوکا ہے؟ ہمارے ہاں ان سے کوئی ذہنی، تہذیبی اور سماجی تبدیلی رونما نہیں ہو رہی؟ یہ ساری صورتِ حال جسے جدیدیت کے بعد کا زمانہ یعنی پوسٹ ماڈرن ازم کہا گیا ہے، کیا پاکستان میں وجود نہیں رکھتا؟ ایسی حقیقت سے انکار بند آنکھوں سے اپنے آگے روشن دنیا کو غائب کرنے والی بات ہے۔ ہمیں خبر ہی نہیں کہ بطور پاکستانی ہمیں سماج کے کن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہماری قدیم نسلوں کا نئی نسلوں سے بہت فاصلہ پیدا ہو گیا ہے۔ ایسے میں تصورات و خیالات کی کشتِ فکر قدیم و جدید کی تفریق کے بغیر کیسے نشوونما پا سکتی ہے؟

    یاد رہے یہ کوئی نظریہ نہیں اور نہ ہی کسی فکر کا ایجنڈا ہے۔ یہ تو ایک صورتِ حال ہے جس میں ہم سب رہ رہے ہیں۔ ترقی پسند فکر ایک نظریہ تھا جس کا باقاعدہ منشور تھا، ترقی پسند کہہ کے لکھتا تھا کہ میں ترقی پسند ہوں۔ اسلامی ادب کے پیداکار کہہ کے لکھتے تھے ہم اسلامی ادب پیدا کر رہے ہیں کیوں کہ اسلامی ادب ایک نظریہ کا نام تھا مگر مابعد جدیدیت کسی نظریے کا نام نہیں، ایک صورتِ حال کا نام ہے جس نے ایک نظریے یا فکر کی صورت اختیار کر لی ہے جس پر کسی کو بھی کنٹرول نہیں۔ جو اس صورتِ حال کا انکار کر رہے ہیں ذرا انھیں کھنگالیے، اُن کی فکریات کا بیشتر حصہ اسی صورتِ حال کا مرہونِ منت نکلے گا۔ اس وقت سب سے طاقت ور مابعد جدید رویہ ’ہائپر ورلڈ‘ کا ہے، جہاں ایک ہی حقیقت پیش کی جارہی ہے کہ جو حقیقت ہے وہ التباس ہے اور جو التباس ہے وہ حقیقت کا کوئی روپ ہے۔ یہ مابعدجدید صورتِ حال ہے تھیوری نہیں، ضروری نہیں مابعدجدید تھیوری اس صورتِ حال کی تصدیق کرتی ہو۔ اگر دیکھا جائے تو پوری دنیا ایک ہائپر صورتِ حال سے گزر رہی ہے۔ جنوبی ایشیا کی صورتِ حال کچھ اس لیے مختلف ہے کہ یہاں مختلف نسلیاتی گروہ، عقائد، لسانی تعصبات اور سماجی ترجیحات موجود ہیں۔ اس لیے کسی فکری تحریک کو زور پکڑتے ہوئے کچھ وقت لگ جاتا ہے۔ یا دوسرے لفظوں میں یہ خطہ فکری انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔ اب ہمارے معاشرے ہی کی مثال دیکھ لیجئے ہم بیک وقت کئی ذہنی، جذباتی اور عقیدائی کیفیتوں سے گزر رہے ہیں۔ سوسئیر، ماہرِ لسان نے کہا تھا کہ زبان تو کچھ بھی نہیں اور لفظ بھی ایک شبیہ سے بڑھ کے کچھ نہیں، جو مر بھی جاتا ہے اور ٹوٹ کے نیا بھی بن جاتا ہے مگر ہمیں لفظ کی حرمت کا وہ تصور نہیں بھول رہا جس کے ساتھ معنی کی گمشدگی کا احتمال پیدا ہو گیا ہے۔ یوں ہم ایک فکر کے ہالے میں دوسری فکر کے مقناطیسی کھنچاؤ کو کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ میں کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ وقت نے بہت کچھ بدل دیا۔ ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہُوا کہ ہمیں بہت کچھ بہت کم مدت میں تبدیل ہوتے دیکھنا پڑا۔ اس کی وجہ اس عہد میں شامل ہونے والے جدید اذہان کی کثرت نہیں بلکہ ہماری عاقبت نا اندیشی تھی۔ ہم بالکل بھی تیار نہیں تھے۔ اور اب بھی تیار نہیں۔ اشیا اپنی نئی فکروں کے ساتھ وارد ہو رہی ہیں اور ہم ناسٹیلجیا کا شکار ہیں۔ اُس ماضی کو یاد کر رہے ہیں، جب بچپن میں ریت کے گھر بنا کے عجیب تسکین ملتی اور مٹی میں مٹی ہو کے رہنے کی لذت کشید کرتے تھے۔ اصل میں ماضی کی اپنی خوبصورتی ہوتی ہے۔ اس لیے ہم اپنے ماضی سے جڑے رہنے میں مزہ لیتے ہیں۔ خواہ ہمارا حال اس سے زیادہ رومانٹک ہو۔ اسی لئے ہمیں اس نئی صورتِ حال سے آنکھیں چرانے میں لذت مل رہی ہے، حتی کہ اس کا نیا نام ’’مابعدجدید عہد‘‘ بھی برا لگ رہا ہے۔

    جہاں تک اُردو ادب کی بات ہے۔ ہماری نئی نسل فکری سطح پر معاشرتی گرداب میں بری طرح پھنسی ہوئی معلوم ہوتی ہے اور اچھی بات یہ کہ نئی نسل اس گرداب کی دائروی حرکات میں اپنا وجود خطِ مستقیم میں لانے کی کوشش بھی نہیں کر رہی۔ وہ ان دائروی اشکال کو قبول کر رہی ہے بلکہ اپنا آپ ان کے مطابق ڈھالنے کی کوشش میں ہے۔ تقسیم کے بعد پچاس، ساٹھ اورستر کی دہائیوں میں ادب کروٹ لے رہا تھا مگر اقدار نے پانسا نہیں پلٹا تھا، اسی لیے یہ نسل ہائپر کلچر سے پوری طرح آگاہ نہیں۔ نئی فکر اورنئے تصورات کس طرح ایک بلبلے کی طرح پانی پر رواں ہیں اور کس لمحے کون سا پل ٹوٹ جائے، نئی نسل اس کا ادراک رکھتی ہے۔

    آئیے کچھ اپنے اردگرد کا جائزہ لیں۔ سن 2000کے بعد کی نئی نسل فنی، فکری اور جمالیاتی سطح پر بے حد مختلف سوچ رہی ہے۔ سب سے پہلے نظم کی بات کر لی جائے۔ اُردو نظم اظہاریے کی ایک نئی شکل میں منقلب ہوئی ہے۔ فکری سطح پر وہ تمام ٹیبو موضوعات جو کبھی فن کار کے لیے سوچنا بھی ممنوع تھا نظم کا حصہ بن رہے ہیں۔ ان میں وہ تمام بیانئے شامل ہیں جو جبراً ایک معاشرے میں ہر فرد پر کام کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ بیانیے (Narratives) ریاستی، مذہبی اور معاشرتی اقدار و قوانین کے طور پر موجود ہوتے ہیں۔ نئے شاعر نے ان کو چیلنج کیا ہے۔ وہ ادارے یا فکریں جن کو احترام دیا جانا ضروری قرار دیا گیا تھا، نئے شاعر نے اس کو من و عن قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ اور جن کی تحقیر واجب تھی اس کو بھی شاعر نے اپنے اقداری نظام میں تولنے کو ترجیح دی ہے۔ یہ جرات اُسے نئی صورتِ حال نے سکھائی ہے جس میں میڈیائی کلچر سب پر حاوی ہے۔ ایک مثال سے بات واضح کرنا چاہوں گا کہ آخری مشرف مارشل لائی دور میں جو ریاست شاعر کو کہتی رہی، شاعر نے اس کو رَد کیا۔ شاعر (ادیب (نے خطے میں طالبا ن مخالف امریکی جبر کا نظریہ مسترد کیاحالاں کہ یہ نظریہ ریاست کی طرف سے پیش کیا گیا تھا۔ ہمارے شاعر نے افغانستان میں امریکی قبضے کی بھوپر مخالفت کی اور ڈھیروں نظمیں لکھیں جو اس ظلم وبربریت کے خلاف تھیں۔ مگر تیسرے ’ضیائی‘ مارشل لائی دور میں یہی ریاست تھی جو افغانستان میں امریکی دراندازی کو من و وعن قبول کرنے کے علاوہ ’’جہادیہ‘‘ نظریے کا پرچار کر رہی تھی جسے ہمارے دانش وروں نے بڑھ بڑھ کے قبول کیا۔ کچھ دانش ور ایسے بھی تھے جو ضیائی جبر کے خلاف تھے اور انھیں نے قید و بند کی صعوبتیں اٹھائیں مگر مجموعی دانشورانہ رویہ حکومت حمایت میں تھا۔ گذشتہ دہائی میں آگاہی کی اس صورتِ حال میں ایک بیانیہ ریاست کے بیانیے کے ساتھ ساتھ چلتا رہا جو ریاستی بیانیے سے زیادہ طاقت ور تھا۔ جس نے فرقہ بندی میں ملبوس مذہبی عقائد کوچاک کر کے رکھ دیا۔ سیاسی چال بازیاں اور منافقتیں اب کسی سے چھپ نہیں سکتیں۔ راسخ دائیں بازو کی فکر کو خاصی مزاحمت مل رہی ہے اور وہ نئے نئے بھیس بدل کرنئی نسل کو دائیں فکر کی طرف لانے کا بھی سامان کر رہی ہے۔ اسی طرح بائیں بازو کی فکر بھی بری طرح پٹی ہے۔ ایک وقت تھا جب بائیں بازو کی فکر کا سارا نظام دائیں بازو کی فکریات کو چیلنج کرنا تھا مگر اب وہ خود اپنے نظامِ فکر کو بچانے میں لگی ہے۔ نئی صورتِ حال میں ہی یہ واضح ہُوا ہے کہ شدت پسند لازمی نہیں اسلامی یا مذہبی ہی ہو، لبرل یا آزاد فکر کا دانش ور بھی ہو سکتا ہے۔ اس مابعدجدید صورتِ حال میں بہت سے ایسے دانشوروں کا بھی انکشاف ہُوا ہے جو لبرل کہلاتے تھے مگر اندر سے جنونی انتہا پسندی تھے اور جن کا کام صرف مذہب مخالف ایجنڈا تھا۔ اس نئی صورتِ حال میں کوئی مہا بیانیہ (Master-Narrative) اپنی پوری قوت کے ساتھ زندہ نہیں رہا۔ جنس کے طے شدہ نظریات، ثقافتوں کے نام پر انسانیت سوز رسومات اورنظامِ اخلاق کے طے شدہ اسباق بری طرح منتشر ہوئے ہیں۔ اب انقلاب اگر گھر سے نکلے گا تو سوشل اور سائیڈ میڈیاز کی یلغار کے آگے خربوزے کے اندر اُس پانی کی طرح بہہ جائے گا جو خربوزے کو استعمال کے قابل نہیں رہنے دیتا۔

    نظم کے اندر فنی طور پر بہت سی تبدیلیاں آئیں ہیں، پہلے نظم کا ایک کانٹینٹ (Content) ہوتا تھا نظم کو اسی کانٹینٹ کے تناظر میں سمجھا جاتا تھا۔ کانٹینٹ کا بھی ایک ہی معنی سمجھا جاتا اور اسے بھی مصنف کی تاریخ اور رجحان کی اولیت یا حتمیت کے ساتھ جوڑا جاتا۔ جیسے خواجہ میردرد کو صوفی فکر کے تناظر میں، میر تقی میر کو غم اور ہجر کے تناظر میں، غالب کو جدت اور اچھوتے پن کے تناظر میں، اقبال کو ملائیت کے تناظر میں دیکھنے کا معنی مسلط تھا۔ یہ احساس اُبھرا ہے کہ نظم صرف متن میں موجود معنی کا مظاہرہ ہے کسی کیننCanonکی آنکھ میں اُسے مقیدکرنے کی کوشش بے کارہوتی ہے۔ آزاد نظم کے ساتھ اُردو میں نثری نظم نے جگہ بنائی ہے۔ نثری نظم نے نظم کے فنی وفکری اسلوب کے قریب جا کر الگ شناخت کے ساتھ اپنا اظہاریہ تخلیق کیا ہے۔ نظم کو واحدانی کیفیت میں پیش کرنے کی بجائے ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ قاری کو کہا گیا ہے وہ نظم کی ازسرنَو تخلیق کرے۔ نظم قاری کی تجرباتی و وجدانی شراکت کے بغیر مکمل نہیں۔ قاری نظم میں اپنے تناظر کے ساتھ اترتا ہے اور نظم کو نئے نئے معنی پہناتا ہے۔ تخلیقی سطح پر نظم نگارنظم کوبیرونی سطح یعنی Surfaceپر نہیں رکھتابلکہ معنی کو زیریں متن میں منکشف کرنے کی سعی کرتا ہے۔ حقیقت یا معنی کی وحدت کو منعکس کرنا اب شاعری کا کام نہیں۔ حقیقت کی سرابیت کو محسوس کروانا نئی نظم کے شاعر کا کام ہے۔ اس لیے ’’منشور والی‘‘ شاعری اب دَم توڑ چکی ہے۔

    غزل کی صورتِ حال بھی تبدیل ہوئی ہے مگر کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ موضوعاتی سطح پر نئے خیالات کو جامہ ضرورپہنایا گیا ہے مگر فنی سطح پر آج بھی غزل کلاسیکی کینن کی طرف دیکھتی ہے۔ کلاسیکی کینن میں بھی صرف وہی بچا ہے جسے آج کی ضرورت ہے ورنہ سب قصۂ پارینہ ہو چکا۔ غزل نے لاشعوری طور پرکلاسیکی کینن کی بیشتر چیزوں کو رد کیا ہے جیسے موضوعات کی نئی کھیپ، طریقہ اظہارTreatmentاورفنی جمالیات کی نئی بصارتیں یہ نئی موضوعات غزل کا حصہ بنتے تو ہیں مگر قرینے میں نظم کے قریب چلے جاتے ہیں۔

    غزل کا مجموعی پھیلاؤ ابھی تک اُسی کلاسیکی حصار کے بندھن میں مقید ہے جسے غزل توڑتی ہے تو نظم کے قریب آ جاتی ہے یا ظفر اقبال کی پھکڑ بازی بن جاتی ہے۔ مگر یہ بات طے ہے کہ نئی نسل کو اس صنف کی نئی درجہ بندی کی فکر بھی ہے اور لاشعوری طور پر وقت کاایک جبر بھی اُردو میں نئے موضوعات بھی در آئے ہیں، دہشت، انتشار، خوف کی اس فضا نے فرقہ بازیاں، خود کش دھماکے، دہشت گردی کی نئی ایجادات اور عدم برداشت کی نئی صورتِ حال سے اپنا جنم لیا ہے۔ ایک طرف نئے سماج کی تشکیل ہو رہی ہے اور دوسرے طرف مہابیانیے طے کر کے بیٹھے مذہبی، ریاستی اور معاشرتی اداروں کے ٹھیکیدار اپنی موت کا اعلان نہیں ہونے دے رہے۔ نئی نسل کس طرح اس انتشار سے اپنا دامن بچا سکتی ہے۔ یہ اُس کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں۔

    میں نئی نسل کے کچھ نوخیز شعرا کا ذکر کروں گا جو اپنی تخلیقیت کے پہلے ’دہے‘ میں موجود ہیں یعنی جن کی عمریں بیس سے تیس سال تک ہیں۔ ان میں غزل میں سعید شارق اور نظم میں زاہد امروزشامل ہیں۔ ان شعرا کے ہاں واضح طور پر نئی نسل کا نئے دور کے ساتھ مکالمہ موجود ہے۔ یہ شعرا اپنے موجود سے بے زار اورآئندہ کی نئی تشکیل کرنا چاہ رہے ہیں۔ ایسا نہیں کہ یہ رجحانات اپنی تخلیقیت کے دوسرے ’دہے‘ میں شامل نئی نسل کے ہاں موجود نہیں۔ تیس سے چالیس تک کے پینڈے کے بہت سے اہم شاعر اس سلسلے میں اپنی شراکت کا احساس دلا رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ پہلے دہے‘ کے ان شعرا کے علاوہ بھی اور بہت سے اچھے شعرا موجود ہوں مگر میرا مقصد یہاں صرف نشان دہی کرنا ہے کوئی نفس شماری کرنا یافنی درجہ بندی متعین کرنا نہیں۔

    نئی نسل تاریخ، اقدار اور وقت کے بہاؤ کو مسلسل اور مستقیمی نہیں مانتی بلکہ اپنے رویوں میں بے ربط، ٹیڑھی، تکثیری اور لامرکزیت کی حامل فکروں کا اثبات کر رہی ہے، روحانی کی بجائے انفرادی، مادی اور عقلی جڑوں کی تلاش میں ہے۔ وقت کے اس بہاؤ میں اشیاہمارے ساتھ نہیں بلکہ ہم اشیا کے ساتھ سفر کر رہے ہیں۔ یہ منظر نامہ شاید ایک دو دہائیوں تک مکمل کھل کر سامنے آ جائے۔

    یاد رہے شاعری حقیقت کونئی معنویت دینے کا عمل ہے، وہ حقیقت جسے شاعر خود میں تلاش کرتا ہے۔ حدیثِ خیال اور حکایتِ جذبات اپنے اثبات کی تعمیر میں شاعری میں پناہ لیتی ہیں۔ شاعری کا عمل ایک غیر مرئی احساس کے امتیاز کو نشان زد کرتا ہے۔ یہ امتیاز عام جذباتی سطح سے پیدا ہوتا ہے۔ شاعری اس فرق کی موہوم علامت کو محسوس کر لیتی ہے۔ غزل میں یہ موہوم نشان زیادہ جذباتی سطح پر ابھر کے سامنے آتا ہے۔ نظم اپنے اظہار میں پھیلاؤ کو ترجیح دیتی ہے جب کہ غزل اسی لوچ میں پک کر خیالات کے کوزے تیار کرتی ہے۔

    اشتہار بازی کے اس معاشرے میں انسان کی ذاتیت (Privacy) شدید متاثر ہوئی ہے۔ جس نے قوتِ خیال اور معنی کی متنوع اشکال کو سطح پر پیش کرکے جذبات کی کمزوری اور بے قدری کو عام کیا ہے۔ چناں شاعر اپنی دریافت کردہ حقیقت کو حقیقت کے طور پر نہیں بلکہ تہہ دہ تہہ یا ملفوف انداز میں پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ سطح پر پیش کی جانے والی شاعری اکہری پرت کی وجہ سے اپنی تخیلی قوت (Imaginative Power) سے محروم ہو جاتی ہے جو صارفیت کا تقاضا تو ہو سکتا ہے شاعری کا نہیں۔ موجودہ دور مشین کے دور کا اگلا مرحلہ ہے جہاں ہر چیز خودکارانہ عمل (Automatization) میں ڈھلی ہوئی ملتی ہے۔ ہر چیز ایک دوسرے کو انکشاف کرنا چاہتی ہے۔ ہر چیزکے اس خود کارانہ عمل کا وظیفہ ہی منکشف ہونا اور انکشاف کرنا ہے۔ کوئی فکر، آدرش، نظریہ یا جذبہ اپنی خام حالت کو چھپانے پر قادر نہیں رہا۔ وہ کہیں نہ کہیں سے مطالعہ کیا جا رہا ہے، دیکھا، سنا اور محسوس کیا جا رہا ہے۔ ایسا نہیں کہ انکشاف کا عمل اشیا کو تبدیل کر رہا ہے۔ البتہ اُن کی جمالیاتی قدر اور اُن میں موجود پُر اسراریت کو کم کر رہا ہے جس سے حیات کی سرگرمی کی مجموعی قدر کمزور ہو رہی ہے۔ چناں چہ شاعری کا مطالبہ اب اتنا سیدھا سادھا نہیں رہ گیا۔ شاعری وہ کچھ کہنا چاہتی ہے جس میں جذبہ اور احساس کی رمق ابھی باقی ہے، جو گہری اور گرہ در گرہ نقاب میں ہے۔ یہ صرف نئی جمالیات اور نئی فنی اقدار سے ہی ممکن ہے۔ اُردو شاعری میں یہ نئی جمالیات نئی زبان اور نئے موضوعات کی تعمیر کا ذریعہ بنی ہے۔ غزل کی اکہریت کو سطح سے اُتار کے متن کے باطن میں پیش کیاجا رہا ہے۔ وہ سطح پر خیال، جذبے اور موضوع کو دھندلا اور موزیک (Mosaic (کی شکل میں تیار کرتا ہے۔ نئی جمالیات امیجری کی جامد حالت سے بھی انکاری واقع ہُوئی ہے۔ جامد حالت سے مُراد جو تصورِ معنی کے زیادہ قریب ہو یا جس کا تاثر جلدی سمجھ آ جانے والا اور اکہرا ہو۔ نئی جمالیات تصویر کو رنگوں کی کولاژ بناکر پیش کر رہی ہے۔ ٹکڑوں میں جڑی اشیا میں ناظر اپنے تخیلی تجریہ کو بھر سکتا ہے۔ یہ ایک روحانی اور شاعرانہ بازآفرینی ہے جو قاری یا ناظر کو اپنے اوپر منکشف کرواتی ہے۔ کبھی کبھار (یا اکثر و بیشتر) قاری اسے اپنے آپ پرپوری طرح کھول نہیں پاتا، یوں شعر کی تخیلی قوت اُسے ایک ذائقے سے دوسرے ذائقے اور ایک جذبے سے دوسرے جذبے تک منتقل کرتی جاتی ہے۔ گویا نئی جمالیات معروض میں پڑی ہوئی ایسی شے نہیں جسے ہر ناظر ہر رُخ سے ایک ہی طرح کا محسوس کر رہا ہے۔ یہ تو ایک انکشاف ہے جسے ہر کیفیت اور ہر شخص کے ہاں مختلف پایا جا سکتا ہے۔ ایک مرحلے کے بعد دوسرے مرحلے کی طرف سفر کا نام ہے۔ ایک تجربے کے بعد دوسرے تجربے کا حاصل ہے۔ عمیر نجمی کا شعردیکھئے،

    نکال لایا ہوں ایک پنجرے سے اِک پرندہ

    اب اس پرندے کے دل سے پنجرہ نکالنا ہے

    غزل کا عمومی مزاج، جیسا کہ عام طور پر دیکھا گیا ہے، اکہری معنویت اور سطحی جذبات کا حامل ہوتا ہے۔ شاعر تخیلی قوت سے زیادہ خیال کی ترسیل (Communication) پر توجہ دیتا ہے۔ غزل میں تخیلی قوت فنی سطح پرپیش کی جاتی ہے۔ شاعر خیال کی ندرت (Novelty) کو اولیت دیتا ہے مگر ایسا اس لیے ممکن نہیں رہتا کیوں کہ وہ ندرت کسی مخصوص صورت حال میں تو ندرت ہوتی ہے مگر دیگرکئی صورتوں میں اُس میں ندرت والی کوئی بات نہیں رہتی۔ وہی بات جس کا پہلے ذکر ہُوا کہ ہر چیز انکشاف کے عمل سے پہلے ہی دوچار ہے۔ منکشف ہونا یا کرنا اس دور کا بنیادی وظیفہ (Function) بنا ہُوا ہے۔ چناں چہ تخیلی قوت ہی وہ ایک ذریعہ ہے جو شاعری کو نئے انکشاف اور جذباتی پُراسراریت عطا کرے گی۔ اب خاصیتِ انکشاف، خیال کی ندرت میں نہیں بلکہ اُس کی پیش کش میں بھی ہے۔ صرف موضوع ہی نہیں بلکہ شعر کی تخیلی حالت جن لوازمات میں تیار ہوتی ہے اُن کو بھی اہمیت ملی ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے