تخلیقی لکھنے والوں سے سوال
(۱) آپ جس صنف میں لکھتے ہیں اس سے آپ کے تجربے کی نوعیت کاکیا تعلق ہے۔ یہ کیوں ہے کہ آپ کا تجربہ مخصوص طور پر اس صنف میں اظہار پاتا ہے۔
(۲) اساتذہ کے رنگ میں جو غزلیں آپ نے لکھی ہیں یا مغربی افسانے کی طرزوں میں جو افسانے یا ناول آپ نے لکھے ہیں اس کا آپ کے اپنے تجربہ سے کیا تعلق ہے۔
(۳) جو زبان آپ استعمال کرتے ہیں کیا اس کا آپ کے تجربے سے کوئی مخصوص رشتہ ہے۔
(۴) اپنے پرانے ادب کامطالعہ آپ کرتے ہیں۔ کیوں کرتے ہیں یا کیوں نہیں کرتے۔
(۵) باہرکے ادب کا مطالعہ کرتے ہیں۔ کیوں کرتے ہیں۔
(۶) کیاآپ تنقید پڑھتے ہیں۔ کس قسم کی تنقید پڑھتے ہیں اور کیوں۔
(۷) کیا کبھی لکھنے سے خوف آیا ہے۔ اگر ایسا ہوا ہے تو کیا کبھی آپ نے اس احساس کو سمجھنے کی کوشش کی۔
(۸) آخر آپ لکھتے کیوں ہیں۔
(۹) کبھی قاری سے کسی طرح کے تعلق کااحساس ہوا۔ کیا قاری کی خاطر کبھی تحریر میں تبدیلیاں کی ہیں۔
(۱۰) آپ کس ادبی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس سے آ پ کے ادبی تجربے کا کیا تعلق ہے۔
میں جواب دیتا ہوں
مہندرناتھ
میں نے ابتدا شاعری سے کی آخیر میں بن گیا افسانہ نگار۔ شاعری راس نہ آئی بلکہ یوں کہیے کہ میں ردیف، قافیہ، بحر اور شاعری کے دوسرے لوازمات سے ناواقف تھا۔ کسی کواستاد بنانے کی کوشش نہ کی، شاعری کے لیے استادی اور شاگردی کی شرط مجھے بالکل نامنظور تھی۔
افسانہ نگار بننے سے پہلے میں نے پہلوان بننا چاہا۔ چند برسوں کی ریاضت کے بعد اپنے علاقے کا مشہور پہلوان بن گیا۔ جب پہلوانی سے جی بھر گیا تو فوج میں لفٹیننٹ بھرتی ہونے کا سودا سمایا۔ نہ جانے عقل اس نامعقول جذبے پر کیسے غالب آئی کہ میں نے لیفٹیننٹ بننے سے انکار کردیا۔ ورنہ اس وقت لداخ کے محاذ پر ہوتا۔
میں افسانہ نگار کیوں بنا۔ ڈاکٹر، پروفیسر، سیاست دان یا کام گار کیوں نہ بن گیا۔ یوں تو اس کرہ ارض پر ہزاروں پیشے ہیں، جو افسانہ نگاری کے مقابلے میں زیادہ باوقاراور باعزت ہیں۔ اور جہاں بیس بائیس برس محنت کرکے انسان ترقی کی آخری منزل تک پہنچ سکتا ہے۔ محض افسانہ نگار بننے سے کیا فائدہ۔
دراصل جب میں اپنی ذات کا تجزیہ کرتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر مجھے یہ دنیا ناپسند تھی۔ چلیے صاحب، اگر یہ دنیا ناپسند تھی تو مجھے خودکشی کرلینی چاہیے۔ آخر جان کو روگ لگانے سے فائدہ۔ مجاز، منٹو، میراجی یہ روگ لگاکر اس دنیا سے کوچ کرگئے۔ مجھے بھی اس صف میں شامل ہوناچاہیے تھا۔
شاید میں بزدل ہوں۔ مجھ میں اتنی ہمت نہیں کہ خودکشی کرلوں۔ شروع ہی سے مجھے اس نظامِ زندگی سے سخت نفرت تھی اور ابھی تک ہے۔ حالانکہ میں نے زندگی میں کبھی فاقہ نہیں کیا۔ ہمیشہ ایک اچھے گھر میں رہا۔ روپوں کے لیے کبھی ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں پڑی۔ پھر بھی نہ جانے ذہن ہمیشہ بغاوت پرآمادہ رہا۔
سیدھے راستوں ہر چلنا گوارہ نہ کیا۔ پھولوں سے نباہ نہ ہوسکا۔ کانٹوں کی سیج پر سونے کی کوشش کی۔
یہ امیر اور غریب کی تقسیم، مفلسی، بیکاری، یہ ظلم و تشدد، انسانی کمینگی، نسلی تعصب، ہندو اورمسلمان کی تفریق۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائیاں، بہنوں اور بھائیوں کے درمیان نفاق، ماں اور بیٹے کے مابین نفرت۔ جنسی ناہمواریاں۔ عورت کی تذلیل۔ کھلے بازارعورتوں کا بکنا۔ اور اس قسم کی سینکڑوں لعنتیں، جن سے یہ دنیا ایک زندہ جاوید جہنم ہے۔
شاید میں احتجاج کرناچاہتا تھا۔ شاید میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ یہ دنیا مجھے بالکل پسند نہیں۔ اس کا چلن پسندنہیں، اس کی روائتیں پسند نہیں۔ اس کا کاروبار پسند نہیں، شاید اسی نعرہ کو اپنا ایمان بناکر میں افسانہ نگاروں کی صف میں شامل ہوگیا۔
آج افسانے لکھتے لکھتے سترہ اٹھارہ برس گزرچکے ہیں۔ یکایک مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ اس افسانہ نگاری سے کیا فائدہ جو انسانی سماج کی بنیادوں کوبدل نہیں سکتا۔ آج شاعر اور افسانہ نگار کتنا بے بس ہے، آج سیاست دان نے چاروں طرف سے یلغار کر دی ہے۔ جو فیصلہ سیاست دان کرتاہے، وہی ملک کا فرمان بنتا ہے۔
میں نے مغرب کے بڑے بڑے ادیبوں کا مطالعہ کیا ہے، مغربی ادیبوں کی تکنیک کامیرے ذہن پر غیر شعوری طو رپر اثر پڑا۔ نئے نئے خیالوں نے ضرور دماغ کوروشن کیا اور اس طرح زندگی کی نئی قدروں سے ہمکنار ہوا۔ میں نے بالتراک، موپساں، ڈکنز۔ ٹالسٹائی، دوستووسکی، چیخوف، گورکی، ہیمنگ وے، سٹیسن بک اور اس طرح پریم چند، مولانا ابوالکلام آزاد، ٹیگور اور کرشن چندر کے ادب سے استفادہ کیا۔
اردو کاکلاسیکی شعری ادب واقعی اپنی جگہ پر بے مثال ہے۔ جہاں تک جدید افسانہ نگاری اور ناول نگاری کاتعلق ہے۔ جدید افسانہ تو پریم چند سے شروع ہوتاہے۔ میں نے سجاد حیدر یلدرم، نیاز فتح پوری اور دیگر افسانہ نگاروں کو ضرور پڑھاہے، ان ادیبوں کا طرز بیان، اسلوب، اور زبان کی چاشنی اپنی جگہ خوبصورت اور دلکش ہے مگر ان ادیبوں کے افسانے حقیقت نگاری سے بہت دور ہیں۔ کیونکہ ایک ادیب کے لیے، پرانے ادب کا مطالعہ بہت ضروری ہے، چاہے وہ شعری ادب ہو یا افسانوی۔ پرانے لکھنے والوں میں بہت بڑی خوبی یہ تھی کہ انہیں زبان پر بڑی قدرت تھی، ان کے پاس لفظوں کا اتنا بڑاذخیرہ ہے کہ پڑھ کرعقل دنگ رہ جاتی ہے، زبان کو سنوارنے کے لیے اس کی نوک پلک سدھارنے کے لیے، کلاسیکی ادب کامطالعہ ناگزیر ہے۔
جہاں تک افسانوں یا اچھے ادب کا تعلق ہے، وہ کسی زبان کے ہوں انہیں ضرور پڑھتا ہوں۔ ادب مغربی ہو یا مشرقی، انسان تو صرف ایک ہے۔ تخلیق کرنے والا بھی انسان اور پڑھنے والا بھی انسان۔ اس لیے مشرق اورمغرب کی تفریق کو بے معنی سمجھتا ہوں۔ صرف اپنے ہم وطنوں کی عزت کرنا اور دوسروں کو کمتر سمجھنا، وسیع القلبی کی دلیل نہیں، بلکہ گھٹیاپن ہے۔ اس قسم کے جذبے، ملکی اور نسلی تعصب کو فروغ دیتے ہیں۔ حب الوطنی کاجذبہ قابل احترام ضرور ہے مگر جنگ قابل مذمت ہے۔ اگر میرے دل میں انسان کی عزت نہیں تو انسانیت کے پرچم کو بلند کرنا، انسانیت کی بہت بڑی توہین ہے۔
لکھنا بھی ایک روگ ہے، ایک بار لگ جائے، تو زندگی بھر پیچھا نہ چھوڑے گا۔ جب افسانہ نگاری شروع کی تو نہ شہرت کی طلب تھی، نہ روپوں کی۔ صرف بغاوت اوراحتجاج کاجذبہ ذہن میں کارفرما تھا۔ آج شہرت بھی چاہتا ہوں، اور معاوضہ بھی۔ کبھی کبھار لکھنے کی خواہش ذہن پر اتنی حاوی ہوجاتی ہے کہ لکھنے کے سوا اور کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔
میں نویں جماعت میں پڑھتا تھا اور وہ بھی لاہور میں۔ ان دنوں کرشن جی اور میں چوک متی میں رہتے تھے۔ وہ تاریخ تو یاد نہیں۔ مگر وہ شام یاد ہے، جس شام بھگت سنگھ کی پھانسی کی خبر سارے قیود و بند کی طنابیں توڑتی ہوئی لاہو رمیں پھیل گئی اور لوگوں کاجم غفیر لاہور کی گلیوں، کوچوں اور بازاروں میں ابل پڑا۔ وہ کون سی طاقت تھی جو مجھے اس جلوس میں کھینچ لائی اور میں انارکلی سے گزرتا ہوا بھگت سنگھ زندہ باد کے نعرے لگاتا ہوا دریائے راوی کی طرف بڑھا، اس دن اس جلوس پر گولی چلائی جاسکتی تھی، شاید میں گولی سے اڑادیا جاتا۔ میں نے پیدل چوک متی سے دریائے راوی تک سفر کیا، اس رات میں نے بھگت سنگھ کے والد کشن سنگھ کی تقریر سنی۔ وہ واقعہ میرے ذہن میں ایک کیل کی طرح گڑا ہواہے۔ اسی طرح مہاتماگاندھی کی شہادت اور لوممہا کے قتل نے میرے دل و دماغ میں آگ سی بھردی۔
جس دن میں نے لوممہاکے قتل کی خبر اخبارمیں پڑھی، میں نیم پاگل سا ہوگیا۔ میں نے اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کی کہ میرا لوممہا سے کیا رشتہ ہے۔ نہ وہ میرا بھائی ہے، نہ میرا دوست۔ وہ تو میرا ہم وطن بھی نہیں، اور ہم پیشہ بھی نہیں۔ میں آج تک اس سے نہیں ملا۔ بات تک نہیں کی۔ آخر یہ کون ساجذبہ ہے، جس نے میرے ہوش حواس چھین لیے ہیں۔ آخر کیوں؟ مجھے نیند کیو ں نہیں آتی، مجھے کس بات کا دکھ ہے، یہ درست ہے کہ لوممہا کو قتل کیا گیا ہے۔ لیکن میں کیا کرسکتا ہوں، کیا میں بین الاقوامی لیڈر ہوں، کیا میرے احتجاج سے دنیا بدل جائے گی۔
اپنے آپ کو سمجھانے کے باوجود میرا ذہنی انتشار بڑھتا گیا، اور جب تک میں نے ’’سیاہ پیرا‘‘ نہ لکھ لیا، مجھے ذہنی سکون نصیب نہ ہوا۔ ادیب کن واقعات سے متاثرہوتاہے، اور کیوں ہوتاہے۔ اس کاکوئی معقول جواب میرے پاس نہیں۔
میں ایک خاص واقعہ سے متاثر ہوتاہوں، اور دوسرے افسانہ نگار نہیں ہوتے، اور جن واقعات سے دوسرے افسانہ نگارمتاثر ہوتے ہیں، میں نہیں ہوتا۔ تخلیق کااپنا عمل ہوتا ہے۔ اور ہر ادیب کااپنا مزاج، اپنا خاص رنگ، اور چند اقدار ہوتی ہیں۔ کسی کا مقصد حیات ہوتا ہے۔ کسی کانہیں ہوتا۔ ذاتی پسنداور ناپسند ہوتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کے ذہن میں مقصد بڑا بلندہو اور آپ کی تخلیق بڑی گھٹیا ہو۔ موضوع بڑاہو، جیسے امن یا جنگ۔ مگر یہ ضروری نہیں کہ آپ کی تخلیق بھی عظیم ہو۔ ایک چھوٹے سے جذبے کو غیرفانی شاہکار بنایا جاسکتاہے۔
میں افسانہ نگار کیوں بنا۔ کسی اور پیشے کو اختیار کرلیتا اور حالانکہ دوچارفلموں میں ہیرو کارول کرچکا ہوں اگر زیادہ توجہ ایکٹنگ کی طرف کرتا تویقیناً میری مالی حالت بہتر ہوتی۔ میری شخصیت (اگر کوئی ہے تو) اس پیشے کو ہضم نہ کرسکی۔
کافی تجزیے کے بعداس فیصلہ پہ پہنچا ہوں کہ کاغذ اور قلم ہی میرے مقدر میں ہے۔ اپنے غم و الم، اپنے حسن و عشق، اپنی پسند اور ناپسند اپنی ذہنی بغاوت، اور اس نظامِ زندگی کو بہتر بنانے کے لیے میرا قلم برسرپیکار رہے گا۔ (مجھے اس بات کا پورا علم ہے کہ میں اس مقصد میں کبھی کامیاب نہ ہوں گا) کیا کروں۔
قاری کے لیے کچھ نہ لکھ سکا۔ لکھا تو صرف اپنے لیے۔ جیا تو صرف اپنے لیے۔ مروں گاتو صرف اپنی ہستی کو نیست و نابود کروں گا۔ جب قاری اور نقاد کاذکر آتا ہے تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں اپنا قاری خود ہوں، میں اپنے افسانوں کا سب سے بڑا نقاد ہوں۔ مجھے اگر اپنا افسانہ پسند نہیں ہوتاتو اسے اشاعت کے لیے کبھی نہیں بھیجتا۔ اس کا مطلب آپ یہ مت سمجھیے کہ نقاد کی اہمیت سے انکار کرتاہوں، ادب کے دائرے میں نقادکی بڑی اہمیت ہے۔ نقاد ادیب اور قاری کے درمیان ایک اہم کڑی ہے۔ وہ الجھے ہوئے مسئلوں کو سلجھاتا ہے، ادب کے پوشیدہ حسن کو بے نقاب کرتاہے۔ جو بات قاری سمجھ نہیں سکتا نقاد آگے بڑھ کر قاری کو سمجھاتا ہے۔ وہ فنی نقطہ نگاہ سے ادب پاروں کو پرکھتا ہے۔ پرکھ میں اس کی اپنی پسند اور ناپسند کادخل ہوتا ہے۔
آج سے دس سال پہلے، حسن و عشق کے افسانے زیادہ پسند آتے تھے۔ جوں جوں عمربڑھنے لگی ذاتی پسند اور ناپسند کے پیمانے بھی بدلنے لگے۔ آج سب سے پہلے تنقیدپڑھتا ہوں۔ پھرافسانہ یا غزل، جو چیز اچھی لگتی ہے اسے قبول کرتاہوں اورجو چیز ناپسند ہوتی ہے، اسے ذہن پر اثر انداز نہیں ہونے دیتا۔
میں شروع ہی سے ترقی پسندتحریک سے وابستہ رہا اورآج بھی ترقی پسندنظریہ حیات کی بنیادی قدروں پرایمان رکھتاہوں۔ کامیو کافلسفہ حیات پڑھا تو انسانی قدریں ڈولتی نظر آئیں۔ یہ درست ہے، باپ بیٹا، محبوبہ، خاوند بیوی، دوست دشمن، جذبہ حب الوطنی، جھوٹ اور سچائی، ریاست اور فرد، آمریت، جمہوریت اور عوام، ان سب کی کوئی دوامی قدریں نہیں ہیں۔ پھر بھی اگر انسان چند قدروں کو ذہن میں نہ رکھے۔ تو اس دھرتی پر نراجیت پھیل جائے۔ زندہ رہنے کے لیے چند اصول، چند قدریں، گھڑنی پڑیں گی تاکہ زندگی کا کاروبار چل سکے۔ اسی طرح ادب کے سلسلے میں چند قدریں ذہن میں رکھنی پڑیں گی۔ ادب اورزندگی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جب ادیب انسانی تجربوں کے متعلق سوچتا ہے تو افسانہ یا غزل کی تخلیق ہوتی ہے، اگر ہم ادیب کو ایک باعزت شہری سمجھتے ہیں۔ تو اسے بھی انسانوں کی بہبودی اور بہتری کے لیے سوچنا پڑے گا۔ یوں انسان ڈاکٹر وارڈ بننا چاہتا ہے، تو بہت سی کرسٹن کیلریں مل جائیں گی۔
کیا کسی ادیب کو کسی سیاسی پارٹی کاممبر بننا چاہیے، کیا وہ پارٹی کا ممبر بننے کے بعد بڑا ادب تخلیق کرسکتاہے۔ اس کے متعلق کوئی متفقہ فیصلہ نہیں دیا جاسکتا، ادیب یا شاعر کسی پارٹی کے ساتھ رہ کر بھی بڑا ادب تخلیق کرسکتا ہے، اور پارٹی سے الگ رہ کر کوئی شخص اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتا کہ وہ ضرور عظیم ادب تخلیق کرے گا۔
اگر کرشن چندر، فیض، مجاز، ساحر، مخدوم کسی خاص نظریہ حیات کو سامنے رکھ کر عظیم اور غیرفانی ادب تخلیق کرسکتے ہیں تو غالب، میر، اثر اور فراق نے بھی عظیم ادب پیدا کیا ہے۔ ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ اچھے ادب کی تخلیق کا دارومدارادیب کی اپنی ذات پر ہوتا ہے، اسے آزادی اور تنہائی ملنی چاہیے۔
آج کا دور ٹکنالوجی کادور ہے، ایٹم کی طاقت قلم کی شکتی سے بہت زیادہ ہے۔ سیاسی پارٹیاں ایک ملک کانقشہ آن واحد میں بدل سکتی ہیں۔ مگر قلم کار اس قسم کا ردوبدل نہیں کرسکتا۔ ملٹری گو ایک ملک کی بنیادوں کو ہلاسکتا ہے۔ مگر ایک افسانہ نگار کے ایک سو افسانے یا کسی شاعر کا ایک عظیم دیوان کسی ملک میں انقلاب نہیں لاسکتا۔ اس میں شک نہیں کہ ادیب آج کی سیاسی تحریکوں سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتا۔ وہ ان تحریکوں سے اثر لیتا ہے اور کبھی کبھار اثر انداز ہوتا ہے۔ آج کے سیاست دان کے مقابلے میں ادیب کی حیثیت بہت چھوٹی ہے۔ وہ کسی پارٹی کے پروگرام کا ساتھ دے یا نہ دے، اس سے زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ اس کی اقتصادی حالت، اس کی حیثیت، اس کی خوشی، اس کی موت، کافی حدتک آج کی سیاست کی مرہون منت ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.