تنقید کو نئی سمت بتانے والا نقاد شمس الرحمٰن فاروقی
اردو تنقید میں شمس الرحمٰن فاروقی کی کاوشیں اور ان کے نتائج نہ صرف قابل صد تحسین بلکہ قابل صد رشک ہیں۔ یہی سبب ہے کہ محمد حسن عسکری نے انہیں لکھا تھا کہ لوگ اب ’’آپ کا نام حالی کے ساتھ لینے لگے ہیں۔‘‘ یعنی یہ کہ جس طرح حالی نے اپنے زمانے میں تنقید کو رسوم و قیود سے نکال کر ایک نئی آگہی بخشی اسی طرح برسوں بعد ہمیں فاروقی میں ایک ایسا نقاد نظر آتا ہے جس نے محض اپنے تاثرات، تعصبات یا خوردہ خیالات کو جمع کرکے تنقیدی مجموعوں کا نام نہیں دیا بلکہ نہایت ہی سنجیدگی کے ساتھ تنقید کی ایک نئی بوطیقا ترتیب دینے کی کوشش کی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ انہوں نے جو کچھ لکھا ہے اس پر صد فیصد ایمان و ایقان رکھا جائے لیکن یہ ضرور کہتا ہوں کہ انہوں نے جو کچھ لکھا ہے اس کو پڑھے اور اس پر غور کیے بغیر اردو ادب، خصوصاً اردو شاعری پر بات نہیں کی جاسکتی۔
یوں تو بڑے سے بڑے نقاد کی ہر رائے نہ تو حرف آخر ہوتی ہے اور نہ ہی ایک وقت میں ایک ہی طریقہ کار مستحسن یا صحیح ہوتا ہے یا ہوسکتا ہے۔ بہرحال تنقید میں فاروقی کی کوشش یہ رہی ہے کہ وہ ایسی قدروں کو دریافت کریں اور ایسے معیار قائم کریں جن کا براہ راست تعلق ادب سے ہو، جس طرح اچھا ادب ہر طرح کے ’وقت‘ کو سہار جاتا ہے اور صدیوں بعد بھی اس کی روشنی میں کمی نہیں آتی، اسی طرح ایسی تنقید جو براہ راست ادب سے منسلک ہوگی وہ بھی بدلتے ہوئے حالات اور انسانی ماحول کی تبدیلیوں سے کم متاثر ہوگی اس سے پہلے کہ فاروقی کے بعض مضامین سے حوالے سے ان کی عمومی خیالات سے بحث کی جائے بہتر ہوگا کہ میں ان کے اہم تنقید ی نظریات کو مختصراً پیش کروں۔
فاروقی کا خیال ہے کہ تنقید اب محض ’’اسکالرشپ‘‘ کے سہارے زندہ نہیں رہ سکتی، یعنی وہ تنقید کو خیالات کی تاریخ یا کسی شاعر کی شخصی خصوصیتوں کے ذکر یا اس کے ماحول کے جائزے وغیرہ تک محدود نہیں رکھتے، اگرچہ کہ یہ چیزیں بھی اپنی اہمیت رکھتی ہیں۔ وہ اسکالرشپ کے بجائے اپنی تنقید کی بنیاد فن پارے (Text) کے مفصل اور گہرے تجزیاتی مطالعے پر رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک فن پارے میں موجود انفرادی خصائص کی جانچ پرکھ اور فن پارے کے قددر شناسی کا نحصار نقاد کے ذوق پر نہیں بلکہ اس موثر ذہنی تربیت پر ہونا چاہیے جس کی مدد سے نقاد فن پارے کا منطقی تجزیہ کرکے یہ بتاسکے کہ فلاں تحریر محض ذہنی مشق ہے یا پھر واقعی فن پارہ ہے اور اگر ہے تو کیوں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ،
’’ذوق ہمیں حسن کا ایک عمومی علم تو بخشتا ہے لیکن تنقیدی آلے کے طور پر ذوق بالکل بے کار اور ناقابل اعتبار ہے۔‘‘
پھر یہ بھی ہے کہ ذوق زمانے اور حالات کے تحت بدلتا رہتا ہے اور اگر محض ذوق پر تکیہ کرکے بیٹھ رہا جائے تو تنقید میں تجزیاتی منطق اور سائنسی قطعیت باقی نہیں رہتی۔ فاروقی نے اپنے مضمون ’’صاحب ذوق قاری اور شعر کی پرکھ‘‘ میں اس سوال سے مفصل بحث کی ہے۔ وہ ذوق کی مکمل نفی نہیں کرتے، لیکن چونکہ ذوق بہرحال ایک انفرادی چیز ہے اس لیے یہ قطعاً ضروری نہیں کہ شاعری کے تمام رموز و نکات تک یہ ہماری رہنمائی کرسکے۔
قاری تو قاری، کسی شعر کے سلسلے میں خود متعلقہ شاعر کے ذوق پر سوفی صد بھروسا نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ میر تقی میر سمیت جن شعراء نے خود ا پنے کلام کا انتخاب کیا ہے وہ تمام کا تمام ان کا بہترین کلام نہیں ہے۔ اسی طرح غالب نے اپنے مختلف اشعار کے مطالب بیان کیے ہیں لیکن فاروقی ان مطالب کو آخری اور قطعی نہیں سمجھتے۔ اس طرح ہم غالب کو زیادہ سے زیادہ کلام غالب کا ایک اور شارح کہہ سکتے ہیں۔ اس طرح فاروقی تنقید کو سائنسی اور عالمانہ ڈسپلن بنانا چاہتے ہیں یعنی ان کا مقصد ایک ایسا فکری نظام تیار کرنا ہے جن کی بنیاد اصولوں پر ہو نہ کہ فروعی خیالات یا پھر عمرانیات اور نفسیات جیسے علوم پر۔
شمس الرحمٰن فاروقی تنقید کو ایک ایسا عمل سمجھتے ہیں، جس میں موضوعی اور موضوعاتی دونوں طرح کے عوامل کا دخل نہیں ہوتا۔ تنقید کا کام قاری کو محض معلومات بہم پہنچانا نہیں بلکہ ایک ایسا علم عطا کرنا ہے جس کی بنیاد منطق اور استدلال پر ہو۔ ان کا مضمون ’’ادب کے غیرادبی معیار‘‘ اگرچہ براہ راست، اسٹب، لشمنٹ، وابستگی اور ناوابستگی جیسے مسائل سے بحث کرتا ہے لیکن اس مضمون میں بہ حیثیت مجموعی وہ ان تمام، غیرادبی معیارات کو رد کرتے ہیں، جن کی وکالت الیٹ تک نے کی ہے۔ ان کے خیال میں عصری آگہی اور سماجی ذمہ داری اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہیں اور شاعر کی زندگی میں ان کی اہمیت بھی ہوسکتی ہے لیکن یہ کسی فن پارے کی بہتری یا برتری کی ضمانت نہیں بن سکتیں۔
اسی طرح وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کوئی موضوع بجائے خود اہم یا غیراہم، دلچسپ یا غیردلچسپ نہیں ہوتا۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ کسی ادیب یا شاعر نے اپنے موضوع کو کس سطح پر برتا ہے اور اس برتاؤ میں وہ کس حدتک کامیاب یا ناکام ہوا ہے۔ موضوع کا تعلق تجربے سے ہوتا ہے لیکن تجربہ بمعنی experience اور تجربہ بمعنی experiment میں فرق ہوتا ہے۔
جہاں تک تنقید کی تھیوری کا خیال ہے اسے بہ حیثیت مجموعی دوقسموں میں بانٹا جاسکتا ہے۔ ایک تو وہ تنقیدی نظریات اور اصول جنہیں خود فن پاروں سے اخذ کیا جائے اور پھر ان کی مدد سے تنقیدی نتائج تک پہنچا جائے۔ اور دوسرے وہ نظریات اور اصول جنہیں نقاد، ادب کے بارے میں پہلے وضع کرلے اور پھر فن پاروں پر ان کا اطلاق کرے۔ فاروقی تنقید کرتے ہوئے زیادہ تر پہلے اصول پر کاربند رہتے ہیں لیکن دوسرے اصول کو بھی یکسر خارج از بحث نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک معروض (object) یا فن پارہ اپنا ایک الگ اور آزادانہ وجود رکھتا ہے، اس لیے وہ اہمیت ادب کو دیتے ہیں نہ کہ اس سے متگعلق باتوں کو۔
فنِ تنقید کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ ’’تنقید کیا ہے‘‘ کے مقابلے میں ’’تنقید کیا نہیں ہے‘‘ کا جواب زیادہ تشفی بخش طرح سے دیا جاسکتا ہے۔ وہ مندرجہ ذیل چیزوں کو تنقید کے دائرہ عمل سے خارج سمجھتے ہیں،
(الف) عمومی بیانات اور ذاتی تاثرات،
عمومی بیانات سے ان کی مراد ایسی خصوصیتیں مثلاً شوخی، سادگی، شیرینی، جدتِ خیال، ندرتِ ادا وغیرہ ہیں، جنہیں کسی ایک فن پارے سے مختص نہ کیا جاسکے۔ فاروقی اس قسم کی باتوں کو ذہنی عیاشی کے مترادف سمجھتے ہیں۔ ذاتی تاثرات، دراصل کسی فن کار یا اس کے فن کے تعلق سے نقاد کے وہ ردِ اعمال (Reactions) ہیں جن کا وہ سرسری اظہار تو کرتا ہے، لیکن جن کو استدلال کے ذریعے ثابت کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ (واضح رہے کہ اس ذیل میں فاروقی کی نظر ان عمومی بیانات اور تاثرات پر نہیں پڑتی جو خود ان کے اپنے قلم کے مرہونِ منت ہوتے ہیں۔ (ف۔ ج)
(ب) تاریخی، سوانحی اور سماجی پس منظر:
اس سلسلے میں ان کا سوال یہ ہے کہ،
’’ایک ہی زمانے اور ایک ہی سماجی پس منظر نے میر، نظیر اور سودا تینوں کو جنم دیا، تو یا تو وہ حالات غلط ہیں یا تینوں شاعر ایک ہی طرح کے ہیں۔ ظاہر ہے کہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ تو پھر حالات کی اہمیت یا معنویت کیا رہ گئی؟‘‘
اسی طرح ادیب کے ذاتی حالات، اور اس کے سماجی، سیاسی یا اخلاقی عقائد سے بھی انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ مثلاً یہ کہ وہ فیض کے عقائد کو سخت ناپسند کرتے ہیں، لیکن یہ ناپسندیدگی ان کی پسند اور فیضؔ کی شاعری کے درمیان دیوار نہیں بنتی۔ اسی طرح فاروقی خاصی دِقّتِ نظر سے کام لے کر ایسے درست اور قابل قبول اصولوں کو دریافت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن کی بنیاد بھی ادب ہو، اور جن کے ذریعے ادب کے بارے میں صحیح یا کم و بیش صحیح نتائج تک بھی پہنچا سکے۔
جیسا کہ اوپرعرض کرچکا ہوں، ہر اہم نقاد کی طرح آپ فاروقی سے بھی اختلاف کرسکتے ہیں، لیکن ان کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے فلاں مضمون رواداری میں لکھ دیا ہے۔ وہ کسی موضوع پر لکھتے ہوئے پہلے اس سے متعلق ہر ممکن تفصیل جمع کرتے ہیں، اسے ہر پہلو اور زاویے سے دیکھتے ہیں اور منطق اور استدلال سے نتائج تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
آئیے اب ایک نظر اس پر بھی ڈال لیں، کہ فاروقی کے پسندیدہ موضوعات کیا ہیں اور وہ اپنے مضمون ’’شعر، غیر شعر اور نثر‘‘ میں لکھتے ہیں،
’’اب اسے کیا کیجیے کہ نہ صرف اردو تنقید بلکہ بیشتر تنقید شعر کے گرد تو طواف کرتی رہی ہے لیکن اسے چھونے، ٹٹولنے اور اس کے جسم کے خطوط کی حدبندی اور پیمائش کرنے سے ڈرتی رہی ہے۔‘‘
دراصل فاروقی نے اپنی بساط بھر، اردو تنقید میں اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ شاعری کیا ہے، اچھی شاعری کو بُری شاعری سے کس طرح ممیز کیا جاسکتا ہے، شعر فہمی کے طریقے کیا ہیں، کن بنیادوں پر شعری اقدار کا تعین کیا جاسکتا ہے، ادب اور زندگی کا کیا تعلق ہے، ادیب اور شاعر اپنے ماحول کس طرح متاثر کرتا ہے یا پھر اس سے متاثر ہوتا ہے، نئی اور پرانی شاعری میں کیا اور کس طرح کا فرق ہے، اس فرق کو کیسے سمجھا اور سمجھایا جاسکتا ہے وغیرہ ایسے موضوعات ہیں جن سے فاروقی الجھے ہیں اور جنہیں سلجھانے کی کوشش کی ہے۔ ان کے بہت سارے مضامین مثلاً شعر کی ظاہری ہیئت، اردو وزن و آہنگ کے کچھ مسائل، ترسیل کی ناکامی کا المیہ، شعر کا ابلاغ، شعر کی دا خلی ہیئت، شعر غیر شعر اور نثر، علامت کی پہچان، صاحب ذوق قاری اور شعر کی سمجھ، مطالعۂ اسلوب کا ایک سبق، وغیرہ اسی سلسلے کی مختلف کڑیاں ہیں۔
ان موضوعات پر لکھتے ہوئے انہوں نے شعر فہمی اور شعری اقدار کے تعین کے کچھ اصول بنائے ہیں اور انہیں اصولوں کو انہوں نے مختلف نئے اور پرانے شاعروں پر لکھتے ہوئے برتا ہے۔ میں ان کے اس رویے کو ’’عملی تنقید‘‘ سے تعبیر کرتا ہوں۔ Roberts اور Rodway نے اپنے مشترکہ مضمون ’’عملی تنقید‘‘ میں لکھا ہے،
’’عملی تنقید کسی ادب پارے کو غور سے اور بغیر کسی تعصب کے پڑھنے کا نام ہے۔ عملی تنقید کے ذریعے ہی شاعری کو ناشاعری سے اور اچھی شاعری کو خراب شاعری سے ممیز کیا جاسکتا ہے۔‘‘
ظاہر ہے کہ شاعری کی پہچان کے سلسلے میں محض ذاتی تاثرات، نظم یا شعر کے نثر خلاصے یا ذوق پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ روایتی تنقید میں نظم کے معنی دریافت کرنے کے عمل میں زیادہ تر توجہ نظم کے موضوع پر کی جاتی رہی ہے جب کہ فاروقی کے خیال میں موضوع بجائے خود چھوٹا، بڑا، بُرا، شاعرانہ، غیرشاعرانہ نہیں ہوتا۔ اصل چیز موضوع کے ساتھ شاعر کا برتاؤ ہے۔ اس برتاؤ کو سمجھنے کے لیے شعر میں موجود ڈکشن، امیجری، استعارہ، علامت، تمثیل، صوتی کیفیت، ترتیب نحوی، آہنگ وغیرہ پر نظر رکھنی ہوگی۔ اس طرح فاوقی کی تنقید میں شعر کی زبان کو بڑی اہمیت حاصل ہوجاتی ہے۔ لیکن زبان سے ان کی اس دلچسپی کا مجموعی کردار لسانیات سے زیادہ علم معانی سے تعلق رکھتا ہے۔ زبان سے اس طرح کی دلچسپی سے بلوم فیلڈ اسکول سے تعلق رکھنے والے ماہرین لسانیات زیادہ خوش نہیں ہیں۔ ڈاکٹر مغنی تبسم اپنے مضمون ’’اردو تنقید گزشتہ ربع صدی میں‘‘ میں فاروقی کی تنقید سے بحث کرتے ہوئے یوں رقمطراز ہیں،
’’شمس الرحمٰن فاروقی کی تنقید میں جس کمی کا احساس ہوتا ہے، گوپی چند نارنگ کی تحریریں اس کا کسی حدتک ازالہ کردیتی ہیں۔ گوپی چند نارنگ نقاد ہونے کے علاوہ لسانیات سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔‘‘
اس سلسلے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ، اسلوبیات، لسانیات، صوتیات وغیرہ سے نقاد کی واقفیت اور ان کے استعمال کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ان علوم سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے، لیکن یہ بھی نہیں بھولنا چالیے کہ اگر یہ علوم نقاد پر حاوی ہوجائیں تو ادبی تنقید پر اس کی گرفت خود بہ خود کمزور پڑجاتی ہے۔ اس مسئلے سے بحث کرتے ہوئے پروفیسر گراہم باؤ نے اپنے مضمون Criticism as Humanist Discipline میں لکھا ہے کہ،
’’لسانیات کے مقابلے میں تنقید کا زبان سے تعلق بیک وقت وسیع بھی ہوتا ہے اور زیادہ محدود بھی۔ لسانیات ایک باہم پیوستہ (Interconnected) اور باضابطہ (Systematic) علم ہے اور اس سے تنقید کو جو روشنی ملتی ہے وہ صرف جزوی نوعیت کی ہوتی ہے۔‘‘
اسی سلسلے میں اور اسی مضمون میں پروفیسر موصوف نے چامسکی (Chomsky) کا بھی حوالہ دیا ہے۔ چند سال پہلے چامسکی نے Transformational گرامر پر ایک لیکچر کو ان اہم الفاظ پر ختم کیا،
’’اب میں اس سوال پر آتا ہوں جو دیر سے آپ کے ہونٹوں پر لرز رہا ہے، یعنی یہ کہ اس کا ادب سے کیا تعلق ہے۔ میں آپ کو دوبارہ یقین دلاتا ہوں کہ کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘
فاروقی نے اپنے مضمون ’’مطالعۂ اسلوب کا ایک سبق‘‘ میں اسی سلسلے کی بات کہی ہے کہ،
’’زبان شناسی (Linguistics) بہرحال ایک علم ہے، فن نہیں، جب کہ ادب ایک فن ہے علم نہیں، علم کی بنیاد حقائق پر ہوتی ہے، فن کی بنیاد اقدار پر، دونوں میں کوئی بہت گہرا میل نہیں۔‘‘
بہرحال چوں کہ ’شاعری‘ (فاروقی بھی بودیلیئر کی طرح تمام تخلیقی فن کاروں کے لیے ’شاعر‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں کیونکہ ’’شاعر‘‘ کے لغوی معنی ہی خالق کے ہیں بنیادی میڈیم ہی زبان ہے، اس لیے فاروقی کے خیال میں متعلق فن پارے کے لسانی کردار کے ڈھانچے کی مدد سے ہی اس کی فنی اور ادبی اقدار کی شناخت کی جاسکتی ہے۔
’’شعر، غیرشعر اور نثر‘‘ فاروقی کا نہ صرف ایک اہم بلکہ بہت ہی اہم مضمون اس لیے بن جاتا ہے کہ انہوں نے اس مضمون میں تینوں اصناف کے آپسی فرق پر گہری روشنی ڈکشن کے علاوہ شعر کے بہت سی دوسری لوازمات مثلاً ابہام، علامت، شعر کے آہنگ وغیرہ پر بھی بحث کی ہے۔ ان میں سے بعض مسائل کی مزید توضیح اور تفصیل کے طور پر انہوں نے بعد میں الگ سے بھی مضامین لکھے ہیں۔ ’’شعر، غیرشعراور نثر‘‘ کی ابتدایوں ہوتی ہے،
’’کیا شاعری کی پہچان ممکن ہے؟ اگر ہاں تو کیا اچھی اور بُری شاعری کو الگ الگ پہچاننا ممکن ہے؟ اگر ہاں، تو پہچاننے کے یہ طریقے معروضی ہیں یا موضوعی۔‘‘
ظاہر ہے کہ فاروقی کے نزدیک طریقے موضوعی نہیں بلکہ معروضی ہوں گے۔ اس طرح یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ شعر کو غیرشعر سے اور غیرشعر کو نثر سے ممیز کیا جائے۔
شاعری اور نثر کے مسئلے سے فاروقی نے اپنے ایک اور مضمون ’’ادب پر چند مبتدیانہ باتیں‘‘ میں بھی جزوی طور پر بحث کی تھی۔ اس مضمون میں انہوں نے شاعری کو نثر سے دواہم بنیادوں پر الگ کیا تھا۔
(۱) یاتو ہم کوئی چند نشانیاں گھڑلیں یا فرض کرلیں اور پھر یہ ثابت کریں کہ جس منظومے میں یہ پائی جائیں وہ شاعری ہوگا۔
(۲) جن اشعار کو عام طور پر اچھا سمجھا جاتا ہے ان کو پڑھ کر ہم مشترک خواص تلاش کریں اور یہ بتائیں کہ یہ خواص تمام شاعری میں پائے جائیں گے۔
(۳) ہم شعروں کو اپنی مرضی سے اچھا قرار دیں، پھر ان کے مشترکہ خواص کی نشان دہی کریں، پھر کہیں کہ تجربہ کرکے دیکھ لیجیے کہ یہ خواص سب اچھے شعروں میں ہوں گے اور جن میں نہ ہوں گے وہ شعر آپ کی نظروں میں بھی بُرے ہوں گے۔
(۴) ہم آپ سے کہیں کہ اپنی پسند کے اچھے شعر سنائیے، پھر آپ کے پسندیدہ شعروں میں ہم جن کو شاعری کا حامل سمجھیں، ان کی تفصیل بیان کریں اور کہیں کہ باقی شعر خراب ہیں۔
جیسا کہ اوپر عرض کرچکا ہوں، فاروقی، ادبی تنقید کے اصول خود ادب سے ہی اخذ کرنے کے قائل ہیں۔ اس لیے پہلا طریقہ ان کے بنیادی مسلک کے منافی ہے۔ چوتھے طریقے کو وہ مستحسن اور ممکن نہیں سمجھتے۔ دوسرے کو کسی حدتک اور تیسرے کو سب سے زیادہ مستحسن سمجھتے ہیں، اس لیے ان کے نزدیک یہ طریقہ ’’سب سے زیادہ منطقی‘‘ ہے۔
اس موڑ پر فاروقی کے قارئین یا کم از کم بعض قارئین دوقسم کی الجھنوں سے دوچار ہوسکتے ہیں، ایک تو یہ کہ جس طریقہ کار کے تحت، آپ شعروں کو اپنی مرضی سے اچھا قرار دیں وہ طریقہ منطقی Arbitrary زیادہ ہوگا۔ اور دوسرے یہ کہ جب آپ اپنی مرضی سے شعروں کو اچھا قرار دیتے ہیں، تو کیا اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یا تو آپ اپنے ذوق پر تکیہ کر رہے ہیں، یا پھر آپ کے ذہن میں اچھے شعر کے خواص پہلے سے موجود ہیں۔
اسی طرح فاروقی نے اپنے مضمون میں پیش کیے جانے والے دلائل کے ثبوت کے طور پر جن شعرا کا انتخاب کیا ہے اور بقول ان کے ’’جن کے بارے میں عمومی اتفاق ہے کہ یہ سب اچھے شاعر ہیں‘‘ ان کے نام یہ ہیں،
غالبؔ، دردؔ، میرؔ، سوداؔ، انیسؔ، اقبالؔ، راشدؔ، میراجی۔
اچھے شاعروں کی اس فہرست سے کلی یا جزوی اتفاق و اختلاف سے قطع نظر، فاروقی اپنی بحث کا آغاز کرتے ہوئے پوچھتے ہیں، کیا کلامِ موزوں شاعری ہوسکتا ہے؟‘‘ ظاہر ہے کہ اس کا جواب ہے ’نہیں ‘۔
قدما تک شعر اور کلامِ موزوں میں فرق کرتے تھے۔ شعر میں موزونیت ضروری ہے لیکن ہر موزوں کلام شعر نہیں ہوسکتا۔ قدیم مشرقی تنقید میں موزونیت کے علاوہ شعر کے دو اور خواص بتائے گئے ہیں کہ شعر بامعنی ہو اور بالارادہ کہا گیا ہو۔
شعر کے بامعنی ہونے کو فاروقی تسلیم کرتے ہیں لیکن رچرڈز کی اس شرط کے ساتھ کہ شعر کی معنویت ہمیشہ چند رسوم (Conventions) کی پابند ہوتی ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے جملہ معترضہ کے طور پر ہی سہی لیکن یہ واضح کرتا چلوں کہ جدید تنقیدی نظریے کے لحاظ سے ’رسم‘ (Convention) سے ہر وہ شے مراد لی جاتی ہے جو فن کار پر چند ضروری شرائط عائد کردے۔ اس طرح نثر یا ڈرامے کے بجائے وسیلۂ اظہار کے طور پر شاعری کا انتخاب ایک ایسی مناسب رسم کا انتخاب ہے جس سے فن کار اپنے مزاج کو ہم آہنگ محسوس کرتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شاعری اور دیگر فنونِ لطیفہ بجائے خود ’’رسوم‘‘ ہیں۔ کیونکہ یہ کسی نہ کسی حد تک زندگی کو Distort کرتے ہیں۔ اس طرح رسوم اپنے محدود لیکن صحیح معنی میں وہ خصوصیات اور تکنیکی اجزا ہیں جن کا تعلق شعر کی ہیئت سے نہیں بلکہ ان حالات سے ہوتا ہے جو تخلیق شعر کا سبب ہوتے ہیں۔ آسان زبان میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ’’رسوم‘‘ شاعری کی فطری اور داخلی ضروریات کا دوسرا نام ہے۔
رچرڈز کے نظریۂ رسوم کے علاوہ فاروقی مرے کریگر کے اس خیال سے بھی متفق ہیں کہ شعر کی معنویت ہر شخص کے لیے الگ الگ ہوتی ہے یعنی شعر کے تعلق سے ہر قاری کا تجربہ اس اپنا انفرادی تجربہ ہوتا ہے۔ لیکن یہاں فاروقی یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں،
’’خدا کے لیے کوئی تو ایسا اصول ہوگا جس کی روشنی میں ہم غالب اور عزیز لکھنوی میں فرق کرسکیں۔‘‘
روایتی نقاد فاروقی کے اس سوال کا جواب زیرلب تبسم کے ساتھ یوں دے گا کہ پچھلے پچاس برسوں میں اگر کسی نے عزیز لکھنوی کو غالب کا ہم پلہ یا اس کے آس پاس کا شاعر بھی ٹھہرایا ہوتا تو ہمیں آپ کے اصولوں کی ضرورت یا ان کی پرواہ ہوتی۔
رین سم نے کہیں لکھا ہے کہ ایک اعلیٰ درجے کے نقاد کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ بہتر شاعری کو کمتر درجے کی شاعری سے ممیز کرنے کے لیے مناسب اصولوں کی تلاش کرے۔ فاروقی نے اس سلسلے میں جس دقتِ نظر سے کام لیا ہے اس کی داد نہ دینا ناانصافی ہوگی۔ مختلف زمانوں میں مختلف لوگ شعر اور نثر کے آپسی فرق کو پہچاننے اور پہچنوانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ سولہویں صدی عیسوی میں جب Jeremy Bentham نے کہا تھا کہ شعر اور نثر میں تمیز کرنا اس لیے بہت آسان ہے کہ نثر میں سطور صفحے کے آخرتک جاتی ہیں جب کہ شاعری میں ایسا نہیں ہوتا تو بیلتھم نے دراصل شعر اور نثر میں نہیں بلکہ غیر شعوری طور پر نثر اور غیر شعر میں فرق کرنے کی کوشش کی تھی۔
بال ویلیری کے نزدیک نثر کا مقصد ہمیشہ متعین ہوتا ہے کیونکہ نثر ایک ایسا ذریعہ ہے جس کے توسط سے ہم کسی چیز تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ برخلاف اس کے، شعر ہمیں کسی متعینہ منزل تک نہیں پہنچاتا۔ مقصد کے حصول کے بعد نثر کا کام ختم ہوجاتا ہے جب کہ شاعری بار بار جنم لیتی ہے، شعر کے معنی بدلتے رہتے ہیں اور آپ ہر بار شعر میں معنی کی ایک نئی سطح دریافت کرسکتے ہیں۔ انہی وجوہات کی بناپر ویلیری نے شعر کو رقص، اور نثر کو پیدل چلنے سے تشبیہ دی ہے۔
یہ تسلیم کرتے ہوئے بھی کہ شاعری سائنس یا نثر نہیں ہے اگرچہ شعر میں نثری یا سائنٹفک معنی ہوسکتے ہیں، نقاد کی الجھنیں اس لیے بڑھ جاتی ہیں کہ شعر اور نثر کا میڈیم مشترکہ ہے یعنی الفاظ یا یوں کہیے کہ زبان۔ شاید اسی لیے Mrs. Isabel Hunger land نے رچرڈز کی حوالہ جاتی (Referential) اور احساساتی (Emotive) زبان والے نظریے پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے،
’’روز مرہ زندگی میں استعمال ہونے والی زبان میں موجود سبھی خصائص طریق کار اور سانچے شاعری میں بھی بجنسہ موجود ہوتے ہیں اس لیے روزمرہ کی مستعمل زبان ہی شاعری کا میڈیم ہے۔‘‘
میڈیم ہنگرلینڈ نے ایئٹس، باہرن، ورڈزورتھ اور مارویل کی نظموں سے چار مختلف اقتباسات کا تجزیہ کرکے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ڈکشن اور معنی کے اعتبار سے کوئی ایسی زبان نہیں ہے جسے محض شعر سے مخصوص کیا جاسکے۔ لیکن ایک اور نقاد Brain lee کے نزدیک ہینگر لینڈ کے ان تنقیدی نتائج کی صحت خاصی مشکوک ہے۔ اس لیے بھی کہ موصوفہ نے اپنے پیش کردہ شعری اقتباسات کا محض عروضی تجزیہ کیا ہے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، برین لی کا مضمون: The New Criticism and o language of Poetry مطبوعہ Essays on style and language, Ed۔ Roger Fowler
بہرحال اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہی ہوگا کہ شعر اور نثر میں بہت کچھ الفاظ مشترکہ ہی رہتے ہیں۔ آوازوں اور لہجے میں بھی ایک حدتک یکسانیت پائی جاتی ہے۔ چنانچہ اب نقاد کے سامنے یہ راستہ رہ جاتا ہے کہ وہ شعر اور نثر میں تکنیکی بنیادوں پر تفریق اور تمیز کرے۔ روایتی نقاد شعر میں وزن اور آہنگ پر بہت زور دیتے رہے ہیں لیکن جیسا کہ فاروقی نے مختلف مثالوں کی مدد سے ثابت کیا ہے، وزن اور آہنگ تنہا شعر کی ملکیت نہیں ہیں۔ یہ دونوں چیزیں نثر میں بھی پائی جاتی ہیں۔ فاروقی کے نزدیک شعر کا پہلا وصف تفیصل کا اخراج ہے یعنی شعر میں وہ وضاحتی یا بیانیہ الفاظ نہیں ہوتے جن کے بغیر نثر کا تسلسل قائم نہیں رہ سکتا۔ فاروقی نے اس سلسلے میں احمد ہمیش کی نظموں سے مثالیں دے کر یہ بات بھی ثابت کی ہے کہ وزن اور اندرونی آہنگ کے ساتھ ساتھ ان نظموں میں تفصیل کا اخراج اور جدلیاتی الفاظ وغیرہ بھی موجود ہیں۔ اس لیے ان کے نزدیک ان نظموں کو نثری نظمیں نہیں کہا جاسکتا۔
فاروقی کے نزدیک شعر کی وہ دوسری خصوصیتیں جو محض شعر کی ملکیت ہیں، انہیں موزونیت، جدلیاتی لفظ اور ابہام کے نام دیے جاسکتے ہیں۔ جدلیاتی لفظ سے وہ تشبیہ، استعارہ، پیکر اور علامت مراد لیتے ہیں۔ اگرچہ کہ جدلیاتی الفاظ کا استعمال تخلیقی نثر میں بھی ہوتا ہے، لیکن بدرجۂ مجبوری، کیونکہ فاروقی کے نزدیک جدلیاتی لفظ ’’اصلاً شاعری کا وصف ہے‘‘ ان کے خیال میں ہر اچھے شعر میں موزونیت اور تفصیل کے اخراج کے ساتھ ساتھ جدلیاتی لفظ اور ابہام میں یا تو کوئی ایک یا دونوں خصوصیتیں پائی جائیں گی۔ ابہام جدلیاتی لفظ کے استعمال سے بھی پیدا ہوسکتا ہے، اور معنی کی ذومعنویت سے بھی، کیوں کہ شاعر لفظوں کو قطعیت کے ساتھ استعمال نہیں کرتا۔ چنانچہ وہی اشعار مبہم نہیں ہوتے جن میں مشکل الفاظ یا علامتوں کا استعمال کیا گیا ہو اور جن کو سمجھنے کے لیے غیر معمولی غور و فکر سے کام لینا پڑے، بلکہ وہ اشعار بھی مبہم ہوسکتے ہیں جو بظاہر تو بڑے سادہ اور آسان معلوم ہوتے ہیں لیکن جن میں قاری کے ذہن کو بیک وقت مختلف سوالات سے دوچار کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اپنی دلیل کے ثبوت میں فاروقی نے میر، غالب اور دوسرے شعرا کے یہاں سے بہت سی ایسی مثالیں پیش کی ہیں جنہیں لوگ برسوں سے سہل ممتنع سمجھتے آئے ہیں، لیکن جن میں معنی کی کئی تہیں پوشیدہ ہیں۔
وہ اشعار جن میں موزونیت اور اجمال کے علاوہ ایسے خواص مثلاً سلاست، برجستگی، طنز و مزاح اور بے تکلفی وغیرہ موجود ہوں۔ ’’شاعری یعنی خالص شاعری یعنی اچھی شاعری کے زمرہ میں نہ آکر، غیرشعر کے زمرہ میں آئیں گے‘‘۔ ان اشعار پر ’’آپ کتنا ہی سردُھن لیں، واہ واہ کرلیں، موقعے موقعے سے تحریر کردیں۔۔۔ گفتگو میں پڑھ لیں، نوجوان انہیں مجبوباؤں کے نام خطوں میں لکھیں، لیکن ان کی طرح کے گیارہ شعروں کی غزل یا تیس مصرعوں کی نظم معنوی دنیا میں اتنی دور تک آپ کا ساتھ نہیں دے سکتی، جتنی دور تک غالب کا ایک خط آپ کے ساتھ چل سکتا ہے۔‘‘
فاروقی کی نقل کردہ غیرشعر کی بعض مثالیں ملاحظہ ہوں،
تجاہل، تغافل، تبسّم، تکلّم
یہاں تک وہ پہنچے ہیں مجبور ہوکر
(جگر)
وہاں دیکھے کئی طفلِ پری رَہ
ارے رے رے، ارے رے رے ارے رے
(سوز)
زور و زر کچھ نہ تھا تو بارے میرؔ
کس بھروسے پہ آشنائی کی
(میر)
لڑکپن میں الفت کا ہم کھیل کھیلے
وہ تُتلاکے کہنا الے لے، الے لے
(مجذوب)
یہاں میں مزید بحث کرنے سے پہلے فاروقی کے ان چند جملوں کو بھی نقل کرنا چاہوں گا جن پر انہوں نے اپنے اس طویل و دقیق مضمون کا اختتام کیا ہے۔ ملاحظہ ہو،
’’شاعری کے خواص کا بیان آپ نے پڑھ لیا، جہاں آپ متفق نہ ہوں، ان شعروں سے بحث کریں ہمارا آپ کا سفر ش روع ہوتا ہے۔ زادراہ کے طور پر کولرج کا یہ قول ساتھ لیتے چلیں۔
ہر وہ شخص جو حقائق کی بہ نسبت اپنے ہی مسلک و مذہب کے ساتھ زیادہ محبت رکھتے ہوئے آغاز کار کرتا ہے، آگے بڑھ کر اپنے مذہب سے زیادہ اپنے فرقے یا جماعت سے محبت کرنے لگتا ہے اور انجام کار اسے اپنے علاوہ کسی اور سے محبت نہیں رہ جاتی۔
اب اس اختتام پر وارث علوی کا تبصرہ بھی ملاحظہ کرتے چلیے،
’’فاروقی نے اس مضمون میں یاران سخن کو بحث میں حصہ لینے کی دعوت بھی دی ہے۔ مصیبت یہ کہ ہمارے نقاد پٹے پٹائے راستوں کو چھورنا پسند نہیں کرتے۔ ورنہ مثلا ترقی پسند اور مارکسی نقاد جدیدیوں پر سیاسی طنز کرنے کے بجائے فاروقی کی بوطیقا کے خلاف کمربستہ ہوجاتے تو نثری خواص والی شاعری پر ایک نئے زاویے سے روشنی پڑتی، لیکن اس کام کے لیے انہیں ایسے بہت سے شاعروں کو پڑھنا پڑتا، جن کا میں نے اوپر ذکر کیا۔ ایسے شاعروں کو پڑھنے سے تو آپ جانتے ہی ہیں ترقی پسندوں پر غسل واجب ہوجاتا ہے۔
اب بڑے بھائی کی مصیبت یہ ہے کہ مسئلے کی نوعیت خواہ کچھ بھی ہو وہ ترقی پسندوں کو گالیاں دیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ انہیں کھٹی ڈکاریں آنے لگتی ہیں، ورنہ وہ سوچتے کہ فاروقی نے جو خاص علمی اور ادبی نکات اٹھائے ہیں، ان سے بحث کرنے کے لیے ترقی پسندوں سے زیادہ خود وہ موزوں ہیں، مگر بھائی وارث کا پرانا وطیرہ یہ ہے کہ وہ نازک موقعوں پر اپنے عالم برزخ کے باشندے ہونے کا اعلان کر کے چپ چاپ نکل لیتے ہیں۔ ویسے انہوں نے اس مضمون پر یقیناً بہت عمدہ اور مفصل تنقید کی ہے اور خصوصاً اس بات پر بجاطور پر اصرار کیا ہے کہ،
فاروقی کا نظریہ ایک خاص قسم کی شاعری کے لیے ہی درست ثابت ہوسکتا ہے، ورنہ مثلاً آڈن کی شاعری میں نثر کے وہ تمام خواص موجود ہیں، جن کا فاروقی نے بیان کیا ہے۔ آپ کہیں گے کہ ان خواص کی وجہ سے آڈن کی شاعری، شاعری نہیں رہتی، میں کہتا ہوں کہ جہاں اس کی شاعری، شاعری رہتی ہے وہاں بھی یہ خواص موجود ہوتے ہیں۔
اب اس سلسلے میں دوچار باتیں مجھے کہنی ہیں وہ بھی سن لیجیے حالاں کہ فاروقی نے اس مسئلے پر بحث کی دعوت،
’’بے طاقتی کے طعنے ہیں عذر جفا کے ساتھ‘‘
والے انداز میں دی ہے۔ کولرج کا قول انہوں نے نقل کیا ہے، وہ اس کی وضاحت کردیتا ہے کہ آپ چاہیں تو بحث کرسکتے ہیں، زیادہ جرأت کریں تو اختلاف بھی کرسکتے ہیں لیکن ایسی صورت میں اگر آپ پر ’حق‘ کا ساتھ نہ دے کر محض اپنے مسلک کا ساتھ دینے (یعنی ہٹ دھرمی سے کام لینے) یا پھر اپنے آپ سے محبت کرنے (یعنی تنقید کو خالص موضوعی انداز میں برتنے) کا الزام آجائے تو برامت مانیے گا۔
میں فاروقی کے تھیسس کے دو تہائی حصوں (عنوان کے اعتبار سے) کم و بیش متفق ہوں، میرا ان کا اختلاف شعر اور نثر کے مسئلے پر نہیں بلکہ غیر شعر کے تعلق سے ہے۔ جیسا کہ خود فاروقی نے لکھا ہے ان کے بیان کردہ خواص خالص شاعری (Pure Poetry) کے خواص ہیں۔ فاروقی خالص شاعری اور اچھی شاعری کو متبادل اصطلاح کے طور پر قبول کرتے ہیں جب کہ میرے نزدیک خالص شاعری یقیناً اچھی شاعری ہوسکتی ہے بلکہ زیادہ تر ہوتی ہے، لیکن اچھی شاعری کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ خالص شاعری ہو۔ اسی لیے آڈن کا مشہور نقاد John Bayley آڈن کی بہت تعریف کرنے اور الیٹ وغیرہ سے اس کا مقابلہ کرنے کے بعد یہ وضاحت بھی ضروری سمجھتا ہے کہ،
’’ان باتوں سے میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ آڈن نے خالص شاعری یا تقریباً خالص شاعری کی ہے لیکن آڈن کی شاعری میں وہ خصوصیت ضرور موجود ہے جسے ’شاعری کا جادو‘ کہا جاتا ہے۔‘‘
(Twentieth Century Poetry: Critical Essays and Documents, Ed۔ Graham Martin and P۔ N۔ Forbank p.375)
اس کا مطلب یہ ہوا کہ نہ صرف آڈن کی شاعری بلکہ دنیا کی شاعری کا ایک بڑا حصہ شعر (Poetry) کے زمرے میں نہ آکر غیر شعر (Verse) کے زمرے میں آئے گا۔ یہاں ایک گڑبڑ یہ بھی ہوگئی ہے کہ فاروقی نے غیرشعر (Verse) اور کلام موزوں (Rhymed Statement) یعنی تک بندی میں کوئی فرق نہیں کیا۔
وہاں دیکھے کئی طفل پری رو
ارے رے رے ارے رے رے ارے رے
لڑکپن میں الفت کا ہم کھیل کھیلے
وہ تُتلا کے کہنا الے لے، الے لے
میرے نزدیک غیرشعر کی مثالیں نہ ہوکر محض کلام موزوں یا تک بندی کی مثالیں ہیں، جب کہ میر کا شعر،
زور و زر کچھ نہ تھا تو بارے میر
کس بھروسے پہ آشنائی کی
اچھی شاعری کا نمونہ ہے۔ اس میں سلاست اور برجستگی کے علاوہ طنز (Irony) کی جو ایک کاٹ ہے وہ اسے سوز اور مجذوب کے مندرجہ بالا اشعار سے بلند کردیتاہے۔
یہاں یہ بھی یاد دلاتا چلوں کہ جب شمس الرحمٰن فاروقی گیارہ اشعار کی غزل اور تیس اشعار کی نظم کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ ان کے مقابلے میں غالب کا ایک خط زیادہ دور تک آپ کا ساتھ دے سکتا ہے تو دراصل وہ کلامِ موزوں کی ہی بات کرتے ہیں۔ میں غالب کے اس خط کا مقابلہ میر، سوز، امیر مینائی اور مجذوب وغیرہ کے معمولی اشعار سے نہیں بلکہ پوپ کی نظم An Essay on Man اقبال کی جو اب شکوہ، سردار جعفری کی نظم ’’ایشیا جاگ اٹھا‘‘ ، مولانا حالی کے ’’مسدس‘‘ اور خود غالب کے کئی اشعار مثلاً
غالب وظیفہ خوار ہو دوشاہ کو دعا
وہ دِن گئے کہ کہتے تھے نوکر نہیں ہوں میں
سے کروں گا، کیوں کہ یہ تمام چیزوں خالص شاعری نہیں بلکہ غیرشعر یعنی Verse ہیں اور غیرشعر کی اصطلاح کو بُری شاعری کے معنی میں استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ چوں کہ اس بحث کے سلسلے میں وارث علوی نے بطور خاص آڈن اور اس کی شاعری کا ذکر کیا ہے اس لیے میں اپنی بات آڈن کے حوالے سے ہم ختم کروں گا۔
آڈن نے اپنے ایک مضمون میں (جو Writing کے عنوان سے ڈیوڈ لاج کی مرتب کردہ کتاب ’’بیسویں صدی میں تنقید‘‘ میں شامل ہے) شعر، غرشعر اور نثر سے بحث کرتے ہوئے یہ بات وضاحت سے لکھی ہے کہ اگر شعر کے فارم میں منطقی خیالات کا اظہار یا didactic مقاصد کا حصول مقصود ہو تو غیر شعر نہ صرف موزوں بلکہ نثر کے مقابلے میں بہتر میڈیم ہے۔ میں اس کا مطلب یہ نکالتا ہوں کہ اگر شاعر کا مقصد جمہور کو درسِ خودی دینا ہے، انقلاب کی اہمیت سمجھانا ہے اور اسے پرکشش بنانا ہے، سماج پر طنز یا کسی مخصوص طرزِ زندگی پر وار کرنا ہے تو اس کے لیے غیر شعری ہی موزوں ترین ذریعہ اظہار ہوسکتا ہے، اور اس زمرہ میں آنے والی شاعری کا بیش تر حصہ اچھی شاعری کے زمرہ میں آئے گا چاہے وہ خالص شاعری نہ ہو۔
جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا ہے، ’’شعر، غیر شعر اور نثر‘‘ فاروقی کا بے حد اہم مضمون ہے، اس لیے کہ انہوں نے اس مضمون میں کم و بیش ان تمام مسائل پر تفصیل یا اختصار کے ساتھ روشنی ڈالی ہے جن کا تعلق شعر کی بوطیقا سے ہوسکتا ہے۔ مثلاً یہ کہ جب وہ خالص شاعری کے خواص مقرر کرتے ہیں تو پڑھنے والے کے ذہن میں اس سوال کا آنا ناگزیر ہے کہ اگر ہمیں یہ تمام خصوصیتیں بیک وقت بہت سارے شاعروں کے یہاں نظر آئیں تو پھر شاعرو ں کی درجہ بندی کیسے کی جائے۔
فاروقی کا کہنا ہے کہ چوں کہ ’’موضوعات کسی کی ملکیت نہیں ہیں‘‘ اس لیے ’’کسی شاعر کی انفرادیت کو پہچاننے، پرکھنے یا اس سوال کو طے کرنے میں کہ اس میں انفرادیت ہے بھی یا نہیں، ہمیں پایانِ کار اس کے اسلوب کا سہارا لینا پڑتا ہے۔‘‘
اسلوب شناسی کے تعلق سے یا کسی شاعر کے شعری مرتبے کے تعین کے تعلق سے وہ اقداری فیصلوں کے تو قائل ہیں۔ (اس سلسلے میں فاروقی کا مضمون ’’پانچ ہم عصر شاعر‘‘ ایک اچھی مثال ہے) لیکن عام طور پر وہ ایسے بیانات سے احتراز کرتے ہیں جنہیں گھماپھراکر کسی بھی شاعر پر چپکایا جاسکتا ہے۔ چنانچہ وہ اس کمزوری پر قابو پانے کے لیے اسلوبیات کی مدد سے یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کسی شاعر کے یہاں جدلیاتی الفاظ کا استعمال کس طرح اور کن سطحوں پر ہوا ہے، کس کے یہاں معنی کی زیادہ تہیں ملتی ہیں، اور کس شاعر کے یہاں کس طرح کا استعاراتی اور علامتی نظام ملتا ہے۔ پھر ہر اہم شاعر کے اپنے مخصوص کلیدی الفاظ ہوتے ہیں جو اس کے شعری ڈکشن کو انفرادیت عطا کرتے ہیں۔
اس ضمن میں شعر میں موجود ظاہری اور داخلی آہنگ، بحروں کے انتخاب اور افعال کے استعمال جیسی چیزوں پر بھی نظر رکھنی پڑے گی۔ نہ صرف اتنا بلکہ کسی ایک شاعر کے اسلوب کو متعین کرنے کے لیے اس کے اسلوب سے دوسرے شعرا کے اسالیب کا تقابلی موازنہ بھی ناگزیر ہوجائے گا۔ انہی باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے فاروقی نے اپنے مضمون ’’مطالعۂ اسلوب کا ایک سبق‘‘ میں میر، سودا اور غالب کی تین ہم طرح غزلوں کا اسلوبیاتی جائزہ لیتے ہوئے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ غالب کا اسلوب بہتر شعری اسلوب ہے۔
اسی سلسلے کا ان کا ایک اور ٹیکنیکل مضمون ’’علامت کی پہچان‘‘ ہے۔ علامت کی تعریف اور تشکیل کے سلسلے میں وہ فرائڈ اور یونگ کو بجاطور پر اس لیے زیادہ قابل توجہ نہیں سمجھتے کہ یہ حضرات نہ تو ادب کے نقاد تھے اور نہ ہی تخلیقی فن کار تھے۔ وہ جدید امریکی نقادوں بلکہ عالمی سطح پر ’’نئی تنقید‘‘ کے معماروں مثلاً رین سم، ای ڈمنڈ برک وارپن وارن کے خیالات کو ’’موشگافیاں‘‘ کہہ کر ٹال دیتے ہیں، اس لیے کہ بقول فاروقی، ان لوگوں نے ’’کولرج سے اینٹیں مستعار لے کر اپنی فکر کی نازک عمارات تعمیر کی ہیں۔‘‘ فاروقی کے نزدیک یہ سب لوگ ’’کولرج کے ہی خوشہ چیں ہیں۔‘‘
ذاتی طور پر مجھے فاروقی کے اس خیال سے قطعاً اتفاق نہیں ہے۔ رین سم وغیرہ پر کولرج کے اثرات دکھانے میں فاروقی نے اسی مبالغے سے کام لیا ہے، جو پروفیسر J. Shawcross کے یہاں کولرج پر Schelling کے اثرات کے سلسلے میں نظر آتا ہے۔ متذکرہ نقادوں نے کولرج سے اسی طرح فائدہ اٹھایا ہے جس طرح کولرج نے کانٹ کے زیر اثر پروان چڑھنے والے جرمن نقادوں سے۔
جہاں مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ فاروقی نے رین سم وغیرہ کی تنقید کا مطالعہ غیرمعمولی انہماک سے کیا ہے وہیں مجھے اس کا افسوس بھی ہے کہ انہوں نے ان نقادوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ اس بحث سے قطعِ نظر، اب جہاں تک علامت کی پہچان کا سوال ہے، فاروقی نے خوشہ چینوں کو نظرانداز کرکے براہِ راست خوشے سے استفادہ کیا ہے۔
کرلرج کے نزدیک حقیقت اگر شخص ہے تو علامت تشخیص ہے، اور یہ کہ علامت ’’بیک وقت عمومی بھی ہوتی ہے اور مخصوص بھی۔‘‘
یہ تو سب ہی مانتے ہیں کہ علامتی لفظ قاری کو خیال کے وسیع تلازموں سے متعارف کراتا ہے۔ اس لیے علامت ضروری طور پر معنی کی کثرت سے عبارت ہوئی ہے۔ ایڈمنڈلسن نے فرانسیسی علامت پرستوں کا ذکر کرتے ہوئے علامت کی تعریف یوں کی تھی کہ علامتیں ’’اشیا کو بیان نہیں کرتی بلکہ پیش (Intimate) کرتی ہیں۔‘‘ اسی سلسلے میں ولسن نے یہ بھی کہا تھا کہ علامت پسند شعرا کے یہاں علامتوں کا استعمال، من مانی (Arbitrary) ہوتا ہے۔
فاروقی نے ولسن کا نام نہ لیتے ہوئے اس الزام کی تردید کی ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ ’’کثیر المعنویت‘‘ کا مطلب Arbitrary یا من مانی علامتوں کا انتخاب یا استعمال نہیں ہے۔ جس طرح علامتوں کا نیا استعمال بھی انہیں نئے معنی عطا کرتا ہے۔ چوں کہ علامتوں کا استعمال محض ادب کی جاگیر نہیں ہے اس لیے فاروقی نے اپنے مضمون میں ادبی اور غیرادبی علامتوں کے آپسی فرق پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ مثال کے طور پر انہوں نے غالب کے مختلف اشعار میں لفظ ’’دشت‘‘ کے مختلف علامتی مفاہم کا بڑا اچھا تجزیہ پیش کیا ہے۔ اس تجزیے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی ایک مخصوص لفظ علامت کے طور پر ہر بار نئے معنی میں استعمال کیا جائے، اس کے لفظ کا علامتی کردار باقی رہتا ہے، لیکن اگر یہ تکرار ایک ہی مفہوم سے وابستہ ہو تو علامت کی تازگی اور شدت ختم ہوجاتی ہے۔
فاروقی کے اس مضمون کا موضوع اس بات کا بھی متقاضی تھا کہ ان فرانسیسی شعرا کا ذکر قدرے تفصیل سے کیا جاتا جن کی وجہ سے علامت پسندی نے ایک مستقل مدرسۂ فکر کی حیثیت اختیار کرلی۔ اسی طرح فاروقی نے اپنے ایک مضمون ’’نئی شاعری ایک امتحان‘‘ میں یہ بات تسلیم کی تھی کہ ’’بہرحال اردو کا نیا شاعر کسی نہ کسی حیثیت سے علامت پرست ہے‘‘ لیکن زیرِ نظر مضمون میں نئی شاعری کے علامتی کردار کے بارے میں صرف یہ کہہ کر بات ختم کردی ہے کہ،
’’اردو میں علامتی نظموں کا تقریباً قحط ہے اور جو نظمیں ہیں بھی وہ تنہا علامتیں استعمال کرتی ہیں، جیسے بلراج کومل کی نظم ’’سرکس کا گھوڑا‘‘ افتخار جالب کی نظم ’’چومتا پانی‘‘ اس لیے موجودہ مقصد کے لیے ناکافی ہیں۔‘‘
ان کے مضمون کا ’’موجودہ مقصد‘‘ یقیناً اردو کی علامتی شاعری پر لکھنا نہیں بلکہ علامت کو بہ حیثیت ایک ادبی اصطلاح کے سمجھنا ہے، لیکن اگر اردو کے چند اہم علامتی شاعروں یعنی میراجی، راشد اور اخترالایمان سے کچھ بحث ہوجاتی تو قارئین کے لیے مضمون کا سیاق و سباق اور بھی زیادہ واضح ہوجاتا۔
جدید شاعری بلکہ یوں کہیے کہ شاعری کے رموز و علائم کی افہام و تفہیم کے سلسلے میں فاروقی کے مضمون ’’ترسیل کی ناکامی کا المیہ‘‘ کو جو شہرت ملی ہے وہ ہمارے پورے عہد میں سلیم احمد کے مضمون ’’نئی نظم اور پورا آدمی‘‘ کے علاوہ شاید کسی اور مضمون کو نہیں مل سکی۔ اس مضمون کے بارے میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور اب بھی وقتاً فوقتاً لکھا جاتا رہتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ چند جدید شاعروں نے عمومی طور پر اور ان میں سے کچھ نے خصوصی طور پر قدیم، مستعمل، گرامر زیادہ لفظیات کو دوبارہ ترتیب دے کر اپنی شاعری کو میوزیم بنانے کے بجائے استعاروں، علامتوں اور پیکروں پر مشتمل اظہار کا ایک نیا ڈھانچہ تیار کیا ہے۔
اس طرح شاعری میں ابہام کی ایک نئی اور چونکادینے والی سطح کا پیدا ہوجانا فطری بات ہے۔ فاروقی کامضمون ’’ترسیل کی ناکامی کا المیہ‘‘ اس نئی سطح سے بحث اور اس سے وابستہ مختلف عوامل و عناصر کی وضاحت کی بھرپور کوشش ہے۔ اس مضمون پر کافی لے دے ہوئی۔ زیادہ تر لوگوں نے اپنے آپ کو طنزیہ جذباتی مباحث تک محدود رکھا۔ ہاں ڈاکٹر عصمت جاوید نے اپنے مضمون ’’لفظ، معنی اور ابلاغ کا رشتہ‘‘ میں بڑی حدتک علمی بحث کی ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے آئیے یہ دیکھ لیں کہ فاروقی کے نزدیک ترسیل کی ناکامی کے اہم اسباب کیا ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ،
(۱) ذہن میں پہلے سے طے شدہ معنی کی موجودگی، نئے معنی کو سمجھنے اور قبول کرنے میں سدِّراہ بن جاتی ہے۔
(۲) ترسیل کا جذبہ شاعری کا محرک ہے لیکن ترسیل مکمل ابلاغ کو جنم نہیں دیتی۔ زیادہ سے زیادہ اسی یا نوے فی صد ابلاغ ممکن ہے۔
(۳) چوں کہ نئی شاعری کی زبان، عام شاعری کی زبان کے مقابلے میں توڑی پھوڑی ہوئی کھینچی تانی ہوئی اور نامانوس ہے اس لیے نئی شاعری کے پس منظر میں ترسیل کا مسئلہ زیادہ اہم اور سنجیدہ ہوگیا ہے۔
(۴) ہردو میں دو طرح کے شاعر ہوتے ہیں، ایک تو وہ جو اپنے دور کی جانی پہچانی زبان سے ہم آہنگ ہوتے ہیں، دوسرے وہ جو اپنے عہد سے آگے ہوتے ہیں، اس طرح ان کی شاعری میں ترسیل کی اہمیت نسبتاً کم ہوتی ہے۔
(۵) اگر قاری خود کو شاعری کی جگہ رکھ کر پڑھے اور زبان کو شاعر کی طرح استعمال کرنا سیکھے تو مسئلہ کسی حدتک حل ہوجائے گا۔
(۶) موجودہ تہذیب اور زندگی کی بڑھی ہوئی پیچیدگیوں نے شعر کی زبان کو بھی زیادہ پیچیدہ بنادیا ہے۔
شمس الرحمٰن فاروقی نے اپنے زیربحث مضمون نیز دوسرے مضامین مثلاً ’’شعر کا ابلاغ‘‘ وغیرہ میں ترسیل اور ابلاغ کو دو مختلف ادبی اصطلاحوں کے طور پر استعمال کیا ہے۔ میں اس مسئلے پر عصمت جاوید سے متفق ہوں کہ یہ دونوں الگ الگ نہیں، بلکہ ایک ہی چیز ہیں۔ ابلاغ یعنی (Comprehension) کا ترسیل سے الگ کوئی وجود نہیں ہے۔ ترسیل (Communication) بجاے خود دوطرفہ عمل ہے اس لیے ’ابلاغ‘ ترسیل سے ہی جڑا ہوا ہوتا ہے۔ میرے نزدیک فاروقی کا یہ مضمون ہرلحاظ سے ایک مضمون ہے۔ پھر آئیے ان نکات کا بھی خلاصہ تیار کرلیا جائے جو ڈاکٹر عصمت جاوید نے فاروقی کے خیالات کی تردید میں پیش کیے ہیں۔ عصمت جاوید کے خیال میں،
(۱) ابہام عام طور پر عجز بیان کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے یا ذہن میں الجھے ہوئے خیالات کے باعث۔۔۔ علاوہ ازیں شاعری میں ہیئت کی تبدیلی بھی ابہام کو جنم دیتی ہے۔ میراجی، راشد اور اخترالایمان وغیرہ کی شاعری میں پایا جانے والا ابہام اسی تبدیلیٔ ہیئت کا نتیجہ ہے۔
(۲) ابہام اور اشکال کا تعلق متعلقہ زبان کی لسانی حدود سے بھی ہوتا ہے۔ اگر آپ ان حدود کو توڑیں گے بات یقیناً مبہم ہوجائے گی۔
(۳) ابہام روایتی سانچے میں غیرروایتی، اسلوب کے باعث بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ یگانہ اور فراق کی شاعری میں اس قسم کا ابہام پایا جاتا ہے۔
(۴) ابہام پسندی پر اگر مکمل قابو نہ ہو تو اہمال کے سرحدوں میں داخل ہوجاتی ہے۔ الیٹ کی نظم ’’ویسٹ لینڈ‘‘ مبہم ہے لیکن مہمل نہیں۔ اسی طرح راشد، میراجی اور اسی قبیل کے دوسرے شاعروں کی نظمیں بار بار پڑھنے پر سمجھ میں آجاتی ہیں جب کہ نئے شاعروں خصوصاً افتخار جالب، احمد ہمیش اور عادل منصوری کی نظمیں سمجھ میں نہیں آتیں۔
عصمت جاوید کے مضمون ’’لفظ و معنی کا رشتہ اور ابلاغ‘‘ کی سب سے بڑی اور بنیادی کمزوری وہی ہے جس کی طرف چامسکی کے حوالے سے اوپر اشارہ کرچکا ہوں۔ شعر کی ترسیل کے مسئلے سے بحث کرتے ہوئے انہوں نے ادبی تنقید پر کم اور لسانیات پر زیادہ تکیہ کیا ہے۔ پھر یہ کہ لسانیاتی علم کو تنقیدی علم اور خصوصاً جدید تنقیدی نظریات سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش بھی کی ہے لیکن یہ مباحث تجریدی لسانی فارمولوں کی حد سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ انہوں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ ان کے نزدیک اردو کا لسانی کردار آخر کیا ہے اور یہ کہ لسانی کردار جامد ہوتا ہے یا متحرک۔
جہاں فاوقی کے مضمون کے پس منظر میں ان کے نقطۂ نظر کا سوال ہے، میں اسے خود ان کے تنقیدی منصب کے منافی قرار دیتا ہوں۔ جب غالب کی شاعری کے مشکل اور مبہم ہونے کا سوال آتا ہے تو کسی بحث کے بغیر یہ فیصلہ صادر کردیتے ہیں کہ غالب تو دراصل ’’بیسویں صدی کا دانش وَر تھا‘‘ لیکن جب افتخار جالب، عادل منصوری اور احمد ہمیش کا ذکر آتا ہے تو یہ نہیں کہتے کہ یہ لوگ اکیسویں صدی کے شاعر ہیں۔ یا ممکنہ طور پر اکیسویں صدی میں ان لوگوں کی شاعری کی قدروقیمت بڑھ سکتی ہے۔ برخلاف اس کے ان بے چاروں پر ’’مہمل گو‘‘ اور ’’سرپھرے‘‘ ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے۔
اسی مسئلے سے بحث کرتے ہوئے ایک بار جگن ناتھ آزاد نے جل کر لکھا تھا کہ غالب، اور اقبال مشکل شاعر تھے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک وقت میں سیکڑوں غالب اور اقبال پیدا ہوجائیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بات تو کالو بھنگی تک جانتا ہے کہ ایک وقت میں سیکڑوں غالب اور اقبال کے پیدا ہونے کا سوال تو الگ رہا، سیکڑوں برس میں بھی ایک غالب یا ایک اقبال کا پیدا ہونا مشکل ہوتا ہے۔ ہماری گزارش تو صرف یہ ہے کہ آپ مختلف شاعروں کے لیے تنقید کے مختلف پیمانے نہ بنائیے۔ کیوں کہ یکساں اور معروضی تنقید اصول بجائے خود چھوٹے کو چھوٹا اور بڑے کو بڑا ثابت کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
آج عصمت جاوید یہ تسلیم کرتے ہیں کہ الیٹ کی نظم ’’دی ویسٹ لینڈ‘‘ مبہم ہے مہمل نہیں، لیکن ۱۹۲۲ء سے ۲۹۔ ۱۹۲۸ء تک سر جے سی اسکوائر اور بہت سے دوسرے انگریز دانشوروں اور ادیبوں نے اس نظم کو مہمل قرار دینے میں کسی قسم کے تکلف سے کام نہیں لیا۔ انہی شواہد کی بنا پر فاروقی یہ کہتے ہیں کہ بہت سے شاعر اپنے ہم عصروں کے لیے ناقابل فہم ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ اس پوری بحث میں عصمت جاوید نے ’’قاری‘‘ کو بالکل بَری الذمہ کردیا ہے یعنی انہوں نے یہ سوال ہی نہیں اٹھایا کہ کسی نظم کو مبہم یا مہمل کہنے سے پہلے قاری اپنی ذمے داری کو پورا کرتا ہے یا نہیں۔
اب جہاں تک اس مسئلے کا تعلق ہے کہ شاعری میں ابہام الجھے ہوئے خیالات کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے تو اس بات کا تعلق ’ارادے ‘ سے ہے۔ یعنی جب آپ یہ کہتے ہیں کہ شاعر اپنے خیالات کو مناسب پیرایۂ اظہار نہیں دے سکا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو یعنی ناقد کو یہ معلوم ہے کہ شاعر کے الجھے ہوئے خیالات کیا تھے۔ یہیں سے ’ارادے ‘ کی وہ لمبی چوڑی بحث شروع ہوجاتی ہے۔ جس کی بنیاد پر جدید نقادوں نے Intentional Fallacy اور Affective Fallacy کی دومنزلہ عمارت کھڑی کر رکھی ہے۔ اب یہ تو شمس الرحمٰن ہی بتائیں گے کہ اسے جدید نقادوں کا کارنامہ سمجھا جائے یا پھر اسے بھی کولرج کے مکان سے مستعار اینٹیں کہا جائے!
فاروقی کی تنقید نگاری کے بارے میں وارث علوی کے مفصل اور عمدہ مضمون کا ذکر اوپر کئی بار آچکا ہے۔ اس مضمون میں دوایک مقامات پر وارث نے خاصے درد بھرے لہجے میں شکایت کی ہے کہ نہ صرف مختصر افسانہ بلکہ فراق اور منٹو کے بارے میں بھی انہیں فاروقی کے سخت بیانات سے بڑی تکلیف پہنچی ہے۔ اور یہ کہ فاروقی نے فراق اور منٹو وغیرہ کے تعلق سے رواداری سے کام نہیں لیا۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ ہم کسی نقاد سے یہ مطالبہ نہیں کرسکتے کہ وہ تنقیدی تجزیوں اور تبصروں کی صحت اور منطق کو اخلاقی یا رواداری پر قربان کردے۔ ویسے فاروقی نے فراق کے بارے میں یا پھر یگانہ کے بارے میں یہ جو کچھ لکھا ہے وہ میرے لیے بھی اتنا ہی تکلیف دہ ہے جتنا وارث علوی کے لیے۔ وجہ البتہ مختلف ہے۔
وارث علوی کو یہ غم ہے کہ ان کے محبوب فن کاروں کے ساتھ رواداری نہیں برتی گئی۔ مجھے کوئی غم ہے تو یہ کہ میرا محبوب نقاد جس نے بڑی محنت اور لگن سے تنقید کو خاصی حدتک سائنسی اور معروضی وقار بخشنے میں کامیابی حاصل کی تھی آخرکار خود کو اپنے تنقیدی اعتبار (Critical Credibility) پر جذباتی انتہا پسندی کی کلہاڑی چلانے سے نہیں روک سکا۔ لفظ و معنی میں شامل مضمون ’’ہندوستان میں نئی غزل‘‘ میں فراق کو غیرمعمولی حیثیت اور اہمیت تفویض کی گئی تھی۔ اس مضمون میں فاروقی نے صرف یہی نہیں لکھا تھاکہ اسلوب کے لحاظ سے سودا سے قربت کے باوجود انہوں نے،
’’اپنی شاعری کا ایک بڑا حصہ اپنے مزاج کے خلاف معنی آفرینی اور پیکر تراشی کی نذر کیا اور اس طرح یگانہ اور شاد کے منفی اثر کے بالمقابل ایک مثبت اثر پیدا کیا، اسے ان کے شاعرانہ ذہن کا سب سے بڑا کارنامہ کہنا چاہیے۔ فراق کا ذہن یگانہ اور شاد کے ذہن سے کہیں زیادہ وسیع، ہمہ گیر اور تکنیکی صلاحیت بھی ان دونوں سے بڑھ کر ہے (غیر موزونیت کے اعتراضوں کے باوجود)‘‘ (۱)
(۱) قوسین خود فاروقی کے ہیں۔ (ف۔ ج)
بلکہ اسی سلسلے میں یہ بھی لکھا تھا کہ،
’’ان کی حیثیت اردو شاعری میں وہی ہے جو انگریزی میں ٹینی سن کی تھی۔ بہ قول ایلیٹ ٹینی سن سے زیادہ آہنگ کا حساس شاعر انگریزی میں ملٹن کے علاوہ کوئی نہ ہوا۔۔۔‘‘
فاروقی نے اس مضمون میں فراق کی شاعری پر جی بھر کے تعریفوں کے ڈونگرے ہی نہیں برسائے بلکہ بین السطور میں خاصے واضح طور پر بہتر شاعر قرار دیا تھا لیکن دھیرے دھیرے نامعلوم وجوہات کی بناپر (جو میرے نزدیک ادبی وجوہات ہی ہوسکتی ہیں) فراق سے ان کی مغائرت بڑھتی گئی۔ فراق جو ان کے نزدیک ’’بنیادی طور پر عشقیہ شاعر تھے‘‘ اب بظاہر عشقیہ لیکن بہ باطن شاعر‘‘ نظر آنے لگے۔ ناصر کاظمی کی شاعری پر لکھتے ہوئے انہوں نے اعلان کیا کہ،
’’فراق کے یہاں نہ میر کی سیاسی بصیرت (Wisdom) ہے، نہ وسعتِ نگاہ، نہ سیرت، نہ تجربے کی رنگارنگی۔ اور وہ مرکزی علامت سازی تو فراق کی دسترس سے کوسوں دور ہے جو میر کا حقیقی طرۂ امتیاز ہے۔ فراق کو زبان پر اتنا بھی اختیار نہیں جتنا ناصر کاظمی کو تھا، میر کی سی حاکمانہ شان کا تو ذکر ہی کیا۔۔۔‘‘
اب آگے بڑھنے سے پہلے یہ بھی بتادوں کہ اگرچہ شمس الرحمٰن فاروقی عمومی تنقیدی بیانات کے سخت خلاف ہیں، لیکن نہ صرف ان کی تحریروں سے مندرجہ بالا اقتباس بلکہ فراق کے تعلق سے ان کی کئی اور حالیہ تحریریں عمومی بیانات سے بھری پڑی ہیں۔
میں سردست فراق کا میر سے یا کسی اور شاعر سے مقابلہ کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتا، جہاں تک میر کا سوال ہے انہیں وہ سارے Privileges حاصل ہیں جو کسی زبان کے پہلے بڑے شاعر کو حاصل ہوتے ہیں۔ بصیرت، سیرت، تجربے کی رنگارنگی تو ایسی اصطلاحیں ہیں، جنہیں تھوڑی بہت ردوبدل کے ساتھ اردو کے بہت سے شاعروں پر چپکایا جاتا رہا ہے، اور فاروقی اس حقیقت سے بہ خوبی آگاہ ہیں۔ بصیرت (Wisdom) کا مطلب اگر عاشقانہ پینترے بازی نہ ہوکر حیات و کائنات کے مسائل سے الجھنا ہے تو فراق کے یہاں یہ خصوصیت دوسرے شاعروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ملتی ہے۔ فراق کا نجی اسلو ب کیا ہے، اور اس کے خواص کیا ہیں، اس کے لیے فراق کی لفظیات کے علاوہ ان کی شاعری میں موجود استعاروں، تشبیہوں، پیکروں اور علامتوں کا بغور مطالعہ کرنا ہوگا۔ نہ کہ بحور اور زمینوں کا۔ مرزا غالب کے بعد فراق اردو کے تنہا شاعر ہیں، جنہوں نے بہ کثرت نئی تراکیب، نئے الفاظ، اور نئے موضوعات کو برتا ہے۔
آج سے برسوں پہلے حسن عسکری یہ لکھ چکے ہیں کہ فراق کی شاعری کے بہت سے مطالبات تو ایسے ہیں جنہیں میر بھی پورا نہیں کرپاتے۔ فاروقی فراق کو ’’بظاہر عشقیہ شاعر‘‘ کہتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ جس طرح فراق نے عشق کے تصور کو ہجر و وصال نیز ذاتی غم و اندوہ کے چکر سے نکال کر، زندگی کی ایک بے حد اہم اور رواں دواں قوت کے طور پر پیش کیا ہے وہ آپ اپنی مثال ہے۔ فراق کی شاعری میں عشق، چنگیز خاں کی طرح شاعر کے سرپر تلوار لیے نہیں کھڑا رہتا بلکہ وہ روز مرہ زندگی میں انسان کا رفیق و غمگسار بن جاتا ہے۔ جہاں تک زبان و بیان پر ’’روایتی قابو‘‘ کا سوال ہے یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کم تر درجے کے شاعر ہمیشہ ماہرین عروض کی انگلی پکڑ کر چلتے ہیں۔ زبان کی عروض کو بنانے بگاڑنے کا عمل جراحی بڑے شاعروں کے حصے میں آتا ہے۔ مرزا غالب اگر ماہرین عروض کی فریاد کو خاطر میں لاتے تو انہیں نہ جانے اپنے کتنے ہی اچھے شعروں کو جمنا بُرد کردینا پڑتا۔ فاروقی نے فراق کی شاعری میں زبان و بیان کی غلطیاں نکالنے کا کام حس طرح اپنے مضمون ’’غلطی عیب نہیں‘‘ میں کیا ہے وہ نہ صرف ناقص بلکہ ناقابل یقین بھی ہے۔ معمولی پڑھا لکھا قاری بھی ان کے استدلال کو رد کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مثال کے طور پر فراق کے مشہور شعر،
اس دور میں زندگی بشر کی
بیمار کی رات ہوگئی ہے
کے بارے میں فاروقی کا خیال ہے کہ،
’’زندگی بیمار کی رات ہوگئی ہے سے پوری بات ہوجاتی ہے۔ ’’اس دور میں‘‘ برائے بیت، اور ’’بشر کی‘‘ قطعاً حشو ہے، بلکہ ’’بشر کی‘‘ کے بجائے ’’ہماری‘‘ ہوتا تو کمزور سہی لیکن ایک بات بنتی۔‘‘
میرا خیال ہے کہ اس جامع اور مکمل ترین شعر میں ایک لفظ بھی ایسا نہیں ہے جو حشو کی ذیل میں آئے۔ اس دور کی تخصیص اس لیے ضروری ہے کہ فراق ہمارے آپ کے زمانے یعنی بیسویں صدی کی بات کر رہے ہیں۔ اقدار کی شکست و ر یخت وغیرہ وغیرہ باتیں جو ہم دوہراتے رہتے ہیں ان کا تعلق اس دور سے ہے نہ کہ ہر دور سے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ان دو مصرعوں میں فراق نے الیٹ کی پوری نظم ’’دی ویسٹ لینڈ‘‘ کو سمودیا ہے (ٹیکنک سے قطع نظر) تو مبالغہ نہ ہوگا۔ اسی طرح اگر ’’بشر کی‘‘ کے بجائے فراق لفظ ’’ہماری‘‘ استعمال کرتے تو شعر بہت سمٹ جاتا۔ ’’بشر کی‘‘ کے سبب شعر میں عمومیت اور ہمہ گیری پیدا ہوگئی ہے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ فراق جمادات و نباتات کی یا کسی ایک فرد کی نہیں بلکہ عام انسانی زندگی کی بات کر رہے ہیں۔
فراق کی مشہور رباعی،
ہر جلوے سے اک درسِ نمو لیتا ہوں
لب ریز کئی جام وسبو لیتا ہوں
پڑتی ہے جب آنکھ تجھ پہ اے جانِ بہار
سنگیت کی سرحدوں کو چھولیتا ہوں
پر بھی فاروقی نے عروض کی روشنی میں سخت اعتراضات کیے ہیں۔ ان کے نزدیک،
’’مصرعۂ اولی میں ’اک‘ بالکل حشو ہے، دوسرے مصرعے میں ’جام و سبو‘ میں سے ایک حشو ہے اور ’کئی‘ کا لفظ متعدد کے مفہوم کو پوری طرح ادا نہیں کر رہا ہے۔ تیسرے مصرعے میں ’اے جانِ بہار‘ پورے کا پورا حشو ہے، کیوں کہ اس سے محبوب کی شخصیت یا صورت کی تعبیر میں کوئی مدد نہیں ملتی۔ آخری مصرعے میں ’سرحدوں کو‘ عجز بیان ہے۔ موجودہ صورت میں گمان ہوتا ہے کہ سنگیت ایک سے زیادہ سرحدیں رکھتا ہے۔۔۔‘‘
میں فراق کی اس رباعی پر فاروقی کے پورے تبصرے کو تنقید برائے عیب جوئی کا عمل سمجھتا ہوں۔ رفعِ حجّت کے طور پر یہ لکھ دوں کہ چوں کہ پہلے مصرعے کے پہلے ٹکڑے میں ’ہر‘ کا استعمال ہوا ہے اس لیے دوسرے ٹکڑے میں صیغۂ واحد کا استعمال ضروری ہوجاتا ہے، اس لیے ’اک‘ کے حشو ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دوسرے مصرعے میں ’کئی‘ کا مطلب متعدد کے سوا کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔ اگر کھینچ تان کر بھی واقعی اور مطلب نکل سکتا تو فاروقی اس کے بیان میں تکلف سے کام نہ لیتے۔ ’اک‘ کے بعد کئی طرح کا استعمال شعر کے آہنگ کو بھی زیادہ دلکش بناتا ہے۔ اس سے قطعِ نظر ’’جام وسبو‘‘ کا استعمال اس لیے صحیح ہے کہ دونوں، دو الگ الگ شکلوں کے نام ہیں، اگر دونوں الفاظ ہم معنی ہوتے تو (اگرچہ کہ شاعری میں یہ بھی بہت ہی عام اور جائز ہے) تو ان میں سے ایک کا استعمال حشو ہوسکتا تھا۔ نوح ناروی جو اثر لکھنوی اور فاروقی کے مقابلے میں زیادہ معتبر ماہر عروض اور زبان داں تھے، کہتے ہیں،
خُم، سبو، ساغر، صراحی، جام، پیمانہ رہے
بس انہی چھوٹوں بڑوں کے دم سے میخانہ رہے
تیسرے مصرعے میں ’اے جانِ بہار‘ کے متعلق فاروقی کا یہ خیال بالکل غلط ہے کہ یہ پورے کا پورا ٹکڑا حشو ہے۔ اردو شاعری میں محبوب کے لیے شوخ، پیارے، یار، دوست، جانِ وفا، جانِ حیا، ستم گر، قاتل، کافر، فتنہ، جان آرزو جیسے الفاظ ہمیشہ ہی استعمال ہوتے رہے ہیں ’’جان بہار‘‘ محبوب کی طرف اشارہ تو کرتا ہی ہے، ساتھ ہی ساتھ محبوب کی شخصیت کی تازگی اور شگفتگی بھی ’’بہار‘‘ کے استعارے کے توسط سے واضح ہوجاتی ہے۔ چوں کہ متذکرہ مصرعے میں محبوب کے تعلق سے تخصیص تخاطب مقصود ہے، اس لیے ’’جان بہار‘‘ کے ساتھ لفظ ’’اے‘‘ کا استعمال ہوا ہے۔ میرتقی میر کے یہاں ایسی ایک دو نہیں بلکہ سیکڑوں مثالیں مل جاتی ہیں، مثلاً یہ شعر،
جو ہے سو بے خود رفتار ہے تیرا اے شوخ
اس روش سے نہ قدم تو نے اٹھایا ہوتا
ان باتوں سے قطع نظر ’اے جان بہار‘ کا ٹکڑا اس لیے بھی اہم ہے کہ چوتھے مصرعے کی معنویت کو وسیع تر کردیتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ محبوب کے جسم اور اعضائے جسم کی مختلف کیفیات کو فراق صاحب نے موسیقی کے ذریعے اخذ کیے گئے استعاروں کی مدد سے نہایت ہی فنکارانہ انداز میں اجاگر کیا ہے۔ رباعی کے تیسرے مصرعے میں محبوب کے لیے جان بہار کی اصطلاح دراصل چوتھے میں سنگیت کی سرحدوں کو چھولینے کی فضا تخلیق کرتی ہے لیکن فاروقی کی نگاہ ان چیزوں تک نہیں پہنچ پاتی۔
فراق کے متعلق فاروقی کے ارشادات پر مزید تبصرہ کرنے کی خاصی گنجائش ہے، لیکن چوں کہ یہ موضوع ایک علاحدہ مضمون کا متقاضی ہے اس لیے فی الحال صرف اتنا کہہ دوں کہ اس قسم کے مضامین سے فاروقی کی تنقیدی ساکھ کو خاصا دھکا پہنچا ہے، لوگ اب ان کی ایسی تحریروں کو پڑھ کر ہنستے نہیں تو مسکرانے لگے ہیں۔ میرے نزدیک شمس الرحمٰن فاروقی کی تنقید ہر اس جگہ کامیاب اور قابل یقین ہے جہاں انہوں نے منطق اور استدلال کو حقیقی معنی میں تنقید کے بنیادی خواص کے طور پر برتا ہے اور اپنے فنی نظریات سے وفادار رہے ہیں لیکن جہاں کہیں بھی انہوں نے کسی مفروضے کے ذریعہ اپنی ذاتی پسند یا ناپسند کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور تنقیدی اصولوں پر ذہنی تعصبات کو ترجیح دی ہے وہ ناکام رہے ہیں مختصر افسانے کا مضمون ’’افسانے کی حمایت میں‘‘ اور اس سلسلے کے بعض اور مضامین بھی اسی تعصباتی المیے کا شکار ہوگئے ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.